واضح رہے کہ عام طور سے مفسرین نے اس آیت میں اِنّٰہٗ رَبّی ’’وہ میرا رب ہے ‘‘ کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہیہ ات یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کے بارے میں کہی تھی لیکن زجاج(ماہر لغت ) کہتے ہیں کہ اس میں ’’ ہٗ ‘‘ (وہ) کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے (فتح القدیر ج 3 ص 17 ) یعنی یہ بات یوسف علیہ السلام نے اللہ کے بارے میں فرمائی تھی کہ وہ میرا رب ہے ، اس نے مجھے اچھا مقام عطا کیا ہے ہمیں زجاج کی راۓ سے اتفاق ہے کیونکہ اولاً اِنّٰہٗ میں ’’ ہٗ‘‘ (وہ) کی ضمیر کو اپنے قریبی لفظ اللہ کی طرف لوٹا نے کے بجاۓ عزیز مصر کی طرف لوٹا نے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ عزیز مصر کا کوئی ذکر آیت میں موجودنہیں ہے ۔ ثانیاً آگے آیت ۔ 25 میں عزیز مصر کے لیے اس کی بیوی کے تعلق سے سَیّد ھَا (اس کا آقا بمعنی شوہر ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ وہاں بھی قرآن نے عزیز مصر کے لیے رب کا لفظ استعمال نہیں کیا حالانکہ لغوی معنی کے لحاظ سے رَبھا (اس کا مالک) کہا ہو ۔ رابعاً اس فقرے کے تین اجزاء ہیں اور تینوں باہم مربوط ہیں ۔ پہلاجز معاذ اللہ(پناہ نہ خدا) ہے جسمیں خدا خوفی کا اظہار ہے ۔ دوسرا جزء ’’ وہ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھی قدر و منزلت بخشی ہے میں اللہ کے شکر کا اظہار ہے اور ’’ غلط کار لوگ ہر گز فلاح نہیں پائیں گے ‘‘ میں آخرت کی جزا و سزا پر یقین کا اظہار ہے ۔ لیکن رب سے عزیز مصر مراد لینے کی صورت میں اس فقرہ کے اجزا غیر مربوط ہو جاتے ہیں ۔ خامساً موقع خدا کے احسانات کے ذکر کا تھا نہ کہ عزیز مصر کے احسانات کے ذکر کا ۔