Dawat-ul-Quran - Surah Yusuf

  • Work-from-home

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


واضح رہے کہ عام طور سے مفسرین نے اس آیت میں اِنّٰہٗ رَبّی ’’وہ میرا رب ہے ‘‘ کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہیہ ات یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کے بارے میں کہی تھی لیکن زجاج(ماہر لغت ) کہتے ہیں کہ اس میں ’’ ہٗ ‘‘ (وہ) کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے (فتح القدیر ج 3 ص 17 ) یعنی یہ بات یوسف علیہ السلام نے اللہ کے بارے میں فرمائی تھی کہ وہ میرا رب ہے ، اس نے مجھے اچھا مقام عطا کیا ہے ہمیں زجاج کی راۓ سے اتفاق ہے کیونکہ اولاً اِنّٰہٗ میں ’’ ہٗ‘‘ (وہ) کی ضمیر کو اپنے قریبی لفظ اللہ کی طرف لوٹا نے کے بجاۓ عزیز مصر کی طرف لوٹا نے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ عزیز مصر کا کوئی ذکر آیت میں موجودنہیں ہے ۔ ثانیاً آگے آیت ۔ 25 میں عزیز مصر کے لیے اس کی بیوی کے تعلق سے سَیّد ھَا (اس کا آقا بمعنی شوہر ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ وہاں بھی قرآن نے عزیز مصر کے لیے رب کا لفظ استعمال نہیں کیا حالانکہ لغوی معنی کے لحاظ سے رَبھا (اس کا مالک) کہا ہو ۔ رابعاً اس فقرے کے تین اجزاء ہیں اور تینوں باہم مربوط ہیں ۔ پہلاجز معاذ اللہ(پناہ نہ خدا) ہے جسمیں خدا خوفی کا اظہار ہے ۔ دوسرا جزء ’’ وہ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھی قدر و منزلت بخشی ہے میں اللہ کے شکر کا اظہار ہے اور ’’ غلط کار لوگ ہر گز فلاح نہیں پائیں گے ‘‘ میں آخرت کی جزا و سزا پر یقین کا اظہار ہے ۔ لیکن رب سے عزیز مصر مراد لینے کی صورت میں اس فقرہ کے اجزا غیر مربوط ہو جاتے ہیں ۔ خامساً موقع خدا کے احسانات کے ذکر کا تھا نہ کہ عزیز مصر کے احسانات کے ذکر کا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


ان وجوہ سے جمہور مفسرین کی راۓ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔


41 ۔ یعنی عورت تو اقدام کر بیٹھی اور یوسف بھی اقدام کرتا اگر اس نے اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لی ہوتی ۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کی طرف سے پہل ہونے کے باوجود یوسف کو برائی کے ارادہ سے باز رکھنے والی چیز اللہ کی برہان تھی ۔ برہان سے مراد اللہ کی وہ حجت ہے جو یوسف علیہ السلام کے اس بیان میں جس کا ذکر اوپر ہوا مضمر ہے یعنی یہ بات کہ انسان گناہ کر کے اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا ۔ برہان کو دیکھ لینے کا مطلب اس کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لینا اور اس پر یقین کر لینا ہے ۔ یوسف کو یہ بصیرت حاصل ہوئی تھی اس لیے وہ اس نازک موقع پر بھی اپنے دامن کو آلودہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہو گئی۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


آیت کے اس سیدھے سادھے مفہوم کو چھوڑ کر مفسرین کے ایک گروہ نے بے سر پا روایتوں پر اعتماد کرکے عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں مثلاً یہ کہ یوسف نے یعقوب کی یا فرشتہ کی صورت دیکھی تھی جو سرسر تکلف ہے اور قرآن کی ساف بات کو مبہم بنا کر اس میں نکتے پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ایسی روایتوں نے قرآن کے اصل مفہوم اور مدعا پر پردے ڈال دیے ہیں اس لیے سختیکے ساتھ ان کی تردید ضروری ہے ۔ اسی طرح وَھَمَّ بِہٖ لَو لَا اَنْ رَّ اَی بُرْ ھَانَ رَبِّہٖ (وہ بھی قصد کر لیتا اگر اپنے رب کی برہان اس نے دیکھ نہ لی ہوتی ) کوبعض مفسرین نے ایسی روایتوں کے سہارے جو دریا برد کرنے کے لائق ہیں یوسف کی طرف غلط ارادہ اور بعض ایسی باتوں کو منسوب کیا ہے جن کا ذکر بھی مناسب نہیں ہے مگر امام رازی نے پر زور انداز میں اس کی تردید کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ یوسف علیہ السلام نے عورت کا قصد کیا تھا اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے وَ ھَمَّ بَھَا لَو لَااَ جْ رَأیَ بُرْھَا نَ رَبِّہٖ ( وہ اس کا قصد کر لیتا اگر اس نے اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لی ہوتی) یہاں لَو لَا (اگر نہ ) کا جواب مقدم ہے یعنی پہلے ہی بیان ہوا ہے ۔اس پر زجاج کا یہ اعتراض کہ لَو لَا کا جواب عربی نحو کی رو سے مقدم نہیں ہو سکتا صحیح نہیں ہے کیونکہ بعض مواقع پر کسی بات کی اہمیت کے پیش نظر لَو لَا کے جواب کو مقدم رکھتے ہیں ۔ قرآن میں اس کی مثال موجود ہے :
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اِنْ کَا دَ تْ لَتُبْدِیْ بہٖ لَو لَا اَنْ رَبَطْا علی قَلبیھا (القصص 10) ’’ قریب تھا کہ وہ (موسیٰ کی ماں ) اس بات کو ظاہر کر دیتی اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کر دیتے ۔‘‘ اس آیت میں بھی لَو لَا کا جواب مقدم ہے یعنی پہلے ہی بیان ہوا ہے ۔ رہ گئیں روایتیں تو اس کی کیا ضمانت کہ جن لوگوں نے ان مفسرین (یعنی صحابہ اور تابعین ) سے یہتفسیر نقل کی ہے وہ سچے تھے ۔؟


یوسف کا دامن عمل باطل سے پاکہے اور وہ ’’ حرام قصد‘‘ سے بالکل بری ہیں ۔ محقق مفسرین اور متکلمین کا یہی قول ہے اور ہم بھییہی کہتے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو التفسیر الکبیر ،ج 18 ص 115تا130) حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے اس نازک موقع کا ذکر جس طریقہ سے کیا ہے اس میں یوسف کی کسی ادنیٰ لغزش کی طرف بھی اشارہ نہیں ہے ۔ اگر ان سے ایسی کوئی بات سرزد ہوئی ہوتی تو ان کی توبہ کا بھی ذکر ہوا ہوتا لیکن جب ایسی کوئی بات قرآن میں بیان نہیں ہوئی تو آپ سے آپ ان تفسیری اقوال کی تردید ہوناتی ہے جو قرآن کے بیان سے مطابقتنہیں رکھتے ۔ یوسف نے تو اپنی پاکیزگیکی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کا ذکر حدیث نبوی میں اس طرح ہوا ہے : ’’ سات اشخاص ہیں جن پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا سایہ عاطفت فرما ۓ گا ۔ ان میں ایک شخص وہ لوگا جس کو کسی جاہ و جمال والی عورت نے برائی کی دعوت دی مگر اس نے جواب دیا میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘‘ (بخاری کتاب الاذان )
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
43 ۔ یعنی وہ ہمارے مقبول بندوں میں سے تھا ۔


44 ۔ یوسف دروازے کی طرف اس لیے دوڑے کہ ان کو دروازہ کھولنے نہ دے اور برائی کے لیے مجبور کرے چنانچہ اس نے یوسف کا پیرہن پیچھے سے اس زور سے گھسیٹا کہ پھٹ گیا ۔ مگر یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے ۔اتفاق کی بات یہ کہ اس وقت عزیز دروازہ کے پاس ہی موجود تھا ۔ اس کو دیکھ کر بیوی سٹ پٹائی اور اپنی غلط کاری پر پردہ ڈالنے کے لیے جھٹ یوسف کے سر الزام دھرا ۔


45 ۔ یوسف نے نہایت شریفانہ انداز سے مختصر جواب دیا جو ان کی بے گناہی کو ظاہر کرنے کے یے کافی تھا اور یہ مثال تھی اس بات کی کہ ؏
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


پاک دامانی حریف چاک دامانی نہیں


46 ۔ دونوں کے بیانا ت مختلف تھے اور واقعہ کا کوئی گواہ نہ تھا اس لیے عورت کے رشتہ داروں میں ایک شخص نے جو معاملہ فہم تھا قرینہ کی گواہی(Circumstantial evidence ) پیش کی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اقدام یوسف کی طرف سے ہوا تھا اور عورت اپنے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ عورت یوسف کے پیچھے پڑی تھی اور جب وہ اپنا دامن بچانے کے لیے بھاگنے لگا تو عورت نے پیچھے سے اس کا کرتا گھسیٹ لیا ۔ اس بات کو جو قرینہ اور علامت کی بنیاد پر کہی گئی تھی قرآن نے گواہی (شہادت) سے تعبیر کیا جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ قضیوں کے معاملہ میں حالات کی گواہی یعنی قرائن اور علامتوں سے ظاہر ہونے والی باتوں کا بھی ایک مقام ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


47۔ کرتے کا پیچھے سے پھٹا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ اقدام یوسف کی طرف سے نہیں ہوا تھا اس لیے عزیز مصر نے اپنی بیوی ہیکو قصور وار ٹھہرایا اور اس نے یوسف کے سرجو الزام تھوپ دیا تھا اس کو ایک نسوانی چال اور فریب قرار دیا ۔ اس موقع پر عزیز نے عمومیت کے ساتھ یہبات جو فرمائی کہ تم عورتوں کی چالیں بڑی خطرناک ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب کسی مرد کو اپنے دام محبت میں گرفتار کرنا چاہتی ہیں تو بڑے خطرناک کھیل کھیلتی ہیں ۔ وہ ایک غلط کام کرکے الزام دوسرے کے سر تھوپ دیتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے دامن کے داغ دکھائی نہیں دیتے اور نہ ان میں اتنی جرأت ہوتی ہے کہ اپنے قصور کا اعتراف کریں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہہر عورت ایسی ہی ہوتی ہے بلکہ مراد صرف وہ عورتیں ہین جن کی ذہنیت غلط ہوتی ہے کیوں کہ ایسی حرکتیں ان ہی سے صادر ہوتی ہیں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


48 ۔ عزیز نے اپنی بیوی کو قصور وار تو ٹھہرایا لیکن اس میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی کرتا ۔ پھر اسے اپنی بیوی کی بدنامی کا بھی اندیشہ تھا اس لیے اس نے یوسف سے کہا کہ وہ درگذر سے کام لے ۔


49 ۔ جب شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا تو بعض عورتوں نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ کہاں یہ خاتون مصر جو ایک اعلیٰ منصب رکھنے والے کی بیوی ہے اور کہاں ایک کنعانی غلام جس پر وہ فریفتہ ہو گئی ہے ۔ ان کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ اس غلامکو آخر کیا چار چاند لگے ہیں جو اسے اپنی ہوس کا نشانہ بننے کے لیے مجبور کر رہی ہے کیا وہ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی جب کہ وہ جاہ و مال سب کچھ رکھتی ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
50 ۔ یعنی عزیز کی بیوی نے جب یہ سنا کہ عورتیں اس کے خلاف باتیں بنارہی ہیں تو اس نے اس کے جواب میں یہ چال چلیکہ ان کو اپنے گھر مدعو کیا ۔


51 ۔ یہ دعوت پُر تکلف تھی اور بڑے اہتمام سے کی گئی تھی ۔اس وقت مصر ایک متمدن ملک تھا اس لیے رواج کے مطابق تکیہ دار مجلس آراستہ کی گئی اور ضیافت کے لیے جو چیزیں پیش کی گئیں ان کے ساتھ چھریاں بھی رکھ دی گئیں تاکہ وہ پھل اپنے ہاتھ سے کاٹ کر کھائیں ۔ (عربوں میں آج بھی یہ رواج ہے کہ وہ مہمانوں کے سامنے پورے پورے پھل رکھ دیتے ہیں اور ساتھ میں چھری بھی تاکہ مہمان حسب منشاء اپنے ہاتھ سے پھل کاٹ کر کھائیں ) ۔


52 ۔ یوسف غلام کی حیثیت میں تھے اس لیے خواتین کی اس مجلس میں انہیں نکل آنے کا جو حکم دیا گیا اس کی
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


52 ۔ یوسف غلام کی حیثیت میں تھے اس لیے خواتین کی اس مجلس میں انہیں نکل آنے کا جو حکم دیا گیا اس کی تعمیل کے بغیر تو چارہ کار نہیں تھا مگر اس موقع پر بھی انہوں نے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ اس مجلس میں شریک ہونے والی خواتین ظاہر ہے امیروں اور رئیسوں کے گھر کی خواتین رہی ہوں گی اور اس پُر تکلف مجلس کے لیے خوب سج دھج کر آئی ہوں گی مگر یوسف ان کے سامنے اس شریفانہ انداز سے آۓ کہ ان کی طرف نگاہ غلط اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ پھر ان کا حسن ظاہر ان کے حسن باطن کا اور ان کا خوبصورت چہرہ ان کے خوبصورت کردار کا آئینہ دار تھا گویا جمال یوسفی نے جلال یوسفی کا رنگ اختیار کر لیا تھا ۔ اس لیے جب ان خواتین نے انہیں دیکھا تو ایک عظیم شخصیت کی جھلگ ان کے چہر پر دکھائی دی اور وہ ایسی متاثر ہوئیں کہ پکار اٹھیں یہ آدمی نہیں بلکہ بزرگ صفت فرشتہ ے ۔ یہ بات ان کے ضمیر کی آواز تھی اس لیے بے ساختہ ان کی زبان سے نکل گئی اور وہ یوسف کا پُر جمال اور پر وقار چہرہ د یکھ کر ایسی دنگ رہ گئیں کہ بجاۓ پھل کاٹنے کے اپنے ہاتھ زخمی کر بیٹھیں ۔ یہ در اصل ان کی بری اغراض کی قدرتی سزا تھی جو ان کو فوراً مل گئی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


یہ مجلس کسی اچھے ارادہ سے منعقد نہیں کی گئی بلکہ اس کے پیچھے ایک سازش تھی جو یوسف کے خلاف کی گئی تھی ۔ یہ ات آئیتوں کے بین السطور سے بھی واضح ہے اور آگے جیسا کہ آیت 33 میں بیان ہوا ہے یوسف نے واضح طور سے اس واقعہ کو کید (سازش) سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ سازش عزیز کی بیوی نے کی تھی اور اس میں یہ خواتین بھی شریک تھیں ۔ عزیز کی بیوی کا مقصد اس مجلس کو آراست کرنے سے یہ تھا کہ ان خواتین کو جو مجھ ملامتکر رہی ہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جاۓ کہ میں کسی ایسے ویسے غلام پر فریفتہ نہیں ہوئی ہوں بلکہ ایک ایسے نوجوان سے محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہوں جو یکتاۓ زمانہ ہے اس لیے میں نے کوئی حماقت نہیں کی ۔ ساتھ ہی وہ چاہتی تھی کہ جو گناہ وہ کرنا چاہتی ہے اس میں ان خواتین کو بھی شریک کر لے تا کہ پھر وہ اسے ملامت نہ کر سکیں نیز سب خواتین ملکر یوسف کو اپنی رعنائیوں سے ایسا لبھانے کی کوشش کریں کہ وہ دل ہار جاۓ ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت مصر کا ماحول کیا تھا ۔ محلوں میں رہنے والی بیگمات اپنی ہوس کو بجھانے کے لیے غلاموں کو استعمال کرتی تھیں کیوں کہ اس وقت گھر گھر غلام ہوا کرتے تھے اور عیاشی کا یہ نہایت آسان اور محفوظ ذریعہ تھا اس بنا پر عزیز کی بیوی کا اور خواتین مجلس کا یوسف کو رجھانے کی کوشش کرنا کوئی انوکھیبات نہیں تھی لیکن یوسف در حقیقت کسی انسان کے نہیں بلکہ خدا کے غلام تھے اس لیے انہوں نے ان سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔


53 ۔ یعنی اب تمہیں اندازہ ہوگیاکہ یہ اور غلاموں کی طرح غلام نہیں ہے بلکہ یہ جہاں آسمان حسن درخشندہ ستارہ ہے وہاں وہ ایک امتیازی شخصیت کابھی حامل ہے اس لیے میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرتے کی کوشش کر کے کوئی غلطی نہیں کی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


54۔ اس طرح عزیز کی بیوی نے خواتین کی بھری مجلس میں وہ بات اُگل دی جس کو وہ اب تک چھپاۓ ہوئی تھی ۔ یہ اپنے قصور کا اعتراف نہیں تھا بلکہ شہ زوری اور بے حیائی تھی اور جن خواتین کے سامنے اس کا اظہار کیا ان کے لچھن بھی ویسے ہی تھے ؏


این گناہیت کہ در شہر شما نیز کنند


55 ۔ جب وہ ان نازو ادا والی خواتین کے ذریعہ بھی یوسف کو رجھانے میں ناکام رہی تو طاقت کا دباؤ ڈالنا شروع کیا اور جیل بھیجنے کی دھمکی دی۔


56۔ یعنی قید کی تکلیف گوارا ہے مگر بے حیائی کا ارتکاب کرنا اور معصیت میں مبتلا ہونا مجھے گوارا نہیں ۔


57 ۔ عربی میں جاہل کا لفظ عاقل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے (لسان العرب، ج 12 ص 130) اور یہاں اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یعنی جو خواہشات اور جذبات سے مغلوب ہو جاۓ اور عقل سے کام نہ لے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


یوسف کو اپنی پاکیزگی کا غرہ نہیں تھا بلکہ ہو اس کو اللہ کا فضل سمجھتے تھے اس لیے اس نازک موقع پر اللہ سے مدد کے طالب ہوۓ ۔


58 ۔ چونکہ یہ دعا دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی اور پاکیزہ جذبات لیے ہوۓ تھی اس لیے بادلوں چیرتی ہوئی آسمان پر پہنچ گئی اور بارگاہ الہٰٓی میں قبولیت اختیار کر گئی ۔ چنانچہ ان خواتین نے یوسف کو بھانسنے کے لیے جو جال بچھایا تھا اس سے وہ محفوظ رہے ۔


59 ۔ یعنی یوسف کی بے گناہی کی ساری علامتیں دیکھ لینے کے باوجود ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ یوسف کو ایک مدت تک کے لیے جیل بھیج دیا جاۓ تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ جرم یوسف ہی سے سرزد ہوا تھا اور عزیز مصر کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس سے وہ بچ جاۓ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
60 ۔ بائبل کے بیان کے مطابق ایک شاہ مصر کا ساقی سردار تھا اور دوسرا نان بائی سردار اس ان دونوں کو شاہ مصر نے کسی جرم میں جیل بھیج دیا تھا ۔


61 ۔ دونوں نے اپنے خواب بیان کیے ۔ایک نے (جو ساقی تھا ) کہا میں نے اپنے کو شراب نچوڑتے ہوۓ دیکھا یعنی شراب کی غرض سے انگور کو نچوڑتے ہوۓ دیکھا ۔


62 ۔ دوسرا شخص جس نے یہ خواب دیکھا تھا نان بائیوں کا سردار تھا ۔(بائبل کی کتاب پیدائش باب 40 میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے مگر اس صحت کے ساتھ نہیں جس صحت کے ساتھ قرآن نے بیان کیا ہے ) ۔


63 ۔ ان کے اس بیان سے واضح ہوا کہ یوسف کا کردار جیل میں بھی بلند رہا اور وہ نیک شخص کی حیثیت سے وہاں مشہور ہوۓ ۔ بائبل میں ہے َ
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


’’ لیکن خداوند یوسف کے ساتھ تھا ۔ اس نے اس پر رحم کیا اور قید خانہ کے داروغہ کی نظر میں اسے مقبول بنایا ۔ اور قید خانہ کے داروغہ نے سب ایسیوں کو جو قید میں تھے یوسف کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اس کے حکم سے کرتے تھے اور قید خانہ کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا اس لیے کہ خداوندا اس کے ساتھ تھا اور جو کچھ وہ کرتا خداوند اس میں اقبال مندی بخشتا تھا ۔‘‘ (پیدائش 39:21تا23 ) ۔


خواب کی تعبیر بتانے کا اہل وہی شخص ہوسکتا ہے جو نیک ہو ۔ اس کا احساس ایک فطری بات ہے اس لیے خواب دیکھنے والوں نے تعبیر کے لیے یوسف کی طرف رجوع کیا۔


64 ۔ یوسف چونکہ اس موقع پر ان کے سامنے توحید کیدعوت پیش کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ان کے اطمینان کے لیے یہ بات کہی تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بات طویل ہوگی اور اس دوران اگر کھانے کا وقت ہو گیا تو انہیں اٹھ جانا پڑے گا اور ان کے اصل سوال کا جواب رہ جاۓ گا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


65 ۔ یعنی خواب کی تعبیر کا علم اللہ کا بخشا ہوا ہے ۔ یوسف نے اس کو اپنا کمال نہیں بتایا بلکہ اللہ کے فضل سے تعبیر کیا ۔


66 ۔ اشارہ ہے مصر کی حکمراں قوم کے مذہب کی طرف جو نہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتی تھی اور نہ آخرت کی جزا و سزا کی قائل تھی ۔ ان کا مذہب شرک اور دنیا پرستی کا مذہب تھا ۔


یوسف اگر چہ غلام کی حیثیت میں تھے اور مصر کا ماحول ان کے لیے بالکل نیا تھا مگر انہوں نے ماحول کا کوئی اثر قبول نہیں کیا بلکہ علی وجہ البصیرت اللہ کے سچے دین (اسلام ) پر قائم رہے ۔


67 ۔ یوسف کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جس دین کو میں نے اختیار کیا ہے وہ کوئی’’ قومی ورثہ ‘‘نہیں بلکہ انبیائی ورثہ ہے ۔ یہ ان تاریخ ساز بزرگوں کا دین ہے جو اپنی صداقت ، پاکیزگی اور تقسیٰ کے لیے مشہور ہوئیں ۔ ساتھ ہی یوسف نے اپنا تعارف بھی پیش کیا کہ وہ اسی سلسلۃُالذَّ ھَب (سونے کی زنجیر) کی کڑی ہیں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


68 ۔ یعنی ایہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ان انبیاء کے ذریعہ دین توحید کی طرف رہنمائی کی جو دین فطرت ہے اس کا یہ احسان نہ صرف خاندان نبوت پر ہے بلکہ تمام انسانوں پر ہے کیوں کہ یہ شخص بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے روشنی کا مینار تھیں ۔


69 ۔ شکر کا مفہوم یہاں بالکل واضح ہے یعنی توحید اور انبیاء علیہم السلام کے دین کو اللہ کا فضل سمجھ کر قبول کرنا ۔


70 ۔ یعنی لوگوں نے اس کائنات کو مختلف خداؤں میں جو بانٹ رکھا ہے اور ہر وقت کے لیے ایک الگ خدا فرض کرکے ان کی پرستش کر رہے ہیں ۔ یہ صورت حال نہ صرف حقیقت کے واقعہ کے خلاف ہے بلکہ انسان کے لیے پریشان کن بھی کہ وہ کس کس خدا کا وفادار بن کر رہے اور کس کس کو خوش کرتا رہے ۔ برخلاف اس کے لیے اللہ کو واحد خدا ماننے کی صورت میں تمام ذہنی پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں اور قلب کو سکون نصیب ہوتا ہے کیونکہ ایک خدا کو مان لینا حقیقت واقعہ کو تسلیم کر لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا خدا جس کے سامنے کائنات کی ہر چیز بے بس ہے جو سب پر غالب ہ اور تنہا سب پر کنٹرول کر رہا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


متعدد خداؤں کو تسلیم کرنے کی صورت میں انسان کی وفاداریاں بٹ اتی ہیں جبکہ ایک خدا کا عقیدہ اس کی وفاداریوں کو اپنے خالق کے لیے مختص کر دیتا ہے ۔ ایک غلام بہت سے آقاؤں کی غلامی کو ہر گز پسند نہیں کرسکتا بلکہ ایک آقا کی غلامی ہی کو بہتر خیال کرتا ہے مگر اتنی معقول بات بھی مشرکوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ متعدد اور متفرق خداؤں کے قائل ہوجاتے ہیں اگر مصر میں چند ’’خداؤں ‘‘ کی پرستش ہوتی تھی تو بھارت میں ان گنت خدا بنالیے گئے ہیں بالفاظ دیگر بھارت کا مشرکانہ مذہب قدیم مصر کے مشرکانہ مذہب سے بہت آگے ہے !


71 ۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ 112 میں گزرچکی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


72 ۔ یعنی حکم خواہ تکو ینی (طبعی Physical ) ہو یا تشریعی (شرعی قانون Shari at Law ) نیز تمام معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔ جہاں تک طبعی دنیا کا تعلق ہے اس میں اللہ ہی کا حکم اور اسی کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں ۔ اس میں کسی کا بھی ذرہ برابر عمل دخل نہیں ہے ۔ رہا دین و شریعت کا معاملہ تو اس معاملہ میں بھی اللہ ہی کو حکم دینے ، قانون بنانے اور فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ وہی حقیقی معنیٰ میں شارع (Law giver) ہے اور اس بات کا مستحق ہ کہ اس کو زندگی کے جملہ معاملات میں حاکم تسلیم کر لیا جاۓ ۔ وَمَا ا خْتَلَفْتُمْ فِیْہٖ مِنْ شَیْ ءٍ فَحُکْمْہٗ اِلَی اللہ (جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے ۔ (سورہ شوریٰ 10 )


73 ۔ اللہ نے حکم دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور حکم دینے کا اختیار اسی کو ہے ۔۔۔۔۔ کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ مگر لوگ حکم دیتے ہیں ۔۔۔۔۔اور انہیں حکم دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ بتوں کو پوجو اور غیر اللہ کی عبادت کرو ۔ اللہ کا حکم سراسر حق ہے اور لوگوں کا حکم سراسر باطل ۔
 
Top