Dawat-ul-Quran - Surah Yusuf

  • Work-from-home

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریا ’’ اسباط ‘‘ سے استدلال تو ا س سے مراد یعقوب کی صلبی اولاد نہیں بلکہ ان کی نسل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ ’’ اسباط‘‘ کا لقب موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ نبوت کا سلسلہ چلا ورنہ ان سے پہلے سواۓ یوسف کے ان میں کسی نبی کا ذکر نہیں ملتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ سبحانہ نے برادران یوسف کے جن بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے اس قسم کے گناہ کا ذکر کسی بھی نبی کے تعلق سے نہیں کیا کہ وہ قبل نبوت اس کا مرتکب ہوا تھا ۔‘‘ (روح المعانی لل آلوسی ج 4 ص 184 )۔


9 ۔ یعنی منصب نبوت سے سرفراز کرے گا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


10 ۔ مرن میں ’’ تاویل الاحادیث ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جس کے معنی باتوں کی تہ میں جانے اور ان کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے ہیں ۔ مراد معاملہ فہمی، بصیرت اور صحیح نتائج اخذ کرنا ہے جس میں خواب کی تعبیر کا علم خصوصیت کے ساتھ شامل ہے ۔


11۔ مراد سیادت و قیادت کی نعمت اور دنیوی و اخروی سعاتیں ہیں ۔ آل یعقوب سے مراد یعقوب کی نسل ہے جو آگے چل کر بنی اسرائیل کہلائی اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کے درمیان ایک ممتاز قوم بنا کر اٹھایا اور لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنایا ۔


12 ۔ وہ علم والا ہے اس لیے اسے مستقبل کا پورا علم ہے اور وہ حکیم ہے اس لیے اس کے فیصلے نہایت حکیمانہ ہوتے ہیں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


13 ۔ اس سے واضح ہوا کہ سورہ یوسف مشرکین مکہ کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی ۔ سوال ممکن ہے یہود کے اشارہ پر کیا گیا ہو تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جاۓ کہ آپ پر یوسف کا واقعہ کس طرح بیان فرماتے ہیں جبکہ آپ نے تورات نہیں پڑھی ہے ۔


ان کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یوسف کی سرگزشت نہایت سبق آموز طریقہ پر بیان فرمادی اور سوالکرنے والوں کو دعوت فکر دی کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے درمیان جو معاملہ پیش آیا اس میں اللہ کی قدرت و حکمت کی عجیب نشانیاں ہیں کہ کس طرح اس کی تد بیر غالب آ جاتی ہے اور اس کا منصوبہ پورا ہو کر رہتا ہے ؏


مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے


یوسف کو ان کی راست بازی کی بنا پر اللہ کی تائید و نصرت حاصل تھی اس لئے نہ برادران یوسف ان کا کچھ بگاڑ سکے اور نہ مصر کی وہ خواتین جنہوں نے یوسف کے خلاف سازش کی اور انہیں جیل بھجوایا ۔ آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش جو معاملہ کر رہے ہیں وہ اس معاملہ سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو برادران یوسف نے یوسف کے ساتھ کیا تھا ۔ اس طرح وہ اپنے کو ایک ایسے انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں جس میں ان کے لئے ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔


14 ۔ مراد بن یمین ہے جو یوسف کا سگا بھا ئی تھا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


15 ۔ یوسف اور بن یمین سے چھوٹے تھے اس لئے قدرتی بات ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو زادہ پیارے ہوں اور یوسف تو اپنی راست بازی، دانشمندی اور اعلٰ صلاحیتوں کی بنا پر یعقوب کی آنکھ کا تارا تھا مگر انہوں نے اپنے دوسرے بیٹوں کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی تھی ورنہ اس موقع پر وہ اپنے باپ کی ضرور شکایت کرتے ۔


بائبل میں ہے :


’’ اور ان کے بھائیوں نے دیکھا کہ ان کا باپ ان کے سب بھائیوں سے زیادہ اسی کو پیار کرتا ہے سو وہ اس سے بغض رکھنے لگے اور ٹھیک طور سے بات بھی نہیں کرتے تھے ، ‘‘ (پیدائش 37 : 4 ) ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
’’حالانکہ ہم ایک جتھا ہیں ‘‘ سے ان کی مراد یہ تھی کہ خاندان کی حفاظت کے پہلو سے اصل اہمیت جتے کی ہے نہ کہ کسی ایک فرد کی کیوں کہ اس زمانہ میں کنعان میں لوگ آزاد قبائلی زندگی بسر کرتے تھے اور کوئی منظم حکومت نہیں تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں ہم دس بھائی جو ایک جتھا ہیں اپنے باپ کے لیے زیادہ مستحق ہم ہیں نہ کہ یوسف اور بن یمین ۔ مگر یعقوب کی نظر میں اصل وقعت اخلاق و کردار کی تھی اس لیے انہیں یوسف سے زیادہ محبت تھی ۔


16 ۔ اگر اس سازش کا محرک ان کی یہ خواہش تھی کہ ان کے والس کی محبت ان کے لیے خاص ہو کر رہ جاۓ مگر ان کاضمیر اندر سے کہہ رہا تھا کہ اس صورت میں وہ گناہ کے مرتکب ہوں گے لیکن شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھا دی کہ اپنی راہ کے کانٹے کو دور کرنے کے لیے اگر گناہ کا ارتکاب ‘‘ ناگزیر’’ ہے تو کر لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد جب باپ کی محبت اور توجہ ان کے لیے خاس ہوکر رہ جاۓ گی تو وہ بھی یکسوئی کے ساتھ نیکی کی طرف مائل ہو سکیں گے اور انکے لیے نیک بن کر رہنا آسان ہو گا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada



اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شیطا ن انسان کو کس خوبصورتی کے ساتھ گناہ پر آمادہ کرتا ہے اور کس طرح غلط راہ پر ڈال دیتا ہے ۔


17 ۔ کھیل کود سے مرد دوڑ اور تیر اندازی جیسے کھیل ہیں جو اس وقت کی بدو یا نہ زندگی میں تحفظ کے نقطہ نظر سے ضروری تھے ۔


18 ۔ انہوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ یوسف کو کنویں میں ڈال دیا جاۓ اور چال یہ چلی کہ یوسف کو تفریح کے بہانے جنگل میں لے جانے کی اجازت اپنے باپ سے حاصل کر لیں اور انہیں اطمینان دلائیں کہ ہو پوری طرح یوسف کی حفاظت کریں گے ۔


اس سے ظاہر ہوا کہ جب انسان جھوٹ کو جائز کر لیتا ہے تو اسے نہ ملمع کاری کی باتیں کرنے میں تامل ہوتا ہے اور نہ خطرناک منصوبے بنانے میں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


19 ۔ یعقوب علیہ السلام کے لیے یہبات اس لیے باعث رنج تھی کہ انہیں یوسف کے بارے میں یہ اندیشہ تھا کہ ان کے سوتیلے بھائی ان کو پریشان نہ کریں نیز وہ یہ خطرہ بھی محسوس کر رہے تھے کہ ان کی بے پرواہی کے نتیجہ میں یوسف کسی حادثہ کا شکار نہ ہو جائیں ۔ معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں کنعان کے جنگلوں میں بھیڑیے زیادہ تھے اور ان کے حملوں سے بچنا مشکل تھا اس لیے یعقوب علیہ السلام نے ایک موجود خطرے کا ذکر کیا ۔


20 ۔ یعنی اپنے باپ سے اصرار کر کے وہ یوسف کو اپنے ساتھ لے گئے ۔


21 ۔ یع3نی ہم نے وحی بھیج کر یوسف کو اطمینان دلایا کہ یہ تمہارے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ ایک وقت آۓ گا جب یہ اپنے کیے پر نادم ہوں گے ۔ تم زندہ سلامت رہ کر انہیں جتاؤ گے کہ انہوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور اس وقت تم جتاؤ گے جب کہ ان کے خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ جو شخص انہیں یہ قصہ یاد دلا رہا ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے ۔ آگے چل کر یہ واقعہ جس طرح پیش آیا اس کا ذکر آیت 89 اور 90 میں ہوا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


واضح رہے کہ یہ وحی یوسف کے نبی بناۓ جانے سے پہلے ان کی طرف بھیجی گئی تھی ۔ اس وقت ان کی عمر جیسا کہ بائبل کا بیان ہے صرف 17 سال تھی ۔


22۔ یعنی یوسف کو کنویں میں چھوڑ کر وہ رات کو گھر واپس آگئے اس سے معلوم ہوا کہ وہ قریب ہی کے علاقہ میں گئے تھے ورنہ رات تک گھر نہیں پہنچ سکتے تھے ۔


وہ ٹسو ے بہارے ہوۓ اپنے والد کے پاس پہنچے تھے تاکہ یوسف سے ہمدردی کا اظہار ہو اور ان کے والد ان کی باتوں پر یقین کریں ۔


23 ۔ یعقوب علیہ السلام کی زبان سے ایک امکانی خطرہ کے پیش نظر جو الفاظ نکل گۓ تھے برادران یوسف نے ان کو لے کر یوسف کے ہلاک ہونے کا قصہ گھڑ لیا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


24 ۔ انہوں نے قصہ تو گھڑ لیا لیکن انہیں خود یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے والد ان کی باتوں کو باور کریں گے ۔


25 ۔ ان کے جھوٹ کا پول تو اس بات سے ہی کھل رہا تھا کہ کرتا پھٹا ہوا نہ تھا ۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ بھیڑیا حملہ کرے اور کرتا نہ پھٹے ۔ اس کھلے جھوٹ کو یعقوب علیہ السلام کس طرح صحیح واقعہ تسلیم کر سکتے تھے ۔ انہیں نے برجستہ کہا کہ یہ من گھڑت قصہ ہے ۔ اس سے یہ اصولی بات واضح ہوتی ہے کہ جب کسی خبر کی تصدیق قرائن یا علامتوں سے نہ ہوتی ہو اور خبر دینے والے غیر ثقہ ہوں تو ایسی خبر قابل رد ہوگی ۔


26 ۔ صبر جمیل کا مطلب ہے مصیبت کو خوبی کے ساتھ برداشت کرنا اور تکلیف پہنچنے پر عالی ظرفی کا ثبوت دینا ۔ جزع فزع تو اصلاً صبر ہی کے منافی ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


قرآن یعقوب علیہ السلام کے کردار کو اس طرح پیش کرتا ہے جو ایک نبی کے شایان شان ہے لیکن بائبل کا انداز اس سے بالکل مختلف ہے چنانچہ بائبل میں ہے کہ یوسف کے بارے میں یہ خبر سن کر یعقوب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور بہت دنوں تک ماتم کرتا رہا ۔ (پیدائش 37 : 34 )


اور ایسے کتنے مقامات ہیں جہاں بائیبل کے مؤلفین نے اپنے بنیوں کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا ہے ۔


27 ۔ یہ اظہار توکل ہے ۔


28 ۔ بائبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسمٰعیلیوں کا قافلہ تھا جو سامان تجارت لے کر مصر جا رہا تھا ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کنواں جس میں یوسف کو ڈال دیا گیا تھا اس شاہراہ پر واقع تھا جو کنعان سے مصر کو جاتی تھی یوسف کے اس کے بھائی جنگل میں نہیں لے گئے تھے بلکہ شاہراہ پر آکر ایک ایسے کنویں میں جس پر پتھروں کی منڈھیر بنی ہوئی نہیں تھی (جُب ایسے ہی کنویں کو کہتے ہیں ) ڈال دیا تھا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


قافلہ جب اس کے قریب رکا تو اس نے اپنے ایک آدمی کو پانی لانے کے کنویں پر بھیج دیا ۔ اس نے جب ڈول ڈالا تو یوسف نے اس ڈول کا سہارا لیا اور جب وہ اوپر آ گئے تو سقہ کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ ایک لڑکا ہے جو کنویں میں پھنس گیا تھا اور جس کے لیے ڈول نجات کا ذریعہ بنا مزید خوشی اس بات کی کہ ایک غلام ان کے ہاتھ لگا جس کی قیمت انہیں وصول ہوگی ۔


29 ۔ اس زمانے میں جب کسی کو کوئی گم شدہ لڑکا راستہ میں پڑا ہوا مل جاتا ۔۔۔۔۔ تو وہ اسے غلام بنا لیتا اور پھر چاہتا تو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتا قاچلہ والوں نے بھی یوسف کے ساتھ یہی معاملہکیا انہیں مال تجارت سمجھ کر اس وقت چھپالیا تا کہ لڑکے کا کوئی دعویدار نکل نہ آۓ اس کے بعد انہیں مصر لے جا کر فرخت کر دیا جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


30 ۔ بیچنے والے یہی قافلہ والے تھے اور مصر لے جا کر انہیں بیچ دیا تھا انہیں کچھ اندازہنہ تھا کہ کیسی قیمتی شخصیت ان کے ہاتھلگی ہے اس لیے انہوں نے چاندی کے چند سکوں کے عوض یوسف کو بیچ دیا ۔


بائیبل کا بیان الجھا ہوا ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ یوسف کو کنویں سے نکالا تو تھا ۔ قافلہ والوں نے لیکن وہاں یوسف کے بھا ئی موجود تھے اور انہوں نے بیس درہم قیمت وصول کی تھی ۔لیکن یہبات نہ قرآن کے بیان کے مطابق ہے اور نہ ہی قرین قیاس ۔


31 ۔ یعنی قافلہ والوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہاس غلام کی صحیح قیمت انہیں وصول ہو کیونکہ یہ غلام مفت ان کے ہاتھ لگا تھا ۔


یوسف یعقوب کی آنکھوں کا تارا اور ان کا نور نظر تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یوسف جیسی شخصیت دنیا میں مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے ؎
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


ہزارو سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے


بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


32 ۔ قافلہ مصر جا رہا تھا اس لیے وہ اپنے ساتھ یوسف کو مصر لے گیے اور وہاں انہیں غلام کے طور پر فروخت کر دیا ۔ مصر میں جس شخص نے یوسف کو خریدا وہ حکومت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھا بائیبل میں اس کا نام فوطیفار آیا ہے اور اسے مصر کے بادشاہ کا ایک حاکم اور محافظ فوج کا افسر اعلیٰ کہا گیا ہے ۔ قرآن نے جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا اس کے لیے عزیز کا لقب استعمال کیا ہے ۔


وہ یوسف کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کیس شریف گھرانے کا لڑکا ہے جو گرفتار بلا ہو کر یہاں پہنچ گیا ہے ۔ لڑکا نہایت ہو نہار ، با اخلاق اور قابل اعتماد ہے اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کے ساتھ غلاموں کا سلوک نہ کرتا بلکہ عزت کے ساتھ رکھنا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


33 ۔ حاکم مردم شناس تھا اس لیے یوسف کی قدر اس نے پہچان لی اور غالباً وہ بے اولاد تھا اس لیے اس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ممکن ہے ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں ۔


34 ۔ اللہ تعالیٰ کا منصوبہ یہ تھا کہ یوسف مصر کا فرمانروا بنایا جاۓ ۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ انہیں مصر کی متمدن زندگی کا تجربہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب کیے کہ مصر میں ان کے قدم جم گئے اور ایک حاکم کے گھر میں رہ کر انہیں اس تجربہ کا بہترین موقع ملا۔


35 ۔ یعنی یوسف کو ابتلاؤں سے گذارنے میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہ تھی کہ ان میں وہ ملکہ پیدا ہو جو باتوں کی تہہ تک پہنچنے اور ان کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ حالات کے ٹھپیڑے انسان کو گہرائی میں جانے کے لیے مجبور کرتے ہیں اور جب وہ گہرائی میں جاتا ہے تو اس کا دامن موتیوں سے بھر جاتا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


36 ۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور اس کو یہاں بیان کرنے سے مقصود ایک طرف تو یہ واضح کرنا ہے کہ یوسف کے لیے ان حاسدوں کے علی الرغم دنیوی اور اخروی سعادتوں کی راہیں کھلتی چلی گئیں اور دوسری طرف یہ اشارہ کرنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا جو منصوبہ ہے وہ نافذ ہو کر رہے گا اور اسے نافذ ہونے سے نہ قریش روک سکتے ہیں اور نہ کوئی اور طاقت ۔


37 ۔ پختگی (اَشدّ) کو پہنچنے سے مراد شباب کو پہنچنا ہے ۔ یہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کا زمانہ ہے جب اُشد یعنی اچھی طرح سوچھ بوچھ پیدا ہوجاتی ہے سورہ انعام آیت نمبر 152 میں ’’ اَشُدّ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔


38 ۔ ’’ حکم‘‘ سے مراد قوت فیصلہ ہے اور علم سے مراد بصیرت کانور ہے ۔ یہ چیزیں یوسف کو نبوت سے پہلے جوانی ی عمر کو پہنچنے پر حاصل ہوئی تھیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے حسن عمل کا فوری انعام تھا جو انہیں ملا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ جو لوگ حسن عمل کا رویہ اختیار کرتے ہیں یونی خدا کا بندہ ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرتے ہیں اور اپنے اندر اچھے اوصاف کی پرورش کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کرنے کی قوت عطاء فرماتا ہے اور اس کام کے لیے جو بصیرت مطلوب ہے اس سے نوازتا ہے ۔ حسن عمل کا یہ انعام انسان کو اس کے درجہ کے اعتبار سے دنیا ہی میں مل جاتا ہے ۔


39 ۔ بائبل میں ہے کہ یوسف خوبصورت اور حسین تھا (پیدائش 39: 6)


گویا للہ تعالیٰ نے انہیں صورت اور سیرت دونوں کا حسن عطا فرمایا تھا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


یوسف کو عزیز مصر نے اپنے گھر میں رکھا تھا اور اپنے گھر کا مختار بنا کر اپنا سب کچھ اسے سونپ دیا تھا (پیدائش 39 : 2 تا 4) عزیز کی بیوی یوسف پر فریفتہ ہو گئی اور ایک دن موقع پاکر انہیں اپنے دام محبت میں گرفتار کرنا چاہا ۔


واضح رہے کہ حسن یوسف کے جو قصے عام طور سے مشہور ہیں وہ بڑے مبالغہ پر مبنی اور محض افسانہ ہیں ۔ اگر یہ ایسا حسن ہوتا جو دنیا میں کسی کو کبھی عطا ہی نہیں ہوا تو قرآن اس کا ذکر کرتا مگر قرآن میں سرے سے حسن یوسف کا ذکر ہی نہیں ہے ۔ اس نے یوسف کے حسن سیرت کو نمایاں کیا ہے جو کہ اس سرگزشت کا اصل مقصد ہے جبکہ افسانہ پسند طبیعتیں اس کو افسانوی رنگ میں دیکھنا چاہتیہیں چنانچہ انہوں نے یوسفکی اس سرگزشت کوجسے قرآن نے نہایت جچے تلے انداز میں پیش کر دیا تھا ’’یوسف و زلیخا ‘‘ کا قصہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


40 ۔ عزیز کی بیوی نے ایک دن موقع پاکر کمرے کے دروازے بند کریے اور یوسف کو کھلے طور پر بے حیائی کیدعوت دی مگر یوسف شرافت کا پیکر تھے وہکس طرح اپنے دامن کو آلودہ کر سکتے تھے ۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا پناہ بخدا ۔ میں یہکام کیسے کر سکتا ہوں جب کہ میرے رب نے مجھے اچھا مقام عطا کیا ہے ۔اس سے یوسف کی مراد یہ تھیکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل خاص سے نوازا ہے ان کو نبی زادہ ہونے کا شرف بخشا ، ان کی قدم قدم پر رہنمائی اور دستگیری کی ۔ مصر میں ان کو اچھیمنزلت بخشی علم اور بصیرت کی روشنی عطا کی اخلاق کے اونچے مرتبہ پر فائز کیا اور رعفت و پاک دامنی اور شرم و حیاء کے لیے ایسی حساس طبیعت بخشی کہ حسن معنی کو کسی کی مشاطگی کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


یوسف کے کہنے کا منشا یہ تھا کہ جس ہستی نے مجھے یہ مقام بلند بخشا ہے میں اس کی نا شکری کر کے اپنے کو اس کا نا اہل ثابت کر دوں ؟ اگرمیں تمہاری باتوں میں آ کر بے حیائی کا مرتکب ہوا تو غلط کار اور ظالم ٹھہروں گا اور ظالموں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ دنیا میں ان کے لیے رسوائی ہے اور آخرت میں انہیں سخت سزا بھگتنا ہوگی ۔


غور کیجیے یوسف کا جواب کتنا مختصر مگر کتنا مد لل تھا اور اس کے ایک ایک لفظ سے کس طرح خدا خوفی اور احساس آّخرت کا اظہار ہو رہا تھا۔


واضح رہے کہ عام طور سے مفسرین نے اس آیت میں
 
Top