Dawat-ul-Quran - Surah Yusuf

  • Work-from-home

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

127 ۔ انہوں نے یوسف کو عزیز کہ کر خطاب کیا۔ عزیز کے معنیٰ صاحب اقتدار کے ہیں ۔ یہ خطاب حاکم مصر کے لیے مخصوص تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت برادران یوسف کا یہ واقعہ پیش آیا ہے یوسف مصر پر حکومت کر رہے تھے البتہ ابھی انہیں ملک (بادشاہ) کی پوزیشن حاصل نہیں ہوئی تھی۔

128 ۔ یعنی یعقوب علیہ السلام بوڑھے ہوگۓ ہیں اور ان کو بن یمین کے روک لینے سے بڑا صدمہ ہوگا ۔

129 ۔ یوسف نے بہت محتاط الفاظ استعمال کیے ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ’’جس نے چوری کی ہے ‘‘ بلکہ یہ کہا ’’ جس کے پاس ہماری چیز نکل آئی‘‘۔ یعنی واضح طور سے انہوں نے چوری کا الزام نہیں لگایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فی الواقع بن یمین نے چوری نہیں کی ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

130 ۔ برادران یوسف میں سب سے بڑا روبین تھا (پیدائش ) اس کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب بھائی اللہ پر ایمان رکھتے تھے البتہ ان میں اخلاقی اور عملی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں ۔

131 ۔ انہوں نے اپنے والد سے یہ نہیں کہا کہ ہمارے بھائی نے چوری کی بلکہ کہا آپ کے بیٹے نے چوری کی ان کا یہ انداز طنزیہ تھا ۔

132 ۔ یعنی اس واقعہ کا چرچا عام ہوا ہے لہٰذا آپ مصر والوں سے یا اس قافلہ والوں سے جو ہمارے ساتھ کنعان آیا تحقیق کر سکتے ہیں ۔

133۔ یعنی یہ بات کہ بن یمین نے چوری کی تم باور کر سکتے ہو مگر میں باور نہیں کر سکتا کیونکہ میں اس کے کردار سے اچھی طرح واقف ہوں ۔اور واقعہ بھی یہی تھا کہ بن یمین نے نہ چوری کی تھی اور نہ یوسف نے ان پر چاری کا الزام لگایا تھا بلکہ صورت حال کچھ ایسی پیش آئی تھی کہ ان لوگوں نے گمان کر لیا کہ اس نے چوری کی ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

134 ۔ یعقوب علیہ السلام اس خواب کی بنا پر جو یوسف نے دیکھا تھا متوقع تھے کہ یوسف زندہ ہوں گے اور ایک دن ان کا خواب پورا ہو کر رہے گا ۔

135 ۔ یعقوب علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو جو ذکر کیا تو اس سے مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ یوسف اور بن یمین کے واقعات محض واقعات نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا عظیم منصوبہ کار فرما ہے اور وہ علم و حکمت پر مبنی ہے ۔

136۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو یوسف کی جدائی کا کتنا زبردست صدمہ پہنچا تھا ان کے سینہ میں بھی انسان ہی کا دل تھا پھر کیوں نہ درد سے پھر آتا ۔ مگر جس صبر کے ساتھ وہ اس کو برداشت کر رہے تھے اس میں ان لوگوں کے لیے نمونہ ہے جنہیں دنیا میں اس قسم کے صدمے پہنچتے ہیں ۔

137 ۔ اللہ کا شکوہ کرنے اور اللہ سے شکوہ آدمی مخلوق کے سامنے کرتا ہے ۔ یہ اللہ سے بد گمانی بھی ہے اور بے صبری کا اظہار بھیلیکن اللہ سے شکوہ تو اسی کے حضور کیا جاتا ہے جو ایک غم زدہ دل کی فریاد بھیہے اور اس سے امید کا اظہار بھی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

138 ۔ یعقوب علیہ السلام نبی تھے ۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتا دیا تھا کہیوسف مر نہیں گئے بلکہ زندہ ہیں اور ایک دن ان سے ملاقات ہونا ہے ۔ اس چیز نے ان کے اندر یوسف سے ملنے کا ایک ولولہ پیدا کر دیا تھا ۔ پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر کسی کا چہیتا بیٹا مر جاتا ہے تو اسے دکھ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ دکھ وقتی ہوتا ہے بخلاف اس کے اگر اس کا چہیتا بیٹا گم ہوتا ہے تو اس کو جو دکھ ہوتا ہے وہ نہ صرف ناقابل برداشت ہوتا ہے بلکہ اس خیال سے کہ معلوم نہیں بیٹا کس حال میں کہاں ہوگا وہ سخت پریشانی اور بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے ۔ یعقوب علیہ السلام کے دکھ کی نوعیت یہی تھی۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

139 ۔ برادران یوسف نے جب اپنے بھائیوں کی اس پریشانی کو دیکھا کہ وہ قحط سالی کی تکلیف اور افلاس کی وجہ سے صدقہ مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا اور موقع کو مناسب پاکر اپنا اصل نام انہیں بتادیا جو اب تک صیغہ نام کے صیغہ راز میں ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یوسف کو حاکم مصر ہونے کی وجہ سے عزیز کا لقب دیا گیا تھا نیز جیسا کہ بائبل کا بیان ہے بادشاہ نے ان کا دوسرا نام رکھا تھا (پیدائش 41:45) اس لیے حکومت کی باگ ڈور سنبالنے کے بعد وہ مصر میں نئے نام سے مشہور ہوۓ ہوں گے ۔

یوسف کو جب کنویں میں پھینک دیا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کی پیشگی اطلاع دی تھی کہ ایک وقت آۓ گا جب تم ان کو اس معاملہ کی یاد دلاؤ گے جو آج وہ تمہارے ساتھ کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا ۔(آیت 15) اللہ تعالیٰ کی یہ بات پوری ہو کر رہی چنانچہ یوسف نے اس موقع پر اپنے بھائیوں کو وہ واقعہ یاد دلایا جب کہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ جس سے ہم کلام ہیں وہ یوسف ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

141 ۔ یعنی تقویٰ اور نیکی کی روش اختیار کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ دنیامیں بھی اپنے فضل سے نوازتا ہے ۔

142 ۔ حالات نے انہیں خاصا جھنجھوڑ دیا تھا لیکن جب انہوں نے اللہ کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھا تھا وہ آج پورے مصر پر حکومت کر رہا ہے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اسی وقت اپنے قصور کا اعتراف کر لیا ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ حالات کی سختی انسان کی تربیت کا سامان کرتیہے اور قدرت کے کرشمے اس کو چونکانے کا باعث بنتے ہیں ۔

143 ۔ اخلاق و شرافت کی کتنی اونچی مثال ہے جو یوسف نے قائم کی کہ ایسے وقت جب کہ وہ اپنے بھائیوں سے انتقام لینے پر پوری طرح قادر تھے انہوں نے کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ ان کو معاف کر دیا اور ان کے ساتھ احسان کا سلوک کیا۔ کردار کی یہی عظمت ہے جو دلوں کو موہ لیتی ہے اور دشمنوں کو بھی دوست بنا دیتی ہے ۔

اس سورہ کے نزول کے وقت مکہ میں قریش کے دو گروہوں کے درمیان جو نزاع پیدا ہو گئی تھیا اس کے پیش نظر یوسف اور اس کے بھائیوں کی یہ سرگذشت ایک بر وقت رہنمائی تھی اور فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوۓ یہی الفاظ دہراۓ تھے کہ لَا تَثرِیْبَعَلیْکُمُالْیَوْمَ (آن کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں ) ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

ا44 ۔ اس کی تشریح آگے نوٹ 148 میں آرہی ہے ۔

145 ۔ یوسف نے اپنے والد یعقوب کے پورے خاندان کو مصر بلایا ۔ ایک نبی کی کسی مقام کو منتقلی اللہ کی ہدایت کے مطابق ہی ہوتی ہے اس لیے یوسف نے وحی الٰہی سے اشارہ پاکر ہی یہ بات کہی ہوگی ۔

146 ۔یوسف مصر میں ایک مدت سے موجود تھے لیکن یعقوب علیہ السلام کو ان کی مہک نہیں آئی مگر اب جبکہ قافلہ مصر سے چلا ہ تو انہوں نے یوسف کی مہک محسوس کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے الہام تھا جو یعقوب علیہ السلام کے قلب پر ہوا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یوسف کی مہک سے مراد یوسف کا سراغ لگنے کی خوش خبری ہے یہ خوش خبری یعقوب علیہ السلام کو الہام کے ذریعہ اسی وقت مل گئی جب کہ قافلہ پیراہن یوسف لے کر مصر سے کنعان کے لیے روانہ ہوا لیکن یہ خوش خبری خفی تھی۔ جلی طور پر خوش خبری انہیں اس وقت ملی ب قافلہ ان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔

147 ۔ یہ بات ان کے گھر کے لوگوں نے کہی ہوگی اور اس بنا پر کہی ہو گی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ یعقوب علیہ السلام یوسف کی یاد میں کھوۓ ہوۓ سے رہتے ہیں اس لیے انہوں نے سمجھا کہ اب جو شمیم یوسف کے محسوس کرنے کا ذکر کر رہے ہیں وہ محض خیالی بات ہے ۔ معلوم ہوتا ہے وہ نہ پیغمبر کی عظمت کو صحیح طور سے سمجھ سک تھے اور نہ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ شمیم یوسف کا تعلق الہام سے ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

148 ۔ یہ غیر معمولی واقعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا اور اس قسم کے کرشمے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں غہور میں لاتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ ان کی تائید اور مدد کرتا رہا ہے ۔ محض اس بنا پر کہ عام طور سے ہمارے تجربہمیں اس قسم کی باتیں نہیں آتیں ان کا انکار کرنا صحیح نہیں جب کہ اس کی خبر ہمیں ایک ایسے ذریعہسے مل رہی ہے جس کی صداقت شہہ سے بالا تر ہے ۔

قرآن کے اوراق میں تاریخ کے کتنے ہی غیر معمولی واقعات ثبت ہوۓ ہیں تا کہ انسان اپنے محدود علم اور تجربہ ہی کو سب کچھ سمجھ نہ بیٹھے بلکہ اس کی نظر اس حقیقت پر ہو کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے جو اسے چلا رہا ہے اور وہ اپنی قدرت کے کرشمے جس طرح چاہتا ہے دکھاتا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

149 ۔ یعقوب علیہ السلام کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ انہیں یوسف کے بارے میں بذریعہ وحی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ وہ بقید حیات ہیں اس لیے اپنے لخت جگر سے ملنے کا شوق ان کے دل میں کروٹیں لے رہا تھا ۔ مگر چونکہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ یعقوب کے صبر کا بھی امتحان لینا چاہتا تھا اس لیے یوسف کا پورا حال ان پر مجکشف نہیں کیا تھا۔

150 ۔ اس طرح بیٹوں نے اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف اپنے باپ کے سامنے بھی کر لیا اور ان سے در خوست کی کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعا کریں ۔

یہ ہے انسان کا حل کہ وہ بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی ہے اور بگڑ کر سنورتا بھی ہے اس لیے اس کی اصلاح کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں معلوم نہیں کہ کس وقت اس کا ضمیر جاگ اٹھے ۔

151 ۔ دعا کو مؤخر کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے طرز عمل کو دیکھنا چاہتے ہوں گے کہ واقعی انہوں نے اصلاح قبول کی ہے یا نہیں اور دوسرے معاملہ چونکہ یوسف سے متعلق تھا اس لیے وہاس گھڑی کو قبولیت دعا کے لیے زیادہ موزوں خیال کر رہے ہوں گے جب کہ یوسف کے پاس سب جمع ہو جائیں گے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

152 ۔ یوسف اپنے والدین کے استقبال کے لیے مصر کی سرحد پر تشریف لے گیے اور وہاں اپنے خاندان کا خیر مقدم کرتے ہوۓ اپنے والدین کو احترام کے ساتھ خاص طور سے اپنے پاس بٹھایا اور ان سے کہا کہ اب مصر میں داخل ہو جائیے اللہ نے چاہا تو آپ کو ہر طرح کا امن و چین نصیب ہوگا ۔

153 ۔ یعنی جب مصر کے دارلسلطنت میں سب پہنچ گیے اور دربار یوسفی آراستہ ہوا تو یوسف نے رسمی باتوں کا خیال نہ کرتے ہوۓ اپنے والدین کے احترام کو غایت درجہ ملحوظ رکھا اور ان کو تخت پر بٹھایا ۔

یوسف کے ہاتھ میں اس وقت مکمل اقتدار آگیا تھا اور وہ تخت کے مالک بن گیے تھے اسی لیے وہ اس قابل ہو سکے کہ اپنے والسین کو تخت پر جگہ دیں ۔ اس موقع پر دربار یوسفی میں ایک نئی شان پیدا ہوغئی تھی۔ پرانی یادیں تازہ ہو رہی تھیں اور یوسف کے درگذر اور ان کے بلند کردار نے ان کے بھائیوں کے بے حد متاثر کر دیا تھا ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہ شخص بادشاہ ہو کر بھی اس درجہ متواضع ہے کہ اپنے والدین کو تخت شاہی پر بٹھاتا ہے تو بے اختیار اس کے آگے جھک گئے ۔ یہ اندرونی جذبہ تھا جو نے انہیں جھکا دیا ۔ یوسف نے انہیں جھکنے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ یہ کوئی تعظیمی سجدہ تھا بلکہ ایک رقت آمیز ماحول کے زیر اثر وہ بے اختیار جھک پڑے تھے اور یوسف نے اس کو محض اس لیے برداشت کیا کہ انہوں نے جو خواب اپنی نو عمری میں دیکھا تھا اس کی ی تعبیر تھی۔ اس طرح اللہکا منصوبہ نافذ ہو کر رہا اور وہ سب یوسف کے زیر اقتدار آگئے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

اب بحث کے چند گوشے رہجاتے ہیں :

(1) متن میں خَرُّوْ لَہٗ سُجَّداً کے الفاظ استعمال ہوے ہیں اس کا ایک ترجمہ تو ’’ وہ اس کے آگے سجدہ میں گر گئے ‘‘ ہوتا ہے اور دوسرا ترجمہ یہہوسکتا ہے ’’وہ اس کے آگے جھک گیے ‘‘ موقع کلام کے لحاظ سے یہ دوسریترجمہہی صحیح ہے ۔ سجدہکا لفظ جیسا کہہمنوٹ 7 میں واضح کر آۓ ہیں محض جھکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یوسف کے بھائیوں کا جھکنا اس خواب کی تعبیر تھی جس میں یوسف نے ستاروں کو اپنے آگے جھکتے ہوۓ دیکھا تھا اس لیے یہاں اصطلاحی سجدہکا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کیا ستاروں کا سر ہوتا ہے جو وہ اپنی پیشانی زمین پر رکھیں ؟ ستاروں کے ’’سجدہ ‘‘ کرنے کا مفہوم یہی ہوسکتا ہے کہ وہ بلندی سے اتر کر یوسف ک آگے جب ان کے بھائی جھک گئے تو خواب پورا ہو گیا ۔ خرُّوْا کے لفظی معنی ہیں ’’ وہ گر گئے ‘‘
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

یہ لفظ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ برادران یوسف بے اختیار جھک گیے تھے یعنی فضا ایسی بن گئی تھی کہ اندرونی جذبات س مغلوب ہو کر وہیوسف کے آگے جھک گیے بالفاظ دیگر خارجی طور سے کسی نے ان کو جھکنے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا ۔ یہ ان کا اپنا بے اختیاری میں عمل تھا اور قرآن کے اس کو بیان کرنے سے مقصود در اصل یہ واضح کرنا ہے ہ برادران یوسف کو بالاخر یوسف کے آگے جھکنا پڑا اور ان کے زیر اقتدار انہیں آنا پڑا ۔ (2) (3) اس کے سجدہ عبادت ہوتے کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ کوئی نبی اپنے لیے سجدہ عبادت کو گوارا کر ہی نہیں سکتا ۔ رہا اس کا سجدہ تعظیمی ہونا تو یہ بات بھی صحیح نہیں کیونکہ نہیوسف نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ انہوں نے اپنے لیے ایسے کوئی آداب رائج کیے تھے کہ لوگ ان کے حضور سجدہ تعظیمی بجا لائیں ۔ قرآن میں اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ آیت میں جو کچھ کہا گیا ہے و ہ صرف اتنی بات ہے کہ برادران یوسف بے اختیار یوسف کے آگے جھک گیے تھے ۔ (4) آیت کا صحیح مفہوم واضح ہوجانے کے بعد ان لوگوں کے خیال کی آپ سے آپ تردید ہوجاتی ہے جنہوں نے سجدہ تعظیمی کو جائز قرار دینے کے لیے اس آیت کا سہارالیا ہے ۔ اور پھر پیروں ، بزرگوں ، درگاہوں اور بادشاہوں کے لیے سجدۂ تعظیم کو روا رکھنے کے کے قائل ہوگٰے مغل بادشاہوں نے بھی
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
اپنے لیے سجدۂ تعظمیمی کی رسم جاری کی تھی لیکن شیخ احمد سر ہندی نے اس خلاف شرع رسم کے خلاف زبردست جہاد کیا ۔
(5) یوسف نے اپنے والدین کو پہلے ہی تخت پر بٹھایا تھا اس لیے وہ ان کے آگے جھکنے میں شامل نہیں تھے ۔ رہا یہ سوال کہ ان کے آگے جھکے بغیر خواب کی تعبیر کس طرح پوری ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوسف نے اپنا جو خواب بیان کیا تھا (آیت 5 ) وہ دوحصوں پر مشتمل تھا ۔ ایک حصہ یہ تھا کہ ’’ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے ‘‘ اور دوسرا حصہ تھا کہ ’’ میں نے دیکھا کہ وہ میرے آگے جھک گۓ ہیں ۔‘‘ اس دوسرے حصے میں انہوں نے بحیثیت مجموعی یہاں بھی جھکنے کی بات صحیح ثابت ہوئی اگر چہ کہ ان کے والدین جھکنے میں شامل نہیں تھے ۔ خواب کا اصل مطلب یہ تھا کہ سب یوسف کے زیر اقتدار ہوں گے اور یہ بات اس طرح پوری ہوئی کہ ان کے والدین اور بھائی سب اپنے وطن کو چھوڑ کر یوسف کے پاس آگۓ اور ان کے زیر اقتدار رہنا سب نے قبول کر لیا۔ (6) (7) یوسف جس وقت مصر کے حاکم مقرر ہوۓ تھے اس وقت وہ تخت کے مال نہیں بن گۓ تھے ب
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

بلکہ رسمی طور پر بادشاہ ہی تخت کا مالک راہ مگر بعد میں یوسف کی پوزیشن مضبوط ہوتی چلی گئی اور ان کے بھائی جس وقت غلہ لینے کے لیے آۓ تو وہ عزیز مصر (مصر کی با اقتدار شخصیت ) تھے اور اب جبکہ انہوں نے اپنے والدین کو تخت سلطنت کے مالک بن گۓ تھے ۔ قرآن کے بیان سے یہی تصویر سامنے آتی ہ اس لیے بائبل کے الجھے ہوۓ بیان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ (8) 154۔ اس موقع پر یوسف کا یہ بیان ان کی سیرت کا بہترین نمونہ ہے ۔ باوجود اس کے کہ وہ مصر کے فرمانروا تھے ان کے اس بیان میں فخر و غرور کا ادنیٰ شائبہ بھی پایا نہیں جا تا بلکہ اس کے ایک ایک لفظ سے اعتراف نعمت ، شکر اور تواضع کا اظہار ہو رہا ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

155 ۔ اس موقع پر یوسف نے دعا بھی فرمائی۔ اس دعا میں انہوں نے پہلے اللہ کے احسانا ت کا ذکر کرتے ہوۓ اس کی حمد و ستائش کی۔ پھر اپنے حسن خاتمہ اور آخرت میں صالحین کے زمرہ میں شمولیت کے لیے اللہ وے درخواست کی۔ یہ بات دعا کے آداب میں سے ہے کہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی جاۓ پھر اپنی درخواست اس کے حضور پیش کی جاۓ ۔

156 ۔ یہ واقعہ نزول قرآن سے تقریباً دو ہزار چار سو سال پہلے کا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسم کو اس کا کوئی علم نہ تھا اور نہ آپ کی قوم اس سے واقف تھی۔ رہے اہل کتاب تو بائبل کی کتاب پیدائش میں یہ قصہ ضرور بیان ہوا ہے لیکن اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے استفادہ کر کے بیان کرنے کا موقع حاصل نہ تھا کیونکہ آپ امی تھے اور اہل کتاب علماء سے بھی آپ کا کوئی ربط ضبط نہیں تھا ۔ مزید یہ کہ یہ سرگزشت جس صحت کے ساتھ قرآن نے سنائی اس صحت کے ساتھ بائبل میں بیان نہیں ہوئی ہے ۔ قرآن کا بیان معقول بھی ہے اور یقین بھی پیدا کرتا ہے
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


جبکہ بائبل کے بیان کی یہ خصوصیت نہیں ہے ۔ دوسر فرق یہ ہے کہ اس واقعہ کی تمام کڑیاں بائبل میں بیان نہیں ہوئی ہیں جبکہ قرآن نے اس کو ایک مربوط واقعہ کے طور پر پیش کر دیا ہے اور ان اہم پہلوؤں کو روشنی میں لایا ہے جو پردہ غیب میں چلے گۓ تھے ۔ مثال کے طور پر یوسف کے خواب کی وہ تعبیر جو یعقوب علیہ السلام نے بتلائی تھی ۔ برادران یوسف کا ایک سازش کے مطابق یوسف کو لے جاتا اور اپنے باپ کو جھوٹا یقین دلانا کہ وہ اس کی حفاظت کریں گے یوسف کے کنویں میں پھینک دیۓ جانے پر ان کے اطمینان قلب کے لیے ان کی طرف وحی کا بھیجا جانا ، یوسف کو ’’تاویل احادیث‘‘ کا علم عطاء ہونا ، یوسف کے پیرہن کے پیچھے سے پھٹ جانے اور قرینہ کی گواہی کا وہ واقعہ جس سے ان کے بے گناہ ہونے کا ثبوت فراہم ہوا ، عزیز مصر کا یہ اعتراف کہ اس کی بیگم ہی خطا کار ہے ،

 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

بیگم عزیز کا ایک سازش کے تحت خواتین مصر کی دعوت کرنا ، خواتین مصر کا ایک بھری مجلس میں بول اٹھنا کہ یوسف انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے ، بیگم عزیز کی طرف سے یوسف کو جیل بھیج دینے کی دھمکی ، یوسف کی ثابت قدمی کے لیے دعا ، قید خانہ میں یوسف کی تبلیغ، بادشاہ کی اجازت سے قید خانہ جانا اور یوسف سے خوابکی تعبیر پوچھنا ، بادشاہ کے طلب کرنے پر یوسف کا رہا ہونے سے ا نکار اور خواتین مصر کی سازش کی تحقیق کا مطالبہ، بادشاہ کا تحقیق کرنا اور یوسف کا بے گناہ ثابت ہونا ، بن یمین کے روک لیے جانے پر یعقوب کو صدمہ ، یعقوب کا اپنے بیٹوں کو یہ ہدایت دینا کہ وہ یوسف کا کھوج لگائیں ، یوسف کا اپنے بھائیوں کو معاف کرنا، قافلہ کے پیراہن یوسف کو لے کر مصر سے روانہ ہونے پر یعقوب کا یوسف کی مہک محسوس کرنا، پیراہن یوسف کے یعقوب کے چہرے پر ڈال دینے سے ان کی بینائی کا لوٹ آنا ، برادران یوسف کا معافی طلب کرتا ، یوسف کا اپنے والدین کو تخت پر بٹھانا اور ان کا پورا پورا احترام کرنا ، برادران یوسف کا یوسف کے آگے جھک جانا ، یوسف کا اللہ کے حضور حمد و ثنا کرا
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

۔ اور اس کا شکر ادا کرتے ہوۓ اپنے حسن خاتمہ کے لیے دعا کرنا ۔ یہ اور اس قسم کی دوسرے اہم باتوں کے ذکر سے بائبل کے صفحات خالی ہیں ۔ پھر ایک امی نے یہ سرگزشت کس طرح بے کم و کاست بیان کر دی اور تاریخ کے گم شدہ اوراق کو کس طرح منظر عام پر لایا ؟ اس کا صحیح جواب اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ وحی الٰہی نے یہ سرگزشت بیان کی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے بائبل سے نقل کرکے بیان نہیں کی ہے اور آج بھی جو شخص تحقیق کی غرض سے قرآن اور بائبل کا تقابلی مطالعہ کرے گا وہ اس حقیقت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا۔‘‘

157 ۔ یعنی اکثر لوگوں کا حال یہ ے کہ وہ دلیل سے بات سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے غلط خیالات پر جمے رہنا چاہتے ہیں ورنہقرآن پر ایمان لانے کے لیے یہ ایک دلیل ہی کافی ہے جو اس کے وحی الٰھی ہونے کے ثبوت میں اوپر بیان ہوئی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

158 ۔ نبی صلی اللہ ولیہ وسلم کا پیغام لوگون تک پہنچانے کی خدمت بے غرض ہو کر اور کسی قسم کا معاوضہ طلب کے بغیر انجام دے رہے تھے اس لیے یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ آپ اپنے مچاد کی خاطر یہ کام انجام دے رہے ہیں ۔

159 ۔ یعنی انبیاء علیہمالسلام کے ذریعہ توحید کا جو سبق لوگوں کو سکھایا گیا تھا اور جس کو لوگ بھول چکے ہیں قرآن اسی سبق کی یاد دہانی ہے اور یہ یاد دہانی کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوام اور تمام انسانوں کے لیے ہے ۔

160۔ یہ اصل وجہ ہے اس حق کو نہ پانے کی جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے ۔ توحید کی نشانیاں دنیا میں قدم قدم پر موجود ہیں مگر لوگوں نے اس کائنات کی ایسی غلط توجیہ کر لی ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں ایسے غلط نظریات قائم کر لیے ہیں اور ان پر ایسے جم گۓ ہیں کہ ان نشانیوں کو نظر اٹھا کر دیکھنے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہیں ۔
 
Top