Dawat-ul-Quran - Surah Yusuf

  • Work-from-home

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


’’ یوسف نے یہ بات اس لیے کہی تاکہ اس کے ذریعہ وہ اللہ کے احکام کو جاری کرسکیں ، حق قائم کرسکیں ، انصاف کا دورہ ہو اور غلبہ حاصل کرسکیں ۔ یہ من جملہ ان مقاصد کے ہے جن کے لیے انبیاء کی بعثت بندوں کی طرف ہوتی رہی ہے ۔ اور یوسف کو یہ معلوم تھا کہ ان کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو ان کی جگہ اس ذمہ داری کو پورا کرسکتا ہو لہٰذا انہوں نے اقتدار کا مطالبہ محض رضاۓ الٰٓہی کی خاطر کیا تھا نہ کہ حب جاہ اور دنیا کی خاطر۔‘‘ (تفسیر کشاف ج 2 ص 328 )
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اس لیے یہ کافرانہ حکومت کو چلانا نہیں تھا بلکہ وقت کی حکومت کو ایک جائز عوامی ضرورت کے حق میں ہموار کرنا تھا اور بتدریج اقتدار کو اسلام کی طرف منتقل کرانے اور معاشرہ کو اسلام سے قریب کرنے کی کوشش تھی ۔ اس دور کے نظام حکومت کو موجودہ دور کے نظام حکومت پر قیاس کرنا صحیح نہیں جہاں اس قسم کے اختیارات کسی شخص کو تفویض کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور جس کو کوئی شعبہ ملکی قوانین کی جکڑ بندیوں سے آزاد نہیں ہوتا ۔ تا ہم اگر کسی غیر اسلامی نظام میں مباحات کے دائرہ میں یعنی جہاں شرعی احکام و قوانین سے تصادم نہ ہوتا ہو اور اہل ایمان اسے دینی مصالح کا تقاضا سمجھتے ہوں تو اس سے فائدہ اٹھانے میں شرعاً کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔اس پر یہ اعتراض وارد کرنا کہ یہ نظام باطل کیا معونت ہے یا اس کے ساتھ مصالحت ہے ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ انبیائی طریق کار میں ہر طرح حالات کے لیے رہنمائی موجود ہے اور یوسف کا طریقہ بھی ہمارے لیے اس لیے اسوہ ہی ہے ۔ آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اقتدار کا منصب کسی ایس موقع پر جبکہ ایک مؤمن اپنے اندر اس کی اہلیت پاتا ہو اور حالات شدت سے اس بات کے متقاضی ہوں کہ وہ اس خدمت کے لی اپنے کو پیش کرے تو ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ جس حدیث میں عہدہ طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے وہ جاہ طلبی کے معنی میں ہے اور جو صورت اوپر بیان ہوائی وہ اس سے مختلف ہے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


’’ اور فرعون (یعنی اس وقت کا بادشاہ) نے یوسف سے کہا چونکہ خدا نے مجھے یہ سب کچھ دیا ہے اس لیے تیری مانند دانشور اور عقلمند کوئی نہیں ۔ سو تو میرے گھر کا مختار ہو گا۔ اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ۔ اور فرعون نے یوسف سے کہا کہ دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتا ہوں ۔‘‘ (پیدائش 41 : 39 تا 41)


97 ۔ کہاں یہ بات کہ یوسف کو جیل کی تنگ کوٹھری میں دن گزارنا پڑ رہے تھے اور کہاں یہ صورت کی مصر کی سر زمین میں جہاں چاہے وہ اپنے لیے ٹھکانا بنا سکتے تھے ۔ بائبل میں ہے :


’’ اور اس نے فرعون کے پاس سے رخصت ہو کر سارے ملک مصر کا دورہ کیا اور ارزانی کے سات برسوں میں افراط سے فصل ہوئی اور وہ لگا تار ساتوں برس ہر قسم کی خورش جو ملک مصر میں پیدا ہوئی تھی جمع کر کر کے شہروں میں اس کا ذخیرہ کرتا گیا۔ ہر شہر کے چاروں اطراف کی خورش اسی شہر میں رکھتا گیا ۔ اور یوسف نے غلہ سمندر کی ریت کی مانند نہایت کثرت سے ذخیرہ کیا ۔‘‘ (پیدائش 41 : 46 تا 49 )
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


98 ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ نیک روی کے نتائج دنیا میں اچھے ہی نکلتے ہیں البتہ اس کے لیے وقت لگتا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج کے بونے اور اس کے بار آور ہونے کے درمیان وقت کا فاصلہ ہوتا ہے ۔


یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقتدار اور اقتدار میں بڑا فرق ہے ۔ جو اقتدار ظالموں کو حاصل ہوتا ہے وہ محض آزمائش کے لیے ہوتا ہے اور باعث خیر نہیں ہوتا ۔ لیکن جو اقتدار حاصل ہوا اس کی نوعیت یہی تھی اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تعبیر کیا ہے ۔


99۔ یعنی ایمان لا کر تقویٰ کا رویہ اختیار کرنے والوں کو جو دنیا میں دیا جاتا ہے وہ اس انعام و اکرام کے مقابلہ میں بہت ٹھوڑا ہے جس سے وہ آخرت میں نوازے جائیں گے دنیا کا اجر اگر شبنم ہے تو آخرت کا اجر باران رحمت ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


100 ۔ جب قحط کا زمانہ آیا تو مصر کے ساتھ قریبی ممالک فلسطین وغیرہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے ۔ اس وقت یوسف کے حسن انتظام کی بدولت مصر میں غلہ کا ذخیرہ تھا اس لیے ان کے بھائی کنعان سے غلہ خریدنے مصر آۓ۔ اور چونکہ وہ غیر ملک سے آۓ تھے اس لیے انہیں حاکم مصر (یوسف ) کے پاس حاضر ہونا پڑا ہو گا ۔ بائبل میں ہے :


’’ اور یوسف کے کہنے کے مطابق کال کے سات برس شروع ہوۓ اور سب ملکوں میں تو کال تھا پر ملک مصر میں ہر جگہ خورش(خوراک) موجود تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ اور یعقوب کو معلوم ہوا کہ مصر میں غلہ ہے تب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم وہاں جاؤ اور وہاں سے ہمارے لیے اناج مول لے آؤ تاکہ ہم زندہ رہیں اور ہلاک نہ ہوں ۔ سو یوسف کے دس بھائی غلہ مول لینے کو مصر میں آۓ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یوسف ملک مصر کا حاکم تھا اور وہی ملک کے سب لوگوں کے ہاتھ غلہ بیچتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوسف نے تو اپنے بھائیوں کو پہچان لیا تھا پر انہوں نے اسے نہ پہچانا۔‘‘(پیدائش 41 : 53 ، 54 اور 42: 1 تا 8)
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


101 ۔ وہ یوسف کو اس لیے نہیں پہچان سکے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس بھائی کو انہوں نے کنویں میں پھینک دیا تھا وہ مصر کا حکمراں ہو سکتا ہے اور چونکہ یوسف کو ان سے جدا ہوۓ ایک طویل مدت گذر چکی تھی اس لیے ان میں جو ظاہری تبدیلی ہوئی ہوگی اس کے پیش نظر بھی ان کے لیے پہچاننا مشکل تھا ۔


یوسف خوبرو تھے لیکن حسن یوسف کی نوعیت اگر واقعی ایک معجزہ کی ہوتی تو ان کے بھائی ان کو دیکھتے ہی پہچان لیتے لیکن ان کا نہ پہچانا ظاہر کرتا ہے کہ حسن یوسف کا جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے ۔


102 ۔ مصر میں چونکہ راشننگ سسٹم تھا اس لیے یوسف نے ان سے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کتنے افراد ہیں اور جب انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی ب یمین کا ذکر کیا ہوگا تو یوسف نے کہا ہوگا کہ آئندہ آؤ تو اس کو اپنے ساتھ لاؤ تاکہ تمہارے بیان کی تصدیق ہوجاۓ ۔ یہ قاعدہ کی بات تھی اور در اصل یوسف اپنے بھائی سے ملنا چاہتے تھے مگر ابھی راز فاش کرنا مناسب نہ تھا اس لیے انہوں نے قاعدہ کی بات بیان کی ۔ ساتھ ہی اپنی مہمان توازی وغیرہ کا بھی ذکر کیا تکہ انسیت بڑھے اور وہ رغبت مے ساتھ دوبارہ آئیں ۔


103۔ انہوں نے غلہ کی جو قیمت ادا کی تھی وہ یوسف کے حکم سے ان کے اسباب میں رکھ دی گئی ۔ یوسف چاہتے تھے کہوہ دوبارہ ان کے پاس آئیں اور مالی مشکلات ان کے لیے رکاوٹ نہ بنیں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


104 ۔ یعقوب(علیہ السلام ) کو اس سے پہلے یوسف کے معاملہ میں تلخ تجربہ ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے کہا کہ کیا اسی طرح تم پر اعتماد کر کے تمہارے ساتھ بن یمین کو بھیجوں ۔


بن یمین اگر چہ بڑا ہو گیا تھا مگر ان کا سوتیلا بھائی تھا جس کو وہ پسند نہ کرتے تھے اور اس وقت کے حالات میں ان کے ساتھ بیرون ملک بھیجنا پڑے اندیشہ کی بات تھی کہ معلوم نہیں یہ دس کا جتھا اس کے ساتھ کیا کر بیٹھے ۔


105 ۔ یوسف نے جو راشننگ سسٹم جاری کیا تھا اس کے مطابق بیرون ملک کے لوگوں کو فی کس ایک اونٹ کے بار کے بقدر غلہ دیا جاتا تھا اس لیے انہوں نے کہا کہ بن یمین کو ساتھ لے جانے کی صورت میں ہم ایک اونٹ کا مزید غلہ حاصل کرسکیں گے ۔


106 ۔ یعنی کوئی ایسی صورت پیش آ جاۓ کہ اس کی حفاظت کرنا تمہارے بس میں نہ ہو ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


107 ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصر کے باہر ایک فصیل رہی ہو گی اور اس کے کئی دروازے ہوں گے یعقوب(علیہ السلام ) نے یہ ہدایت انہیں اس لیے کی تاکہ ایک جتھے کی صورت میں مصر میں داخل ہونے پر ان کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جاۓ کہ معلوم نہیں جتھا کس غرض سے ملک میں داخل ہوا ہے ۔ شبہ اس وقت کے حالات کے پیش نظر لوٹ مار کا بھی کیا جاسکتا تھا اور جاسوسی کا بھی ۔


108 ۔ یعقوب (علیہ السلام) نے احتیاطی تدبیر تو بتا دی لیکن ساتھ ہی واضح کر دیا کہ کوئی تدبیر خواہ کتنی ہی صحیح ہو تقدیر اِلٰہی کے مقابل میں ہر گز کار گر نہیں ہوسکتی ۔ اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور ساری تدبیریں دھری کے دھری رہ جاتی ہیں ۔ اس لیے انسان کے بس میں جو بہتر سے بہتر تدبیر ہے وہ کرے مگر تدبیر کو سب کچھ نہ سمجھے بلکہ اللہ کی مشیت پر بھرسہ کرے کہ ہو گا وہی جو اللہ کو منظور ہے ۔


109 ۔ یعقوب علیہ السلام نبی تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں براہ راست علم بخشا تھا ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی تعریف فرمائی ہے کہ اگر چہ ان کی تدبیر تقدیر اِلٰہی کے مقابل کار گر نہ ہوسکی مگر تدبیر اپنی جگہ مناسب ہی تھی اور وہ اس علم کی بنا پر جو انہیں بخشا گیا تھا تدبیر اور تقدیر کا فرق جانتے تھے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


110 ۔ یعنی اکثر لوگ نہیں جانتے کہ انسانی تدابیر کے درمیان فیصلہ کن چیز قضاۓ اِلٰہی ہی ہے ۔ لوگ اپنی تدبیروں ہی پر ہوتا ہے اور جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو مایوس ہوجاتے ہیں ۔یہ حقیقت سے بے خبر ہونے کا نتیجہ ہے ۔


111۔ یعنی یوسف نے اپنے سگے بھائی بن یمین کو اپنپاس بلا کر چپکے سے بتایا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں ۔ اب تم اس سلوک پر افسوس نہ کرو جو یہ لوگ ہمارے ساتھ کرتے رہے ہیں ۔


112 ۔ یہ شاہی جام تھا اس لیے ضرور قیمتی رہا ہو گا اور غالباً یوسف نے وحی اِلٰہی سے اشارہ پاکر یہ تدبیر اختیار کی ہو گی کہ اس کو اپنے بھائی بن یمین کے سامان میں خاموشی سے رکھ دیا ۔ غالباً انہوں نے یہ بات بن یمین کے علم میں لائی ہو گی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada
113 ۔ پکارنے والا سرکاری افسر تھا اور اس کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ یوسف نے خود یہ پیالہ بن یمین کے سامان میں رکھا ہے اس لیے جب قافلہ کے روانہ ہو جانے پر پیالہ نہیں ملا تو سرکاری افسر نے یہ خیال کیا کہ جس قافلہ نے ہاں قیام کیا تھا ان ہی میں سے کسی نے اسے چرالیا ہے اس لیے وہ قافلہ کو تلاش کرتا ہوا گیا اور جب راستہ میں اس پا لیا تو اپنے گمان کی بنا پر ان لوگوں پر طوری کا الزام لگایا۔


114 ۔ یعنی قافلہ والوں نے سرکاری ملازمین (پولس) سے جو افسر کے ساتھ آۓ تھے پوچھا کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے ۔


115 ۔ سرکاری ملازمین (پولس)نے جب بتلایا کہ شاہی پیمانہ غائب ہو گیا ہے تو ان کے افسر نے اس بات کا اعلان کیا کہ جو شخص اس کو لا حاضر کرے گا اس کو ایک اونٹ غلہ انعام دیا جاۓ گا اور انعام دلوانے کا ذمہ دار میں ہوں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانہ بڑا قیمتی تھا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


116 ۔ یعنی برادران یوسف نے کہا ۔


117 ۔ یعنی سرکاری ملازمین نے کہا ۔


118 ۔ یعنی جس کے سامان میں چوری کی چیز نکل آۓ اس کو دھر لیا جاۓ اور اس کی آزادی سلب کر لی جاۓ۔


119 ۔ یعنی ہمارے ہاں چور کی سزا یہی قانون ہے ۔ اغلب ہے یہ قانون ابراہیم (علیہ السلام ) کی شریعت کا ہوگا ۔


120 ۔سرکاری افسران کو یوسف کے پاس لے آیا اور جب یوسف کی ہدایت کے مطابق ان کے سامان کی تلاشی لی گئی تو پیالہ بن یمین کی بوری میں نکل آیا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تلاشی خود یوسف نے لی ہو ۔


121 ۔ یوسف در اصل اپنے سگے بھائی بن یمین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے وجہ ظاہر ہے یہ رہی ہوگی کہ وہ اپنے اس کام میں جو ان کے سپرد ہوا تھاا پنے بھائی اپنا معاون بنانا چاہتے ہوں گے تاکہ مصر کی سوسائٹی کو اسلام سے قریب کرنے میں مدد ملے ۔ بن یمین ان کے بگڑے ہوۓ بھائیوں میں سے نہیں تھے بلکہ نیک کردار تھے
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اور انہوں نے ایک نبی (ان کے والد یعقوب علیہ السلام ) کے گھر میں تربیت پائی تھی اس لیے مصر میں ان کا قیام پیش نظر مقصد کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتا تھا ۔ چنانچہ یوسف کی شدید خواہش تھی کہ وہ ان کے پاس رہ جائیں لیکن یوسف اپنی شخصیت کو ابھی مصلحۃً اپنے بھائیوں پر ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے انہوں نے قافلہ کے ساتھ انہیں جانے دیا لیکن اللہ نے ایسی مخفی تدبیر کی کہ بن یمین یوسف کے پاس پہنچ گئے اور انہیں موقع ملائکہ راز کو افشاء کیے بغیر ان کو اپنے پاس رکھ لیں ۔


122 ۔ متن میں الفاظ فِی دِیْنِالمَلِک (بادشاہ کے دین میں ) استعمال ہوۓ ہیں ۔ دین کے اصل معنیٰ اطاعت کے ہیں اور یہاں یہ لفظ بادشاہ کے قانون کے معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ ابن جریر طبری نے اس کے معنٰی : فِی حُکم مَلِکِ مِصرِ وقضائِہٖ وَطاعتِہٖ منھم (مصر کے بادشاہ کے حکم، اس کے فیصلہ اور اس کی اطاعت میں ) یے ہیں ۔ (جامع
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


البیان ج 13 ص 17) جس وقت بن یمین کی گرفتاری کا معاملہ پیش آیا مصر میں بادشاہ کا قانون نافذ تھا اور ملکی قانون کی رو سے چوری کی سزا نظر بندی یا غلامی نہیں تھی بلکہ کوئی اور سزا تھی ۔ ہوسکتا ہے مار پیٹ یا جرمانہ کی سزا رہی ہو ۔ اگر اس سزا کو نافذ کیا جاتا تو اس سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا جو بن یمین کوروک لینے کی صورت میں حاصل ہوتا نیز اس صورت میں بن یمین کو بلا وجہ تکلیف بھی پہنچتی ۔ ظاہر ہے کہ بات انصاف کے خلاف تھی البتہ نظر بندی یا غلامی کی سزا محض صورۃً سزا تھی حقیقۃً نہیں ، کیونکہ یوسف نے ان کو محض اپنے پاس روک لیا تھا اور خود بن یمین سمجھ رہے تھے کہ یہ کوئی سزا نہیں ہے بلکہ مجھے روک لینے کی ایک لطیف تدبیر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی گرفتاری کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کی ۔ الغرض بادشاہ کا جو قانون مصر میں رائج تھا اس کی رو سے یوسف بن یمین کو سزا تو دے سکتے تھے لیکن اپنے پاس روک کر رکھ نہیں سکتے تھے ۔ البتہ اللہ کی مشیت ایسی صورت پیدا کر سکتی تھی کہ وہ ان کو روک لیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا کر دی اور یوسف کے لیے بن یمین کو روک لینا آسان ہو گیا ۔ چونکہ بن یمین کا تعلق ملک کنعان سے تھا اس لیے عجب نہیں کہ بین الاقوامی قاعدہ یہ رہا ہو کہ مجرم جس ملک کا باشندہ ہو اس پر اسی ملک کے قانون کو نافذ کیا جاۓ ۔ اس طرح بن یمین پر شریعت ابراہیم کا قانون نافذ ہوگیا جو ہر لحاظ سے مناسب تھا ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


اس آیت کے تعلق سے کچھ سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ، مگر طوالت کے خوف سے ہم تفصیل میں نہ جاتے ہوۓ چند ضروری وضاحتوں پر اکتفا کرتے ہیں :


(1)آیت کے الفاظ :’’مَا کانَ لِ ‘‘قرآن میں ‘‘ اس کے شایان شان نہیں ‘‘ یا ’’ اس کا یہ کام نہیں ‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوۓ ہیں اور قدرت نہ رکھنے یا کر نہ سکنے کے معنی میں بھی ۔ پہلے معنی کی مثال مَا کانَ لِلہِ اَنْ یَّتَّخِذَمِنْ وَّ لَدٍ (مریم 35 ) ’’ اللہ کے شایان شان نہیں (یا اللہ کا یہ کام نہیں ) کہ کسی کو بیٹا بناۓ‘‘ اور دوسرے معنی کی مثال :وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْ نِ اللہ (آل عمران 145) ’’ کوئی نفس اللہ کے اذن کے بغیر مر نہیں سکتا ‘‘ ہے ۔ زیر تفسیر آیت میں چونکہ اِلّا نحوی اصطلاح میں استثناء منقطع ہے یعنی ’’مگر‘‘ یا ’’البتہ‘‘ کے معنی میں ہے اس لیے نحوی لحاظ سے یہاں قدرت نہ رکھنے یا اختیار نہ رکھنے کے معنی موزوں ہو رہے ہیں یعنی یوسف بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو رکھ نہیں سکتے تھے بالفاظ دیگر ان کو اختیار نہیں تھا کہ وہ اپنے بھائی کو رکھ نہیں سکتے تھے بالفاظ دیگر انکو اختیار نہیں تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک رکھیں ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


(2) ابراہیم علیہ السلام کو جو شریعت دی گئی تھی وہ محمل احکام پر مشتمل تھی ۔ تفصیلی احکام بعد میں موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی شکل میں نازل ہوۓ اس لیے یوسف علیہ السلام کے مصر میں حکومت کے باگ ڈور سنبھالنے پر ا یسی صورتیں بہت کم پیش آئیہوں گی کہ شریعت کے قانون کو نبھانا ان کے لی مشکل ہوا ہوگا ۔ ظاہر ہے اس وقت مباحات کا دائرہ زیادہ وسیع تھا اور جہان شرعی قانون خاموش ہوگا وہاں یوسف کے لی موقع ہوگا کہ عدل و انصاف کے معروف تصورات کے مطابق احکام و قوانین جاری کریں اور جس حد تک ملک کے رائج قوانین عدل و انصاف پر مبنی ہوں گے ان کے نفاذ میں کوئی شرعی مانع بھی نہیں رہا ہوگا ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کا معاشرہ اسلام سے نا آشنا تھا لیکن جس نے یوسف کو مملکت کا سربراہ تسلیم کر لیا تھا ملک کی اجتماعی زندگی میں بہ تدریج ہی تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

’’ اور اس باب سے (یعنی ولایت کے کسی شخص خاص کے حق میں واجب ہونے کے تعلق سے ) یوسف صدیق کا شاہ مصر کے لیے ملک کے خزانوں پر حکمراں ہونا ہے ۔ جبکہ بادشاہ اور اس کی قوم کافر تھی جیسا کہ آیت : وَلَقَدْ جَا ءَ کُمْ یُوسُفُ مِنْ قَبْلُ با لبَیِّنَاتِ فَمَا زِ لْتُمْ فِیْ شکٍّ مِمَّا جَاءَ کُمْ بِہٖ (اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس رودن دلائل کے ساتھ آۓ تھے مگر جو ہدایت لے کر وہ آۓ تھے اس کے بارے میں تم شک ہی میں مبتلا رہے ۔۔۔۔(سورہ مومن 34) نیز آیت : أاَرْبَا بٌ مُتَفَرِّ قُوْنَ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ (کیا متفرق رب بہتر ہیں یا ایک اللہ ۔ ۔ ۔ الخ سورہ یوسف 39) سے واضح ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کفر کے ساتھ مال وصول کرنے اور اس کو بادشاہ کے خواص ، اس کے اہل و عیال ، فوج اور رعیت پر خرچ کرنے کے سلسلہ میں ان کے مخصوص طور طریقے لازماً رہے ہوں گے اور یہ طور طریقے انبیاء کے طریقہ اور ان کے عدل و انصاف سے مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے ۔ لیکن یوسف کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جو چاہتا یعنی جو بات بھی اس کی نگاہ میں اللہ کے دین سے تعلق رکھنے والی ہوتی کر گزرتا
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada


کیوں کہ قوم نے اس کی دعوت قبول نہیں کی تھی ۔ تاہم یوسف نے جس قدر ممکن تھا عدل و احسان کو روبہ عمل لایا اور اقتدار کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ اور یہ سب باتیں ارشاد اِلٰہی فَاتَّقُو االلہ مَا اسْتَطَعْتُمْ (اللہ سے ڈرو جتنا تمہارے بس میں ہو ۔ سورہ تغابن 16) میں شامل ہیں ۔ لہٰذا جب دو واجب باتوں میں ٹکراؤ ہوجاۓ اور دونوں کو جمع کرنا ممکن نہ ہو تو جو بات زیادہ مؤکد ہو اس کو مقدم رکھا جاۓ ۔ ایسی صورت میں دوسری بات واجب نہیں رہے گی اور نہ اس کا ترک کرنے والا زیادہ مؤکد بات کو زیر عمل لانے کی وجہ سے فی الحقیقت کسی واجب کو ترک کرنے والا قرار پاۓ گا ۔‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج 20 ص 56)


(3) یوسف مصر کے حاکم تھے اس لیے اگر وہ چاہتے تو اپنے والد سے ربط پیدا کرسکتے تھے لیکن چونکہ وہ نبی بھی تھے اس لیے وحی اِلٰہی کے مطابق ہی کوئی قدم اٹھا سکتے تھے اور خدائی منصوبہ یہ تھا کہ ابھی بات پردہ راز میں رہے اور یوسف اپنی اصل شخصیت کو اس وقت اپنے بھائیوں پر ظاہر کریں جب ان کے دل گرفتار بلا ہونے کے نتیجہ میں پسیج گئے ہوں تاکہ وہ اصلاح قبول کر لیں ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ جو لوگ نصیحت سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے وہ
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

ہیں انہیں حالات کے تھپیڑے ہی جگا دیتے ہیں ۔اگر یوسف کے بھائی ہوش مند ہوتے تو وہ اپنے والد کے زیر تربیت رہ کر بہترین انسان بن سکتے تھے مگر جب انہون نے باپ کی رہنمائی کے باوجود غلط طرز عمل اختیار کیا تو اب ان کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ وہ ٹھوکریں کھائیں تاکہ ان میں پنے غلط طرز عمل کا احساس پیدا ہو ۔ خدا کی یہی مصلحت تھی جس نے ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ ان کی نظر کے زاویئے بدل گیے اور جب ان کی نظر کے زاویۓ بدل گئے تو جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا ان کی دنیا ہی بدل گئی ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

(4) یوسف نے اپنے بھائیوں کے سلسلہ میں جو تدبیر یا حکمت عملی اختیار کی اس کا تعلق اصلاح احوال سے ہے ۔ انہوں نے جو کچھ کیا اس میں نہ جھوٹ کی آمیزش تھی اور نہ ظلم و زیادتی کی بات تھی بلکہ نیت کی پاکیزگی کے ساتھ اور ایک اہم مقصد کی خاطر بعض ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں جو صورۃً کچھ دیر کے لیے ایک غلط تاثر پیدا کرنے والی تھیں لیکن نتائج کے اعتبار سے وہ درست تھیں ۔ اس لیے یوسف کی اس حکمت عملی کو ’’ شرعی حیلوں ‘‘ کا عنوان دینا اور ناجائز کاموں کو جائز کرنے کے لیے ’’کتاب الحیل‘‘ کھول کر بیٹھ جانا اپنے کو مغالطہ میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ۔ شریعت کی راہ راست بازی کی راہ ہے جس میں اس بات کی تو گنجائش ہے کہ ضرورۃً حکمت عملی اختیار کی جاۓ لیکن حیلے بہانے کرکے حرام کو حلال کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔

123 ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جب یوسف نے اللہ کے بخشے ہوۓ علم کی بنا پر حسن تدبیر اور حکمت عملی کا طریقہ اختیار کیا اور حکومت و سیاست کے معاملہ میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات بلد کر دیے ۔
 

Pari

(v)i§§· ßµølï ßµð£ï¨
VIP
Mar 20, 2007
46,142
19,780
1,313
Toronto, Canada

124 ۔ یہ ایک بر محل تنبیہ ہے ہر صاحب علم کے لیے کہ اس کو اپنے علم کا غرہ نہ ہو بلکہ یہ اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کے اوپر ایک بالا تر ہستی ایسی ہے جس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ کوئی شخص کتنا ہی بڑا علامہ کیوں نہ ہو اس کا علم اللہ کے علم کے آگے ہیچ ہے ۔

125 ۔ جب بن یمین کی بوری سے پیالہ برآمد ہوا اور برادران یوسف سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو فوراً بن یمین کے سگے بھائی یوسف پر یہ الزام لگا دیا کہ اس سے پہلے وہ بھی یہ حرکت کر چکا ہے تو تعجب کی بات نہیں یہ یوسف ہی کا بھائی ہے ۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس شخص کے سامنے اتنا بڑا جھوٹ بول رہے ہیں وہ خود یوسف ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ یوسف کے بارے میں اب تک کیسے غلط جذبات اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ تھے ۔

126 ۔ جو شخص ایک بے گناہ پر جھوٹا الزام لگاتا ہے وہ اپنے آپ کو گراتا ہے اور اپنے برے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔
 
Top