Qabaron Me Insani Zindagi ??

  • Work-from-home

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
@hoorain sis jawab to tab dein na
jab sawal tareeqe ke hon sub se pehle
agar inhen discussion karni hai
to thread parhen aur thread me maujood
sawalaat ke jawabaat dein uske baad
ye jawab ki umeed rakh sakte hain usse
pehle to nahin .
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
@Fitna e Dil k reply k baad dekhti hun!
agar wo aur baqi sab interested hain sawalon ka jawab authentically daine aur laine k to theek hay ,,warna agar sirf aik dusre ko ghalat sabit karne k liye aise sawal-o-jawa huye to koi maqsad nhi aap logon ki disucssion ka,,aur bemaqsad discussion thread may nhi rhegi![DOUBLEPOST=1348399917][/DOUBLEPOST]@S_ChiragH aik kaam karain aap

first post may jo dusi books k references quote kiye hain unhe delete karwayain!
Quran paak aur ahadith k references rehne dain baqi edit karwayain !
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
Oops okay u can delete them siso /:)
lekin ab agar bina daleel wali post
delete na huwi to me naraz ho jaunga /:) :p

@hoorain sis
theek
next time bhi dusri books ya writers k naam se quote mat kariyega :)
baqi sab members bhi next time ab yahan koi ebhas nhi honi chahiye
jis ne baat karni hay FIrst Post parh kar karain
@Fitna e Dil
@DuFFer
@i love sahabah
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
lekin acording to topic ayenge to yehi sawal paida hojata hai ke qabar main leta hoa murda zameen per chalne phirne wale zinda insan se koi talluq kaise rakh sakta hai?koi pukaar kaise sun sakta hai or pukaar sun ker us zinda insan ki koi madad kaise kar sakta hai jabke apki ahadees ki roshni main hi yeh bat sabit ho rhi hai ke woh murda sirf apne amaal ka hisab deta hai or sirf apne amaal ki hi wajah se saza o jaza ka mustahiq paya jata hai?
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں
اس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔
میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔
یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔
البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکار
اب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔
نوٹ
بزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔
[DOUBLEPOST=1348514382][/DOUBLEPOST]
aap logon k sawal-o-jawab hmmm
Continue hi rakhna hay to ab sequence may chlain!
@Fitna e Dil pehle @DuFFer ne above post may kuch sawalaat pooche hain pehle un k jawab dain aap Quran-ohadith ki roshni may...
phir @S_ChiragH aap in k jawab dain quran-o-hadith ki roshni may

phir @Fitna e Dil aap mazeed kuch kehna chahain to bolain Quran-o-hadith ki rroshni may

Quran-o-hadith k ilawa koi bhi kisi ka bhi NAam aaya to wo post delet hogi!

Is sequence pe chalne ko aap sab tyar hain to aapki discussion continue karne ki permission deti hun otherwise aapki ye bhi aur sabki agli posts delete hongi
aur @Fitna e Dil aap ne meri ye baat teesri dafa ignore ki hay ...kheriyat?
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔
آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عقیدہ جس پر حدیث پیش کی جاتی ہے اور ایک ہوتا ہے عقیدے کی تفصیل جس کو قرآن، حدیث، صحابہ کرام، مفسرین، محدیثین، فقہا کرام سے ثابت کیا جاتا ہے کیوں نکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں بلکہ اہم اور بنیادی عقائید کا بیان ہے اسی طرح حدیث مبارکہ کو سمجھنے کےلئے بھی اسلاف کے اقوال کی ضرورت ہوتی ہے اپنی من مانی تشریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو کہیں بھی ایسا لگا کہ میں نے آپ کی بات کو اگنور کیا ہے تو اس کے لئے معاذرت۔ لیکن اپنی اس پوسٹ میں، میں نے صرف حدیث مبارکہ پیش کی ہیں
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں
اس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔
میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔
یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔
البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکار
اب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔
نوٹ
بزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔
[DOUBLEPOST=1348514382][/DOUBLEPOST]
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔
آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عقیدہ جس پر حدیث پیش کی جاتی ہے اور ایک ہوتا ہے عقیدے کی تفصیل جس کو قرآن، حدیث، صحابہ کرام، مفسرین، محدیثین، فقہا کرام سے ثابت کیا جاتا ہے کیوں نکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں بلکہ اہم اور بنیادی عقائید کا بیان ہے اسی طرح حدیث مبارکہ کو سمجھنے کےلئے بھی اسلاف کے اقوال کی ضرورت ہوتی ہے اپنی من مانی تشریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو کہیں بھی ایسا لگا کہ میں نے آپ کی بات کو اگنور کیا ہے تو اس کے لئے معاذرت۔ لیکن اپنی اس پوسٹ میں، میں نے صرف حدیث مبارکہ پیش کی ہیں
YAhan abhi Quran-o-hadith se hi baat kar saktey hain q k authentic hain sahih bukhari sahih muslim and Quran paak,,,is k ilawa kisi bhi hawaley se baat hogi to us may behas ki bohat gunjaysh hay,,is liye apa sab avoid karain!
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں
اس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔
میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔
یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔
البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکار
اب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔
نوٹ
بزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔
[DOUBLEPOST=1348514382][/DOUBLEPOST]
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔
آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عقیدہ جس پر حدیث پیش کی جاتی ہے اور ایک ہوتا ہے عقیدے کی تفصیل جس کو قرآن، حدیث، صحابہ کرام، مفسرین، محدیثین، فقہا کرام سے ثابت کیا جاتا ہے کیوں نکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں بلکہ اہم اور بنیادی عقائید کا بیان ہے اسی طرح حدیث مبارکہ کو سمجھنے کےلئے بھی اسلاف کے اقوال کی ضرورت ہوتی ہے اپنی من مانی تشریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو کہیں بھی ایسا لگا کہ میں نے آپ کی بات کو اگنور کیا ہے تو اس کے لئے معاذرت۔ لیکن اپنی اس پوسٹ میں، میں نے صرف حدیث مبارکہ پیش کی ہیں

Pehli baat is hadeeth ki kitab ka jaameh koun tha ??
kis ne yeh hadeeth apne kitab me naqal ki ??
khair agar aapke hisab se yeh hadeeth sach me hadeeth hi hai
to iska arabic matan aur iski sanad peish karen taake hum jawab dein .
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں
اس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔
میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔
یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔
البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکار
اب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔
نوٹ
بزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔
mujhe apki start wali baaty boht hi pyaari lagi ke haq woh hai jo jamhur ke sath or hadith se sabit hai lekin jo hadith apne hazrat jabir rz ki riwayat se batayi us hadith ka apne koi reference hi nhi dya ke banda tasdeeq hi krle
jabke jis hadith ka apne reference dya hazrat anas rz ki riwayat se to phir woh hadith hi nhi batayi apne ke banda koi sabaq hi seekh le
jabke hazrat umer faroq rz ke jis waqia ko apne daleel kaha us waqie ke sacha hone ki koi daleel hi pesh nhi ki apne jabke aise karamati waqiat to sms per bhi boht ghoom rahe hote hain lekin inki tasdeeq kisi bhi islami authentic book se nhi hoti
to plz ap mujhe sirf yeh bata di jiye ke woh banda jo haq janna chah rha ho woh quran ki us ayat per yaqin kare jo surat name or ayat number ke sath pesh ki jati hai ya us hadith per yaqin kare jo complete reference se yahan tak ke hadith number tak bata ker pesh ki jati hai
ya phir us hadith per yaqin kare jiska reference hi nhi dya jata ya aise reference per hi yaqin karle ke jis per hadith hi nhi batayi jati ya phir aise waqiaat per yaqin karle ke jinke mangharat na hone ki koi tasdeeq hi nhi hoti?
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
mujhe apki start wali baaty boht hi pyaari lagi ke haq woh hai jo jamhur ke sath or hadith se sabit hai lekin jo hadith apne hazrat jabir rz ki riwayat se batayi us hadith ka apne koi reference hi nhi dya ke banda tasdeeq hi krle
jabke jis hadith ka apne reference dya hazrat anas rz ki riwayat se to phir woh hadith hi nhi batayi apne ke banda koi sabaq hi seekh le
jabke hazrat umer faroq rz ke jis waqia ko apne daleel kaha us waqie ke sacha hone ki koi daleel hi pesh nhi ki apne jabke aise karamati waqiat to sms per bhi boht ghoom rahe hote hain lekin inki tasdeeq kisi bhi islami authentic book se nhi hoti
to plz ap mujhe sirf yeh bata di jiye ke woh banda jo haq janna chah rha ho woh quran ki us ayat per yaqin kare jo surat name or ayat number ke sath pesh ki jati hai ya us hadith per yaqin kare jo complete reference se yahan tak ke hadith number tak bata ker pesh ki jati hai
ya phir us hadith per yaqin kare jiska reference hi nhi dya jata ya aise reference per hi yaqin karle ke jis per hadith hi nhi batayi jati ya phir aise waqiaat per yaqin karle ke jinke mangharat na hone ki koi tasdeeq hi nhi hoti?
حدیث کا حوالہ
ابوداود طیالسی کی حدیث ہے، اور مسند احمد میں بھی حضرت انس کے طریقہ سے بھی روایت کیا ہے
اس مضموں کی کئی ااحادیث شرح الصدور میں مرفوعاََ موجود ہیں اس کے علاوہ امام غزالیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب احیاء العلوم جلد 4 میں بھی اس مضمون کی حدیث پیش کر کے عرض اعمال پر استدلال کیا ہے۔
[DOUBLEPOST=1348676354][/DOUBLEPOST]
Pehli baat is hadeeth ki kitab ka jaameh koun tha ??
kis ne yeh hadeeth apne kitab me naqal ki ??
khair agar aapke hisab se yeh hadeeth sach me hadeeth hi hai
to iska arabic matan aur iski sanad peish karen taake hum jawab dein .
ان سب باتوں کا جواب آپ نے دینا ہے اگر آپ کو اس حدیث پر اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی حدیث کا موجود ہیں جو عزاب قبر کے بارے میں ہیں کیا آپ اپنا عذاب قبر کے دوران روح اور جسم کا آپس میں تعلق مانتے ہیں؟
اس کے علاوہ میں نے عرابی والا واقع بھی ذکر کیا آپ نے اُس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ تسلی سے پوسٹ کر پڑھ لیں پھر ایک ایک کر کے جو دلائیل دئے ہیں جراح کریں۔
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
حدیث کا حوالہ
ابوداود طیالسی کی حدیث ہے، اور مسند احمد میں بھی حضرت انس کے طریقہ سے بھی روایت کیا ہے
اس مضموں کی کئی ااحادیث شرح الصدور میں مرفوعاََ موجود ہیں اس کے علاوہ امام غزالیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب احیاء العلوم جلد 4 میں بھی اس مضمون کی حدیث پیش کر کے عرض اعمال پر استدلال کیا ہے۔
sir jee abu daod or masand e ahmed kafi jamey kitaben hain main kaise dhondonga is hadith ko un books main ap mujhe jild number and hadith number b to btayen na main apna aqidah change karne ja rha hon islaam se related apni thinking change krne ja rha hon to mera yeh haq banta haina main apki batayi hoi hadith ki tasdeeq b karun
 

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
sir jee abu daod or masand e ahmed kafi jamey kitaben hain main kaise dhondonga is hadith ko un books main ap mujhe jild number and hadith number b to btayen na main apna aqidah change karne ja rha hon islaam se related apni thinking change krne ja rha hon to mera yeh haq banta haina main apki batayi hoi hadith ki tasdeeq b karun
سکین پیجر دیکھ لیں۔
1.jpg
2.jpg
[DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
 

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
سکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084
[DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
thank you very much mujhe bas yehi janna tha or yeh hadees hi is bat ko sabit karti hai ke hamare amaal hamare fotzadah logon ke samne rakhe jate hain yani woh hamare amaal dekh rahe hote hain ache hote hain to khush b hote hain or bure hote hain Allah se dua bhi karte hain ke Allah inhe b hidayat de jis tarha hamen hidayat ata farmayi
theek yehi hadees haina?
to mere bhai is hadees main qabar ka lafz to kahin istimal hi nhi hoa phir qabar se mangna kahan sabit hoa?
is hadees main yeh b saaf saaf bata dya gaya ke jis tarha hamen hidayat di ussi tarha unhe bhi hidayat de to Allah jinko hidayat ke saath apne pas bula leta hai to ahadees ke hi mutabiq woh apni qabron main qayamat tak ke lye boht hi gehri neend so rhe hote hain or agar marne wala shahadat ki mout marta hai to woh direct jannat main chala jata hai or jannat main jane ke bad hi oper bayan ki gayi muslim bro ki hadees hi kafi thi

مسند احمد اور سنن ابو داود اور مستدرك حاكم ميں سعيد بن جبير رحمہ اللہ سے حديث مروى ہے وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے بھائى جنگ احد ميں شہيد ہوئے تو اللہ تعالى نے ان كى روحوں كو سبز پرندوں كے پيٹ ميں ركھ ديا، وہ جنت كى نہروں پر جاتے اور جنت كے پھل كھاتے اور پھر عرش كے سائے ميں لٹكى ہوئى سونے كى قنديلوں ميں آ كر رہتے ہيں، جب انہوں نے اپنے رہنے چلنے پھرنے كى جگہ اور كھانا پينا حاصل كر ليا تو وہ كہنے لگے: ہمارى جانب سے ہمارے بھائيوں كو كون خبر ديگا كہ ہم جنت ميں زندہ ہيں اور ہميں رزق ديا جا رہا ہے، تا كہ وہ لڑائى اور جنگ ميں سستى اور كاہلى نہ دكھائيں، اور جھاد سے پيچھے نہ رہيں، تو اللہ نے فرمايا:
ميں تمہارى جانب سے انہيں خبر دونگا، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
﴿ اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس روزياں ديے جاتے ہيں ﴾.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1379 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے
to yeh bat to hum sab already hi jante haina ke Allah jinko dunya main hidayat deta hai or phir hidayat ke sath hi mout ata farmata hai to woh Allah ke pasandidah bande hote hain jinhe Allah apni nematon se b nawazta hai or woh log dunya main zindagi guzarne walon ke halaat bhi dekh rhe hote hain or afsos b kr rhe hote hain ke kaash Allah unhe b hidayat ata farmaye or woh log bhi marne ke bad Allah ke ghazab or azaab se bach saken or hamari tarha Allah tala ki nematen hasil kar saken lekin baat ghom pheer ke wahin ajati hai yar ke qabar main leta hoa insan ke jiske amal ke bare main hum jante hi nhi hamen pta hi nhi ke is ke sath qabar main kya horha hai isse azab dya ja rha hai ya ajar dya ja rha hai azab to kher qabar se hi start ho jata hai coz ahadeeson ki roshni main qabr ke azaabon ke bare main bhi bataya gaya lekin ajar to jannat main dya jata haina so agar woh naik banda b hoa to woh qabar main to mojod hi nhi hoa woh to jannat main hoa phir qabar se mangne ka kya matlab bana?[DOUBLEPOST=1348948397][/DOUBLEPOST]
سکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084
[DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
thank you very much mujhe bas yehi janna tha or yeh hadees hi is bat ko sabit karti hai ke hamare amaal hamare fotzadah logon ke samne rakhe jate hain yani woh hamare amaal dekh rahe hote hain ache hote hain to khush b hote hain or bure hote hain Allah se dua bhi karte hain ke Allah inhe b hidayat de jis tarha hamen hidayat ata farmayi
theek yehi hadees haina?
to mere bhai is hadees main qabar ka lafz to kahin istimal hi nhi hoa phir qabar se mangna kahan sabit hoa?
is hadees main yeh b saaf saaf bata dya gaya ke jis tarha hamen hidayat di ussi tarha unhe bhi hidayat de to Allah jinko hidayat ke saath apne pas bula leta hai to ahadees ke hi mutabiq woh apni qabron main qayamat tak ke lye boht hi gehri neend so rhe hote hain or agar marne wala shahadat ki mout marta hai to woh direct jannat main chala jata hai or jannat main jane ke bad hi oper bayan ki gayi muslim bro ki hadees hi kafi thi

مسند احمد اور سنن ابو داود اور مستدرك حاكم ميں سعيد بن جبير رحمہ اللہ سے حديث مروى ہے وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے بھائى جنگ احد ميں شہيد ہوئے تو اللہ تعالى نے ان كى روحوں كو سبز پرندوں كے پيٹ ميں ركھ ديا، وہ جنت كى نہروں پر جاتے اور جنت كے پھل كھاتے اور پھر عرش كے سائے ميں لٹكى ہوئى سونے كى قنديلوں ميں آ كر رہتے ہيں، جب انہوں نے اپنے رہنے چلنے پھرنے كى جگہ اور كھانا پينا حاصل كر ليا تو وہ كہنے لگے: ہمارى جانب سے ہمارے بھائيوں كو كون خبر ديگا كہ ہم جنت ميں زندہ ہيں اور ہميں رزق ديا جا رہا ہے، تا كہ وہ لڑائى اور جنگ ميں سستى اور كاہلى نہ دكھائيں، اور جھاد سے پيچھے نہ رہيں، تو اللہ نے فرمايا:
ميں تمہارى جانب سے انہيں خبر دونگا، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
﴿ اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس روزياں ديے جاتے ہيں ﴾.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1379 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے
to yeh bat to hum sab already hi jante haina ke Allah jinko dunya main hidayat deta hai or phir hidayat ke sath hi mout ata farmata hai to woh Allah ke pasandidah bande hote hain jinhe Allah apni nematon se b nawazta hai or woh log dunya main zindagi guzarne walon ke halaat bhi dekh rhe hote hain or afsos b kr rhe hote hain ke kaash Allah unhe b hidayat ata farmaye or woh log bhi marne ke bad Allah ke ghazab or azaab se bach saken or hamari tarha Allah tala ki nematen hasil kar saken lekin baat ghom pheer ke wahin ajati hai yar ke qabar main leta hoa insan ke jiske amal ke bare main hum jante hi nhi hamen pta hi nhi ke is ke sath qabar main kya horha hai isse azab dya ja rha hai ya ajar dya ja rha hai azab to kher qabar se hi start ho jata hai coz ahadeeson ki roshni main qabr ke azaabon ke bare main bhi bataya gaya lekin ajar to jannat main dya jata haina so agar woh naik banda b hoa to woh qabar main to mojod hi nhi hoa woh to jannat main hoa phir qabar se mangne ka kya matlab bana?
 

marib

Super Star
Sep 21, 2012
9,146
3,947
513
aasman
Bismillahir rahmanir raheem
Assalaamu alaikum TM jese ke aaj se pehle humare thread lagane ka maqsad
kabhi kisi ki dil azaari nahin thi wese hi aaj bhi hum kisi ke dil dukhane ke liye
yahaan haazir nahin hain balke kuch aisi baaten jinhein ISLAM ka chola pehne
yahood o nassaara se paise wasool kar kuch bad kaar ULMA kehlane wale
ISLAM ka hissa bana dete hain jo dar asal ISLAM to door ki baat INSANIYAT
ke taur se bhi aqal me nahin bethtin wese tamaam jahilana nuqton aqeedon
me se eik bara nuqta hai Qabaron me zindagi bohot se behek kar behka
dene wale ise ISLAMI aqeeda qaraar dete hain ke jo ANBIA o AULIA a.s hain
wo marte nahin bas makaan badal lete hain unhein qabar mein wahi zindagi
naseeb hoti hai jo jesi yahan hum jee rahe hain aur koi yahan aa kar yeh na
keh de na samajh le ke CHIRAGH apni taraf se bol raha hai

dalaiyl to kutub se is mutabiq mazeed bhi beshumar hain lekin humara kaam
kisi ki buraaiy nahin kisi ko kousna nahin balke sach ko aage lana hai aur
jab yeh baat saamne aa gaiy ke yeh mangharat aqeeda waqaiy me
MUSALMAANON me phelaya ja chuka hai woh bhi jo buzargaan e deen
kehlate hain dar asal hain nahin wo loug phela gaye so ab
sub se pehle dekhte hain kya is baat ki ISLAM me koi daleel hai so jawab
hai haan ji eik ayat hai lekin bina tafseer ke parhiyega kyunke uske tafseer
mein jayengen jo khud RasoolALLAH saww ne bayan farmaiy hai so
is aqeede ke khilaf hai jaati hai naa chalen humen bhi is aqeede
ke khilaf hi jaana hai kyunke hum adhoori baat samajhne wale
deen ko apni marzi se phirane wale nahin balke mukammal QURAN SHAREEF
mukammal taur se ahadees per yaqeen o aetmaad karne wale hain
so us ayat aur uski tafseer ko dekh lein ?? us ayat ka tarjuma kuch youn hai
jo loug ALLAH ki raah me maare jayen inhein murda na kaho
balke woh zinda hain apne RAB ke haan rizq paate hain
ab eik aam se MUSALMAAN ke zehen me is ayat se yehi baat
bethegi ke wo zinda to hain per apne RAB ke haan matlab
jannat mein theek ?? lekin kuch loug iski tafseer karte hain
ke iska matlab hai qabaron me zinda hain aur dunya me
yahan wahan har jageh chaahen aate jaate rehte hain
to phir janab daawa agar tafseer per karna hai so ye to aapki
tafseer aur soch hai MOHAMMDUR RASOOLULLAH saww
ne kya farmaya is ayat ke mutaliq uspe ghour dein ??
ABDULLAH ibn e masood r.a se QURAN ki eik ayat ke baare me poocha ke
jo loug ALLAH ki raah me maare jayen inhein murda na kaho
balke woh zinda hain apne RAB ke haan rizq paate hain so farmaya
hum ne is ayat ke baare mein RasoolALLAH saww se poocha
to aap saww ne farmaya shaheedon ki roohein sabz parindon
ke kaaghaz ke andar kandeenon me latki rehti hain
jo arsh e ILAHI se latki huwi hain jannat me jahan chahti
khaati hain peeti hain urti hain
Sahih Muslim
bohot se mufassireen ne is hadees ko apne tafseer mein
peish kiya is ayat ke saath aur ab dekhte hain kya aqal me
ye baat bethti hai ya phir zehen me bohot se sawaal aa jate hain
ye sochne se ke qabar me wese zindagi Anbiya o Auliya a.s ko
naseeb hai jese humen qabboor ke bahir naseeb hai
1...Agar Anbiya a.s ko mout aani hi nahin hoti
to eik hi Nabi na aate aur ta qayamat tak wahi
Nabi hote doosre Nabi ki phir haajat hi nahin honi thi
2...Agar Anbiya a.s qabaron me zinda hain iska
zikr kahaan aaya hai ??
3...Agar Aulia o Anbia a.s marte hi nahin so inhein
dafnaya kyun jaata ??
4...Agar Anbiya o Aoliya a.s apne qabboor mein zinda hain
to apni roohon ki wajah se matlab ke unki roohein
jannat me araam farma nahin hain ?? barzakh mein nahin hain ??
balke 6-7 feet ke qabar ke andar wo aise zinda hain
jese is dunya mein zinda the ??
5...Agar woh apne qabboor mein zinda hain so inhein khaane peene
ki haajat bhi hoti hogi so behesht me behesht ka rizq hai
dunya ke liye dunyavi rizq hai qabar waalon ko kounsa rizq milta hai ??
6...Agar wo apne qabboor mein zinda hain to kitne dukhi hongen
kyunke zindagi ke bawajood apne ehbaab se dost o aal se door hain ??
7...Agar woh apne qabboor mein zinda hain so hum baahir walon
se qabar ke andar se baat kyun nahin karte ??
humen kyun nahin sunte ?? ya phir eik qabar wala doosre qabar
wale se hi baat kyun nahin karta ??
8...Agar Anbiya o Aulia a.s apne qaboor mein zinda hain
so iska matlab huwa ke NAUZBILLAH unhein ALLAH PAK
itni bari dunya ki zindagi se door kar ke 7 feet
ke qabar mein zindagi de kar saza yaafta kar rahe hain ??
kyunke abadi zindagi me banda eik poora din eik hi kamre me guzaar de
so woh tang aa jata hai so apne pyaare bandon ko ta qayamat
ALLAH PAK 7 feet ke andar kyunkar zinda rakhega ??
aise aqaaiyd walon ke aage yeh kehna ke Anbiya a.s har jageh aate jaate nahin
gustakhi ke barabar hai lekin dar haqeeqat yeh sochna ke wo dunya me
hain jahan chahen aayen jayen ye sochna gustakh hai wo is liye ke Anbiya a.s
o Aulia a.s ko ALLAH ki jannaton me bohot hi aala maqaam naseeb hota hai
jannat to is dunya se kaiin darja behetter hai Ibn e kaseer samet baaz mufassireen
ke mutabiq to ANBIYA a.s ke ijazat ke baad unke rooh e mubarak ko qabz kiya jata
so kyunkar apne is dunya se wisaal per raazi hone ke baad wo lauten dunya me ??
jabke jannat ki dunya behadd zabardast hai
is dunya se wahan beshumar azeem nematein hain
mazeed bhi bohot se aise aqwaal hain jinse saabit hai
ke baad e wisaal dunya me nahin aata koi bhi lekin filwaqt
ALHAMDULILLAH wa INSHA'ALLAH jitni baaten peish keen
jitne dalaiyl diye samajhne ke liye asaan hongen aur insha'ALLAH
humein in baaton ke zariye se naseehat o hidayat e haq naseeb hogi
ALLAH ta'ala ki jaanib se Ameen Sum Ameen .

g veer g bilkul theek bat hy,.,,.or zinda ho na is dunyan ki bat ni hy jnat man hi wo aala mukam par hin shuhda k liy kaha gay hy k wo khuda ki rah man foot hoy hin to un ko foot shudah na kaho,.,.,
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱

اس موضوع کو اگر آج کی امّت میں موجود تمام تر شرک و کفر کی جڑ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ لوگ ایک اللہ یعنی ایک مالک و معبود کو چھوڑ کر مردہ انسانوں کی قبروں، مزاروں اور آستانوں پر اسی لئے بھاگے پھرتے ہیں کہ انہیں انکے پسندیدہ فرقے نے یہی سمجھایا ہوتا ہے کہ قبروں میں مدفون یہ بڑے بڑے ناموں والے لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور پھر انہیں آگے اللہ تک پہنچاتے ہیں اور تمہارے لئے اللہ سےسفارش کرتے ہیں اور وسیلہ بنتے ہیں۔ امت میں موجود ان گنت فرقوں کے عقائد میں اس حوالے سے تھوڑا بہت فرق تو یقیننا ہے لیکن اصل فارمولا جو ان سب میں یکساں ہے وہ مرنے کے بعدروح کا زمینی قبر میں مدفون جسم میں قیامت سے پہلے لوٹا دیے جانے کا عقیدہ ہے۔ اسی باطل عقیدے سے تمام شرک و بدعت کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو کہا جائے گا کہ مردہ جسم میں روح واپس لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے اور سنتا ہے تو ظاہر ہے وہ مرنے والے کو مدد کے لئے پکاریں گے یا پھر اس سے دیگر قسم کی توقعات بھی وابستہ کر لیں گے۔ لیکن جب ہم اس عقیدہ کو قران و صحیح حدیث کی روشنی میں پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اس سے متعلقہ تمام عقائد باطل اور خود ساختہ ہیں جنہیں یہ فرقے قران و حدیث سے ثابت کرنے کی بجائے انکے حق میں اپنے نامی گرامی علماء کے فتوے لا کر ثابت کرتے ہیں - قران و حدیث کے خلاف گھڑے جانے والے عقائد و رسومات اور انہیں ایجاد کرنے واے لوگ سب طاغوت کے زمرے میں آتے ہیں جن کا رد کرنا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔
اسلام میں زندگی اور موت کا تصور بڑا ہی سیدھا ہے اور وہ یہ کہ جب روح اللہ کے حکم سے انسانی جسم کے ساتھ جڑ جائے تو اسے زندگی کہا جاتا ہے اور جب روح جسم سے علیحدہ ہو جائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ اس حوالے سے قران میں صرف دو زندگیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی پہلی زندگی وہ جب روح کو انسانی جسم سے جوڑا جاتا ہے اوراسکی پیدائش ہوتی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد حشر کے دن عمل میں آئے گی جب تمام انسانی جسم دوبارہ تخلیق کئے جائیں گے اور انکی ارواح واپس ان اجسام میں ڈال دی جائیں گی اور تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لئے جمع ہو جائیں گے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

تم الله کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔
سورة البقرہ، آیت ۲۸

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو بار موت دی اورتو نے ہمیں دوبارہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا پس کیا نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے۔
سورة غافر، آیت ۱۱

سو قران ہمیں بتاتا ہے کہ عالم دنیا میں زندگی کا معاملہ کیسا ہے اور اسی طرح موت کے بعد تمام ارواح کو ، چاہے وہ اچھے انسانوں کی ہوں یا بروں کی، انہیں ایک آڑ کے پیچھے لے جایا جاتا ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں اور اس عالم سے روح کی اپنے جسم میں واپسی صرف اور صرف قیامت یا روز حشر ہی ممکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے۔
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔
سورۃ المومنون ۱۰۰

لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ مردہ انسان کی روح کا قیامت سے پہلے اپنے مدفون جسم میں لوٹ آنے کا یہ عقیدہ قران کے خلاف ہے۔ یہ اسلئے کہ تمام ارواح قیامت تک عالمِ برزخ میں رہیں گی چاہے یہ نیک انسانوں یعنی شہداء ، انبیا ء اور مومنین کی ارواح ہوں اور چاہے بدکاروں کی ارواح ہوں۔ سب کو انکے دنیاوی اعمال کا اچھا یا برا بدلہ عالم ِبرزخ میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور قیامت کے بعد اس ثواب یا عذاب میں مزید زیادتی کردی جائے گی۔
یہی ثواب یا عذاب راحتِ قبر یا عذابِِ قبر کہلاتا ہے۔
لہذا یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ یہاں قبر سے مراد وہ زمینی گڑھا نہیں جہاں مردے کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اس سے مراد موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کا وہ دور ہے جسے برزخی زندگی یا عالمِ برزخ کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔
برزخ کی یہ زندگی یا دورانیہ کسی بھی طرح سے اس دنیاوی زندگی جیسا نہیں ہے یعنی دنیاوی زندگی پر اس کا قیاس ممکن نہیں۔ یہ آخرت کے حوالے سے دیگرچند معاملات کی طرح ہے جنہیں ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے قران و حدیث میں بہت محدود معلومات دی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں احادیث میں بیان کی گئی معلومات پرہی انحصار کرنا پڑتا ہے اوراس معاملے میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم نہ تو اپنی سوچ لڑائیں اور نہ ہی احادیث کو اوپر بیان کئے گئے قرانی احکام سے علیحدہ کرکے انکی تشریح کریں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر موجود تمام صحیح احادیث کو قرانی احکام اور پھر اس موضوع پر موجود دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں ہی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ اسلئے کہ قران میں موت کے بعد کی زندگی یا اس کے معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں جیسا کہ اللہ تعالٰی قرآن میں شہداء کے بارے میں یہی ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَا

تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں انکی زندگی کا شعور نہیں۔
سورة البقرہ، آیت ۱۵٤

ثابت ہوا کہ ہمارے لئے اایک ایسے موضوع کا مکمل ادراک ہوناممکن ہی نہیں جب قران نے خود بتا دیا کہ ’’تمہیں اس کا شعور نہیں‘‘ سو ایک بار پھر ہمیں اتنی بات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جتنی ہمیں بتا دی گئی۔ اسی طرح قران میں شہداء کی زندگی کے حوالے سے ذیل کی آیت بھی ملتی ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاسرزق پا رہے ہیں ۔
سورة آل عمران ۱٦۹

اس طرح سے ہمیں بتا دیا گیا کہ شہداء ’’عندربھم‘‘ یعنی اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے مناسب ہے کہ ہم صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں کہ جب صحابۂ کرام نے شہداء کے حوالے سے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔
مسروق نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے قران کی اس آیت ’’اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہےہیں‘‘ (سورۃ آل عمران ۱٦۹ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہدا کی روحیں سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الٰہی سے لٹکی ھوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہدا نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں، اللہ تعالٰی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا مالک ہماری تمّنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔

صحیح مسلم جلد ۲

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح کو خاص قسم کے اڑنے والے جسم دیئے گئے ہیں اور وہ اپنی زمینی قبروں میں نہیں بلکہ جنتوں میں خوش و خرم ہیں ۔ اللہ تعالٰی ان سے کلام فرماتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر تمہیں کسی اور چیز کی تمنا ہو تو بتاؤ لیکن جب وہ اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کے انکی روح کو واپس ان کے دنیاوی جسم میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت حاصل کریں تو مالکِ کائنات اس خواہش کے جواب میں اپنی سنت نہیں بدلتا بلکہ انہیں جنت میں عیش و عشرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔
اوپر پیش کی گئی دونوں آیات یعنی البقرہ ۱۵٤ اور آل عمران ۱٦۹ اکثر اوقات دنیاوی قبروں میں زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو فرما رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو اور پھر اسی بنیاد پر تمام انبیاء اور اولیاء کو زبردستی انکی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان آیات کے اپنے الفاظ اور پھر صحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کو مردہ کہنا درست نہیں لیکن وہ قبروں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں اور انہیں واپس اپنے مدفون جسموں میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ امام بخاری بھی اپنی صحیح میں شہداء کے حوالے سے ذیل کی حدیث لائے ہیں۔
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، خدا تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔



صحیح بخاری ، کتاب المغازی




اسی طرح بخاری ہی میں شہداء کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم جن کی نومولدگی میں ہی وفات ہو گئی کے حوالے سے بھی یہ حدیث ملتی ہے۔
براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔


صحیح بخاری، کتاب الجنائز


اب آئیے شہداء کے علاوہ دیگر انسانوں بشمول انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے سو ہم اسے یہاں مکمل کاپی کر رہے ہیں۔
سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔


صحیح بخاری ، کتاب الجنائز


چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔

۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنی مدینہ کی قبر میں نہیں بلکہ مقامِ محمود پر زندہ ہیں اور یہ زندگی کسی اعتبار سےدنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے اور ہمارے تقریباًٍٍ

تمام فرقوں کا انہیں انکی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ماننا یا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں اور اشارے دیتے ہیں قطعی غلط اور خلافِ قران و حدیث عقائد ہیں۔

۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔

۔ ارواح کو ملنے والے برزخی اجسام خاص نوعیت کے ہیں جنہیں اگر نقصان پہنچے تو یہ دوبارہ بن جاتے ہیں۔

۔ وہ تمام زنا کار مرد اور عورتیں جو دنیا میں مختلف مقامات پر مرے اور دفنائے یا جلائے گئے وغیرہ ان سب کو برہنہ حالت میں ا یک ساتھ جمع کر کے ایک بڑے تنور میں جھونک دیا جاتا ہے اور آگ کے عذاب سے گزارا جاتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔

۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے


[DOUBLEPOST=1349000666][/DOUBLEPOST]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘ یعنی ’’ اے اللہ رفیق اعلیٰ ‘‘ ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘۔
صحیح بخاری، کتاب الدعوات
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔
سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲
پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔
حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ
أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي
آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔
سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦
اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔
قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان
فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَ*ٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔


سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦


اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے


ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔


صحیح بخاری، کتاب التفسیر



ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے۔ یعنی اپنے بعد میں آنے والے علماء کی غلط تعلیمات کےدفاع میں اتنا آگے نکل گئے کہ قران و حدیث کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اور تواور اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں
کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ
قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِخدا کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔ کسی بھی فرقے کا حصہ بننے کے لئے پہلی لازمی شق یہی ہے کہ دین کے تمام معاملات میں اپنی عقل کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے کہ دین کے معاملات کو سمجھنا اور سمجھانا صرف چند گنے چنے اعلٰی نصب اہلِ علم کا کام ہے جنکی کسی بھی بات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
سکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084
[DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
nice reply[DOUBLEPOST=1349009055][/DOUBLEPOST]
حدیث کا حوالہ
ابوداود طیالسی کی حدیث ہے، اور مسند احمد میں بھی حضرت انس کے طریقہ سے بھی روایت کیا ہے
اس مضموں کی کئی ااحادیث شرح الصدور میں مرفوعاََ موجود ہیں اس کے علاوہ امام غزالیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب احیاء العلوم جلد 4 میں بھی اس مضمون کی حدیث پیش کر کے عرض اعمال پر استدلال کیا ہے۔
[DOUBLEPOST=1348676354][/DOUBLEPOST]
ان سب باتوں کا جواب آپ نے دینا ہے اگر آپ کو اس حدیث پر اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی حدیث کا موجود ہیں جو عزاب قبر کے بارے میں ہیں کیا آپ اپنا عذاب قبر کے دوران روح اور جسم کا آپس میں تعلق مانتے ہیں؟
اس کے علاوہ میں نے عرابی والا واقع بھی ذکر کیا آپ نے اُس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ تسلی سے پوسٹ کر پڑھ لیں پھر ایک ایک کر کے جو دلائیل دئے ہیں جراح کریں۔
i wish k wo jawab day saktay ho apki post ka...Allah he hidayat day in sabko ameen
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia


پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔




سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦




اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے



ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔




صحیح بخاری، کتاب التفسیر






ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے۔ یعنی اپنے بعد میں آنے والے علماء کی غلط تعلیمات کےدفاع میں اتنا آگے نکل گئے کہ قران و حدیث کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اور تواور اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں
کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ
قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِخدا کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔ کسی بھی فرقے کا حصہ بننے کے لئے پہلی لازمی شق یہی ہے کہ دین کے تمام معاملات میں اپنی عقل کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے کہ دین کے معاملات کو سمجھنا اور سمجھانا صرف چند گنے چنے اعلٰی نصب اہلِ علم کا کام ہے جنکی کسی بھی بات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

jazak Allah khaira bhai
Allah apki mehnat qabool farme aur logon ko hidayat de ameen
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے (اس وقت) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینے کی بالائی آبادی میں تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا باپ قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت خوشگوار رہی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ کبھی موت نہیں چکھائے گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور فرمایا: اے قسم اٹھانے والے یعنی اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ٹھہر جلدی نہ کر! جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (تو وہ جان لے کہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ مرے گا نہیں۔ اور فرمایا: {اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ}(سورۃ الزمر آیۃ:30) ’’بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے والے ہیں اور وہ سب بھی مرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی اَعْقَابِہٖ فَلَنْ یَضُّرُ اﷲَ شَیْئًا وَ سَیْجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِیْن}(آل عمران4) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں۔ کیا بھلا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے یا شہید کر دیئے گئے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ جو شخص اپنی ایڑیوں پر پھر جائے گا (دینِ حق کو چھوڑ دے گا) تو وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو جلد جزا دے گا‘‘۔ (جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور آیات پڑھیں) تو لوگ زور سے رونے لگے۔
رواہ البخاری)۔)
 
Top