آپ کی پوسٹ کا عنون ہے
Kya Quran shareef ko samajhna mushkil hai ??
اورپوسٹ کی عبارت
mein bas Quran e kareem ke chand aayaton se eik
baat waazeha karna chaahta hoon ke aksar loug kehte hain Quran e Pak
samajhna bohot mushkil hai iska tarjuma parhne se banda behek sakta hai
aur iske samajhne ke liye kisi khaas aalim ki zaroorat parti hai khwaah
iski aapke maadri zabaan mein hi translation kyun na ho ise samajhna
koi asaan baat nahin aapko eik aalim bil zaroor chahiye hota hai
aur is sabab laakhon musalmaan Quran e Pak ko chorh kar baqiya
kitaabon ki jaanib rujooh karte hain
اس اشکال کو بیان کررہی ہے کہ قرآن فہمی کے لیے نہ تو کتابوں (علوم) کی ضروت ہے نہ عالم کی، اور آپ کا کلام بلا تخصیص ہے کہ وہ کتاہیں /علوم کیا ہیں? اور عالم سے مراد کیا ہوتی ہے? اس اشکال کے کے علاوہ عبارت سے مجھے کوئی اور صراحت نہیں ملی کہ تفسیر کی کتاب بھی ضروری ہے اور یقینا آپ نے پوسٹ کے بعد تفسیر کا اعتراف کیا ہے
مگر پہلے آپ نے اپنی پوسٹ میں صرف ترجمہ کو تفہیم کے لیے کافی ہونا بتایا ہے
aur mene khud Urdu zabaan mein Quran e Pak ki translation parhi
mujhe usme koi mushkil paheli nahin mili aur khud QURAN Shareef
ke mutaabiq yeh bila shuba samajhne aur naseehat ke liye eik asaan kitab hai
اگرچہ آپ نے پوسٹ کے آخری جملے میں نصیحت کا ذکر کیا ہے مگر کسی بھی کلام میں عنوان اور موضوع کے بیان کا اعتبار سمجھا جاتا ہے جس میں قرآن فہمی کے لیے ترجمہ کافی ہونے کے صراحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں
اگرچہ آپ نے پوسٹ میں اپنے مؤقف کا ابہام رکھا مگر ان آیتوں سے جو نتیجتا استدلال کیا ہے (یعنی ترجمہ کافی ہونا) نہ صرف آپ کے مؤقف کی صراحت کرتا ہے بلکہ باعث تشویس بھی ہے کہ یہ پڑھ کے لوگ کتب و علماء سے بے نیاز ہو کر اپنی ناقص عقل سے کلام اللہ کا معنی مراد تلاش کریں اور گمراہ ہوں
آپ نے جو آیتیں ذکر کیں اور جن الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے ان کے مفاہیم ہیں حق کو واضح کرنے والی کتاب،(دالیل) باطل کو باطل کرنے والی(نصیحت) یا نفوس کی اصلاح کرنے والی(نصیحت)، گمراہی کو دور کرنے والی (روشنی) وغیرہ وغٍیرہ
جبکہ آپ معنی اخذ کر رہے ہیں از خود ہی سمجھ میں آ جانے والی (سہل)
میرے محترم بھائی اگر اس معنی کوان حوالوں میں سے کسی ایک سے "قرآن کی کسی آیت یا حدیث پاک یا قول صحابی یا قول فقہا کے قول سے ثابت کر دو تو میں آپ کے اس استدلال کو رائے سے تعبیر نہیں کروں گا
درحقیقت مجھے آپ کا نکالا ہوا مفہوم قرآن و حدیث کے خلاف ہی ملا ورنہ میں اپنا وقت خراب نہیں کرتا
فرمان الہی
و تلک الامثال نضربھا لناس ج و ما یعقلھآ الا العلمون (العنکبوت 43)
اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کیلیے بیان کرتے ہیں اور ان کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں
مگر آج لوگ خود بھی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کتب و علوم اور علماء سے بے نیاز ہونے کی بلا خوف دعوت دیتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
قرآن اس واسطے ہر گز نازل نہیں ہوا ہے کہ اس میں سے بعض حصہ اس کے بعض حصہ کی تکذیب کرے لہٰذا جس قدر اس میں سے تہاری سمجھ میں آجائے اس پر علم کرو اور جو متشابہ معلوم ہو اس پر ایماں لاؤ (الاتقان فی علوم القرآن، حصہ دوم نوع 43 ازابو الفضل عبد الرحمن ابی بکر کمال الدین بن محمد جلال الدین سیوطی)
مگر آج لوگ کہتے ہیں قرآن میں کوئی پہلی تو نہیں لکھی ہوئی جو مشکل ہے
دارمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا " اس میں شک نہیں کہ عنقریب تم ایسے لوگوں کو دیکھوگے جو تمہارے سامنے آ کر قرآن کے متشابہات میں تم سے بحث مباحثہ کریں گے لہٰذا تم کو چاہیے کہ تم انہی حدیثوں کے ساتھ انہیں بند کر دو. کیونکہ حدیثوں کے جاننے والے ہی کتاب اللہ کے بہت اچھے جاننے والے ہیں (الاتقان فی علوم القرآن، حصہ دوم نوع 43 ازابو الفضل عبد الرحمن ابی بکر کمال الدین بن محمد جلال الدین سیوطی)"
علامہ قرطبی لکھتے ہیں
ابو البختری روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوے تو دیکھا اک شخص وعظ کر کے لوگوں کو ڈرا رہا تھا. آپ نے پوچھا یہ کیا ہے? لوگوں نے بتایا کہ یہ شخص لوگوں کو وعظ کر رہا ہے یہ شخص لوگوں کو وعظ نہیں کرتا لیکن یہ در اصل یہ کہہ رہا ہے کہ میں فلاں بن فلاں ہوں مجھ کو پہچان لو، آپ نے اس کو بلا کر دریافت کیا، کیا تم قرآن مجید میں ناسخ اور منسوخ کو جانتے ہو? اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا ہماری مسجد سے نکل جاؤ اور اس میں وعظ نہ کرو. ایک روایت میں ہے آپ نے پوچھا تم ناسخ اور منسوخ کو جانتے ہو? اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا تم ہلاک ہوگئے تم ہلاک ہو گئے (الجامع الاحکام القرآن ج 2 ص62) (تبیان القرآن ج 1 ص 384)
امام طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علہہ وسلم نے فرمایا
لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اے بیٹے علماء کی مجالس کو لازم رکھو اور حکماء کا کلام سنو کیونکہ اللہ تعالی حمکت کے نور سے مردہ دل کو اس طرح زندہ کر دیتا ہے جس طرح مردہ زمین تیز بارش سے زندہ ہو جاتی ہے. (تبیان القرآن ج 1 ص 964
ترجمہ کی حیثیت اور قرآن فمہی
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کا معنی پوچھا گیا
و فاکھۃ و ابا (العبس 31)
(ہم نے زمین کو چیر کر اس میں تمہارے لیے) میوے اور گھاس (کو اگایا)
تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (انتہائی معذت کرتے ہوئے) فرمایا اگر میں بغیر علم کے اللہ کے کلام میں کوئی کلام کروں تو پھر کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھے اپنے اوپررکھے گی?
(جامع البیان للطبری ج 1 ص 55، شعب الایمان للبہقی ج 2 ص 424، تفسیر خارزن مترجم ج1 ص 73)
کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مادری زبان عربی نہیں تھی اور وہ لغت العربیہ نہیں جانتے تھے?
در اصل وہ کلام الٰہی کا معنی مراد از روئے عقل بیان کرنے سے اللہ سے خوف کھا رہے تھے
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو اس آیت کریمہ کے معانی سمجھنے میں مشکل پیش آئی
ان الصفا والمروۃ ....... (البقرہ 158)
بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوںمیں سے ہیں پس جو حج کرے اس گھر کا یا عمرہ کرے تو حرج نہیں اسے کہ چکر لگائے ان دونوں کے درمیان"
کیونکہ ظاہری الفاظ سے تو یہ لگتا ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی واجب نہیں ! حتٰی کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا لیا. خالہ جان اللہ کا فرمان عالی شان ہے "فلا جناح علیہ ان یطوف بھما. میرا خیال یہ ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نےفرمایا اےمیرے بھانجےآپ نے جو کہا وہ بہت غلط ہے اگرمعنی یوں ہوتا جیسے آپ کہ رہے ہیں تو الفاظ اس طرح ہوتے فلا جناح الایطوف بھما ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں. یہ کہنے کے بعد ام المؤمنین رضی اللہ عنھا نے آیت کا صحیح مفہوم واضح فرمایا اورکہا" زمانہ جاہلیت میں مشرکین صفا اور مروہ کی سعی کرتے تھے اور اس سعی کے دوران اپنے بتوں کا حج کرتے تھے. ایک بت صفا پر نصب تھا اور دوسرا مروہ پر نصب تھا جو صفا پر نصب تھا اس کا نام اساف اور جو مروہ پر نصب تھا اس کا نام نائلہ تھا. یہی لوگ جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو صفا اور مروہ کی سعی سے ہچکچائے اور انہیں یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ سعی شرک نہ بن جائے. ان کی اس غلط فہمی کو دورکرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی، تا کہ لوگ سمجھ جائیں کہ یہ سعی اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے لیے لازم کی گئ ہے. بتوں کی رضا مقصود نہیں. لہذا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے عروہ کی غلط فہمی کو دور کر دیا. اور یہ غلط فہمی سبب نزول کے ذریعے دور ہوئی. (علوم قرآن، فصل اول ص 29)
ترجمہ اس معنٰی کو کہتے ہیں جسے وضاحت کرنے والے نے اپنے علوم کے پیش نظر اخذ کیا ہو یہی وجہ ہے کہ متراجم حضرات کے تراجم میں بے حد اختلاف ہے آئیے کچھ تراجم پہ نظر ڈالتے ہیں
الا لنعلم من یتنع الرسول.....(البقرہ 143)
ًمحمود الحسن: مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کہ کون تابع رہے گا.
اشرف علی تھانوی: وہ تو محض اس لیے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرتا ہے.
سید ابوالاعلی مودودی: اس کو تو ہم نے یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے
علامہ غلام رسول سعیدی: تا کہ ہم ظاہر کر دیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے
یہاں قرآن پاک کے لفظ "لنعلم" کو اول تراجم ظاہری معنی معلوم کریں، معلوم ہو جائے، دیکھنے کے لیے گئے جس میں صرف لغت پیش نظر رکھی گئ جبکہ آخری ترجمہ میں اللہ کے علم کی نفی کے اشکال کی خاطرکہ کا علم تو پہلے سے ہے وہ ازل سے ابد تک جو کچھ ہو ہورہا ہے یا ہو گا جانتا ہے ظاہری معنی ترک کر کے مرادی معنی تفاسیر اکابریں کو پیش نظر رکھ کے لیا گیا ہے. اس طرح کے اختلافات ہر ترجمے میں ملیں گے. آپ کس ترجمے کو عین قرآن سمجتے ہیں ?
آئیے اب حدیث میں ترجمہ کا لفظ ملاحظہ کریں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: نعم ترجمان القرآن انت : تم کیا خوب ترجمان قرآن ہو (مجمع الزوائد ج 9، ص 279)
کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کو اس لیے اچھے ترجمان القرآن کہا گیا ہے وہ محض عربی لغت اور ظاہری معنی کے عالم تھے? اس کی وجہ بھی آپ کو حدیث پاک میں مل جائےگی. نب کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی
اللہم فقہھ فی الدین و علم التاویل...... : اے اللہ تو ان کو دین کا فقہھ بنا اور ان کو قرآن کے معانی و مطالب بیان کرنے کی بھر پور صلاحیت عطا فرمادے.(مسند احمد ج 1، ص
266)
طویل ہونے کےاور اپنے پاس وقت کم ہونے کے باعث میں دیگر روایات نہیں لکھ رہا، یہاں تک جو لکھا ہے وہ اشکال کو دور کرنے کی غرض سے تھا، آئیے اب معنی اور مطلب کے برعکس قرآن کے اس خاصہ پرمختصر بات کرتا ہوں جسے اللہ نے اپنے کرم سے ہمارے لیئے آسان فرمایا تواللہ نے قرآن کی قراءت اور اسلوب ذکر(نصیحت کے انداز کو) کو بلا شبہ آسان بنایا، اسکے پڑھنے سے دل میں حلاوت پیدا ہو جاتی ہے اور قاری کا دل بار بار چاہتا ہے کہ وہ تلاوت کرے اور اس میں جو واقعات بیان فرمائے جن میں نافرمانوں کے انجام کو خوب کھول کر ذکر کیا اور یہ ذکر ہر عقل سمجھ سکتی ہے، جیسے جب مجرم کو جرم کی سزا ملتی ہے تو وہ سمجھ جاتاہے عبرت و نصیحت پکڑ لیتا ہے ایسے ہی واقعات میں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر ہے کہ نافرمانیوں کے سبب وہ اللہ کے عذابوں میں مبتلا ہوئے تو جو کوئی بھی ان میں غور کرے گا اس قرآن کے مقصد ہدایت کو پا لے گا............................مختصر ، واللہ اعلم