Where Is Allah, According To Quran ?

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

Don

Administrator
Mar 15, 2007
11,035
14,651
1,313
Toronto, Ca
Where is Allah?
Let's see how Quran answers this question:

"And He is the Irresistible, above His slaves . . ." [al-An’aam 6:18]

"They fear their Lord above them, and they do what they are commanded." [al-Nahl 16:50]

(Things coming down from Him):

"He arranges (every) affair from the heavens to the earth . . ." [al-Sajdah 32:5]

"Verily We: it is We Who have sent down the Dhikr (i.e., the Qur’aan). . ." [al-Hijr 15:9]

(Things going up to Him):

". . . To Him ascend (all) the goodly words, and the righteous deeds exalt it . . ." [Faatir 35:10]

"The angels and the Rooh (Jibreel) ascend to Him . . ." [al-Ma’aarij 70:4]

(Allaah is above heaven):

"Do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not cause the earth to sink with you . . .?" [al-Mulk 67:16]
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
Allahu noor us samawat wal ard (AL-noor)

ALLAH noor hay aasmano ka aur zameen ka


Aur us(ALLAH) ki kursi aasmano aur zameen sab par hawi hay aur usse(ALLAH KO) unki hifazat kuch dushwar nhi (surah Al-baqra,,Aayat al kursi)

 

Aunty_Bilqees

Banned
Oct 12, 2012
1,535
1,379
113
Allahu noor us samawat wal ard (AL-noor)

ALLAH noor hay aasmano ka aur zameen ka


Aur us(ALLAH) ki kursi aasmano aur zameen sab par hawi hay aur usse(ALLAH KO) unki hifazat kuch dushwar nhi (surah Al-baqra,,Aayat al kursi)
یعنی الله روشنی ہے - کوئی بات سمج ائی کیسی روشنی - کیا وہ روشنی ستاروں کی طرح ہے - یا پھر کوئی اور روشنی
دوسری آیت میں کرسی سے کیا مراد ہے - کیا یہ کرسی اصلی کرسی یا استعارہ استعمال ہوا ہے[DOUBLEPOST=1367297117][/DOUBLEPOST]
Where is Allah?
Let's see how Quran answers this question:

"And He is the Irresistible, above His slaves . . ." [al-An’aam 6:18]

"They fear their Lord above them, and they do what they are commanded." [al-Nahl 16:50]

(Things coming down from Him):

"He arranges (every) affair from the heavens to the earth . . ." [al-Sajdah 32:5]

"Verily We: it is We Who have sent down the Dhikr (i.e., the Qur’aan). . ." [al-Hijr 15:9]

(Things going up to Him):

". . . To Him ascend (all) the goodly words, and the righteous deeds exalt it . . ." [Faatir 35:10]

"The angels and the Rooh (Jibreel) ascend to Him . . ." [al-Ma’aarij 70:4]

(Allaah is above heaven):

"Do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not cause the earth to sink with you . . .?" [al-Mulk 67:16]
Dear Don, Non of above ayas tell us real location of Allah... and these aya aren't even with context... I mean just part of complete aya.. Infact, by looking your thread "where is Allah".. I thought you were going to reveal Allah's Location but i am disappointed...
کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔(سورة يونس . آیت3)
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (١) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے
اچھے عمل والا کون ہے، (٢) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔(سورة هود . آیت7)
دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟(سورة المؤمنون . آیت86)
اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے ارد گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا (١) اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے (٢)۔(سورة الزمر . آیت75)
عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (۱)(سورة مومن . آیت7)
آنٹی نسرین صاحب یہ تو تھی چند آیتیں جو اللہ کے عرش کے تعلق سے تھیں-جو قرآن میں ہمیں بتائی گئیں ۔
اور رہی بات نور والی کہ اللہ کیسا نور ہے تو اسکا ذکر اللہ تعالی اپنے مقدس کلام میں کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ
اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا (١) اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس پر چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی طرح قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھائے نور پر نور ہے اللہ تعالٰی اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے (٢) لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالٰی بیان فرما رہا ہے (٣) اور اللہ تعالٰی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔(سورة النور . آیت35)
اور رہی بات آپکے یہ شعر کی
کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں - کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبیں نیاز میں
اللہ تعالی آپ جیسے حضرات سے اس شعر کے تعلق سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ
کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی
آئے (١) جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا (٢) یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (٣) آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں۔(سورة الأنعام . آیت158)
اور اسی طرح قابل دوست آپکو بتاتا چلوں کہ انسان کی آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے اس سے آگے
کہ اسمیں صلاحیت ہی نہیں ہے میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کیا آپ ہوا کو محسوس کرتے ہیں اگر کرتے ہیں تو بتائیے کہ کہاں ہے ہوا ؟ کیسی ہے یہ ؟ کیسا رنگ ہے اسکا ؟ اور مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بتا سکتے کیونکہ آپ اور ہم میں یہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی گئی ہے ٹھیک اسی طرح آپ مجھے بتائیں کہ پانی کا کیسا ذائقہ ہے؟ ان سب باتوں پر جب ہم غور کرینگے تو اللہ کی حقیقت کھل کر آپکے سامنے آجائگی ان شاءاللہ۔

 

Aunty_Bilqees

Banned
Oct 12, 2012
1,535
1,379
113
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔(سورة يونس . آیت3)

ڈان بھائی - پہلی دو آیتوں میں دن کا لفظ استعمال ہوا - یہ دن کون سے تھے چاند کے حساب سے تھے یا سورج کے حساب سے ، یا کسی اور ستارے کے حساب سے - اور دوسری بات زیادہ تفصیل کیوں نہیں بتائی گئی - اچھا قرآن کیا کہتا ہے پہلے سورج بنا یا پھر زمین ، یا پھر چاند .. اپ کے بقول قرآن میں ہر چیز کا جواب کا ہے - قرآن کی رو سے جواب دو پہلے سورج بنا یا زمین یا پھر چاند -- اور دن سے کیا مراد ہے - باقی کی آیتوں میں فرشتوں کا ذکر ہے لیکن پھر بھی کوئی جگہ نہیں بتائی گئی کہ الله پاک کہاں ہے - اپ نے جو نور والی آیت بیان کی ہے اس کا مطلب اپنے ذہن سے سمجہ دو کہ الله پاک کیا چیز - مجھے کچھ سمج نہیں ا رہی - کیا الله پاک کوئی بہت بڑا چراغ ہے - کیا الله پاک کوئی روشنی ہے --- اور تیل کون سا ہے -- اور یہ مثال کیسی ہے -- اپنے ذہن سے سمجاؤ کسی کی تفسیر نہ دینا --- ایسی چیز جو اپ کو سمج ہی نہ ا سکے کیا اس کو خدا کہتے ہیں - باقی کچھ آیتوں میں عذاب کا ذکر ہے - اس چیز کا بھی جواب دو کہ الله پاک ہم سے زبردستی کیوں یقین کروانا چاہتا ہے -- یہ ایسے ہی ہے میں اپ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر بولوں کہ مجے نعوز باللہ خدا کا کوئی پیغمبر مانو نہیں تو میں اپ کی جان لے لوں گا - یہ باتیں ایک کائناتی خدا زیب نہیں دیتی - اپ کچھ آیتوں کو پڑھ غور کرو اپ کو پتا چلے گے گا --دھمکی دی گئی ہے --- کیا ایسا ہے ہمارا رب ذرا سوچ کر جواب دو - اگر الله نے انسانوں میں موسیٰ کو اپنا جلوہ دیکھا دیا چاہے وہ جلوے کی تاب نہ لا سکتے تو کیا یہ ان انسانوں کے ساتھ زیادتی نہیں جو الله دیکھنا چاہتے ہیں - باقی نظر تو بہت چیزوں کو دیکھ سکتی ہے - الله کے رسول کو اگر فرشتے نظر ا سکتے ہیں تو ہم بھی انسان ہیں -- میں اپ کو کہوں کے میں نے ایک عجیب مخلوق دیکھی ہے جو کسی اور کو نظر نہیں اتی - نہ کوئی اور دیکھ سکتا ہے تو اپ کے پاس ہر حق ہے اس مخلوق کو نہ ما ننے کا --- پھر میں اپ کو اگر کہوں کہ اگر اپ اس مخلوق کو نہیں مانتے تو تم کو الله عذاب دے گا -- کیسی بچوں والی بات ہے --ڈان بھائی اپ سیانے ہو--- [DOUBLEPOST=1367311696][/DOUBLEPOST]@nasirnoman
bhai ap hi kuch jowab do.. ap kay jowab kuch theek hotay hain
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
ڈان بھائی - پہلی دو آیتوں میں دن کا لفظ استعمال ہوا - یہ دن کون سے تھے چاند کے حساب سے تھے یا سورج کے حساب سے ، یا کسی اور ستارے کے حساب سے - اور دوسری بات زیادہ تفصیل کیوں نہیں بتائی گئی - اچھا قرآن کیا کہتا ہے پہلے سورج بنا یا پھر زمین ، یا پھر چاند .. اپ کے بقول قرآن میں ہر چیز کا جواب کا ہے - قرآن کی رو سے جواب دو پہلے سورج بنا یا زمین یا پھر چاند -- اور دن سے کیا مراد ہے - باقی کی آیتوں میں فرشتوں کا ذکر ہے لیکن پھر بھی کوئی جگہ نہیں بتائی گئی کہ الله پاک کہاں ہے - اپ نے جو نور والی آیت بیان کی ہے اس کا مطلب اپنے ذہن سے سمجہ دو کہ الله پاک کیا چیز - مجھے کچھ سمج نہیں ا رہی - کیا الله پاک کوئی بہت بڑا چراغ ہے - کیا الله پاک کوئی روشنی ہے --- اور تیل کون سا ہے -- اور یہ مثال کیسی ہے -- اپنے ذہن سے سمجاؤ کسی کی تفسیر نہ دینا --- ایسی چیز جو اپ کو سمج ہی نہ ا سکے کیا اس کو خدا کہتے ہیں - باقی کچھ آیتوں میں عذاب کا ذکر ہے - اس چیز کا بھی جواب دو کہ الله پاک ہم سے زبردستی کیوں یقین کروانا چاہتا ہے -- یہ ایسے ہی ہے میں اپ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر بولوں کہ مجے نعوز باللہ خدا کا کوئی پیغمبر مانو نہیں تو میں اپ کی جان لے لوں گا - یہ باتیں ایک کائناتی خدا زیب نہیں دیتی - اپ کچھ آیتوں کو پڑھ غور کرو اپ کو پتا چلے گے گا --دھمکی دی گئی ہے --- کیا ایسا ہے ہمارا رب ذرا سوچ کر جواب دو - اگر الله نے انسانوں میں موسیٰ کو اپنا جلوہ دیکھا دیا چاہے وہ جلوے کی تاب نہ لا سکتے تو کیا یہ ان انسانوں کے ساتھ زیادتی نہیں جو الله دیکھنا چاہتے ہیں - باقی نظر تو بہت چیزوں کو دیکھ سکتی ہے - الله کے رسول کو اگر فرشتے نظر ا سکتے ہیں تو ہم بھی انسان ہیں -- میں اپ کو کہوں کے میں نے ایک عجیب مخلوق دیکھی ہے جو کسی اور کو نظر نہیں اتی - نہ کوئی اور دیکھ سکتا ہے تو اپ کے پاس ہر حق ہے اس مخلوق کو نہ ما ننے کا --- پھر میں اپ کو اگر کہوں کہ اگر اپ اس مخلوق کو نہیں مانتے تو تم کو الله عذاب دے گا -- کیسی بچوں والی بات ہے --ڈان بھائی اپ سیانے ہو--- [DOUBLEPOST=1367311696][/DOUBLEPOST]@nasirnoman
bhai ap hi kuch jowab do.. ap kay jowab kuch theek hotay hain
aunty nasreen sahab main to siyaana hon laikin aap siyaane pan ki baat nahi kar rahe khair.aapne apni post me itne saare sawal kardiye k aapki post hi gudmud hogayi hai.

kabhi aap kahte hain k khuda ksi ek mazhab tak kaise mahdood rah sakta hai.to aapko main batata chalon k dunya ki aabaadi ka taqreeban 58% logoon ka ittefaaq Allah ki zaat par hai k wo ksi na ksi tarha Allah taala ko khuda mante hain.laikin aapko abhi tak ye pata nahi chala k aapka khuda kaun hai?shayed aap firse ek naye nabi ki aamad k muntazir hain.
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
ڈان بھائی - پہلی دو آیتوں میں دن کا لفظ استعمال ہوا - یہ دن کون سے تھے چاند کے حساب سے تھے یا سورج کے حساب سے ، یا کسی اور ستارے کے حساب سے - اور دوسری بات زیادہ تفصیل کیوں نہیں بتائی گئی - اچھا قرآن کیا کہتا ہے پہلے سورج بنا یا پھر زمین ، یا پھر چاند .. اپ کے بقول قرآن میں ہر چیز کا جواب کا ہے - قرآن کی رو سے جواب دو پہلے سورج بنا یا زمین یا پھر چاند -- اور دن سے کیا مراد ہے - باقی کی آیتوں میں فرشتوں کا ذکر ہے لیکن پھر بھی کوئی جگہ نہیں بتائی گئی کہ الله پاک کہاں ہے - اپ نے جو نور والی آیت بیان کی ہے اس کا مطلب اپنے ذہن سے سمجہ دو کہ الله پاک کیا چیز - مجھے کچھ سمج نہیں ا رہی - کیا الله پاک کوئی بہت بڑا چراغ ہے - کیا الله پاک کوئی روشنی ہے --- اور تیل کون سا ہے -- اور یہ مثال کیسی ہے -- اپنے ذہن سے سمجاؤ کسی کی تفسیر نہ دینا --- ایسی چیز جو اپ کو سمج ہی نہ ا سکے کیا اس کو خدا کہتے ہیں - باقی کچھ آیتوں میں عذاب کا ذکر ہے - اس چیز کا بھی جواب دو کہ الله پاک ہم سے زبردستی کیوں یقین کروانا چاہتا ہے -- یہ ایسے ہی ہے میں اپ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر بولوں کہ مجے نعوز باللہ خدا کا کوئی پیغمبر مانو نہیں تو میں اپ کی جان لے لوں گا - یہ باتیں ایک کائناتی خدا زیب نہیں دیتی - اپ کچھ آیتوں کو پڑھ غور کرو اپ کو پتا چلے گے گا --دھمکی دی گئی ہے --- کیا ایسا ہے ہمارا رب ذرا سوچ کر جواب دو - اگر الله نے انسانوں میں موسیٰ کو اپنا جلوہ دیکھا دیا چاہے وہ جلوے کی تاب نہ لا سکتے تو کیا یہ ان انسانوں کے ساتھ زیادتی نہیں جو الله دیکھنا چاہتے ہیں - باقی نظر تو بہت چیزوں کو دیکھ سکتی ہے - الله کے رسول کو اگر فرشتے نظر ا سکتے ہیں تو ہم بھی انسان ہیں -- میں اپ کو کہوں کے میں نے ایک عجیب مخلوق دیکھی ہے جو کسی اور کو نظر نہیں اتی - نہ کوئی اور دیکھ سکتا ہے تو اپ کے پاس ہر حق ہے اس مخلوق کو نہ ما ننے کا --- پھر میں اپ کو اگر کہوں کہ اگر اپ اس مخلوق کو نہیں مانتے تو تم کو الله عذاب دے گا -- کیسی بچوں والی بات ہے --ڈان بھائی اپ سیانے ہو--- [DOUBLEPOST=1367311696][/DOUBLEPOST]@nasirnoman
bhai ap hi kuch jowab do.. ap kay jowab kuch theek hotay hain
ahan
aap k sawal parh k hamesha muje aik waqya yaad aata hay,,k jab moosa (A.S) ki qoum hukam manna hi nhi chahti thi aur us se bachne k liye jaan bujh k idhar udhar k sawal poochne lagge!






[DOUBLEPOST=1367318627][/DOUBLEPOST]
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔(سورة يونس . آیت3)
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (١) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے
اچھے عمل والا کون ہے، (٢) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔(سورة هود . آیت7)
دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟(سورة المؤمنون . آیت86)
اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے ارد گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا (١) اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے (٢)۔(سورة الزمر . آیت75)
عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (۱)(سورة مومن . آیت7)
آنٹی نسرین صاحب یہ تو تھی چند آیتیں جو اللہ کے عرش کے تعلق سے تھیں-جو قرآن میں ہمیں بتائی گئیں ۔
اور رہی بات نور والی کہ اللہ کیسا نور ہے تو اسکا ذکر اللہ تعالی اپنے مقدس کلام میں کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ
اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا (١) اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس پر چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی طرح قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھائے نور پر نور ہے اللہ تعالٰی اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے (٢) لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالٰی بیان فرما رہا ہے (٣) اور اللہ تعالٰی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔(سورة النور . آیت35)
اور رہی بات آپکے یہ شعر کی
کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں - کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبیں نیاز میں







اللہ تعالی آپ جیسے حضرات سے اس شعر کے تعلق سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ




کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی

آئے (١) جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا (٢) یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (٣) آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں۔(سورة الأنعام . آیت158)



اور اسی طرح قابل دوست آپکو بتاتا چلوں کہ انسان کی آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے اس سے آگے

کہ اسمیں صلاحیت ہی نہیں ہے میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کیا آپ ہوا کو محسوس کرتے ہیں اگر کرتے ہیں تو بتائیے کہ کہاں ہے ہوا ؟ کیسی ہے یہ ؟ کیسا رنگ ہے اسکا ؟ اور مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بتا سکتے کیونکہ آپ اور ہم میں یہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی گئی ہے ٹھیک اسی طرح آپ مجھے بتائیں کہ پانی کا کیسا ذائقہ ہے؟ ان سب باتوں پر جب ہم غور کرینگے تو اللہ کی حقیقت کھل کر آپکے سامنے آجائگی ان شاءاللہ۔



JAZAKALLAH khair
bilkul sahi hmari aqal,,hmari nazar aik hadse ziada na daikh sakti hay na soch sakti ..
agar koi insan ye boley k Main ZInda hun to kia wo ye dikha sakta hay k kahan hay uski zindagi nazar to nhi aa rhi kahan hay uski rooh hamain b dikhao par wo nhi dikha sakta ,,lakin Symbols hote hain zindgai k ,,saans ka chalna dil ka dharkna etc!
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
یعنی الله روشنی ہے - کوئی بات سمج ائی کیسی روشنی - کیا وہ روشنی ستاروں کی طرح ہے - یا پھر کوئی اور روشنی
دوسری آیت میں کرسی سے کیا مراد ہے - کیا یہ کرسی اصلی کرسی یا استعارہ استعمال ہوا ہے[DOUBLEPOST=1367297117][/DOUBLEPOST]
Dear Don, Non of above ayas tell us real location of Allah... and these aya aren't even with context... I mean just part of complete aya.. Infact, by looking your thread "where is Allah".. I thought you were going to reveal Allah's Location but i am disappointed...
کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں



[DOUBLEPOST=1367329069][/DOUBLEPOST]
ڈان بھائی - پہلی دو آیتوں میں دن کا لفظ استعمال ہوا - یہ دن کون سے تھے چاند کے حساب سے تھے یا سورج کے
حساب سے ، یا کسی اور ستارے کے حساب سے -








ارشاد باری تعالیٰ ہے



” اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔تم لوگوں کے شمار کے مطابق”۔

(سورۃ الحج 47)



“اور بے شک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسا تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس ۔ کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمانوں سے زمین تک ، پھر اس کی طرف رجوع کرے گا اُس دن جس کی مقدار ہزار سال ہے تمہاری گنتی میں “۔

(سورۃ السجدہ، 5)


[DOUBLEPOST=1367329128][/DOUBLEPOST]

ارشاد باری تعالیٰ ہے



” اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔تم لوگوں کے شمار کے مطابق”۔
(سورۃ الحج 47)



“اور بے شک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسا تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس ۔ کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمانوں سے زمین تک ، پھر اس کی طرف رجوع کرے گا اُس دن جس کی مقدار ہزار سال ہے تمہاری گنتی میں “۔
(سورۃ السجدہ، 5)

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
- اپ نے جو نور والی آیت بیان کی ہے اس کا مطلب اپنے ذہن سے سمجہ دو کہ الله پاک کیا چیز - مجھے کچھ سمج نہیں ا رہی - کیا الله پاک کوئی بہت بڑا چراغ ہے - کیا الله پاک کوئی روشنی ہے --- اور تیل کون سا ہے -- اور یہ مثال کیسی ہے --



آیت کریمہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالی معاذ اللہ نور کے مٹیریل سے بنا ہوا ہے بلکہ ایک تمثیل بیان کی گئی ہے کہ جیسے ایک چراغ ہوتا ہے جو کہ شیشے کے کیس میں بند ہو تو اس کی روشنی ہر جانب پھیلتی ہے اور اپنے ماحول کو منور کرتی ہے۔ ویسے ہی اللہ تعالی کا نور ہدایت پھیلتا ہے۔ یہاں معاذ اللہ، اللہ تعالی کی ہستی کا مٹیریل زیر بحث نہیں ہے۔
اللہ تعالی کی ہستی ہماری عقل کی حدود سے ماوراء ہے اور ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی میں غور نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ ہم اس کی ہستی کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالی کی ہستی ایک نور ہے۔ اسے تو سب ہی مانتے ہیں لیکن اس نور کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے اور نہ ہی ہم روشنی پر اسے قیاس کر سکتے ہیں کیونکہ لیس کمثلہ شییء، کوئی چیز اس کی مانند نہیں ہے۔ آسمان و زمین کا نور ہونے سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ آسمان و زمین اسی کی قدرت سے منور ہیں اور وہی سب کو ہدایت دیتا ہے۔ اللہ تعالی نور ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کے نور کو ہم دنیا کی کسی روشنی سے تشبیہ نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔
بہت سے مفسرین کا یہ موقف ہے کہ اللہ تعالی نور ہدایت ہے۔ مجھے یہی رائے درست محسوس ہوتی ہے کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق و سباق اسی جانب اشارہ کرتا
ہے کہ یہاں اللہ تعالی کے نور سے مراد ہدایت کا نور ہے۔ مکمل سیاق یہ ہے
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِوَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي
اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(35)
"(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"
(سورۃ النور)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب. قالا: حدثنا أبو معاوية. حدثنا الأعمش عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، عن أبي موسى، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات. فقال: "إن الله عز وجل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام. يخفض القسط ويرفعه. يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار. وعمل النهار قبل عمل الليل. حجابه النور. (وفي رواية أبي بكر: النار) لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه".
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے مابین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کو پانچ باتیں ارشاد فرمائیں: "یقیناً اللہ عزوجل نہ تو سوتا ہے اور نہ ہی یہ اس کی شان کے لائق ہے کہ وہ سوئے۔ وہی میزان اعمال کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے۔ رات کا عمل دن سے پہلے اور دن کا عمل رات سے پہلے اس کی جانب بلند کیا جاتا ہے۔ اس کا حجاب نور ہے (ابو بکر کی روایت میں آگ کا لفظ ہے)۔ اگر وہ اس کا پردہ ہٹا دے، تو اس کے وجہ مبارک کی شعاعیں اس کی مخلوق کو حد نگاہ تک جلا دیں۔"
(مسلم، کتاب الایمان، حدیث 293)
اللہ تعالی کے حجاب نور کی کیفیت کیا ہو گی؟ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ہم اللہ تعالی کی ہستی اور اس کے معاملات کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ایسی بحثیں محض ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں اور فکر کو الجھاتی ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں اللہ تعالی کی قدرت، اس کے کاموں اور اس کی نعمتوں پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ہمارے دل میں اس کی محبت پیدا ہو۔ امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
bhai ap hi kuch jowab do.. ap kay jowab kuch theek hotay hain
سب سے پہلی عرض تو یہ ہے کہ علماء اہلسنت کے نزدیک الله تعالی کی ذات میں تفکرکرنا ممنوع هے ، ایک حسن حدیث میں هے کہ:
عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم " تفكروا في آلاء الله ولا تفكروا في الله " أخرجه أبو الشيخ والطبراني
الله تعالی کی نعمتوں میں ( مخلوقات میں ) تفکر کرو اور الله تعالی کی ذات میں تفکرنہ کرو ۰
اوراس بات کی دلیل قرآن مجید اس آیت سے بهی هے ۰
"ليس كمثله شيء" الخ شوریٰ 11
ترجمہ :کوئی چیز اس کی مثل نہیں
تو جب قرآن پاک سے ہی "لیس کمثلہ شیء" قاعدہ طے ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اسکے بعد کسی بھی قسم کے قیاس کے گھوڑے دوڑانے کا یا کسی آیت سے ظاہری یاباطنی معنی لے کر کچھ اخذ کرنا درست نہیں
کیوں کہ انسانی عقل ایک محدود حد تک کام کرتی ہے ۔۔۔۔ اور اللہ رب العزت کی قدرت بے پناہ وسیع ہے ۔۔۔۔ جو انسانی عقل میں سما ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہی فرمادیا کہ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ۔۔۔ تو اس کے بعد انسانی عقل جتنا بھی زور لگالے وہ کسی بھی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی
مختصرالفاظ میں ہم مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا ایک اقتباس پیش کردیتے ہیں :
الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی کے تحت ارقام فرماتے ہیں: استواء علی العرش کے متعلق صحیح بے غبار وہ ہی بات ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت وکیفیت کسی کو معلوم نہیں متشابہات میں سے ہے، عقیدہ اتنا رکھنا ہے کہ استواء علی العرش حق ہے اس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق ہوگی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہوسکتا۔ (معارف القرآن: ۶/۶۵)
اور آخر میں چند اکابرین کے اقوال پیش خدمت ہیں۔۔۔ جن سے آپ کو ہماری بات سمجھنے میں مدد ملے گی:
وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.
المصدر السابق
(سورة الشورى أية 4ء 27/ 144).
امام فخرالدین رازی رحمہ الله فرماتے هیں کہ (المشبهة فرقہ) نے الله تعالی کے لیئے مکان ثابت کرنے پر قول باری تعالی " أَأَمنتم من في السماء " سے استدلال کیا یعنی یہ عقیده کہ الله تعالی عرش کے اوپرمکان میں هے یا اس کے علاوه دیگراماکن میں هے ، یہ (المُشَبهة فرقہ) کا عقیده هے جنهوں نے خالق کومخلوق پرقیاس کیا اوریہ ایک فاسد (وباطل ) قیاس هے اورسبب اس قیاس کا جہالت هے اور وهم وخیال کی اتباع هے ۰
وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
سيدنا علي رضي الله عنه کا ارشاد هے کہ الله تعالی نے عرش کو اپنی قدرت کی اظہار کے لیئے پیدا کیا هے اپنی ذات کے لیئےمکان نہیں بنایا ۰
وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله کا ارشاد هے کہ
هم یہ اقرار کرتے هیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی هوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اورنہ اس نےعرش پرقرار پکڑا هے ، اوروه عرش کا بهی مُحافظ هے اورعرش کے علاوه هرچیزکا محافظ هے بغیرمحتاجی کے ، اگر وه محتاج هوتا توکائنات کے ایجاد وتدبیر پرقادرنہ هوتا جیسا کہ مخلوق محتاج هوتی هے ،
اور اگر وه جلوس ( کسی جگہ بیٹهنے ) کا اور قرار (کسی جگہ ٹهہرنے ) کا محتاج هوتا توپهرعرش کی پیدائش سے پہلے الله سبحانه وتعالى کہاں تها ؟
اور الله سبحانه وتعالى اس بات سے بلند وبرتر هے ۰
وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنف، يعني البخاري، أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418، 419). ]
بخاری شریف کے شارح الشيخ العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام بخاری نے اس ترجمہ کے تحت جتنی احادیث نقل کی هیں سب ترجمہ کے مطابق هیں ، صرف ابن عباس رضی الله عنہ کی حدیث میں وارد یہ قول
"رب العرش" اس قول کی ترجمہ کے ساتهہ مطابقت یہ هے کہ امام بخاری اس سے تنبیہ کر رهے هیں ان لوگوں کے قول کے باطل هونے پر جنهوں نے
( الله تعالی کے لیئے ) جهت کوثابت کیا ، اورالله تعالی کے فرمان (ذِى المَعَارِجِ)
استدلال کیا ، اوراس سے یہ جانا کہ عُلو فَوقِي (اوپرکی بلندی ) منسوب هے الله تعالی کی طرف ، تو مصنف يعني امام بخاري نے یہ بیان کیا کہ وه جهت جس پربلندی صادق آتی هے اوروه جهت جس پریہ صادق آتاهے کہ وه عرش هے لہذا یہ دونوں جہتیں مخلوق هیں اورالله تعالی ان دونوں سے اوران کے علاوه دیگرمخلوقات سے پہلے بهی موجود تها ، پهر یہ سب جگہیں الله تعالی نے پیدا کیئے ، اورالله تعالی قدیم ذات هے لہذا اس کوکسی جہت میں رهنے کے ساتهہ موصوف کرنا محال وناممکن هے ۰
العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله کی یہ تصریح حافظ ابن حجر رحمہ الله نے(فتح الباري شرح بخاری ) میں نقل کی اوران کے اس کلام وتصریح کی تائید بهی کی ۰
وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی موجود تها اورمکان نہیں تها پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان کا محتاج نہیں هے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بهی ایسا هی هے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تها اهـ یعنی الله تعالی بلامکان موجود هے عرش وكرسي وغیره کا محتاج نہیں هے ۰
وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي صاحب "مَعَالِمُ السُنَن" رحمہ الله فرماتے هیں کہ مسلمانوں کا یہ قول کہ الله تعالی عرش پر هے اس کا یہ معنی نہیں هے کہ وه عرش کے ساتهہ مِلاهوا هے یا عرش میں رهتا هے یا جِهات میں سے کسی جهت میں رهتا هے ، لیکن وه اپنی تمام مخلوق سے جدا هے الخ
وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
امام القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ
کہ هم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا قرار ( ٹهہرنا ) هے یا مکان هے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بهی موجود تها جب مکان نہیں تها ، پهرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تها ( یعنی بلامکان ) اب بهی ویسا هی هے ۰
وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں
کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹهہرنا ) نہیں هے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بهی نہیں هے ، کیونکہ استقرار ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت هے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات هے ، پس یہ دلالت هے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بهی موجود تها جب مکان نہیں تها ، پهرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تها ( یعنی بلامکان ) اب بهی ویسا هی هے ۰
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
 
  • Like
Reactions: hoorain

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

سب سے پہلی عرض تو یہ ہے کہ علماء اہلسنت کے نزدیک الله تعالی کی ذات میں تفکرکرنا ممنوع هے ، ایک حسن حدیث میں هے کہ:
عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم " تفكروا في آلاء الله ولا تفكروا في الله " أخرجه أبو الشيخ والطبراني
الله تعالی کی نعمتوں میں ( مخلوقات میں ) تفکر کرو اور الله تعالی کی ذات میں تفکرنہ کرو ۰
اوراس بات کی دلیل قرآن مجید اس آیت سے بهی هے ۰
"ليس كمثله شيء" الخ شوریٰ 11
ترجمہ :کوئی چیز اس کی مثل نہیں
تو جب قرآن پاک سے ہی "لیس کمثلہ شیء" قاعدہ طے ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اسکے بعد کسی بھی قسم کے قیاس کے گھوڑے دوڑانے کا یا کسی آیت سے ظاہری یاباطنی معنی لے کر کچھ اخذ کرنا درست نہیں
کیوں کہ انسانی عقل ایک محدود حد تک کام کرتی ہے ۔۔۔۔ اور اللہ رب العزت کی قدرت بے پناہ وسیع ہے ۔۔۔۔ جو انسانی عقل میں سما ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہی فرمادیا کہ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ۔۔۔ تو اس کے بعد انسانی عقل جتنا بھی زور لگالے وہ کسی بھی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی
مختصرالفاظ میں ہم مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا ایک اقتباس پیش کردیتے ہیں :
الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی کے تحت ارقام فرماتے ہیں: استواء علی العرش کے متعلق صحیح بے غبار وہ ہی بات ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت وکیفیت کسی کو معلوم نہیں متشابہات میں سے ہے، عقیدہ اتنا رکھنا ہے کہ استواء علی العرش حق ہے اس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق ہوگی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہوسکتا۔ (معارف القرآن: ۶/۶۵)
اور آخر میں چند اکابرین کے اقوال پیش خدمت ہیں۔۔۔ جن سے آپ کو ہماری بات سمجھنے میں مدد ملے گی:
وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.
المصدر السابق
(سورة الشورى أية 4ء 27/ 144).
امام فخرالدین رازی رحمہ الله فرماتے هیں کہ (المشبهة فرقہ) نے الله تعالی کے لیئے مکان ثابت کرنے پر قول باری تعالی " أَأَمنتم من في السماء " سے استدلال کیا یعنی یہ عقیده کہ الله تعالی عرش کے اوپرمکان میں هے یا اس کے علاوه دیگراماکن میں هے ، یہ (المُشَبهة فرقہ) کا عقیده هے جنهوں نے خالق کومخلوق پرقیاس کیا اوریہ ایک فاسد (وباطل ) قیاس هے اورسبب اس قیاس کا جہالت هے اور وهم وخیال کی اتباع هے ۰
وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
سيدنا علي رضي الله عنه کا ارشاد هے کہ الله تعالی نے عرش کو اپنی قدرت کی اظہار کے لیئے پیدا کیا هے اپنی ذات کے لیئےمکان نہیں بنایا ۰
وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله کا ارشاد هے کہ
هم یہ اقرار کرتے هیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی هوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اورنہ اس نےعرش پرقرار پکڑا هے ، اوروه عرش کا بهی مُحافظ هے اورعرش کے علاوه هرچیزکا محافظ هے بغیرمحتاجی کے ، اگر وه محتاج هوتا توکائنات کے ایجاد وتدبیر پرقادرنہ هوتا جیسا کہ مخلوق محتاج هوتی هے ،
اور اگر وه جلوس ( کسی جگہ بیٹهنے ) کا اور قرار (کسی جگہ ٹهہرنے ) کا محتاج هوتا توپهرعرش کی پیدائش سے پہلے الله سبحانه وتعالى کہاں تها ؟
اور الله سبحانه وتعالى اس بات سے بلند وبرتر هے ۰
وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنف، يعني البخاري، أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418، 419). ]
بخاری شریف کے شارح الشيخ العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام بخاری نے اس ترجمہ کے تحت جتنی احادیث نقل کی هیں سب ترجمہ کے مطابق هیں ، صرف ابن عباس رضی الله عنہ کی حدیث میں وارد یہ قول
"رب العرش" اس قول کی ترجمہ کے ساتهہ مطابقت یہ هے کہ امام بخاری اس سے تنبیہ کر رهے هیں ان لوگوں کے قول کے باطل هونے پر جنهوں نے
( الله تعالی کے لیئے ) جهت کوثابت کیا ، اورالله تعالی کے فرمان (ذِى المَعَارِجِ)
استدلال کیا ، اوراس سے یہ جانا کہ عُلو فَوقِي (اوپرکی بلندی ) منسوب هے الله تعالی کی طرف ، تو مصنف يعني امام بخاري نے یہ بیان کیا کہ وه جهت جس پربلندی صادق آتی هے اوروه جهت جس پریہ صادق آتاهے کہ وه عرش هے لہذا یہ دونوں جہتیں مخلوق هیں اورالله تعالی ان دونوں سے اوران کے علاوه دیگرمخلوقات سے پہلے بهی موجود تها ، پهر یہ سب جگہیں الله تعالی نے پیدا کیئے ، اورالله تعالی قدیم ذات هے لہذا اس کوکسی جہت میں رهنے کے ساتهہ موصوف کرنا محال وناممکن هے ۰
العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله کی یہ تصریح حافظ ابن حجر رحمہ الله نے(فتح الباري شرح بخاری ) میں نقل کی اوران کے اس کلام وتصریح کی تائید بهی کی ۰
وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی موجود تها اورمکان نہیں تها پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان کا محتاج نہیں هے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بهی ایسا هی هے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تها اهـ یعنی الله تعالی بلامکان موجود هے عرش وكرسي وغیره کا محتاج نہیں هے ۰
وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي صاحب "مَعَالِمُ السُنَن" رحمہ الله فرماتے هیں کہ مسلمانوں کا یہ قول کہ الله تعالی عرش پر هے اس کا یہ معنی نہیں هے کہ وه عرش کے ساتهہ مِلاهوا هے یا عرش میں رهتا هے یا جِهات میں سے کسی جهت میں رهتا هے ، لیکن وه اپنی تمام مخلوق سے جدا هے الخ
وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
امام القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ
کہ هم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا قرار ( ٹهہرنا ) هے یا مکان هے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بهی موجود تها جب مکان نہیں تها ، پهرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تها ( یعنی بلامکان ) اب بهی ویسا هی هے ۰
وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں
کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹهہرنا ) نہیں هے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بهی نہیں هے ، کیونکہ استقرار ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت هے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات هے ، پس یہ دلالت هے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بهی موجود تها جب مکان نہیں تها ، پهرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تها ( یعنی بلامکان ) اب بهی ویسا هی هے ۰
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین

سلام
میرے بھائی صرف یہ بتا دیں کہ
اللہ اپنی ذات سے ہر جگہ موجود ہے یا اپنے علم سے ہر جگہ موجود ہے


 
  • Like
Reactions: Dawn

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اللہ کہاں ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے
( 1 )پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ
میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ائْتِنِی بہا
اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
فَأَتَیْتُہُ بہا
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
أَیْنَ اللہ
اللہ کہاں ہے ؟
قالت فی السَّمَاء ِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''
پھر دریافت فرمایا
مَن أنا
میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس باندی نے کیا جواب دِیا؟؟؟
غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس باندی کا اِیمان جانچنے کے لیے ، اُس کے اِیمان کی درستگی جانچنے کے لیے صِرف دو باتیں دریافت فرمائیں،
اللہ کی ایک ذات مبارک کے بارے میں سوال کیا کہ اللہ کہاں ہے ؟
اِیمانیات کے بارے میں کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اپنی ذات مبارک کے بارے میں ایک سوال فرمایا کہ اُن کی حیثیت و رُتبہ کیا ہے ؟،
اور اُس باندی کے مختصر سے جواب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس کےاِیمان والی ہونے کی گواہی دِی ، جِس جواب میں اللہ کی ذات مبارک کے بارے میں اُس باندی نے یہ کہا کہ""" اللہ آسمان پر ہے """،
اب ذرا کچھ مزید توجہ سے غور فرمایے ،کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کہنا کُفر ہے کہ وہ اُوپر ہے ، آسمانوں سے اوپر ہے ، اپنی تمام تر مخلوق سے اُوپر ہے،تو پھر اس بات پر ، یا ایسا کہنے والوں پر کُفر کا فتویٰ لگانے والے لوگ سچے ہیں ؟یا اُس باندی کو اِیمان والی قرار دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن پر میرے باپ قُربان ہوں سچے ہیں ؟؟؟؟؟
اس حدیث شریف کو عموماً " حدیث الجاریہ " کہا جاتا ہے
[DOUBLEPOST=1367385754][/DOUBLEPOST]
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِى فَأَغْفِرَ لَهُ
جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو(اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو (اِس وقت)مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُسکا سوال پورا کروں ، کون ہے جو (اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اُسکی مغفرت کروں)
صحیح البُخاری/ابواب التہجد
/باب14، صحیح مُسلم/حدیث 758 ،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا / باب24 (

قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کو بھی غور سے پڑہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟؟؟
[DOUBLEPOST=1367386638][/DOUBLEPOST]
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے)
صحیح مُسلم / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔
[DOUBLEPOST=1367386739][/DOUBLEPOST]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ
بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں
)صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (
قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟
اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی
[DOUBLEPOST=1367387041][/DOUBLEPOST]​
أبی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ یمن سے لائی جانے والی زکوۃ کی تقسیم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
أَلاَ تَأْمَنُونِى وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِى السَّمَاءِ ، يَأْتِينِى خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً
کیا تُم لوگ مجھے أمانت دار نہیں جانتے جبکہ میں اُس کی طرف سے امانت دار ہوں جو آسمان پر ہے ، اور مجھے صبح و شام آسمان سے خبر آتی ہے
( صحیح البُخاری /حدیث 4351/کتاب المغازی باب 61 کی تیسری حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث 2500 / کتاب الزکاۃ / باب 48 )
ایک دفعہ پھر غور فرمایے محترم قارئین کہ وہ کون ہے جِس کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم امانت دار مقرر تھے ؟؟؟
جِس نے اپنے پیغامات اور احکامات کو امانت داری سے اُس کے بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطاء فرمائی تھی ؟؟؟
بے شک وہ اللہ ہی ہے ، اوربے شک وہ آسمانوں کے اُو پر ہے، اور بے شک اسی کی طرف سے آسمانوں کے اُو پر سے صُبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف وحی آتی تھی۔
[DOUBLEPOST=1367387526][/DOUBLEPOST]

أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلاَّ كَانَ الَّذِى فِى السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا

اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی اِنکار کرے تووہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُس عورت کا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا
(صحیح مُسلم /حدیث 1436 /کتاب النکاح ، باب 20 کی دوسری حدیث )


جی ، کون ہے جو اپنے خاوند کی بات نہ ماننے والی عورت پر ناراض ہوتا ہے ، اور وہ ناراض ہونے والا آسمان سے اُوپر ہے ، یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے ۔
 
  • Like
Reactions: Dawn

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلاَّ كَانَ الَّذِى فِى السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا

اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی اِنکار کرے تووہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُس عورت کا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا
(صحیح مُسلم /حدیث 1436 /کتاب النکاح ، باب 20 کی دوسری حدیث )
جی ، کون ہے جو اپنے خاوند کی بات نہ ماننے والی عورت پر ناراض ہوتا ہے ، اور وہ ناراض ہونے والا آسمان سے اُوپر ہے ، یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے ۔


[DOUBLEPOST=1367387750][/DOUBLEPOST]
أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ الخَلقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہِ فَہُوَ عِندَہُ فَوق َ العَرشِ إِنَّ رَحمَتِی تَغلِبُ غَضَبِی
جب اللہ تخلیق مکمل کر چکا تو اُس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہو گی وہ کتاب اللہ کے پاس ہے عرش کے اوپر
(صحیح البُخاری /حدیث 3194 /کتاب بداء الخلق /پہلے باب کی پہلی حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث 2751 /کتاب التوبہ/باب 4 پہلی حدیث )
 
  • Like
Reactions: Dawn

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
آئیے دیکھتے ہیں کہ عرش کہاں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عرش یہیں کہیں ہو اور اللہ بھی ؟؟؟
( 1 )
أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَصَامَ رَمَضَانَ ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ جَاهَدَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوْ جَلَسَ فِى أَرْضِهِ الَّتِى وُلِدَ فِيهَا

جو اللہ اور اُسکے رسول پر اِیمان لایا اور نماز ادا کرتا رہا اور رمضان کے روزے رکھتا رہا ، تو اللہ پر (اُس کا )یہ حق ہے کہ اللہ اُسے جنّت میں داخل کرے خواہ اُس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی بستی میں ہی زندگی گُذاری ہو

صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ فِى الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ ، أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ

اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنّت میں ایک سو درجات بنا رکھے ہیں ، ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے ، لہذا جب تُم اللہ سے سوال کرو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے بُلند مُقام ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے اُ وپر رحمان کا عرش ہے جِس میں سے جنّت کے دریا پھوٹتے ہیں
(صحیح البُخاری /حدیث 2790/کتاب الجھاد و السیر/باب 4، حدیث1 )


امام بخاری نے اس حدیث کی روایت کے بعد تعلیقاً لکھا کہ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ﴿وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ :::اور اُس سے اُوپر رحمٰن کا عرش ہے﴾ یعنی اوپر ذکر کردہ روایت میں راوی کی طرف سے اس جملے کے بارے میں جو لفظ """ أُرَاهُ """ کے ذریعے شک کا اظہار ہوا ہے وہ اس دوسری سند کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ و للہ الحمد و المنۃ،
اس حدیث مبارک کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا عرش جس سے اوپر اللہ تعالیٰ خود مستوی ہے ، وہ عرش فردوس الاعلی سے بھی اُوپر ہے ، یہیں کہیں نہیں ،لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ہر جگہ موجود یا قائم نہیں ۔
( 2 )
جریر رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
مَن لا یَرحَمُ مَن فِی الأَرضِ لا یَرحَمُہُ مَن فِی السَّمَاء
ِ
جو اُن پر رحم نہیں کرتا جو زمین پر ہیں اُس پر وہ رحم نہیں کرتا جو آسمان پرہے
لمعجم الکبیر للطبرانی/حدیث2497،الترغیب والترھیب/حدیث 3411، اِمام المنذری رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ(اِمام) طبرانی(رحمہ ُ اللہ) نے یہ حدیث بہت اچھی اور مضبوط سند سے روایت کی ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور اس حدیث شریف کو "صحیح لغیرہ" قرار دیا ، صحیح الترغیب و الترھیب ، حدیث2255 )

(3 )
سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا
تمہارا رب تبارک و تعالیٰ بہت حیاء کرنے والا اور بزرگی والا ہے ، جب اُس کا کوئی بندہ اُس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو اللہ اِس بات سے حیاء کرتا ہے کہ وہ اُس بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے
) سُنن أبو داؤد /حدیث 1485 ، سُنن الترمذی /حدیث3556 /کتاب الدعوات ، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)

اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے تو آگے پیچھے دائیں بائیں کسی بھی طرف ہاتھ پھیلا کر دُعا کرلی جانی چاہیے، آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف ہاتھ کیوں اٹھائے جاتے ہیں ؟
کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے والے لوگ بھی جب دُعا مانگتے ہیں تو ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور دورانء دُعا نظریں اُٹھا اُٹھا کر بھی آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف دیکھتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ ہم جس اللہ سے دُعا مانگ رہے ہیں وہ اُوپر ہی ہے ۔
( 4 )
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
أِتَقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا تَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ کأنَّہا شِّرار
مظلوم کی بد دُعا سے ڈرو کیونکہ وہ چنگاری کی طرح آسمان کی طرف چڑہتی ہے
) المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم ، معروف ب المستدرک الحاکم/حدیث 81 ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث اِمام مُسلم کی شرئط کے مُطابق صحیح ہے ، اور امام الالبانی نے بھی صحیح قرار دیا ،السلسلہ الصحیحہ /حدیث(871

مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑہتی ہے، کیوں اُس طرف چڑھتی ہے ؟؟؟ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود و قائم ہے تو پھر دُعا کو کسی بھی طرف چل پڑنا چاہیے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عطاء کردہ اس خبر کے مطابق تو مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، کیونکہ وہاں تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا اُن کا اکیلا خالق اللہ ہوتا ہے ، جس نے دُعائیں قبول و رد کرنا ہوتی ہیں ،
اس حدیث پاک میں ہمیں مظلوم کی طرف سے کی جانے والی بد دُعا سے بچنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ، یعنی ظلم کرنے سے باز رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ جب ہم کسی پر ظلم نہیں کریں گے تو کوئی بحیثیت مظلوم ہمارے لیے بد دُعا نہیں کرے گا مظلوم کی بد دُعا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ
اتَّقِ دَعوَۃَ المَظلُومِ فَإِنَّہَا لَیس بَینَہَا وَ بَینَ اللَّہِ حِجَابٌ
مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا
)صحیح البُخاری /حدیث 2316/ کتاب المظالم/باب10 ،صحیح مُسلم /حدیث 19/کتاب الایمان/ باب 7 )

ظلم ، مظلوم یا اس کی بد دُعا میری اس کتاب کا موضوع نہیں ، پس اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ اس حدیث مبارک سے بھی یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ مظلوم کی بد دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں لہذا وہ بددُعا آسمانوں کی طرف اسی لیے چڑھتی ہے کہ وہاں آسمانوں سے بُلند ، اپنے عرش سے اُوپر استویٰ فرمائے ہوئے، عرش سمیت اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا، اللہ کے پاس پہنچے ۔
( 5 )
النواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے اور یاجوج ماجوج کے نکلنے اور قتل و غارتگری کرنے کی خبروں پر مشتمل ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِى الأَرْضِ هَلُمَّفَلْنَقْتُلْ مَنْ فِى السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا
پھر یأجوج مأجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑکے پاس جا پہنچیں گے ، اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے(جب وہاں پہنچیں گے) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا
صحیح مُسلم / حدیث 2937 /کتاب الفتن و أشراط الساعۃ /باب 20، سُنن النسائی /حدیث 2240/ کتاب الفتن /باب 59 )

( 6 )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا خطبہء حج بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّى فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ
اور تُم لوگوں کو میرے بارے میں پوچھا جائے گاتوتُم لوگ کیا کہو گے
سب نے جواب دِیا
نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ
ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے(اللہ کے پیغامات کی)تبلیغ فرما دی ، اور (رسالت و نبوت کا)حق ادا کر دیا اور نصیحت فرما دی
فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی شہادت والی اُنگلی سے لوگوں کی طرف اِشارہ فرماتے پھر اُسے آسمان کی طرف اُٹھاتے اور اِرشادفرمایا ،اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ :::اے اللہ گواہ رہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ کیا اور فرمایا
)صحیح مُسلم /حدیث1218 /کتاب الحج / باب 19 ،حجۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن فرامین میں صاف صاف واضح طور پر یہ تعلیم دے گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش سے اُوپر ہے اور اپنی تمام مخلوق کے تمام أحوال جانتا ہے ، اُمید تو نہیں کہ کوئی صاحبِ اِیمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ فرامین پڑھنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھتا رہے ، اور اللہ کو اُوپر کہنے کو کفر کہے ۔
 
  • Like
Reactions: Dawn

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
سلام
میرے بھائی صرف یہ بتا دیں کہ
اللہ اپنی ذات سے ہر جگہ موجود ہے یا اپنے علم سے ہر جگہ موجود ہے
ہمیں معلوم تھا کہ آپ کا یہ سوال کرنے کا مقصد کیا تھا ۔۔۔۔ بس آپ کے ہاتھ اپنے کسی مولوی کا آرٹیکل ہاتھ لگنا چاہیے ۔۔۔ اور آپ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جوں ہی آپ کو موقع ملے اور آپ کاپی پیسٹ مار کر داد و تحسین وصول کرسکیں
میرے بھائی پہلے ہی یہ امت مسلمہ بہت انتشار کا شکار ہے ۔۔۔خدارا اس امت پر مہربانی فرمائیں اور چھوڑ دیں یہ دوسرے مولویوں کے لکھے ہوئے آرٹیکل کاپی یسٹ مار کر خود نمائی کرنا
میرے بھائی اس چیز سے کسی مسلمان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ موجود ہے یا اپنی صفات سے ہر جگہ موجود ہے ۔۔۔
۔ ایک مسلمان کا یہ یقین و ایمان کرلینا کافی ہے کہ اللہ رب العزت کائنات کے ذرے ذرے سے باخبر ہے ۔۔۔ وہ سب کی سنتا ہے ۔۔۔۔ سب کا حال جانتا ہے ۔۔۔۔ ہر ایک ذرہ کا علم رکھتا ہے
ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں
الله تعالی کی ذات میں تفکرکرنا ممنوع هے ، ایک حسن حدیث میں هے کہ:
عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم " تفكروا في آلاء الله ولا تفكروا في الله " أخرجه أبو الشيخ والطبراني
الله تعالی کی نعمتوں میں ( مخلوقات میں ) تفکر کرو اور الله تعالی کی ذات میں تفکرنہ کرو ۰
اوراس بات کی دلیل قرآن مجید اس آیت سے بهی هے ۰
"ليس كمثله شيء" الخ شوریٰ 11
ترجمہ :کوئی چیز اس کی مثل نہیں
تو جب قرآن پاک سے ہی "لیس کمثلہ شیء" قاعدہ طے ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اسکے بعد کسی بھی قسم کے قیاس کے گھوڑے دوڑانے کا یا کسی آیت سے ظاہری یاباطنی معنی لے کر کچھ اخذ کرنا درست نہیں
کیوں کہ انسانی عقل ایک محدود حد تک کام کرتی ہے ۔۔۔۔ اور اللہ رب العزت کی قدرت بے پناہ وسیع ہے ۔۔۔۔ جو انسانی عقل میں سما ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہی فرمادیا کہ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ۔۔۔ تو اس کے بعد انسانی عقل جتنا بھی زور لگالے وہ کسی بھی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی
اس کے باوجود بھی آ پ اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑا کر نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں
حالانکہ تمام ائمہ کرام ،محدثین کرام ،سلف صالحین وغیر ھم نے صراحت سے اللہ رب العزت کے لئے زمان و مکان و جہت و جلوس کے تعین کی نفی فرمائی ہے اور صراحت سے واضح فرمایا کہ الله تعالى " مَـكــان وَجـِـهـَـة " سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے
1 =
قال الصحابي الجليل والخليفة الراشد سيدنا علي رضي الله عنه ما نصه
كان الله ولا مكان ، وهو الان على ماعليه كان اهـ. أي بلا مكان.
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
2 =
وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
3 = وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم ما نصه (أنت الله الذي لا يحويك مكان" أ هـ
[إتحاف السادة المتقين (4/ 380) ]
4 = قال الإمام الأعظم المجتهد الأكبرأبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه
" والله تعالى يُرى الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة " اهـ
[ ذكره في الفقه الاكبر، انظر شرح الفقه الاكبر لملا علي القاري (ص/ 136ء 137) ].
5 = وقال أيضا في كتابه الوصية : " ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهة حق " اهـ [ الوصية: (ص/ 4)، ونقله ملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/138)]
6 = وقال أيضًا : " قلت: أرأيت لو قيل أين الله تعالى؟ فقال أي أبو حنيفة: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ. [ الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسانل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 25). ].
7 = وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
[ كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف"] .
8 = وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه : " إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ
[إتحاف السادة المتقين (2/ 24 ]
9 = وأما الإمام المجتهد الجليل أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني إمام المذهب الحنبلي فقد ذكر الشيخ ابن حجر الهيتمي أنه كان من المنزهين لله تعالى عن الجهة والجسمية، ثم قال ابن حجر ما نصه : " وما اشتهر بين جهلة المنسوبين إلى هذا الإمام الأعظم المجتهد من أنه قائل بشىء من الجهة أو نحوها فكذب وبهتان وافتراء عليه " اهـ. [ الفتاوي الحديثية / 144).
10 = شيخ المحدثين الإمام أبو عبد الله محمد ابن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح
کا بهی یہی عقیده هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے
جیسا کہ بخاري شريف کے شُراح فرماتے هين
قال الشيخ علي بن خلف المالكي المشهور بابن بطال أحد شراح البخاري (449هـ) ما نصه : "غرض البخاري في هذا الباب الرد على الجهمية المجسمة في تعلقها بهذه الظواهر، وقد تقرر أن الله ليس بجسم فلا يحتاج إلى مكان يستقر فيه، فقد كان ولا مكان، وانما أضاف المعارج اليه إضافة تشريف، ومعنى الارتفاع إليه اعتلاؤهء أي تعاليهء مع تنزيهه عن المكان " اهـ.
[فتح الباري (13/416).]
11 = وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنفء يعني البخاريء أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418ء 419). ]
12 = وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 هـ) في رسالته (العقيدة الطحاوية) ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے هیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رهے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے ، اور الله تعالی کی شان هے کہ آج پوری دنیا کے مدارس ومکاتب ومعاهد ومساجد میں (العقيدة الطحاوية) هی کی تعلیم دی جاتی هے ، حتی کہ عرب کے اندر تمام سلفی مدارس وکلیات میں (العقيدة الطحاوية) کی تعلیم دی جاتی هے ، اور عرب کے تمام سلفی علماء نے اس کے شروحات لکهے هیں ، اور تمام نے (العقيدة الطحاوية) کو اهل سنت والجماعت کی عقائد کی مستند ومعتبرکتاب قرار دیا هے ،
اور (العقيدة الطحاوية) پڑهنے والے تمام لوگ کتاب کو کهولتے هی یہ اعلان کرتے هیں ، هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13 = وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
14 = وقال إمام أهل السنة أبو منصور الماتريدي (333 هـ) ما نصه : "إن الله سبحانه كان ولا مكان، وجائز ارتفاع الأمكنة وبقاؤه على ما كان، فهو على ما كان، وكان على ما عليه الان، جل عن التغير والزوال والاستحالة" اهـ. يعني بالاستحالة التحول والتطور والتغير من حال إلى حال وهذا منفي عن الله ومستحيل عليه سبحانه وتعالى.[كتاب التوحيد (ص/ 69).]
15 = وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان". [الثقات (1/ 1)
16 = وقال أيضا ما نصه : "كان الله ولا زمان ولا مكان" اهـ.[صحيح ابن حبان، أنظر الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان (8/ 4).]
17 = وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
18 = وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
19 = وذكر الشيخ أبو الطيب سهل بن محمد الشافعي مفتي نيسابور (404 هـ) ما نقله عنه الحافظ البيهقي: "سمعت الشيخ أبا الطيب الصعلوكي يقول: "ُتضامّون" بضم أوله وتشديد الميم يريد لا تجتمعون لرؤيتهء تعالىء في جهة ولا ينضم بعضكم إلى بعض فإنه لا يرى في جهة" اهـ، ذكر ذلك الحافظ ابن حجر فتح الباري (447/11).
20 = وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.
مشكل الحديث (ص/ 57).
21 = وقال الشيخ الإمام أبو منصور عبد القاهر بن طاهر التميمي البغدادي الإسفراييني (429 هـ) ما نصه "وأجمعوا (أي أهل السنة)على أنه أي الله لا يحويه مكان ولا يجري عليه زمان " اهـ
الفرق بين الفرق (ص/ 333).
22 = وقال أبو محمد علي بن أحمد المعروف بابن حزم الأندلسي (456 هـ)
" وأنه تعالى لا في مكان ولا في زمان، بل هو تعالى خالق الأزمنة والأمكنة، قال تعالى: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(سورة الفرقان/2)، وقال (خلقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا)(سورة الفرقان/59)، والزمان والمكان هما مخلوقان، قد كان تعالى دونهما، والمكان إنما هو للاجسام" اهـ.
(أنظر كتابه علم الكلام: مسألة في نفي المكان عن الله تعالى (ص/ 65).
23 = وقال الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي الشافعي (458 هـ) ما نصه "والذي روي في أخر هذا الحديث إشارة إلى نفي المكان عن الله تعالى، وأن العبد أينما كان فهو في القرب والبعد من الله تعالى سواء، وأنه الظاهر فيصح إدراكه بالأدلة، الباطن فلا يصح إدراكه بالكون في مكان. واستدل بعض أصحابنا في نفي المكان عنه بقول النبي (صلّى الله عليه و سلّم) "أنت الظاهر فليس فوقك شىء، وأنت الباطن فليس دونك شىء"، وإذا لم يكن فوقه شىء ولا دونه شىء لم يكن في مكان " اهـ
( الأسماء والصفات (ص/ 400).
24 = وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ. التبصير في الدين (ص/ 161)..
25 = وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
26 = وقال إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله الجويني الأشعري (478 هـ) ما نصه "البارىء سبحانه وتعالى قائم بنفسه، متعال عن الافتقار إلى محل يحله أو مكان يقله " اهـ.
الإرشاد إلى قواطع الأدلة (ص/ 53).
27 = وقال الفقيه المتكلم أبو سعيد المتولي الشافعي الأشعري (478 هـ) أحد أصحاب الوجوه في المذهب الشافعي ما نصه (ثبت بالدليل أنه لا يجوز أن يوصف ذاته تعالى بالحوادث، ولأن الجوهر متحيز، والحق تعالى لا يجوز أن يكون متحيزا" اهـ.
الغنية قي أصول الدين (ص/83).
28 = وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (505 هـ) ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108).
29 = وقال لسان المتكلمين الشيخ أبو المعين ميمون بن محمد النسفي (توفي 508 هـ) مانصه "القول بالمكان – اي في حق الله – منافيا للتوحيد"
تبصرة الأدلة (1/ 171 و 182).
30 = وقال أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي شيخ الحنابلة في زمانه (513 هـ) ما نصه "تعالى الله أن يكون له صفة تشغل الأمكنة، هذا عين التجسيم، وليس الحق بذي أجزاء وأبعاض يعالج بها" اهـ.
الباز الأشهب: الحديث الحادي عشر (ص/ 86).
 
Status
Not open for further replies.
Top