ائمہ اربعہ کے ارشادات کی حقیقت علماء کی نظر میں

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
اذاصح الحدیث فھومذہبی پر ایک نظر
ائمہ اربعہ سے ایسے اقوال منقول ہیں جس میں انہوں نے کہاہے اذاصح الحدیث فھومذہبی امام شافعی کی یہ بات ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں صلاۃ وسطی کی بحث میں نقل کی ہے اورایسے ہی اوراسی کے ہم معنی اقوال امام عبدالوہاب شعرانی نے اپنی کتاب المیزان الکبری میں نقل کیاہے۔اسے لے کر کچھ لوگوں نے ایساکرنا شروع کردیا کہ ایک طرف کوئی حدیث رکھی اوردوسری جانب ایک حدیث رسول پیش کیااورپھر یہ قول عوام کے سامنے پیش کرکے کہادیکھو امام نے یہ قول کہاہے اورصحیح حدیث یہ ہے۔اس مجلس پر بھی بعض حضرات نے ایساہی کیاہے کہ ایک جانب حدیث رسول سامنے رکھا اوردوسری جانب فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے مخالف ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کا محمل کچھ اور ہے اوراس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کم سے کم اجتہاد کی صلاحیت اورائمہ کرام کے دلائل سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ صرف تنہاحدیث کا جان لینا کافی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام ابومحمد عبداللہ بن وہب مصری نے کہاتھا الحدیث مضلۃ الاالعلماء (ترتیبالمدارک69/1)
حدیث جائے گمراہی ہے سوائے علماء کے۔یعنی اگرکوئی ناواقف حدیث پر عمل کرے اوروہ شرعی علوم میں مہارت حاصل نہ کرے تو وہ گمراہ ہوجائے گا۔
ائمہ کرام کے اس قول کے مخاطب وہ لوگ تھے جن کی نگاہ علوم دینیہ پر وسیع ہووہ حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی گہرے رسوخ کا مالک ہو اوراجتہاد فی المذہب کے درجہ کافقیہہ ہو۔چنانچہ امام نوویٌ امام شافعی کے اس قول کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
احتاط الشافعی رحمہ اللہ فقال ماھوثابت عنہ من اوجہ من وصیتہ بالعمل بالحدیث الصحیح،وترک قولہ المخالف للنص الثابت الصریح،وقدامتثل اصحابنارحمھم اللہ وصیتہ عملوابہافی مسائل کثیرۃ مشہورۃ کمسالۃ التثویب فی اذان الصبح واشتراط التحلل فی الحج بعذرالمرض ونحوہ وغیرذلک مماھومعروف ولکن لھذا شرط قل من یتصف بہ فی ھذالازمان وقداوضحتہ فی مقدمۃ شرح المہذب
امام شافعی کا یہ قول ان کے وصایامیں سے متعدد طرق سے ثابت ہے اورامام شافعی نے اس قول کے ذریعہ دین میں احتیاط پر عمل کیا کہ حدیث پر عمل کیاجائے اوران کا جو قول نص ثابت صریح سے مخالف ہو ترک کردیاجائے۔اورہمارے اصحاب(ائمہ فقہاء)نے امام شافعی کے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے بہت سارے مسائل میں ان کے قول کے برخلاف حدیث پر عمل کیاہے جیسے مسالہ تثویب فی الاذان،مرض کی وجہ سے احرام کھول دینے کی شرط اوراس کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل وغیرہ لیکن اس کیلئے کچھ شرائط ہیں ،کم لوگ ہیں جواس زمانہ میں ان سے متصف ہوں گے اوراس کو میں نے واضح کرکے مہذب کے شرح کے مقدمہ میں بیان کیاہے۔
پھراس کے بعد امام نووی نے جو کچھ شرح المہذب کے مقدمہ میں بیان کیاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
لیس معناہ ان کل احد رای حدیثا صحیحاقال ھذامذھب الشافعی وعمل بظاہرہ وانما ھذا فیمن لہ رتبۃ الاجتہاد فی المذہب وشرطہ ان یغلب علی ظنہ ان الشافعی رحمہ اللہ لم یقف علی ھذاالحدیث اولم یعلم صحتہ وھذاانمایکون بعدمطالعۃ کتب الشافعی کلھاونحوہ من اصحابہ الاخذین عنہ ومااشبھھا،وھذاشرط صعب قل من یتصف بہ وانماشرطواماذکرنا لان الشافعی رحمہ اللہ ترک العمل بظاہراحادیث کثیرۃ راھاوعلمھالکن قام الدلیل عندہ علی طعن فیھااونسخھااوتخصیصھااوتاو یلھااونحوذلک(المجموع104/1)
اس قول (اذاصح الحدیث فھومذہبی)کا معنی یہ نہیں ہے ہر کوئی جس نے کوئی صحیح دیکھی توکہنے لگے کہ یہ امام شافعی کا مذہب ہے اوراس کے ظاہر پر عمل کرنے لگے اس قو ل کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا رتبہ کم ازکم اجتہاد فی المذہب کا ہو۔اوراس کی شرط یہ ہے کہ ان کو اپنے گہرے علم وبصیرت اوروسعت اطلاع سے اس کا گمان غالب ہوجائے کہ امام شافعی اس صحیح حدیث سے مطلع نہیں ہوئے یااس حدیث کی صحت ان کومعلوم نہیں تھی اوریہ اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب کوئی امام شافعی کی تمام کتابوں کامطالعہ کرلے اوراسی طرح ان کے شاگردوں کی کتابیں بھی پڑھے لے اوریہ بہت مشکل شرط ہے بہت کم لوگ ہیں جواس شرط کی اہلیت رکھتے ہوں۔یہ شرطیں ہم نے اس لئے ذکر کی ہیں کہ امام شافعیٌ نے خودبہت سارے احادیث کے ظاہر پرعمل نہیں کیاہے حالانکہ ان حادیث کوان کو اطلاع تھی اوران کے صحت سے بھی وہ واقف تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو حدیث میں کسی خرابی،یااس کے منسوخ ہونے یاخاص ہونے یااس حدیث کا کوئی دوسرامطلب ظاہر حدیث کے برخلاف ہونے کے دلائل ان کے پاس تھے ۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام نووی اپنے زمانہ کا رونا رورہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ اس زمانہ میں ان اوصاف سے متصف ہونے والے لوگ بہت کم ہیں جوکہ علوم اسلامیہ کے بہترین دور مین سے ایک ہے اوآج کی حالت یہ ہے کہ ہرایک ہماوشما ائمہ کرام کے ان اقوال کا سہارالے کر مجتہد بننے کی کوشش میں لگاہواہے۔
حافظ ابن صلاح جن کامقدمہ علم اصول حدیث میں مشہور ہے وہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدکے ایک بڑے فقیہہ تھے اورفقہ شافعی میں ان کابڑامقام ومرتبہ ہےچنانچہ وہ اس تعلق سے کہتے ہیں۔
لیس العمل بظاہر ماقالہ الشافعی بالھین،فلیس کل فقیہ یسوغ لہ ان یستقل بالعمل بمایراہ حجۃ من الحدیث وفیمن سلک ھذاالمسلک من الشافعیین عمل بحدیث ترکہ الشافعی رحمہ اللہ عمدامع علمہ بصحتہ لمانع اطلع علیہ وخفی علی غیرہ کابی الولید موسی بن الجارود ممن صحب الشافعی قال صح حدیث افطرالحاجم والمحجوم،فاقول قال الشافعی افطرالحاجم والمحجوم ،فردواذلک علی ابی الولید لان الشافعی ترکہ مع علمہ بصحتہ ،لکونکہ منسوخاعندہ وبین الشافعی نسخہ واستدل علیہ (ادب المفتی والمستفتی 11
امام شافعی نے جوکہاہے اس کے ظاہر کے مطابق عمل آسان نہیں اورہرفقیہ کیلئے یہ روانہیں ہے کہ جوکچھ اس کو حدیث سے سمجھ میں آتاہو اس پرعمل کرے۔شافعیوں میں سے جنہوں نے امام شافعی کے ظاہر قول پر عمل کرتے ہوئے حدیث پر عمل کیاہےاورامام شافعی کے قول کو چھوڑدیاہے جیسے ابوالولید موسی بن جارود۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امام شافعی کے صحبت کاشرف اٹھایاتھا انہوں نے افطرالحاجم والمحجوم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہاتھا کہ (جب امام شافعی نے یہ کہاہے کہ صحیح حدیث ہی میرامذہب تو چونکہ یہ حدیث صحیح ہے)تومیں کہتاہوں کہ امام شافعی کا قول ہے افطرالحاجم والمحجوم ۔لیکن اس سلسلے میں شوافع نے ابوالولید پر اعتراض کیاہے کہ امام شافعی نے اس حدیث کی صحت کی واقفیت کے باوجود بھی اس کوچھوڑدیاہے کیونکہ یہ حدیث امام شافعی کی نظرمیں منسوخ ہےاورامام شافعی نے اس کے منسوخ ہونے کے وجوہات اوردلائل بھی بیان کئے ہیں۔
اس سلسلے میں امام تقی الدین سبکی کا ایک رسالہ بھی ہے ""معنی قول الامام المطلبی اذاصح الحدیث فھومذہبی ""جس میں انہوں نے حقیقت واضح فرمائی ہے۔چنانچہ وہ ابن جارود والا قصہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں
ھذاتبیین لصعوبۃ ھذاالمقام حتی لایغتر بہ کل احد ۔یہ قصہ وضاحت کرتاہے کہ یہ مقام کتنا مشکل ہے اس سے کسی کو دھوکہ میں نہیں پڑناچاہئے۔
اس کے بعد امام تقی الدین سبکی اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابوالحسن محمد بن عبدالملک الکرجی الشافعی جو کہ محدث اورفقیہہ دونوں تھے وہ فجر کی نماز میں دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ نے فجر کی نماز میں قنوت ترک کیاہے۔اس کے بعد میں نے بھی ایک مدت تک فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھناچھوڑے رکھا پھر میرے نزدیک یہ بات واضح ہوگئی کہ فجر مین دعائے قنوت پڑھنا ہی صحیح ہے اورامام شافعی کا جوقول اس سلسلے میں ہے وہ درست ہے۔اسی سلسلے میں وہ کہتے ہیں ولیس فی شیء من ذلک اشکال علی کلام الشافعی وانماقصور یعرض لنافی بعض النظر۔اوراس میں کوئی اشکال اوراعتراض امام شافعی کے کلام پر نہیں یہ توہمارے فہم ونظر کاقصور ہے۔
لیکن افسوس اب لوگ اپنے قلت علم کا اورقلت فہم کا اعتراف کرنے کے بجائے ائمہ کرام کو ہی نشانہ بنادیتے ہیں اوران کے اقوال کو ہی غلط ٹھہراتے ہیں۔
اسی رسالہ میں اس تعلق سے انہوں نے ابوشامہ المقدسی کا ایک طویل کلام نقل کیاہے یادرہے کہ ابوشامہ کی مثال شافعیہ میں ویسی ہی ہے جیسے حنفیہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ۔وہ کہتے ہیں ۔ولایتاتی النہوض بھذالامام الامن عالم معلوم الاجتھاد،وھوالذی خاطبہ الشافعی بقولہ،اذاوجدتم حدیث رسول اللہ علی خلاف قولی فخذو بہ ودعو اماقلت ولیس ھذالکل احد(ص106)اوراس جملہ کا مخاطب مجتہد عالم ہے جس کوامام شافعی نے اپنے قول سے مخاطب کیاہے کہ جب تم میراکوئی قول حدیث رسول کے خلاف دیکھو تواس پر عمل کرو اورمیرے قول کو چھوڑدو ۔اس کامخاطب ہرایک نہیں ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام ابوشامہ بھی اس کااعتراف کررہے ہیں اوروضاحت کررہے ہیں کہ امام شافعی کے اس جملہ کامخاطب ہرایک فرد نہیں ہے اورہرعامی وجاہل اورسند یافتہ عالم نہیں ہے۔بلکہ و ہ ہے جس کے اندر کسی حد تک اجتہاد کی صلاحیتیں ہوں۔قران وحدیث پر گہری نظر اورعلوم اسلامیہ میں گہرارسوخ ہو۔
اسی تعلق سے امام قرافی لکھتے ہیں
کثیرمن فقہاء الشافعیۃ یعتمدون علی ھذاویقولون مذہب الشافعیۃکذا ،لان الحدیث صح فیہ،وھوغلط لانہ لابد من انتقاء المعارض ،والعلم بعدم المعارض یتوقف علی من لہ اھلیۃ استقراء الشریعۃ حتی یحسن ان یقال لامعارض لھذاالحدیث۔۔۔۔۔۔فھذاالقائ ل من الشافعیۃ ینبغی ان یحصل لنفسہ اھلیۃ الاستقراء قبل ان یصرح بھذہ الفتیا(شرح التنقیح ص450)
بہت سارے شافعی فقہاء اس قول پراعتماد کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں امام شافعی کا مذہب یہ ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث ہے۔اوریہ غلط ہے کیونکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس صحیح حدیث کے خلاف کوئی دوسری مضبوط دلیل نہ ہو۔اوراس بات کا علم کہ فلاں صحیح حدیث کے خلاف کوئی دلیل نہیں شرعی علوم میں گہرے رسوخ کی اہلیت کا تقاضاکرتاہے تاکہ یہ کہاجاسکے کہ اس حدیث کی مخالفت میں کوئی معارض نہیں ہے۔توشافعیہ میں ایساکرنے والوں (یعنی صحیح حدیث کو دیکھ کر امام شافعی کاقول چھوڑدینے اوراس کو امام شافعی کافورامسلک قراردینے )کوچاہئے کہ وہ اپنے اندر شرعی اوراسلامی علوم میں گہرارسوخ اورمہارت پیداکریں۔قبل اس کے کہ وہ اس طرح کے فتاوی جاری کریں۔
حنفیہ میں سے امام ابن شحنہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔اذاصح الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون بذلک مذھبہ ولایخرج مقلدہ عن کونہ حنیفا بالعمل بہ فقد صح عنہ عن الامام ابی حنیفہ انہ قال اذاصح الحدیث فھومذہبی وقدحکی ذلک ابن عبدالبر عنا بی حنیفہ وغیرہ من الائمہ ۔
مشہور فقیہہ ابن عابدین شامی نے ابن شحنہ کی یہ بات نقل کرکے اس پر لکھاہے۔ ونقلہ ایضاالامام الشعرانی عن الائمۃ الاربعۃ ولایخفی ان ذلک لمن کان اھلاللنظر فی النصوص ،ومعرفۃ محکمھامن منسوخھافاذانظراہل المذہب فی الدلیل وعملوابہ صح نسبتہ الی المذہب(حاشیہ ابن عابدین68/1)یہ قول امام شعرانی نے ائمہ اربعہ سے نقل کیاہے اوریہ بات کسی پر مخفی نہیں ہونی چاہئے یہ کہ اس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جوکہ نصوص میں غووفکر کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اورمحکم ومنسوخ کی پہچان رکھتے ہوں ۔اب آخر میں بہترہے کہ امام فضیلۃ الشیخ عبدالغفار الحمصی الحنفی کا ایک تبصرہ بھی نقل کردیاجائے۔چنانچہ وہ اپنے رسالہ دفع الاوہام عن مسالۃ القراءۃ خلف الامام میں ابن عابدین کے اس تقیید پر صاد کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ھوتقیید حسن ،لانانری فی زمانناکثیراًممن ینسب الی العلم مغترافی نفسہ یضن انہ فوق الثریاوھوفی الحضیض الاسفل،فربمایطالع کتابامن الکتب الستۃ مثلافیری فیہ حدیثامخالفاابی حنیفہ فیقول اضربوامذھب ابی حنیفہ علی عرض الحائط وخذوابحدیث رسول اللہ وقدیکون۔ھذاالحدیث منسوخا اومعارضا بماھواقوی منہ سنداًاورنحوذلک من موجباعدم العمل بہ،وھولایعلم بذلک فلوفوض لمثل ھولاء العمل بالحدیث مطلقالضلوافی کثیرمن المسائل واضلومن اتاھم من سائل
یہ قید لگانا(یعنی اس قول کے مخاطب اہل علم اورقران وحدیث میں گہری نظررکھنے والوں کوقراردینا)بہترہے۔اس لئے کہ ہم اپنے زمانے میں بہت سارے لوگوں کودیکھتے ہیں جوکہ نام نہاد اہل علم ہیں اوراپنے آپ سے دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ علم میں وہ ثریاکی بلندیون کوچھوچکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جہالت کے سب سے گہرے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں ۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ ایسے مدعیان علم وتحقیق کتب ستہ میں سے کسی میں کوئی حدیث دیکھتے ہیں جوبظاہر امام ابوحنیفہ کے مسلک کی مخالفت میں ہوتی ہے توکہناشروع کردیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کو دیوار پر ماردو اورحدیث رسول پر عمل کرو۔ جب کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے یااس کے مخالف کوئی اس سے زیادہ قوی حدیث ہوتی ہےیااسی طرح کی کوئی دوسری بات ہوتی ہے جوکہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے اوریہ مدعی علم اس کو نہیں جانتا ۔تواگر عمل بالحدیث کواجازت ان مدعیان علم وتحقیق کو بلاکسی قید ورکاوٹ کے دے دی جائے توبہت سارے مسائل میں یہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوراپنے ساتھ ساتھ فتوی پوچھنے والوں کوبھی گمراہ کریں گے۔
اللہ ہم سب کواپنے دین پرچلنے اوراس پر قائم ودائم رہنے کی توفیق دے ۔آمین
 
  • Like
Reactions: i love sahabah

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
یہ قید لگانا(یعنی اس قول کے مخاطب اہل علم اورقران وحدیث میں گہری نظررکھنے والوں کوقراردینا)بہترہے۔اس لئے کہ ہم اپنے زمانے میں بہت سارے لوگوں کودیکھتے ہیں جوکہ نام نہاد اہل علم ہیں اوراپنے آپ سے دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ علم میں وہ ثریاکی بلندیون کوچھوچکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جہالت کے سب سے گہرے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں ۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ ایسے مدعیان علم وتحقیق کتب ستہ میں سے کسی میں کوئی حدیث دیکھتے ہیں جوبظاہر امام ابوحنیفہ کے مسلک کی مخالفت میں ہوتی ہے توکہناشروع کردیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کو دیوار پر ماردو اورحدیث رسول پر عمل کرو۔ جب کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے یااس کے مخالف کوئی اس سے زیادہ قوی حدیث ہوتی ہےیااسی طرح کی کوئی دوسری بات ہوتی ہے جوکہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے اوریہ مدعی علم اس کو نہیں جانتا ۔تواگر عمل بالحدیث کواجازت ان مدعیان علم وتحقیق کو بلاکسی قید ورکاوٹ کے دے دی جائے توبہت سارے مسائل میں یہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوراپنے ساتھ ساتھ فتوی پوچھنے والوں کوبھی گمراہ کریں گے۔
امام ابو حنیفہ فقیہ تھے یا محدث ؟؟؟اور کیا ان چاروں ائمہ کرام سے قبل والے گمراہی پر مرے ہیں؟؟؟[DOUBLEPOST=1354626329][/DOUBLEPOST]http://www.tafreehmella.com/threads/ﻛﯿﺎ-ﺍﻣﺎﻡ-ﻛﻮ-ﻟﻘﻤﮧ-ﺩﯾﻨﺎ-ﺟﺎﺋﺰ-ﮨﮯ؟.209461/
اس تھریڈ کو پڑھیے اور میرے سوال کا جواب دیجیے بھائی
مسجد کا امام دینی منصب پر فائز ہوتا ہے اور امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے کو اس امام سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا ہے لیکن اگر نماز میں اس امام سے غلطی ہو جاۓ تو ایک عام شخص کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسکی اصلاح کر دے اور اس امام پر واجب ہے کے اس کی اصلاح کو قبول کرے،
یہ پوسٹ مقلدین کے لیے بہت بڑا سبق ہے، جو کہتے ہیں کہ ہمارا امام غلطی سے پاک ہے. کیوں کہ ان کا علم بہت زیادہ ہے. غور کیجیۓ ہمارے نبی جو کہ .امام الانبیا ہیں انہوں نے صحابہ کرام کو کہا کہ اگر میں بھول گیا تھا تو تم لوگوں نے مجھے یاد کیوں نہ دلایا
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
محترمہ آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کہ مقلدین اپنے امام کو خطاء سے پاک سمجھتے ہیں
مسئلہ صرف سمجھنے کا ہے
الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اس وضاحت کے بعد آپ اپنے نکتہ کا جواب بخوبی سمجھ سکتی ہیں کہ مقتدی امام کو وہاں لقمہ دے سکتا ہے ۔۔۔جہاں اُس کو یقینی علم ہو کہ امام نے خطاء کی ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر مقتدی ہی تذبذب کا شکار ہو یا لاعلم ہو تو یقینا ایسے موقع پر مقتدی لقمہ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔اور یہی ہمارا تقلید کے متعلق کہنا ہے کہ اگر مقلد اجتہاد کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دینی علوم پر ایسی مہارت حاصل کرلے جس کے بعد وہ مجتہد فی المذہب پر فائز ہوجائے ۔۔۔ جس کے بعد اگر اُس کو اپنے امام کے کسی فتوی پر خطاء محسوس ہوتی ہے تو وہ مجتہد فی المذہب اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر فتوی دے سکتا ہے ۔۔۔ اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص دین کا علم حاصل کئے بغیر ہی خود سے اپنی رائے قائم کرنا شروع کردے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
محترمہ آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کہ مقلدین اپنے امام کو خطاء سے پاک سمجھتے ہیں
مسئلہ صرف سمجھنے کا ہے
الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اس وضاحت کے بعد آپ اپنے نکتہ کا جواب بخوبی سمجھ سکتی ہیں کہ مقتدی امام کو وہاں لقمہ دے سکتا ہے ۔۔۔جہاں اُس کو یقینی علم ہو کہ امام نے خطاء کی ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر مقتدی ہی تذبذب کا شکار ہو یا لاعلم ہو تو یقینا ایسے موقع پر مقتدی لقمہ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔اور یہی ہمارا تقلید کے متعلق کہنا ہے کہ اگر مقلد اجتہاد کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دینی علوم پر ایسی مہارت حاصل کرلے جس کے بعد وہ مجتہد فی المذہب پر فائز ہوجائے ۔۔۔ جس کے بعد اگر اُس کو اپنے امام کے کسی فتوی پر خطاء محسوس ہوتی ہے تو وہ مجتہد فی المذہب اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر فتوی دے سکتا ہے ۔۔۔ اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص دین کا علم حاصل کئے بغیر ہی خود سے اپنی رائے قائم کرنا شروع کردے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
nasir noman bhai.
yeh aap nay sahih kaha keh hazoor (saw) kay ilawa herr kissi say khata ho sakti hai.
lakin jaisa aap keh rahay haian keh yeh faisla kon keray ga keh sahih kia hai aur ghalt kia hai. ais tarah to herr cheez mashkook ban gai hai meray bhai.
agar aik munkir quran yeh keh day keh quran to hazoor (saw) kay zimanay maian kitabi shakal maian nhin likha giya ab kia saboot hai keh yeh wohi quran hai jo wahi hwa hai..
ab agar aus munkir quran ko yeh keh diya jata hai keh yeh thaik hai keh quran hazoor (saw) kay zimanay kay baad ikhata hwa hai aur ais per sab sahaba ka ijmah hwa hai. aur aaj bhi herr maslak ka ais per mukamal ijmah hai.
lakin munkir quran yeh keh sakta hai keh kia ijmah waloon say ghalti nahin ho sakti. woh bhi khata say pak nahin thay.
ab aap aur maian to ais ijmah per mukammal yaqeen rakhtaya haian.
lakin kia munkir quran yeh man lay ga. kabhi nahin.

assi tarah agar hum ahadees per aaian to humaian munkir yeh keh sakta hai keh mukammal ahadees to hazoor (saw) kay dawr maian nahin likhi gai haian. baad maian likhi gaia haian.
lakin aap aur maian mantaya haian keh sahih bikhari sahih muslim per mukammal ijmah hwa hai keh ais saari ahadees thaik haian lakin munkir hadees phir kahay ga keh kia imam bukhari aur imam muslim say ghalti nahin ho sakti.
agar aap ki bat man lee jaya to phir kia cheez reh jati hai jo mukammal sahih halat maina ho.
ais kay liya aap aur hum sab aik boundry kay ander haian jis per ijmah hwa hai. hum boundry say aus waqt nikaltay haian jab humaian boundry kay ander koi cheez na milay.
yahi masla sab imamoon ka hai. woh jantay thay keh abhi tak mukammal ahadees aun tak nahin ponchi. ais liya sab nay kaha keh agar humaray baad koi sahih hadees aaya to humaray fatwa ko choor doo.

jaisa aap keh rahay haian yeh faisla kon keray ga keh ghalt kia hai aur sahih kia hai .

to yeh faisal yahi IJMAH keray ga.

agar aap yeh nahin manatay to yeh kia saboot hai keh jo kuch imamoon nay kaha to ausi shakl maian humaray pas poncha.
kia woh loog jin ki kitabain hum loog parh haian fiqa ki kia woh ghalti nahin ker saktay.

kia saboot pesh keraian gay aap keh imamoon ki mukammal taleemat hum tak ponchi haian.
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
nasir noman bhai.
yeh aap nay sahih kaha keh hazoor (saw) kay ilawa herr kissi say khata ho sakti hai.
lakin jaisa aap keh rahay haian keh yeh faisla kon keray ga keh sahih kia hai aur ghalt kia hai. ais tarah to herr cheez mashkook ban gai hai meray bhai.
agar aik munkir quran yeh keh day keh quran to hazoor (saw) kay zimanay maian kitabi shakal maian nhin likha giya ab kia saboot hai keh yeh wohi quran hai jo wahi hwa hai..
ab agar aus munkir quran ko yeh keh diya jata hai keh yeh thaik hai keh quran hazoor (saw) kay zimanay kay baad ikhata hwa hai aur ais per sab sahaba ka ijmah hwa hai. aur aaj bhi herr maslak ka ais per mukamal ijmah hai.
lakin munkir quran yeh keh sakta hai keh kia ijmah waloon say ghalti nahin ho sakti. woh bhi khata say pak nahin thay.
ab aap aur maian to ais ijmah per mukammal yaqeen rakhtaya haian.
lakin kia munkir quran yeh man lay ga. kabhi nahin.

assi tarah agar hum ahadees per aaian to humaian munkir yeh keh sakta hai keh mukammal ahadees to hazoor (saw) kay dawr maian nahin likhi gai haian. baad maian likhi gaia haian.
lakin aap aur maian mantaya haian keh sahih bikhari sahih muslim per mukammal ijmah hwa hai keh ais saari ahadees thaik haian lakin munkir hadees phir kahay ga keh kia imam bukhari aur imam muslim say ghalti nahin ho sakti.
agar aap ki bat man lee jaya to phir kia cheez reh jati hai jo mukammal sahih halat maina ho.
ais kay liya aap aur hum sab aik boundry kay ander haian jis per ijmah hwa hai. hum boundry say aus waqt nikaltay haian jab humaian boundry kay ander koi cheez na milay.
yahi masla sab imamoon ka hai. woh jantay thay keh abhi tak mukammal ahadees aun tak nahin ponchi. ais liya sab nay kaha keh agar humaray baad koi sahih hadees aaya to humaray fatwa ko choor doo.

jaisa aap keh rahay haian yeh faisla kon keray ga keh ghalt kia hai aur sahih kia hai .

to yeh faisal yahi IJMAH keray ga.

agar aap yeh nahin manatay to yeh kia saboot hai keh jo kuch imamoon nay kaha to ausi shakl maian humaray pas poncha.
kia woh loog jin ki kitabain hum loog parh haian fiqa ki kia woh ghalti nahin ker saktay.

kia saboot pesh keraian gay aap keh imamoon ki mukammal taleemat hum tak ponchi haian.
امحترم لولی صاحب۔۔۔۔سب پہلے تو ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے خود سے جواب لکھنا شروع کردیا ۔۔۔ اور ہمیں امید ہے کہ آپ آئیندہ بھی اسی طرح اپنے اشکالات یا اعتراضات اپنے الفاظوں میں لکھ کر پیش کریں گے ۔
باقی میرے بھائی معذرت کے ساتھ ہمیں آپ کی بات اور آپ کی پیش کردہ مثالیں سمجھ نہیں آئی کہ ہماری وضاحت سے کیوں ہر چیز مشکوک ہوسکتی ہے جبکہ آپ کو خود بھی تسلیم ہے کہ سوائے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے کوئی بھی خطا ء سے پاک نہیں ۔۔۔۔ براہ مہربانی اگر آپ اردو میں لکھ کر مزید واضح کریں گے تو شاید ہم آپ کا نکتہ اعتراض سمجھ سکیں ؟؟؟(کیوں کہ رومن اردو میں لکھی طویل پوسٹ پڑھنے میں تھوڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے )
باقی صحیح احادیث کے حوالے سے ایک وضاحت جو ہم نے ترتیب دی تھی ۔۔۔ امید ہے کہ اس پر غور کرکے کچھ اشکالات دور ہوجائیں گے۔
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتاہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
 
  • Like
Reactions: i love sahabah

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
محترمہ آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کہ مقلدین اپنے امام کو خطاء سے پاک سمجھتے ہیں
مسئلہ صرف سمجھنے کا ہے
الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اس وضاحت کے بعد آپ اپنے نکتہ کا جواب بخوبی سمجھ سکتی ہیں کہ مقتدی امام کو وہاں لقمہ دے سکتا ہے ۔۔۔جہاں اُس کو یقینی علم ہو کہ امام نے خطاء کی ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر مقتدی ہی تذبذب کا شکار ہو یا لاعلم ہو تو یقینا ایسے موقع پر مقتدی لقمہ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔اور یہی ہمارا تقلید کے متعلق کہنا ہے کہ اگر مقلد اجتہاد کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دینی علوم پر ایسی مہارت حاصل کرلے جس کے بعد وہ مجتہد فی المذہب پر فائز ہوجائے ۔۔۔ جس کے بعد اگر اُس کو اپنے امام کے کسی فتوی پر خطاء محسوس ہوتی ہے تو وہ مجتہد فی المذہب اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر فتوی دے سکتا ہے ۔۔۔ اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص دین کا علم حاصل کئے بغیر ہی خود سے اپنی رائے قائم کرنا شروع کردے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
ایک بہت ہی ماہر ترین سرجن یا ڈاکٹر اگر سب کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ میرا نسخہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی، اس کی یہ بات سن کرمریض یقیناً شک میں مبتلا ہو جایگا اور آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہاں اس سرجن سے علاج کروانے کے لیے کوئی مریض آپکو نظر آیگا ؟؟؟ کیوں کہ مریض کواپنی جان پیاری ہے اور اسی طرح ایک سچے مسلمان کو اپنی آخرت. اور وہ ڈاکٹر یا سرجن ساتھ میں یہ ہدایات بھی دیں کہ آپ کے پاس ایسا نسخہ موجود ہے جو آپکی ہر بیماری میں صحیح طرح سے رہنمائی کر سکتا ہے.مگر بھلا ہو ان مقلدین بھائیوں کا جو اتنے بڑے سرجن کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجاۓ کہتے ہیں کے یہ ہدایات ان لوگوں کے لیے ہیں جو اپنا علاج خود کر سکتے ہیں..​
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
ایک بہت ہی ماہر ترین سرجن یا ڈاکٹر اگر سب کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ میرا نسخہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی، اس کی یہ بات سن کرمریض یقیناً شک میں مبتلا ہو جایگا اور آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہاں اس سرجن سے علاج کروانے کے لیے کوئی مریض آپکو نظر آیگا ؟؟؟ کیوں کہ مریض کواپنی جان پیاری ہے اور اسی طرح ایک سچے مسلمان کو اپنی آخرت. اور وہ ڈاکٹر یا سرجن ساتھ میں یہ ہدایات بھی دیں کہ آپ کے پاس ایسا نسخہ موجود ہے جو آپکی ہر بیماری میں صحیح طرح سے رہنمائی کر سکتا ہے.مگر بھلا ہو ان مقلدین بھائیوں کا جو اتنے بڑے سرجن کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجاۓ کہتے ہیں کے یہ ہدایات ان لوگوں کے لیے ہیں جو اپنا علاج خود کر سکتے ہیں..​
سسٹر اتنی وضاحت کے بعد بھی ہمارا مدعا نہیں سمجھ سکیں ۔۔۔۔ یہ درست ہے کہ دنیا کا ماہر سے ماہر سرجن ہو یا فقیہ ہو غلطی کرسکتا ہے ۔۔۔لیکن اس غلطی کو وہی درست کرسکتا ہے جو اُس فن کا ماہر ہو ۔۔۔۔ ہر شخص اُس غلطی کو دور کرنے کے قابل نہیں
ہمیں یہ بتائیں کہ دنیا کا وہ کون سا سرجن ہے جو پیچیدہ آپریشن میں کسی بھی قسم کی غلطی نہ ہونے کی گارنٹی دے سکتا ہے ؟؟؟
اور ہمیں یہ بتادیں کہ دنیا کا وہ کون سا مریض ہے جو سرجن کے متعلق غلطی ہونے کا امکان جاننے کے بعد سرجن سے آپریشن کروانا چھوڑدیتا ہے
اور ہمیں یہ بھی بتائیں کہ دنیا کا وہ کون سا عام شخص ہے جو میڈکل کی الف بے نہ جاننے کے باوجود دنیا کے ماہر ترین سرجن کی غلطیاں صرف کتابوں اور نسخوں سے دور کرسکتا ہے ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتاہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین


بھائی جو مقلدین حضرات صحیح احادیث کا پورا حوالہ دینے پر بھی ان احادیث کو رد کر دیں چاہے وہ بخاری اور مسلم کی ہوں یا ان کے علاوہ ہوں تو ان حضرات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟
[DOUBLEPOST=1354798884][/DOUBLEPOST]
سسٹر اتنی وضاحت کے بعد بھی ہمارا مدعا نہیں سمجھ سکیں ۔۔۔۔ یہ درست ہے کہ دنیا کا ماہر سے ماہر سرجن ہو یا فقیہ ہو غلطی کرسکتا ہے ۔۔۔لیکن اس غلطی کو وہی درست کرسکتا ہے جو اُس فن کا ماہر ہو ۔۔۔۔ ہر شخص اُس غلطی کو دور کرنے کے قابل نہیں
ہمیں یہ بتائیں کہ دنیا کا وہ کون سا سرجن ہے جو پیچیدہ آپریشن میں کسی بھی قسم کی غلطی نہ ہونے کی گارنٹی دے سکتا ہے ؟؟؟
اور ہمیں یہ بتادیں کہ دنیا کا وہ کون سا مریض ہے جو سرجن کے متعلق غلطی ہونے کا امکان جاننے کے بعد سرجن سے آپریشن کروانا چھوڑدیتا ہے
اور ہمیں یہ بھی بتائیں کہ دنیا کا وہ کون سا عام شخص ہے جو میڈکل کی الف بے نہ جاننے کے باوجود دنیا کے ماہر ترین سرجن کی غلطیاں صرف کتابوں اور نسخوں سے دور کرسکتا ہے ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
bhai hmare pas sahi ahadees mojood hain agar ksi b chote ya baray insan ki i bat sahi ahadees ke khilaf jati hai to yaqeenan qable qabool nhi hai,
lekin agar phir bhi koi shakhs ye na mane to kia kia ja sakta hai...
http://www.tafreehmella.com/threads/صحیح-احادیث-کو-رد-کرنےکا-عذر.209703/
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
امحترمہ شاید آپ نے درج ذیل وضاحت کا مطالعہ نہیں کیا ۔۔۔۔ آپ سے التماس ہے کہ توجہ سے ایک بار اس مضمون کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔۔۔اس کے بعد جو اشکال یا اعتراض ہو ۔۔۔وہ مختصرا لکھیں ۔جزاک اللہ
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتاہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
[DOUBLEPOST=1354800630][/DOUBLEPOST]
bhai hmare pas sahi ahadees mojood hain agar ksi b chote ya baray insan ki i bat sahi ahadees ke khilaf jati hai to yaqeenan qable qabool nhi hai,
lekin agar phir bhi koi shakhs ye na mane to kia kia ja sakta hai...
الیجیے محترمہ صحیح بخاری کی ایک حدیث ایک عام مسلمان کے پاس آگئی ۔۔۔۔ اب ایک عام مسلمان کیا کرے ؟؟؟
جبکہ مفتی حضرات اس حدیث کے خلاف فتوی دیتے ہیں ؟؟؟؟
حدیث نمبر : 292
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى وأخبرني أبو سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد الجهني أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان فقال أرأيت إذا جامع الرجل امرأته فلم يمن‏.‏ قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره‏.‏ قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فسألت عن ذلك علي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك‏.‏ قال يحيى وأخبرني أبو سلمة أن عروة بن الزبير أخبره أن أبا أيوب أخبره أنه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی
 
  • Like
Reactions: i love sahabah

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,085
1,313
31
Karachi,PK
بھائی جو مقلدین حضرات صحیح احادیث کا پورا حوالہ دینے پر بھی ان احادیث کو رد کر دیں چاہے وہ بخاری اور مسلم کی ہوں یا ان کے علاوہ ہوں تو ان حضرات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟
[DOUBLEPOST=1354798884][/DOUBLEPOST]
bhai hmare pas sahi ahadees mojood hain agar ksi b chote ya baray insan ki i bat sahi ahadees ke khilaf jati hai to yaqeenan qable qabool nhi hai,
lekin agar phir bhi koi shakhs ye na mane to kia kia ja sakta hai...
http://www.tafreehmella.com/threads/صحیح-احادیث-کو-رد-کرنےکا-عذر.209703/
Aur jo sahih ahadeeth tak ko radd kar dein wo aapke ya humaari baat per
thoraiy khud hi ko ghalat qabool kar sakte hain
Aaiyma radiallah anhuma ne apne taqleed ka na kaha na kabhi aise karne ka socha
kyunke unhen apni taqleed karwani hoti to ahadeeth jamah nahin karte aur naa hi
yeh kehte ke sahih ahadeeth per chalo .
 
  • Like
Reactions: *Muslim* and shizz

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
ایک عیسائ یا ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ عیسائ یا ہندو ہی بنے گا مگر صرف اس وقت تک جب تک وہ حق کو پہچان کر اپنی اصلاح نہیں کر لیتا لیکن اگر وہ یہی کہے کہ میرے باپ دادا اور مجھ سے بڑے جب ایک مذھب پر ہیں تو میں انکا دین چھوڑ کر کسی اور طرف کیوں جاؤں کیوں کہ وہ مجھ سے پہلے سے اس دنیا میں موجود ہیں اور میں تو بہت بعد میں آیا ہوں ان کو مجھ سے زیادہ علم ہے،
آپ کا کیا خیال ہے کیا وہ کبھی سچے دین کی طرف آ سکےگا؟؟؟
اس لحاظ سے کسی کافر کو دین کی دعوت دینا آپ کی نظر میں جائز نہیں ہوگا کیوں کہ وہ بھی تو اپنے آبا و اجداد کی تقلید کر رہا ہے،
قرآن کی ایک آیت پڑھیے اور اس پر غور کیجیے
اگر چہ ان کے باپ دادا کسی چیز کو نہیں سمجھتے تھے اور نہ وہ ہدایت پر تھے،
البقرہ١٧٠
[DOUBLEPOST=1354885701][/DOUBLEPOST]
حدیث نمبر : 292
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى وأخبرني أبو سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد الجهني أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان فقال أرأيت إذا جامع الرجل امرأته فلم يمن‏.‏ قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره‏.‏ قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فسألت عن ذلك علي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك‏.‏ قال يحيى وأخبرني أبو سلمة أن عروة بن الزبير أخبره أن أبا أيوب أخبره أنه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی
یہ حدیث آپ نے پہلے بھی پوسٹ کی تھی اور کہا تھاکہ یہ حدیث منسوخ ہے میرے بھائی یہ تو بالکل صحیح ہے کہ ابتدائے اسلام میں کچھ ایسے احکامات تھے جن کو بعد میں تبدیل کر دیا گیا
بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ابتدائے اسلام میں نرمی تھی بعد میں سختی کر دی گئی
بعض امور میں سختی تھی ان میں نرمی کر دی گئی
جس طرح قرآن میں بھی کچھ احکامات بعد میں منسوخ کر دیے گۓ،
اس میں شک نہیں یہ بھی کچھ ایسے ہی احکامات سے ہے
اور یقینا..... اگر بخاری شریف میں ایک حدیث موجود ہے تو اس روایت کی ناسخ کوئی دوسری روایت یقینا ہوگی جو اسی درجے کی ہو
یہ نہ ہو کہ آپ ایک صحیح حدیث کو کسی موضوع اور ضعیف حدیث کے ساتھ منسوخ کر دیں
 
  • Like
Reactions: Star24 and *Muslim*

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
ایک عیسائ یا ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ عیسائ یا ہندو ہی بنے گا مگر صرف اس وقت تک جب تک وہ حق کو پہچان کر اپنی اصلاح نہیں کر لیتا لیکن اگر وہ یہی کہے کہ میرے باپ دادا اور مجھ سے بڑے جب ایک مذھب پر ہیں تو میں انکا دین چھوڑ کر کسی اور طرف کیوں جاؤں کیوں کہ وہ مجھ سے پہلے سے اس دنیا میں موجود ہیں اور میں تو بہت بعد میں آیا ہوں ان کو مجھ سے زیادہ علم ہے،
آپ کا کیا خیال ہے کیا وہ کبھی سچے دین کی طرف آ سکےگا؟؟؟
اس لحاظ سے کسی کافر کو دین کی دعوت دینا آپ کی نظر میں جائز نہیں ہوگا کیوں کہ وہ بھی تو اپنے آبا و اجداد کی تقلید کر رہا ہے،
قرآن کی ایک آیت پڑھیے اور اس پر غور کیجیے
اگر چہ ان کے باپ دادا کسی چیز کو نہیں سمجھتے تھے اور نہ وہ ہدایت پر تھے،
البقرہ١٧٠
محترمہ یہ تو بحث برائے بحث ہے ۔۔۔۔آپ کو جواب کس اعتراض کا دیا گیا ہے ۔۔۔۔ اور آپ اُس پر غور فرماکر جواب دینے کے بجائے نہ جانے کون سی بحث شروع کردی ہے ؟؟؟
میری بہن پہلے آپ اپنے پہلے اعتراض کو تو دور فرمالیں کہ آیا ہم نے صحیح اور ضعیف احادیث کے حوالے سے جو نکات پیش کئے ہیں وہ درست ہیں یا اُن میں کوئی غلطی ہے ۔۔۔۔ اگر اُن نکات میں جو غلطی ہے اُس کی نشادہی فرمائیں ۔۔۔۔ تاکہ ہمیں تو پتہ چلے کہ ہم نے سمجھنے میں کیا غلطی کی ہے ؟؟؟
اس کے بعدان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس کی بھی وضاحت کریں گے کہ آپ کو آج تک مقلدین کا موقف ہی سمجھ نہیں آیا جس کی وجہ سے یہ انتہائی کمزور اور بودا اعتراض پیش کیا ۔
یہ حدیث آپ نے پہلے بھی پوسٹ کی تھی اور کہا تھاکہ یہ حدیث منسوخ ہے میرے بھائی یہ تو بالکل صحیح ہے کہ ابتدائے اسلام میں کچھ ایسے احکامات تھے جن کو بعد میں تبدیل کر دیا گیا
بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ابتدائے اسلام میں نرمی تھی بعد میں سختی کر دی گئی
بعض امور میں سختی تھی ان میں نرمی کر دی گئی
جس طرح قرآن میں بھی کچھ احکامات بعد میں منسوخ کر دیے گۓ،
اس میں شک نہیں یہ بھی کچھ ایسے ہی احکامات سے ہے
اور یقینا..... اگر بخاری شریف میں ایک حدیث موجود ہے تو اس روایت کی ناسخ کوئی دوسری روایت یقینا ہوگی جو اسی درجے کی ہو
یہ نہ ہو کہ آپ ایک صحیح حدیث کو کسی موضوع اور ضعیف حدیث کے ساتھ منسوخ کر دیں
محترمہ صحیح اور ضعیف احادیث کے حوالے سے اوپر تفصیل موجود ہے جس آپ نے سمجھنا تو دور کی بات ۔۔۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ آپ نے پڑھنا تک گوارا نہیں کیا ۔۔۔ورنہ کم از کم آپ کو اُن نکات میں سے یہ نکتہ ضرور نظر آتا ۔
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
فرمائیے محترمہ ۔۔۔۔اب آپ اس کا فیصلہ کیسے کریں گی کہ شروع کے ائمہ کرام نے جن فتوی جات کا مدار اُن احادیث پر رکھا جو قلیل رواۃ کے باعث اُن ائمہ کرام کے پاس صحیح اور اعلیٰ اسناد سے پہنچی ۔۔۔۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے محدثین یا ائمہ کرام کے پاس وہی احادیث کسی مجہول روای یا منقطع سند سے پہنچی ہو ۔۔۔۔جس کے باعث بعد والے ائمہ یا محدثین کرام نے اُن فتوی کے برخلاف فتاوی جات دئیے ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی تو فیق عطاء فرمائے۔آمین
 
  • Like
Reactions: i love sahabah

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
apki pehli bat to thk he k seha satta k ilawa bhi ahadith sahih sanad se mojood hain lekin sahihen se chu k ap logon ka ikhtelaf he to ap log ye keh dete hain k inki sanad ala nai lekin sahihen ki sanad ka muqam apni jagah he, kyon is pr ummat ka ijma hai[DOUBLEPOST=1355037042][/DOUBLEPOST]
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
dusri bat ye ke nasikh o mansukh ka jahan tak masla he to bagher dusri sahih hadith paish kie aap kisi ko b taqleed karne ka hukum nai de sakte agar che apka mazhab hamari paish karda sahih hadith ka mukhalif he q na ho,[DOUBLEPOST=1355037130][/DOUBLEPOST]
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔

teesri baat k dor e nabuwwat se qarib adwar ki sab se pehli kitab (sahifa hammam ibn e munabba he us k baad muatta imam malik waghera) ab muatta me bhi zaeef hadith mil jati hai to phr wo to qarib tar kitab hone k bawajud bhi zauf rakhti he to hum dor ko nahi balke ap k pehle usool yani hadith ki sanad ko he dekhenge chahe kitni qarib tar ho magar hum tak kis sanad se ai hum ye dekhenge,[DOUBLEPOST=1355037262][/DOUBLEPOST]jahan tak ibn e taymia ki bat he to wo tab tak theek hai jab tak un aimma e karam ki bat ya fatwe ya ijtehad ki bunyad kisi sahih hadith se na miljae to wo qabil e qubul nai agar sahih hadith se mil jae to wo he hamara or un aimma ka deen he jis me koi ikhtelaf he nahi ikhtelaf to hadith chor k taqleed karne me h q k us me tehqeeq nai he sirf aimma ki raye ko maan kar ankhain band karlena or un k ijtehad ki bunyad pe mehez guman karna ghalat hoga k ji un k pas hadith hogi ye mehez gumrahi he agar hogi to wo hadith aj kahan he or kis sanad se he wo dekha jaega warna dusre imam ka qaul jo sahih hadith se sabit hua wo lelia jaega.[DOUBLEPOST=1355037349][/DOUBLEPOST]
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
chothi bat me ap kehte hain k jarah o tadeel ijtehad se talluq rakhta he jab k aisa nahi he jarah o tadeel gawahi se talluq rakhta he jis me jamhoor aimma ki gawahi kisi kam ulama ki gawahi wale rawi k upar usay siqah ya zaeef sabit karti he jab k taqleed me mehez aik shakhs ki raye ko ankhain band kar k maan lia jata he or jarah o tadeel me jin aimma k aqwal muatbar hain un ko ahnaf ya hum ya ahle sunnat wal jamat sab he mante hain to khata ke pehlu ki gunjaish nai rehti q k wahan sanad se faisla kia jata he or jis rawi k upar jarah sabit hoti he usay uski bunyad or jis ki tadeel milti he usay uski bunyad pe lia ya chora jata he.[DOUBLEPOST=1355037446][/DOUBLEPOST]
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتاہے
panchwen or chhate masle ko bilfarz maan bhi lia jae k 2 nusoos milte hain to ye ijtehad karega kon?? q k ahnaf ne to ijtehad ka darwaza band kardia he or agar ijtehad karne wala apne apko muqallid kehta he to phr ye usool k mujtahid k upar taqleed lazim nai kahan jaega? lehaza garbari khud ap logon k apne usoolo me hai or ap hamain jarah o tadeel sikha rahe hain agr is msle pr ziada bhs ki jae to ap log kehte hain k hum sahih zaeef sab ko mante hain jb k ap log karte wohi hein jo apki fiqah k mutabiq ho chahe wo quran se sahih hadith se ya kisi bhi deeni usool se takrae,[DOUBLEPOST=1355037647][/DOUBLEPOST]umeed krti hon k ap ko ap k hr sawal ka jawab mil gaya hai,
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
محترمہ یقین جانیے آپ کی ان باتوں سے واضح طور پر ثابت ہورہا ہے کہ جتنی تقلید آپ اپنے مولویوں کی کررہی ہیں ۔۔۔اتنی تقلید تو مقلدین حضرات بھی نہیں کرتے ۔۔۔۔ یقین جانیے نہ تو آپ کسی نکتہ کو سمجھ سکیں اور نہ ہی آپ نے کسی نکتہ کو سمجھ کر جواب دیا ۔۔۔۔ بس آپ نے وہی اپنے مولویوں کا رٹا رٹایا جواب صحیح اور ضعیف کے دائیں بائیں گھما پھرا کر ٹائپنگ کرکرے جواب دینے کی فارملیٹی پوری کرنے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ اس کی بھی کئی مثالیں پیش کی جاسکتیں ہیں کہ آپ لوگوں کو دن رات صحیح بخاری بخاری کا درس دینے والے حضرات کا امام بخاری رحمہ اللہ سے کس قدر اختلاف ہے۔۔۔لیکن افسوس ہمیں بحث برائے بحث کی عادت نہیں ۔۔۔لہذا بجائے ہم آپ کی ناسمجھیوں کو ایک ایک کرکے جواب دینے کےہم صرف غیر جانبدار قارئین کرام کے سامنےآپ کی اعلیٰ سمجھ کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کردیتے ہیں تاکہ تمام غیر جانبدار قارئین کرام آپ لوگوں کی اصل حقیقت کو پہچان سکیں :
محترم قارئین کرام ۔۔۔ملاحظہ فرمائیں یہ وہ عبارت ہے جو ہم نے محترمہ کو بطور نشادہی کے پیش کی :
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
فرمائیے محترمہ ۔۔۔۔اب آپ اس کا فیصلہ کیسے کریں گی کہ شروع کے ائمہ کرام نے جن فتوی جات کا مدار اُن احادیث پر رکھا جو قلیل رواۃ کے باعث اُن ائمہ کرام کے پاس صحیح اور اعلیٰ اسناد سے پہنچی ۔۔۔۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے محدثین یا ائمہ کرام کے پاس وہی احادیث کسی مجہول روای یا منقطع سند سے پہنچی ہو ۔۔۔۔جس کے باعث بعد والے ائمہ یا محدثین کرام نے اُن فتوی کے برخلاف فتاوی جات دئیے ؟؟؟؟
جس کا جواب محترمہ نے ہماری بات کو بالکل ہی نہ سمجھتے ہوئے شروع کے ادوار کی احادیث کی کتب کے حوالہ سے فرمایا کہ اُن میں بھی ضعف احادیث پاک ہیں ؟؟؟؟ لہذا ہم اُن احادیث کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اُن اسناد کو دیکھیں گے جو ہم تک پہنچیں ؟؟؟
یہ محترمہ کی ناسجھی کی واضح دلیل ہے ۔۔۔۔ حالانکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی واضح عبارت موجود ہے کہ "ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گذرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملے میں بہت آگے تھے ۔۔۔۔اور آخر میں لکھا ہے کہ ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجود کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں "۔۔۔۔
اگر محترمہ صرف ان دو جملوں پر غور فرمالیتیں تو شاید محترمہ کو سارا معاملہ ہی سمجھ آجاتا کہ ہم نےکس بات کا کیا جواب دیا ہے ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی تو فیق عطاء فرمائے۔آمین
باقی محترمہ سے درخوادت ہے جو بھی جواب لکھیں وہ اردو میں لکھیں ۔۔۔رومن میں لکھی گئی طویل پوسٹ پڑھنے میں دوشواری ہوتی ہے ۔
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
میں نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کی تھی مگر شاید میری باتیں آپکی سمجھ سے باہر تھیں اس لیے آپ انھیں سمجھ نہ سکے اور الٹا مجھے ہی نہ سمجھ کا لقب دیدیا،
باقی باتوں کا آپ کے پاس جواب نہ تھا اس لیے .صرف ایک بات پر ہی آپ نے تبصرہ کیا
تقلید آپکو ہی مبارک ہو مجھے کوئی شوق نہیں ہے اپنے آپ کو کم علم اور جاہل کہلوانے کا،
میں اہل علم حضرات سےجب کسی موضوع پر بات کرتی ہوں تو ان سے دلیل مانگتی ہوں اور جب دلیل سے مطمئن ہو جاؤں تو پھر آگے بات کرتی ہوں تو آپ کس طرح سے کہ سکتے ہیں کہ میں اپنے علما کی تقلید کرتی ہوں.
نہ ہم اپنے علما کی تقلید کرتے ہیں نہ امام ابو حنیفہ کیا اور نہ امام ابن تیمیہ کی تو اس لیے ہمیں آپ کسی بھی امام کے قول سے قائل کرنے کی کوشش مت کریے،
اور یہ بات سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کے مقلد کے لیے اس کے امام کا قول ہی دلیل ہوتا ہے
مجھے یہ بتایے کہ کیا آپ امام ابن تیمیہ کے مقلد ہیں؟؟؟ تو پھر کیوں آپ ان کے قول پیش کر رہے ہیں.
آپکی باتوں سے یہ بات پتا چل رہی ہے کہ محدثین کے خلاف آپ کتنا بغض رکھتے ہیں،
آپ صحیح احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ ضعیف بھی ہو سکتی ہیں اور ضعیف احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ صحیح بھی ہو سکتی ہیں. یعنی اپنے امام کو صحیح اور حق پر ثابت کرنے کے لیے آپ محدثین کو غلط کہ رہے ہیں کیا محدثین نے.جو محنت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کرنے میں کی وہ سب ضائع ہو گئی ؟؟؟
اگر صحیح احادیث ضعیف ہو سکتی ہیں تو امّت کا کبھی صحیحین پر اجماع نہ ہوتا، کل کو آپ کہ دیں گے کہ بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث موجود ہیں کیوں کہ امام صاحب کی کتاب میں لکھا ہے، تو کیا سب مان لینگے؟؟؟ ویسے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ لوگ بخاری و مسلم کی احادیث کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں.
اگر آپکی بات پر تمام لوگوں کا اجماع ہوتا تو آج شافعی ، مالکی ، اور حنبلی کے بجاۓ سب حنفی ہوتے.​
[DOUBLEPOST=1355059073][/DOUBLEPOST]mai aik bar phir yehi jawab dobara post kr rhi hon kyon k apki bat ka jawab isi mai mojood hai, magr apko ye gawara nhi hai k ksi imam ki bat ko rad kia jae, magar .shayad ap bhool rhe hain k muqallid ap hain hm nhi,
or barae mhrbani meri baqi baton pr bhi tabsara kijye k jin ko ap gol kr gae,
teesri baat k dor e nabuwwat se qarib adwar ki sab se pehli kitab (sahifa hammam ibn e munabba he us k baad muatta imam malik waghera) ab muatta me bhi zaeef hadith mil jati hai to phr wo to qarib tar kitab hone k bawajud bhi zauf rakhti he to hum dor ko nahi balke ap k pehle usool yani hadith ki sanad ko he dekhenge chahe kitni qarib tar ho magar hum tak kis sanad se ai hum ye dekhenge,
[DOUBLEPOST=1355059375][/DOUBLEPOST]اور ہمارا کن کن باتوں میں امام بخاری سے اختلاف ہے وہ بھی بیان فرمادیجیے، مگر ایک بات یاد رکھیے گا کہ ہم امام بخاری کی تقلید نہیں کرتے.
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
مجھے یہ بتایے کہ کیا آپ امام ابن تیمیہ کے مقلد ہیں؟؟؟ تو پھر کیوں آپ ان کے قول پیش کر رہے ہیں.
آپکی باتوں سے یہ بات پتا چل رہی ہے کہ محدثین کے خلاف آپ کتنا بغض رکھتے ہیں،
آپ صحیح احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ ضعیف بھی ہو سکتی ہیں اور ضعیف احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ صحیح بھی ہو سکتی ہیں. یعنی اپنے امام کو صحیح اور حق پر ثابت کرنے کے لیے آپ محدثین کو غلط کہ رہے ہیں کیا محدثین نے.جو محنت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کرنے میں کی وہ سب ضائع ہو گئی ؟؟؟
اگر صحیح احادیث ضعیف ہو سکتی ہیں تو امّت کا کبھی صحیحین پر اجماع نہ ہوتا، کل کو آپ کہ دیں گے کہ بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث موجود ہیں کیوں کہ امام صاحب کی کتاب میں لکھا ہے، تو کیا سب مان لینگے؟؟؟ ویسے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ لوگ بخاری و مسلم کی احادیث کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں.
اگر آپکی بات پر تمام لوگوں کا اجماع ہوتا تو آج شافعی ، مالکی ، اور حنبلی کے بجاۓ سب حنفی ہوتے.​
Asalam o alikum to all muslims
Nasir bahi ne kahan kaha hay k MUHADSEEN ghalat hain aor kahan zaeef hadees ko sahi kaha aor kahan sahi hadees ko zaeeef kaha?????????

تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
فرمائیے محترمہ ۔۔۔۔اب آپ اس کا فیصلہ کیسے کریں گی کہ شروع کے ائمہ کرام نے جن فتوی جات کا مدار اُن احادیث پر رکھا جو قلیل رواۃ کے باعث اُن ائمہ کرام کے پاس صحیح اور اعلیٰ اسناد سے پہنچی ۔۔۔۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے محدثین یا ائمہ کرام کے پاس وہی احادیث کسی مجہول روای یا منقطع سند سے پہنچی ہو ۔۔۔۔جس کے باعث بعد والے ائمہ یا محدثین کرام نے اُن فتوی کے برخلاف فتاوی جات دئیے ؟؟؟؟
جس کا جواب محترمہ نے ہماری بات کو بالکل ہی نہ سمجھتے ہوئے شروع کے ادوار کی احادیث کی کتب کے حوالہ سے فرمایا کہ اُن میں بھی ضعف احادیث پاک ہیں ؟؟؟؟ لہذا ہم اُن احادیث کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اُن اسناد کو دیکھیں گے جو ہم تک پہنچیں ؟؟؟
یہ محترمہ کی ناسجھی کی واضح دلیل ہے ۔۔۔۔ حالانکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی واضح عبارت موجود ہے کہ "ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گذرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملے میں بہت آگے تھے ۔۔۔۔اور آخر میں لکھا ہے کہ ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجود کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں "۔۔۔۔

Agar aap NASIR bahi ki es post aor hawaly ki wajah se keh rahi hain to mehtarma NASIR bahi ne yahan bhi kahin nahin kaha k muhadseen gghalat hain ya zaeef hadees sahi hay aor sahi hadees zaeef hay............

unhun ne to ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) ka hawala diya to muhtarma ye itraaz ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) pe karin NASIR bahi pe nien..
ye kahan ka asool hay k koi hanfi ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) k aqwaal pesh nien kar sakta?????????????
aap ne itna tasleem kiya k HAMBLI, SHAAFI AOR MALAKI FIQA bhi hay to chalin itni baat to sabit hoi k jis taqleed ka aap log inkaar karty hain wo sirf HANFI nahin karty balk HAMBLI, MALAKI, AOR SHAAFI bhi karty hain.
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
salam meray bhai jaisa keh aap nay kaha keh mojuda kutub ahadees say ziyada sahih ahadees aima karam kay paas ponchi haian.

lakin yahan ulma karam kia keh rahay haian. kia ain ulma ko nahin pata keh sahih bukhari ya sahih muslim ki ahadees say ziyada mazboot ahadees mojoud haian.

woh to sahih bukhari aur sahih muslim ko sab say ziyada sahih kutub ahadees keh rahay haian. aur sahih bukhari aur sahih muslim ki ahadees ka rad kernay walay ko kafir keh rahay haian.

zara ain ulam karam kay baray maian apni rai day daian.




[DOUBLEPOST=1355082408][/DOUBLEPOST]
شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
Edited!
Please don't target any firqa.
 
  • Like
Reactions: Star24 and *Muslim*

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
میں نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کی تھی مگر شاید میری باتیں آپکی سمجھ سے باہر تھیں اس لیے آپ انھیں سمجھ نہ سکے اور الٹا مجھے ہی نہ سمجھ کا لقب دیدیا،
باقی باتوں کا آپ کے پاس جواب نہ تھا اس لیے .صرف ایک بات پر ہی آپ نے تبصرہ کیا
تقلید آپکو ہی مبارک ہو مجھے کوئی شوق نہیں ہے اپنے آپ کو کم علم اور جاہل کہلوانے کا،
میں اہل علم حضرات سےجب کسی موضوع پر بات کرتی ہوں تو ان سے دلیل مانگتی ہوں اور جب دلیل سے مطمئن ہو جاؤں تو پھر آگے بات کرتی ہوں تو آپ کس طرح سے کہ سکتے ہیں کہ میں اپنے علما کی تقلید کرتی ہوں.
نہ ہم اپنے علما کی تقلید کرتے ہیں نہ امام ابو حنیفہ کیا اور نہ امام ابن تیمیہ کی تو اس لیے ہمیں آپ کسی بھی امام کے قول سے قائل کرنے کی کوشش مت کریے،
اور یہ بات سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کے مقلد کے لیے اس کے امام کا قول ہی دلیل ہوتا ہے
مجھے یہ بتایے کہ کیا آپ امام ابن تیمیہ کے مقلد ہیں؟؟؟ تو پھر کیوں آپ ان کے قول پیش کر رہے ہیں.
آپکی باتوں سے یہ بات پتا چل رہی ہے کہ محدثین کے خلاف آپ کتنا بغض رکھتے ہیں،
آپ صحیح احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ ضعیف بھی ہو سکتی ہیں اور ضعیف احادیث کو کہ رہے ہیں کہ وہ صحیح بھی ہو سکتی ہیں. یعنی اپنے امام کو صحیح اور حق پر ثابت کرنے کے لیے آپ محدثین کو غلط کہ رہے ہیں کیا محدثین نے.جو محنت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کرنے میں کی وہ سب ضائع ہو گئی ؟؟؟
اگر صحیح احادیث ضعیف ہو سکتی ہیں تو امّت کا کبھی صحیحین پر اجماع نہ ہوتا، کل کو آپ کہ دیں گے کہ بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث موجود ہیں کیوں کہ امام صاحب کی کتاب میں لکھا ہے، تو کیا سب مان لینگے؟؟؟ ویسے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ لوگ بخاری و مسلم کی احادیث کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں.
اگر آپکی بات پر تمام لوگوں کا اجماع ہوتا تو آج شافعی ، مالکی ، اور حنبلی کے بجاۓ سب حنفی ہوتے.​
[DOUBLEPOST=1355059073][/DOUBLEPOST]mai aik bar phir yehi jawab dobara post kr rhi hon kyon k apki bat ka jawab isi mai mojood hai, magr apko ye gawara nhi hai k ksi imam ki bat ko rad kia jae, magar .shayad ap bhool rhe hain k muqallid ap hain hm nhi,
or barae mhrbani meri baqi baton pr bhi tabsara kijye k jin ko ap gol kr gae,
teesri baat k dor e nabuwwat se qarib adwar ki sab se pehli kitab (sahifa hammam ibn e munabba he us k baad muatta imam malik waghera) ab muatta me bhi zaeef hadith mil jati hai to phr wo to qarib tar kitab hone k bawajud bhi zauf rakhti he to hum dor ko nahi balke ap k pehle usool yani hadith ki sanad ko he dekhenge chahe kitni qarib tar ho magar hum tak kis sanad se ai hum ye dekhenge,
[DOUBLEPOST=1355059375][/DOUBLEPOST]اور ہمارا کن کن باتوں میں امام بخاری سے اختلاف ہے وہ بھی بیان فرمادیجیے، مگر ایک بات یاد رکھیے گا کہ ہم امام بخاری کی تقلید نہیں کرتے.
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ واقعی آپ لوگ کسی کی نہیں مانتے ۔۔۔ بس آپ لوگ اپنی نفس کی پیروی کررہے ہیں
ورنہ آپ کو اب تک یہ معمولی سی بات سمجھ میں آجاتی کہ دنیا میں ہر انسان کی عقل و فکر کی وسعت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔۔۔۔بلکہ کسی انسان میں عقل و فکر کی وسعت زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم ۔۔۔۔ لہذا آپ کا فارمولے کو اگر تھوڑی دیر کے لئے درست تسلیم کرلیا جائے کہ ہر مسلمان کو کسی مفتی یا کسی عالم یا کسی بزرگ کے قول کو اُس وقت تک قبول نہیں کرنا ہے جب تک دلیل سمجھ میں نہ آجائے ۔۔۔۔ تو یقین جانیے کہ آپ اپنی قدرے بہتر عقل و فکر کی وجہ جن مسائل کو تسلیم کرتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کی عقل و فکر معمولی معمولی باتوں کے لئے بھی صحیح سے کام نہیں کرتی ۔۔۔۔ لہذا جب ان کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش کیا جائے گا جو آپ اپنی نسبتا بہتر عقل کی وجہ سے تسلیم کرتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن وہ کم عقل لوگ اپنی محدود فکر و سوچ کی وجہ سے وہ مسائل بھی تسلیم نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ کیوں کہ اُن کا ذہن محدود کام کررہا ہے ۔۔۔۔اور جب ان کم عقل لوگوں کو سمجھایا جائے گا کہ اس مسئلہ پر فلاں حدیث کا مفہوم فلاں ہے ہے جس سے فلاں مسئلہ ثابت ہوتا ہے اور فلاں فلاں محدثین کرام رحمھم اللہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے ۔۔۔۔ تو یقین جانیے آپ لوگوں کے فارمولہ (یعنی جو مسئلہ آپ کی عقل میں نہ اترے اس کو دیوار پر دے مارو) سے دنیا کے بے شمار کم عقل لوگ اُن مسائل کو بھی دیوار پر دے مارنا شروع کردیں گے جن کو آپ لوگ اپنی قدرے بہتر عقل کی وجہ سے تسلیم کرلیتے ہیں ۔۔۔۔ اور جب ان بے شمار کم عقل لوگوں کو سمجھایا جائے گا کہ بھائیوں بہنوں تم لوگ فلاں مسئلہ کو غلط رد کررہے ہو ۔۔۔۔ فلاں فلاں بزرگوں نے اس مسئلہ کو یوں پیش کیا ہے ۔۔۔۔ تو جانتی ہیں اُن کا جواب کیا ہوگا ؟؟؟
اُن کا جواب سوائے آپ کے جواب کی طرح اور کچھ نہ ہوگا کہ " ہم فلاں فلاں بزرگ کے مقلد نہیں ہیں لہذا ہم کسی بزرگ کا حوالہ نہ دو ہم صرف وہی مانیں گے جو ہماری سمجھ میں آیا ہے "
ااور پتہ ہے کیا کہ اس کو قرآن و حدیث کی پیروی نہیں کہا جائے گا بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کرنا کہا جائے گا ۔۔۔۔یعنی جو اُن کا نفس تسلیم کررہا ہے وہ کم عقل لوگ صرف وہی بات مان رہے ہیں ۔۔۔۔ اور جس بات کو اُن کا نفس (لذت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے) نہیں سمجھ پارہا وہ اس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کی عقل و فکر کتنا کام کرتی ہے جو آپ کو اس مثال سے اپنی خطرناک غلطی کا احساس ہوگا ؟؟؟؟
بہر حال یہ بات طے ہے کہ جس کے اندر اتنی بھی سمجھ نہ ہو جو ایک عام مسلمان کی معمولی سی بات کو سمجھ سکے ۔۔۔۔ وہ بے چارہ حضرات فقہائے کرام رحمھم اللہ جیسی دنیائے اسلام کی مایہ ناز علمی ہستیوں کی فقاہت کو کیسے سمجھ سکتا ہے ؟؟؟
بس ہم جیسے کم علم لوگوں کی مثال اُن کم عقل لوگوں کی طرح ہے کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ مسئلہ ہمیں اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں سمجھ آرہا ۔۔۔ اورو ہمیں امام کا قول قرآن و حدیث سے متصادم محسوس ہورہا ہو ؟؟؟
لیکن افسوس ہم دین کا علم حاصل نہ کرنے کے باوجود بھی سمجھتے ہیں کہ غلطی ہم سے نہیں بلکہ ان فقہائے کرام رحمھم اللہ سے ہوئی جنہوں نے دن رات ایک کرکے اپنی ساری زندگی دین کا علم حاصل کیا ؟؟؟
حالانکہ آپ دنیا کے کسی بھی شعبہ میں دنیا کی ایک بھی مثال ایسی نہیں دکھا سکتیں کہ کسی بچہ نے حساب کتاب کے اصول سیکھے نہ ہوں اور وہ دنیا کے عظیم ریاضی دانوں کی غلطیاں نکال سکتا ہو
یا میڈیکل کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو اور دنیا کے بہترین سرجنز سے آگے نکل کر میجر آپریشن کرنے کے قابل ہوگیا ہو ؟؟؟
یا انجیئرنگ کی الف بے بھی نہیں آتی ہو ۔۔۔لیکن دنیا کے بہترین انجئیرز کو چیلنج کرکے اُن کی غلطیاں نکالی ہوں اور خود ہی کوئی بڑا پراجیکٹ بنانے گھڑا ہوگیا ہو ؟؟؟؟
ہمیں نہیں پتہ آپ کی عقل و فکر کتنا کام کرے گی اور آپ کو یہ مثال کس حد تک سمجھ آئے گی ۔۔۔ اور آئے گی بھی یا نہیں ؟؟؟؟؟؟
باقی میری بہن جب کسی فریق کو کوئی مسئلہ نہ سمجھ آرہا ہو تو اُس کو اُس بزرگ کا حوالہ پیش کرکے بات سمجھائی جاتی ہے جس پر اُس کو اعتماد ہو۔۔۔ ناکہ اُن بزرگ کا حوالہ اس نشادہی کے طور پر ہوتا ہے کہ ہم اُن کے مقلد ہیں ؟؟؟؟۔۔۔۔ میری بھولی بھالی بہن ہم جن کے مقلد ہیں اُن کی بات آپ کو کیوں پیش کی جائے گی جبکہ وہ آپ کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ؟؟؟؟
اتنی معمولی معمولی باتیں آپ نہیں سمجھ سکتیں ۔۔۔۔ اور آپ دعوے دار ہیں کہ آپ دلیل کی خود تحقیق کرتی ہیں ؟؟؟
اگر اسی طرح تحقیق کرتیں ہیں تو خوب کرتی ہیں ؟؟؟
باقی میری بہن یہ ضرور فرمائیے گا کہ ہمارے کون سے جملہ سے یہ واضح ہورہا ہے کہ ہم صحیح حدیث کو ضعیف کہا ہے ؟؟؟؟
اگر بات آپ کی سمجھ میں نا آئی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟؟؟
ہماری نشادہی تو صرف اتنی تھی کہ جب احادیث پاک مرتب ہونے کا سلسلہ نہیں ہوا تھا اُس وقت کے ائمہ کرام و مجتہدین کرام رحمھم اللہ کے سینے احادیث کے ذخائر سے لبریز تھے (جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت سے بھی واضح ہے)۔۔۔۔۔ جب رواۃ قلیل اور ساتھ میں امین و عادل بھی ہوتے تھے ۔۔۔۔۔ اُس وقت جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا (جیسا کہ حدیث پاک میں بھی ہے کہ صحابہ کرام کے بعد کے بعد کے دور کے بعد جھوٹ اور دھوکہ عام ہوجائے گا)۔۔۔۔۔لہذا اُس وقت ائمہ کرام اور مجتہدین کرام نے اُن روایات کے پیش نظر اپنی فتاوی جات پیش کئے ۔۔۔۔ لیکن بعد میں آنے والے دور میں انہی روایات میں مجہول روای شامل ہونے کی وجہ سے یا روایت منقطع ہونے کی وجہ سے بعد میں آنے والے محدثین و مجتہدین کرام رحمھم اللہ کے پاس کمزور و ضعیف صورتوں میں پہنچی ۔۔۔۔ جس کے باعث بعد والے ائمہ کرام و مجتہدین کرام نے اسی مسئلہ پر دیگر روایات کی بنا پر اپنے فتاوی جات پیش کئے ۔۔۔۔ تو یقینا ایسی صورت میں ائمہ و مجتہدین حضرات میں اختلاف ہونے تھے ۔۔۔۔۔ یعنی ایک امام کا فتوی کسی مسئلہ پر کچھ اور ہوا دوسرے امام کا فتوی اپنی تحقیق کے نتیجہ میں کچھ اور ہوا
تو جب ہم خود ائمہ کرام کے اختلاف کا تذکرہ کررہے ہیں اور وہ وجوہات بھی بیان کررہے ہیں جن کی وجہ سے ائمہ میں اختلاف ہوا ۔۔۔۔ تو پھر اس پر اجماع کیسے ممکن ہے کہ سب حنفی ہوتے اور شافعی ،مالکی اور حنبلی نہیں ہوتے ؟؟؟؟؟
باقی میری بہن ہماری مراد یہ نہیں تھی کہ آپ اپنے مولویوں کی مسائل پر تقلید کررہی ہیں ۔۔۔۔بلکہ مراد یہ تھی کہ یہ چند اصول جو آپ کو آپ کے مولویوں نے سکھائے ہوئے ہیں کہ چاہے کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے دلیل دلیل کی رٹ لگا کررکھو ۔۔۔۔۔اور خواہ کوئی بھی بات ہورہی ہو اور سامنے والا کچھ بھی سمجھانا چاہتا ہو ۔۔۔۔لیکن صحیح ضعیف کا ورد اپنی زبان پر جارہی رکھو ۔۔۔۔۔ اس چیز کی نشادہی میں ہم نے آپ کو کہا کہ آپ اپنے مولویوں کی اندھی تقلید کررہی ہیں ۔۔۔۔ مثال آپ کے سامنے ہے کہ ہم آپ کو صحیح اور ضعیف کے حوالے سے چند نکات بیان کئے لیکن آپ نے ان نکات پر غور و فکر کرنے کے بجائے اپنے تمام جوابات میں وہی صحیح ضعیف کی رٹ لگا کر رکھی ۔۔۔۔ حالانکہ صحیح اور ضعیف کے حوالے سے ہی یہ نکات بطور نشاندہی کے لئے تھے ۔۔۔۔جس کا ہم نے بطور نمونہ صرف ایک وضاحت پیش کی کہ ہم نے آپ کو کیا بات سمجھائی اور آپ نے کیا جواب دیا ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
[DOUBLEPOST=1355085915][/DOUBLEPOST]
باقی لولی صاحب ہم آپ کی طرف سے خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ آپ نے کاپی پیسٹ چھوڑ کر خود اپنے الفاظوں میں مسئلہ سمجھ کر مسئلہ کے مطابقت سے جواب دینے شروع کردئیے ۔۔۔۔ لیکن افسوس۔۔۔۔ صد افسوس
بس محترمہ یہی ہوتی ہے اندھی تقللید ۔۔۔۔۔پوچھیے ان لولی صاحب سے کہ ان جناب نے یہ جو فقہ حنفی کے متعلق فتاوی جات پیش کئے ۔۔۔۔آیا کہ ان کی خود کی تحقیق ہے یا لولی صاحب کے مولویوں کی ؟؟؟
اور اگر لولی صاحب کے مولویوں کی تحقیق ہے ۔۔۔۔ تو لولی صاحب نے اپنے زبانی کلامی "تحقیق" کے نعرے کی لاج رکھتے ہوئے خود سے ان مسائل پر تحقیق بھی کی ہے ؟؟؟؟
یا بس اپنے مولویوں کی اندھی تقلید میں یہاں کاپی پیسٹ مارا ہے ؟؟؟؟
اور ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو ان لولی صاحب کی اگلی پوسٹ (جو کہ نئی کاپی پیسٹ ہوگی) میں آپ کو جواب مل جائے گا کہ اندھی تقلید کون کررہا ہے؟؟؟؟
 
  • Like
Reactions: i love sahabah
Status
Not open for further replies.
Top