تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
کیونکہ ایڈمن نے وہ پہلا ٹاپک بند کر دیا جس کی وجہ سے مجھے لولی کی پوسٹ کا جواب دینے کے لئے یہ ٹاپک ڈھونڈنا پڑا۔
اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کئی بار ہو چکا ہے کہ لولی یا ایسا ممبر جس کے نظریات ہمارے مخالف ہوں ان کو ہر قسم کی پوسٹ کرنے کی اجازت ہے اس فورم پہ اور ان کی پوسٹ پہ کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا لیکن جب ہم میں سے کوئی جواب دیتا ہے تب ایڈمن کو فوراََ اصول یاد آتے ہیں اور اس ٹاپک کو بند کر دیا جاتا ہے۔
لیکن جب میں کوئی نیا ٹاپک بناتا ہوں تو پہلے تو وپ اپروو ہی نہیں کیا جاتا اور اگر غلطی سے ہو جائے تو اس کو اسلام سیکشن سے ہٹا کے کسی اور سیکشن میں بھیج دیا جاتا ہے۔
میں نے نیا ٹاپک اس لئے نہیں بنایا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے ایڈمن میرا ٹاپک اپروو ہی نہیں کریں گے کیونکہ وہ لولی اور ان کے نظریات کے خلاف ہے اس لئے مجھے یہاں جواب دینا پڑا۔
لولی نے جو بخاری کی حدیث پیش کی اس حدیث میں عورتوں کا ذکر ہی نہیں ہے اور مالک بن حویرث رضی اللہ کی یہ روایت انہوں نے جماعت کے ساتھ ادا کی تھی.
سعودیہ کے مشہور عالم شیخ عطیہ سالم رح نے اپنے حرم کے دروس میں نبی کریم ﷺ کے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا پھر عام مرد حضرات کے لئے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا اور اس کے لئے یہ حدیث بیان کی ( صلوا كما رأيتموني أصلي ).اور اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ "ہم نے متنبہ کیا ہے کہ مجافات کا حکم مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے"
( شرح بلوغ المرام للشیخ عطیہ سالم، باب کتاب الصلوۃ۔
یہی بات مشہور اہلحدیث عالم شیخ محمد عبدالحق ہاشمی رح نے بیان کی کہ یہ حدیث ظاہراََ مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔
( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 92)
بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ ابراہیم نخعی رح کے اثر سے معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں مشہور تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ اور تابعین مردوں کے لئے اس مسئلہ تجافی( اعضاء کو کشادہ کرنا) کے قائل تھے عورتوں کے لئے نہیں تھے۔اور حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور شارحین احادیث کے اس مسئلہ پہ بہت اقوام ہیں۔
( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 80)
انہوں نے تو تمام ائمہ اربعہ اور بہت سے فقہاء ستٓے ثابت کیا کہ نماز میں اعضاء کو کشادہ کرنے کے مسئلہ میں عورتوں اور مردوں کے طریقہ میں فرق ہے۔
لولی نے فتح الباری کا حوالہ دیا ہے تو علامہ ابن حجر عسقلانی رح اسی کتاب میں اس حدیث ( صلوا كما رأيتموني أصلي ) کے بارے میں فرمایا ہے کہ
"یہ خطاب کے لحاظ سے مالک بن حویرث رضی اللہ اور ان کے رفقاء کے لئے ہے کہ وہ نماز اس طریقہ پہ پڑھیں جس طریقہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پڑھتے ہوئے دیکھا البتہ اس حکم میں ان کے ساتھ پوری امت اس شرط پہ شامل ہو گی بشرطیکہ ان کیفیات پر نبی کریم ﷺ کا آخیر زندگی تک دوام اور استمرار ثابت ہو''
( فتح الباری، جلد 13 صفحہ 237)
اب لولی کو چاہیے کہ علامہ ابن حجر کی بات مانتے ہوئے اس عمل پہ دوام ثابت کریں۔
لولی نے خود اوپر حضرت براء رضی اللہ کی حدیث پیش کی ہے کہ ''نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تو سجدہ کر تو اپنی ہتھیلیاں زمین پہ رکھ اور کہنیوں کو اٹھا لے''
( صحیح مسلم، حدیث 1099)
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے مشہور عالم محمد بن اسماعیل صنعانی رح لکھتے ہیں کہ '' کہنیاں اوپر اٹھانے کا حکم مرد کے حق میں ہے عورت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ عورت کا حکم مرد کے حکم کے خلاف ہے۔اور اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت مرد کی طرح نہیں ہے''
( سبل السلام شرح بلوغ المرام، محمد بن اسماعیل صنعانی، جلد 1 صفحہ 283)
اس کتاب کی تعلیق علامہ ناصر الدین البانی رح نے کی ہے۔
بخاری و مسلم میں حدیث ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ
رواه البخاري ( 788 )ومسلم ( 493 )
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سجدے میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی اپنے بازو کو (سجدے میں) اسطرح نہ بچھائے جسطرح کتا بچھاتا ہے۔
لولی نے یہ حدیث بھی اوپر بیان کی اور اس کو بلا وجہ احناف کے خلاف پیش کر دیا۔
یہی حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبيد اللہ بن عبد السلام المباركپوري رح فرماتے ہیں کہ
''اعضاء کشادہ کرنے کا حکم صرف مرد کے لئے ہے عورت کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ اس حکم میں مرد کے خلاف ہے۔اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت اس حکم میں مرد کی طرح نہیں ہے''
(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 3 صفحہ 207)
اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبدالجبار غزنوی نے نے بھی یزید بن ابی حبیب کی یہ حدیث بیان کی اور کہا کہ اسی پہ تعامل اہلسنت مذاہب اربعہ سے چلا آ رہا ہے ۔۔۔۔ اور عورتوں کا انضمام و انخفاض نماز میں احادیث و تعامل جمہور اہل علم از مذاہب اربعہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کتب حدیث تعامل اہل علم سے بے خبر ہے۔
(فتاوی علمائے اہلحدیث، جلد 3 صفحہ 149)
اس کے علاوہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے قائل صرف امام ابوحنیفہ رح ہی نہیں بلکہ تمام ائمہ کرام اور بہت سے فقہاء ہیں جس کا ثبوت میں اسی پوسٹ میں اوپر باقی ائمہ کے حوالہ جات کے ساتھ دے چکا ہوں۔
اگر یہ مسئلہ قران اور سنت کے خلاف ہے تو لولی کو چائیے کہ ان تمام اکابرین امت کا قرآن اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کر لیں اور جس طرح یہ کھلے عام کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں احناف قران اور حدیث کے خلاف ہیں تو ایک پوسٹ ان ائمہ کرام اور ان علمائے کرام کے بارے میں بھی بنا دیں جنکے حوالے میں نے پیش کئے ہیں۔