تقلید کی حقیقت اور اہمیت ایک علمی جائزہ

  • Work-from-home

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
از:عابد الرحمن بجنوری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
تقلیدِ شخصی
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ اَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ بَعَثَ مُعَاذًا ِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِيا(الیٰ آخر الحدیث ) ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّهِ الَذِي وَفّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّهِ " (سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان ، (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:۱۲۴۹)
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو ،انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔ پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.
کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟
درج بالا حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی.
مثال کے طور پر چند جدید مسائل اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن پاک میں ہے اورنہ حدیث شریف میں:
(۱) نکاح بذریعہ ٹیلیفون (۲) چاند کی شہاد ت بذر یعہ ٹیلیفون (۳) خون کا عطیہ (۴) اعضاء کی پیوندکاری (۵) حالت روزہ میں انجکشن کا مسئلہ(۶) لاؤڈاسپیکر پر اذان کا مسئلہ(۷) ہوائی جہاز میں نماز (۸)کرنسی کی مالی حیثیت (۹) ہوائی اڈوں پر انسانی اسکیننگ (۱۰) ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ
کن کی تقلید کی جائے ؟
ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ ’’ قیاس مظہر لامثبت‘‘(شرح عقائد نسفی)
یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں
کون تقلید کرے؟
مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:
جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گااس کے لئے کسی کی تقلید جائز نہیں بوجہ تفہیم کتاب و سنت۔
اور غیر مجتہد اس وجہ سے تقلید کریگا کہ اس میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ کتاب و سنت کے ماہرین سے پوچھ لیتاہےکہ کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح کے عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ واضح رہےکہ مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد اللہ تعالیٰ اور مراد رسول صلی الله علیہ وسلم سے آگاہ کیا ہے۔
تقلید شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں
ایک اور موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حَدّثَنَا مُوسَى بْنُ إسْمَاعِيل ، حَدّثَنَا اَبَانُ ، حَدّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدّثَنِي أَبُو حَسّانَ ، عَنْ الْاسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، انَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرّثَ اخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيّ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌ.(تیسیر کلکتہ : صفحہ٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)
ترجمہ: اسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔
فائدہ: اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا تو اہل یمن کو اجازت دی تھی کہ تعلیم احکام اور فیصلوں کے لئے ہر مسئلے میں حضرت معاذ (رضی الله عنہ) سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.
تقلیدِ شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) کے بعد
عَنْ مُحَمّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ ابِيهِ : " انَ امْرَاةً سَالَتْ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ شَيْئًا ، فَامَرَهَا انْ تَرْجِعَ الَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللّهِ ، ارَاَيْتَ انْ جِئْتُ فَلَمْ اجِدْكَ ؟ قَالَ ابِي : كَانَهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَانْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي ابَا بَكْرٍ " (صحيح مسلم(كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي اللہ عنہ )
ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔اس حدیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے۔
من بعدی" سے ان کی تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید شخصی ہے.اورحقیقت تقلید شخصی یہ ہےکہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے ۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے،جس کا امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- صحيح البخاري ، كِتَاب الْفَرَائِضِ ، بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: (۶۲۶۹)
فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.
صحابہ کرام رضی الله عنھم اور تقلید
اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف صحبت نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه ، متقی ، خداپرست اور پاکباز تھے، مگر فہم قرآن، تدبرحدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے.
امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبدالله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی(طبقات ابن سعد:٢/٢٥تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی فقہ دین پر عمل پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. کتب احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلاذکردلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نے بلامطالبہ دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے۔
تقلید پر اجماع صحابہ
اسی لئے امام غزالی (حنبلی) فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:
اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔
اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ ورخصة ، وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا : ۲۱۹۔
چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم
تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)
جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اصل تو یہی ہے کہ ہر ایمان والا خود نصوص قرآنیہ اور احادیث جو کہ قرآن کی شرح ہیں سمجھنے کی کوشش کرے ،اور اس سے استنباط کرے ،مگر چونکہ آیت مذکورہ میں خطاب عام ہے کسی شخصے خاص یا جماعت سےخطاب نہیں ہے ،اس لئے جس نے بھی اس خطاب کو سنا اس پر لازم ہوگیا کہ وہ اس پر ایمان لائے ،اب چونکہ اس خطاب کو سمجھنے کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی ہے، اسلئے تقلید عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہوجاتی ہے ،جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید نام مجبوری کا ہے ، تو یہ بھی معلوم رہے کہ مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے ،ایسا نہیں کہ جہاں سے بھی اپنا مطلب نکلے اسی کی بات مان لی ،یہ جائزہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنا اجماع کے خلاف ہے ،ہوائے نفسانی ہے، اور نفس کی پیروی کرنا حرام ہے ،اس وجہ سے کہ اسنے احکام الٰہی کی پیروی نہ کرکے اپنی خواہشات کی پیروی کی ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
’فلا تتبعو الھویٰ ( پس اپنے خواہشات کی پیوری مت کر)
خلاصہ کلام مقلد کی دو قسم ہیں (۱)عامی (۲) متبع
عامی وہ جو دلیل شرعی کی معرفت کے بغیر مجتہد کے قول بوجہ اعتماد کلی کے عمل کرے ،
متبع وہ جس کو بعض شرعی دلائل کی معرفت ہوتی ہے ،اور اسی معرفت کی بنیاد پر مجتہد کی تقلید کرتا ہے، لیکن اس کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ خود اجتہاد کرے ۔بھر دونوں قسم کے عاملین بوجہ اتباع فرمان الٰہی مستحق اجر ہونگے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دعا کا طالب
عابد الرحمٰن بجنوری
انڈیا
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
Wa'alaikumussalaam
waah bhai waah bohot hi achha thread lagaya hai
isse mujhe is baat ka ilm huwa ke aaiyma karam ke paas doosre ulma ke muqabile
bohot hi kam ilm tha tabhi unhone kabhi apni taqleed ka hukm nahin diya

aur uske baad kahaan ALLAH ka QURAN kahaan RASOOLALLAH sallallaho alaehe wassallam
ke farameen kahan aaiyma karam rehmatullah alaehe ke farameen
kya kisi imam ka fatwa kabhi bhi ghalat ho sakta hai nahin balke unke
aage aane wale unse takraane wale ahadeeth NAUZBILLAH ghalat ho sakte hain
kyunke hum kam aqal MUSALMAAN humen ahadeeth samajh hi nahin aani
ahadeeth to chaaron aaiyma karam ke liye hain jitne bhi aqwaal e mubarikeen hain

humaare liye taqleed hai naa jo ke ooper thread me saabit hai aami aur mutabeh
ab jiska dil daleel ke baad imam ko maane ya jiska dil daleel ke bina hi uski pairvi karne lage
lekin lihaza dono tareeqe sahi hi hain

mera bas eik hi sawal hai jab humen samajh hi aani nahin QURAN O AHADEETH
to wo daleel maang kar muqallid hone wala bechara bhi daleel maang kar kya karega ??
aur dar haqeeqat to NAUZBILLAH imam e bukhari r.a imam e muslim r.a imam e tirmadi r.a
sameit tamaam muhaditheen paagal aur bewaqoof guzre hain jo ahadeeth ko ummat tak pohnchane
ka kaam karte rahe balke unhen to hadeeth parh kar tala laga kar almaari me rakhne the
ke lougon ko to sirf humaari sunni hain naa unko ahadeeth se kya matlab ??

kya us bache ko ALLAH ke NABI alaehe salam ne eik baar hukm farmaya ke
seedhe haath se khao BISMILLAH parh kar khaaya karo to wo ta hayat us eik hukm per
amal karta raha ghalat kiya use chahaiye tha imam ke paas jata aur bolta ke imam
ALLAH ke NABI alaehe salam ne to ye farma diya lekin aapke mutaliq bhi theek ho to
mein iski pairvi karun warna de maarun hadeeth ko divar per kyunke mujhe to
hadeeth samajh nahin aani .
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
ہمیں آپ کے جواب دینے کی اسپیڈ سے اندازہ ہے کہ آپ نے پورا مضمون سمجھنا تو درکنار ۔۔۔پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا ہوگا ۔
باقی بھائی ہم معذرت خواہ ہیں نہ تو ہم طویل رومن میں لکھی ہوئی پوسٹ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم بحث برائے بحث کرسکتے ہیں ۔۔۔البتہ کسی بھائی یا بہن کو کچھ سیکھنے یا سمجھنے میں جو اشکال درپیش ہوگا ہم اُس کی وضاحت کرنے کے لئے تیار ہیں ۔
باقی آپ سے اور دیگر ساتھیوں سے بھی درخواست ہے کہ براہ مہربانی یہاں بحث برائے بحث نہ کیجیے گا ۔جزاک اللہ
 

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
السلام علیکم
مقلدین کا مذہب ہر گز کسی حدیث و آیت کے خلاف نہیں اگرچہ بظاہر ایک حکم کسی محدث کے یہاں صحیح سند سے مروی حدیث کے موافق نہیں بھی واقع ہے مگر بعض آئمہ نے اپنے تک پہنچی برعکس صحیح روایت پر حکم بیان فرمایا اور بعض نے اسی حدیث مختلفۃ فی الحکم کے مطابق حکم بیان کیا کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین سے اختلاف عمل ثابت ہے.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا کہ حضور نے فرمایا" الوضوء مما مست النار جسے آگ نے چھوا ہو اس سے وضوء ہے" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو وہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بھی موجود تھے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ معارضہ پیش کیا "انتوضاءمن الدھن انتوضاء من الحمیم کیا تیل کے استعمال سے یا گرم پانی کے استعمال سے وضوء ٹوٹ جائے گا?" اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھتیجے جب حدیث رسول بیان کروں تو مثالیں نہ دیا کرو! مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما قائم رہے اور آج تک یہی جمہور کا مذھب ہے کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور جمہور امت کو یہ التزام دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے قیاس شرعی کی بناء پر حدیث کو ترک کیا?
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث بیان کی کہ "جو جنازہ اٹھائے وضوء کرے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا ھل یلزمنا الوضوء من حمل عید ان یا بسۃ کیا سوکھی لکڑیاں اٹھانے سے ہم پر وضوء لازم ہے? حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس موخذہ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے
نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 1

یقینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس اس کے برعکس حدیث کا علم ہونا بھی ممکن ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ وعمل کا علم قطعی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد جانے سے روک دیا تو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما کی خدمت میں شکایت کی. آپ نے فرمایا. اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ حالات مشاہدہ فرماتے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ مشاہدہ کر رہے ہیں تو وہ بھی تم کو مسجد جانے کی اجازت نہ عطا فرماتے
مسلم شریف، ص 266، ج-1، باب استحباب صلاۃ النافلہ فی بیتہ، ناسر مجلس برکات

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم نہ تھا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو!? اورکیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حدیث رد کرنے یا چھوڑنے کا الزام بطریق تنقیص لگایا جا سکتا ہے، اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما نے بھی خلاف حدیث امرکی تصدیق کر دی اورحدیث پر قول کو فوقیت دی? تف ایسی فتنہ پرور سوچ پر جو حدیث کے نام پر مسلمانوں کے اذہان منتشر کر کے آئمہ کے ان مسائل مختلف فیہ جو دالائل شرعیہ پر مبنی ہیں پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو حدیث کا عامل بتاتے ہیں. ہر گز ہرگز تقلید کے بغیر حدیث پر عمل نہ کر پائیں گے.

عمل کا اختلاف خود نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز بالجہر ادا فرماتے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالسر، اور ایسے کئی اختلافات کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتوں کے موافق جائز رکھا اورصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتیں قرآن و سنت ہی کے پیش نظر تھیں.

حضرت ابو سعید بن معلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں فورا حاضر بارگاہ نہ ہوا کچھ دیر بعد حاضرہو کرعرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ عزوجل نے یہ حکم نہیں دیا کہ "اللہ اور رسول بلائیں تو حاضر ہو جاؤ"
صحیح بخاری، ص 642، ج 2

نماز توڑنا گناہ ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرحاضر ہونا اس سے بڑا فرض. حدیث کا نام لینے والے یہ بتائیں اگرآئمہ دالائل شرعی بیان کرکے امت کو فرض و واجب و سنت اور مستحب میں تمیز نہ بتاتے تو کس حدیث سے عمل کا صحیح ہونا پتا چلتا? فرض و واجب ومستحب جمع ہو جائیں تو کیا اپنے دل پر چلیں جو آسان لگے کر لیں?

شرعی اصول یہ ہے کہ اگر شرعی دلیل (قرآن و سنت و اجماع امت و قیاس شرعی، ضرورت شرعی، حاجت شرعی، عموم بلوٰی، عرف شرعی، تعامل شرعی، مصلحت شرعی اور ازالہء فساد) کا نا قابل عمل صحیح حدیث (کیوں کہ ہر حدیث پر عمل ممکن نہیں) سے معارضہ پیش آ جائے یعنی باہم حکم میں الگ الگ یا مختلف ہوں تو شرعی دالیل پر عمل کیا جائے گا اور معارض حکم کو چھوڑ دیا جائے گا. اک مثال
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے" صحیح مسلم، ص 232، ج 1، ناشر مجلس برکات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک نماز کا بھی ترک، عرف و علامت کفر تھا مگر مسلمان کے عمل کی وجہ سے یہ عرف و علامت بدل گیا علامت فسق و فجور بن گیا اس لیے اب اگر کسی نے جان بوجھ کر نماز ادا نہ کی تو فاسق کہلائے گا.

محدثین میں جو اختلاف ہے وہ اسناد پر ہے. کئی احادیث جو سند کے اعتبار سے ضعیف جان کر امام بخاری نے صحیح بخاری میں شامل نہیں کیں ان متروکہ احادیث میں سے کچھ امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح روایت سے ذکر کیں. امام بخاری کو ایک لاکھ صحیح احادیث حظ تھیں جبکہ صحیح بخاری میں چار ہزار کے قریب صحیح احادیث ہیں. آج تک کسی نے بھی نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کا احاطہ ء یاداشت نہیں کیا امام بخاری نے بھی بتوفیق الہی احادیث جمع کیں مگر نہ جانے کتنی احادیث ان تک نہیں پہنچی تو کوئی کیسے امام بخاری و دیگر محدثین کی چند احادیث پیش کرکے آئمہ کے مذاہب کو خلاف حدیث ٹھرا سکتا ہے? حالانکہ امام اعظم رحمۃ اللہ ان سے پہلے کے دور میں تھے جب احادیث جمع کرنے کا رواج یا ضرورت اس قدر پیش نہیں آئی تھی اگر ان پر یہ اعتراض رواں ہو سکتا ہے کہ انھوں نے صحیح احادیث کو چھوڑا تو پھریہ لوگ توصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین پر بھی یہ الزام لگانے سے نہیں ڈریں گے

فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"
اللہ علماء سے پوچھے ہوئے پر عمل کو مشروع کرتا ہے اور یہ لوگ ان علماء کے بتائے ہوئے پر تحقیق کا اضافی حکم دیتے ہیں اللہ نے تو یہ تحقیق سب پر فرض نہیں کی پوچنے کو عمل کے لیے مشروع کیا فقط تو جوصورت مذکورۃ میں اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے بطریق تقلید مجتھد کے قول پر عمل کرتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے.

میں ٹی ایم سے مفرور اس لیے ہوں کہ یہاں آ کر باخدا میرا قیمتی وقت خراب ہوتا ہے یہاں کے اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جو وہ قرآن و حدیث کے ظاہری معنٰی سے غلط تعبیر لے کر علماء و فقہا اکرام کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں افسوس یہ کہ انہیں شرعی دلیل اور ذاتی رائے میں بھی تمیز نہیں پھران لوگوں کا سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھائی جائے تو پے در پے اعتراض کرتے رہیں گے اور من مانتی کے سواء پرعمل نہیں کریں گے اور نام قرآن و حدیث کا لے لینگے، ان کے جوابات میں وقت دینا فضول ہے.

ان کے نزدیک قیاس و اجتھاد و اجماع امت شرعی دلیل نہیں ہوتے ان کا بیان ہے "شرعی دلیل صرف قرآن اور حدیث کا نام ہے" اگر کوئی مسلمان تو کیا، کافر قرآن و حدیث کی عبارت کا حوالہ دے کر اپنا مذھب ثابت کرنا چاہے تووہ بات انکے لیے دالیل شرعی ہو گی! اور سمجھیں گے ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہیں ان کا گمان ہے فقہا میں اگر کوئی کامل ہوتا تو ان میں اختلاف نہ ہوتا تو جو صحابہ رضوان اللہ علیھم میں فقہی اختلاف تھا اس کا بھی انہیں انکار کر دینا درست لگتا ہوگا. نعوذ اللہ! وہ بھی کامل نہیں! ان کی پیروی کامیابی کی ذمانت نہیں! نعوذ اللہ! ان کا وقتی مشروعیت اصول ہے " تو وقتی طور پر تو وہ صحابی، تابعی یا محدثین کرام کے قول کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے" افسوس! جن ستاروں کی پیروی کو نص حدیث میں ہدایت پانا فرمان ہوا اسے بھی وقتی بنا دیا! یعنی جب من منا تو قول بھی دالیل،،،، نعوذ اللہ! اگران ہستیوں کے مابین اختلاف رہا تو کسی نہ کسی شرعی دلیل کے تحت رہا اور اس کی بنیاد علمی تفاوت بنی، ہرعلم والے پر اک زیادہ علم والا ہے کما جآء فی قولہ تعالٰی.
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
berely aur deobandi ek ho gae hy idar
Asalam o alikum to all muslims
Janab baat aap ko es se kiya koun brelvi hay aor k0un deobandi aap ko es se koi gharz nahin honi chahye kyun k aap na to deobandi hain aor na brelvi aor na hi aap firqa naam nihad ahlehadees se taluq rukhty hain..........
shayed aap khud MUJTAHID hain jiysa k rafa yaden na karny waly ko aap ne apny ijtehad se munkar-e-hadees bana diya aor muqaliden ki dunya ko hambli, shaafi aor malaki se nikal k sirf hanfiat tak mehdood kar diya......
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
السلام علیکم
مقلدین کا مذہب ہر گز کسی حدیث و آیت کے خلاف نہیں اگرچہ بظاہر ایک حکم کسی محدث کے یہاں صحیح سند سے مروی حدیث کے موافق نہیں بھی واقع ہے مگر بعض آئمہ نے اپنے تک پہنچی برعکس صحیح روایت پر حکم بیان فرمایا اور بعض نے اسی حدیث مختلفۃ فی الحکم کے مطابق حکم بیان کیا کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین سے اختلاف عمل ثابت ہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا کہ حضور نے فرمایا" الوضوء مما مست النار جسے آگ نے چھوا ہو اس سے وضوء ہے" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو وہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بھی موجود تھے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ معارضہ پیش کیا "انتوضاءمن الدھن انتوضاء من الحمیم کیا تیل کے استعمال سے یا گرم پانی کے استعمال سے وضوء ٹوٹ جائے گا?" اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھتیجے جب حدیث رسول بیان کروں تو مثالیں نہ دیا کرو! مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما قائم رہے اور آج تک یہی جمہور کا مذھب ہے کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور جمہور امت کو یہ التزام دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے قیاس شرعی کی بناء پر حدیث کو ترک کیا?
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث بیان کی کہ "جو جنازہ اٹھائے وضوء کرے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا ھل یلزمنا الوضوء من حمل عید ان یا بسۃ کیا سوکھی لکڑیاں اٹھانے سے ہم پر وضوء لازم ہے? حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس موخذہ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے
نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 1
یقینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس اس کے برعکس حدیث کا علم ہونا بھی ممکن ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ وعمل کا علم قطعی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد جانے سے روک دیا تو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما کی خدمت میں شکایت کی. آپ نے فرمایا. اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ حالات مشاہدہ فرماتے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ مشاہدہ کر رہے ہیں تو وہ بھی تم کو مسجد جانے کی اجازت نہ عطا فرماتے
مسلم شریف، ص 266، ج-1، باب استحباب صلاۃ النافلہ فی بیتہ، ناسر مجلس برکات
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم نہ تھا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو!? اورکیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حدیث رد کرنے یا چھوڑنے کا الزام بطریق تنقیص لگایا جا سکتا ہے، اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما نے بھی خلاف حدیث امرکی تصدیق کر دی اورحدیث پر قول کو فوقیت دی? تف ایسی فتنہ پرور سوچ پر جو حدیث کے نام پر مسلمانوں کے اذہان منتشر کر کے آئمہ کے ان مسائل مختلف فیہ جو دالائل شرعیہ پر مبنی ہیں پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو حدیث کا عامل بتاتے ہیں. ہر گز ہرگز تقلید کے بغیر حدیث پر عمل نہ کر پائیں گے.
عمل کا اختلاف خود نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز بالجہر ادا فرماتے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالسر، اور ایسے کئی اختلافات کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتوں کے موافق جائز رکھا اورصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتیں قرآن و سنت ہی کے پیش نظر تھیں.
حضرت ابو سعید بن معلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں فورا حاضر بارگاہ نہ ہوا کچھ دیر بعد حاضرہو کرعرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ عزوجل نے یہ حکم نہیں دیا کہ "اللہ اور رسول بلائیں تو حاضر ہو جاؤ"
صحیح بخاری، ص 642، ج 2
نماز توڑنا گناہ ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرحاضر ہونا اس سے بڑا فرض. حدیث کا نام لینے والے یہ بتائیں اگرآئمہ دالائل شرعی بیان کرکے امت کو فرض و واجب و سنت اور مستحب میں تمیز نہ بتاتے تو کس حدیث سے عمل کا صحیح ہونا پتا چلتا? فرض و واجب ومستحب جمع ہو جائیں تو کیا اپنے دل پر چلیں جو آسان لگے کر لیں?
شرعی اصول یہ ہے کہ اگر شرعی دلیل (قرآن و سنت و اجماع امت و قیاس شرعی، ضرورت شرعی، حاجت شرعی، عموم بلوٰی، عرف شرعی، تعامل شرعی، مصلحت شرعی اور ازالہء فساد) کا نا قابل عمل صحیح حدیث (کیوں کہ ہر حدیث پر عمل ممکن نہیں) سے معارضہ پیش آ جائے یعنی باہم حکم میں الگ الگ یا مختلف ہوں تو شرعی دالیل پر عمل کیا جائے گا اور معارض حکم کو چھوڑ دیا جائے گا. اک مثال
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے" صحیح مسلم، ص 232، ج 1، ناشر مجلس برکات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک نماز کا بھی ترک، عرف و علامت کفر تھا مگر مسلمان کے عمل کی وجہ سے یہ عرف و علامت بدل گیا علامت فسق و فجور بن گیا اس لیے اب اگر کسی نے جان بوجھ کر نماز ادا نہ کی تو فاسق کہلائے گا.
محدثین میں جو اختلاف ہے وہ اسناد پر ہے. کئی احادیث جو سند کے اعتبار سے ضعیف جان کر امام بخاری نے صحیح بخاری میں شامل نہیں کیں ان متروکہ احادیث میں سے کچھ امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح روایت سے ذکر کیں. امام بخاری کو ایک لاکھ صحیح احادیث حظ تھیں جبکہ صحیح بخاری میں چار ہزار کے قریب صحیح احادیث ہیں. آج تک کسی نے بھی نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کا احاطہ ء یاداشت نہیں کیا امام بخاری نے بھی بتوفیق الہی احادیث جمع کیں مگر نہ جانے کتنی احادیث ان تک نہیں پہنچی تو کوئی کیسے امام بخاری و دیگر محدثین کی چند احادیث پیش کرکے آئمہ کے مذاہب کو خلاف حدیث ٹھرا سکتا ہے? حالانکہ امام اعظم رحمۃ اللہ ان سے پہلے کے دور میں تھے جب احادیث جمع کرنے کا رواج یا ضرورت اس قدر پیش نہیں آئی تھی اگر ان پر یہ اعتراض رواں ہو سکتا ہے کہ انھوں نے صحیح احادیث کو چھوڑا تو پھریہ لوگ توصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین پر بھی یہ الزام لگانے سے نہیں ڈریں گے
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"
اللہ علماء سے پوچھے ہوئے پر عمل کو مشروع کرتا ہے اور یہ لوگ ان علماء کے بتائے ہوئے پر تحقیق کا اضافی حکم دیتے ہیں اللہ نے تو یہ تحقیق سب پر فرض نہیں کی پوچنے کو عمل کے لیے مشروع کیا فقط تو جوصورت مذکورۃ میں اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے بطریق تقلید مجتھد کے قول پر عمل کرتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے.
میں ٹی ایم سے مفرور اس لیے ہوں کہ یہاں آ کر باخدا میرا قیمتی وقت خراب ہوتا ہے یہاں کے اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جو وہ قرآن و حدیث کے ظاہری معنٰی سے غلط تعبیر لے کر علماء و فقہا اکرام کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں افسوس یہ کہ انہیں شرعی دلیل اور ذاتی رائے میں بھی تمیز نہیں پھران لوگوں کا سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھائی جائے تو پے در پے اعتراض کرتے رہیں گے اور من مانتی کے سواء پرعمل نہیں کریں گے اور نام قرآن و حدیث کا لے لینگے، ان کے جوابات میں وقت دینا فضول ہے.
ان کے نزدیک قیاس و اجتھاد و اجماع امت شرعی دلیل نہیں ہوتے ان کا بیان ہے "شرعی دلیل صرف قرآن اور حدیث کا نام ہے" اگر کوئی مسلمان تو کیا، کافر قرآن و حدیث کی عبارت کا حوالہ دے کر اپنا مذھب ثابت کرنا چاہے تووہ بات انکے لیے دالیل شرعی ہو گی! اور سمجھیں گے ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہیں ان کا گمان ہے فقہا میں اگر کوئی کامل ہوتا تو ان میں اختلاف نہ ہوتا تو جو صحابہ رضوان اللہ علیھم میں فقہی اختلاف تھا اس کا بھی انہیں انکار کر دینا درست لگتا ہوگا. نعوذ اللہ! وہ بھی کامل نہیں! ان کی پیروی کامیابی کی ذمانت نہیں! نعوذ اللہ! ان کا وقتی مشروعیت اصول ہے " تو وقتی طور پر تو وہ صحابی، تابعی یا محدثین کرام کے قول کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے" افسوس! جن ستاروں کی پیروی کو نص حدیث میں ہدایت پانا فرمان ہوا اسے بھی وقتی بنا دیا! یعنی جب من منا تو قول بھی دالیل،،،، نعوذ اللہ! اگران ہستیوں کے مابین اختلاف رہا تو کسی نہ کسی شرعی دلیل کے تحت رہا اور اس کی بنیاد علمی تفاوت بنی، ہرعلم والے پر اک زیادہ علم والا ہے کما جآء فی قولہ تعالٰی.
Bhai sub se pehle ye bol dun ke agar taqleed Quran hi se saabit hoti
to taqleed humen Taabe'een se milti hai tab e tabe'een se milti
aur un rawayaat se milti jo unhen Sahaba radi ALLAH anhuma farmate
ke ahadeeth aapke liye nahin ;;) aap nadaan o masoom ho aap aisa karo
ke jo hum kehte jaaen karte jaao lekin aisa tareekh e ISLAM mein kabhi nahin huwa
Sahaba radiALLAH anhuma se le kar aaiyma karam rehmatullah alaehe tak
subhi ne ahadeeth e nabvi alaehe salam hum tak pohnchaane ka kaam kiya
choonke aap hi ne apne post mein kaha ke Sahaba RADIALLAH anhuma me
ikhtilaaf tha so aap ne agar taqleed ko sahi baat karna hai to kisi bhi
taabe r.a ka naam bakarvi alvi Umeri Osmani dikha dein ??
jori unhone nisbaten ya phir unse ahadeeth naqal kiye ??
aur 100 baat ki eik baat agar taqleed durust hai to ye bhi
ehl e ahnaaf ke ulma ne taqleed ke mutaliq kaha hai
kya inhen aap sahi maante ho ?? agar nahin maante to
aapki above post karda commentment ke mutabiq aap
ko khud hi per afsos karna chaahiye aur aakhir me ye kahunga
ke chaaron aaiyma karam mein se kya kisi eik ne bhi ye farmaya
ke muqallid ban jaao ya taqleed ki tareef ki ?? agar nahin to aaj
ye kis tarah se Quran ki tafseer peish kar rahe hain jo ke muqallid ke
ayen mutabiq hi nahin yaani kisi imam ne bhi is tarah tafseer nahin ki
to phir aap kese is tarah tafseer karke is ayah se taqleed ko sabit kar rahe ho ??
aur agar eik bhi imam ne farmaya ke taqleed achhi cheez hai aur meri taqleed karo
to aap unki wo kitaab aur unka wo qoul ba dalaiyl yahaan peish kar dein
filwaqt ye bataaen ke kya in ulma ke taqleed ke mutaliq jo kaha ghalat kaha ??
agar nahin to kya aap inse zyada jaante ho ?? inki tehqeeq per aetmaad nahin aapko ??
haan kyun kyun ?? :-? agar haan to taqleed ko ghair e shariya maanne ke baad bhi
taqleed hi karni hai aap ko to aapka ALLAH hi haafiz hai
eik aur baat mauzu ko ghumana na dena aap seedhe seedhe jawab dijiyega .
 

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
Walaikum salam .. Mohtaram Nasir Brother Itni Badi Thread lagadi aap nay Takleed per Khair thoda boht mene padha hai Mujhay Behs Bhi Nhn Karna , per is takleed per behs kiun Kiya ja raha hai samajh nhn aata akhir aap is se kiya saabit karna chahtay hain ? Akhir is ka maqsad kiya hai ? Kuch Masail per baat karien toh banta hai yar takleed per atkay huway hain last eik haftay se ..
Kuch Bura Hai Kiya Agar Takleed ko Chor Kar Hum Sab Apas Mien Bhai Bhai Ban jayein aur Khaalis Allah Ka Kalaam Quran Huzoor S.A.W.W Ki Hadees Ki Baat Ko Maanien ....
Kiya Aap loug Khaalis Quran Wa Sunnat Wa Hadees Per Amal Nhn karsaktay ... Zaruri Hai Itna apas mien ladna behs karna ...
Mere Mohtaram bhai Islam Jo Hamara Deen Hai Boht hi asaan Deen hai Hamaray Nabi S.A.W.W Nay Her Her masala Bata diya Aur Sahaba karam aur Imamon Nay Hum Tak Yeh Deen Pohnchaya Badi Kaawash kay sath Sahi Ahaadees Chapter Wayeez Tarteeb Wayeez Karkay Sahi Aur Zaeef Ahaadees Ka Bhi Batadiya , Agar Apni Anaa Ko Side pe rakh kay is per amal kiya jaaye Toh Boht Hi Asaan Deen Hai Simple Huzoor S.A.W.W Kay Tariqay Per Nimaz Padho Sahi Ahaadees Per Amal Karo ..
Zaeef Ahaadees And Sahi Ahaadees Mien Faraq Kiya rehjata hai Agar Hum Sahi Ahaadees Kay hotay huway un Ko Chor Kar Zaeef Ahaadees Per Amal Karain Toh Kiya Faida Hamaray Imamon Ki Mehnat Ka Kay Unho Zaeef Ahaadees Ko Alag Kiya Aur Sahi ko Alag Kiya Agar Dono Per Amal Karsaktay Toh Phr Dono mien Faraq Karnay Ki Zarurat hi kiun pesh aati ...
Musalaman Hain Hum Sab Toh Musalaman Bankay hi Rahain Apas Mien toh Behtar Hai ..
Ab koi Faida nhn is topic per phr lambi behs hogi Takleed takleed aik dusre ko sab bura Kahienge lekin samjhta toh baat koi nhn samjhna chahta hi nhn koi toh faida behs karnay ka ...
Allah Aap ko Aur Humien Sahi Mana Mien Quran Wa Hadees Per Amal Karnay Ki Toufeeq Ata FArmaye
Allah Hi Hidayat Dene Wala Hai Beshak
Allah Ho Akbar Allah Kareem
Jazaka'Allah
@hoorain @Don
@hoorain @Don
@hoorain , @hoorain @hoorain
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
کسی بھی سنجیدہ غیر جانبدار بھائی یا بہن کو اس مسئلہ پر یا تقلید کے حوالے سے کسی بھی اشکال کی وضاحت درکار ہو ۔۔۔ تو مختصرا لکھیے ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔جزاک اللہ
 

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
Bhai sub se pehle ye bol dun ke agar taqleed Quran hi se saabit hoti
to taqleed humen Taabe'een se milti hai tab e tabe'een se milti
aur un rawayaat se milti jo unhen Sahaba radi ALLAH anhuma farmate
ke ahadeeth aapke liye nahin ;;) aap nadaan o masoom ho aap aisa karo
ke jo hum kehte jaaen karte jaao lekin aisa tareekh e ISLAM mein kabhi nahin huwa
Sahaba radiALLAH anhuma se le kar aaiyma karam rehmatullah alaehe tak
subhi ne ahadeeth e nabvi alaehe salam hum tak pohnchaane ka kaam kiya
آپ نے پہلی بات میں جو کچھ کہا بلا علم کہا، تابعین اور تبع تابعین سے پہلے، صحابہ رضوان اللہ ہیں، تقلید کا ثبوت ان کے عمل سے ثابت ہے جیسا کہ نیچے آ رہا ہے. چہ جائے تابعین اور تبع تابعین. ارے بھائی حضرت امام اعظم رحمۃ کس دور میں تھے? تابعین میں ہونے کا تو اختلاف ہے ایک روایت میں 61 ھ سن پیدائش ہے لیکن 80 ھ سن پیدائش ہونے پر تمام مورخین کا اتفاق ہے مگر آپ کا تبع تابعین میں ہونے کا کسی کو بھی انکار نہیں!
تقلید کا ثبوت صحابہ رضوان اللہ کےعمل سے
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت)
وہ حدیث کیا تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کو حیض آگیا، انہوں نے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، آپ نے فرمایا "کیا یہ ہم کو (واپسی سے) روک لیں گی (انہوں نے طواف و داغ نہیں کیا تھا) صحابہ نے بتایا کہ وہ طواف زیارت کر چکی ہیں، آپ نے فرمایا "پھر کوئی حرج نہیں،
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1757، مطبوعہ دارا رقم بیروت)
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
choonke aap hi ne apne post mein kaha ke Sahaba RADIALLAH anhuma me
ikhtilaaf tha so aap ne agar taqleed ko sahi baat karna hai to kisi bhi
taabe r.a ka naam bakarvi alvi Umeri Osmani dikha dein ??

صحابہ رضوان اللہ میں اختلاف عمل کا انکار کس کو ہے یہ تو کئی روایات سے ثابت ہے، بلکہ حدیث بھی ہے اختلاف امتی رحمۃ میری امت میں اختلاف رحمت ہے. صحابہ رضوان اللہ میں باہم اختلاف فقہی ہے نہ کہ ذاتی اختلاف
مذکورہ ناموں سے کیا آپ تقلید کے جائز ہونے کے دالیل سمجھتے ہو? کیا یہ دالیل شرعی کا مطالبہ ہے
aur 100 baat ki eik baat agar taqleed durust hai to ye bhi
ehl e ahnaaf ke ulma ne taqleed ke mutaliq kaha hai
kya inhen aap sahi maante ho ??
احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید پہ آپ کو کوئی اعترض ہے تو
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت)
اہل مدینہ کے صحابہ رضوان اللہ جنہوں نے حضرت زید بن ثابت کے قول کو بلا دالیل قبول کیا تو ان کے اس تقلیدی عمل پہ بھی اعتراض کرو گے?
احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید کے درست ہونے کا ثبوت تو صحیح البخاری شریف دے رہی ہے میں کیوں نہیں مانتا آپ اپنی بابت کہیں صحیح البخاری شریف کو تو مانتے ہیں یا نہیں?
aapki above post karda commentment ke mutabiq aap
ko khud hi per afsos karna chaahiye aur aakhir me ye kahunga
ke chaaron aaiyma karam mein se kya kisi eik ne bhi ye farmaya
ke muqallid ban jaao ya taqleed ki tareef ki ?? agar nahin to aaj
ye kis tarah se Quran ki tafseer peish kar rahe hain jo ke muqallid ke
ayen mutabiq hi nahin yaani kisi imam ne bhi is tarah tafseer nahin ki
to phir aap kese is tarah tafseer karke is ayah se taqleed ko sabit kar rahe ho ??
ان آئمہ میں سے امام احمد بن حنبل نے جو کچھ فرمایا اسے شیخ احمد بن تیمیہ(جنہیں غیرمقلدیں اپنے اکابریں میں سمجھتے ہیں) کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں تاکہ آپ کو کوئی لفظ ادھار نہ رہے.
شیخ احمد بن تیمیہ متوفی 728 ھ لکھتے ہیں
امام احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ چیز تمام آئمہ مسلیمین کے درمیان اتفاقی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت، اللہ اور اس کے رسول کے حلال کردہ کو حلال قرار دینا، اور اللہ اور اس کے رسول کے حرام کروہ کو حرام قرار دینا اور جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے واجب قرار دیا ہے اس کو واجب ماننا تمام جن و انس پر واجب ہے اور یہ ہر شخص پر ہر حال میں واجب، ظاہر ہو یا باطن لیکن چونکہ بہت سے احکام ایسے ہیں جن کو عام لوگ نہیں جانتے اس وجہ سے عام لوگ اس احکام میں ان علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ان کو یہ احکام بتلا سکیں کیونکہ علماء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وسیلہ راستہ اور رہ نما ہیں وہ عام لوگوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی احادیث پہنچاتے ہیں اور اپنے اجتہاد سے بقدر استطاعت احادیث کا مفہوم اور مراد بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی ان علماء کو ایسا علم اور فہم عطا فرماتا ہے جو دوسروں کو نہیں دیتا اور بسا اوقات یہ علماء کسی مسئلہ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح دوسرے اس مسئلہ کو نہیں جانتے
مجوع الفتاوع ج 20 ص224-223، مطبوعہ سعودی عربیہ
امام احمد بن حنبل کے یہ الفاظ "اپنے اجتہاد سے بقدر استطاعت احادیث کا مفہوم اور مراد بیان کرتے ہیں" ائمہ کے اقوال کی توصیف میں ہیں اورامام احمد بن حنبل کے یہ الفاظ "کیونکہ علماء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وسیلہ راستہ اور رہ نما ہیں" ان اقوال کی تقلید کی دعوت عام دے رہے ہیں.
اورمیرے پاس ان فضول اعتراضات کا تفسیری جواب میں حوالے دینے کے لیے اب مزید وقت نہیں، آپ خود تفاسیر کا مطالعہ کریں اکثر میں یہی ملے گا. آپ نے جو بھی کہا بلا علم کہا جسکا اندازہ ناظرین کو میرے جوابات سے ہو جائے گا لہذا اب کچھ اعتراض کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)
جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اور مجھے کسی اعتراض کا جواب دینے کی بھی ضرورت اس لیے نہیں کہ تمہارا مقصد جاننا نہیں اعتراض کرنا ہے
@fahadd @kool~nomi @Dawn @saviou @shizz @Star24 @i love sahabah .[DOUBLEPOST=1356135767][/DOUBLEPOST]@Tooba Khan
 

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi

احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید کے درست ہونے کا ثبوت تو صحیح البخاری شریف دے رہی ہے
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت

اہل مدینہ کے صحابہ رضوان اللہ نے معین شخص صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول کو بلا دالیل بغیر سوچے سمجھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہی حق ہے قبول کیا ورنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات ماننے سے انکار نہ کرتے
واللہ اعلم
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
از:عابد الرحمن بجنوری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
waalaikum assalam
maine abhi first post hi parhi hay aapki bohat ache se explain kiya apa ne MASHAALLAH!

first post may se hi aik baat jo baar baar bayan ki gai ussi pe kuch puchna chahti hun!
تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے


sawal karne ka kaha gya hay sawal aur taqleed may farq nhi?
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
از:عابد الرحمن بجنوری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
ناصر بھائی آپ نے ایک اختلافی تھریڈ بنایا ہے ہم اس پر بہت کچھ کہ سکتے ہیں مگر پھر وہی مسئلہ....کہ آپ نے ایک ہی جواب دینا ہے کہ آپکو بحث براۓ بحث کی عادت نہیں ہے جب آپ نے تھریڈ کے متعلق بحث نہیں کرنی اور پوچھے گۓ سوالات کے جوابات نہیں دینے تو اس اختلافی تھریڈ کو شروع کرنے کا مقصد؟؟؟؟
تھریڈ شروع کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ پوچھے گۓ سوالات سے لوگوں کو مطمئن کرے، ورنہ ایسا تھریڈ ہی شروع نہ کرے کہ جس کہ متعلق اسے پوری طرح سے علم نہ ہو
[DOUBLEPOST=1356158184][/DOUBLEPOST]
waalaikum assalam
maine abhi first post hi parhi hay aapki bohat ache se explain kiya apa ne MASHAALLAH!

first post may se hi aik baat jo baar baar bayan ki gai ussi pe kuch puchna chahti hun!
تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے


sawal karne ka kaha gya hay sawal aur taqleed may farq nhi?
اس آیت سے مقلدین تقلید کو ثابت کرتے ہیں جب کہ اس میں واضح طور پر کسی زندہ عالم سے پوچھنے کا ذکر ہے، اس وجہ سے یہ مقلدین کے اپنے ہی خلاف جاتی ہے
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Asalam o alikum to all muslims
Janab baat aap ko es se kiya koun brelvi hay aor k0un deobandi aap ko es se koi gharz nahin honi chahye kyun k aap na to deobandi hain aor na brelvi aor na hi aap firqa naam nihad ahlehadees se taluq rukhty hain..........
shayed aap khud MUJTAHID hain jiysa k rafa yaden na karny waly ko aap ne apny ijtehad se munkar-e-hadees bana diya aor muqaliden ki dunya ko hambli, shaafi aor malaki se nikal k sirf hanfiat tak mehdood kar diya......

itna barhakre kyun bhai? mirchi lagi kia apko aina dikhaya to?

my ne to sirf haqiqat boli ke barely aur deobandi ek ho gai
bhai aap dono to ek dusre ko kaafir kehte nahi thakte lekin idar ek ke khande pe dusre hath dalke ke kyun phirre?

jaise aaj islam mukhalif apne khud ka ikhtelaf rehne ke bad bhi ek ho gai aj aap firqa parast bi haq ke khilaf ek hore

shukria[DOUBLEPOST=1356159942][/DOUBLEPOST]
waalaikum assalam
maine abhi first post hi parhi hay aapki bohat ache se explain kiya apa ne MASHAALLAH!

first post may se hi aik baat jo baar baar bayan ki gai ussi pe kuch puchna chahti hun!
تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے


sawal karne ka kaha gya hay sawal aur taqleed may farq nhi?
bht fark hy lekin inka kaam hi ye hy k kisi b baat se sirf apna matlab sabit karte
 

فہد

Super Star
Dec 12, 2009
10,225
3,548
1,313
karachi
taqleed ki common defination kuch is tarha se parhi thi maine ke
Apni Ek Ghalti Ki Saza Aane Wale Tamaam Insaanon Ko Dena..
nasir bhai farigh waqt main thande dimagh se kabi sochna ke kahin ap b to ussi ghalti ki saza nhi bhukat rhe?
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
itna barhakre kyun bhai? mirchi lagi kia apko aina dikhaya to?

my ne to sirf haqiqat boli ke barely aur deobandi ek ho gai
bhai aap dono to ek dusre ko kaafir kehte nahi thakte lekin idar ek ke khande pe dusre hath dalke ke kyun phirre?

jaise aaj islam mukhalif apne khud ka ikhtelaf rehne ke bad bhi ek ho gai aj aap firqa parast bi haq ke khilaf ek hore

shukria[DOUBLEPOST=1356159942][/DOUBLEPOST]

bht fark hy lekin inka kaam hi ye hy k kisi b baat se sirf apna matlab sabit karte
Asalam o alikum to all muslims
muslim sahib koun kis waqt kis ka sath deta hay ye to waqt aany pe pata chalta hay.
wesy to kuch quran aor hadees ka dawa karny waly bhi logu ko kafir kehny main ksi se peechy nahin hain ye aor baat hay k ye dono khud ko hanfi kehty hain aor aap ko ahnaf aor imam abu hanifa(RA) se bughaz aor hasad hay es liye sirf en ka naam quote kar diya.
janab aap ne brelvi aor deobandi firqa to bayan kar diya lakin naam nihad ahlehadees , ghair muqalidenn ka naam lety shayed aap ko mirchi lag jaati hay es liye k wo to imam abu hanifa(RA) tak ko kafir kehty hain brelvi aor deobandi to bahut baad ki baat hay.
Muslim sahib kafir koun hay yahan ye baat hi mat karo warna ye fatwy pesh karny start hoye to bahut se firqry aor log beech main aajayen ge aor phir yahan muslim koi nahin bachy ga ......... na mien aor na hi aap aor na hi koi aor member.
جانے کب، کون، کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلماں ہوا پھرتا ہے آج
 

فہد

Super Star
Dec 12, 2009
10,225
3,548
1,313
karachi
i love sahaba bhai zara thande dimagh se soch ke batain ke hazrat abu hanifa ke Qoul per Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ke farameen ko tarjeeh dene ka matlab agar hazrat abu haneefa ra se bughuz or hasad hoa
to Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ke farameen per hazrat abu haneefa ra ke Qoul ko tarjeeh dena ka matlab kya hoa?
 
  • Like
Reactions: shizz and *Muslim*

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
Asalam o alikum to all muslims
muslim sahib koun kis waqt kis ka sath deta hay ye to waqt aany pe pata chalta hay.
wesy to kuch quran aor hadees ka dawa karny waly bhi logu ko kafir kehny main ksi se peechy nahin hain ye aor baat hay k ye dono khud ko hanfi kehty hain aor aap ko ahnaf aor imam abu hanifa(RA) se bughaz aor hasad hay es liye sirf en ka naam quote kar diya.
janab aap ne brelvi aor deobandi firqa to bayan kar diya lakin naam nihad ahlehadees , ghair muqalidenn ka naam lety shayed aap ko mirchi lag jaati hay es liye k wo to imam abu hanifa(RA) tak ko kafir kehty hain brelvi aor deobandi to bahut baad ki baat hay.
Muslim sahib kafir koun hay yahan ye baat hi mat karo warna ye fatwy pesh karny start hoye to bahut se firqry aor log beech main aajayen ge aor phir yahan muslim koi nahin bachy ga ......... na mien aor na hi aap aor na hi koi aor member.
جانے کب، کون، کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلماں ہوا پھرتا ہے آج
bhai sach me ap dimagh se kam ny lete
idar ek deobandi post ki uski taid ek barely ne ki to zahir hy my kahunga barely deobandi ke ho gai jo ek dusre ko kaafir kehte ny thakte

ap batao idar koi aur do firqe hy jo apas me ek dusre ko kafir b bolte hy aur ek dusre ki taid b kar rahe hy???????????????

apne ko abu hanifa se bughz nahi apna dil saaf hy lekin abu hanifa ke naam se jo loog deen me khurafat bhar kar apna dhanda chala raha hy unko apan ny chorne wale

aap dimagh ko thanda karo aur raat ke andhere me tanhai me apne amal aur is taqleed ka jaeza lo aur ek baar quran hadees ko bhi seene se chimpta lo phir faisla karo

kia pata abhi lamha bhar me maut ajae bhai ab bhi waqt hy aqeeda durust karlo muri apse aur dusre bhaion se ye khawahish hy

shukria
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
i love sahaba bhai zara thande dimagh se soch ke batain ke hazrat abu hanifa ke Qoul per Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ke farameen ko tarjeeh dene ka matlab agar hazrat abu haneefa ra se bughuz or hasad hoa
to Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ke farameen per hazrat abu haneefa ra ke Qoul ko tarjeeh dena ka matlab kya hoa?
Asalam o alikum to all muslims
Fahad bahi kis ne kaha k abu hanifa(RA) ka qoul MAAZALLAH nabi kareem(SAW) ki ahadees se zayada behtar hay?????????
ye to logu ki zehni salaheyat hay jo aysa samjhty hain.
es ki wazhat to allama ibn teymeia(RA) ne ki jo k mien dossry topic mien pesh ki hay k
In the words of Imam Ibn Taimiya (r.a) :
We have explained in our risala "رفع الملام ان الائمہ الاعلام" that no Imam (Scholor) among the Aimahs (Scholors) of Islam has contradicted or gone against a Sahih Hadith without a valid reason. Infact they had nearly twenty (20) reasons for leaving a Sahih Hadith. [مجموع الفتاوى : ٢٠/٣٠٤]

ab shayed ALLAMA IBN TEMEYA(ra) ki baat bhi mardood ho jaye??????
aor phir bhi jo log aysa samjhty hain k abu hanifa(RA) ko nabi kareem(SAW) pe terjeeh d jaati hay to aap khud faisala kar lo k nabi kareem(SAW) ki zaat pe aor aqwaal pe ksi aor ko terjeeh deny wala muslim ho sakta hay???????
phir to koi hanfi muslim hi nahin bachy ga.

aor janab baat bughaz aor hasad ki hay esi liye to sirf abu hanifa(RA) aor hanfiat ko quote kiya jata hay agar baat insaaf ki hoti to har firqy aor har imam ko choor k sirf hanfiat ko quote na kiya jata aor sirf abu hanifa(RA) pe hi itraaz na kiya jata.
[DOUBLEPOST=1356194431][/DOUBLEPOST]
bhai sach me ap dimagh se kam ny lete
idar ek deobandi post ki uski taid ek barely ne ki to zahir hy my kahunga barely deobandi ke ho gai jo ek dusre ko kaafir kehte ny thakte

ap batao idar koi aur do firqe hy jo apas me ek dusre ko kafir b bolte hy aur ek dusre ki taid b kar rahe hy???????????????

apne ko abu hanifa se bughz nahi apna dil saaf hy lekin abu hanifa ke naam se jo loog deen me khurafat bhar kar apna dhanda chala raha hy unko apan ny chorne wale

aap dimagh ko thanda karo aur raat ke andhere me tanhai me apne amal aur is taqleed ka jaeza lo aur ek baar quran hadees ko bhi seene se chimpta lo phir faisla karo

kia pata abhi lamha bhar me maut ajae bhai ab bhi waqt hy aqeeda durust karlo muri apse aur dusre bhaion se ye khawahish hy

shukria

Asalam o alikum to all muslims
Muslim sahib sirf abu hanifa(RA) hi nien balk jo bhi jis k naam pe khurafat phelata hay os ko bayan karo lakin aap ki baat sirf aor sirf ahnaf aor abu hanifa(RA) pe hi aak kyun rukati hay???
taqleed ki baat hay to bahi mie ne pehly bhi kaha hay k taqleed ki wajah se itraaz sirf ahnaf hi pe kyun hota hay??????? hambli, shaafi aor malaki pe kyun nien????
taqleed to 4 ayema(RA) ki hoti hay lakin itraaz sirf ahnaf pe?????????
jis din mujhy es baat ka jawab mil gya k taqleed quran aor hadees k khilaf hay aor os pe fatwa sirf imam abu hanifa(RA), aor hanfi muqlaideen pe kyun lagta hay baaqi ayema ahmad bin hambal(RA), imam malik(RA) aor imam sahaafi(RA) pe aor en k muqalideen pe kyun nahin lagta os din mien taqleed choor dun ga..
 
Top