بغیر سوره فاتحہ کے نماز نہیں

  • Work-from-home

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
سلام . صحیح احادیث آپ کے سامنے ہیں . میرے لیے نہ حنفی نہ شافی نہ مالکی اور نہ حمبلی نہ بریلوی نہ دیوبندی نہ اہلحدیث ضروری ہیں
جس کی بات بھی قرآن اور صحیح احادیث کے مطابق ھو گی مان لی جا ے گی
یہاں میں نے صحیح احادیث پیش کی ہیں . اوپر تفصیل موجود ہے لکن یہاں یہ لوگ اتنا نہیں بتا سکے کہ یہ جھری نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں یا سری نماز میں
اور یہ جواب یہ کبھی نہیں دے سکتے
میں جس حدیث پر عمل کرتا ہوں وہ میں نے اوپر پیش کر دی ہیں
لکن یہ لوگ جھری اور سری والا جواب کبھی نہیں دیں گے
لولی ہر بار بات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہو کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
لولی ہر بار بات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہو کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔


سلام
آپ شاہد بھول گۓ آپ نے سنن نسائی کا جو حوالہ دیا اور اس کا ورق بھی یہاں پیسٹ کیا
وہ آپ کے عالم دیوبند کا ترجمہ والی سنن نسائی ہے
آپ نے یہ والا ورق لگایا

اور اپنا مؤقف بیان کیا
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)

لکن آپ اس ورق کے پچھلے ورق گول کر گۓ
کیوں کہ
وہاں پر امام نسائی کچھ اور بھی لے کر آ ے ہیں
یہ لیں ترجمہ بھی آپ کا اور عالم بھی آپ کا

 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
اب بھی پہلےکی طر ح تم نے بات تبدیل کر دی۔

لولی اللہ نے تمہیں عقل دی ہے تو اس کو کبھی کبھی استعمال بھی کر لیا کرو۔
میں نے حدیث بیان کی اور اس کا ترجمہ بیان کیا اس پہ کسی دیوبندی یا بریلوی کا حاشیہ نہیں بیان کیا اور نہ ہی تشریح بیان کی۔
اگر ہمت ہے تو دکھاو کہ کہاں میں نے کسی دیوبندی کی تشریح اور حوالے دئیے؟
تم نے جو حوالہ دیا تھا س میں اس آیت کی تشریح صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی ہے۔
جبکہ اسی آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کر چکا ہوں جس کو تم نے تسلیم نہیں کیا۔

اور عقل کے اندھے! حوالہ دینے سے پہلے دیکھ لیتے۔ سنن نسائی کے صفحات لگا دئیے لیکن یہی احادیث تم پہلے کئی بار پیش کر چکے ہو۔
sahabreplyone.jpg
لولی ہر بار بات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہو کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
اب بھی پہلےکی طر ح تم نے بات تبدیل کر دی۔
لولی اللہ نے تمہیں عقل دی ہے تو اس کو کبھی کبھی استعمال بھی کر لیا کرو۔
میں نے حدیث بیان کی اور اس کا ترجمہ بیان کیا اس پہ کسی دیوبندی یا بریلوی کا حاشیہ نہیں بیان کیا اور نہ ہی تشریح بیان کی۔
اگر ہمت ہے تو دکھاو کہ کہاں میں نے کسی دیوبندی کی تشریح اور حوالے دئیے؟
تم نے جو حوالہ دیا تھا س میں اس آیت کی تشریح صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی ہے۔
جبکہ اسی آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کر چکا ہوں جس کو تم نے تسلیم نہیں کیا۔
اور عقل کے اندھے! حوالہ دینے سے پہلے دیکھ لیتے۔ سنن نسائی کے صفحات لگا دئیے لیکن یہی احادیث تم پہلے کئی بار پیش کر چکے ہو۔
لولی ہر بار بات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہو کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi



سلام
میں نے جو تفسیر پیش کی وہ ساتھ میں بتا بھی دیا کہ سعودی عرب میں کنگ فہد پرنٹنگ پریس کی ہے
اب اگر وہ یوسف صلاح دین یا جونا گڑھی کی ہے تو میرا کیا قصور ہے
یہاں ہر بندے کو دی جاتی ہے
یہاں دعوه ارشاد کے دفتر میں بھی دستیاب ہے
میں نے تم سے کہا تھا کہ اپنے علما سے کہو جب چلا وغیرہ پر یہاں چکر لگائیں تو اپنی تفسیر عثمانی یا کسی دیوبند کی تفسیر لگا دیں

کیا تمھارے خیال میں کنگ فہد پرنٹنگ والے
بیوقوف ہیں یا تمہاری دشمنی ان سے یہ ہے کہ وہ دیوبند شریف کے نہیں ہیں
میں صحیح احادیث لگا چکا ہوں وہ بھی آپ کے دیوبند شریف کے عالم کی ترجمہ والی
سنن نسائی کی
جس کا ورق یہاں خود آپ نے لگایا ہے
کیا آپ کے عالم جس نے سنن نسائی کا ترجمہ کیا ہے
ان کو پتا نہیں کہ ترجمہ کر کے باب کا خلاصہ کیا لکھ رھے ہیں

دوسری بات جب آپ یہ آیت پیش کر رھے ھو کہ جب قرآن پڑھا جا ے تو خاموشی سے سنو
وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ

اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
اگر آپ اس کو حجت بناتے ھیں تو
یہ بتا دیں کہ
یہ جہری نماز میں ھو گی تو
سری نماز کا کیا بنے گا
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
khaana khaey baghair, pait b dil mey soch ker bhar liya karo.
@HorrorReturns
Sherry hikmat hai nahi samjo sako gay

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
من کی دنيا ! من کی دنيا سوز و مستي ، جذب و شوق
تن کی دنيا! تن کي دنيا سود و سودا ، مکروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہيں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کي دنيا ميں نہ پايا ميں نے افرنگی کا راج
من کی دنيا ميں نہ ديکھے ميں نے شيخ و برہمن

Dil ki dunai main koi shaikh nhi hota jo ap ko kahay ga keh namaz main yeah karo woh karo wahan tau bas KHuda hota
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
سلام
میں نے جو تفسیر پیش کی وہ ساتھ میں بتا بھی دیا کہ سعودی عرب میں کنگ فہد پرنٹنگ پریس کی ہے
اب اگر وہ یوسف صلاح دین یا جونا گڑھی کی ہے تو میرا کیا قصور ہے
یہاں ہر بندے کو دی جاتی ہے
یہاں دعوه ارشاد کے دفتر میں بھی دستیاب ہے
میں نے تم سے کہا تھا کہ اپنے علما سے کہو جب چلا وغیرہ پر یہاں چکر لگائیں تو اپنی تفسیر عثمانی یا کسی دیوبند کی تفسیر لگا دیں

کیا تمھارے خیال میں کنگ فہد پرنٹنگ والے
بیوقوف ہیں یا تمہاری دشمنی ان سے یہ ہے کہ وہ دیوبند شریف کے نہیں ہیں
میں صحیح احادیث لگا چکا ہوں وہ بھی آپ کے دیوبند شریف کے عالم کی ترجمہ والی
سنن نسائی کی
جس کا ورق یہاں خود آپ نے لگایا ہے
کیا آپ کے عالم جس نے سنن نسائی کا ترجمہ کیا ہے
ان کو پتا نہیں کہ ترجمہ کر کے باب کا خلاصہ کیا لکھ رھے ہیں

دوسری بات جب آپ یہ آیت پیش کر رھے ھو کہ جب قرآن پڑھا جا ے تو خاموشی سے سنو
وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
اگر آپ اس کو حجت بناتے ھیں تو
یہ بتا دیں کہ
یہ جہری نماز میں ھو گی تو
سری نماز کا کیا بنے گا
لولی پہلے خود تو فیصلہ کر لو کہ تمہارا دعوی کیا ہے اور تم نے پوسٹ کیا کرنی ہے؟
ہر بار وہی ایک ہی چیز کاپی پیسٹ کر کے الگ سوال کرتے ہو۔
یہ بتاؤ کہ کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑ ھی کا ترجمہ تمہارے لئے حجت ہے؟
اگر نہیں تو پیش کیوں کیا؟
اور آیت کی تشریح میں نے صحابہ سے پیش کی تم تسلیم کرتے ہو یا نہیں؟
اور نسائی کے حوالے پر میں بیان کر چکا ہوں کہ میں نے ترجمہ پیش کیا ہے کسی کا خلاصہ اور تشریح پیش نہیں کی۔
کیا تمہارے لئے اس دیوبندی کا خلاصہ حجت ہے جو پیش کر رہے ہو؟
اب بھی تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا پہلے ان کا جواب دو پھر میں تمہارے حوالوں کا جواب دوں گا۔
لولی ہر بار بات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہو کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi
 

Umm-e-ahmad

Super Star
Feb 22, 2010
11,352
5,314
1,313
home
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔
حضرت محمد کعب القرظی رہ فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیت_کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) خاموش رہتے.
[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727) -
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
القرآن: اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو
[٧:٢٠٤]​
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
jazak ALLAH khair
beautifull sharing MA SHA ALLAH
 
  • Like
Reactions: sherry2112

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اور نسائی کے حوالے پر میں بیان کر چکا ہوں کہ میں نے ترجمہ پیش کیا ہے کسی کا خلاصہ اور تشریح پیش نہیں کی۔
کیا تمہارے لئے اس دیوبندی کا خلاصہ حجت ہے جو پیش کر رہے ہو؟

سلام
جس کا ترجمہ پیش کیا ہے اس کے پچھلے صفحات کیوں پیش نہیں کیے ہیں
میں نے بھی اسی کا ترجمہ پہ کیا ہے جس کا آپ نے پیش کیا ہے
اسلام میں حجت اللہ کا قرآن اور محمّد صلی اللہ کا فرمان ہے




[DOUBLEPOST=1364615123][/DOUBLEPOST]

باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا
ہے ۔






آپ امام نسائی کی تاویل اور تشریح تو پیش کر رھے ہیں
لکن امام نسائی کی پوری بات تو پیش کریں
امام نسائی اپنی کتاب میں پچھلے باب میں یہ والی احادیث کیوں لے کر آے ہیں
اگر امام نسائی حجت ہیں تو ان کی پوری بات پیش کی جا ے
آپ کا اپنا ورق جو آپ نے لگایا اس میں امام نسائی کچھ اور بھی کہ رھے ہیں
باب
مقتدی کی قرات امام کے واسطے کافی ہے
پوری حدیث پیش کرنے کے بعد
امام نسائی خود کہ رھے ہیں کہ
اس کو حدیث کہنا غلط ہے
یہ ابو دردا راضی اللہ کا قول ہے
اور حیرت کی بات ہے کہ جب میں نے صحیح مسلم کی حدیث پیش کی تو
آپ نے کہا کہ یہ حدیث ہے یا حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ کا قول ہے
اور اسی حدیث کو امام نسائی بھی لے کر اے ہیں
اور دوسرے امام بھی اپنی کتابوں میں لے کر اے ہیں
کیا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی حدیث کو امام نسائی کی کتاب پر پرکھو گے
یا امام نسائی کی حدیث کو ان کی کتابوں پر


میری پیش کردہ احادیث یہ ہے اگر آپ ان احادیث کے بارے میں بتائیں کہ آپ ان احادیث کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں




یہ حدیث سنن نسائی میں بھی آئ ہے


کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 912

قتیبہ، مالک، العلاء بن عبدالرحمن، ابوسائب، ہشام ابن زہرة، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے ہرگز پوری نہیں ہے حضرت ابوسائب نے فرمایا کہ میں نے ابوہریرہ سے دریافت کیا کہ میں کبھی کبھی امام کی اقتداء میں ہوتا ہوں تو میں سورہ فاتحہ کس طریقہ سے پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا اور پھر میرا ہاتھ دبایا اور ارشاد فرمایا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لے اس لئے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے نماز میرے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوگئی ہے تو نماز آدھی میرے واسطے ہے اور آدھی میرے بندے کے واسطے ہے اور میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے واسطے موجود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت بندہ کہتا ہے (اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تمام تعریف خدا کے واسطے ہے جو کے مالک ہے تمام جہان کا تو خداوند قدوس فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی ہے پھر بندہ کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بہت مہربان اور نہایت رحم والا تو خداوند قدوس فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی پھر بندہ کہتا ہے مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ مالک ہے بدلہ کے دن کا ۔ تو خداوند قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اس کے بعد بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ میرے اور بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے واسطے ہے کہ وہ جو کچھ مانگے پھر بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ہم کو سیدھا راستہ دکھلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے اپنا فضل وکرم کیا۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔ یعنی نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو ناراض ہوا وہ گمراہ ہو گئے۔ مذکورہ تین آیت کریمہ بندوں کے واسطے ہے وہ جو سوال کرے وہ موجود ہے۔




یہ حدیث ترمذی میں بھی آئ ہے

کتاب جامع ترمذی جلد 2 حدیث نمبر 861

قتیبہ ، عبدالعزیز بن محمد، علاء بن عبدالرحمن، عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز ناقص ہے نامکمل ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا اے فارسی کے بیٹے دل میں پڑھا کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کی نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے اور ایک اس بندے کے لئے۔ پھر میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے لیے ہے۔ چنانچہ جب بندہ کھڑا ہو کر (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء بیان کی جب (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کی۔ اور یہ خالصتاً میرے لئے ہے اور میرے، اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ پھر (إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) سے آخر تک میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہی ہے جو وہ یہ کہتے ہوئے مانگے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) یہ حدیث حسن ہے۔ شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی راوی علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے والد سے وہ ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ پھر ابن جریح اور مالک بن انس بھی علاء بن عبدالرحمن سے وہ ابوسائب سے (جو ہشام کے مولی) ہیں وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہں۔ نیز ابن ادریس اپنے والد سے اور وہ علاء بن عبدالرحمن سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے والد اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی کی ہم معنی روایت کی ہے۔

یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں بھی آئ ہے

کتاب سنن ابن ماجہ جلد 1 حدیث نمبر 838

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیّہ، ابن جریج، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب، ابوالسائب، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے نماز میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص و ناتمام ہے (راوی کہتے ہیں)
میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ! میں بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو آپ نے میرا بازو دبایا اور (آہستگی سے) فرمایا (ایسی صورت میں) اس کو اپنے دل ہی دل میں پڑھ لیا کر ۔


کتاب سنن ابن ماجہ جلد 3 حدیث نمبر 665

ابومروان محمد بن عثمان عثمانی، عبدالعزیزبن ابی حازم، علاء بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی۔ لہذا آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کیلئے ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو ! بندہ کہتا ہے (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں حَمِدَنِي عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری حمد بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا (دنیا میں ورنہ آخرت میں) پھر بندہ کہتا (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری ثناء بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ بندہ کہتا ہے (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں مَجَّدَنِي عَبْدِي فَهَذَا لِي وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی۔ یہاں تک کا حصہ میرا تھا اور آئندہ آیت میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے۔ بندہ کہتا ہے ( إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) یہ آیت ہے جو میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا اور سورہ کا آخری حصہ میرے بندے کیلئے ہے۔ بندہ کہتا ہے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ) یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا اسے ملے گا۔


اور سنن ابو داوود میں ایک اور حدیث بھی آئ ہے صحیح سند کے ساتھ
















 
  • Like
Reactions: *Muslim*

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
Sherry hikmat hai nahi samjo sako gay

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
من کی دنيا ! من کی دنيا سوز و مستي ، جذب و شوق
تن کی دنيا! تن کي دنيا سود و سودا ، مکروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہيں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کي دنيا ميں نہ پايا ميں نے افرنگی کا راج
من کی دنيا ميں نہ ديکھے ميں نے شيخ و برہمن

Dil ki dunai main koi shaikh nhi hota jo ap ko kahay ga keh namaz main yeah karo woh karo wahan tau bas KHuda hota
g aya no mr horror{(mad322u)}
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
Ab kisi bhi member ki is thread mein be iqhlaaqi,out of topic,firqa targetting wale posts dikhe to thread band ho jayegi
phir koi ye nahin bole aap me se ke mere post ke baad ya mere jawab dene se pehle thread cloze kyun huwi @lovelyalltime @i love sahabah

aur @HorrorReturns eik MUSALMAAN ka dil us hi tarah amal karne ko chaahta hai jis tarah ka hukm
uske RAB ta'ala aur RasoolALLAH alaehe salam ne diya hai aap apne ashaar kisi aur section mein post karen
ye shayari ka section nahin hai
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
سلام
جس کا ترجمہ پیش کیا ہے اس کے پچھلے صفحات کیوں پیش نہیں کیے ہیں
میں نے بھی اسی کا ترجمہ پہ کیا ہے جس کا آپ نے پیش کیا ہے
اسلام میں حجت اللہ کا قرآن اور محمّد صلی اللہ کا فرمان ہے
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
کاش تم تھوڑی سی عقل استعمال کر لیتے اور میری پوسٹ پڑھ لیتے لیکن تم نے کاپی پیسٹ کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
یہ کہاں کا اصول ہے کہ جس کتاب کا حوالہ دو اس پوری کتاب کو یہاں لگا دو۔
میں نے اپنا حوالہ حدیث سے دیا کسی دیوبندی کا حاشیہ نہیں پیش کیا لیکن تم جونا گڑھی اور صلاح الدین کا حاشیہ پیش کر رہے ہو اور پھر دعوی یہ کرتے ہو کہ صرف قرآن اور حدیث مانتے ہو۔
ایسے تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بخاری اور مسلم سے وہ حدیث بیان کیوں نہیں کی جن کے حوالے میں کئ بار تم سے پوچھ رہا ہوں لیکن تم جواب نہیں دے رہے؟
لولی پہلے خود تو فیصلہ کر لو کہ تمہارا دعوی کیا ہے اور تم نے پوسٹ کیا کرنی ہے؟
ہر بار وہی ایک ہی چیز کاپی پیسٹ کر کے الگ سوال کرتے ہو۔
یہ بتاؤ کہ کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑ ھی کا ترجمہ تمہارے لئے حجت ہے؟
اگر نہیں تو پیش کیوں کیا؟
اور آیت کی تشریح میں نے صحابہ سے پیش کی تم تسلیم کرتے ہو یا نہیں؟
اور نسائی کے حوالے پر میں بیان کر چکا ہوں کہ میں نے ترجمہ پیش کیا ہے کسی کا خلاصہ اور تشریح پیش نہیں کی۔
کیا تمہارے لئے اس دیوبندی کا خلاصہ حجت ہے جو پیش کر رہے ہو؟
آپ امام نسائی کی تاویل اور تشریح تو پیش کر رھے ہیں
لکن امام نسائی کی پوری بات تو پیش کریں
امام نسائی اپنی کتاب میں پچھلے باب میں یہ والی احادیث کیوں لے کر آے ہیں
اگر امام نسائی حجت ہیں تو ان کی پوری بات پیش کی جا ے
آپ کا اپنا ورق جو آپ نے لگایا اس میں امام نسائی کچھ اور بھی کہ رھے ہیں
باب
مقتدی کی قرات امام کے واسطے کافی ہے
پوری حدیث پیش کرنے کے بعد
امام نسائی خود کہ رھے ہیں کہ
اس کو حدیث کہنا غلط ہے
یہ ابو دردا راضی اللہ کا قول ہے
اور حیرت کی بات ہے کہ جب میں نے صحیح مسلم کی حدیث پیش کی تو
آپ نے کہا کہ یہ حدیث ہے یا حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ کا قول ہے
اور اسی حدیث کو امام نسائی بھی لے کر اے ہیں
اور دوسرے امام بھی اپنی کتابوں میں لے کر اے ہیں
کیا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی حدیث کو امام نسائی کی کتاب پر پرکھو گے
یا امام نسائی کی حدیث کو ان کی کتابوں پر
میں نے کب اور کہاں امام نسائی کی تاویل اور تشریح پیش کی؟
میں نے تو نسائی سے حدیث پیش کی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی اس پہ کسی کی تشریح اور تاویل نہیں پیش کی۔
ثابت کرو کہ کب اور کہاں میں نے امام نسائی کی تاویل اور تشریح بیان کی ہے؟
اور ذرا میری پوسٹ کوپڑھ لیتے تو تمہیں نظر آتا کہ ابوالدردہ رضی اللہ کی روایت تو میں نے حوالوں میں بیان ہی نہیں کی۔
میری پوسٹ سے مجھے بتاؤ کہ کہاں میں نے اپنی دلیل میں حضرت ابو الدردہ رضی اللہ کی روایت بیان کی ہے؟
تم لگاتار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتے جا رہے ہو اور کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔
پہلے بھی تم نے مجھ پہ جھوٹا الزام لگایا کہ میں بریلوی اور دیوبندیوں کے حوالے دے رہا ہوں حلانکہ تم خود اہلحدیث علماء کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر کا انکار کر رہے ہو۔
راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا اے فارسی کے بیٹے دل میں پڑھا کرو۔
یہ بتاؤ کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے؟
پہلے خود پڑھ لو پھر جواب دینا۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
[DOUBLEPOST=1364657664][/DOUBLEPOST]
Ab kisi bhi member ki is thread mein be iqhlaaqi,out of topic,firqa targetting wale posts dikhe to thread band ho jayegi
phir koi ye nahin bole aap me se ke mere post ke baad ya mere jawab dene se pehle thread cloze kyun huwi @lovelyalltime @i love sahabah
aur @HorrorReturns eik MUSALMAAN ka dil us hi tarah amal karne ko chaahta hai jis tarah ka hukm
uske RAB ta'ala aur RasoolALLAH alaehe salam ne diya hai aap apne ashaar kisi aur section mein post karen
ye shayari ka section nahin hai
بھائی آپ خود دیکھ لو کہ کون کیا جواب دے رہا ہے۔
میں نے لولی کے حوالوں کا جواب دیا لیکن لولی بار بار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتا جا رہا ہے۔
پہلے اس نے کہا کہ میں نےد یوبندیوں اور اہلحدیثوں کے حوالے دئیے جو کہ اس نے جھوٹ بولا۔ میں نے اس ٹاپک میں کہیں بھی کسی دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کا حوالہ نہیں دیا۔
میں نے صرف حدیث پیش کی ہے لیکن اس کے لئے کسی دیوبندی یا بریلوی کی تشریح بیان نہیں کی۔
جبکہ لولی خود قرآن کی آیت کی تشریح ان اہلحدیث علماء جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کے حوالوں سے کر رہا ہے لیکن الزام مجھ پہ لگا رہا ہے۔
اب اس نے پھر کہا کہ میں نے امام نسائی کی تشریح اور تاویل پیش کی جو کہ جھوٹ ہے۔
میں نے سنن نسائی سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی حدیث پیش کی ہے لیکن اس میں امام نسائی کی تشریح بیان نہیں کی۔
آٌپ ہی مجھے دکھائیں کہ کہاں میں نے اس حدیث میں امام نسائی کی تشریح بیان کی ہے؟
اس کے علاوہ لولی سے میں نے کئی سوال پوچھے لیکن وہ جواب نہیں دے رہا بلکہ بار بار ایک ہی کاپی پیسٹ کئے جارہا ہے اور خود لولی کو معلوم ہی نہیں کہ میں نے کیا پوسٹ کی ہے بلکہ الٹا مجھ پہ الزام لگاتا جا رہا ہے۔
آپ لولی کو کہیں کہ میرے سوالوں کا جواب تو دے کیونکہ ٹاپک اس نے شروع کیا ہے۔
اور آپ نے اگر ٹاپک بند کرنا ہے تو کر دیں لیکن جب تک لولی کاپی پیسٹ چھوڑ کر میرے سوالات کا جواب نہیں دے گا میں اس کے کسی بھی حوالے کا جواب نہیں دوں گا۔
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
jazakAllah mohsin bhai..Allah apko ise tara haq pay sabit qadam rakkay hamesha...
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
کاش تم تھوڑی سی عقل استعمال کر لیتے اور میری پوسٹ پڑھ لیتے لیکن تم نے کاپی پیسٹ کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
یہ کہاں کا اصول ہے کہ جس کتاب کا حوالہ دو اس پوری کتاب کو یہاں لگا دو۔
میں نے اپنا حوالہ حدیث سے دیا کسی دیوبندی کا حاشیہ نہیں پیش کیا لیکن تم جونا گڑھی اور صلاح الدین کا حاشیہ پیش کر رہے ہو اور پھر دعوی یہ کرتے ہو کہ صرف قرآن اور حدیث مانتے ہو۔
ایسے تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بخاری اور مسلم سے وہ حدیث بیان کیوں نہیں کی جن کے حوالے میں کئ بار تم سے پوچھ رہا ہوں لیکن تم جواب نہیں دے رہے؟
لولی پہلے خود تو فیصلہ کر لو کہ تمہارا دعوی کیا ہے اور تم نے پوسٹ کیا کرنی ہے؟
ہر بار وہی ایک ہی چیز کاپی پیسٹ کر کے الگ سوال کرتے ہو۔
یہ بتاؤ کہ کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑ ھی کا ترجمہ تمہارے لئے حجت ہے؟
اگر نہیں تو پیش کیوں کیا؟
اور آیت کی تشریح میں نے صحابہ سے پیش کی تم تسلیم کرتے ہو یا نہیں؟
اور نسائی کے حوالے پر میں بیان کر چکا ہوں کہ میں نے ترجمہ پیش کیا ہے کسی کا خلاصہ اور تشریح پیش نہیں کی۔
کیا تمہارے لئے اس دیوبندی کا خلاصہ حجت ہے جو پیش کر رہے ہو؟
میں نے کب اور کہاں امام نسائی کی تاویل اور تشریح پیش کی؟
میں نے تو نسائی سے حدیث پیش کی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی اس پہ کسی کی تشریح اور تاویل نہیں پیش کی۔
ثابت کرو کہ کب اور کہاں میں نے امام نسائی کی تاویل اور تشریح بیان کی ہے؟
اور ذرا میری پوسٹ کوپڑھ لیتے تو تمہیں نظر آتا کہ ابوالدردہ رضی اللہ کی روایت تو میں نے حوالوں میں بیان ہی نہیں کی۔
میری پوسٹ سے مجھے بتاؤ کہ کہاں میں نے اپنی دلیل میں حضرت ابو الدردہ رضی اللہ کی روایت بیان کی ہے؟
تم لگاتار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتے جا رہے ہو اور کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔
پہلے بھی تم نے مجھ پہ جھوٹا الزام لگایا کہ میں بریلوی اور دیوبندیوں کے حوالے دے رہا ہوں حلانکہ تم خود اہلحدیث علماء کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر کا انکار کر رہے ہو۔
یہ بتاؤ کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے؟
پہلے خود پڑھ لو پھر جواب دینا۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
[DOUBLEPOST=1364657664][/DOUBLEPOST]​
بھائی آپ خود دیکھ لو کہ کون کیا جواب دے رہا ہے۔
میں نے لولی کے حوالوں کا جواب دیا لیکن لولی بار بار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتا جا رہا ہے۔
پہلے اس نے کہا کہ میں نےد یوبندیوں اور اہلحدیثوں کے حوالے دئیے جو کہ اس نے جھوٹ بولا۔ میں نے اس ٹاپک میں کہیں بھی کسی دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کا حوالہ نہیں دیا۔
میں نے صرف حدیث پیش کی ہے لیکن اس کے لئے کسی دیوبندی یا بریلوی کی تشریح بیان نہیں کی۔
جبکہ لولی خود قرآن کی آیت کی تشریح ان اہلحدیث علماء جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کے حوالوں سے کر رہا ہے لیکن الزام مجھ پہ لگا رہا ہے۔
اب اس نے پھر کہا کہ میں نے امام نسائی کی تشریح اور تاویل پیش کی جو کہ جھوٹ ہے۔
میں نے سنن نسائی سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی حدیث پیش کی ہے لیکن اس میں امام نسائی کی تشریح بیان نہیں کی۔
آٌپ ہی مجھے دکھائیں کہ کہاں میں نے اس حدیث میں امام نسائی کی تشریح بیان کی ہے؟
اس کے علاوہ لولی سے میں نے کئی سوال پوچھے لیکن وہ جواب نہیں دے رہا بلکہ بار بار ایک ہی کاپی پیسٹ کئے جارہا ہے اور خود لولی کو معلوم ہی نہیں کہ میں نے کیا پوسٹ کی ہے بلکہ الٹا مجھ پہ الزام لگاتا جا رہا ہے۔
آپ لولی کو کہیں کہ میرے سوالوں کا جواب تو دے کیونکہ ٹاپک اس نے شروع کیا ہے۔
اور آپ نے اگر ٹاپک بند کرنا ہے تو کر دیں لیکن جب تک لولی کاپی پیسٹ چھوڑ کر میرے سوالات کا جواب نہیں دے گا میں اس کے کسی بھی حوالے کا جواب نہیں دوں گا۔


سلام
اگر آپ نے احادیث لکھی ہیں تو میں نے کیا کہانیاں لکھی ہیں
آپ میرے سوال کا کیا جواب دو گے
میں احادی پیش کر چکا ہوں اگر کوئی بندہ احادیث کی اپنی مرضی سے مختلف
تاویل
کرنا شروع کر دے تو کیا کیا جا سکتا ہے
میں نے جو احادیث پیش کی ہیں ان میں سوره فاتحہ کا مکمّل ذکر ہے امام کے پیچھے پڑھنے کا
آپ ابھی تک کوئی اسی حدیث پیش نہیں کر سکے جس میں حکم ھو کہ امام کے پیچھے سوره فاتحہ نہ پڑھو
اب بہتر ہے کہ اس مسلے کی پوری تحقیق لکھی جا ے
تا کہ سب پڑھنے والوں کا پتا چلے
اور
میری سب سے گزارش ہے کہ
میری تحریر کو پوری طرح تسلی سے پڑھیں
اور خود فیصلہ کریں کہ کی اصل مسلہ اور اس کا حل کیا ہے اور ہمارے علما جن میں حنفی علما بھی شامل ہیں کیا کہتے ہیں
یہاں کسسی پر تنقید کرنا مقصد نہیں
صرف اصل چیز بتانا ہے

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

پہلی حدیث
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏‏‏

(صحیح بخاری کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ) حدیث نمبر : 756)

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر

یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں


وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔

( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 )

یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔

نیز حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی المتوفی 855ھ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں

استدل بہذاالحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت

یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں

وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد

یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں
۔

دوسری حدیث

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔


( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔


( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔

تیسری حدیث

عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔


( صحیح مسلم، ج1، ص:169 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں

ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔

یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں

معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 588 )

حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔

( کتاب القرات، ص: 17 )

یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔

تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے

ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170 اقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں
فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔

اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔

ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے

لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔

کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے

فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا

یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔

ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔

چوتھی حدیث

عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔

( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔
خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔


پانچویں حدیث

عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔

( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔

چھٹی حدیث

عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 50 )

ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔

ساتویں حدیث

عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 53 )

عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔

( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی )

یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں

من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔

یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔

مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔

وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔

یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔

تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے

والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں

علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔

لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔

خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔

لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔

اے ناظرین

جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاءوعلماءامام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔

علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں

بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات وبعضہم فی السریۃ فقط وعلیہ فقہاءالحجاز والشام

( کذا فی غیث الغمام، ص: 156 )

یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔

عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں

وروی عن محمدانہ استحسن قراءۃ الفاتحۃ خلف الامام فی السریۃ و روی مثلہ عن ابی حنیفۃ صریح بہ فی الہدایۃ والمجتبیٰ شرح مختصر القدروی وغیرہما وہذا ہو مختار کثیرمن مشائخنا

یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔

ہدایہ میں ہے

ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فی مایروی عن محمد

یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔

مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں

وہو وان کان ضعیفاً روایۃ لکنہ قوی درایۃ ومن المعلوم المصرح فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی وغیرہ انہ لایعدل عن الروایۃ اذا وافقتہا درایۃ

یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے

اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔

اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے

لوکان فی فمی یوم القیامۃ جمرۃ احب الی من ان یقال لاصلوٰۃ لک

یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔

( امام الکلام، ص: 20)

ناظرین! یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اورامام ابوحفص کبیر رحمۃ اللہ علیہ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔


اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔

( غیث الغمام، ص: 174 )

اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے
الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتہیٰ مترجماً بقدرالحاجۃ۔

اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظہرحق الظہور ان اقوی المسالک سلک علیہا اصحابنا ہومسلک استحسان القراۃ فی السریۃ کما ہو روایۃ عن محمد بن الحسن واختارہا جمع من فقہاءالزمن وارجورجاءموثقا ان محمدالما جوز القراۃ فی السریۃ واستحسنہا لابد ان یجوز القراۃ فی الجہریۃ فی السکتات عند وجدانہا لعدم الفرق بینہ و بینہ انتہیٰ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔

ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ


نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔

فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ

منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما فی فتح القدیر وغیرہ ان الاخذ بالمنع احوط فانہ لامنع ہہنا عند تدقیق النظر یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ مرفوعا فیہ اما لااصل لہ واما لا یصح انتہی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔

اے ناظرین!

دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔

مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاء وعلماء نے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔

کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ( الکہف: 5 ) ۔

ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صدتعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔

مولاناعبدالحئی حنفی فرماتے ہیں

لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔

( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )

یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔

فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔

( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی )

یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔

حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں

وبالجملۃ لایظہر لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام معارض یساویہا فی الدرجۃ ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔

امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔

نوٹ: کچھ لوگ آیت شریفہ واذاقری القرآن سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی جب کہ نماز باجماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا، لہٰذا استدلال باطل ہے۔



 
  • Like
Reactions: shizz

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں
علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔
لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔
اے ناظرین
جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاءوعلماءامام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔
علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں
بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات وبعضہم فی السریۃ فقط وعلیہ فقہاءالحجاز والشام
( کذا فی غیث الغمام، ص: 156 )
یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔
عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں
وروی عن محمدانہ استحسن قراءۃ الفاتحۃ خلف الامام فی السریۃ و روی مثلہ عن ابی حنیفۃ صریح بہ فی الہدایۃ والمجتبیٰ شرح مختصر القدروی وغیرہما وہذا ہو مختار کثیرمن مشائخنا
یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔
ہدایہ میں ہے
ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فی مایروی عن محمد
یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔
مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں
وہو وان کان ضعیفاً روایۃ لکنہ قوی درایۃ ومن المعلوم المصرح فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی وغیرہ انہ لایعدل عن الروایۃ اذا وافقتہا درایۃ
یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے
اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔
اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے
لوکان فی فمی یوم القیامۃ جمرۃ احب الی من ان یقال لاصلوٰۃ لک
یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔
( امام الکلام، ص: 20)
ناظرین! یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔
اورامام ابوحفص کبیر رحمۃ اللہ علیہ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔
اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
( غیث الغمام، ص: 174 )
اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتہیٰ مترجماً بقدرالحاجۃ۔
اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظہرحق الظہور ان اقوی المسالک سلک علیہا اصحابنا ہومسلک استحسان القراۃ فی السریۃ کما ہو روایۃ عن محمد بن الحسن واختارہا جمع من فقہاءالزمن وارجورجاءموثقا ان محمدالما جوز القراۃ فی السریۃ واستحسنہا لابد ان یجوز القراۃ فی الجہریۃ فی السکتات عند وجدانہا لعدم الفرق بینہ و بینہ انتہیٰ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔
ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ
نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔
فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ
منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما فی فتح القدیر وغیرہ ان الاخذ بالمنع احوط فانہ لامنع ہہنا عند تدقیق النظر یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ مرفوعا فیہ اما لااصل لہ واما لا یصح انتہی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔
اے ناظرین!
دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔
مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاء وعلماء نے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔
کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ( الکہف: 5 ) ۔
ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صدتعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔
مولاناعبدالحئی حنفی فرماتے ہیں
لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔
( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی )
یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔
فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔
( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی )
یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔
حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں
وبالجملۃ لایظہر لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام معارض یساویہا فی الدرجۃ ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
نوٹ: کچھ لوگ آیت شریفہ واذاقری القرآن سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی جب کہ نماز باجماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا، لہٰذا استدلال باطل ہے۔


آپکی پوسٹ کا مقلدین کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا مگر پھر بھی کوئی حدیث پر عمل نہیں کریگا،​
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
wallah yahan tau chotay bachay alam ban bathay hain . Such hain qiamat kay kareeb ilam utha lia jaey ga. or unparh log deen kay masail par behas lagain gay.. google se search karain gay
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime
Top