تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
کاش تم تھوڑی سی عقل استعمال کر لیتے اور میری پوسٹ پڑھ لیتے لیکن تم نے کاپی پیسٹ کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
یہ کہاں کا اصول ہے کہ جس کتاب کا حوالہ دو اس پوری کتاب کو یہاں لگا دو۔
میں نے اپنا حوالہ حدیث سے دیا کسی دیوبندی کا حاشیہ نہیں پیش کیا لیکن تم جونا گڑھی اور صلاح الدین کا حاشیہ پیش کر رہے ہو اور پھر دعوی یہ کرتے ہو کہ صرف قرآن اور حدیث مانتے ہو۔
ایسے تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بخاری اور مسلم سے وہ حدیث بیان کیوں نہیں کی جن کے حوالے میں کئ بار تم سے پوچھ رہا ہوں لیکن تم جواب نہیں دے رہے؟
لولی پہلے خود تو فیصلہ کر لو کہ تمہارا دعوی کیا ہے اور تم نے پوسٹ کیا کرنی ہے؟
ہر بار وہی ایک ہی چیز کاپی پیسٹ کر کے الگ سوال کرتے ہو۔
یہ بتاؤ کہ کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑ ھی کا ترجمہ تمہارے لئے حجت ہے؟
اگر نہیں تو پیش کیوں کیا؟
اور آیت کی تشریح میں نے صحابہ سے پیش کی تم تسلیم کرتے ہو یا نہیں؟
اور نسائی کے حوالے پر میں بیان کر چکا ہوں کہ میں نے ترجمہ پیش کیا ہے کسی کا خلاصہ اور تشریح پیش نہیں کی۔
کیا تمہارے لئے اس دیوبندی کا خلاصہ حجت ہے جو پیش کر رہے ہو؟
میں نے کب اور کہاں امام نسائی کی تاویل اور تشریح پیش کی؟
میں نے تو نسائی سے حدیث پیش کی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی اس پہ کسی کی تشریح اور تاویل نہیں پیش کی۔
ثابت کرو کہ کب اور کہاں میں نے امام نسائی کی تاویل اور تشریح بیان کی ہے؟
اور ذرا میری پوسٹ کوپڑھ لیتے تو تمہیں نظر آتا کہ ابوالدردہ رضی اللہ کی روایت تو میں نے حوالوں میں بیان ہی نہیں کی۔
میری پوسٹ سے مجھے بتاؤ کہ کہاں میں نے اپنی دلیل میں حضرت ابو الدردہ رضی اللہ کی روایت بیان کی ہے؟
تم لگاتار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتے جا رہے ہو اور کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔
پہلے بھی تم نے مجھ پہ جھوٹا الزام لگایا کہ میں بریلوی اور دیوبندیوں کے حوالے دے رہا ہوں حلانکہ تم خود اہلحدیث علماء کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر کا انکار کر رہے ہو۔
یہ بتاؤ کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے؟
پہلے خود پڑھ لو پھر جواب دینا۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ اس ٹاپک کے اندر کب میں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث کا حوالہ دیا؟
ورنہ اپنی غلطی تسلیم کر لو تم نے غلط الزام لگایا ہے مجھ پہ۔
اس کے بعد ٹاپک تم نے شروع کیا ہے تو تمہارا حق بنتا ہے کہ پہلے ٹاپک کی وضاحت کرو اور پھر اس پہ پوچھے گئے سوالات کے جواب دو لیکن تم صرف کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔ کبھی زبیر زئی کی کتاب اور کبھی جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی کتاب۔
سری اور جھری نماز پہ پہلے اپنی دلیل تو دو کیونکہ ٹاپک تمہارا ہے اور دعوی بھی تم نے کیا ہے۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
[DOUBLEPOST=1364657664][/DOUBLEPOST]
بھائی آپ خود دیکھ لو کہ کون کیا جواب دے رہا ہے۔
میں نے لولی کے حوالوں کا جواب دیا لیکن لولی بار بار مجھ پہ جھوٹے الزام لگاتا جا رہا ہے۔
پہلے اس نے کہا کہ میں نےد یوبندیوں اور اہلحدیثوں کے حوالے دئیے جو کہ اس نے جھوٹ بولا۔ میں نے اس ٹاپک میں کہیں بھی کسی دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کا حوالہ نہیں دیا۔
میں نے صرف حدیث پیش کی ہے لیکن اس کے لئے کسی دیوبندی یا بریلوی کی تشریح بیان نہیں کی۔
جبکہ لولی خود قرآن کی آیت کی تشریح ان اہلحدیث علماء جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کے حوالوں سے کر رہا ہے لیکن الزام مجھ پہ لگا رہا ہے۔
اب اس نے پھر کہا کہ میں نے امام نسائی کی تشریح اور تاویل پیش کی جو کہ جھوٹ ہے۔
میں نے سنن نسائی سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی حدیث پیش کی ہے لیکن اس میں امام نسائی کی تشریح بیان نہیں کی۔
آٌپ ہی مجھے دکھائیں کہ کہاں میں نے اس حدیث میں امام نسائی کی تشریح بیان کی ہے؟
اس کے علاوہ لولی سے میں نے کئی سوال پوچھے لیکن وہ جواب نہیں دے رہا بلکہ بار بار ایک ہی کاپی پیسٹ کئے جارہا ہے اور خود لولی کو معلوم ہی نہیں کہ میں نے کیا پوسٹ کی ہے بلکہ الٹا مجھ پہ الزام لگاتا جا رہا ہے۔
آپ لولی کو کہیں کہ میرے سوالوں کا جواب تو دے کیونکہ ٹاپک اس نے شروع کیا ہے۔
اور آپ نے اگر ٹاپک بند کرنا ہے تو کر دیں لیکن جب تک لولی کاپی پیسٹ چھوڑ کر میرے سوالات کا جواب نہیں دے گا میں اس کے کسی بھی حوالے کا جواب نہیں دوں گا۔