بغیر سوره فاتحہ کے نماز نہیں

  • Work-from-home

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
taftab13_0345.jpg
رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔
taftab13_0348.jpg
حضرت محمد کعب القرظی رہ فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیت_کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) خاموش رہتے.
[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727) -
abi hatim.jpg
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
nisai.jpg

حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
القرآن: اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو
[٧:٢٠٤]​
mu.jpg
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
 

Shiraz-Khan

Super Magic Jori
Hot Shot
Oct 27, 2012
18,264
15,551
1,313
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔
حضرت محمد کعب القرظی رہ فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیت_کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) خاموش رہتے.
[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727) -
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
القرآن: اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو
[٧:٢٠٤]​
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
Assalam.....

JAZAKALLAAH bht behtreen tarah sey samjhaya. kaafi mehnat ki hey aap ney. Allaah aap ko dono jahano mey qamiyab ata karey afiat k saath. bht zabardast MASHA'ALLAAH...
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔
حضرت محمد کعب القرظی رہ فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیت_کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) خاموش رہتے.
[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727) -
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
القرآن: اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو
[٧:٢٠٤]​
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔





 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔
حضرت محمد کعب القرظی رہ فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّہ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیت_کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) خاموش رہتے.
[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727) -
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
القرآن: اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو
[٧:٢٠٤]​
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
جزاک اللہ محسن اقبال بھائی ۔۔۔ماشاء اللہ سے بہت مفید اور علمی پوسٹ ہے ۔۔
۔ماشاء اللہ سے آپ نے حوالاجات سے اپنا موقف بیان فرمایا
سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر یک طرفہ احادیث دیکھ کر رائے قائم نہیں کی جاتی
بلکہ کسی بھی مسئلہ پر تمام روایات کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کی جاتی ہے ۔۔۔۔
اور الحمدللہ ہمارے اکابرین نے نہ صرف نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے والی روایات کو پیش نظر رکھا بلکہ اُن نصوص کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کا حل پیش کیا جن میں امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش رہنے کی تاکید کی گئی
الحمدللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
جزاک اللہ محسن اقبال بھائی ۔۔۔ماشاء اللہ سے بہت مفید اور علمی پوسٹ ہے ۔۔
۔ماشاء اللہ سے آپ نے حوالاجات سے اپنا موقف بیان فرمایا
سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر یک طرفہ احادیث دیکھ کر رائے قائم نہیں کی جاتی
بلکہ کسی بھی مسئلہ پر تمام روایات کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کی جاتی ہے ۔۔۔۔
اور الحمدللہ ہمارے اکابرین نے نہ صرف نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے والی روایات کو پیش نظر رکھا بلکہ اُن نصوص کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کا حل پیش کیا جن میں امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش رہنے کی تاکید کی گئی
الحمدللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

لولی صاحب میں نے تو قرآن کی آیت بیان کی اور پھر اس کی تشرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کی۔
اب آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تشریح نہیں مانتے تو میں نے جو آیت پیش کی آپ ہی قران کی اس آیت کی تشریح بیان کر دیں کہ اس آیت سے کیا مراد ہے؟
میں نے تو اپنی بات کی وضاحت کر دی ہے۔۔
نیچے میں نے بھی احادیث بیان کی ہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے تو برائے مہربانی ذرا یہ بھی بتا دیں کہ آپ ان احادیث کو مانتے ہیں یا نہیں؟
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
اور برائے مہربانی کسی عالم یا امام کا قول مت پیش کیجئے گا کیونکہ آپ کسی عالم یا امام کا قول نہیں مانتے۔
@nasirnoman @lovelyalltime @Farhan-Shamsi @sherry2112 @S_ChiragH @Tooba Khan
 
  • Like
Reactions: sherry2112

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لولی صاحب میں نے تو قرآن کی آیت بیان کی اور پھر اس کی تشرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کی۔
اب آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تشریح نہیں مانتے تو میں نے جو آیت پیش کی آپ ہی قران کی اس آیت کی تشریح بیان کر دیں کہ اس آیت سے کیا مراد ہے؟
میں نے تو اپنی بات کی وضاحت کر دی ہے۔۔
نیچے میں نے بھی احادیث بیان کی ہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے تو برائے مہربانی ذرا یہ بھی بتا دیں کہ آپ ان احادیث کو مانتے ہیں یا نہیں؟
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
اور برائے مہربانی کسی عالم یا امام کا قول مت پیش کیجئے گا کیونکہ آپ کسی عالم یا امام کا قول نہیں مانتے۔
@nasirnoman @lovelyalltime @Farhan-Shamsi @sherry2112 @S_ChiragH @Tooba Khan
salam. meray bhai maian poori ahadees auper pesh ker chuka hoon. maian nay jo ahadees kay hawalay diya haian aap kay khiyal maian woh thaik haian ya nahin haian.

baqi aap kay hanafi ulma kay hawalay bhi pesh kiya gaya haian.

aap kay liya to ahadees ki ahmiat kia mahni rakhti hai. aap loog to imam sahib ki taraf mansoob jhooti fiqa ki khatir sahih ahadees ko thoker mar detay haian.

mujh say poochnay kay bajay apnay aap say poochian keh aap loog sahih bukhari aur sahih muslim ki ahadees ko mantay haian ya sirf fiqa shareef ko bachatay haian.

pehlay sahih bukhari aur sahih muslim ki ahadees kay baray maian apna mouqaf wazih karaian.




aur yeh bhi bata daian keh aap nay jo ahadees pesh ki haian woh mardoon kay baray maian haian ya aurtoon kay baray maian haian.
 
  • Like
Reactions: Dawn and *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
salam. meray bhai maian poori ahadees auper pesh ker chuka hoon. maian nay jo ahadees kay hawalay diya haian aap kay khiyal maian woh thaik haian ya nahin haian.

baqi aap kay hanafi ulma kay hawalay bhi pesh kiya gaya haian.

aap kay liya to ahadees ki ahmiat kia mahni rakhti hai. aap loog to imam sahib ki taraf mansoob jhooti fiqa ki khatir sahih ahadees ko thoker mar detay haian.

mujh say poochnay kay bajay apnay aap say poochian keh aap loog sahih bukhari aur sahih muslim ki ahadees ko mantay haian ya sirf fiqa shareef ko bachatay haian.

pehlay sahih bukhari aur sahih muslim ki ahadees kay baray maian apna mouqaf wazih karaian.




aur yeh bhi bata daian keh aap nay jo ahadees pesh ki haian woh mardoon kay baray maian haian ya aurtoon kay baray maian haian.
لولی عجیب بات ہے کہ میری بلکل واضح اور صریح بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔۔
میں نے قران کی آیت پیش کی اور اس کی تفسیر 2 صحابہ کرام سے دی کہ یہ آیت نماز کے لئے نازل ہوئی لیکن آپ اس کا کوئی جواب نہیں دے رہے۔
آپ کو اگر ان صحابہ کی تفسیر پسند نہیں تو برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر بتا دیں قران اور حدیث سے۔
پہلے قران کی اس آیت کا جواب دیں پھر حدیث بیان کریں۔
آپ نے جو بخاری اور مسلم کی حدیث پیش کی اس میں کہاں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی چاہیے؟
ان احادیث میں تو امام کا ذکر ہی نہیں اور احادیث تو میں نے بھی صحاح ستہ سے بیان کی اور ان میں واضح حکم ہے کہ جب امام قرآت کرے تو تم خاموش رہو۔
آپ ان احادیث کو کیوں نہیں مانتے۔
میں نے تو اس ٹاپک میں فقہ کا کوئی حوالہ دیا ہی نہیں لیکن آپ کو فقہ دشمنی کی وجہ سے یہاں بھی بار بار فقہ یاد آ رہی ہے۔
آپ نے فقہ حنفی کے حوالےدئیے تو آپ قران اور حدیث چھوڑ کے ان حوالہ جات پہ کیوں آ گئے۔
یہ حوالے تو آپ تب دیتے جب میں فقہ حنفی سے حوالے دیتا لیکن میں نے تو فقہ کا حوالہ دیا ہی نہیں۔
اگر ایسی بات ہے تو میں آپ کو اہلحدیث علماء کے حوالے دے دیتا ہوں بات برابر ہو جائے گی۔
یہ ٹاپک مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کے لئے نہیں ہے اس لئے اس ٹاپک کو درمیان میں مت لاؤ۔
@nasirnoman @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi @hoorain @Tooba Khan @sherry2112 @Atif-adi
 
  • Like
Reactions: sherry2112

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
لولی عجیب بات ہے کہ میری بلکل واضح اور صریح بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔۔
میں نے قران کی آیت پیش کی اور اس کی تفسیر 2 صحابہ کرام سے دی کہ یہ آیت نماز کے لئے نازل ہوئی لیکن آپ اس کا کوئی جواب نہیں دے رہے۔
آپ کو اگر ان صحابہ کی تفسیر پسند نہیں تو برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر بتا دیں قران اور حدیث سے۔
پہلے قران کی اس آیت کا جواب دیں پھر حدیث بیان کریں۔
آپ نے جو بخاری اور مسلم کی حدیث پیش کی اس میں کہاں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی چاہیے؟
ان احادیث میں تو امام کا ذکر ہی نہیں اور احادیث تو میں نے بھی صحاح ستہ سے بیان کی اور ان میں واضح حکم ہے کہ جب امام قرآت کرے تو تم خاموش رہو۔
آپ ان احادیث کو کیوں نہیں مانتے۔
میں نے تو اس ٹاپک میں فقہ کا کوئی حوالہ دیا ہی نہیں لیکن آپ کو فقہ دشمنی کی وجہ سے یہاں بھی بار بار فقہ یاد آ رہی ہے۔
آپ نے فقہ حنفی کے حوالےدئیے تو آپ قران اور حدیث چھوڑ کے ان حوالہ جات پہ کیوں آ گئے۔
یہ حوالے تو آپ تب دیتے جب میں فقہ حنفی سے حوالے دیتا لیکن میں نے تو فقہ کا حوالہ دیا ہی نہیں۔
اگر ایسی بات ہے تو میں آپ کو اہلحدیث علماء کے حوالے دے دیتا ہوں بات برابر ہو جائے گی۔
یہ ٹاپک مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کے لئے نہیں ہے اس لئے اس ٹاپک کو درمیان میں مت لاؤ۔
@nasirnoman @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi @hoorain @Tooba Khan @sherry2112 @Atif-adi


اگر آپ کے حوالے صحاح ستہ سے ہیں اور میرے حوالے بھی انہی کتابوں سے ہیں
یہ لیں اب باتیں کہ یہ احادیث آپ مانتے ھو کہ نہیں
یہ بھی صحاح ستہ کی ہی احادیث ہیں
آپ عورت اور مرد کی نماز میں کچھ فرق کرتے ہیں اس لیے آپ سے پوچھا کہ یہ احادیث مردوں کے بارے میں ہیں یا عورتوں کے بارے میں
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 815 حدیث مرفوع مکررات 15 بدون مکرر
عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمودبن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرات شروع کی مگر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرات کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرات کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 923 حدیث مرفوع مکررات 15 بدون مکرر
ہشام بن عمار، صدقة، زیدبن واقد، حرام بن حکیم، نافع بن محمود بن ربیعة، عبادة بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی وقت کی نماز جہری کی امامت فرمائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت میں بلند آواز سے قرات کروں تو کوئی شخص کچھ نہ پرھے لیکن سورہ فاتحہ۔

[DOUBLEPOST=1363516743][/DOUBLEPOST]
کیا امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے؟
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )



وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ


اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‏


سوره اعراف آیت نمبر ٢٠٤

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالٰی جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھےآیت ( لا تسموعوا لھذا القران والغوا فیہ الخاس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو ۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو ۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے ۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو ۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حدیث(من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب) یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لے ۔ پس سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے، اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی ۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے حدیث(انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ) یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی ۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم ۔ حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری ۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں (مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا حدیث(لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا) یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے ۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں - زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے ۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری ۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور ۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب ، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گذر چکا ۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورہ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے ۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے ۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ (لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ حدیث(کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب) یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے ۔ یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کافرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت ، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو ۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا (حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے ۔ ) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر ۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا ۔




 
  • Like
Reactions: Dawn and *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‏
سوره اعراف آیت نمبر ٢٠٤
سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لولی آپ نے آیت کی جو تشریح بیان کی ہے اس سے آپ کا موقف ثابت ہی نہیں ہوتا۔
اپ نے اس آیت کی تشریح کے لئے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ کی روایت پیش کی تو جناب اس روایت میں تو واضح الفاظ ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔ اور یہ روایت ہے بھی نماز کے لئے اور اس روایت میں تو خاموشی سے سننے کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہی ثابت کرتے ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
ضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
باقی اس آیت کے بارے میں کچھ اور حوالے دے دیتا ہوں کہ بعض اکابرین نے کہا ہے کہ یہ آیت خطبہ کے لئے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فرض نماز کے لئے بھی ہے۔آپ نے خطبہ کے لئے تو اس آیت کو تسلیم کر لیا اس کے ساتھ ساتھ نماز کے لئے بھی تسلیم کر لیں۔
1 = تفسـيرُ الطبري ، یہ تفسیر شيخ المُفسـرين امام محمد بن جرير الطبري رحمه الله کی ہے اس آيـة مبـاركه کی تفسیر میں صحابه وتابعین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال میں سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول نماز اور خطبه ہے ، اور ہم نے جو یہ کہا کہ یہ قول سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اورتمام علماء کا إجماع ہے کہ جن لوگوں پرجمعه فرض ہے ان پرامام کا خطبه سننےکے دوران توجہ کرنا اور خاموش رہنا لازمی اورضروری ہے اور اس کے ثبوت میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بکثرت احادیث موجود ہیں ، پس یہی دو حالتیں ہیں (یعنی نماز اورخطبه) جن میں قراءت قرآن کے وقت خاموش ره کر توجہ کرنا ضروری ہے ، رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، لہذا جو شخص امام کے پیچهے اس کی اقتداء کر رہا ہو اوراس کی قراءت سن رہا ہو تواس پر واجب ہے کہ وه خاموش ہوکر قراءت سنے ، کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی صحیح حدیث سے یہی ثابت ہے
قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قولُ من قال: أمروا باستماع القرآن في الصلاة إذا قرأ الإمام، وكان من خلفه ممن يأتمّ به يسمعه، وفي الخطبة
وإنما قلنا ذلك أولى بالصواب، لصحة الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: « إذا قرأ الإمام فأنصتوا » ، وإجماع الجميع على أن [ على ] من سمع خطبة الإمام ممن عليه الجمعة، الاستماعَ والإنصاتَ لها، مع ٹابع الأخبار بالأمر بذلك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه لا وقت يجب على أحد استماع القرآن والإنصات لسامعه، من قارئه، إلا في هاتين الحالتين، على اختلاف في إحداهما، وهي حالة أن يكون خلف إمام مؤتم به. وقد صح الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما ذكرنا من قوله: « إذا قرأ الإمام فانصتوا » فالإنصات خلفه لقراءته واجب على من كان به مؤتمًّا سامعًا قراءته، بعموم ظاهر القرآن والخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
2 = تفسـيرُ البغـوي ، یہ تفسیرامام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله کی ہے آیت مذکوره کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کیئے اورفرمایا کہ بعض نے اس کا شان نزول خطبه اوربعض نے وعظ وتلاوت کہا ہے اس کے بعد امام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله اپنا فیصلہ اس طرح تحریركيا
والأول أولاها وهو أنها في القراءة في الصلاة لأن الآية مكية والجمعة وجبت بالمدينة . واتفقوا على أنه مأمور بالإنصات حالة ما يخطب الإمام
تفسـيرُ البغـوي ، سورة الأعراف
يعنى ان تمام اقوال میں سب سے بہتر وصحیح ترین قول پہلا ہے وه یہ کہ آيـة مبـاركه وإذا قرئ القرآن الخ کا شان نزول صرف نماز ہے اس لیئے کہ یہ آیت مَکہ مُکرمه میں نازل ہوئ ہے اور جمعه مدینه مُنوره میں فرض ہوا ہے ( لہذا خطبه اس کا شان نزول کیسے ہوسکتا ہے) اورعلماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ امام کے خطبه دینے کی حالت میں سننے والے کو خاموش رہنے کا حکم ہے
3 = تفسير ابن كثير ، یہ امام إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي الشافعي رحمه الله کی تفسیر ہے ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
تفسير ابن كثير ، سورة الأعراف
جب الله تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید مومنین کے بصیرت ورحمت وهدایت ہے تو پهر الله تعالی نے اس قرآن کی تعظیم واحترام کا یہ طریقہ بتلایا کہ قرآن کی قراءت کے وقت تم خاموش رہو ، ایسا نہیں جیسا کہ مشرکین وکفار قریش قرآن سنتے وقت شور وغل کرتے تهے ، لیکن احادیث سے تاکید کے ساتهہ خاموش رہنے کا حکم صرف امام کے پیچهے فرض نماز میں اقتداء کرنے والوں کے لیئے معلوم ہوتا ہے ، جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت أبي موسى الأشعري ، رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب امام تکبیر کہے توتم بهی تکبیر کہو اورجب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اسی طرح أهل السنن نے بهی أبي هريرة رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے اورامام مسلم نے اس کی تصحیح کی ہے لیکن اس کو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا الخ
4 = تفسير القرطبي ، یہ تفسیر امام محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالکي رحمه الله کی ہے ، امام القرطبي رحمه الله نے بهی آیت کی تفسیر میں دو قول نقل کیئے ایک نماز اور دوسرا خطبه اورپهر اس دوسرے قول کو بحوالہ ابن العربي رحمه الله ضعیف قراردیا کیونکہ خطبه میں قرآن کم پڑها جاتا ہے اورویسے بهی پورے خطبه میں خاموش رہنا واجب ہے الخ
الأولى : قوله تعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا قيل : إن هذا نزل في الصلاة الخ وقيل : إنها نزلت في الخطبة الخ وهذا ضعيف . لأن القرآن فيها قليل ، والإنصات يجب في جميعها . قاله ابن العربي الخ
الجامع لأحكام القرآن » سورة الأعراف
5 = تفسير البیضاوي ، یہ تفسیر امام عبد الله بن عمر البيضاوي الشيرازي الشافعي رحمه الله کی ہے ، فرماتے ہیں کہ اس آیت کا شان نزول نماز ہے لوگ نماز میں کلام کرتے تهے تواس کے ذریعے ان کو امام کی قراءت کی طرف توجہ کرنے اورخاموش رہنے کا حکم دیا گیا ، آیت کے ظاہری لفظ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جہاں بهی قراءت ہوتی ہو وہاں خاموش رہنا اورتوجہ کے ساتهہ سننا واجب ہے لیکن اکثرعلماء نماز کے باہر خاموش رہنے کو صرف مستحب قرار دیتے ہیں یعنی نماز میں قراءت ہورہی ہوتو پهر تو خاموش رہنا لازمی ہے اورنمازکے علاوه اگرقرآن کی قراءت سنے توخاموش رہنا مستحب ہے
وقال الإمام البيضاوي الشافعي في تفسيره: ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون) نزلت في الصلاة كانوا يتكلمون فيها فأمروا باستماع قراءة الأمام والانصات له، وظاهر اللفظ يقتضي وجوبهما حيث يقرأ القرآن مطلقاً، وعامة العلماء على استحبابهما خارج الصلاة اهـ.


تو ان سب حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت خطبہ کے ساتھ ساتھ نماز کے لئے بھی نازل ہوئی۔


آپ نے کچھ اکابرین کے حوالے دئے جو اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ خطبہ کے بارے میں ہے تو جناب میں انہی اکابرین کے حوالے پیش کرتا ہوں کہ وہ اس روایت کو خطبہ کے ساتھ ساتھ نماز کے لئے بھی تسلیم کرتے ہیں۔

حضرت سعيد بن المسيب تابعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن المثنى قال : حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن رجل ، عن قتادة ، عن سعيد بن المسيب : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة.

تفسير الطبري
حضرت مجاهد رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن وكيع قال : حدثنا جرير وابن إدريس ، عن ليث ، عن مجاهد : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة
تفسير الطبري
حضرت سعید ابن جُبیر رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ
فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا المحاربي ، عن ليث ، عن مجاهد ، وعن حجاج ، عن القاسم بن أبي بزة ، عن مجاهد وعن ابن أبي ليلى ، عن الحكم عن سعيد بن جبير : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة .
تفسير الطبري
حضرت ضحاك رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ آيت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوئ ہے حدثنا المحاربي وأبو خالد ، عن جويبر ، عن الضحاك قال : في الصلاة المكتوبة
تفسير الطبري

حضرت ابراهيم رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ آيت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوئ ہے حدثنا جرير وابن فضيل ، عن مغيرة ، عن إبراهيم قال : في الصلاة المكتوبة

تفسير الطبري

حضرت عامر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ آيت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوئ ہے حدثنا أبي ، عن حريث ، عن عامر قال : في الصلاة المكتوبة

تفسير الطبري

حضرت سدي رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ آيت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوئ ہے حدثني محمد بن الحسين قال : حدثنا أحمد بن المفضل قال : حدثنا أسباط ، عن السدي : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : إذا قرئ في الصلاة

تفسير الطبري
حضرت ابن زيد رحمه الله الله تعالی کے اس فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ کے بارے فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت ہے کہ جب امام نماز کے لیئے کهڑا ہوجائے ، پس پهرتم خاموش رہو اورتوجہ سے سنوحدثني يونس قال : أخبرنا ابن وهب قال : قال ابن زيد ، في قوله : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون ) قال : هذا إذا قام الإمام للصلاة ( فاستمعوا له وأنصتوا ) .
تفسير الطبري

حضرت قتادة رحمه الله سے روایت ہے کہ ایک آدمی آتا اور لوگ نماز میں ہوتے تهے پس وه آدمی ان سے پوچهتا تها کہ تم نے کتنی نمازپڑهہ لی اور کتنی باقی ہے ؟؟ تو الله تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) اور حضرت قتادة رحمه الله کے علاوه دیگر نے کہا کہ وه نماز میں جب جنت اورجهنم کا تذکره سنتے تواپنی آوازوں کو بلند کرتے تهے تو الله تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) اهـ

حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال : حدثنا محمد بن ثور ، عن معمر ، عن قتادة : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : كان الرجل يأتي وهم في الصلاة فيسألهم : كم صليتم ؟ كم بقي ؟ فأنزل الله : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) ، وقال غيره : كانوا يرفعون أصواتهم في الصلاة حين يسمعون ذكر الجنة والنار ، فأنزل الله : ( وإذا قرئ القرآن ) . اهـ
تفسير الطبري
حضرت زهري رحمه الله سے روایت ہے فرمایا کہ نبي صلى الله عليه وسلم قراءت کرتے تهے اور آدمی ( مقتدی ) بهی قراءت کرتا تها ، پس یہ آیت نازل ہوئ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا
حدثنا ابن وكيع قال : حدثنا أبو خالد والمحاربي ، عن أشعث ، عن الزهري قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ ورجل يقرأ ، فنزلت : وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا
تفسير الطبري

حضرت أبي هريرة رضی الله عنه سے روایت ہے فرمایا کہ وه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پیچهے نماز میں آوازوں کواونچا کرتے تهے تو یہ آیت نازل ہوئ ، وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا

حدثني العباس بن الوليد قال : أخبرني أبي قال : سمعت الأوزاعي قال : حدثنا عبد الله بن عامر قال : حدثني زيد بن أسلم ، عن أبيه ، عن أبي هريرة ، عن هذه الآية : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : نزلت في رفع الأصوات وهم خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ، في الصلاة .
تفسير الطبري


میں نے آپ کو اکابرین کے حوالے دئے کہ یہ آیت خطبہ کے ساتھ ساتھ نماز کے لئے بھی ہے۔
@nasirnoman @lovelyalltime @Farhan-Shamsi @sherry2112 @S_ChiragH @Tooba Khan
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

1.gif
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 815 حدیث مرفوع مکررات 15 بدون مکرر
عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمودبن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرات شروع کی مگر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرات کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرات کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
2.gif

صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

View attachment 61379
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi

meray bhai mera poora jawab parh to loo.
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
meray bhai mera poora jawab parh to loo.

ye mie aap se kehna chahta hun k kam az kam doosry bandi ki post perh liya karo phir koi reply kiya karo...
aap ne jo ayat k hawaly diye un ka jawab mie de chuka hun.....
ye to aap ne meri ksi baat ka jawab nien diya balk baar baar wohi ahadees pesh ki jo pehly aap pesh kar chuky ho..
mera sawal ab bhi yehi hay k aap Sahah sitta ki en ahadees ko manty ho ya nien?????????
 
Top