Lovely jab tak mery en sawalat ka jawab nein mily ga mien tumhary aor ksi baat ka jawab nien du ga..................
jo baati abhi tum ne bayan ki wo tum already pehly copy paste kar chuky ho lehaza es ka jawab do.
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ ہے کہ تمہارے پاس جواب نہیں اس لئے بار بار ایک ہی حدیث پیش کئے جا رہے ہو۔
آو ثابت کرو کہ سعودیہ کی جو تفسیر پیش کی ہے وہ ان اہلحدیث مولویوں کا حاشیہ اور ترجمہ نہیں ہے؟
لولی یہ تو تمہاری شروع سے عادت ہے کہ جب بھی کسی بات کا جواب نہ آئے تو احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دو کیونکہ تمہارا دل جو بغض اور حسد میں بھرا ہوا ہے۔
فورم پہ انصاف نہیں ہوتا ورنہ تمہارے ان نام نہاد اہلحدیثوں کا جن کا دفاع تم دوسرے فورم پہ کرتے ہو ایسے حوالے پیش کرتا کہ تم حنفیوں کو بھول جاتے۔
اب بھی جب جواب نہیں آیا تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں تقلید کرنے پہ برا بھلا کہنے والا آج خود مولویوں کے سہارے لے رہا ہے۔
مانا کہ تم صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے مقلد نہیں ہو تو پھر ان کے حوالے کیوں دئیے؟
اور جب حوالہ دیا تو آدھا حوالہ دیا اور نیچے علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ کیوں چھوڑ دیا؟
دھوکہ تو تم دے رہے ہو لوگوں کو کہ مولویوں کی تفسیر اور حاشیہ بیان کر کے کہتے ہو کہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں نے اس آیت کی تفسیر کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ کے حوالے پیش کئے اور تم ان کے مقابلے میں مولویوں کے حوالے پیش کر رہے ہو۔
صحابہ کی تفسیر پہ اعتبار تم خود نہیں کر رہے اور پھر الزام احناف پہ کہ وہ قران اور حدیث کے مخالف ہیں۔
اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے میرے دئیے گئے حوالے پڑھ لیتے لیکن تمہاری آنکھوں پہ تو احناف کے بغض اور حسد کی پٹی چڑھی ہوئی ہے اس لئے میرا حوالہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
اس روایت کو میں نے نہیں بلکہ ان اکابرین نے منفرد کے لئے کہا ہے ذرا حسد اور بغض کی پٹی ہٹا کر پڑھ لینا۔
امام موفق الدینؒ ابن قدامہ الحنبلیؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت کی جو حدیث صحیح ہے تو وہ غیر مقتدی پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی پر محمول ہے ۔(مغنی جلد 1 ص 606 )۔
امام شمس الدینؒ
فرماتے ہیں کہ وہ مقتدی کے علاوہ دوسروں پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی کے حق میں ہے ۔
(شرح مفتح الکبیر جلد 2 ص 12)
اوپر پہلے امام احمد بن حنبل کا قول میں پیش کر چکا ہوں اور سفیان بن عینیہ رح جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود حضرت عبادہ کی روایت کو منفرد کے لئے کہہ رہے ہیں،
یہی بات سبل السلام میں بھی موجود ہے جس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔
امام احمد بن حنبل رح تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
''یہ نبی کریم ﷺ، صحابہ اور تابعین ہیں،اہل حجاز میں امام مالک اور اہل عراق میں امام ثوری ہیں،اہل شام میں امام اوزاعی اور اہل مصر میں امام لیث ہیں،ان میں سے کسی نے ایسے شخص کی نماز کو باطل نہیں کہا جس نے جھری نماز میں امام کی اقتدا کی او رر قرآت نہیں کی''
(مغنی ابن قدامہ، جلد 2 صفحہ262)
اب جھوٹا کہو امام احمد بن حنبل کو، ابن قدامہ رح کو اور سفیان بن عینیہ رح کو کیونکہ تم ان سب کے مقلد نہیں ہو۔
مجھے تو جھوٹا کہہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ذرا ہمت کر کے ان کو بھی جھوٹا کہہ دو تا کہ پتہ چل سکے کہ تم ان کے مقلد نہیں ہو۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
[DOUBLEPOST=1364326513][/DOUBLEPOST]@
nasirnoman
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
صحیح کہا ناصر بھائی، وہ کہتے ہیں نا کہ ”نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے“ بس یہی آپ لولی کے لئے سمجھ لیں کہ کاپی پیسٹ کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے.
مجھے معلوم ہے کہ لولی کی تحقیق زبیر علی زئی، طالب الرحمان، جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کی محتاج ہے.
اصل میں اس کا مقصد صرف احناف کے خلاف کاپی پیسٹ کرنا ہے اس لئے بار بار اختلافی مسائل پہ ہی کاپی پیسٹ کرتا ہے اوردوسرے ممبر کی پوسٹ تو اس نے پڑھنی ہی نہیں ہوتی اور نہ انہوں نے کسی کے سوال کا جواب دینا ہوتا ہے اس لئے بار بار وہی روایات کسی دوسرے فونٹ میں اور کسی دوسرے عالم کی کتاب سے اٹھا کے کاپی پیسٹ کر دیتا ہے جو اس نے پہلے پوسٹ کی ہوتی ہیں.
اب اس ٹاپک کو ہی دیکھ لیں. اس کی پہلی پوسٹ ہی زبیر زئی کی محتاج تھی اور پھر دعوی یہ ہے کہ کسی عالم کی تحقیق کو نہیں مانتے، پھر اس کی جتنی پوسٹ ہیں ان میں وہی روایات مختلف فونٹ اور مختلف کتابوں میں سے اٹھا کے پیش کر دی گئی ہیں.
قران کی آیت کی تشریح میں صحابہ کرام رضی اللہ سے پیش کر رہا ہوں اور لولی صحاب ان کے مقابلے میں جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کے حاشیے پیش کر کے خوش ہو رہے ہیں اور پھر جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا کہ وہ ان کے مقلد نہیں ہیں.
اب میری پوسٹ کے جواب میں پھر وہی روایات دوبارہ ایک نئے فونٹ سے کہیں سے اٹھا کے کاپی پیسٹ کر دی جو پہلے پیش کر چکا ہے اور جن کا جواب میں دے چکا ہوں.
اور جب ان کو کاپی پیسٹ کے لئے کچھ نہ ملے تو پھر ان کو یاد آئے گا کہ فقہ حنفی قران اور حدیث کے خلاف ہے اور یہ جناب احناف کے خلاف پوسٹ لگا دیں گے.
اس طرح شاید اس کے دل کو تسلی ملتی ہے کہ اس نے جواب دے دیا ہے.