”ایک تصویرِ رَنگ“
میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
تو جوانی کا کوئی خواب نظر آئی تھی
حُسن کا نغمۂ جاوید ھُوئی تھی معلوم
عشق کا جذبۂ بے تاب نظر آئی تھی
حُسن کا نغمۂ جاوید ھُوئی تھی معلوم
عشق کا جذبۂ بے تاب نظر آئی تھی
اے طرب زار جوانی کی پریشان تتلی !!
تو بھی اِک بُوئے گرفتار ھے ، معلوم نہ تھا
تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے
تو ستمِ خوردۂ اَدبار ھے ، معلوم نہ تھا
تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے
تو ستمِ خوردۂ اَدبار ھے ، معلوم نہ تھا
تیرے نازک سے پروں پر یہ زر و سیم کا بوجھ
تیری پرواز کو آزار نہ ھونے دے گا
تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ھے
وہ تری رُوح کو آباد نہ ھونے دے گا
تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ھے
وہ تری رُوح کو آباد نہ ھونے دے گا
تو نے سرمائے کی چھاؤں میں پنپنے کے لیے
اپنے دل ، اپنی محبت کا لہو بیچا ھے
دن کی تزئینِ فسردہ کا اثاثہ لے کر
شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ھے
دن کی تزئینِ فسردہ کا اثاثہ لے کر
شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ھے
زخم خوردہ ھیں تخیل کی اُڑانیں تیری
تیرے گیتوں میں تری روح کے غم پلتے ھیں
سُرمگیں آنکھوں میں ، یوں حسرتیں لو دیتی ھیں
جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ھیں
سُرمگیں آنکھوں میں ، یوں حسرتیں لو دیتی ھیں
جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ھیں
اس سے کیا فائدہ ؟ رنگین لبادوں کے تلے
رُوح جلتی رھے ، گُھلتی رھے ، پژمردہ رھے
ھونٹ ھنستے ھوں ، دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غمِ زیست سے بوجھل رھے ، آزردہ رھے
ھونٹ ھنستے ھوں ، دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غمِ زیست سے بوجھل رھے ، آزردہ رھے
دل کی تسکن بھی ھے آسائشِ ھستی کی دلیل
زندگی صرف زر و سیم کا پیمانہ نہیں
زیستِ احساس بھی ھے ، شوق بھی ھے ، درد بھی ھے
صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں
زیستِ احساس بھی ھے ، شوق بھی ھے ، درد بھی ھے
صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں
عمر بھر رینگتے رھنے سے کہیں بہتر ھے
ایک لمحہ ، جو تری روح میں وسعت بھر دے
ایک لمحہ ، جو ترے گیت کو شوخی دے دے
ایک لمحہ ، جو تیری لے میں مسرت بھر دے
ایک لمحہ ، جو ترے گیت کو شوخی دے دے
ایک لمحہ ، جو تیری لے میں مسرت بھر دے