انبیاء علیہم السلام کی قبر میں زندگی اور اس سے متعلق روایات کی حقیقت

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913




انبیاء علیہم السلام کی قبر میں زندگی اور اس سے متعلق روایات کی حقیقت

اللہ تعالی نے انسانیت کے لئے دو موتوں اور دو زندگیوں کا جو قانون بیان فرمایا ہے وہ انبیائ علیہ السلام کے لئے بھی پوری طرح نافذ عمل ہے۔ قرآن و حدیث میں انبیائ علیہ السلام کی وفات کا ذکر موجود ہے تو اسی طرح احادیث میں ان کا بعد الوفات جنت میں ہونا بھی ثابت ہے۔ فرقہ پرستی کے شکار مفتیان و علمائے فرقہ جو کہ اس زمینی قبر میں زندگی کا عقیدہ دیتے ہیں اپنے باطل عقیدے کی دلیل میں یہ بات بھی بیان کرتے ہیں کہ انبیائ علیہ ولسلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور عبادات کرتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ واضح طور پر قرآن کا انکار ہے، ملاحظہ فرمائیں


وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15۝ۧ ( مریم : ۱۵ )


’’ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا ، جس دن وہ فوت ہوا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔‘‘



وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا 33؀ ( سورہ مریم: ۳۳ )

’’ اور سلامتی ہو اس دن پر کہ جس دن میں پیدا ہوا ، جس میں مروں گا، اور جس دن میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا ۔‘‘


قرآن مجید سے ثابت ہو گیا کہ انبیائ علیہ السلام کوزندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ قرآن کے اس لاریب کے بیان کے باوجود یہ عقیدہ رکھنا یقیناقرآن کا انکار ہے ۔ لیکن یہ جانتے بوجھتے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے امت میں عقیدہ پھیلایا ہے کہ اولیا اللہ قبروں میں زندہ ہوتے ہین اور لوگوں کی سنتے اور انہیں نوازتے ہیں۔ انہیں زندہ ثابت کرنے کے لئے پہلی جھوٹی روایات کے ذریعے نبی ﷺ کو قبر میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور پھر اس سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر تمام انبیائ کو ان قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

ذیل میں اس بارے میں پیش کی جانے والی روایات کی حقیقت بیان کی جا رہی جن کے ذریعے یہ جھوٹا عقیدہ کشید کیا گیا ہے۔

(1) حدثنا هارون بن عبد الله حدثنا حسين بن علي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أوس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأکثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتکم معروضة علي قال قالوا يا رسول الله وکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت يقولون بليت فقال إن الله عز وجل حرم علی الأرض أجساد الأنبيا

( ابو داوٌد، نسائی ، مسند احمد )

’’ اوس بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تمہارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کی وفات ہوئی اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے اس لئے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیدیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔


اس روایت کے راوی حسین بن علی الجعفی دھوکہ کھا گئے ہیں اور انہوں نے راوی کا نام عبد الرحمن بن یزید بن جابرکے نام سے اسے روایت کیا ہے جو کہ ایک ثقہ راوی ہیں، لیکن دراصل یہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے۔ اما م بخاری فرماتے ہیں

’’ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم السلمی الشامی نے مکحول سے روایت کی ہے اور اس سے سنا الولید بن مسلم نے اس کی روایتوں میں منکر روایات پائی جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس سے اہل کوفہ ابو اسامہ اور حسین بن علی الجعفی اور اس کا نام عبد الرحمن بن یزید بن تمیم کہنے کے بجائے عبد الرحمن بن یزید بن جابر کہہ گئے ہیں۔‘‘

( ترجمہ : صفحہ نمبر ۳۶۵، التاریخ الکبیر ، قم : ۱ ، کلد : ۳ ، منصف امام بخاری )


’’ الولید نے کہا ( عبد الرحمن بن ےزید بن جابر ) کی ایک کتاب تھی جسے انہوں سن کر لکھا تھا اور ایک دوسری کتاب تھی جس کی روایتوں کو انہوں نے خود نہین سنا تھا (اہل کوفہ ابو اسامہ اور حسین بن علی الجعفی ) نے اپنی روایتوں میں عبد الرحمن بن یزید بن جابر کہا ہے حالانکہ جس سے انہوں نے یہ روایتیں سنی ہیں وہ ( عبد الرحمن ) بن یزید بن تمیم تھا عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین تھا۔ اور ابن تمیم والا عبد الرحمن منکر الحدیث ہے ۔‘‘

( صفحہ : ۱۷۵، تاریخ الصغیر ، مطبوعہ الاثریہ، مصنف امام بخاری )


ابو اسامہ ( حماد بن اسامہ ) دیدہ و دانستہ تغافل برتا یہ جانتے ہوئے کہ جس سے وہ روایت کر رہا ہے وہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے ۔

( تہذیب التہذیب ، جلد : ۶ ،صفحہ : ۲۹۵ ۔ ۲۹۶، ترجمہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم )


’’ الذہبی کہتے ہیں کہ بخاری کا قول ہے کہ جس کے بارے میں ، میں یہ کہوں کہ وہ منکر الحدیث ہے تو اس کی روایت بیان کرنا بھی جائز نہیں ۔‘‘

( صفحہ : ۲۱۷، سلسلہ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعۃ ، نا صر الدین البانی )



(2) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا "، قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، قَالَ: " وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ


(ابن ماجہ کتاب الجنائز)

ابوالدرداء اضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے روز بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس روز فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کا درود میرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کے وصال کے بعد بھی ؟ فرمایا موت کے بعد بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام کر دیا پس اللہ کا نبی زندہ ہے اور ان کو روزی دی جاتی ہے ۔‘‘ یہ روایت 'ضعیف' ہے امام بخاری کے مطابق زید بن ایمن کی عبادہ بن نسی سے روایت 'مرسل ' ہے۔ (تاریخ الکبیر2 جلد : ۲ ، صفحہ ۳۸۷،تہہذیب التہذیب جلد : ۳ ، صفحہ ۳۹۸) نیز 'زید بن ایمن 'کا 'عبادہ بن نسی'سے 'سماع'ثابت نہیں (ھو عن عبادہ بن نسی مرسل۔۔مراسیل ابی زرعہ)اور ' عبادہ بن نسی'کا 'ابوالدردا رضی اللہ عنہ'سے 'سماع'ثابت نہیں(واظن روایتہ عن الکبار منقطہ۔۔کاشف الذھبی)البانی نے بھی اس کو 'ضعیف 'قرار دیا ہے۔


(ضعیف ابن ماجہ للبانی)



(3) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُفَضَّلِ الْحَرَّانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ، نَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ يُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ الْحَسَنَ بْنَ قُتَيْبَةَ عَلَى رِوَايَتِهِ



’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انبیائ اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں ‘‘ ۔ ( یہ روایت پیش کرکے امام بزار کہتے ہیں ) : مزید نیچے اما م البزار کا اپنا بیان ہے کہ 'حسن بن قتینہ'کی اس روایت کی متابعت کوئی نہیں کرتا۔ (مسند البزار)ْ اس روایت کا ایک راوی محمد بن عبد الرحمٰن بن المفضل: مجھول الحال ہے۔ دوسری راوی حسن بن قتیبہ پر شدید شدید جرح ہے۔ملاحظہ ہو: ابو الفتح الازدی ::"واهي الحديث"، ابو جعفر العقیلی ::"كثير الوهم"، حاتم الرازی:: "ليس بقوي الحديث ، ضعيف الحديث"، الدارقطنی::"متروك الحديث ، ومرة : ضعيف الحديث" الذھبی::"هالك"

(میزان الاعتدال ، لسان المیزان وغیرہ)


(4) حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، نَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، نَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ. وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ إِلَّا الْحَجَّاجُ، وَلَا عَنِ الْحَجَّاجِ إِلَّا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، وَلا نَعْلَمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ

’’ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انبیائ اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں‘‘ ، ( اس روایت کے بعد اما بزار کہتے ہیں): 'عن ثابت عن انس'سے اسکو 'حجاج'کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا اور 'حجاج'سے 'مستلم بن سعید ' کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا (مسند البزار) اس کے پہلے راوی حسن بن قتیبہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے : ابو الفتح الازدی ::"واهي الحديث"، ابو جعفر العقیلی ::"كثير الوهم"، حاتم الرازی:: "ليس بقوي الحديث ، ضعيف الحديث"، الدارقطنی::"متروك الحديث ، ومرة : ضعيف الحديث" الذھبی::"هالك" (میزان الاعتدال ، لسان المیزان وغیرہ) دوسرے راوی مستلم بن سعید کے لئے ملتا ہے: ابن حجر::قال في التقريب : صدوق عابد ربما وهم, قال شعبہ ما کنت اظن ان ذاک حدیثین

(تقریب،تہذیب)



(5) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ



’’ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انبیائ اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں‘‘

(مسند ابو یعلٰی)


اس روایت کے راوی مستلم بن سعید:: ابن حجر::قال في التقريب : صدوق عابد ربما وهم, قال شعبہ ما کنت اظن ان ذاک حدیثین (تقریب،تہذیب) اس روایت ا دوسراراوی 'حجاج بن اسود '، 'ثابت البنانی ' سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔ذہبی نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل کے طور پر یہ روایت پیش کی ملاحظہ ہو حجاج بن اسود عن ثابت البنانی نکرۃما روی عنہ فیما اعلم سوی مستلم بن سعید ؛فاتی بخنر منکر ، عنہ، عن انس فی "" الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ "


(میزان الاعتدال)



(6) قَالَ أَبُو يَعْلَى: ثنا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بَكِيرٍ، وَقَالَ الْبَزَّارُ: ثنا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، قَالَا: ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " قَالَ الْبَزَّارُ: لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا حَجَّاجٌ، وَلَا عَنْ حَجَّاجٍ إِلَّا الْمُسْتَلِمُ، وَلَا رَوَى الْحَجَّاجُ عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا هَذَا : وَأَخْرَجَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَرَّانِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ الْحَسَنَ بْنَ قُتَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ إِيَّاهُ عَنْ حَمَّادٍ

(المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ لابن الحجر)

اس روایت میں بھی 'حسن قتیبہ 'ہے۔ سند بھی وہی ہے ۔اس کی پوری وضاحت اس سے قبل بزار والی روایت میں کردی گئی ہے۔


(7) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ،
عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ "

(زوائد ابی یعلٰی الموصلی الھیثمی)

یہی راویت اس سے قبل بزار کے حوالے سے بیان کی گئی ہے اور اس کی سند بھی وہی ہے ۔ اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔



(8) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ وَثَاقٍ النَّصِيبِيُّ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ وَثَلاثِ مِائَةٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ الْبَغْدَادِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُدَّانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثنا الْمُسْتَنِيرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ "

(فوائد تمام الرازی)

اس روایت کے راوی ابوالقاسم الحسن بن علی بن وتاق :: "مجھول الحال" ہے۔ احمد بن عبدالرحمٰن الحدانی: "مجھول الحال" حسن بن قتیبہ: اس پر جرح پہلے گزر چکی ہے۔ المستنیر بن سعید:: "مجھول الحال" باقی سند 'حجاج عن ثابت عن انس' سے 'منکر 'روایت ہے ملاحظہ ہو روایت نمبر 4



(9) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلِ الصُّوفِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: أنبأ أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ قَالَ: ثنا قُسْطَنْطِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ "، هَذَا حَدِيثٌ يُعَدُّ فِي إِفْرَادِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ،عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ (حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی) قسطنطین بن عبد اللہ الرومی:: "مجھول الحال"۔ حسن بن قتیبہ::

اس پر جرح پہلے گزر چکی ہے۔ "عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ "سے منکر ہے ۔ تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہے۔



(10) وَهُوَ فِيمَا أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، قَالَ: أنبأ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ، ثنا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ". وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهِ آخَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَوْقُوفًا (حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی) "الثِّقَةُ"،::

یہ صاحب کون ہیں اسکا کوئی پتہ نہیں - " عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ " سےمنکر ہے ۔ملاحظہ ہو روایت نمبر 4۔



(11) وَرُوِيَ كَمَا، أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، ثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَسْنَوِيُّ، إِمْلاءً، ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْحِمْصِيُّ، بِحِمْصَ، ثنا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ قَالَ: " إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لا يُتْرَكُونَ فِي قُبُورِهِمْ بَعْدَ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَلَكِنَّهُمْ يُصَلُّونَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ حَتَّى يُنْفَخَ فِي الصُّورِ ". (حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی) ابو حامد احمد بن علی الحسنوی: الذھبی: ذكره في المغني في الضعفاء ، ابن جوزی: اتهمه بالوضع ابو عبداللہ محمد بن العباس الحمصی: "مجھول الحال"۔ اسماعیل بن طلحہ بن یزید:: "مجھول الحال"۔ محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰٰ: ابو بکر البیہقی: قال في السنن الكبرى : غير قوي في الحديث ، ومرة : لا يحتج به ، وفي معرفة السنن والآثار : لا حجة فيما ينفرد به لسوء حفظه وكثرة خطأه في الروايات ، وقال مرة : كثير الوهم جوزجانی:: واهي الحديث سيئ الحفظ ، ابن عدی:: هو مع سوء حفظه يكتب حديثه ، حاتم الرازی:: محله الصدق ، كان سيئ الحفظ ، شغل بالقضاء فساء حفظه ، لا يتهم بشيء من الكذب إنما ينكر عليه كثرة الخطأ ، يكتب حديثه ولا يحتج به وابن أبي ليلى وحجاج بن أرطاة ما أقربهما ، نسائی:: أحد الفقهاء ليس بالقوي في الحديث ،، البخاری::صدوق ولا أروي عنه شيئا لأنه لا يدرى صحيح حديثه من سقيمه وضعف حديثه جدا،علی بن مدینی:: سيئ الحفظ واهي الحديث


(12) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَحْمُودٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الصَّبَّاحِ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شجاج، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " (اخبار اصبھان لابی نعیم) علی بن محمود بن مالک:: "مجھول الحال"۔ عبد اللہ بن ابراہیم بن صباح:: "مجھول الحال"۔


(13) قَالَ: وَأَنَا تَمَّامٌ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ وتاقٍ النَّصِيبِيُّ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ وَثَلاثِمِائَةٍ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ الْبَغْدَادِيُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَرَّانِيُّ، نَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، نَا مستلم بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ".

(تاریخ دمشق لابن عساکر)

ابوالقاسم الحسن بن علی بن وتاق :: "مجھول الحال" "، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ "سے منکر ہے ۔متفصیل اوپر بیان کردی گئی ہے۔



معراج النبی ﷺ کے موقع پر نبیﷺ کا عیسی علیہ السلام کا قبر میں صلوٰہ ادا کرتے دیکھنا معجزاتی معاملہ تھا، وہ پوری رات ہی معجزے کی رات ہے اور اس ایک ہی رات میں نبی ﷺ نے موسی علیہ السلام و دیگر انبیائ کو آسمانوں پر بھی دیکھا اور بیت المقدس میں انبیائ کی امات بھی کرائی۔ تو اب موسی علیہ السلام کے بیت وقت تین جگہ زندہ ماننا جائے ؟





 

H0mer

Newbie
Dec 25, 2014
46
25
8
bhai ap se aik sawal yeah hai keh rasool ka roza jo masjid ki hadood mian kia yeah jaiz hai
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
bhai ap se aik sawal yeah hai keh rasool ka roza jo masjid ki hadood mian kia yeah jaiz hai

تھریڈ کا ٹاپک انبیاء علیہم السلام کی قبر میں زندگی اور اس سے متعلق روایات کی حقیقت ہے


کیا تھریڈ میں جو کچھ لکھا گیا ہے آپ اس سے متفق ہیں یا نہیں

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
bhai ap se aik sawal yeah hai keh rasool ka roza jo masjid ki hadood mian kia yeah jaiz hai



قبر نبی صلی الله علیہ وسلم مسجد کا اصلا حصہ نہیں ہے بلکہ حجرہ عائشہ میں ہے کہا جاتا ہےاس کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں مسجد کی حدود میں شامل کیا گیا لیکن اس کو مسجد نہیں سمجھا گیا .


 

H0mer

Newbie
Dec 25, 2014
46
25
8

قبر نبی صلی الله علیہ وسلم مسجد کا اصلا حصہ نہیں ہے بلکہ حجرہ عائشہ میں ہے کہا جاتا ہےاس کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں مسجد کی حدود میں شامل کیا گیا لیکن اس کو مسجد نہیں سمجھا گیا .



حضور نے یوں قبرو پر روضے سے مانا کیا ، کیوں کہ ان کا ڈر تھا کہیں لوگ عبادت نہ کرنا شروع کر دیں ، جیسے آج کل ایک سبز ٹوپیوں والوں کا مدنی چنیل دیکھ لو ، آپ اس چیز کو کیا ٹھیک سمجتھے ہیں
 
  • Like
Reactions: lovelyalltime

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



حضور نے یوں قبرو پر روضے سے مانا کیا ، کیوں کہ ان کا ڈر تھا کہیں لوگ عبادت نہ کرنا شروع کر دیں ، جیسے آج کل ایک سبز ٹوپیوں والوں کا مدنی چنیل دیکھ لو ، آپ اس چیز کو کیا ٹھیک سمجتھے ہیں


قبر نبی صلی الله علیہ وسلم مسجد کا اصلا حصہ نہیں ہے بلکہ حجرہ عائشہ میں ہے کہا جاتا ہےاس کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں مسجد کی حدود
میں شامل کیا گیا لیکن اس کو مسجد نہیں سمجھا گیا

آخری صحابی جابر بن عبدالله رضی الله عنہ المتوفی ٧٨ ھ کی وفات اس خلیفہ کے دور سے پہلے ہوئی اندازہ ہے کہ یہ کام ان صحابی کی وفات کے بعد ہی ہوا ہو گااور اس پروجیکٹ میں حجرہ عائشہ کو چھوڑ کر باقی سب حجرات کو گرا دیا گیا
بخاری کی حدیث کے مطابق حجرہ عائشہ رضی الله عنہ کی دیوار گری جس میں ایک قدم قبور مطہرہ سے ظاہر ہوا اور لوگوں پر دہشت طاری ہوئی لیکن معلوم ہوا کہ قدم
نبی صلی الله علیہ وسلم کا نہیں بلکہ عمررضی الله عنہ کا ہے

اس گنبد کو ہٹانا سب سے اہم کام ہے جوقرض ہے دوم حجرہ کو مسجد سے بھی الگ کرنا حق ہے

الله اس بندے کے گناہ بخش دے جس کو یہ سعادت نصیب ہو

آج اپ مسجد النبی کی کوئی تصویر نہیں دیکھتے جس میں اس گنبد کو نہ دکھایا جائے جبکہ یہ الله اور اس کے رسول کی کھلم کھلا مخالفت ہے جو امت نے اپنے سر مول لے رکھی ہے


 

H0mer

Newbie
Dec 25, 2014
46
25
8
بھائی مرے خیال میں شائد لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ بعد میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو جاۓ گی نہیں اور مسجد کو بڑا کرنا پڑے گا ویسے آپ ابی اس چیز کا حدیث کے حساب سے کیا حل تجویز کرتے ہیں آج کے دار میں کیا روضہ رسول وہاں ہی رکھنا ٹھیک ہے
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
(1) حدثنا هارون بن عبد الله حدثنا حسين بن علي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أوس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأکثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتکم معروضة علي قال قالوا يا رسول الله وکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت يقولون بليت فقال إن الله عز وجل حرم علی الأرض أجساد الأنبيا

( ابو داوٌد، نسائی ، مسند احمد )

’’ اوس بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تمہارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کی وفات ہوئی اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے اس لئے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیدیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔


اس روایت کے راوی حسین بن علی الجعفی دھوکہ کھا گئے ہیں اور انہوں نے راوی کا نام عبد الرحمن بن یزید بن جابرکے نام سے اسے روایت کیا ہے جو کہ ایک ثقہ راوی ہیں، لیکن دراصل یہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے۔ اما م بخاری فرماتے ہیں

’’ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم السلمی الشامی نے مکحول سے روایت کی ہے اور اس سے سنا الولید بن مسلم نے اس کی روایتوں میں منکر روایات پائی جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس سے اہل کوفہ ابو اسامہ اور حسین بن علی الجعفی اور اس کا نام عبد الرحمن بن یزید بن تمیم کہنے کے بجائے عبد الرحمن بن یزید بن جابر کہہ گئے ہیں۔‘‘

( ترجمہ : صفحہ نمبر ۳۶۵، التاریخ الکبیر ، قم : ۱ ، کلد : ۳ ، منصف امام بخاری )



’’ الولید نے کہا ( عبد الرحمن بن ےزید بن جابر ) کی ایک کتاب تھی جسے انہوں سن کر لکھا تھا اور ایک دوسری کتاب تھی جس کی روایتوں کو انہوں نے خود نہین سنا تھا (اہل کوفہ ابو اسامہ اور حسین بن علی الجعفی ) نے اپنی روایتوں میں عبد الرحمن بن یزید بن جابر کہا ہے حالانکہ جس سے انہوں نے یہ روایتیں سنی ہیں وہ ( عبد الرحمن ) بن یزید بن تمیم تھا عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین تھا۔ اور ابن تمیم والا عبد الرحمن منکر الحدیث ہے ۔‘‘

( صفحہ : ۱۷۵، تاریخ الصغیر ، مطبوعہ الاثریہ، مصنف امام بخاری )



ابو اسامہ ( حماد بن اسامہ ) دیدہ و دانستہ تغافل برتا یہ جانتے ہوئے کہ جس سے وہ روایت کر رہا ہے وہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے ۔

( تہذیب التہذیب ، جلد : ۶ ،صفحہ : ۲۹۵ ۔ ۲۹۶، ترجمہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم )

یہ روایت بلکل صحیح ہے۔ اس کو امام نوویؒ نے الاذکار،جلد1صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری،جلد6،صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبلؒ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبانؒ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمیؒ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقیؒ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہؒ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے۔
اس کے رجال صحیح ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابرؒ سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابرؒ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔''۔(جلاء الفھام،صفحہ 79،80)۔

تو حیات النبیاء ﷺ پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے۔
hayat ambiya 1.jpg

(2) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا "، قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، قَالَ: " وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ

(ابن ماجہ کتاب الجنائز)

ابوالدرداء اضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے روز بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس روز فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کا درود میرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کے وصال کے بعد بھی ؟ فرمایا موت کے بعد بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام کر دیا پس اللہ کا نبی زندہ ہے اور ان کو روزی دی جاتی ہے ۔‘‘ یہ روایت 'ضعیف' ہے امام بخاری کے مطابق زید بن ایمن کی عبادہ بن نسی سے روایت 'مرسل ' ہے۔ (تاریخ الکبیر2 جلد : ۲ ، صفحہ ۳۸۷،تہہذیب التہذیب جلد : ۳ ، صفحہ ۳۹۸) نیز 'زید بن ایمن 'کا 'عبادہ بن نسی'سے 'سماع'ثابت نہیں (ھو عن عبادہ بن نسی مرسل۔۔مراسیل ابی زرعہ)اور ' عبادہ بن نسی'کا 'ابوالدردا رضی اللہ عنہ'سے 'سماع'ثابت نہیں(واظن روایتہ عن الکبار منقطہ۔۔کاشف الذھبی)البانی نے بھی اس کو 'ضعیف 'قرار دیا ہے۔


حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي - المصدر: المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده
المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔

اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم
آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405۔

hayat anbiya 1.jpg

حافظ ابن حجرؒ نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسیؒ حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں۔(التہذیب التہذیب جلد 5ص113)


(5) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ


’’ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انبیائ اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں‘‘

(مسند ابو یعلٰی)
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔[فتح الباری جلد ۶ ص352]
علامہ سیوطی نے اسے حسن کہا [الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089]
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214]
علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒلکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ [مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180]
علامہ البانی نے اس روایت کو [صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59] میں صحیح ، [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ جید اور [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ قوی فرمایا ہے.
غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث
صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

hayat ambiya 2.jpg

hayat ambiya.jpg

علامہ ذہبیؒ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجرؒ علامہ ذہبیؒ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ''امام احمدؒ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین ان کو ثقہ کہتے ہیں،ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں''۔(لسان المیزان،جلد2صفحہ 175)۔

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
یہ روایت بلکل صحیح ہے۔ اس کو امام نوویؒ نے الاذکار،جلد1صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری،جلد6،صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبلؒ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبانؒ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمیؒ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقیؒ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہؒ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے۔
اس کے رجال صحیح ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابرؒ سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابرؒ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔''۔(جلاء الفھام،صفحہ 79،80)۔

تو حیات النبیاء ﷺ پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے۔
View attachment 94272



حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي - المصدر: المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده
المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔

اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم
آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405۔

View attachment 94273
حافظ ابن حجرؒ نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسیؒ حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں۔(التہذیب التہذیب جلد 5ص113)



حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔[فتح الباری جلد ۶ ص352]
علامہ سیوطی نے اسے حسن کہا [الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089]
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214]
علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒلکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ [مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180]
علامہ البانی نے اس روایت کو [صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59] میں صحیح ، [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ جید اور [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ قوی فرمایا ہے.
غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث
صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

View attachment 94270
View attachment 94271

علامہ ذہبیؒ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجرؒ علامہ ذہبیؒ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ''امام احمدؒ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین ان کو ثقہ کہتے ہیں،ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں''۔(لسان المیزان،جلد2صفحہ 175)۔








  • اس بارے میں حدیث ملا حظہ فرمائیں۔


سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب صلوٰۃ پڑھ لیتے تھے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے کہ تم میں سے کسی نے رات کو خواب دیکھا ہے اگر کوئی شخص خواب دیکھتا تو اسے بیان کرتا آپ ؐ اس کی تعبیر فرماتے جو اللہ کو منظور ہوتا، چنانچہ آپ نے ایک دن ہم سے سوال کیا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارض مقدسہ کی طرف لے گئے وہاں دیکھا کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (ہمارے بعض ساتھیوں نے کہا کہ) لوہے کا ٹکڑا ہے جسے اس (بیٹھے ہوئے آدمی) کے گلپھڑے میں ڈالتا ہے، یہاں تک کہ وہ گدی تک پہنچ جاتا ہے پھر اسی طرح دوسرے گلپھڑے میں داخل کرتا ہے اور پہلا گلپھڑا جڑ جاتا ہے، تو اس کی طرف پھر آتا ہے اور اسی طرح کرتا ہے، میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو۔ ہم آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس پہنچے جو چت لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے سر پر فہر یا ضحرہ (ایک بڑا پتھر) لئے کھڑا تھا۔ جس سے اس کے سر پرمارتاتھا جب اسے مارتا تھا تو پتھر لڑک جاتا تھا۔ اور اس پتھر کو لینے کے لئے وہ آدمی جاتا تو واپس ہونے تک اس کا سر جڑ جاتا اور ویسا ہی ہوجاتا جیسا تھا وہ پھر لوٹ کر اس کو مارتا، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں نے کہا کہ آگے بڑھو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو تنور کی طرح ایک گڑھے تک پہنچے کہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نچلا چوڑا تھا اس کے نیچے آگ روشن تھی جب آگ کی لپٹ اوپر آتی تو وہ لوگ (جو اس کے اندر تھے) اوپر آنے کے قریب ہوجاتے اور جب آگ بجھ جاتی تو دوبارہ پھر اس میں لوٹ جاتے اور اس میں مرد اور ننگی عورتیں تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے چلو۔ ہم آگے بڑھے یہاں کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے اس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے بیچ میں یا جیسا کہ یزید بن ہارون نے اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم سے روایت کیا۔ نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ آدمی جو نہر میں تھا سامنے آتا تو (کنارے والا) آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا اور وہیں لوٹ جاتا جہاں ہوتا میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز شاداب باغیچے کے قریب پہنچے جس میں بڑے بڑے درخت تھے اور اس کی جڑ میں ایک بوڑھا اور چند بچے تھے اور ایک شخص اس درخت کے قریب اپنے سامنے آگ سلگا رہا تھا۔ ان دونوں نے مجھے درخت پر چڑھایا اور ہمیں ایسے گھر میں داخل کیا جس سے بہتر اور عمدہ گھر نہیں دیکھا اور اس میں بوڑھے اور جوان آدمی اور عورتیں اور بچے ہیں پھر مجھے اس سے نکال کرلے گئے اور ایک درخت پر چڑھا دیا اور مجھے ایک گھر میں داخل کیا جو بہتر اور عمدہ تھا۔ وہاں بوڑھوں اور جوانوں کو دیکھا، میں نے پوچھا کہ تم نے مجھے رات بھر گھمایا تو اس کے متعلق بتاؤ جو میں نے دیکھا ان دونوں نے کہا بہتر! وہ آدمی جسے تم نے دیکھا کہ اس کا گلپھڑا چیرا جارہا ہے وہ شخص جھوٹا ہے جو جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور اس سے سن کر لوگ دوسروں سے بیان کرتے تھے یہاں تک کہ جھوٹی بات ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اس کے ساتھ قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا اور جس کا سر پھوڑتے ہوئے تم نے دیکھا وہ شخص تھا جسے اللہ نے قرآن کا علم عطا کیا لیکن اس سے غافل ہو کر رات کو سو رہا اور دن کو اس پر عمل نہ کیا قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا تنور میں جن لوگوں کو تم نے دیکھا وہ زانی تھے اور جنہیں تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھے اور ضعیف جنہیں تم نے درخت کی جڑ میں دیکھا وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور بچے ان کے اردگرد لوگوں کے ہیں اور وہ شخص جو آگ سلگا رہا تھا وہ مالک داروغہ دوزخ تھا اور وہ گھر جس میں تم داخل ہویے عام مومنین کا گھر تھا اور یہ گھر شہداء کا ہے اور میں جبرییل اور یہ میکاییل ہیں اپنا سر اٹھاؤ
میں نے اپنا سر اٹھایا تو اپنے اوپر بادل کی طرح ایک چیز دیکھی ان دونوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے میں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی جگہ میں داخل ہو جاوں ان دونوں نے کہا تمہاری عمر باقی ہے جو پوری نہیں ہوئی جب تم اس عمر کو پورا کرلو گے تو اپنے مقام میں آجاؤ گے۔


اگر کہیں ترجمہ کی غلطی ہو تو بندہ اصلاح کا طلبگار ہے


آپ کچھ سوالات کے جوابات دے دیں تا کہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے - شکریہ



آپ کا پیارا بھائی لولی آل ٹائم




نمبر ١

سب سے پہلے آپ یہ بتا دیں کہ قبر کی تعریف کیا ہے- یھنی قبر کس کو کہتے ہیں


نمبر ٢

آپ دنیاوی زندگی سے کیا مرد لیتے ہیں

نمبر ٣

اوپر میں نے جو حدیث پیش کی ہے اس کے اس حصے کی وضاحت کر دیں

میں نے اپنا سر اٹھایا تو اپنے اوپر بادل کی طرح ایک چیز دیکھی ان دونوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے
میں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی جگہ میں داخل ہو جاوں
ان دونوں نے کہا تمہاری عمر باقی ہے جو پوری نہیں ہوئی جب تم اس عمر کو پورا کرلو گے تو اپنے مقام میں آجاؤ گے۔

کیا حضور صلی الله وسلم کا مقام جو ان کو دکھایا گیا وہ اب اس میں موجود ہیں یا نہیں - اگر وہ اپنے مقام پر موجود ہیں تو ان کی زندگی کون سی ہے - اور کیا ان کی قبر بھی اسی مقام پر ہے جس میں وہ موجود ہیں




 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
یہ روایت بلکل صحیح ہے۔ اس کو امام نوویؒ نے الاذکار،جلد1صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری،جلد6،صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبلؒ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبانؒ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمیؒ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقیؒ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہؒ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے۔
اس کے رجال صحیح ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابرؒ سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابرؒ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔''۔(جلاء الفھام،صفحہ 79،80)۔

تو حیات النبیاء ﷺ پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے۔
View attachment 94272







امام احمد نے اس کو مسند میں بیان کیا ہے صحیح نہیں کہا ہے بیہقی نے بھی روایت کیا لیکن صحیح نہیں کہا اس کو صحیح کہنے والوں میں ابن خزیمہ، ابن حبان ہیں جو چوتھی صدی کے ہیں، نووی چھٹی صدی کے، ابن حجر نویں صدی کے دوسری طرف امام بخاری اور علل الحدیث کے مولف ابن ابی حاتم کے والد امام ابی حاتم ہیں جو تیسری صدی کے ہیں اس حساب سے اس کو ضعیف کہنے والے
محدثین کا نہ صرف حدیث میں علم دوسروں سے زیادہ ہے بلکہ ان کا مقام ان سب سے بلند ہے

دوم اس کے رجال صحیح کے ہیں کس صحیح کے ؟ امام بخاری جنہوں نے صحیح لکھی ہے وہی اس کو رد کر رہے ہیں
اس روایت کا تذکرہ علل کی کتابوں میں ملتا ہے کیونکہ یہ معلول ہے اور کہا جا رہا ہےکہ حسین بن علی نے جان بوجھ کر نام بدلا ہے
لہذا اس کی بعد میں انے والوں کی جانب سے تصحیح نہ صرف ان کی کم علمی ہے بلکہ آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے​


 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

جناب میں نے اس حدیث کی تصحیح ثآبت کی۔ امام بخاریؒ نے کہیں بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا۔۔ انہوں نے تو حسین بن علی جعفی کا ذکر کیا کہ وہ یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روایت بھی یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے مروی ہے۔۔۔۔ علامہ ابن قیمؒ کا حوالہ دیا ہے اور انہوں نے آپ کے اس اعتراض کا بھی جواب دیے دیا۔۔
باقی سینہ پہ ہاتھ بانھدنے ہہ تو ابن خزیمہ کی ضعیف روایت کو بھی آپ صحیح تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہاں ابن خزیمہ کی روایت کا انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں دی۔
آپ کی اطلاع کے لئے علامہ البانی ؒ نے اس کو صحیح سنن ابو داود اور سلسلہ احادیث صحیحیہ میں ذکر کیا ہے۔وہی علامہ البانیؒ جن کے حوالے
آپ اسی مضمون میں دے چکے ہیں چند احادیث کے ضعیف ہونے پہ۔


" أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة ، فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : كيف تعرض)
عليك و قد أرمت ؟ قال : إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ".
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 32 :
رواه أبو إسحاق الحربي في " غريب الحديث " ( 5 / 14 / 2 ) عن حسين بن علي عن
ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس بن أوس مرفوعا .
قلت : و إسناده صحيح ، و قد أعل بما لا يقدح كما بينته في كتابي " صحيح أبي
داود " ( 962 ) و " تخريج المشكاة " ( 1361 ) و " صحيح الترغيب " ( رقم 698 )
و لذلك صححه جمع من المحدثين ، ذكرتهم هناك . و لطرفه الأول شاهد من رواية أبي
رافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود ، الأنصاري مرفوعا به . أخرجه الحاكم ( 2 /
421 ) و قال : " صحيح الإسناد ، فإن أبا رافع هذا هو إسماعيل بن رافع " .
hayat nabi 6.jpg

میں نے یہ لکھا تھا کہ علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح کہا ہے۔۔
امام بہیقیؒ نے اپنی کتاب ''حیات الالنبیاء صفحہ 88 '' میں اس روایت کو حیات انبیاء پہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔
مطلب یہ کہ امام بہیقی اس روایت سے حیات النبیﷺ کی دلیل لے رہے ہیں۔

hayat nabi 5.jpg

آپ کی اطلاع کے لئے امام حاکمؒ نے مستدرک حاکم میں اس کی سند کو بخاری کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن کثیرؒ نے تفسیر ابن کثیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ابن خزیمہ، ابن حبان اور امام نووی نے الاذکار میں اس کو صحیح کہا ہے۔

آپ کے علامہ شمس الحق عظیم آبادی صآحب نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس باب پہ نص ہے۔(عون المعبود،ج1،صفحہ 405)۔
hayat nabi 9.jpg
hayat nabi 7.jpg


اب اتنے محدثین کی تصدیق کے بعد آپ اس کو نہ مانیں تو ضد کا کوئی علاج نہیں ہے۔

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي - المصدر: المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده
المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔

اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم
آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405۔

View attachment 94273
حافظ ابن حجرؒ نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسیؒ حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں۔(التہذیب التہذیب جلد 5ص113)





یہ دوسری مثال ہے کہ ایک روایت جس کو دوسری یا تیسری صدی کے محدثین ضعیف کہتے ہیں لیکن نویں صدی کے ابن حجر اور منذری جید کہتے ہیں- مناوی اور زرقانی بھی ضعیف روایات کی تصحیح کے لئے مشھور ہیں – یہاں بھی ہمارا اصول ہے کہ اس کی تضعیف کرنے والے محدثین کا درجہ تصحیح کرنے والوں سے بلند ہے لہذا نویں صدی والوں کی طرف سے اس کی تصحیح قابل قبول نہیں ہے

دوم جب اس کی سند کو جید کہا جاتا ہے تو یہ صحیح سے کم تر درجہ ہے
سوم اس کو جو لوگ جید کہتے ہیں وہ وہ ہیں جو انبیاء کو قبروں میں زندہ رکھنے کا عقیدہ رکھتے ہیں لہذا ان کو کوئی نہ کوئی دلیل چاہیے اگر امام بخاری کے اصول پر چلا جائے تو اس مسئلہ میں ایک بھی صحیح روایت نہیں چناچہ یہ اپنے جیسوں کی تصحیح کی بنیاد پر ایسی روایتوں کو جید کہہ دیتے ہیں

آجکل کے احناف عقیدے میں خبر واحد کو دلیل نہیں مانتے لیکن جہاں اس قسم کی دو نمبر روایات اتی ہیں تو ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں جو نہایت عجیب بات ہے گویا عمل میں احتیاط اور عقیدے میں تساہل

یہی حال اہل حدیث کا ہے وہ دیگر روایات میں ایک ثقہ مدلس کی عن سے روایات رد کرتے ہیں ( جو صحیح ہے ) لیکن جہاں اس قسم کی عجوبہ روزگار روایات ہوں ان کو جید کہہ کر عقیدہ بناتے ہیں

اسی لئے ہم لکھنے پر مجبور ہیں کہ یہ لوگ جلیل القدر محدثین کی را ہ سے ہٹے ہوئے اور حق سے دور ہیں

 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
جناب آپ جب مرضی اپنے اصول بنا لیتے ہیں۔۔ اس روایت کو ضعیف قرار دینے کے لئے آپ نے اوپر خود ابن حجرؒ کی تہذیب التہذیب کا حوالہ دیا لیکن اسی جگہ علامہ ابن حجر اس روایت کے تمام راویوں کو ثقہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رجالہ ثقات۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام بخاریؒ کا قول ہے کہ زید بن ایمن عبادہ بن نسی سے مرسل روایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ابن حجر نے رجال کو ثقات کہا ہے۔
اگر روایت مرسل بھی ہے تو یہ اوس رضی اللہ عنہ کی روایت کا شاھد ہے۔
آپ نے لکھا کہ البانیؒ نےا س کو ضعیف کہا لیکن حوالہ نہیں دیا اور وہی البانی اوپر اوس رضی اللہ والی روایت کو صحیح قرار دہتے ہیں جس کو آپ تسلیم نہیں کرتے۔۔

ویسے تو آپ البانی، شوکانی وغیئرہ کی تحقیق کے ہی محتاج ہیں لیکن جب وہ آپ کے مسلک کے مخالف روایت کو صحیح کہہ دیں تب وہ باطل ہو جاتے ہیں اور آپ ٹھیک۔۔
کیا کہنے آپ کے اصولوں کے۔۔

حدیث کی صحت آپ کتے سامنے پیش کر دی۔۔۔۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
جناب آپ جب مرضی اپنے اصول بنا لیتے ہیں۔۔ اس روایت کو ضعیف قرار دینے کے لئے آپ نے اوپر خود ابن حجرؒ کی تہذیب التہذیب کا حوالہ دیا لیکن اسی جگہ علامہ ابن حجر اس روایت کے تمام راویوں کو ثقہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رجالہ ثقات۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام بخاریؒ کا قول ہے کہ زید بن ایمن عبادہ بن نسی سے مرسل روایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ابن حجر نے رجال کو ثقات کہا ہے۔
اگر روایت مرسل بھی ہے تو یہ اوس رضی اللہ عنہ کی روایت کا شاھد ہے۔
آپ نے لکھا کہ البانیؒ نےا س کو ضعیف کہا لیکن حوالہ نہیں دیا اور وہی البانی اوپر اوس رضی اللہ والی روایت کو صحیح قرار دہتے ہیں جس کو آپ تسلیم نہیں کرتے۔۔

ویسے تو آپ البانی، شوکانی وغیئرہ کی تحقیق کے ہی محتاج ہیں لیکن جب وہ آپ کے مسلک کے مخالف روایت کو صحیح کہہ دیں تب وہ باطل ہو جاتے ہیں اور آپ ٹھیک۔۔
کیا کہنے آپ کے اصولوں کے۔۔

حدیث کی صحت آپ کتے سامنے پیش کر دی۔۔۔۔






راوی غیر واضح ہے اس کا ہر سند میں صرف پہلا نام حجاج لکھا ہے اب اس کی مستلم بن سعید سے یا ثابت البنانی سے ملاقات تھی یا نہیں کیسے ثابت ہو گا اگر دو راوی ثقہ ہوں اور انہوں نے ایک دوسرے کا زمانہ بھی پایا ہو تو علم حدیث کے حساب سے اس کی سند ہمیشہ جڑی نہیں ہوتی

اس روایت میں حجاج مجھول ہے الذھبی کے مطابق روایت منکر ہے یعنی صحیح حدیث کے خلاف ہے
جو اس کو غیر مجھول کہتے ہیں ان کے مطابق حجاج بن ابی زیاد یا حجاج بن الاسود یا حجاج الصواف ہیں یہ تمام لوگ الگ الگ ہیں اس میں سے حتمی طور پر کون سا ہے اس کی کوئی خارجی دلیل نہیں
جو لوگ راویوں کو ثقہ کہتے ہیں ان کو اس کی سند کا تسلسل بھی ثابت کرنا ہو گا جو نہیں ہے اسی وجہ سے سندا کمزور ہے​

متن کے حساب سے بھی یہ صحیح نہیں انبیاء کی نماز قبر میں قبول نہیں ہوں گی کیونکہ اب شریعت محمدی کے مطابق قبر میں نماز نہیں ہے صحیح بخاری حدیث ہے

اپنے گھروں میں نماز پڑھو ان کو قبریں نہ بناو


دوسری روایت ابن ماجہ کی ہے اس میں دو جگہ انقطاع ہے
عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، میں کیونکہ عبادہ کا سماع ابی الدرداء سے نہیں

دوم زید بن ایمن کا عبادہ سے سماع نہیں

ابن حجر کے ثقہ کہنے سے روایت صحیح نہیں ہوئی کیونکہ کہ صحیح کی تعریف ہے کہ ثقہ ثقہ سے بغیر انقطاع کے روایت کرے جس میں شاذ بات نہ ہو​

ہاں یہ اوس رضی الله عنہ سے منسوب روایت کی شاہد ہے لیکن جب دونوں ہی ضعیف ہیں تو عقیدے میں پیش نہیں کی جا سکتیں- یہ کوئی فضائل یا زہد کا معاملہ نہیں جن میں اس قسم کا تساہل برتا گیا ہے جو ویسے بھی صحیح نہیں ہے

البانی رحم الله کی تصحیح و تضعیف سے اب کیا سروکار رہ جاتا ہے





 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

جناب ضد کا کوئی علاج نہیں۔ اتنے محدثین کی تصریح کے بعد بھی آپ صرف علامہ ذہبیؒ کے قول کی بناء پر اس روایت کو مستند کر رہے ہیں۔

علامہ البانیؒ نے سلسلہ صحیحیہ میں یہ روایت بیان کر کے اس کا مکمل جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام ذہبیؒ کا وھم ہے اور حافظ ابن حجرؒ نے علامہ ذہبیؒ کے قول کو بیان کر کے اس کا رد کیا ہے اور کہا ہےکہ امام احمدؒ اور امام معین نے حجاج بن زیاد الاسود کو ثقہ کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے۔

اب یہ دیکھو کہ کن کن محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے۔


أخرجه البيهقي في حياة الأنبياء في قبورهم [ص /23 طبعة مكتبة الإيمان]، من طريق أبي يعلى به.
bayhaqi.jpg


قال الهيثمي في المجمع [8/ 386 ] : « رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبو يعلى ثقات » .

hayat nabi 10.jpg


وقبله نقل ابن الملقن في البدر المنير [5/ 285] عن البيهقي أنه قال بعد أن ساق هذا الطريق : « هَذَا إِسْنَاد صَحِيح » ثم قال ابن الملقن : «وَهُوَ كَمَا قَالَ ؛ لِأَن رِجَاله كلهم ثِقَات » .

وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147)

hhhhjj.jpg


ارشاد الحق اثری فی التحقیق مسند ابی یعلی

hayat ambiya 2.jpg
hayat ambiya 2.jpg


ابن حجر عسقلانیؒ فی الفتح الباری

hayat-ul-ambiya.jpg


قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في " المستدرك " ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه " الضعفاء " و لا في ذيله، و الله أعلم . »
قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق....... وكان من الصلحاء » فلله الحمد .

hayat ambiya 0.jpg


علی بن عبداللہ السمہودی فی الوفا الوفا
hayat wafa.png


تمہاری محدث کمیٹی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دے دیا۔

حدیث (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون) کی استنادی حیثیت

اب اتنے محدثین کے حوالوں کے بعد اگر یہ ضعیف ہے تو پھر شاید آپ اکیلے ٹھیک ہیں اور یہ سب محدثین غلط۔


 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
[/QUOTE]
TE="i love sahabah, post: 2825914, member: 8984"]



ارشاد الحق اثری فی التحقیق مسند ابی یعلی

View attachment 94567 View attachment 94567


[/QUOTE]





bahiqai.jpg




أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلِ الصُّوفِيُّ ، رَحِمَهُ اللَّهُ ، قَالَ : أنبأ أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ , قَالَ : ثنا قُسْطَنْطِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ , قَالَ : ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , قَالَ : حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ , ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ , عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ أَنَسٍ , رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " , هَذَا حَدِيثٌ يُعَدُّ فِي إِفْرَادِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيِّ ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ -

(حياة الانبياء ، صفحہ ٣ ، البیہقی ، الطبعة الاول ١٣٤٩ھ)





musnad abi yahla.jpg




بیہقی / مسند ابو يعلى --- احمد بن حسین البیہقی و ابو يعلى الموصلی --- انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلِ الصُّوفِيُّ ، رَحِمَهُ اللَّهُ ، قَالَ : أنبأ أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ , قَالَ : ثنا قُسْطَنْطِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ , قَالَ : ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , قَالَ : حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ , ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ , عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ أَنَسٍ , رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " , هَذَا حَدِيثٌ يُعَدُّ فِي إِفْرَادِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيِّ ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ -

(حياة الانبياء ، صفحہ ٣ ، البیہقی ، الطبعة الاول ١٣٤٩ھ)

حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ، حدثنا : يحيى بن أبي بكر ، حدثنا : المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت البناني ، عن أنس بن مالك قال رسول الله (ص) : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون -

( مسند ابو يعلى الموصلی ، جلد ٦ ، صفحہ ١٤٧ ، مسند انس بن مالک)
ترجمہ : انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں -


پہلی سند جو کہ بیہقی کی ہے اس میں راوی "الحسن بن قتیبہ المدائنی" ہے - جس کو ذہبی کہتے ہیں کہ

هو هالك

ترجمہ : وہ ہلاک کرنے والا ہے -​

(میزان الاعتدال ، جلد ١ ، ١٩٣٣ ، الحسن بن قتيبہ الخزاعى المدائنی ، دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت - لبنان)
عقیلی کہتے ہیں کہ

كثير الوهم

ترجمہ : بہت وہمی ہے

(ایضاً)
دار القتطی اسے "متروك الحديث" کہتے ہیں

(لسان المیزان ، ابن ہجر عسقلانی ، جلد ٢ ، ١٠٣٣ ، الحسن بن قتيبہ الخزاعى المدائنی ، موسسة الاعلمی للمطبوعات - بیروت)
ابو حاتم اسے ضعیف کہتے ہیں

وقال أبو حاتم ضعيف

(ایضاً)
ازدی اسے کہتے ہیں کہ

واهي الحديث​

ترجمہ : بے بنیاد روایتیں بیان کرنے والا

(ایضاً)
ابو یعلی اور بیہقی دونوں کی روایت میں "مستلم بن سعید" اور "حجاج بن الاسود" ہیں - اور اس مستلم بن سعید کے بارے میں ابن ہجر
عسقلانی لکھتے ہیں کہ

ربما وهم "کبھی کبھی وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے"​

(تقریب التہذیب ، ابن ہجر عسقلانی ، ٥٢٧ ، دار الكتب العلمية ، بيروت - لبنان)
قيل لشعبة أن مستلم بن سعيد خالفك في حرف قال ما كنت أظن أن ذاك يحفظ حديثين

شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اس کو دو حدیثیں بھی یاد ہیں

(تہذیب التہذیب ، ابن ہجر عسقلانی ، جلد ١٠ ، ١٩٥ ، مستلم بن سعيد الثقفی الواسطی)
اور "حجاج بن الاسود" کے بارے میں ذہبی اور ابن ہجر لکھتے ہیں کہ

حجاج بن الأسود عن ثابت البناني نكرة ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون

ترجمہ : حجاج بن الاسود ، ثابت البنانی سے منکر روایت نقل کرتے ہیں

(لسان المیزان ، جلد ٢ ، ٧٨٧ ، حجاج بن الاسود / میزان الاعتدال ، جلد ١ ، ١٧٢٧ ، حجاج بن الاسود)


یہ بات لکھ کر ابن ہجر اور ذہبی نے ثبوت کے طور پر یہی روایت پیش کی کہ "انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں







 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

جناب ! آپ نے پھر وہی جرح کاپی پیسٹ کر دی۔۔ کم از کم میری پوسٹ پڑھ تو لیتے۔
سنن الکبریٰ للبہیقی اور مسند ابو یعلیٰ کی روایات 2 ہیں جن کے راوی مختلف ہیں۔ آپ نے جو سکین دئے انہی تمام سکین کے حاشیہ میں تمام حاشیہ نگاروں نے مسند ابو یعلیٰ کی روایت
''حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ، حدثنا : يحيى بن أبي بكر ، حدثنا : المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت البناني ، عن أنس بن مالك قال رسول الله (ص) : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون - '' کو صحیح کہا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

آپ نے جو جرح نقل کی جس میں الحسن بن قتیبہ المدائنی" ہے تو یہ امام بہیقی کی سند ہے جس پہ اعتراض کو سکتا ہے لیکن میرا موقف مسند ابو یعلیٰ کی سند پہ ہے جو کہ بلکل صحیح ہے۔ آپ کے اپنے علماء البانی، ارشاد الحق اثری ، اور محدث فتاوی کی کمیٹی والے اس روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔

آپ نے پھر وہی علامہ ذہبیؒ اور ابن حجر ؒ کا حوالہ دیا جس کا جواب دیا جا چکا ہے۔
علامہ ابن حجر نےجو کہا کہ مستلم بن سعید کو وھم ہو جاتا تھا تو اس سے کب ثابت ہے کہ اس روایت میں بھی وہم ہو گیا۔

ابن حجر عسقلانیؒ تو خود فتح الباری جلد 6 صفحہ 562 پہ مسند ابو یعلیٰ کی روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں اور حجاج بن اسود پہ آپ کیجرح کا رد بھی کر رہے ہیں کہ ابن معین،امام احمد نے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے۔ آپ نے لسان المیزان کا حوالہ دیا تو جناب ادھورا حوالہ دیا۔ لسان المیزان میں تو علامہ ابن حجر امام ذہبی کی جرح نقل کر کے نیچے اس کا رد کر رہے ہیں ۔
اگر ابن حجر کو مستم بن سعید پہ اعتراض ہوتا تو امام ذہبی کی جرح کا رد نہ کرتے اور نہ ہی فتح الباری میں اس کے تمام رجال کو صحیح کہتے۔

fath albari 0.jpg

hajjaj 2.jpg


امام ابن حجر کی اسی جرح کو تو علامہ البانی نے سلسلہ حدیث صحیحیہ میں نقل کر کے اس حدیث پہ اعتراضات کا جواب
دیا ہے۔


قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في " المستدرك " ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في " تلخيصه " : " قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه " الضعفاء " و لا في ذيله، و الله أعلم . »
قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق....... وكان من الصلحاء »
فلله الحمد .


hayat ambiya 0.jpg


اب امام ذہبی کی جرح پہ آتے ہیں تو اس کا جواب تو علامہ البانیؒ نے تفصیل سے دیا کہ علامہ ذہبی کو وھم ہو گیا تھا اور خود حجاج بن الاسود کو علامہ ذہبی نے مستدرک حاکم کی تلخیص جلد 4صفحہ 332 پہ ثقہ قرار دیا ہے۔
سیر اعلام النبلاء میں حجاج بن الاسود کو بصری صدوق قرار دیا اور ساتھ کہا کہ ابن معین نے حجاج کو ثقہ کہا ہے۔(سیر اعلام النبلاء جلد 7 صفحہ 76)۔

تو امام ذہبی کی جرح کا جواب خود ان سے ہی مل گیا کہ ان کے نزدیک بھی حجاج بن الاسود ثقہ ہیں اور صدوق ہیں۔

hajjaj 0.jpg

hayat zehbi.jpg


یہ آپ کی تمام جروحات کا جواب ہے اور سکین کے ساتھ ہے۔ آپ کے اپنے علماء تک مسند ابو یعلیٰ کی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس کے رجال کو صحیح کہتے ہیں۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم





میرے جان سے پیارے بھائی جرح آپ کی نقل کر رہے ہیں اور میں بھی نقل کر رہا ہوں

اپ آپ سے گزارش ہے کہ یہ تحریر پوری پڑھیں اور اس میں جو ڈنڈی ماری گئی ہے پلیز مجھے بتا دیں تا کہ ہم سب کے علم میں اضافہ ہو - شکریہ




أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

البانی اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها میں لکھتے ہیں

فقد أورده الذهبي في ” الميزان ” وقال: ” نكرة، ما روى عنه – فيما أعلم – سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون. رواه البيهقي “. لكن تعقبه الحافظ في ” اللسان “، فقال عقبه: ” وإنما هو حجاج بن أبي زياد الأسود يعرف بزق العسل ” وهو بصري كان ينزل القسامل


پس بے شک اس کو الذهبي میزان میں لے کر آئے ہیں اور کہا ہے منکرہے جو روایت کیا ہے -یہ علم ہوا ہے کہ سوائے مستلم بن سعيد کے کوئی اور اس کو روایت نہیں کرتا ،پس ایک منکر خبر انس سے روایت کرتا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں- اسکو البيهقي نے (بھی ) روایت کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں اس کا تعاقب کیا ہے پس اس روایت کے بعد کہا ہے بے شک یہ حجاج بن أبي زياد الأسود ہے جوزق العسل سے معروف ہے اور بصری ہے


البزاز المتوفى: ھ٢٩٢ کہتے ہیں

حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.


وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.

اور یہ حدیث اس کو ہم نہیں جانتے کہ روایت کیا ہو سوائے الْحَجَّاجُ نے اور اس سے الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے


معلوم ہوا کہ یہ راوی الحَجَّاج الصَّوَّافَ ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود


ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ لَكِنْ وَقَعَ عِنْدَهُ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ وَهُوَ وَهْمٌ وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ

اس کی تخریج الْبَزَّارُ نے کی ہے لیکن اس میں حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ہے جو وہم ہے اور مناسب ہے کہ یہ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ ہے

اگرچہ ابن حجر کے بعد لوگوں نے اس روایت کو حسن ، صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے راوی کی وضاحت نہیں کی کہ کون سا ہے کبھی یہی راوی الْحجَّاج بن الْأسود بن جاتا ہے جیسے طبقات الشافعية الكبرى ، البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبيراور لسان الميزان میں

اس روایت کے دفاع میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی سند میں راوی ججاج بن الاسود کو حماد بن سلمہ حجاج الاسود بولتے تھے

ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ کتاب الثقات میں لکھتے ہیں

حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود من أهل الْبَصْرَة كَانَ ينزل القسامل بهَا يروي عَن أبي نَضرة وَجَابِر بن زيد روى عَنهُ عِيسَى بْن يُونُس وَجَرِير بن حَازِم وَهُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ حَمَّاد بن سَلمَة وَيَقُول حَدثنَا حجاج الْأسود


حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود أهل الْبَصْرَة میں سے ہیں .. ان سے حَمَّاد بن سَلمَة نے روایت کیا ہے اور کہا ہے حَدثنَا حجاج الْأسود

ایک اور راوی حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف کے لئے ابن حبان لکھتے ہیں

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف كنيته أَبُو الصَّلْت مولى التَّوْأَمَة بنت أُميَّة بن خلف وَاسم أبي عُثْمَان ميسرَة وَقد قيل إِن اسْم أبي عُثْمَان سَالم يروي عَن أبي الزبير وَيحيى بن أَبى كثير روى عَنهُ حَمَّاد بْن سَلمَة والبصريون مَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَكَانَ متقنا

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف ان کی کنیت أَبُو الصَّلْت ہے . ان سے حَمَّاد بْن سَلمَة اور بصریوں نے روایت کیا ہے ، سن ١٤٣ ھ میں وفات ہوئی

اول روایت أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون حَمَّاد بن سَلمَة کی سند سے نقل نہیں ہوئی بلکہ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے حجاج سے سنی ہے

دوئم اس کی سند میں ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ہیں اورحَمَّاد بن سَلمَة کی ان سے بہت سی روایات مروی ہیں لیکن یہ والی نہیں

سوم ذھبی اس روایت کو منکر کہتے ہیں یعنی اس روایت کا متن کا صحیح حدیث کے خلاف ہے

اس بحث کا لب لباب ہے کہ ابن حجر کی تصحیح نہ صرف مشکوک ہے بلکہ راوی کی نامکمل تحقیق پر مبنی ہے ابن حجر نے بیہقی کی اس روایت کی تصحیح کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن بیہقی نے جس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس کی سند میں الْحجَّاج بن الْأسود ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود

دوم ابن حجر باربار اس موقف تبدیل کرتے ہیں لسان المیزان میں اس روایت کو منکر کہتے ہیں اور فتح الباری میں صحیح ! جو عجیب بات ہے


اس روایت کی تصحیح کرنے والے حضرات راوی کو ایک دوسرے کی تصحیح کی بنیاد پر صحیح قرار دیتے رہے لیکن افسوس راوی کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں. پہلے یہ تو ثابت ہو کہ یہ کون راوی ہے پھر اس کی صحت و سقم کا سوال ہو گا – لیکن چونکہ یہ واضح نہیں لہذا یہ روایت مجھول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے – کیا ایسی عجوبہ سند والی روایت، جس کا راوی مبہم ہو اس سے عقیدے کا اثبات کیا جائے گا

محب راشدی فتاوی راشدیہ میں لکھتے ہیں






دوسری سند

بیہقی نے کتاب حياة الأنبياء في قبورهم میں اس کو ایک دوسری سند سے بھی پیش کیا ہے

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون


اس کے ایک راوی کے لئے عقیلی کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث


عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب ، أبي المليح سے يحيى کہتے ہیں كوفي ہے ضعيف الحديث ہے


بخاری اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں

ابو نعیم اصبہانی کتاب ضعفاء میں کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي اس ہے مكي بن إبراهيم روایت کرتا ہے جو أبي المليح اورعطاء سے منکر روایات نقل کرتا ہے کوئی چیز نہیں

بیہقی کی سند میں یہی ضعیف راوی ہیں. ایسے منکر الحدیث راویوں سے اس اہم عقیدہ کا اثبات شرم انگیز ہے

افسوس بیہقی نے امت پر بہت ستم ڈھایا ہے

اہل حدیث علماء کا سابقہ موقف


اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں لکھتے ہیں





فتاوی اہل حدیث ج ٥ میں ہے





افسوس آجکل کے اہل حدیث علماء اس سے سارے انبیاء کی دنیا کی قبر میں زندگی ثابت کرتے ہیں اسمعیل سلفی تو اس کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ کسی عقیدہ کی بنیاد اس پر رکھی جائے

معلوم ہوا کہ آجکل کے اہل حدیث اور دیوبندیوں کے عقائد ایک ہو گئے ہیں

فتاوی اہل حدیث ج ٥ ص ٤٢٧ کے مطابق تمام مومن کی روحیں جنت میں ہیں





یہ کیا انصاف ہے انبیاء کو تو دنیا کی قبروں میں رکھا جائے اور ان کے متبعین جنت میں لطف اٹھائیں

موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا


طرفہ تماشہ ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی انبیاء کو قبروں میں زندہ کرنے لےلئے ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں معراج کی رات نماز پڑھتے دیکھا. حالانکہ معراج کی رات الله کی نشانی ہے ایک معجزہ ہے جو ایک عام واقعہ نہیں. اصول یہ ہے کہ معجزہ دلیل نہیں بن سکتا تو اس کو پیش کرنا چہ معنی

بخاری کی حدیث ہے کہ جب ملک الموت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا اگر ان کو پتا ہوتا کہ میں اسی دینا کی قبر میں نماز پڑھتا رہوں گا تو وہ ایسا نہ کرتے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ موسی اور آدم علیھما السلام کا تقدیر کے بارے میں کلام ہوا متقدمین شآرحیں نے اس کو عالم البرزخ میں بتایا ہے اگر موسی قبر میں ہیں تو آدم کی ان سے کیسے ملاقات ہو گئی

اس روایت میں بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کے برعکس صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ

اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا


اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ

اگر قبر میں نماز پڑھی جاتی ہے تو صحیح بخاری کی حدیث کا کیا مفہوم رہ جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول میں تضاد ممکن نہیں لہذا الذهبي کی بات درست ہے کہ روایت انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے






 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913





حدیث میں آتا ہے کہ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کا جھگڑا ہوا کہ موسیٰ نے آدم سے کہا کہ تمہاری وجہ سے جنت سے نکالا - اس بحث میں آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آئے - پوری حدیث اس طرح ہے کہ
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرٍوعَنْ طَاؤٗسٍ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسٰی فَقَالَ لَهٗ مُوسٰی يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ لَهٗ آدَمُ يَا مُوسٰی اصْطَفَاکَ اللہُ بِکَلَامِهٖ وَخَطَّ لَکَ بِيَدِهٖ أَتَلُومُنِي عَلٰی أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللہُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَحَجَّ آدَمُ مُوسٰی فَحَجَّ آدَمُ مُوسٰی ثَلَاثًا قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
علی بن عبد اللہ ، سفیان ، عمرو ، طاؤس ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسٰی علیہما السلام نے بحث کی ، چنانچہ موسی علیہ السلام نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں ، ہمیں آپ نے محروم کیا اور جنت سے نکلوایا ، آدم علیہ السلام نے کہا: اے موسیٰ! تم کو اللہ نے اپنے کلام کے ذریعہ برگزیدہ بنایا اور اپنے ہاتھ سے تمہاے لئے لکھا ، تم مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہو جو اللہ نے میری تقدیر میں میری پیدائش سے چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ، چنانچہ آدم علیہ السلام موسی علیہ السلام پر اس بحث میں غالب رہے ، یہ تین بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ، سفیان نے بواسطہ ابوالزناد ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کے مثل نقل کیا

(صحیح بخاری ، کتاب القدر ، باب: اللہ کے پاس آدم و موسیٰ علیہما السلام کے مباحثہ کا بیان)

اگر ترجمہ کی غلطی ہو تو بندہ اصلاح کا طلبگار ہے
اب سوال پیدا ہوا کہ یہ مکالمہ کہاں ہوا؟
کیا وہ ایک دوسرے کی قبر میں ملے - اور پھر ایک کی قبر کہاں تو دوسرے کی قبر کہاں




 
Last edited:
Top