انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں


البانی اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها میں لکھتے ہیں

فقد أورده الذهبي في ” الميزان ” وقال: ” نكرة، ما روى عنه – فيما أعلم – سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون. رواه البيهقي “. لكن تعقبه الحافظ في ” اللسان “، فقال عقبه: ” وإنما هو حجاج بن أبي زياد الأسود يعرف بزق العسل ” وهو بصري كان ينزل القسامل


پس بے شک اس کو الذهبي میزان میں لے کر آئے ہیں اور کہا ہے منکرہے جو روایت کیا ہے جو علم ہوا ہے کہ سوائے مستلم بن سعيد کے کوئی روایت نہیں کرتا ،پس ایک منکر خبر انس سے روایت کرتا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اسکو البيهقي نے روایت کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں اس کا تعاقب کیا ہے پس اس روایت کے بعد کہا ہے بے شک یہ حجاج بن أبي زياد الأسود ہے جوزق العسل سے معروف ہے اور بصری ہے


ابن حجر سے بہت پہلے البزاز المتوفى: ھ٢٩٢ کہتے ہیں

حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.


اور یہ حدیث اس کو ہم نہیں جانتے کہ روایت کیا ہو سوائے الْحَجَّاجُ نے اور اس سے الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے


معلوم ہوا کہ یہ راوی الحَجَّاج الصَّوَّافَ ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود.

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ لَكِنْ وَقَعَ عِنْدَهُ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ وَهُوَ وَهْمٌ وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ


اس کی تخریج الْبَزَّارُ نے کی ہے لیکن اس میں حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ہے جو وہم ہے اور مناسب ہے کہ یہ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ ہے


اگرچہ ابن حجر کے بعد لوگوں نے اس روایت کو حسن ، صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے راوی کی وضاحت نہیں کی کہ کون سا ہے کبھی یہی راوی الْحجَّاج بن الْأسود بن جاتا ہے جیسے طبقات الشافعية الكبرى ، البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبيراور لسان الميزان میں

اس روایت کے دفاع میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی سند میں راوی ججاج بن الاسود کو حماد بن سلمہ حجاج الاسود بولتے تھے

ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ کتاب الثقات میں لکھتے ہیں

حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود من أهل الْبَصْرَة كَانَ ينزل القسامل بهَا يروي عَن أبي نَضرة وَجَابِر بن زيد روى عَنهُ عِيسَى بْن يُونُس وَجَرِير بن حَازِم وَهُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ حَمَّاد بن سَلمَة وَيَقُول حَدثنَا حجاج الْأسود


حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود أهل الْبَصْرَة میں سے ہیں .. ان سے حَمَّاد بن سَلمَة نے روایت کیا ہے اور کہا ہے حَدثنَا حجاج الْأسود


ایک اور راوی حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف کے لئے ابن حبان لکھتے ہیں

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف كنيته أَبُو الصَّلْت مولى التَّوْأَمَة بنت أُميَّة بن خلف وَاسم أبي عُثْمَان ميسرَة وَقد قيل إِن اسْم أبي عُثْمَان سَالم يروي عَن أبي الزبير وَيحيى بن أَبى كثير روى عَنهُ حَمَّاد بْن سَلمَة والبصريون مَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَكَانَ متقنا


حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف ان کی کنیت أَبُو الصَّلْت ہے . ان سے حَمَّاد بْن سَلمَة اور بصریوں نے روایت کیا ہے ، سن ١٤٣ ھ میں وفات ہوئی


اول روایت أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون حَمَّاد بن سَلمَة کی سند سے نقل نہیں ہوئی بلکہ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے حجاج سے سنی ہے

دوئم اس کی سند میں ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ہیں اورحَمَّاد بن سَلمَة کی ان سے بہت سی روایات مروی ہیں لیکن یہ والی نہیں

سوم ذھبی اس روایت کو منکر کہتے ہیں یعنی اس روایت کا متن کا صحیح حدیث کے خلاف ہے

اس بحث کا لب لباب ہے کہ ابن حجر کی تصحیح نہ صرف مشکوک ہے بلکہ راوی کی نامکمل تحقیق پر مبنی ہے ابن حجر نے بیہقی کی اس روایت کی تصحیح کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن بیہقی نے جس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس کی سند میں الْحجَّاج بن الْأسود ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود. یہ تمام حضرات راوی کو ایک دوسرے کی تصحیح کی بنیاد پر صحیح قرار دیتے رہے لیکن افسوس راوی کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں. کیا ایسی عجوبہ سند والی روایت، جس کا راوی مبہم ہو اس سے عقیدے کا اثبات کیا جائے گا


محب راشدی فتاوی راشدیہ میں لکھتے ہیں





دوسری سند

بیہقی نے کتاب حياة الأنبياء في قبورهم میں اس کو ایک دوسری سند سے بھی پیش کیا ہے

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون


اس کے ایک راوی کے لئے عقیلی کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث


عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب ، أبي المليح سے يحيى کہتے ہیں كوفي ہے ضعيف الحديث ہے


بخاری اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں

ابو نعیم اصبہانی کتاب ضعفاء میں کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ


عبيد الله بن أبي حميد الهذلي اس ہے مكي بن إبراهيم روایت کرتا ہے جو أبي المليح اورعطاء سے منکر روایات نقل کرتا ہے کوئی چیز نہیں


بیہقی کی سند میں یہی ضعیف راوی ہیں. ایسے منکر الحدیث راویوں سے اس اہم عقیدہ کا اثبات شرم انگیز ہے

افسوس بیہقی نے امت پر بہت ستم ڈھایا ہے


اہل حدیث علماء کا سابقہ موقف


اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں لکھتے ہیں






فتاوی اہل حدیث ج ٥ میں ہے






افسوس آجکل کے علماء اس سے سارے انبیاء کی دنیا کی قبر میں زندگی ثابت کرتے ہیں اسمعیل سلفی تو اس کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ کسی عقیدہ کی بنیاد اس پر رکھی جائے



فتاوی اہل حدیث ج ٥ ص ٤٢٧ کے مطابق تمام مومن کی روحیں جنت میں ہیں






یہ کیا انصاف ہے انبیاء کو تو دنیا کی قبروں میں رکھا جائے اور ان کے متبعین جنت میں لطف اٹھائیں
موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا

طرفہ تماشہ ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی انبیاء کو قبروں میں زندہ کرنے لےلئے ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں معراج کی رات نماز پڑھتے دیکھا. حالانکہ معراج کی رات الله کی نشانی ہے ایک معجزہ ہے جو ایک عام واقعہ نہیں. اصول یہ ہے کہ معجزہ دلیل نہیں بن سکتا تو اس کو پیش کرنا چہ معنی

بخاری کی حدیث ہے کہ جب ملک الموت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا اگر ان کو پتا ہوتا کہ میں اسی دینا کی قبر میں نماز پڑھتا رہوں گا تو وہ ایسا نہ کرتے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ موسی اور آدم علیھما السلام کا تقدیر کے بارے میں کلام ہوا متقدمین شآرحیں نے اس کو عالم البرزخ میں بتایا ہے اگر موسی قبر میں ہیں تو آدم کی ان سے کیسے ملاقات ہو گئی

اس روایت میں بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کے برعکس صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ

اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا


اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ

اگر قبر میں نماز پڑھی جاتی ہے تو صحیح بخاری کی حدیث کا کیا مفہوم رہ جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول میں تضاد ممکن نہیں لہذا الذهبي کی بات درست ہے کہ روایت انبیاءاپنی -قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے

 
  • Like
Reactions: Fahad_
Top