دیکھئے اگر آپ لوگ فرقہ واریت کے ذیر اثر اس کی طرفداری کررہے تو الگ بات ھے- میں فرقہ واریت کو نا پسند کرتا ہوں اور اس کے مباحث کو بھی-
دعوت کا کام اللہ اور اس کے رسول کی متعین کردہ راہ پر ہونا چاہئے-
دعوت کے معنی دوسرے کو اپنی طرف بلانا ہوتا ہے- اس کے لئے کسی اشتراک کی ضرورت ہوتی ہے- لیکن وہ اشتراک ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کی دعوت کو متاثر کردے- انبیاء کرام برادرانہ تعلق کو جتلا کر اشتراک پیدا کرتے تھے- حضرت محمّدصلی اللہ علیہ و سلم نے ہرقل کو ایمان کی دعوت اس عنوان سے دی تھی-
" اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف جلدی سے آجاؤ‘ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے‘ یعنی ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے"- سورۃ آل عمران
اس میں نقطہء مشترکہ عقیدہءتوحید کا ذکر کیا گیا ہے- تعلیمات رسول اللہ حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دھیان دیجئے- آپ کو ہر تعلیم میں اسی طرح کے آداب اور اصول ملیں گے- داعی کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرف دھیان دینا چاہئے- اگر آپ نقطہءمشترکہ دینا چاہتے ہیں امر بالمعروف میں سے دیں‘ منکر میں سے نہ دیں- اگر آپ کسی منکر سے کہتے ہیں کہ تمہارا عقیدہ ہمارے کلمہ کے ایک حصۃ سے مشترکہ تو غلط ہو گا کیونکہ ہمارا کلمہ انکار خدا کی طرف نہیں ہے- وہ توحید ہے وہ اللہ کی طرف بلاتا ہے- وہ کسی طرح بھی ایک منکر سے نقطہءاشتراک نہیں ہے-
اگر منکر حق سے اشتراک جتلانا ہے تو انسانی برادری کے سے حوالے کر سکتے ہیں- اس لئے قرآن پاک میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا عنوان اکثر "یا یٰقوم" کے اشتراک سے شروع کیا جاتا ہے-
آج کے دور میں منکر حق یعنی ایتھسٹ کون ہیں- یہ لوگ سیکولر کمیونسٹ اور اسی طرح کے ناموں سے جانے جاتے ہیں- ان سے یہ کہنا کہ ہمارا کلمہ بھی تمہاری طرح آدھا سیکولر ہے ایک مضحکہ خیز بات ہوگی- وہ آپ کے کلمہ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں-
مفتی سعید صاحب آپ "ذ" کا مقابلہ دوسرے علمائے کرام سے اس تحقیرانہ انداز سے نہ کیجئے- آپ "ذ" کو ان سے زیادہ ایجوکٹڈ کس بنا پر قرار دے رہے ہیں- وہ تو صحیح تجوید سے قرآن بھی نہیں پڑھ سکتا ہے- "ذ" کا اسٹائل ہی مجادلہ اور مباحثہ ہے جو کہ اسلام میں ناپسندیدہ ہے- مگر آپ تو اس سے اجتناب کیجئے کیونکہ جتنا آپ نے پڑھا ہے اتنا اس نے نہیں سیکھا ہے- یہاں میں ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک صحیح حدیث حضرت محمّدصلی اللہ علیہ و سلم بیان کرتا ہوں-
" علم دین کو اس غرض سے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعے دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر و عزت حاصل کرو یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرو یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرلو اور جو ایسا کرے گا وہ آگ میں ہے"
اللہ ہم سب کو جھگڑے اور مجادلہ سے بچائے- ایک داعی کے لئے ائمہ فقہاء اور اہل حق کا مسلک ہی بہتر ہے-
دعوت کا کام اللہ اور اس کے رسول کی متعین کردہ راہ پر ہونا چاہئے-
دعوت کے معنی دوسرے کو اپنی طرف بلانا ہوتا ہے- اس کے لئے کسی اشتراک کی ضرورت ہوتی ہے- لیکن وہ اشتراک ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کی دعوت کو متاثر کردے- انبیاء کرام برادرانہ تعلق کو جتلا کر اشتراک پیدا کرتے تھے- حضرت محمّدصلی اللہ علیہ و سلم نے ہرقل کو ایمان کی دعوت اس عنوان سے دی تھی-
" اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف جلدی سے آجاؤ‘ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے‘ یعنی ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے"- سورۃ آل عمران
اس میں نقطہء مشترکہ عقیدہءتوحید کا ذکر کیا گیا ہے- تعلیمات رسول اللہ حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دھیان دیجئے- آپ کو ہر تعلیم میں اسی طرح کے آداب اور اصول ملیں گے- داعی کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرف دھیان دینا چاہئے- اگر آپ نقطہءمشترکہ دینا چاہتے ہیں امر بالمعروف میں سے دیں‘ منکر میں سے نہ دیں- اگر آپ کسی منکر سے کہتے ہیں کہ تمہارا عقیدہ ہمارے کلمہ کے ایک حصۃ سے مشترکہ تو غلط ہو گا کیونکہ ہمارا کلمہ انکار خدا کی طرف نہیں ہے- وہ توحید ہے وہ اللہ کی طرف بلاتا ہے- وہ کسی طرح بھی ایک منکر سے نقطہءاشتراک نہیں ہے-
اگر منکر حق سے اشتراک جتلانا ہے تو انسانی برادری کے سے حوالے کر سکتے ہیں- اس لئے قرآن پاک میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا عنوان اکثر "یا یٰقوم" کے اشتراک سے شروع کیا جاتا ہے-
آج کے دور میں منکر حق یعنی ایتھسٹ کون ہیں- یہ لوگ سیکولر کمیونسٹ اور اسی طرح کے ناموں سے جانے جاتے ہیں- ان سے یہ کہنا کہ ہمارا کلمہ بھی تمہاری طرح آدھا سیکولر ہے ایک مضحکہ خیز بات ہوگی- وہ آپ کے کلمہ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں-
مفتی سعید صاحب آپ "ذ" کا مقابلہ دوسرے علمائے کرام سے اس تحقیرانہ انداز سے نہ کیجئے- آپ "ذ" کو ان سے زیادہ ایجوکٹڈ کس بنا پر قرار دے رہے ہیں- وہ تو صحیح تجوید سے قرآن بھی نہیں پڑھ سکتا ہے- "ذ" کا اسٹائل ہی مجادلہ اور مباحثہ ہے جو کہ اسلام میں ناپسندیدہ ہے- مگر آپ تو اس سے اجتناب کیجئے کیونکہ جتنا آپ نے پڑھا ہے اتنا اس نے نہیں سیکھا ہے- یہاں میں ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک صحیح حدیث حضرت محمّدصلی اللہ علیہ و سلم بیان کرتا ہوں-
" علم دین کو اس غرض سے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعے دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر و عزت حاصل کرو یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرو یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرلو اور جو ایسا کرے گا وہ آگ میں ہے"
اللہ ہم سب کو جھگڑے اور مجادلہ سے بچائے- ایک داعی کے لئے ائمہ فقہاء اور اہل حق کا مسلک ہی بہتر ہے-
Last edited: