Anchal (august 2012)

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
دوسرے سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں تھی۔ طوبیٰ اکثر اس پر بہت رعب جماتی تھی حالانکہ انس سے چار‘ پانچ سال چھوٹی تھی۔ انس بھی اس کی ہر بات مانتا‘ ہر فرمائش پوری کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی یہ دوستی پیار میں بدل گئی تھی۔ طوبیٰ تو انس کو دل و جان سے چاہتی تھی لیکن انس کبھی کبھی بے پروا اور روڈ ہو جاتا تھا۔ وہ ناراض ہوجاتی تو پھر بے چین ہوجاتا اور سو سو بہانے کرکے اسے منایا کرتا۔ اسے دیکھے بنا انس کی صبح ہوتی تھی نا رات۔ صبح صبح طوبیٰ کا چہرہ دیکھ لیتا تو اس کا سارا دن خوش گوار گزرتا اور جس صبح وہ اسے ٹیرس پر نظر نہ آتی وہ سارا دن منہ پھلائے رہتا۔
طوبیٰ کو بڑا ناز تھا انس کی محبت پر۔ بہت مان تھا اس کے اپنے لیے ایسے لطیف جذبات کو محسوس کرکے وہ اس کی سنگت میں ہمیشہ خوش رہتی تھی۔ ان کے بیچ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے تھے لیکن چند گھنٹوں سے زیادہ وہ ایک دوسرے سے ناراض نہیں رہ سکتے تھے۔ دن گزرنے سے پہلے ہی روٹھے کو منانا ان کی محبت اور دوستی کا اصول تھا… مگر اس بار بات کافی بڑھ گئی تھی۔ انس نے جس طرح طوبیٰ کی شرارت پر ردعمل کا اظہار کیا تھا‘ وہ طوبیٰ کے لیے نا صرف یہ کہ حیران کن تھا بلکہ ہتک آمیز بھی تھا لہٰذا وہ پہلی بار انس سے دل سے ناراض ہوئی تھی کیونکہ انس نے اس بار اس کا دل دکھایا تھا۔ اس کی عزتِ نفس مجروح کی تھی۔ وہ بہت روئی تھی انس کے جانے کے بعد اور پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ پورے چوبیس گھنٹے گزر گئے تھے اور ان کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ بات تو دور کی بات ہے ان کا آمنا سامنا بھی نہیں ہوا تھا۔ انس نے کئی بار اپنے کمرے کے سامنے والے گھر یعنی ’’راحیل ولا‘‘ کے ٹیرس پر نگاہ دوڑائی تھی لیکن دیدارِ یار سے خالی لوٹ آئی تھی۔ انس کے اندر بے چینی و بے قراری سرائیت کرگئی تھی۔ وہ بہت اضطراری کیفیت میں تیار ہوکر آفس گیا تھا۔
’’طوبیٰ! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘ صبح کے دس بجے وہ نیند سے بیدار فریش ہوکر ناشتہ کررہی تھی تو طیبہ نے قدرے متفکر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی امی! میں ٹھیک ہوں‘ کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’آج تم دیر تک سوتی رہیں ناں۔‘‘
’’رات دیر تک جاگتی جو رہی تھی۔‘‘
’’ہوں اور انس کی طرف بھی نہیں گئیں‘ نا ہی وہ ادھر آیا۔ بنا تمہیں دیکھے اس کی صبح کیسے ہوگئی؟‘‘ طیبہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’میرے بنا اس کی صبح بھی ہوسکتی ہے اور باقی سب کام بھی وہ میرے بنا بخوبی کرسکتا ہے۔‘‘ طوبیٰ نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
دل کی چوٹ ابھی تک تکلیف دے رہی تھی‘ اس کی آنکھیں گرم پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔
’’اوہ سمجھی تو دونوں میں پھر سے جھگڑا ہوا ہے۔‘‘
’’جی!‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم دونوں کا بچپنا کب ختم ہوگا‘ ہر روز جھگڑے ہوتے ساری زندگی ایک ساتھ کیسے گزارو گے؟‘‘ طیبہ نے فکر مندی سے سوال کیا تو طوبیٰ نے گہری اور سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
’’امی! ضروری تو نہیں ہے کہ ہم ساری زندگی ایک ساتھ گزاریں‘ گزارہ تو کسی کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہاں مگر زندگی بسر کرنا خوشی کے ساتھ جینا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’لگتا ہے اس بار معاملہ کچھ زیادہ ہی گڑبڑہے۔‘‘
’’جی اور اس بار انس کو اتنی آسانی سے معافی نہیں ملے گی اس نے میرا دل دکھایا ہے۔‘‘ طوبیٰ نے جوس کا گھونٹ بھر کر سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’ایسا کیا کردیا اس نے وہ تو بڑا اچھا بچہ ہے۔‘‘
’’وہ بگڑا ہوا بچہ ہے‘ اسے اپنے جذبات و احساسات پر کنٹرول ہے اور نا ہی اپنے غصے اور زبان پر قابو ہے۔ وہ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتا ہے‘ کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے اور امی! کچھ نقصانات ایسے ہوتے ہیں جن کی تلافی عمر بھر نہیں ہوسکتی۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدہ اور دلگیر لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’بات کیا ہے تم صاف صاف کہو نا؟‘‘
’’بات تو آپ اپنے لاڈلے سے خود ہی پوچھ لیجیے گا اگر وہ سچ بولنا پسند کرے تو۔‘‘ طوبیٰ یہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔ طیبہ کے دل میں ہول اٹھنے لگے‘ طرح طرح کے خیالات و وسوسے پریشان کرنے لگے تو وہ سائرہ کی طرف چلی آئیں تاکہ ان سے صورت حال کی نوعیت معلوم کرسکیں۔
انس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے احساس ہورہا تھاکہ اس نے اس بار طوبیٰ کو بہت ہرٹ کیا ہے۔ بہت غلط حرکت کی ہے اس نے۔ اسے بیچ سڑک اتار کے‘ پیسوں پر تو وہ کبھی بھی اتنا ناراض نہیں ہوا تھا‘ غصے میں نہیں آیا تھا بلکہ جب بھی طوبیٰ اس کے پرس سے پیسے نکالتی یا نکلواتی تو وہ خوش ہوتا تھا اس پر خرچ کرکے بس بظاہر اپنے لٹنے‘ کنگال ہونے کی اداکاری کرتا تھا اور طوبیٰ اس کی شکل دیکھ کر ہنسا کرتی تھی۔ پتا نہیں وہ کہاں الجھا ہوا تھا‘ نیند پوری نہیں ہوئی تھی یا کوئی اور مسئلہ اس کی اپنی سمجھ میں بھی اپنا رویہ نہیں آیا تھا۔ اب سوچنے بیٹھا تھا تو سوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔
آج ایک ضروری میٹنگ بھی تھی اور وہ طوبیٰ کے خیالوں میں گم بیٹھا تھا۔ آج اسے دیکھے بنا آفس آگیا تھا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دن نکلا ہی نہیں ہے۔ اس نے کئی بار اپنا موبائل چیک کیا تھا کہ شاید طوبیٰ کا کوئی میسج آیا ہو مگر آج تو اس کا موبائل بھی اداس‘ ویران اور خالی تھا طوبیٰ کے ایس ایم ایس کے بنا۔ ورنہ اب تک کئی گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس اسے موصول ہوچکے ہوتے تھے۔
میٹنگ اور ڈنر کے لیے وہ تیار تھا مگر دماغ الجھا ہوا تھا۔ اس کی سیکریٹری اسے میٹنگ کا یاد دلانے آئی تو وہ بولا۔
’’اوکے آپ چلیں میں آتا ہوں۔‘‘
انس نے لہجے کو رعب دار بناکر مس زبیری سے کہا تو وہ ’’اوکے سر‘‘ کہہ کر اس کے آفس روم سے باہر چلی گئیں۔
اوروہ اپنی تمام تر توجہ میٹنگ کے ایجنڈے پر مرکوز کرتے ہوئے ضروری فائلز لے کر میٹنگ ہال کی جانب بڑھ گیا۔
انس گھر آیا تو اس کی متلاشی نظریں طوبیٰ کو ہی دیکھنا چاہ رہی تھیں مگر طوبیٰ آج ’’رحمان لاج‘‘ آئی ہی نہیں تھی۔ اسے شدید مایوسی ہوئی تھی اسے نہ پاکر وہ اپنے کمرے میں چلا آیا اور سیدھا ٹیرس کی طرف گیا لیکن اسے وہاں بھی طوبیٰ کو نہ پاکر مایوسی ہوئی تھی۔ وہ چینج کرکے ٹیرس پر آگیا۔ سامنے طوبیٰ کے کمرے کی لائٹ آن تھی‘ انس کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ اس نے طوبیٰ کو دیکھنے کی کوشش مگر کھڑکیوں پر پڑے پردے اس کی راہ میں حائل ہوگئے تھے حالانکہ عموماً وہ پردے سوتے وقت برابر کیا کرتی تھی۔ انس نے کچھ دیر ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور ایک بڑا سا کنکر اٹھا کر سامنے طوبیٰ کے کمرے کی کھڑکی پر دے مارا۔ آواز طوبیٰ کے کانوں تک آئی تھی‘ اسے لگا تھا کہ انس آچکا ہے اور ٹیرس پر اس کا منتظر ہے لیکن وہ اس کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی سو لائٹ آف کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی ویسے بھی رات کے سوا گیارہ بج رہے تھے اور خلافِ معمول اسے آج نیند بھی ابھی سے آرہی تھی۔ ورنہ وہ بارہ‘ ایک بجے تک ہی سونے کے لیے لیٹتی تھی۔ انس کو اس کے لائٹ آف کرنے پر شدید تائو آیا تھا۔
’’ہونہہ! نہیں بات کرنا چاہتی تو نہ کرے میں بھی کوئی مرا نہیں جارہا اس سے بات کرنے کو۔‘‘ انس نے بآواز غصیلے لہجے میں کہا اور واپس کمرے میں آگیا۔
’’مرنے نہیں جارہے تو بار بار موبائل کیوں چیک کرتے رہے؟ اس کے کمرے کی کھڑکی پر کنکر کیوں مارا؟ تمہاری آنکھیں کیوں صبح سے طوبیٰ کو تلاش کررہی ہیں؟ دل کام میں کیوں نہیں لگا؟ انس کے اندر سے سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی۔
’’ظاہر ہے اس کی عادت جو ہوگئی ہے مجھے۔‘‘ انس نے صفائی پیش کی تو دل سے آواز آئی۔
’’عادت ہوگئی ہے یا محبت ہوگئی ہے اس سے جو اس کی ناراضی برداشت نہیں ہورہی؟‘‘
’’محبت‘ ہاہاہا! محبت تو طوبیٰ راحیل مجھ سے کرتی ہے اور یہ محبت اسے مجھ سے زیادہ دن ناراض نہیں رہنے دے گی‘ دیکھنا وہ کل میرے سامنے موجود ہو گی۔‘‘ انس نے خوش فہم انداز میں سوچتے ہوئے آنکھیں بند کی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی دلفریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔ طوبیٰ کا دیدار اسے دوسرے دن بھی نصیب نہیں ہوا تھا تو وہ باقاعدہ تلملا اٹھا تھا۔
’’سمجھتی کیا ہے خود کو میں اس کے بغیر مرجائوں گا۔‘‘
’’طوبیٰ کو تمہارے متعلق اب کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں رہی۔ وہ سمجھ دار ہے تمہارے غیر ذمے دارانہ رویئے نے اسے بہت کچھ سمجھادیا ہے۔ اگر معافی مانگنے اور غلطی تسلیم کرنے کا ظرف رکھتے ہو تو جائو‘ جاکر طوبیٰ سے معافی مانگو۔‘‘ سائرہ نے اس کی بات سن کر کہا تو وہ بے چین ہوکر بولا۔
’’وہ سامنے آئے تب نا وہ تو پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئی ہے۔‘‘
’’تو تم اسے فون کیوں نہیں کرلیتے‘ معافی مانگتے ہوئے شرم آتی ہے تو میسج کردو۔ ویسے بھی تو ہر وقت تم دونوں ایس ایم ایس کرتے رہتے ہو۔‘‘ سائرہ نے اسے راہ دکھاتے ہوئے جتایا بھی۔
’’دو دن سے ایس ایم ایس بھی نہیں کررہے ہم۔‘‘
’’تو اب کرلو‘ اگر صلح کرنی ہے اس سے۔‘‘
’’کرتا ہوں۔‘‘ انس نے بے بسی سے کہا تو اس کے چہرے پر پھیلی بے بسی دیکھ کر سائرہ نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ انس لاکھ طوبیٰ سے بے پروا سہی مگر دل میں وہ اس سے پیار کرتا ہے۔ جبھی تو اس کے نظر نہ آنے پر بوکھلایا بوکھلایا پھررہا تھا۔
…٭٭٭…​
’’طوبیٰ بیٹا! ختم کرو ناراضی سائرہ بتارہی تھی کہ انس نے دو دن سے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا۔‘‘ طیبہ نے طوبیٰ کو نرمی سے کہا۔
’’تو کیا ہوا امی! وہ کوئی بچہ تو نہیں ہے بھوک لگے گی تو کھالے گا کھانا‘ اسے ہمیشہ اپنی من مانی کرنے کی عادت ہے کبھی اس نے میری فیلنگز کا خیال نہیں رکھا‘ اس کی ہر بات تو نظر انداز نہیں کی جاسکتی نا۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدگی سے جواب دیا حالانکہ دل انس کو دیکھنے کے لیے مچل رہا تھا۔ اس سے شکوہ کررہا تھا کہ اب تک وہ اسے منانے کیوں نہیں آیا۔
’’ہر وقت تو وہ تمہارے آگے پیچھے پھرتا ہے بے چارہ اور کیا کرے؟‘‘ طیبہ نے آنکھوں دیکھی حقیقت بیان کی تھی۔ یہ بھی سچ تھا۔
’’ہونہہ! مگر رویہ کتنا خراب ہے۔‘‘ طوبیٰ نے کہا اس وقت اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔ طوبیٰ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اسے انس کا ہی خیال آیا تھا کہ ضرور اس نے میسج کیا ہوگا۔ میسج اوپن کیا تو اس کا خیال درست نکلا اس نے ایک نظم بھیجی تھی۔
’’تم خفا کیوں ہو؟‘‘
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
طوبیٰ نے نظم کا پہلا مصرعہ بآواز پڑھ کر طیبہ کو سناتے ہوئے جواباً یہ شعر بھی پڑھ دیا۔
’’اللہ ہی ہدایت دیتا ہے تم دونوں کو۔‘‘ طیبہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا اور اس کی توجہ موبائل کی جانب دیکھ کر مسکرا دیں۔
وہ نظم پڑھنے لگی۔
تم خفا کیوں ہو؟
تمہیں مجھ سے گلہ کیا ہے؟
اچانک بے رخی اتنی
بتائو تو ہوا کیا ہے؟
منائوں کس طرح تم کو؟
مجھے اتنا تو بتلادو
اگر اب ہوسکے تم سے
تو یہ احسان فرمادو
میری منزل محبت ہے
مجھے منزل پہ پہنچادو
تمہاری آنکھ میں آنسو مجھے اچھے نہیں لگتے
تمہارے نرم ہونٹوں پر گلے اچھے نہیں لگتے
تمہارے مسکرانے سے میرا دل مسکراتا ہے
تمہارے روٹھ جانے سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے
’’اب آیا نہ دل ٹھکانے پہ‘ اتنی جلدی تو میں بھی تمہیں معاف کرنے والی نہیں۔ ابھی تم بھی تڑپو جیسے مجھے تڑپایا ہے‘ روئو جیسے مجھے رلایا ہے۔ جب دل سے تم اپنی اس حرکت پر ندامت محسوس نہیں کرو گے معذرت نہیں کرو گے‘ تمہیں معافی نہیں ملے گی۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے دل میں مخاطب کرکے کہا اور اس کے میسج کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد انس کی طرف سے ’’سوری‘‘ کا میسج آیا۔ طوبیٰ نے پڑھ کر ڈیلیٹ کردیا۔ جواب نہیں دیا اور سیل آف کردیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ انس کوئی جواب نہ پاکر اس کے نمبر پر کال ضرور کرے گا اور اگر موبائل بند پائے گا تو مزید بے قرار ہوگا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ انس نے کچھ دیر تو اس کے جواب کا انتظار کیا پھر کال کے ارادے سے نمبر ملایا تو نمبر بند پایا۔
’’اوہ شٹ!‘‘ انس نے غصے میں موبائل بیڈ پر پٹخ دیا اور بے قراری و بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا۔ اتنا پریشان تو طوبیٰ نے اسے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ بے بسی سے مٹھیاں اور لب بھینچنے لگا۔
رات کا آنچل پھیل چکا تھا۔ چاندنی چار سو پھیلی تھی اور فضا میں نیازبُو اور چنبیلی کی خوشبو تحلیل ہوکر ماحول کو بہت خوابناک بنا رہی تھی۔ انس کی بے چینی و بے قرار ایسے میں اپنے جوبن پر تھی۔ طوبیٰ کی ناراضی نے اسے کانٹوں کے بستر پر لاپھینکا تھا۔ اس نے ٹیرس کی جانب نگاہ کی‘ طوبیٰ کے کمرے کی لائیٹس آف تھیں۔ رات کے پونے دو بج رہے تھے شاید وہ سوگئی تھی۔
’’ادھر میں تڑپ رہا ہوں اور وہ محترمہ مزے سے محوخواب ہیں‘ بس بہت ہوگیا اب اور نہیں۔‘‘ انس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور تیزی سے اپنے کمرے سے باہر نکلا‘ لان کے راستے دونوں گھروں کو ملانے والے گیٹ کو کھولا اور طوبیٰ کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ طوبیٰ سورہی تھی۔ سبز رنگ کا آنچل سینے پر پھیلائے ہوئے زلفوں کے ہالے میں اس کا حسین صبیح چہرہ انس کو مبہوت کرگیا۔ وہ بس ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر دھیرے سے اس کی پیشانی پر آئے بالوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کیا تو طوبیٰ نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس سے پہلے کہ حیرت کے مارے اس کے حلق سے چیخ نکلتی انس نے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔
’’شی… چیخنا مت‘ میں ہوں۔‘‘ وہ آہستگی سے بولا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے میرے کمرے میں آنے کا۔ وقت دیکھا ہے تم نے۔‘‘ طوبیٰ نے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا کر ناگواریت سے کہا اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اس طرح آدھی رات کو اس کے کمرے میں آسکتا ہے۔ وہ سٹپٹا گئی تھی اس کی اس حرکت پر۔
’’بہت اچھا وقت ہے کیونکہ تم میرے سامنے ہو‘ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں‘ محسوس کرسکتا ہوں۔‘‘ انس نے اس کے چاند چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لے کر محبت سے پُر لہجے میں کہا‘ طوبیٰ کی
گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔
’’شٹ اپ انس! پلیز جائو یہاں سے۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر غصے سے بولتی بیڈ سے نیچے اتر آئی۔
’’چلا جائوں گا پہلے ناراضی ختم کرو۔‘‘
’’انس! ہم صبح بات کریں گے۔‘‘
’’طوبیٰ! مجھے ابھی بات کرنی ہے‘ تم نے اپنا سیل کیوں آف کیا ہوا ہے؟‘‘
’’میری مرضی۔‘‘ طوبیٰ نے رخ پھیر لیا۔ آسمان پر چاندنی بکھیرتا چاند اس کے کمرے کی ادھ کھلی کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا۔ چاندنی طوبیٰ کے کمرے میں بھی پھیلی ہوئی تھی۔
’’میں تمہیں میسج کرکرکے تھک گیا ہوں‘ تم ہوکے پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئیں۔ مانا غلطی ہوگئی مجھ سے معافی مانگ رہا ہوں۔‘‘
’’کب مانگی ہے تم نے معافی؟‘‘ طوبیٰ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنے دونوں کان پکڑ کر پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔
’’لو میں اپنے کان پکڑتا ہوں‘ ہاتھ جوڑتا ہوں‘ مجھے معاف کردو۔‘‘
’’جائو معاف کیا‘ اب تم بھی مجھے معاف کردو اور جائو یہاں سے۔‘‘ طوبیٰ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر رات کے اس پہر کسی نے انس کو اس کے کمرے میں دیکھ لیا تو کیا عزت رہ جائے گی اس کی‘ سب کی نظروں میں۔ وہ لاکھ آپس میں بے تکلف دوست اور کزن سہی لیکن ہر مذہب اور معاشرے کی اقدار اور اخلاقیات کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا لازمی ہے اور طوبی کوٰ اس بات کا احساس تھا ۔
’’ایسے نہیں پیار سے کہو۔‘‘ انس نے ضد کی۔
’’انس پلیز! رات کے سوا دو بج رہے ہیں‘ کسی نے تمہیں میرے کمرے میں دیکھ لیا تو جانتے ہو کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘ انس نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو پیار سے دیکھتے ہوئے بڑے بے پروا انداز میں پوچھا۔
’’یا تو ہمارے گھر والے ہم دونوں کو گولی ماردیں گے یا پھر مولوی کو بلا کر اسی وقت ہمارا نکاح پڑھوادیں گے۔‘‘
’’او رئیلی!‘‘ وہ شوخی سے بولا۔
’’پلیز جائو یہاں سے گھر سے باہر تو میرا تماشا بنوا چکے ہو اور اب گھر میں بھی مجھے بے عزت کرنا چاہتے ہو۔‘‘ طوبیٰ کا دماغ پھر سے تپ گیا تھا اس کی اس دن والی حرکت کو یاد کرکے‘ وہ شرمندہ سا ہوگیا۔
’’یار معافی مانگ تو رہا ہوں پہلے کبھی ایسا کیا ہے تمہارے ساتھ۔ پتا نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے‘ آئی ایم سوری پلیز معاف کردو نا۔‘‘ انس نے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ جوڑے طوبیٰ کو اس پر رحم آگیا۔ وہ چھ فٹ کا لمبا چوڑا مرد اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا تھااسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور وہ اس سے معافی مانگ رہا تھا‘ اسے اور کیا چاہیے تھا اور طوبیٰ کا دل تو انس کی محبت سے بھرا تھا۔ وہ کتنی ہی تکلیف دیتا‘ ہرٹ کرتا اسے اس کے دل میں پھر بھی انس کے لیے معافی ہی معافی تھی۔ محبت میں سزا دینا‘ محبت کے اصولوں کے منافی ہے اس کے خیال میں۔
’’اوکے معاف کیا اور وہ جو تھپڑ تم نے مجھے مارا تھا اس کا کیا؟‘‘ طوبیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔
’’لو تم بھی میرے گال پر تھپڑ مار دو‘ حساب برابر۔‘‘
’’میں تمہاری طرح سنگ دل نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا تو میں سنگدل ہوں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جی نہیں میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں بہت نرم دل ہوں۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے مدہم آواز میں بولا۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے؟‘‘ انس نے شوخی سے کہتے اس کے جس گال پر تھپڑ مارا تھا اس پر اپنے احمریں ہونٹ ثبت کردیئے۔ طوبیٰ کو تو ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا تھا وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی اور حواس باختہ سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انس کو دیکھ رہی تھی جو بہت دلفریب انداز میں مسکرارہا تھا۔
’’یہ… یہ کیا… حرکت ہے انس؟‘‘
’’حرکت نہیں‘ محبت ہے۔ اسی تھپڑ کا ازالہ کررہا تھا کافی ہے یا اور…؟‘‘ وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولتا آگے بڑھا تو وہ دیوار سے لگ گئی اور بوکھلائی ہوئی آواز میں بولی۔
’’انس! پاگل مت بنو‘ جائو یہاں سے مرد اور عورت کا اکیلے ملنا اسی لیے ممنوع ہے کہ ا ن کے بیچ تیسرا شیطان آجاتا ہے۔‘‘
’’میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی تیسرے کو نہیں آنے دوں گا۔‘‘ انس نے اس کے دائیں بائیں دیوار پر اپنے ہاتھ رکھ کر اس کے شرم و حیا سے سرخ گھبرائے سندر چہرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
ہوئے مخمور لہجے میں کہا۔ طوبیٰ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ جسم پر لرزا سا طاری ہورہا تھا۔ انس کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا پہلے وہ کبھی اس طرح بے لگام نہیں ہوا تھا شاید رات کا اثر تھا‘ گہری رات اور وہ بھی پورے چاند کی رات۔ جو پیار بھرے دلوں میں ہلچل مچاتی اور جذبوں میں ترنگ جگاتی ہے۔
’’انس! اگر تم مجھ سے سچ میں پیار کرتے ہو تو پلیز اس وقت جائو یہاں سے۔‘‘ طوبیٰ نے کانپتی آواز میں کہا۔
’’ڈر لگ رہا ہے مجھ سے۔‘‘
وہ اس حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے استفسار کررہا تھا۔ وہ کچھ نہیں بولی کہ اس وقت اسے کچھ بھی کہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
’’قسم سے تم اتنی دلنشین اور حسین لگ رہی ہو کہ دل چاہ رہا ہے تمہیں اپنے اندر سمولوں‘ سوتے ہوئے تم اتنی معصوم پری لگتی ہو مجھے اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو میں نے آج ہی دیکھا ہے۔ یار تم تو اچھے خاصے متقی بندے کا ایمان متزلزل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ میں بے چارہ تو کسی شمار‘ قطار میں ہی نہیں آتا۔ ہاں یہ غرور ہورہا ہے آج کہ تم میری ہو‘ کزن‘ دوست اور…‘‘
’’اور…؟‘‘
طوبیٰ نے اس کی باتوں کے سحر میں گم ہوتے ہوئے جاننا چاہا تو انس نے اپنا ہاتھ اس کے رخسار پر رکھ دیا۔ طوبیٰ نے آنکھیں موند لیں وہ سر سے پائوں تک اس کے لمس کی آگ میں جملوں کی حدت میں جل اٹھی تھی۔ یکایک انس کے ہونٹوں کا لمس اسے اپنی پیشانی پر محسوس ہوا‘ دل پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب ہونے لگا۔
’’آئی لویو۔‘‘ طوبیٰ کے کان میں انس کی سرگوشی گونجی وہ اس پر ایک پیار سے بھرپور نظر ڈال کر وہاں سے چلا گیا اور طوبیٰ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کا روم روم انس کے پیار کے اظہار کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ دل پر ہاتھ رکھے بیڈ پر ڈھے سی گئی۔ دھڑکنوں کو سنبھالنے کی سعی کرنے لگی۔
’’اُف انس! کتنے پاگل ہو تم۔‘‘
طوبیٰ نے بآواز کہا اور اس کی محبت اور لمس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے مسکرادی۔
صبح پھر وہ ٹیرس سے غائب تھی۔ موبائل بھی آف تھا۔ انس کو غصہ آگیا اور ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ’’راحیل ولا‘‘ چلا آیا۔ طوبیٰ لان میں ہی نظر آگئی‘ پودوں اور پھولوں کی کانٹ چھانٹ کررہی تھی۔
’’اب کیا تکلیف ہے‘ ٹیرس پر کیوں نہیں آئیں‘ سیل کیوں آف ہے؟‘‘انس نے اس کے پاس پہنچتے ہی رعب سے پوچھا۔
’’میری مرضی۔‘‘ وہ اترا کر بولی تو اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
’’بڑا نخرہ آگیا ہے تمہیں‘ رات معافی مانگ تو لی تھی پھر یہ ڈراما کس لیے؟‘‘
’’دیکھو مجھ سے آئندہ اس لہجے میں بات مت کرنا ورنہ۔‘‘
’’ورنہ کیا؟‘‘
’’میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔‘‘
’’ناممکن!‘‘ وہ جانتا تھا اس کے دل کا حال‘ جبھی ہنسا تھا۔
’’جب لوگوں کو پتا ہو‘نا کہ کوئی انہیں چاہتا ہے‘ اہمیت دیتا ہے تو وہ تمہاری طرح ہی جان بوجھ کر اکڑتے ہیں‘ انہیں تنگ کرتے ہیں۔‘‘ طوبیٰ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ تنک کر بولا۔
’’تم بھی کم تنگ نہیں کرتیں مجھے۔ تین دن سے جان عذاب میں ڈال رکھی ہے۔ رات اتنے پیار سے منایا ہے‘ پھر بھی منہ پھلایا ہوا ہے میڈم نے۔‘‘
’’اب چاہتے کیا ہو تم؟‘‘ طوبیٰ اس کی بات پر سرخ ہوگئی۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
انس نے اس قدر پیار بھرے اور رسیلے انداز میں یہ شعر پڑھا کہ طوبیٰ کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ انس کو لگا جیسے قریب ہی کسی وادی میں جھرنے پھوٹ پڑے ہوں‘ دور گلاس وال سے دیکھتی طیبہ نے بھی ان دونوں کو ایک ساتھ ہنستے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا‘ ان کے درمیان ناراضی ختم ہوگئی ہے‘ انہوں نے فوراً سائرہ کو فون کرکے خبر کردی۔ سائرہ نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
…٭٭٭…
موسم ایک دم ہی سہانا ہوگیا تھا۔ یکا یک آسمان کالے بادلوں سے سجا اور پھر پانی برسانے لگا۔ گرمیوں کی بارش میں نہانا ‘ کھیلنا‘ گھومنا پھرنا‘ انس اور طوبیٰ کا من پسند مشغلہ تھا۔ اس وقت بھی وہ دونوں بارش انجوائے کرنے لان میں نکلے تھے مگر انس نے طوبیٰ سے پکوڑے کھانے کی فرمائش کردی اور طوبیٰ اس کی بات‘ اس کی فرمائش ٹال ہی نہیں سکتی تھی۔ بارش کے موسم میں تو پکوڑے کھانے کا لطف ہی دوبالا ہوجاتا تھا۔ طوبیٰ اپنے گھر کے کچن میں پکوڑے بنارہی تھی اور انس اپنے گھر کے ٹیرس پر کھڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔ یکایک بادل بہت زور سے گرجے اور بارش میں اور تیزی آگئی۔ تیز ہوائیں بجلی کی کڑک بھی موسم کا حصہ بنی ہوئی تھی۔
جبھی انس کی نظر گیٹ پر پڑی‘ جہاں چوکیدار گیٹ کھولے کسی کو اندر آنے کے لیے کہہ رہا تھا‘ دوسرے ہی لمحے ایک خوبرو حسینہ ولایتی لباس میں قیامت ڈھاتی اندر داخل ہوئی۔ نیلی جینز پر سلیولیس ٹی شرٹ پہنے‘ سیاہ ہائی ہیل پائوں میں پھنسائے وہ بڑی ادائے بے نیازی سے قدم آگے بڑھارہی تھی۔ وہ بارش میں بھیگ چکی تھی۔ انس کے تو ہوش ہی اڑ گئے اس گوری چٹی ماڈرن لڑکی کو دیکھ کر بے اختیار سوچا یہ قاتل حسینہ کون ہے؟ اور پھر تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا اس لڑکی کی جانب لپکا۔
’’ہائے!‘‘ انس نے اس کے قریب پہنچ کر مخاطب کیا۔
’’کیا تکلیف ہے؟‘‘ لڑکی نے انس کے بھیگتے چہرے کو دیکھتے ہوئے۔
’’تکلیف… مطلب؟‘‘
’’ہائے ہائے جو کررہے ہو؟‘‘
’’تمہیں دیکھ کر کہاہے‘ کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ کس سے ملنا ہے؟ اور یوں بنا تعارف کے منہ اٹھائے اندر کیوں چلی جارہی ہو؟‘‘ انس نے ایک دم سے اکڑتے ہوئے رعب دار لہجے میں ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔
’’یہ تو میں اندر جاکر ہی بتائوں گی ویسے تم انس ہو‘ نا سائرہ آنٹی کے بیٹے۔‘‘
’’ ہاں مگر تم مجھے کیسے جانتی ہو؟‘‘
’’تمہارا غائبانہ تعارف ہوچکا ہے مجھ سے‘ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔‘
’’ویسا کیا؟‘‘ انس نے ابرو چڑھاکے اس کے بارش میں بھیگتے وجود کو بغور دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’بد تمیز‘ اکڑو‘ ضدی‘ منہ پھٹ۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ انس کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ چیخ ہی تو اٹھا تھا اس تعارف پر۔ جب کہ وہ حسینہ مسکرارہی تھی۔
’’ہوں‘ ویسے سائرہ آنٹی تو بہت نائس اور ڈیسنٹ خاتون ہیں‘ تم کس پر چلے گئے؟‘‘
وہ شرارت بھرے انداز میں اس سے پوچھ رہی تھی اور وہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ اتنی حسین لڑکی اس کی ایسی تعریف کررہی تھی اور اس انداز میں۔
لڑکی بھی خاصی بولڈ تھی تیزی سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے اسی تیزی سے بولتی جارہی تھی۔
’’کیا؟ کیا کہا تم نے؟‘‘
’’بہرے ہو کیا؟ ایک بار کا کہا سنائی نہیں دیتا ہے تم کو؟‘‘
’’کیا بکواس ہے؟‘‘ وہ چٹخ گیا۔
’’السّلام علیکم آنٹی!‘‘ لڑکی نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے ہی سائرہ کو وہاں بیٹھا دیکھ کر بآواز بلند سلام کیا۔
’’ارے ماہین بیٹا تم۔‘‘ سائرہ نے حیرت سے آنے والی حسینہ کو دیکھا اور اٹھ کر اس سے ملنے لگیں۔
’’کیسی ہو؟ اور یوں اچانک یہاں کیسے؟‘‘سائرہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر محبت سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’بس آنٹی! آج کل فارغ تھی تو سوچا کیوں نا آپ لوگوں سے ملاقات کی جائے اسی لیے چلی آئی۔‘‘ ماہین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ انس ابھی تک الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ سن رہا تھا مگر سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس لڑکی ماہین کا ان سے کیا رشتہ ہے۔
’’بہت اچھا کیا بیٹی! جویہاں چلی آئیں یقین جانو مجھے بہت خوشی ہورہی ہے تمہیں یہاں اپنے سامنے دیکھ کر۔ انس سے تو تم مل ہی چکی ہو اور انس یہ ماہین ہے تمہاری عائشہ خالہ کی بیٹی اور مائرہ کی نند۔‘‘
’’او آئی سی۔ تو یہ ماہین عرف ماہی ہیں۔‘‘ انس نے یاد آنے پر کہا۔ ماہین کا نک نیم ماہی تھا۔
’’اس کے اصل نام کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ ویسے بھی انس کے ہوش میں تو وہ پہلی بار پاکستان آئی تھی۔ اٹھارہ سال پہلے وہ لوگ کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے۔ مائرہ کی شادی میں شرکت کے لیے بھی ماہین نہیں آسکی تھی اس دوران اس کے امتحان ہورہے تھے جبھی انس اسے پہچان نہیں پایا تھا۔
’’جی ہاں اور آنٹی یہ مسٹر انس مجھے اندر آنے ہی نہیں دے رہے تھے‘ دیکھیں تو بارش میں بھیگ گئی میں۔‘‘ ماہین نے انس کی طرف دیکھ کر سائرہ سے اس کی شکایت کی۔
’’سوری بیٹا! یہ تمہیں پہچان نہیں پایا نا۔ اس لیے سوال جواب کرنے کے لیے روکنے کی کوشش کی ہوگی۔ تم چینج کرلو میں تمہارے لیے کھانے وغیرہ کا کہتی ہوں۔‘‘
’’تھینک یو آنٹی!‘‘ ماہین مسکرا کر بولی وہ کچن کی طرف چلی گئیں تو ماہین نے انس کو اپنی طرف دیکھتے پاکر پوچھا۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘

’’تمہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ وہ گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کیوں کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی کیا؟‘‘
’’لڑکی تو دیکھی ہے مگر تم جیسی نہیں دیکھی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بھیگی بلی۔‘‘ وہ مذاق سے بولا اور اسی وقت سائرہ چلی آئیں۔
’’انس! اب ماہین کو تنگ مت کرنا سمجھے۔‘‘ انہوں نے تنبیہہ کی۔
’’جو حکم ممی جان!‘‘ انس نے بھی اپنی شرمندگی مٹانے کو ان کا حکم ماننے میں ہی عافیت سمجھی۔
ماہین کے آنے سے طوبیٰ کو بھی بہت اچھی اور فل ٹائم کمپنی مل گئی تھی اور انس بھی ان دونوں کے درمیان گھسا رہتا بلکہ طوبیٰ سے زیادہ ماہین کو اہمیت دے رہا تھا وہ اور طوبیٰ نے یہ بات کئی بار محسوس کی تھی۔ انس کی توجہ بٹ گئی تھی‘ محبت تقسیم ہوگئی تھی۔ ترجیحات بدل گئی تھیں‘ دیکھنے‘ سوچنے کے زاویئے بدل گئے تھے۔ صرف ایک ہفتے میں وہ اتنا بدل گیا تھا‘ وہ انس جو اسے دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ اسے دیکھے بنا دن کا آغاز نہیں کرتا‘ اسے گڈ نائٹ کہے بنا نیند اس کی آنکھوں میں نہیں اترتی تھی۔ وہ انس اب اپنی صبح اور رات ماہین کو دیکھ کر کرتا تھا ماہین بہت شوخ و شنگ لڑکی تھی‘ ہنستی بولتی سب کے دلوں کو لبھاتی۔ سب خوش تھے اس کے آنے سے لیکن طوبیٰ کا دل بجھ سا گیا تھا۔ بظاہر وہ ہنستی مسکراتی نظر آتی تھی۔ انس کی محبت کیا اتنی کمزور تھی کہ ایک دوسری لڑکی کے اس کے گھر آنے سے ختم ہوگئی تھی۔ وہ تو طوبیٰ پر مرتا تھا پھر اب اسے ہی کیوں مارنے پر تلا تھا؟
طوبیٰ سفید کاٹن نیٹ کے خوب صورت لباس میں سفید پرل کا جیولری سیٹ پہنے‘ مناسب میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی۔ اس کا رزلٹ آئوٹ ہوگیا تھا اور اسی خوشی میں وہ ماہین اور انس کو ٹریٹ دے رہی تھی کیونکہ اس نے اے گریڈ حاصل کیا تھا۔
’’وائو‘ یو آر بیو ٹی فل طوبیٰ! کتنی حسین لگ رہی ہو۔‘‘ ماہین نے طوبیٰ کو سر سے پائوں تک ستائشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ!‘‘ وہ خوشی سے مسکرادی اس نے یہ ساری تیاری تو انس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کی تھی۔ اسے سجا سنورا دیکھ کے تو وہ اور بھی پاگل ہوجاتا تھا اور اکثر اس سے کہتا تھا۔
’’تم یہ سولہ سنگھار کرکے میرے سامنے مت آیا کرو‘ مجھے خود پر قابو نہیں رہتا۔ ویسے کیا کم قیامت ڈھاتی ہو جو ان ہتھیاروں سے لیس ہوکر مجھے پسپا کرنے چلی آتی ہو۔‘‘
اورطوبیٰ دیکھنا چاہتی تھی کہ آج بھی وہ اس کی جانب اسی محبت اور بے اختیاری کے عالم میں بڑھتا ہے یا سرسری نظر ڈال کر اس کی امیدوں کا خون کرتا ہے۔
’’ہائے گرلز! ریڈی ہو۔‘‘ انس گاڑی کی چابی انگلی میں گھماتا ہوا باہر چلا گیا۔
’’ایک دم ریڈی ہیں۔‘‘ دونوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’وائو…!‘‘ انس نے ان دونوں کو سر سے پائوں تک دیکھا۔
’’انس! دیکھو تو طوبیٰ کتنی حسین لگ رہی ہے نا۔‘‘ ماہین نے مسکراتے ہوئے ا سے کہا‘ طوبیٰ بھی مسکرارہی تھی۔
’’ہاں مگر تم سے زیادہ نہیں۔‘‘ انس کے جواب پر طوبیٰ کا دل اداس ہوگیا۔
’’او کم آن‘ تم مجھے بنارہے ہو۔‘‘ ماہین نے ہنس کر اس کی بات کو مذاق میں اڑاتے ہوئے کہا تو وہ آہستگی سے بولا۔
’’نہیں بنا تو تم مجھے رہی ہو اپنا دیوانہ!‘‘
’’انس! چلیں دیر ہورہی ہے۔‘‘
ماہین نے دانستہ اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا وہ طوبیٰ کے چہرے پر پھیلتی افسردگی اور مایوسی دیکھ رہی تھی۔ اس مختصر قیام میں وہ اتنا تو سمجھ ہی چکی تھی کہ انس اور طوبیٰ کے بیچ صرف دوستی کا ہی نہیں محبت کا بھی رشتہ ہے اور اس کی موجودگی اس رشتے میں دراڑ ڈال رہی تھی۔ یہ دراڑ انس کی کمزوری کی وجہ سے پڑرہی تھی کیونکہ اپنی طرف اس کا جھکائو محسوس کررہی تھی لیکن وہ طوبیٰ جیسی پیاری لڑکی کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اسے انس کی توجہ اچھی لگتی تھی مگر وہ اسے ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتی تھی اور پھر وہ کون سا یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے آئی تھی‘ اسے تو واپس لوٹ جانا تھا اور وہ اپنے پیچھے طوبیٰ جیسی لڑکی کو دکھی کرکے اس کا حق چھین کے اسے روتا چھوڑ کے نہیں جانا چاہتی تھی۔
’’چلو! ویسے تم واقعی بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ انس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے ماہین سے کہا وہ شلوار قمیص دوپٹے میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ طوبیٰ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ماہی! اس کی بات کا اعتبار مت کرنا‘ یہ ہر لڑکی سے یہی جملہ کہتا ہے۔‘‘
’’ہر لڑکی سے نہیں‘ ہر حسین لڑکی سے۔‘‘ انس نے وضاحت کی تو ماہین ہنس پڑی اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
’’ماہی تم پیچھے کیوں بیٹھی ہو آگے بیٹھو نا۔‘‘ انس نے فوراً گردن گھماکے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں آگے طوبیٰ بیٹھے گی۔‘‘
’’طوبیٰ تو ہمیشہ بیٹھتی ہے‘ تم مہمان ہو اس لیے۔‘‘
’’اس لیے مجھے پیچھے ہی بیٹھنا چاہیے‘ میں نے کون سا یہاں ہمیشہ رہنا ہے‘ جو میں طوبیٰ کی جگہ لوں اور ویسے بھی‘ جنہوں نے واپس جاناہو انہیں زیادہ سر نہیں چڑھاتے سمجھے۔‘‘
ماہین نے مسکراتے ہوئے کہا تو طوبیٰ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی وہ دیکھ رہی تھی انس کے چہرے پر ناگواریت چھلک رہی تھی۔
’’تمہارا جانا ضروری ہے کیا ہم تمہیں روک بھی تو سکتے ہیں۔‘‘
’’جی نہیں‘ کوئی مجھے روک نہیں سکتا۔‘‘ ماہین نے ہنس کر کہا تو انس نے استفسار کیا۔
’’اور اگر میں تمہیں روک لوں تو۔‘‘
’’پلیز گاڑی اسٹارٹ کرو انس! یہ کیا ہم بے کار کی بحث میں الجھ رہے ہیں۔‘‘ ماہین نے طوبیٰ کے مرجھاتے چہرے کو دیکھا تو فوراً بات ختم کرتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اوکے۔‘‘ انس نے اس کے لہجے کی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کردی۔
وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے مینو کارڈ دیکھ رہے تھے۔ طوبیٰ نے ویٹر کو انس کی پسندیدہ ڈشسز کا آرڈر دیا تو انس نے ویٹر کو منع کردیا۔
’’کیوں؟‘‘ طوبیٰ نے حیرت سے اس کا چہرہ دیکھا۔
’’کیونکہ آج میں ماہی کی پسند کا کھانا کھائوں گا۔ چلو ماہی! آرڈر دو۔‘‘ انس نے ماہین کو مخمور نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو طوبیٰ کا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ قدم قدم پر اسے نظر انداز کررہا تھا اور ماہین کو اہمیت اور توجہ دے رہا تھا۔
’’سوچ لو میری پسند کے چکر میں بھوکے رہ جائو گے۔‘‘ ماہین نے جوس کا سپ لے کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’تمہاری خاطر بھوکا رہنا بھی منظور ہے۔ ‘‘ انس نے اس کے چہرے کو تعجب پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو طوبیٰ اندر ہی اندر بکھرتی چلی گئی۔ کتنا مان تھا اسے انس کی محبت پر مگر وہ تو گرگٹ کی طرح رنگ بدل گیا تھا۔ کتنا کچا رنگ تھا اس کی محبت کا کہ نئے موسم کی ایک ہی بارش میں پھیکا پڑگیا تھا۔
’’اوکے تو چکن سوپ منگوالو اور پاستا۔‘‘ ماہین نے آرڈر دیا چند منٹ کے بعد ویٹر نے آرڈر سرو کردیا۔
’’طوبیٰ ڈئیر! اتنی شان دار کامیابی پر کیا گفٹ لو گی؟‘‘ ماہین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ انکساری سے بولی۔
’’شکریہ ماہی! تم میری خوشی میں شریک ہو یہی میرا گفٹ ہے۔‘‘
’’تھینک گاڈ! میری جیب بھی ہلکی ہونے سے بچ گئی‘ میں بھی تو تمہاری خوشی میں شریک ہوں نا۔‘‘ انس نے تیزی سے کہا تو ماہین ہنس پڑی جب کہ طوبیٰ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’جی نہیں‘ کسی خوش فہمی میں مت رہنا‘ تم بھول رہے ہو تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے ایگزامز میں شان دار کامیابی پر گولڈ کا بریسلیٹ بنوا کر دوگے۔ اب اپنا وعدہ پورا کرو ورنہ جرمانے کے طور پر رنگ (انگوٹھی) بھی دینا ہوگی۔‘‘
’’رئیلی‘ میں نے ایسا کوئی وعدہ کیا تھا‘ مجھے یاد نہیں ہے۔‘‘ انس صاف مُکر گیا تو طوبیٰ کو بہت دکھ ہوا‘ اس کے جھوٹ پر۔
’’یاد آجائے گا ویسے وعدہ کرو تو پورا کرو‘ کسی کا مان کبھی نہ توڑو سمجھے۔‘‘ طوبیٰ نے مسکرا کر رعب سے کہا۔
’’اوکے سوچوں گا۔‘‘ انس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور ماہین کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’طوبیٰ تم کیوں دکھی ہورہی ہو اگر انس بدل گیا ہے تو تم بھی بدل جائو‘ جب اسے تمہاری پروا نہیں ہے تو تم بھی اس کی پروا کرنا‘ اس سے پیار کرنا چھوڑدو۔‘‘ دماغ نے طوبیٰ کو مشورہ دیا تو دل تڑپ کر بولا۔
’’پیار کیا ہے‘ میں نہیں چھوڑ سکتی اسے۔ بچپن کا ساتھ ہے برسوں کا پیار ہے‘ ایسے کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ یہ میرا دل ہے انس کا نہیں‘ جو ماہین کے آتے ہی اس پر فدا ہوگیا۔‘‘
’’شکر کرو کہ انس کی دل پھینک طبیعت کا ابھی پتا چل گیا تمہیں اگر شادی کے بعد وہ کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی لیتا تو کیا تم سہہ پاتیں۔ انس کو تم نے ہی سمجھنے میں غلطی کی ہے طوبیٰ! کل کو اگر اسے ماہین سے زیادہ خوب صورت لڑکی مل گئی تو وہ تو ماہین کو بھی اسی طرح نظر انداز کردے گا۔ جس طرح تمہیں آج کل کررہا ہے۔ بہت بھروسا اور مان تھا نا تمہیں انس پر‘ اس کی محبت پر۔ دیکھ لیا کیسے اس نے تمہارا مان توڑا ہے‘ دعا کرو وہ ایسا کچھ نہ کہہ دے کہ جس سے تمہارا رہا سہا اعتبار بھی جاتا رہے۔ بس کسی طرح تمہارا مان رہ جائے‘ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے۔‘‘ طوبیٰ کا دماغ اسے سمجھا رہا تھا تو ا س نے بھی خود کو مضبوط بنالیا اور مسکرادی۔
’’میں اس کے لیے اس کے سامنے بے قرار ہوکر اس کی نظروں میں بے وقعت نہیں ہوں گی میں بھی اب یہی ظاہر کروں گی کہ اس کے ماہین میں حد درجہ دلچسپی لینے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ طوبیٰ نے دل میں کہا اور مسکراتے ہوئے کھانے کا بل ادا کرنے لگی۔
سائرہ بھی انس کی ماہین میں دلچسپی محسوس کررہی تھیں‘ دیکھ رہی تھیں کہ انس طوبیٰ کو نظر انداز کررہا ہے اور طوبیٰ کے احساسات سے بھی وہ واقف تھیں۔ جانتی تھیں کہ طوبیٰ کو انس کا یہ بدلا بدلا رویہ دکھ دے


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
رہا ہوگا۔ حیرت تو خود انہیں بھی ہوئی تھی انس کے ماہین میں اتنی زیادہ دلچسپی لینے سے۔
’’انس! مارکیٹ تو لے چلو کچھ شاپنگ کرنی ہے۔‘‘ طوبیٰ نے اس کے پاس آکر کہا وہ جو ماہی کو لانگ ڈرائیو پر لے جانے کا سوچ رہا تھا اس کی فرمائش پر فوراً بولا۔
’’مجھے کہیں اور جانا ہے تم اکیلی چلی جائو۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہے ہو؟ تم تو مجھے مارکیٹ اکیلے جانے سے منع کرتے رہے ہو‘ ایسا کون سا ضروری کام ہے جو تم چھٹی کے دن بھی مجھے مارکیٹ نہیں لے جاسکتے؟‘‘ طوبیٰ نے تنک کر کہا۔
’’تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے اور میں تمہیں فالتو‘ بے کار نظر آتا ہوں جو ہر کام کے لیے مجھے گھسیٹ لیتی ہو۔‘‘ انس نے بدتمیزی سے جواب دیا طوبیٰ کو برُا تو لگا مگر ضبط کر گئی۔
’’ہاں اور یہ کام تو تمہیں ساری زندگی کرنا ہوگا۔‘‘
’’مائی فٹ‘ میں نے ساری زندگی کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔‘‘
’’تو لے لو نا۔‘‘ طوبیٰ نے اسے جان بوجھ کر چڑایا۔
’’ہونہہ‘ منہ دھو رکھو۔‘‘ وہ سر جھٹک کر بولا تو طوبیٰ کو ہتک محسوس ہوئی مگرو ہ مسکراتی رہی۔
’’چلیں طوبیٰ!‘‘ ماہین تیار ہوکر باہر آئی اور طوبیٰ کو مخاطب کیا۔ انس نے حیرت سے اس کے حسین سراپا کو دیکھا۔ وہ پاکستانی لباس میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔
’’ہاں ماہی چلو‘ ان نواب صاحب کا دماغ تو ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا ہے‘ ہمیں مارکیٹ نہیں لے جاسکتے ہیں کہیں اور جانا ہے انہیں۔‘‘ طوبیٰ نے انس کو دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بتایا تو انس کو حیرت کا جھٹکا لگا‘ وہ تو سمجھ رہاتھا کہ طوبیٰ اکیلی جارہی ہے اگر اسے پتا ہوتا کہ ماہین بھی اس کے ساتھ جارہی ہے تو وہ اسے ہر گز انکار نہیں کرتا۔
’’اوشٹ!‘‘ انس نے مکا ہاتھ پر مارا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ طوبیٰ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر سمجھ گئی کہ اسے کیا محسوس ہورہا ہے‘ انجان بن کرپوچھا۔
’’تم نے بتایا نہیں کہ ماہین بھی تمہارے ساتھ جارہی ہے؟‘‘
’’تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے تم اگر ساتھ چلتے تو خود ہی دیکھ لیتے کہ ماہی بھی میرے ساتھ جارہی ہے‘ اب جب نہیں جارہے تو ہم دونوں سکون سے شاپنگ کریں گی۔ آئس کریم کھائیں گی‘ چلو ماہین چلیں۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا اور ماہین کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔ یکایک طوبیٰ پلٹ کر انس کی طرف آئی اور اس کے خفت‘ خجالت‘ بے بسی سے پُر چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے مسکراکر بولی۔
’’ہاں تم اب کسی اور کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلے جائو‘ بائے بائے…‘‘
اور انس بھونچکا سا رہ گیا۔ اسے کیسے پتا چلا کہ وہ ماہین کو لانگ ڈرائیو پر لے جانا چاہتا تھا۔ اس نے تو ماہین سے بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس کی خجالت اور ندامت اور بھی بڑھ گئی تھی۔
’’انس! یہ تم طوبیٰ کے ساتھ کس قسم کا برتائو کررہے ہو‘ بچے نہیں ہو تم۔ سدھر جائو اب ہر وقت لڑنا جھگڑنا‘ تنگ کرنا ایسا کب تک چلے گا‘ تم دونوں نے ساری زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔ اسی طرح لڑتے رہو گے تو کیسے چلے گی زندگی کی گاڑی؟‘‘ سائرہ جو ان کی یہ تازہ ترین جھڑپ کچن کے دروازے میں کھڑے کھڑے دیکھ چکی تھیں۔ طوبیٰ اور ماہین کے جاتے ہی انس کے پاس آکر کہنے لگیں‘ وہ اسے باور کرانا چاہتی تھیں کہ اس کی شادی طوبیٰ سے ہوگی لہٰذا وہ سنبھل جائے۔
’’او پلیز مام! مجھے اپنی زندگی کی گاڑی طوبیٰ کے ساتھ مل کر نہیں چلانی‘ بچپن سے اب تک ساتھ ہیں‘ دوست ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہماری شادی بھی ہوجائے‘ آپ اپنی بھتیجی کے لیے کوئی اور بَر (رشتہ) تلاش کریں۔ میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔‘‘ انس نے نہایت بدتمیزی سے تیز اور سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’تو کس سے کرو گے شادی؟‘‘
’’ماہی سے۔‘‘
’’ماہی سے تمہاری شادی نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’کیوں نہیں ہوسکتی۔‘‘ انس پھڑک کر بولا۔
’’کیونکہ یہ میں کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’میں بھی طوبیٰ سے شادی نہیں کروں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ یہ میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ انس نے اکڑ کر جواب دیا۔
’’انس! تمیز سے بات کرو‘ ماں ہوں میں تمہاری۔‘‘
’’ماں ہیں تو سمجھتی کیوں نہیں کہ میں کیا چاہتا ہوں۔‘‘
کرے گا۔
طوبیٰ کو وہ اپنے اور ماہین کے بیچ دیوار سمجھتا تھا اس لیے اس نے طوبیٰ سے بھی ملنا بات کرنا‘ ایس ایم ایس تک کرنا چھوڑ دیا تھا۔ طوبیٰ لاکھ خود کو سمجھاتی کہ جب وہ بدل گیا ہے تو تم بھی بدل جائو‘ مت اس کی بے وفائی اور کج ادائی کو دل کا روگ بنائو مگر دل کیا بچپن کے ساتھ‘ برسوں کی دوستی اور محبت کو کیسے بھلا دیتا۔ طوبیٰ نے وقت گزارنے کے لیے جاب کرلی تھی۔ اب تو وہ ’’رحمان لاج‘‘ بھی کم ہی جاتی تھی اور جاتی بھی اس وقت تھی جب انس گھر میں نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو ایک دوجے کو دیکھے بنا صبح نہیں کرتے تھے‘ سونے سے پہلے شب بخیر کہنا نہیں بھولتے تھے۔ چار ہفتے سے ان کے شب و روز ایک دوسرے کو دیکھے بغیر‘ بات کیے بنا گزار رہے تھے۔ ان کے اس گریز اور لاتعلقی سے سائرہ اور طیبہ بہت ملول تھیں۔ انس نے اپنی والدہ سائرہ سے بھی سلام دعا کے علاوہ بات کرنا ہی چھوڑ دی تھی۔ سائرہ بیٹے کے اس رویئے سے بہت کڑھتی تھیں کیونکہ انس نے اس طرح خود کو سب سے الگ کرلیا تھا۔
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا تھا اور سائرہ چاہتی تھیں کہ انس کی ناراضی اس مقدس مہینے میں ختم ہوجائے اور وہ خشوع وخضوع سے عبادت کرے‘ ثواب کمائے۔ لہٰذا انہوں نے انس سے بات کرنے کا سوچا اور اس کے کمرے میں چلی آئیں۔
آج اتوار تھا‘ چھٹی تھی اس لیے وہ گھر پر ہی تھا اور ظہر کی نماز ادا کرکے فارغ ہوا تھا۔
’’انس بیٹا! تم نے خود کو کمرے تک محدود کرلیا ہے‘ سب سے کٹ کر رہ گئے ہو‘ باہر نکلو سب سے ملو‘ ہنسو‘ بولو۔‘‘ سائرہ نے اسے ممتا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پیار سے سمجھایا۔
’’میری ہنسی آپ نے چھینی ہے۔‘‘ وہ تلخی سے بولا۔
’’تم نا حق مجھ پر شک کررہے ہو‘ تم نے خود اپنے آپ کو تنہا کرلیا ہے۔‘‘
’’مجھے تنہا کرنے والی آپ ہیں مام! آپ ہیں میری تنہائی کی ذمہ دار۔‘‘ انس نے بدتمیزی سے کہا۔
’’میں…؟‘‘
’’جی! آپ اگر ماہی سے میری شادی کرادتیں تو آج یہ تنہائیاں میرا مقدر نہ ہوتیں۔‘‘
’’تنہائیاں تو تب بھی تمہارا مقدر ہوتیں انس رحمان! تم ماہی سے شادی کرکے بھی تنہا رہ جاتے۔‘‘ سائرہ نے گہرا سانس لے کر افسردگی سے جواب دیا۔
’’ہرگز نہیں آپ اپنی غلطی چھپانے کے لیے ایسا کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں شاید میں نے ہی بہت بڑی غلطی کی تھی تم سے سچائی چھپا کر‘ مجھے اسی دن تمہیں ماہی کی سچائی اس کا تمہارے رشتے سے انکار اور انکار کی وجہ بتادینی چاہیے تھی۔‘‘ سائرہ نے سنجیدگی سے کہا تو وہ طنز سے بولا۔
’’کیا وجہ ہے بتائیں آپ؟ آپ تو خود اس کی بہت تعریفیں کرتی تھیں۔‘‘
’’ہاں وہ تھی ہی ایسی کہ دل موہ لیتی تھی۔‘‘
’’پھر بھی آپ نے انکار کردیا؟‘‘
’’انکار میں نے نہیں خود ماہی نے کیا تھا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ انس اچھل ہی تو پڑا تھا یہ سن کر۔
’’ہاں وہ تمہاری اپنی ذات میں دلچسپی محسوس کرچکی تھی‘ مگر وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘
’’کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی وہ مجھ سے شادی۔ وہ تو مجھ سے بہت اٹیچڈ ہوگئی تھی چند دنوں میں؟‘‘ انس سے یہ بات ہضم ہی نہیں ہورہی تھی کہ ماہین خود اس سے شادی کرنے سے انکار کرسکتی ہے ۔ وہ بے یقینی سے ماں کو دیکھتے ہوئے سوال کررہا تھا۔ ’’کوئی ٹھوس ثبوت ہے آپ کے پاس ماہی کے اس انکار کا؟‘‘
’’ہاں ہے۔‘‘
’’دکھائیں مجھے‘ ضرور آپ مجھے کوئی من گھڑت کہانی سنانے والی ہیں۔‘‘ انس حد درجہ اپنی ماں سے بدگمان ہورہا تھا‘ یہ جان کر سائرہ کو بہت دکھ ہورہا تھا لیکن وہ برداشت کررہی تھیں اور آج اس راز سے پردہ اٹھا کر اس بات کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔
’’انس! تم مجھ پر شک کررہے ہو‘ اپنی ماں پر۔‘‘
’’کیوں آپ نے ماں ہوکر اپنے بیٹے کی خوشیاں اس سے چھین لیں‘ اس کا پیار اس سے دور کردیا ہے۔‘‘ انس نے غصیلے اور بدگمان لہجے میں تیزی سے کہا۔ سائرہ کے دل پر برچھی سی لگی تھی۔
’’میں تمہاری ماں ہوں انس! اور کوئی بھی ماں کبھی بھی اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتی۔ تمہارا پیار‘ تمہاری خوشیاں میں نے نہیں تقدیر نے تم سے چھینی ہیں۔ ماہین کو کینسر تھا اور وہ یہ بات جانتی تھی‘ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اسی لیے وہ یہاں ہم سب سے ملنے آئی تھی اور اسی لیے اس نے تم سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا۔‘‘


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’کیا…؟‘‘ سائرہ کے اس سنگین انکشاف پر وہ لرز کر رہ گیا۔ وہ بے یقینی سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں یہ سچ ہے۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آپ کی بات کا؟‘‘
’’اچھا! ایک منٹ رکو۔‘‘
سائرہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر گئیں اور چند لمحوں بعد واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا اس میں سے انہوں نے ایک فائل نکال کر انس کی طرف بڑھادی۔
’’یہ دیکھو‘ پڑھو اور پھر بتائو کہ ماں جھوٹ بول رہی ہے کہ یہ رپورٹس تمہاری ماں کی سچائی کی گواہی دے رہی ہیں۔‘‘
انس نے ماہین کی میڈیکل رپورٹس دیکھیں‘ پڑھیں اور بے دم سا ہوکر سوفے پر گر گیا۔ رپورٹس سائرہ کی بات کی گواہی دے رہی تھیں۔
’’تم ماہی سے شادی کر بھی لیتے تو چند دن بعد وہ تمہیں چھوڑ کر چلی جاتی پھر ساری زندگی کا روگ لگ جاتا تمہیں اور سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ یہاں سے جانے کے تین دن بعد ماہین کی موت واقع ہوگئی تھی۔
’’کک… کیا… ماہین… مرگئی؟‘‘
انس اس جاں گسل انکشاف پر صدمے سے ٹھیک طرح بول بھی نہ پایا۔ ماہین کا ہنستا مسکراتا چہرہ اس کی نگاہوں میں آسمایا۔
’’ہاں وہ ہنستی مسکراتی لڑکی منوں‘ مٹی تلے محو خواب ہے اب‘ وہ نہیں چاہتی تھی کہ تمہاری زندگی اداسیوں اور آنسوئوں میں گھر جائے اور وہ کسی اور سے پیار کرتی تھی وہ نہ مرتی تو بھی تم سے تو ہر گز شادی نہ کرتی۔ وہ جانتی تھی تم بھی طوبیٰ سے پیار کرتے تھے وہ خود کو طوبیٰ کا مجرم سمجھنے لگی تھی۔ ماہی تمہیں اور طوبیٰ کو ایک ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ تم اسے بھلا کر طوبیٰ سے شادی کرلو کیونکہ طوبیٰ تم سے بہت پیار کرتی ہے اور تم بھی تو طوبیٰ پر جان چھڑکتے تھے۔ ماہی کے آنے پر تم نے طوبیٰ کو ہر طرح سے نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا اور یہ بات ہم سب نے محسوس کی تھی لیکن ماہی کو تمہارا یہ رویہ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ تم نے بھی تو ماہین کے یہاں سے جانے کے بعد کینیڈا فون کیا تھا۔ ان لوگوں نے تمہیں صرف یہی بتایا کہ ماہی گھرپر نہیں ہے۔میں نے ہی انہیں منع کیاتھا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے تم سے ماہین کی موت کی خبر چھپائی جائے۔ اب جب ساری حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے تو تم ماہی کے والدین کو فون کرلینا تعزیت کے لیے اور ماہی کی مغفرت کے لیے دعا کرو اور خود کو اس غم سے جتنی جلدی ہوسکے باہر نکال لو اور طوبیٰ کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرو مگر اس سے پہلے طوبیٰ کو منانا پڑے گا تمہیں کیونکہ تم نے ناصرف اسے بہت دکھ دیا ہے بلکہ اس کی بے عزتی بھی کی ہے اور تمہاری یہ بات ماہی کو بھی پسند نہیں تھی۔‘‘
سائرہ نے اسے گم سم بیٹھے دیکھ کر سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی اور اسے تنہا چھوڑ کر چلی گئیں۔
اس لمحے انس کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ واقعی تنہا رہ گیا ہے‘ وہ ایک ایسے راستے پر چل نکلا تھا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ وہ سراب اور خواب کے خار زار میں شکستہ پا کھڑا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ واپسی کا سفر بہت مشکل اور کٹھن ہے اور اس کے دامن میں اشکِ ندامت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اسے ماہین کی موت نے شدید دکھ اور صدمے سے دوچار کیا تھا۔ وہ دن بھر روتا رہا‘ اس کی باتیں یاد کرتا رہا‘ اسے اب سمجھ میں آرہا تھا کے ماہین بار بار کہاں واپس جانے کی بات کررہی تھی۔ اس کی ذومعنی باتوں کا مطلب انس کو اب سمجھ آیا تھا۔ کتنی زندہ دل لڑکی تھی۔ اسے اپنی موت کا علم تھا کہ کبھی بھی آسکتی ہے پھر بھی زندگی انجوائے کررہی تھی‘ ہنستی مسکراتی سب سے اپنی بیماری اور تکلیف چھپاتی رہی اور کتنی خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔
اسے اب یاد آرہا تھا طوبیٰ اور سب گھر والے اس کے جانے کے بعد رو کیوں رہے تھے۔ وہ سب اس کی موت کے غم میں رو رہے تھے۔ درودیوار نے بھی موت کی سوگواری‘ ماہین کی ابدی جدائی کے غم میں چھپائی ہوئی تھی۔سائرہ نے اسے اس غم سے بچانے کے لیے ہی ماہین سے شادی کی مخالفت کی تھی اور طوبیٰ کا دل کیسے توڑ دیتیں وہ۔ انس کوماں کے ساتھ اپنے رویئے پر بدگمانی و بدتمیزی پر دلی شرمندگی کا احساس ہورہا تھا۔
’’یا اللہ! یہ مجھ سے کیا ہوگیا؟ میں نے اپنی محبت کرنے والی ماں پر شک کیا‘ ان کا دل دکھایا انہوں نے تو میرا بھلا چاہا تھا۔ میں ہی عقل کا اندھا تھا۔ سب کا دل دکھایا میں نے‘ سب کا مان توڑا ہے میں نے۔ مجھے معاف کردے اللہ پاک!‘‘ انس نے روتے ہوئے دعا مانگی اور پھر رات کو سونے سے پہلے سائرہ سے بھی اپنے رویئے کی معافی مانگ لی تھی۔ سائرہ نے اسے گلے لگا کر پیار کیا تو وہ روپڑا۔
’’تم نے سب سے زیادہ طوبیٰ کو دکھی کیا ہے‘ اسے بھی منالینا۔‘‘
’’طوبی!‘‘ انس کے لبوں سے نکلا دل میں اک ٹیس سی اٹھی۔ اسے یا آرہا تھا جن دنوں وہ ماہین کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ طوبیٰ نے اس سے ایک بار کہا تھا۔
’’انس! تم بدل گئے ہو‘ مجھے بھول گئے ہو‘ سارا وقت تم ماہی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہو۔‘‘
’’تم جیلس ہورہی ہو۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’نہیں مجھے تکلیف ہورہی ہے تمہارے اس رویئے سے۔‘‘ طوبیٰ نے کہا تھا۔
انس بے چینی سے اٹھا اور راحیل ولا چلا آیا۔
طوبیٰ لائونج میں بیٹھی قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ وہ اس کے برابر میں سوفے پر آبیٹھا۔ طوبیٰ نے اسے حیرت سے دیکھا کتنے دنوں بعد اس کی صورت دیکھی تھی اور اس وقت وہ بہت اجڑا‘ اجڑا ‘ شکست خوردہ اور مضمحل دکھائی دے رہا تھا۔
’’ماہین تو بہت زندہ دل تھی‘ ہنستی مسکراتی زندگی سے بھرپور لڑکی تھی‘ پھر اتنی جلدی کیوں بلالیا‘ اللہ نے اسے؟‘‘ انس نے خود ہی بات شروع کی۔ طوبیٰ نے قرآن پاک بند کرے جزدان میں لپیٹا اور گہرا سانس لبوں سے خارج کرکے بولی۔
’’اچھے لوگ اللہ کو بھی پیارے ہوتے ہیں نا۔‘‘
’’تمہیں سب پتا تھا‘ تم نے بھی مجھے کچھ نہیں بتایا؟‘‘انس نے طوبیٰ کے نکھرے اجلے چہرے کو دیکھتے ہوئے شکوہ کناں لہجے میں کہا۔
’’تمہارے پاس میری بات سننے کے لیے وقت ہی کہاں تھا‘ تم تو مجھے ہی قصور وار سمجھتے تھے نا۔‘‘
’’تمہاری شکایت بجا ہے‘ میں تمہارا مجرم ہوں‘ دل دکھایا ہے میں نے تمہارا۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔ تم تو جانتی ہو‘ نا میں ایسا ہی ہوں‘ بے پروا‘ بے حس اور اپنی مرضی کرنے والا۔ کوشش کروں گا اپنی ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرسکوں۔ چلتا ہوں۔‘‘ انس نے دھیمی آواز میں کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ طوبیٰ کی آنکھوں سے بے اختیار ہی آنسو چھلک پڑے تھے۔
’’میں نے تمہیں تمہاری ہر خطا‘ ہر زیادتی کے لیے معاف کیا انس رحمان کیونکہ محبت کرنے والا دل محبوب سے بدلے کی خواہش نہیں رکھتا۔‘‘ طوبیٰ نے دل میں اسے مخاطب کرکے کہا تھا۔
…٭٭٭…​
’’انس بیٹا! یہ خط ماہی تمہارے لے دی گئی تھی۔‘‘
اگلے روز جب وہ روزہ افطار کرکے اپنے کمرے میں جارہا تھا تو سائرہ نے اسے ایک لفافہ دیتے ہوئے کہا۔
’’خط!‘‘ انس نے حیرت سے انہیں اور پھر لفافے کو دیکھا اور لفافہ ان کے ہاتھ سے لے کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ بیڈ پر آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بعد اس نے لفافہ چاک کیا۔ کاغذ نکالا اور اس کی تہہ کھول کر پڑھنے لگا‘ ماہین نے لکھا تھا۔
’’ڈئیر انس!
تم بہت اچھے ہو مگر کبھی کبھی بہت بے پروا ہوجاتے ہو‘ حقیقت سے نظریں چراتے ہو جو کہ غلط ہے۔ میں جانتی ہوں بلکہ سبھی جانتے ہیں کہ تم اور طوبیٰ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہو‘ تم نے مجھ سے کہا تھا ہم صرف دوست ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ تم دونوں کی یہ دوستی پیار میں بدل چکی ہے‘ ہے نا اور تم میری وجہ سے طوبیٰ کو نظر انداز کرکے دل پھینک مرد ہونے کا ثبوت دے رہے ہو۔ طوبیٰ کا دل دکھارہے ہو‘ یہ بے وقوفی مت کرو انس! تم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو‘ جو محبت تمہاری ہے تمہیں مل سکتی ہے اسے چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ رہے ہو جو تمہاری نہیں ہے۔ جس راستے کی کوئی منزل نہ ہو اس پر زیادہ دیر چلنا ٹھیک نہیں ہو تا۔ سمے سے پلٹ جانا ہی عقل مندی ہے انس رحمان! تمہاری منزل تمہارے قریب ہے اسے خود سے دور مت کرو‘ ورنہ خالی ہاتھ رہ جائو گے۔ میری کسی بات سے تمہیں دکھ پہنچا ہو تو مجھے معاف کردینا اور ہاں طوبیٰ سے بھی معافی مانگ لینا۔ تم نے اس کامان توڑا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ طوبیٰ تمہارا مان کبھی نہیں توڑے گی۔ تم دونوں کی خوش گوار اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے دعاگو!
ماہی!‘‘
’’شکریہ ماہی! تم نے مجھے آئینہ دکھا دیا۔ میں جانتے بوجھتے حقائق سے نظر چرا رہا تھا۔ کھیل سمجھ لیا تھا میں نے محبت کو۔ آج طوبیٰ سے تو کل ماہی سے اور پھر کسی اور سے‘ بہت بُرا ہوں میں۔ طوبیٰ کو بہت دکھ دیا ہے میں نے۔‘‘
انس نے بھیگی آنکھوں سے خط کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ماہین کی مغفرت کے لیے فاتحہ خوانی کی۔
محبت ٹھہر گئی ہے نہ ابتداء کی طرح ہے
نہ انتہا کی طرح
انس اپنے رویئے کی وجہ سے سبھی سے شرمندہ تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ خود سے بھی نظریں نہیں ملا پارہا تھا۔ اسے اپنے کردار کی اس خامی پر ندامت ہورہی تھی۔ اسے رہ رہ کر طوبیٰ کے ساتھ گزرے ماہ وسال کے حسین و خوش گوار لمحات یاد آرہے تھے۔ اپنی اس کے لیے بے چینیاں‘ بے قراریاں یاد آکے شرمسار کررہی تھیں۔ وہ جو ہر روز اس سے ملتا تھا‘ اس کے ساتھ ہنستا بولتا تھا‘ اب کتنے ہفتوں سے اس کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی اس نے۔ اسے احساس ہورہا تھاکہ طوبیٰ کے ساتھ محض دوستی نہیں تھی‘ محبت تھی۔ گہری اور شدید محبت۔ وہ جو کچھ اس سے کہتا تھا اس کے لیے محسوس کرتا تھا وہ سب دوستی کا احساس نہیں تھا بلکہ محبت کا جذبہ تھا۔ وہ تو اس سے جدا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا پھر کیسے اس نے طوبیٰ کو صرف دوست قرار دے دیا تھا۔ کیسے اسے ماہین کے آتے ہی نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کی بے عزتی کرنے سے بھی دریغ نہیںکیا تھا اور اسے قصووار سمجھنے لگا تھا کہ اس کی وجہ سے مام اور ماہین دونوں نے اس کی مخالفت کی‘ ماہین سے شادی کے معاملے میں۔ وہ کتنا غلط سوچ رہا تھا طوبیٰ کے بارے میں‘ اس نے ایک سے دوسری بات اس سے شکوہ گلہ تک نہیں کیا تھا کہ اس نے اس کا مان ہی کب رکھا تھا۔
’اوہ میرے خدایا! میں کتنا بُرا ہوں‘ سنگدل ہوں‘ میں نے طوبیٰ کا دل دکھایا ‘ جسے دیکھ کے میری صبح‘ میری رات ہوتی تھی‘ جس سے بات کیے بنا مجھے چین نہیں آتا تھا۔ جس کو دیکھے بغیر میرا دن نہیں گزرتا تھا‘ اسے کیسے میں نے اتنی آسا نی سے صرف دوست کہہ کر نظر انداز کردیا ہے‘ ماہی کیا بہت حسین تھی‘ طوبیٰ میں کیا کمی تھی؟‘‘ وہ خود سے الجھ رہا تھا‘ سوال کررہا تھا اور خود ہی جواب بھی دے رہا تھا۔
’’طوبیٰ میں کوئی کمی نہیں ہے‘ کمی تم میں ہے۔ تمہاری محبت اتنی کمزور تھی کہ تم آسانی سے ماہین کی طرف متوجہ ہوگئے۔ برسوں کی محبت اور سنگت کو تم نے لمحوں میں بھلا دیا۔ کتنا دکھ ہوا ہوگا طوبیٰ کو‘ تمہارے اس رویئے سے۔ کیسے منایا تھا تم نے اسے آخری بار روٹھنے پر‘ تم مسلسل اسے تکلیف دیتے آرہے ہو‘ کیا وہ تمہیں دل سے معاف کرسکے گی؟ تمہیں پھر سے قبول کرسکے گی؟ تمہاری اس بے وفائی‘ بے حسی اور بے پروائی کو بھلا سکے گی وہ؟‘‘ انس خود سے سوال کررہا تھا بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔
’’میں طوبیٰ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا‘ میں اس کے لائق ہی نہیں ہوں۔ یا اللہ مجھے معاف کردے‘ ہدایت دے‘ نیک اور اچھا انسان بننے کی توفیق عطا فرما۔ رمضان کے اس رحمتوں اوربرکتوں والے مہینے میں مجھ سے ہر برائی‘ خامی کو دور فرمادے۔ میرے گناہ‘ میری خطائیں‘ میری غلطیاں معاف فرمادے۔ مجھے سکون بخش دے‘ میرے دل کو قرار دے دے‘ آمین۔‘‘ انس نے روتے ہوئے ہاتھ پھیلا کر ربّ کے حضور فریاد کی۔
…٭٭٭…​
’’انس بیٹا! شام کو تیار ہوجانا تمہارے ماموں کے گھر افطار ڈنر پر جانا ہے۔‘‘ سائرہ نے اسے آفس سے گھر آنے پر بتایا۔
’’طوبیٰ کے گھر…؟‘‘ اس کی زبان سے پھسلا۔
’’ہاں۔‘‘
’’مام! طوبیٰ کیسی ہے؟ یہاں نہیں آتی وہ؟‘‘
’’یہاں وہ تمہارے لیے آتی تھی جب تم نے ہی اسے غیر اہم‘ بے وقعت اور بے مول کردیا تو وہ یہاں آکر کیا کرے گی؟ اس کی بھی کوئی عزت نفس ہے‘ آن ہے‘ انا ہے‘ تم نے تو اسے بہت تکلیف دی ہے انس! اس کا دل‘ اس کی روح تک زخمی کردی تم نے۔‘‘ سائرہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جانتا ہوں مام!‘‘ وہ شرمندگی سے نظریں جھکاکے بولا۔
’’تو اس سے معافی مانگ لو‘ اسے منالو بیٹا! کیونکہ تم اس کے بغیر کبھی خوش نہیں رہ سکو گے‘ یہ بات تم بھی اچھی طرح سمجھتے ہو‘ جانتے ہو۔‘‘
’’اب کس منہ سے اس کے سامنے جائوں گا مام! میں نے تو اس کا مان ہی توڑ دیا‘ اس کا بھروسا چکنا چُور کردیا۔ اس کی محبت کو یکسر بھلا دیا‘ میں معافی کے لائق ہی نہیں ہوں۔‘‘ اس نے دلگیر لہجے میں کہا۔
’’انس!‘‘ سائرہ بیٹے کی حالت پر تڑپ اٹھیں اور وہ رکا نہیں تھا‘ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
…٭٭٭…​
’’طوبیٰ! بیٹا وہ نادم ہے‘ شرمندہ ہے اپنے کیے پر تم نے اگر اسے معاف نہ کیا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرسکے گا۔ وہ بدل گیا ہے‘ احساسِ ندامت نے تمہارا دل دکھانے کے احساس نے اسے توڑ کے رکھ دیا ہے۔ وہ کچھ دیر کے لیے بھٹک گیا تھا‘ اب واپس پلٹنا چاہتا ہے اپنی غلطی اور زیادتی کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ بیٹا! اسے ایک موقع اور دے دو ‘ سنبھال لو ورنہ وہ بکھر جائے گا۔‘‘ سائرہ نے طوبیٰ کے پاس آکر رسانیت سے اسے کہا۔ طوبیٰ بے قرار ہوگئی تھی‘ انس کو وہ کبھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اب اندھا دھند اس کے پیچھے بھاگنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
’’میں نے اسے معاف کردیا ہے اگر وہ مجھے صرف دوست سمجھتا ہے تو میں دوست ہی سہی‘ اس کے علاوہ میں انس سے کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتی۔ وہ مرد ہے اس کا کیا بھروسا کل پھر کسی اور حسینہ کی طر ف مائل ہوجائے۔ اب بھی اگر ماہی کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو وہ اسی کو اپنانے کی ضد کررہا ہوتا آپ سے الجھ ہورہا ہوتا‘ مجھ سے شادی کرنے سے تو وہ خود کئی بار کھلے لفظوں میں انکار کرچکا ہے۔ پھوپو کیا میری کوئی عزتِ نفس نہیں ہے‘ میری کوئی انا‘ حیثیت‘ اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی نا جب دل چاہا پیار جتادیا جب دل کہیں اور مائل ہوا تو دھتکار دیا‘ نظر انداز کردیا‘ کسی فالتو اور بے کار شے کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ میرا دل دکھایا ہے اس نے‘ مذاق اڑایا ہے اس نے میرا‘ میری محبت کا۔ اس سب کے باوجود میں نے اسے معاف کردیا کیونکہ میں اس سے آج بھی محبت کرتی ہوں اور میں محبت میں تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کی قائل نہیں ہوں ۔ میرے لیے ایک محبت ہی کافی ہے۔‘‘ طوبیٰ نے نہایت سنجیدہ مگر نرم لہجے میں تفصیل سے جواب دیا۔
’’میں جانتی ہوں چندا! تمہیں بھی اور انس کو بھی‘ تم دونوں ایک دوسرے کے بنا کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ بیٹا! صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے اور ابھی تو شام نہیں ہوئی۔‘‘
’’ہاں ابھی تو دوپہر ہی ہوئی ہے۔‘‘ طوبیٰ نے دوپہر کے ڈھائی بجاتی وال کلاک پر نگاہ ڈال کر کہا تو سائرہ ہنس دیں۔
…٭٭٭…​
شام کو انس افطار ڈنر پر راحیل ولا جانے کے بجائے اپنے کسی کولیگ کے گھر افطار پارٹی میں شرکت کے لیے چلا گیا تھا‘ صرف طوبیٰ سے نظریں ملانے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں‘ اس لیے اس سے بچنے کے لیے وہ وہاں نہیں آیا تھا ورنہ کو لیگ کی افطار پارٹی میں جانے کا اس کا کوئی موڈ تھا نا ہی ارادہ۔ طوبیٰ کو انس کے نا آنے پر بہت دکھ ہوا تھا۔ اسے انتظار تھا کہ وہ آکر معافی مانگے گا اور وہ اسے معاف کردے گی پھر وہ اچھے دوستوں کی طرح ہوجائیں گے مگر اس نے نا آکر اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔

’’انس! اگر تم اس طرح بچتے رہو گے تو ہم کبھی نہیں مل پائیں گے۔‘‘ طوبیٰ نے دل میں کہا تھا۔
…٭٭٭…
رمضان المبارک کے مہینے میں اس بار تو انس بھی شدید گرمی کے باوجود پورے روزے رکھ رہا تھا۔ ورنہ وہ اکثر روزے چھوڑ دیا کرتا تھا‘ اس بار اپنی غلطیوں کا احساس طوبیٰ کو کھودینے کا خوف اسے اللہ کے قریب لے گیا تھا۔ نماز پانچ وقت پڑھ رہا تھا‘ تراویح بھی‘ قرآن پاک کی تلاوت بھی معمول کا حصہ بن گئی تھی۔ بس اللہ سے معافی اور اپنی محبت مانگ رہا تھا۔
طوبیٰ کے خیال میں کئی بار ٹیرس پر جاتا وہ نظر نہ آتی۔ اپنے موبائل فون کی میسج ٹون اس خیال سے چیک کرتا شاید طوبیٰ نے اسے یاد کیا ہو مگر ہر بار اسے مایوسی ہوتی۔ اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ جو اس نے طوبیٰ کے لیے سائرہ سے کہے تھے شرمندگی میں مبتلا کردیتے تھے اور طوبیٰ یہ سوچ رہی تھی کہ تین دن سے زیادہ کی ناراضی کی اجازت تو مذہب بھی نہیں دیتا اور وہ تقریباً دو ماہ سے ایک دوسرے سے ناراض تھے‘ بول چال بند تھی۔ اس مبارک مہینے میں جہاں وہ عبادت کررہی تھی تو دل میں خدا کا خوف بھی محسوس کررہی تھی۔
’’انس! اگر شرمندہ ہے تو مجھے اسے مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘ طوبیٰ نے دل میں سوچا اور صبح کے چھ بج رہے تھے جب اس نے انس کے موبائل پر صبح بخیر کا ایس ایم ایس بھیجا۔
روشنی تیرے تعاقب میں چلی آئی ہے تیرے در تک
اب اٹھ بھی جاکہ صبح تیرے انتظار میں ہے
انس نے میسج ٹون سنتے ہی موبائل اٹھا کر چیک کیا تو طوبیٰ کا نام اور پیغام دیکھ کر جیسے اس کے بدن میں بجلی سی بھر گئی تھی۔ وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’طوبیٰ… اٹس یو طوبیٰ…‘‘
انس نے بے قراری سے خوشی سے اس کو مخاطب کیا اور تیزی سے بستر سے اتر کر ٹیرس کی طرف بھاگا۔ طوبیٰ اپنے گھر کی ٹیرس پر موجود تھی۔ انس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہ سراپا ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔ طوبیٰ کادل بھی اسے اتنے عرصے بعد دیکھ کر جھوم اٹھا تھا۔ اتنے قریب ہوکر ان کے بیچ کیسے صدیوں کے فاصلے در آئے تھے۔ اس خیال نے طوبیٰ کو پھر سے دکھی کردیا۔ وہ جانے لگی تو انس جیسے ہوش میں آگیا اور بے اختیار اسے پکار اٹھا۔
’’طوبیٰ!‘‘
طوبیٰ کا دل اس کی پکار پر تڑپ اٹھا وہ پلٹی تو انس نے پہلے اپنے دونوں کان پکڑے پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔
’’مجھے معاف کردو پلیز…!‘‘
’’کردیا معاف خوش!‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ گہرا طویل سانس لبوں سے خارج کرکے مسکراتے ہوئے بولا۔
’’ہاں خوش‘ شکریہ طوبی! تم بہت اچھی ہو۔‘‘
’’چلو شکر ہے تمہیں احساس تو ہوا۔‘‘ یہ کہہ کر طوبیٰ واپس چلی گئی۔ انس مسکرادیا‘ اس نے اسے معاف کردیا تھا تو دل سے ایک بوجھ ہٹ گیا تھا۔
وہ بہت خوش تھا۔ رات کو نمازِ تراویح کے بعد وہ مارکیٹ چلا گیا اور طوبیٰ کے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کرکے گھر لوٹا۔
’’انس بیٹا! یہ سب کیا ہے؟‘‘ سائرہ نے انس کو مسکراتے اور شاپنگ بیگز کے ساتھ آتے دیکھ کر پوچھا تو اس نے شاپنگ بیگز میز پر رکھتے ہوئے بتایا۔
’’ممی! یہ سب طوبیٰ کے لیے ہیں۔ مام! اس نے مجھے معاف کردیا اور میں یہ ساری شاپنگ اس کے لیے کرکے آیا ہوں۔ اسے کل عید پر گفٹ کروں گا۔‘‘
’’ہوں‘ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بیٹا! اچھا ہے تم دونوں کی ناراضی ختم ہوگئی ویسے بھی کل تو عید کے علاوہ بھی طوبیٰ کے لیے بہت خاص موقع ہے یادگار دن ہے۔‘‘ سائرہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ سوفے پر بیٹھ کر انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
’’ایسا کیا ہے کل؟‘‘
’’کل طوبیٰ کا نکاح ہورہا ہے اس کی شادی طے ہوگئی ہے نا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ انس ایک دم سے شاکڈ رہ گیا۔
’’ہاں تم اس روز اپنے ماموں کے گھر افطار ڈنر پر جاتے تو طوبیٰ کے ہونے والے شوہر سے بھی مل لیتے‘ بہت اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے وہاب!‘‘ سائرہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
’’تو کیا میں بُرا اور بگڑا ہوا لڑکا ہوں۔‘‘ انس نے ٹوٹتے لہجے میں سوال کیا۔ طوبیٰ سے صلح کی ساری خوشی پر پانی پھر گیا تھا‘ وہ نجانے کیا کچھ سوچ کر آیا تھا اس کے لیے۔
’’ارے تمہارا اس سے کیا مقابلہ تم تو اپنے گھر کے لڑکے ہو۔‘‘ سائرہ نے شیر خورمے کے لیے بادام اور پستے کاٹتے ہوئے کہا۔
’’جبھی باہر کے لڑکے کو طوبیٰ کے منتخب کرلیا نا۔‘‘
’’تم نے بھی تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ طوبیٰ کی شادی کریں اور میری جان چھڑائیں اس سے۔ میں طوبیٰ سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘‘ سائرہ نے اسے یاد دلایا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’دماغ خراب ہوگیا تھا میرا۔ آپ جانتی تھیں کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں‘ پھر بھی آپ نے طوبیٰ کو کسی اور کا ہونے دیا۔‘‘
’’بیٹا! جب انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو اسی وقت اسے سدھارنے اس کی معافی تلافی اور ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دیر کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تم نے بھی بہت دیر کردی بیٹا! بلکہ تم تو اب بھی طوبیٰ کو مخاطب نہ کرتے وہ تو اس نے ہی پہل کی ہے کہ عید اور شادی کے موقع پر تم ناراض اور الگ تھلگ نہ دکھائی دو۔ سبھی تمہارے لیے پریشان جو ہیں۔‘‘ سائرہ نے سنجیدہ مگر نرم لہجے میں سمجھایا۔
’’مام! اگر طوبیٰ مجھے نہ ملی نا تو میں سچ میں خود کو شوٹ کرلوں گا۔ دیکھتا ہوں وہ کیسے کسی اور کی دلہن بنتی ہے‘ اس کے نام کے ساتھ صرف میرا نام لکھا جائے گا۔‘‘
’’انس! کہاں جارہے ہو؟ خدا کے لیے اب کچھ غلط مت کردینا۔‘‘ وہ تیزی سے اپنی بات مکمل کرکے باہر نکلا تھا‘ سائرہ فکر مندی سے اسے پکارتی رہ گئیں۔
…٭٭٭…
طوبیٰ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دھوکر آئی تھی۔ سرخ اور گہرا چڑھا وہ ہاتھوں کو ناک کے قریب لے جاکر مہندی کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اتار رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور انس اپنا سرخ چہرہ لیے اندر داخل ہوا۔طوبیٰ نے اس کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر استفسار کیا۔
’’اب کیا پھر لڑنے آئے ہو‘ جو منہ لال پیلا ہورہا ہے؟‘‘
’’ہاں لڑنے آیا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کل تمہارا نکاح ہورہا ہے؟‘‘ وہ اس کے قریب چلا آیا۔
’’ہاں۔‘‘ وہ شرمیلے پن سے مسکراتی اسے تڑپا گئی۔
’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ اسے اپنا شکوہ کمزور سا لگا‘ پھر بھی کر بیٹھا۔
’’اب تو پتا چل گیا ہے نا‘ اب کون سا تم میرے لیے ہار پھول لیے آئے ہو؟‘‘
طوبیٰ نے اپنی کلائی میں پہنی سرخ سبز چوڑیوں کو چھیڑتے ہوئے جواب دیا۔
’’تم جانتی ہو میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔‘‘
’’مجھے اب ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ہے ویسے بھی تم ہی چاہتے تھے نا کہ میری شادی ہوجائے اور تمہارا راستہ صاف ہوجائے۔ جان چھوٹ جائے تمہاری مجھ سے اور تم مجھ سے وہ پیار نہیں کرتے جو تمہیں مجھ سے شادی کرنے پر مجبور کردے۔ یہی کہا تھا نا تم نے؟‘‘ طوبیٰ نے اس کی باتوں کے آئینے میں اسے اس کا چہرہ دکھایا تو ندامت اور پچھتاوے کا احساس اس کے روم روم میں سرائیت کرگیا وہ بلبلا اٹھا اور چیخ کر بولا۔
’’ہاں یہی بکواس کی تھی میں نے۔ پاگل ہوگیا تھا میں‘ دماغ خراب ہوگیا تھا میرا۔ دل دکھایا ہے میں نے تمہارا۔ تمہاری عزتِ نفس‘ آن‘ انا پر کاری ضرب لگائی ہے میں نے۔ میں مانتا ہوں کہ میں نے تمہاری محبتوں کا مذاق اڑایا ہے۔ شرمسار ہوں میں اپنے کیے پر اور کہے پر۔ بہت تڑپا ہوں‘ رویا ہوں‘ بے چین رہا ہوں تمہیں دکھی کرکے پلیز اس سب کی مجھے اتنی بڑی سزا تو مت دو۔ معاف کردو مجھے۔‘‘
’’میں تمہیں معاف کرچکی ہوں انس! تم بھی بھول جائو ‘ جو کچھ ہوا‘ ہم اچھے دوست تھے اور ہمیشہ اچھے دوست ہی رہیں گے۔‘‘ طوبیٰ نے اس کی تڑپ اور احساسِ ندامت پُرسکون کا سانس لے کر کہا وہ یہی چاہتی تھی کہ اسے احساس ضرور ہوجائے۔
’’صرف دوست۔‘‘ وہ تڑپ کر اس کا رخ اپنی جانب کرکے بولا۔ تو وہ نظریں چراگئی۔ انس نے جذباتی اور بے قرار لہجے میں کہا۔
’’شادی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے‘ تمہارے نام کے ساتھ صرف میرا نام آئے گا‘ میرے جیتے جی تو تمہیں کوئی اور بیاہ کر نہیں لے جاسکتا۔‘‘
’’انس!بچوں کی سی باتیں مت کرو‘ میں کوئی کھلونا نہیں ہوں کہ جب تمہارا دل چاہا مجھ سے کھیل لیا جب دل بھر گیا یا کوئی نیا کھلونا ہاتھ لگ گیا تو اٹھا کرباہر پھینک دیا۔ تمہارا کیا اعتبار کل پھر کسی حسینہ پر فدا ہوجائو اور میں تمہیں اپنی کوئی بھول لگنے لگوں‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم مجھ سے شادی کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دو۔‘‘ طوبیٰ نے خود کو مضبوط بناتے ہوئے دلگیر لہجے میں کہا۔
’’طوبیٰ! تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتیں‘ تم تو اتنی سنگدل نہیں ہو‘ تم مجھے اچھی طرح جانتی ہو۔ معافی مانگ تو رہا ہوں اپنی زیادتیوں کی‘ اب کیا جان لوگی میری؟‘‘ انس روہانسا ہوگیا تو طوبیٰ کی بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔
’’میرے ہاتھ اب کچھ بھی نہیں ہے‘ جائو جاکے امی ابو سے بات کرو… لیکن۔‘‘
’’لیکن کیا طوبیٰ! پلیز طوبیٰ معاف کردو‘ میں اب ہر بات‘ ہر شرط مانوں گا۔‘‘ وہ بے قراری سے اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔
’’آئندہ تم کبھی میرا مان‘ میرا دل نہیں توڑو گے۔‘‘
’’نہیں توڑوں گا وعدہ… پکا وعدہ! شکریہ طوبیٰ آئی لویو‘ رئیلی لویو۔‘‘ انس نے بے اختیار اس کا ہاتھ چوم لیا۔
’’پاگل!‘‘ طوبیٰ نے سٹپٹا کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
’’تو کیا خیال ہے بیٹا! اس پاگل سے آپ کی شادی کردی جائے۔‘‘ اسی وقت دروازہ کھلا اور راحیل بیگ سمیت سبھی گھر والے اندر داخل ہوگئے‘ وہ دونوں بُری طرح سٹپٹا گئے۔
’’ابو وہ… یہ…‘‘ طوبیٰ کچھ بول ہی نہ پائی۔
’’ہم نے سب سن لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم دونوں کا نکاح آج اور ابھی ہوگا۔‘‘ راحیل بیگ نے طوبیٰ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے مسکرا کر اعلان کیا تو انس کی جان میں جان آگئی۔
’’شکریہ ماموں جان! بہت بہت شکریہ!‘‘ انس بے اختیار فرطِ مسرت سے راحیل بیگ سے لپٹ گیا سب خوشی سے ہنس پڑے۔
’’سنیے! وہاب میاں کے گھر والوں کو فون کرکے چاند رات کی مبارک باد دے دیں اور انہیں بتادیں کہ ہم طوبیٰ کی شادی انس سے کررہے ہیں۔ شکر ہے ہم نے انہیں نکاح کی تاریخ نہیں دی تھی وہ توکل تاریخ طے کرنے آرہے تھے۔‘‘
طیبہ نے راحیل بیگ سے کہا تو انس نے سائرہ کی طرف دیکھا اور ان کی مسکراہٹ نے اسے سمجھادیا کہ انہوں نے چھوٹا سا جھوٹ اس کے جھنجوڑنے کے لیے بولا تھا اور جس نے واقعی کام کردکھایا تھا۔
اور تھوڑی ہی دیر بعد چاند رات کے خوب صورت لمحات میںطوبیٰ اور انس کا نکاح ہوگیا۔ قبول و ایجاب کی رسم ادا ہوتے ہی انس سجدۂ شکر ادا کرنے چلا گیا۔ طوبیٰ نے اس کی معذرت اور محبت قبول کرکے اس کا مان رکھ لیا تھا وہ بہت زیادہ خوش تھا۔
’’چاند رات مبارک… شادی مبارک اور عید مبارک ہو مسز طوبیٰ انس کو…!‘‘
رات کے تین بج رہے تھے جب انس کی پیار بھری سرگوشی نے طوبیٰ کے دل کے تار بجادیئے۔ وہ اسے اس وقت اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی۔
’’انس! تم اس وقت یہاں۔‘‘
’’اب تو میں کسی بھی وقت تمہارے پاس آسکتا ہوں۔‘‘ انس نے اسے اپنی بانہوں کے حلقے میں لیتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’انس پلیز چھوڑو مجھے۔‘‘ وہ اس کی بانہوں میں کسمسائی۔
’’آخری سانس تک نہیں چھوڑوں گا تمہیں‘ جانتا ہوں تم بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہو۔‘‘
’’جی نہیں‘ میں نے صرف اس لیے تمہاری بات رکھی ہے تاکہ تمہارا مان رہ جائے۔‘‘ طوبیٰ نے اسے ستانے کو کہا۔
’’اچھا جی!‘‘ انس اس کی شرارت سمجھ کر مسکرایا۔
’’ہاں جی!‘‘ وہ ہنسی تھی۔
طوبیٰ آج کے بعد تمہیں میری ذات سے کبھی کوئی دکھ‘ تکلیف نہیں ہوگی۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے۔ اب تو کہہ دو آئی لویو…!‘‘ انس نے سنجیدگی سے دل سے کہا تو اسے ہنسی آگئی۔
’’انس ! میں بہت خوش ہوں یہ عید میری زندگی کی یادگار اور خوش گوار عید ہوگی کیونکہ میری محبت میرے ساتھ‘ میرے پاس ہوگی‘ آئی لو یو انس…!‘‘ طوبیٰ نے خوشی سے بھیگتی آواز میں کہا اور اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔ انس خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس نے فرطِ محبت سے اپنے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھ دیئے۔ عید کا دن ان کی محبتوں کی تجدید کا دن بن کر طلوع ہورہا تھا‘ ان کا مان بڑھ رہاتھا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تم میری عید پیائ… نازیہ کنول نازی
وہ مجھے اس وقت ملا تھا جب
پہاڑوں پر برف پگھل رہی تھی
چیری کے درختوں پر اولین شگوفے پھوٹ رہے تھے
نوخیز خوشبو سے سارا باغ معطر تھا
بلبل نے بس ابھی چہکنا شروع کیا تھا
اپنے بازوئوں میں لیے وہ مجھے
پھولوں بھری وادی میں گھومتا رہا
ہم تتلیاں اور جگنو پکڑتے رہے
بارش اک پیاری دوست کی طرح ہمارا ہاتھ بٹاتی رہی
جس دن درخت سے پہلا پتّا گرا
میں اسے اٹھانے کے لیے جھکی
پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکا تھا
اب میں ٹوٹے ہوئے پتوں میں اپنے آنسو جمع کررہی ہوں
مجھے جان لینا چاہیے تھا کہ میرا اور اس کا ساتھ
بس موسم بہار تک ہی ہے
’’تم انتہائی گھٹیا اور ذلیل شخص ہو حماد!‘‘ وہ ڈرائیو کررہا تھا جب اس کے موبائل اسکرین پر آشنا نمبر سے یہ ایس ایم ایس شو ہوا ‘جواب میں وہ تپ اٹھا۔
’’کیوں بھونک رہی ہو‘ کیا کیا ہے میں نے؟‘‘ ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالے اس نے فوراً سے پیش تر جواب ٹائپ کیا تھا‘ دوسری طرف سارہ اذہان کی بصارتوں کو جیسے یقین ہی نہیں آیا‘ وہ شخص اتنی گھٹیا ٹائپنگ کرسکتا ہے‘ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
’’کیا کیا ہے؟ تماشا بنادیا ہے تم نے مجھے اپنے دوستوں میں‘ کیوں…؟ کیا بُرا کیا تھا میں نے تمہارا صرف ایک اعتبار ہی تو کیا تھا ناں تم پر‘ اس کی اتنی بڑا سزا کیوں؟‘‘
’’بکواس بند کرو‘ جس دوست نے بے غیرتی کی ہے‘ اس کی بہن اس وقت بھی میرے ساتھ ہے‘ میں لاہور میں ہی ہوں۔‘‘
’’جسٹ شٹ اپ!‘‘ ایک پل میں بھرآئی آنکھوں کے ساتھ اس نے ٹائپ کیا تھا‘ تبھی اس کا جواب آگیا۔
’’اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو‘ میرا دماغ خراب مت کرو۔‘‘
’’اپنی اوقات میں ہی رہتی ہوں میں لیکن کاش! تم بھی اپنی اوقات میں رہو۔‘‘کپکپاتی انگلیوں سے ٹائپ کرتے ہوئے اس نے بائیں ہاتھ سے گال رگڑا تھا۔
’’مجھے تمہاری اوقات کا پتا ہے اور تمہیں میری‘ ٹھیک ہے اب دوبارہ میسج مت کرنا۔‘‘ اگلے پل پھر اس کے الفاظ اس کی سماعتوں پر پہاڑ گرا رہے تھے۔وہ روپڑی۔
’’تم نے میرا دل دکھایا ہے حماد! ایک بے لوث‘ بے غرض لڑکی کا اور جو کسی بے لوث بے غرض کا دل دکھاتا ہے اسے خدا کی طرف سے سزا ضرور ملتی ہے‘ وہ بھی کبھی نہ بھولنے والی‘ تمہیں بھی سزا ملے گی کیونکہ تمہارا معاملہ بھی میں اپنے خدا کے سپرد کررہی ہوں۔ بے شک وہی بہتر جاننے اور انصاف کرنے والا ہے۔‘‘
’’میں کیسا ہوں‘ خدا جانتا ہے۔ اب دوبارہ میسج کیا تو اپنی بے عزتی کروائو گی۔‘‘ انتہائی فاسٹ ڈرائیو کے باوجود وہ برابر جواب ٹائپ کررہا تھا‘ سارہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔
’’خدا تمہیں برباد کرے‘ اس سے بڑھ کر تمہارے لیے اور کوئی بد دعا نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’اور تم اپنی نیت سے ہی برباد ہو‘ اتنی اچھی نہیں ہو تم‘ تمہیں پتا ہے۔‘‘
یہ وہ شخص تھا جسے اس نے اپنے لیے بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے دیکھا تھا۔ مگر آج وہی شخص کھل کر اس کے سامنے آرہا تھا‘ سارہ سرد وجود کے ساتھ سن سی بیٹھی رہی‘ اسے جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
بے ساختہ اسے چار ماہ قبل اپنی ماں کے کہے ہوئے الفاظ یاد آئے تھے۔
’’خوب صورت لڑکا ہے‘ بھرپور مرد بھی ہے۔ مگر وہ تیرے معیار کا نہیں ہے سارہ! اس کی دنیا اور ہے‘ اس کی دنیا میں تیرے جیسی سادہ اور حساس لڑکی کی کوئی گجائش نہیں‘ اسی لیے میری بات مان اسے
چھوڑ دے۔‘‘
اور وہ جو اپنی ماں کی رائے پر ساکت رہ گئی تھی‘ کس قدر ہمت کے ساتھ اپنے نفس کے بے قابو گھوڑنے کو نکیل ڈالتے ہوئے اس نے اپنی ماں کے حکم پر سر جھکا دیا تھا۔ وہ شخص جو اس کا خواب‘ اس کی خوشی تھا۔ اس شخص کو اس نے چپ چاپ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا مگر وہ اسے اپنی دعائوں اور محبت کے حصار سے باہر نہیں نکال سکی تھی شاید اس شخص نے اس کی نگاہ میں اپنا مقام ہی ایسا بنا رکھا تھا کہ وہ نظر سے بہت کچھ دیکھنے کے باوجود اس شخص سے نفرت نہیں کرپائی تھی۔
یہ مائوں کے دلوں کے سگنل آخر اتنے درست کیسے مل جاتے ہیں؟
دل میں اٹھتے رنج و غم کے طوفان کو دباتے ہوئے اب وہ لکھ رہی تھی۔
’’میں نے آج تک تمہارا بُرا نہیں چاہا‘ اپنی کسی دوست کو تمہارے بارے میں نہیں بتایا‘ تمہاری ساری حرکتیں جانتے ہوئے کبھی تم سے نفرت نہیں کی لیکن تم نے… تم نے کیا صلہ دیا؟ اپنے باپ کی قسم کھا کر بھی اپنے دوستوں میں کھیل بنادیا تم نے مجھے‘ کیوں؟ میں نے تمہیں دوسرے لڑکوں سے مختلف سمجھا تھا۔‘‘ اس کے لفظوں میں آگ کی لپٹیں تھیں‘ تبھی دوسری طرف سے جواب آیا تھا۔
’’میں نے تمہارے ساتھ کچھ بُرا نہیں کیا‘ میرا خدا جانتا ہے۔‘‘
’’جسٹ شٹ اپ! میں اپنی ماں سے پیار کرتی ہوں‘ میں نے کبھی ان کی جھوٹی قسم نہیں کھائی‘ تمہارا کیسا پیار ہے اپنے باپ کے ساتھ کہ جن کی قسم کھانے کے باوجود تم نے میرا اعتبار توڑ دیا۔ کیا نقصان کیا تھا میں نے تمہارا؟ کیا عیش کیا تھا تمہارے ساتھ جو تم نے مجھ میں اور باقی عیش کرنے والی لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں رکھا‘ مجھے آج تم سے نفرت محسوس ہورہی ہے حماد! بے حد نفرت… اس محبت سے بھی زیادہ نفرت جو میں نے تم جیسے انسان کے ساتھ کی تھی‘ آج مرگئے ہو تم میرے لیے‘ حماد نام سے ہی نفرت ہوگئی ہے مجھے۔‘‘
بند دماغ کے ساتھ جانے وہ کیا کیا ٹائپ کرتی گئی تھی‘ دوسری طرف یکلخت خاموشی چھاگئی‘ صد شکر کہ اس وقت اس کے پاس کوئی نہیں تھا وگرنہ شاید وہ اپنے آنسوئوں کی وضاحت کبھی نہ کرسکتی۔
…٭٭٭…
حماد ایک روایتی جاگیر دار تھا‘ جس کے والد کی وفات اس کے بچپن میں ہی ہوگئی تھی‘ بہت چھوٹی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے سبب وہ بھی بھٹک کر انہی رستوں پر چل نکلا تھا جو سوائے بربادی اور تباہی کے اور کہیں لے کر نہیں جاتے۔
اپنے گھر والوں پر اس کا کنٹرول تھا‘ باپ کے بعد بڑا ہوکر اس نے گھر کی کفالت سنبھال لی تھی تاہم اپنے نفس پر اسے کنٹرول نہیں تھا۔ روایتی جاگیرداروں کی طرح اگر اس کی بہن بنا دوپٹے کے گیٹ تک چلی جاتی تو اس کا خون رگوں میںابلنے لگتا مگر نفس کی غلام اپنی جیسی دوسری پرائی لڑکیوں کو وہ صبح و شام یوں مسل کر پھینکتا تھا جیسے وہ گوشت پوشت کے وجود نہ ہوں کوئی بے جان کھلونے ہوں۔
سارہ اذہان کو نہ اس کی اصلیت کاپتا تھا‘ نا حسب نسب کا۔ وہ اپنی ہی دنیا میں رہنے والی ایک سادہ سی خاموش لڑکی تھی۔ جس کے خواب اس کے جینے کا حاصل تھے۔ ایم اے کرنے کے بعد اس نے تدریس کا شعبہ اپنالیا تھا اور یہیں ایک نئی کہانی شروع ہوئی تھی‘ اس کی اسٹوڈنٹس اس پر جان لٹاتی تھیں‘ انہی جاں نثار طالبات میں سے ایک لڑکی عائشہ تھی‘ جس کا بھائی حماد نامی اس شخص کا دوست تھا۔
اسی کے ذریعے صبح و شام سارہ اذہان کی تعریف سن سن کر اس نے اس کا رابطہ نمبر حاصل کیا تھا حالاں کہ اس کی اپنی چھوٹی بہن بھی سارہ کی طالبہ تھی اور وہ بھی گھر میں اس کا ذکر کرتی تھی مگر وہ اپنی بہن سے فرینک نہیں تھا۔
قدرت نے اسے اچھی شکل و صورت سے نوازا تھا پھر پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی‘ ننھیال کی طرف سے اس کا خاندان سیاست میں بھی ملوث تھا‘ لہٰذا منہ زور گھوڑے کی طرح وہ زمانے کو پائوں تلے روندتا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا۔
شراب‘ شباب‘ سیاحت اور شکار اس کے بہترین مشاغل تھے۔ وہ دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن تھا۔پیسے کے بے دریغ ناجائز استعمال نے اس کے گرد خوشامدی اور مفاد پرست دوستوں کا جمگھٹا لگادیا تھا اور یہی چیز اسے خوشی دیتی تھی۔ عورت کا اس کے نزدیک یہی مقام تھا کہ جیسے بھی ہوسکے پکڑو‘ مسلو اور پھینک دو۔
یہی وجہ تھی کہ اس کی زندگی میں لڑکیوںکی بھی کوئی کمی نہیں تھی‘ خوب صورت سے خوب صور ت‘ طرح دار سے طرح دار لڑکی کو وہ چیلنج سمجھ کر قبول کرتا تھا اوربالآخر اپنا مقصد حاصل کرکے رہتا تھا۔ کالج کی لڑکیاں اس کے حسن اور دولت کی دیوانی تھیں اور وہ اس دیوانگی سے پورا پورا فائدہ اٹھا تا تھا۔ سارہ اذہان کی طرف اس کی پیش قدمی بھی شاید اسی نیت کے تحت تھی تاہم وہ نہ اس کے حسن کی دیوانی تھی‘ نہ دولت کی۔ اس کے اپنے ہی خواب اور ترجیحات تھیں‘جن میں نہ کسی لالچ کا کوئی گزر تھا نہ خواہش کا۔ وہ وقت اور حالات کی ڈسی ہوئی تھی‘ زندگی نے اس کے دل پر اتنے گھائو لگائے تھے کہ اسے جینے سے ہی نفرت ہوگئی تھی مگر پھر بھی وہ جی رہی تھی۔
حماد نامی اس شخص سے اس کا رابطہ چند ماہ قبل ہوا تھا۔ رات کا وقت تھا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ گہری نیند سورہی تھی جب اس شخص نے اسے مسلسل کال کرکے جگادیا۔
’’کون؟‘‘ اسے گہری نیند سے بیدار ہونے کا غصہ تھا مگر پھر بھی وہ تحمل سے بولی تھی تاہم دوسری طرف خاموشی رہی‘ وہ ابھی کال کاٹ رہی تھی جب وہ بول اٹھا۔
’’کاشف!‘‘
’’کون کاشف؟ میں کسی کاشف کو نہیں جانتی؟‘‘
’’نہیں جانتیں تو جان جائیں گی‘ میں تو آپ کو جانتا ہوں ناں۔‘‘ اس کی آواز پُر اثر نہیں تھی‘ وہ تپ گئی۔
’’دیکھیے میں ابھی نیند میں ہوں‘ ابھی بات نہیں کرسکتی‘ پلیز دوبارہ ڈسٹرب مت کیجیے گا۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے۔‘‘
اس نے اس کی بات مان لی تھی‘ تاہم آگے آنے والے دنوں میں اس شخص نے اسے روزانہ ڈھیروں ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ایم ایم ایس میں اسے صرف اپنی تصویریں بھیجنے کا شوق تھا۔
ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود سارہ اس سے قطعی انجان تھی مگر وہ اس سے انجان نہیں تھا ا س کی شخصیت سے لے کر اس کے حالات زندگی تک سب اس کے علم میں تھے۔ عشق و عاشقی کے میدان کا وہ پکا کھلاڑی تھا۔
سارہ اذہان کے لیے اس کے ایس ایم ایس بھی غیر اہم تھے اور ایم ایم ایس بھی مگر وہ زیادہ دیر تک اسے نظر انداز نہیں کرسکی تھی۔
اس روز وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر بستر پر آئی تھی جب اسے اس کے نمبر سے ایک چونکا دینے والا ایس ایم ایس پڑھنے کو ملا۔ اس میسج میں حماد نامی اس شخص کی موت کی اطلاع کے ساتھ اس کی نماز جنازہ اور تدفین کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ سارہ جانتی تھی وہ میسج حقیقت نہیں ہے اور یہ بھی کہ وہ ایسے میسج پہلے بھی پڑھ چکی ہے مگر پھر بھی وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔فطرتاً وہ حساس اور نرم دل لڑکی تھی‘ تبھی پہلی بار اس نے اسے رسپانس دیا تھا۔
’’جسٹ شٹ اپ!‘‘
اور دوسری طرف اس شخص نے اس کے جواب پر بے تحاشا خوش ہوتے ہوئے فوری میسج کیا تھا۔
’’شکریہ! آپ بہت اچھی ہیں قسم سے۔‘‘ وہ سر جھٹک کر رہ گئی مگر اس روز کے بعد وہ شخص اس کے حافظے میں فٹ ہوکر رہ گیا تھا۔ ایک مختصر سی کال کے بعد اس شخص نے اس سے اپنے میسج کے لیے معذرت بھی کی تھی‘ سارہ نے اسے معاف کردیا۔ اگلے روز پھر اس کا میسج آیا تھا۔
’’میں اس وقت ایک کیس کے سلسلے میں عدالت میں ہوں‘ پلیز میرے لیے دعا کیجیے گا۔‘‘ سارہ کو وہ شخص زندگی سے بے زار اور مشکلات میں گھرا ہوا محسوس ہوا تھا۔ تبھی اس نے لکھ دیا۔
’’اللہ رحم کرنے والاہے‘ میری کسی مدد کی ضرورت ہوتو بتایئے گا۔‘‘
وہ ایل ایل بی کرچکی تھی‘ قانون کے دائو پیچ کو باریکی سے سمجھتی تھی تبھی اس کی مدد کے خیال سے اس نے اسے آفر کی تھی جواباً وہ بے حد خوش ہوا تھا۔ اگلے دوروز کے بعد وہ اس سے دوستی کے لیے التجا کررہا تھا مگر سارہ بنا اسے جانے اس سے بات بھی کرنے کی خواہاں نہیں تھی تبھی اس نے فوری اسے سچ بتانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
سارہ کو اس کی سچائی اچھی لگی تھی پھر اپنی اسٹوڈنٹ کے بھائی کا حوالہ بھی قدرے معتبر تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اس سے بات کرنے کی ہامی بھرلی تھی۔ وہ شخص اس کے مان جانے پر خوش تھا‘ بے پناہ خوش۔ بالکل کسی چھوٹے سے بچے کی مانند‘ اس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
سارہ اب اس کی تصویروں کو نظر انداز نہیں کررہی تھی‘ وہ شخص اپنی زندہ دل شخصیت کے سبب اسے دل میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ بات بے بات اس کی نہ رکنے والی ہنسی‘ شرارتیں اور پھر چھوٹی سی بات پر غصہ ہوجانا‘ سب بے حد دلچسپ اور انوکھا تھا۔
سارہ کی ہر بات اس کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی‘ اس سے بات کرتے ہوئے اس کا اپنا ملازمین کے ساتھ رویہ بھی بہت اچھا رہتا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی شان دار اور دلچسپ شخصیت کی گرویدہ ہوتی گئی۔
سردیوں کے دن تھے اور وہ سونے کی تیاری کررہی تھی جب اس روز معمول کے مطابق اس کی کال آگئی۔ روز اس وقت وہ سڑکوں پربے مقصد گاڑی گھماتے ہوئے اس سے بات کرتا رہتا تھا‘ کپاس کا سیزن تھا اور چنائی شروع ہوگئی تھی۔
’’کیسی ہیں آپ؟‘‘
سارہ کے کال پک کرنے پر اس نے پوچھا تھا۔ اس وقت اس کے لہجے میں پہلے سے زیادہ اپنائیت اور محبت تھی‘ وہ باتوں میں لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ چپ ہوگیا تھا۔
’’سارہ ایک بات کہوں‘ آپ ناراض تو نہیں ہوں گی؟‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بالآخر اس نے پوچھا تھا‘ وہ چونک اٹھی۔
’’ناراض نہ ہونے والی ہوئی تو نہیں ہوں گی۔‘‘
’’نہیں… پلیز آپ وعدہ کریں آپ ناراض نہیں ہوں گی۔‘‘ اس کے لہجے میں بہت مٹھاس تھی‘ وہ مسکرادی۔

’ٹھیک ہے نہیں ناراض ہوں گی‘ بتایئے۔‘‘
’’کہہ نہیں سکتا‘ میسج میں لکھ سکتا ہوں۔‘‘ وہ خوش ہوا تھا‘ وہ پھر ہنس دی۔
’’اوکے!‘‘ اسے اندازہ نہیں تھا وہ کیا لکھنے والا ہے مگر پھر بھی اس کادل دھڑک اٹھا تھا۔ ایک منٹ کے بعد ہی میسج بپ بج اٹھی۔
’’I Love U Sooooo Much‘‘
بہت شدت کے ساتھ اس نے لکھا تھا وہ حیران ہی تو رہ گئی‘ اتنے مختصر ٹائم میں اتنی جلدی محبت…؟
’’کیا ہوا آپ چپ کیوں ہوگئیں؟‘‘ اس نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا تھا۔
’’نہیں کچھ نہیں‘ شکریہ آپ کی بے لوث محبت کے لیے۔‘‘
’’کیا آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں؟‘‘
’’نہیں‘ مجھے محبت کرنی نہیں آتی۔‘‘ بہت سنجیدگی کے ساتھ اس نے کہا تھا‘ دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔
’’حماد!‘‘ کچھ دیر کے بعد اس نے اسے پکارا تھا مگر وہاں ہنوز خاموشی چھائی رہی۔
’’حماد! پلیز بات کرو۔‘‘ وہ پریشان ہوئی تھی۔ تبھی اسے محسوس ہوا جیسے وہ رو رہا ہے۔
’’حماد آپ رو رہے ہیں؟‘‘ اب اس کے لہجے میں بے چینی اتر آئی تھی‘ جواب میں اس کے رونے میں شدت آگئی‘ وہ سچ مچ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔
’’حماد کیا ہوا ہے‘ ایم سوری اگر آپ کو میری بات سے دکھ پہنچا۔‘‘ تبھی کچھ دیر کے بعد وہ بولا تھا۔
’’میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ آپ مجھ سے پیار کریں‘ بہت گندا انسان ہوں میں۔‘‘
’’نہیں‘ ایسے مت کہو پلیز۔‘‘
سارہ کو اس کی دل آزاری سے تکلیف ہورہی تھی‘ بہت مشکل سے اس نے اسے چپ کروایا تھا‘ مگر یہ بات اس کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی‘ بھلا کوئی مرد کسی عورت کے لیے یوں شدت سے کیسے روسکتا ہے‘ بہت مشکل سے اس وقت اس نے اسے چپ کروایا تھا‘ آنے والے دنوں میں اس کا دل اس شخص کے لیے اور بھی گداز ہوتا گیا تھا‘ وہ دونوں ہر پل رابطے میں رہنے لگے‘ گھنٹوں باتیں کرتے رہتے‘ دونوں کی صبح ایک دوسرے کی یاد سے ہوتی تھی اور رات میں حماد‘ اس کے ساتھ بات کرکے‘ ڈرائیو کرتے ہوئے گھر پہنچتا اور پھر وہی اسے سلاتی۔
وہ اس سے اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات شیئر کرتا تھا‘ خواہ وہ گھر کی ہوتی‘زمینوں کی ہوتی دوستوں کی ہوتی یا پھر سیاست کی۔ وہ خود پسندی کا شکار تھا اور اس کی خود پسندی سے اکثر وہ ہرٹ ہوکر رہ جاتی تھی‘ ان دنوں اس نے تمام دوستوں سے بھی کنارا کشی کی ہوئی تھی‘ سارہ کی کوشش سے اس کے دوستوں سے بھی اس کی صلح ہوگئی۔
روز بر روز وہ اس کی زندگی میں اہمیت اختیار کرتی جارہی تھی اور اب وہ اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کرنے لگا تھا۔ ایک شخص جو آپ کی پسند کے عین مطابق ہو‘ اگر وہ محبت اور اہمیت کے ساتھ آپ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار کردے تو عورت کے لیے یہ بہت بڑی خوشی بن جاتی ہے‘ وہ بھی دنگ رہ گئی تھی۔
’’حماد! کیا آپ کے گھر والے اس شادی کے لیے مان جائیں گے؟‘‘ جانے کس خدشے کے تحت وہ پوچھ بیٹھی تھی‘ جب وہ بولا۔
’’ہوں‘ میرے گھر والے مجھ پر انحصار کرتے ہیں‘ ان کو پتا ہے میرا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’فرض کرلیں اگر وہ نہ مانے تو؟‘‘
’’تو کیا میں آپ کے لیے سارے خاندان کو ٹھوکر مار سکتا ہوں‘ آپ ایک بار کہہ کر تو دیکھیں۔‘‘ ہر بات میں وہ یہی کہتا تھا ’’آپ ایک بار کہہ کر تو دیکھیں‘‘ اور پھر واقعی جو وہ اسے آزمانے کے لیے کہہ دیتی تھی وہ اس پر عمل کرکے دکھاتاتھا‘ صرف اس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین پر سختی نہیں کرتا تھا‘ صرف اس کے لیے اس نے کبھی کبھار نماز پڑھنا بھی شروع کردی تھی گھر بھی جلدی آجاتا تھا‘ آئے روز گاڑی بھی اس کی پسند کی لیتا‘ ایک بار اسے ملک شیک پینا تھا‘ سارہ نے شرارت سے کہہ دیا۔
’’آپ چینی کی بجائے نمک ڈلوا کر پئیں تو مانوں۔‘‘
اور جواب میں اس نے فوراً لڑکے کو بلوا کر چینی کی جگہ نمک ڈال لانے کا آرڈر جاری کردیا‘ وہ روکتی رہ گئی مگر اس نے نمک والا شیک ہی پیا۔ ایسی بہت سی باتیں تھیں‘ سارہ کی اسٹوڈنٹ کے بھائی نے بھی اس کی بہت تعریف کی تھی لہٰذا وہ اس کی شخصیت کے حصار میں کھینچتی چلی گئی۔
اپنے گھر والوں کو بھی اس نے اس کے بارے میں بتادیا تھا جواباً انہوں نے اس کی پرسنالٹی کی بہت تعریف کی۔
انہی دنوں حماد نے اسے بتایا کہ وہ فیس بک استعمال کرتا ہے‘ سارہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی مگر وہ چپ کر گئی تھی۔ دونوں میں اگر بہت پیار تھا تو جھگڑے بھی بہت ہوتے تھے‘ بے بنیاد سی باتوں


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کو لے کر دونوں ایک دوسرے سے الجھ پڑتے۔
حماد نے اس کا ذکر اپنے خاص دوستوں سے کیا تھا اور اس کے خاص دوستوں کے لہجے میں بھی اس کے لیے بہت احترام تھا‘ اسی چیز نے اسے مزید متاثر کیا تھا۔ سارہ کے پاس حماد کی فیس بک آئی ڈی کا پاس ورڈ تھا اور وہ اکثر اسے چیک کرتی رہتی تھی مگر وہاں فیس بک پر اس کی آئی ڈی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا‘ جو اسے اس کی نظروں میں بد کردار ثابت کرتا۔
وہ دوستوں کا دوست تھا‘ گھر والوں پر اس کا رعب تھا‘ بھائیوں پر جان دیتا تھا‘ اپنے مرحوم باپ سے بے حد پیار کرتا تھا‘ اکثر ان کی باتیں کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتا تھا۔ سارہ کے لیے اس کی یہ سب باتیں متاثر کن تھیں کیونکہ وہ بھی اپنے رشتوں پر جان دینے والی لڑکی تھی۔
ایک چیز جو اسے پسند نہیں تھی وہ اس کا غصہ اور آوارہ مزاجی تھی۔ غصے میں وہ لوگوں کے ساتھ بہت بدلحاظ ہوجاتا تھا اور مہینے میں تین چار بار اس کا لاہور کا چکر ضرور لگتا۔ سارہ کو اس وقت قطعی علم نہیں تھا کہ وہ آئے روز لاہور کیوں جاتا ہے۔
وہ اسے ایک نڈر سچا کھرا انسان سمجھتی تھی جس کی زندگی میں کسی جھوٹ کی گنجائش نہیں تھی مگر حقیقت اس کے الٹ تھی۔
حماد کے بقول وہ لڑکیوں کو لفٹ نہیں کرواتا تھا۔ پھر بھی لڑکیاں خود ہی اس کے نزدیک آکر پھر خود ہی اسے چھوڑ جاتی تھیں۔ اسے اس بات پر بھی بہت ناز تھا کہ ا س کی گاڑی جب گرلز کالج کے گیٹ کے باہر رکتی ہے تو کالج کی لڑکیاں دل ہاتھ میں لیے اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوجاتی ہیں‘ وہ اس کی اس بات کو جھٹلا نہیں سکتی تھی کیونکہ کالج کی پریوں کے ڈولتے ایمان اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے مگر لڑکیاں اس کے نزدیک آکر پھر اسے چھوڑ کیوں جاتی تھیں‘ یہ بات اسے الجھا دیتی تھی۔
دونوں کے درمیان نام نہاد محبت کا اڑتا پنچھی آسمان کو چھو رہا تھا۔ حماد کے بقول وہ اس کے لیے اس کی فیملی کا حصہ تھی اور وہ خود اس کو اس کی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کو تیار تھا۔ ایک بار سفر کے دوران سارہ نے اس کے کسی دوست کی تعریف کردی تھی جس پر وہ بہت جذباتی ہوا تھا اس نے سارہ سے کہا کہ وہ اسے اپنی پسند کے قالب میں ڈھالنے کے لیے ایک لسٹ تیار کرکے دے دے جس میں وہ ساری خوبیاں ہوں جو وہ اس میں دیکھنا چاہتی ہے اور جواباً وہ ہنس پڑی تھی کیونکہ اسے وہ اپنی خامیوں سمیت بھی پیارا تھا۔
آئے روز دونوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا ہوجانا معمول کی بات تھی مگر اس روز جب وہ دوستوں کے درمیان بیٹھا کھانا کھارہا تھا اچانک اس کا موڈ بگڑ گیا اور اس کا لہجہ اتنا تلخ ہوگیا کہ سارہ حیران رہ گئی وہ کبھی اتنی پستی میں جاکر بھی بول سکتا ہے اسے گمان میں بھی نہیںتھا۔
پہلی بار اس روز وہ بہت روئی تھی اور اسی روز اس نے نماز میں اللہ ربّ العزت کے حضور دعا کی کہ وہ اسے ایک نیک اور اپنی پسند کا ہم سفر عطا کرے اس کے حق میں جو بہتر ہے وہ کرے اور اس کی دعا فوراً قبولیت کا درجہ پاگئی۔
اگلے ہی روز اس کی ماں کی ایک چچا زاد بہن کے توسط سے اس کے لیے ایک بہترین رشتہ آگیا‘ پڑھا لکھا‘ سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ جس کی شان دار جاب اور چارمنگ پرسنالٹی اضافی خوبیوں میں شمار ہوتی تھی۔ ایک بوڑھی ماں اور ایک چھوٹا بھائی تھا‘ بہنیں شادی شدہ تھیں‘ لڑکے کی ماں نے بہت امیر کبیر گھرانوں کی لڑکیاں بھی ری جیکٹ کردی تھیں مگر سارہ اذہان پہلی نظر میں ہی اس کے دل میں اتر گئی۔
ایک ہفتے بعد اس کی ماما نے لڑکے کو دیکھ کر اوکے کردیا اور یوں سارہ کا باقاعدہ رشتہ طے ہوگیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران اس کا حماد سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔ بہترین رشتہ طے ہوجانے کے باوجود وہ خوش نہیں تھی کیونکہ اس کی نظر میں اپنے ہم سفر کے لیے حماد کا نقش ثبت ہوکر رہ گیا تھا۔ تقریباً پندرہ بیس روز گزر جانے کے بعد حماد کے قریبی دوست نے جسے وہ اپنا بھائی مانتی تھی اس سے رابطہ کیا تھا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر اس کا واسطہ تو حماد سے تھا‘ جسے نہ اپنی بات کا احساس تھا نہ تعلق ٹوٹ جانے کی پروا۔
اسی دوران سارہ نے اپنی منگنی کی خبر اپنی دوستوں کو دے دی۔ اس کی دوست نے جو اس کا فیس بک اکائونٹ استعمال کرتی تھی اس کی پروفائل میں اس کاریلیشن شپ اپ ڈیٹ کردیا۔ ان کے لیے اپنی عزیز از جان دوست سے متعلق یہ خبر جھوٹی نہیں تھی تاہم حماد نے جب اس کی پروفائل میں یہ پڑھا وہ شاکڈ رہ گیا۔ اسے قطعی امید نہیں تھی کہ اتنے کم وقت میں ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ اب سارہ سے رابطہ کررہا تھا مگر سارہ اپنے سیل سے اس کے تمام نمبر ڈی لیٹ کرچکی تھی تبھی اس نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔
حماد جیسے خود پسند اور گھمنڈی شخص کے لیے یہ شکست بہت بڑی تھی‘ کسی حد تک شاید اس کے دل کو چوٹ بھی لگی تھی تبھی اپنا حلیہ بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے دوستوں کو سارہ کا نمبر دے کر یہ ہدایت کردی کہ وہ لڑکی کہیں جانے نہ پائے۔
اس کے انہی دوستوں میں ایک دوست کامران تھا‘ جو اس کی ٹکر کی کاسٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ حماد کی اس کے ساتھ لڑائی ہوگئی‘ لہٰذا اس نے سارہ سے رابطہ کرکے حماد کی ساری حقیقت اس پر کھول دی۔ اس نے اسے بتایا کہ وہ اپنے تمام آوارہ دوستوں میں بیٹھ کر بڑے مزے کے ساتھ اس کی باتیں کیا کرتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے تمام دوستوں کو اس کی تصویر بھی دکھائی ہے‘ اسی نے اپنے دوستوں میں اس کا نمبر بانٹا تاکہ اسے تنگ کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ اس کی زندگی میں کوئی لڑکی کبھی نہیں ٹھہر سکتی‘ وہ بھونراہے اور لڑکیوں کو پھول سمجھ کر ان کا رس چوستا ہے‘ ان کا ایک دوست علیم تھا جو اکیلا رہتا تھا‘ اس کے گھر کی چابی حماد کے پاس ہوتی تھی اور وہ آئے روز جو لڑکی بھی اس کے ہاتھ چڑھتی اس کی عزت روندنے کے لیے اسے وہاں لے جاتا اور یوں اپنے جذبات ٹھنڈے کرتا‘ اپنی غلط حرکتوں کی وجہ سے ہی اس پر مختلف قسم کے کئی کیس بنے تھے‘ سارہ سنتی جاتی تھی اور شاکڈ سے روتی جاتی تھی۔
محبت کے نام پر یہ دھوکا نیا نہیں تھا مگر چوٹ ضرور نئی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا سادہ سا دل کسی طور حماد کے دوست کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا تبھی اس کے دوست نے اس کے یقین کے لیے اسے اس کی فیس بک آئی ڈی چیک کرنے کا مشورہ دیا‘ حماد اپنا سابقہ پاس ورڈ جو اس نے خود اسے دیا تھا‘ تبدیل کرچکا تھا‘ پھر بھی وہ اس کا نیو پاس ورڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی‘ جس روز اس نے پہلی بار اس کا اکائونٹ چیک کیا اسے لگا جیسے کسی نے اس کا وجود بم سے اڑا دیا ہو‘ کیا کچھ سامنے نہیں آیا تھا۔
جس شخص کو اس نے دوسرے لڑکوں سے مختلف سمجھا تھا‘ وہ صرف عیاش‘ شرابی اور زانی ہی نہیں مردہ ایمان کا حامل بھی نکلا تھا۔ اپنی دوست اور حسن کے بل بوتے پر اس نے جن لڑکیوں کا جسم حاصل کیا تھا ان کی تصویریں اپنی آئی ڈی میں خفیہ لگا کر ان پر نہایت گھٹیا کمنٹس بھی پاس کر رکھے تھے۔ اپنی آئی ڈی میں ایڈ کتنی ہی ایسی لڑکیاں تھیں جن سے وہ گڑگڑا کر دوستی کی بھیک مانگ رہا تھا‘ مگر وہ لڑکیاں بولڈ ہونے کے باوجود اسے جوتے کی نوک پر نہیں رکھ رہی تھیں۔
سارہ کے جاننے والوں میں ایک لڑکی عفیفہ تھی‘ جس کی بڑی بہن سے اس کا خاصا جھگڑا چلا تھا۔ اس سے بھی اس کا پہلے معاشقہ اور پھر جھگڑا شروع ہوگیا تھا‘ اس کے پیچھے دن رات پاگلوں کی طرح وہ اس کے گھر کے چکر بھی لگا رہا تھا‘ وہ کب گھر سے نکلتی ہے‘ کہاں جاتی ہے‘ کیا پہنتی ہے‘ اسے سب پتا تھا اور وہ اسے بتا بھی رہا تھا۔
ایک لڑکی لاہور کی تھی نازیہ! جس کے لیے اس کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی‘ اس سے دوستی کو اس نے زندگی موت کا مسئلہ بنالیا تھا۔
اس کے دوست نے کہا تھا کہ وہ لڑکیوں کا شیدائی ہے‘ اس نے کبھی کسی شہر کی لڑکی نہیں چھوڑی مگر… اس نے یقین نہیں کیا تھا‘ تاہم اب حقیقت اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ اس کے اکائونٹ کے ان بکس میں‘ اس کے ایک دوست کے نام وہ اسی کے ہاتھوں سے ٹائپ لفظ پڑھ رہی تھی جس میں اس نے خود لکھا تھا کہ وہ چار روز کے بعد صبح کے چار بجے گھر واپس آیا ہے۔
اپنے دوست کے یہ پوچھنے پر کہ وہ کہاں تھا اس نے بتایا تھا کہ وہ اپنی ایک گرل فرینڈ کو لے کر شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ چار دن صبح و شام بہت مزے کیے ہیں۔ اس نے اس لڑکی کو دوبارہ کسی لڑکے کے استعمال کے قابل نہیں چھوڑا تھا‘ اس کا دوست اس کی قسمت پر رشک کررہا تھا اور ادھر سارہ کا دل تھا کہ ڈوبتا ہی جارہا تھا۔
وہاں کوئی ایک داستان تو نہیں تھی‘ اس شخص کی بدکرداری اور بے ایمانیوں کا پورا باب درج تھا‘ سارہ کو لگا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہو‘ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا‘ اس روز وہ اپنی سادگی اور حماقت پر بہت روئی تھی اسے اب تک انسانو ں کی پرکھ نہیں ہوسکی تھی۔
اگلے روز وہ اپنی اسٹوڈنٹ کے بھائی سے جھگڑا کررہی تھی اور وہ اسے بتارہا تھا۔
’’میں اسے چھوڑ چکا ہوں‘ آپ کی طرح میں بھی اس کی اصلیت سے بے خبر تھا مگر لاہور وزٹ کے دوران میں نے جو دیکھا‘ اس کے بعد مجھے اس سے نفرت ہوچکی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہ رہا تھا مگر نہیں بتا سکا۔ آپ میرا یقین کریں میں نے اسے ہر گز آپ کا نمبر نہیں دیا بلکہ اس نے خود میرے سیل سے آپ کا نمبر لیا‘ پھر بھی میں بہت شرمندہ ہوں۔ خدا کے واسطے مجھے معاف کردیجیے گا۔‘‘
اس نے اپنا معاملہ کلیئر کرلیا تھا مگر جو دھچکا سارہ کے دل کو لگا تھا‘ ابھی اس کا اثر زائل ہونے والا نہیں تھا۔ حماد کے دوست اسے تنگ کررہے تھے‘ اس نے اپنا نمبر بدل لیا مگر پھر بھی سکون تھا کہ جیسے رخصت ہی ہوگیا تھا۔
…٭٭٭…​
رات کے سوا دو بجے کا ٹائم تھا جب وہ تھکن سے نڈھال گھر میں داخل ہوا۔ صدف اس وقت کچن میں مصروف تھی۔ وہ سرسری سی ایک نظر اس پر ڈالتا آف موڈ کے ساتھ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد وہ کمرے میں آئی تو اشعر لباس تبدیل کرنے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھا جانے کون سی ڈاکو منٹری فلم دیکھ رہا تھا۔ وہ گیلے ہاتھوں کو دوپٹے سے خشک کرتی چپ چاپ بیڈ کے کونے پر ٹک گئی۔
’’کھانا لائوں آپ کے لیے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کیوں! میرا مطلب ہے آج میں نے آپ کی پسند کے جائینز رائس بنائے ہیں۔‘‘
’’تو…؟ کھانا کھا کر آیا ہوں میں۔‘‘
باہربگڑے موسم کی طرح اس کا موڈ بھی بے حد خراب تھا۔ وہ دل برداشتہ سی اٹھ کر کمرے سے نکل آئی۔ باہر اب تیز بار ش ہورہی تھی۔ وہ بھاگ کر صحن میں پھیلے کپڑے تار سے اتار کر سمیٹنے لگی تاہم اس کوشش میں خود اس کا پور پور بھیگ گیاتھا۔
’’بھابی…!‘‘بُریرہ اب اس کی جگہ کچن میں تھی‘ صحن میں اس کی موجودی کی آہٹ پاکر وہ بھی صحن میں آگئی۔
’’بھائی آگئے؟‘‘
’’ہوں!‘‘

’’دو بج گئے ہیں‘ پچھلے ایک ماہ سے وہ مسلسل لیٹ گھر آرہے ہیں‘ یہ ٹھیک نہیں ہے بھابی!‘‘
’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘ وہ شاکڈ سے پلٹی تھی جواب میں بُریرہ نے نظر چرالی۔
’’آپ کا قصور…؟ پتا نہیں!‘‘
بات ادھوری چھوڑ کر وہ پلٹ گئی تھی‘ صدف وہیں صحن کے بیچ و بیچ کھڑی بھیگتی رہی۔ اس کی آنکھیں برسنے کو تیار تھیں مگر وہاں تیزبارش نے اس کے آنسو نگل لیے تھے۔ جانے کیسے وہ خود کو سنبھال کر دوبارہ کمرے میں واپس آئی تھی تب تک اشعر اپنے روزمرہ کی ڈیوٹی شروع کرچکا تھا۔ بیڈ پر اس کی طرف سے کروٹ بدلے وہ سیل فون کان سے لگائے اب ساری رات اپنی گرل فرینڈ سے معاشقہ جھاڑنے والا تھا۔
صدف سر سری سی ایک نظر اس پر ڈالتی باہر ٹیرس پر چلی آئی۔ بارش کی تیزی میں اب کمی آچکی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش کے ساتھ یخ بستہ ہوا نے اس کے اندر کی گھٹن کو خاصی حد تک کم کردیا تھا۔ تبھی وہ پلٹی تھی اور دوبارہ کمرے سے ملحقہ اسٹڈی روم میں چلی آئی‘ کل اس کے ہاتھ اشعر علی احمد کی پرسنل ڈائری لگی تھی جسے مصروفیت کے باعث وہ پڑھ نہیں سکی تھی مگر آج رات اسے صبح تک اسی ڈائری کا مطالعہ کرنا تھا۔
…٭٭٭…​
آدھی رات کا وقت تھا۔
گائوں کے قرب و جوار میں سوائے جھینگروں کے شور مچایا مینڈکوں کے ٹرانے کے سوا اورکوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تاہم پھر بھی وہ بے چین تھی‘ اس کی پیاسی ممتا کے کان کسی ننھے سے بچے کے بلکنے کی آواز پر لگے تھے اور وہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔
ساتھ والی چارپائی پر اس کا مجازی خدا دن بھر کی تھکن کے بعد اب پرسکون نیند کے مزے لے رہا تھا مگر اسے سکون نہیں تھا‘ تبھی بے کل ہوکر وہ اپنے شوہر کی چار پائی پر جھکی تھی۔
’’بشیرے… او بشیرے!‘‘
بشیرے کی آنکھ اس کی مسلسل پکار پر کھلی تھی۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’مجھے نیند نہیں آرہی‘ مجھے لگتا ہے جیسے پاس میں کوئی بچہ رو رہا ہے۔‘‘
’’وہ تو روز لگتا ہے تجھے‘ احمد کی مرگ کے بعد یہ بات تو معمول بن گئی ہے‘ سوجا چپ کرکے۔‘‘
’’نہیں بشیرے! اس بار یہ آواز میرا وہم نہیں ہے‘ کوئی بچہ تو ہے تو چل نا میرے ساتھ‘ دیکھ آتے ہیں۔‘‘
’’تُو پاگل ہوگئی ہے زلیخا! عقل سٹھیا گئی ہے تیری اور کچھ نہیں۔‘‘ بشیرا بڑبڑاتے ہوئے بستر پر اٹھ بیٹھا تھا‘ وہ مزید لجاجت سے کام لینے لگی۔
’’میں کملی سہی پر تجھے سوہنے ربّ کا واسطہ‘ بس ایک بار میرے ساتھ چل۔‘‘
وہ منت کررہی تھی بشیرا اتنے بڑے واسطے پر بادل نخواستہ اٹھ کھڑا ہوا۔ قریب ہی رسوئی کے آلے میں لالٹین جل رہی تھی۔ اٹھا کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا‘ زلیخا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ اس کا دل اس لمحے بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
آواز فصلوں کے اس پار قریبی مسجد سے آرہی تھی‘ وہ دونوں اسی طرف بڑھ گئے۔ کچھ ہی فاصلہ طے کرنے پر انہیں بچہ نظر آگیا تھا۔ مسجد کے باہر سیڑھیوں پر پڑا بلکتا ہوا وہ ننھا وجود اس وقت کئی خوانخوار کتوں کے حصار میں تھا جو بس اسے بھنبھوڑنے ہی والے تھے‘ اس نے بے تابی سے اس ننگ دھڑنگ ننھے وجود کو اٹھا کر اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا۔
کتے بشیرے کی للکار پر بھاگ گئے تھے‘ وہ رو پڑی۔
’’دیکھا میں نے کہا تھا ناں بشیرے! میرے سوہنے ربّ نے میری بے چین ممتا کی تسکین کے لیے اپنا خاص کرم فرمادیا ہے‘ وہ زلیخا کو جانتا ہے اس کے اندر کو پہچانتا ہے‘ اسے زلیخا بُری نہیں لگتی۔‘‘
ننگ دھڑنگ بچے کو سینے سے لگائے وہ روتی جاتی تھی اور بولتی جاتی تھی‘ بشیرا بالکل ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
اگلے روز دن کے اجالے میں گائوں میں خاصی ہلچل مچ گئی تھی۔
سب بچے کے بارے میں متجسس تھے مگر کوئی بھی اس بچے کی ماں کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ وہ ظالم عورت کون تھی اور کہاں گئی۔
بچہ ابھی صرف چند دنوں کا دکھائی دے رہا تھا‘ زلیخا کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے گھر کے سارے کام ہی بھول گئے تھے‘ بس وہ بچہ یاد رہا تھا‘ گورے چٹے رنگ اور خوب صورت نقوش کا حامل وہ بچہ اسے اپنی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح ہی پیارا لگ رہا تھا۔ بشیرا اسے خوش دیکھ کر ہی خوش ہوتا رہا۔

گلے روز اسے شہر میں ڈیوٹی پر واپس جانا تھا‘ وہ مسرور سا زلیخا کو اپنا اوربچے کا خیال رکھنے کی ہدایت دیتا شہر واپس پہنچ گیا۔ جس بنگلے میں اس کی چوکیدار کی نوکری تھی اس بنگلے کی مالکن بھی اس رات اسپتال میں داخل تھی‘ اس کی شادی کو بھی پندرہ سال ہوگئے تھے‘ پندرہ سال بعد جب اس نے ماں بننے کی امید چھوڑ دی تھی اللہ نے اسے باامید کردیا تھا۔ بنگلے میں اس رات صرف چند افراد رکے تھے باقی سب اسپتال میں تھے‘ وہ چپ چاپ اپنے کوارٹر میں آکر لیٹ گیا۔
اگلے روز اس نے بنگلے میں کہرام دیکھا تھا۔ بنگلے کی مالکن زندہ بچے کو جنم نہیں دے سکی تھی‘ ہوش آنے کے بعد اس نے بچے کو دیکھنا چاہا تھا مگر… ڈاکٹرز کے مطابق وہ خطرے سے باہر نہیں تھی‘ دوبارہ ہوش میں آنے کے بعد اس کے پاس کسی بچے کا ہونا لازمی تھا وگرنہ اس کے اعصاب پر شدید دبائو کے سبب اسے کسی بھی قسم کا خطرہ پہنچ سکتا تھا
بشیرے کے علم میں یہ بات آئی تھی اور وہ خاصی پریشانی میں دیر تلک خود سے الجھنے کے بعد بنگلے کے مالک کے پاس چلا آیا تھا۔
’’سلام صاب!‘‘
’’وعلیکم السّلام بشیر احمد! آگئے واپس؟‘‘
’’جی صاب! کل شام ہی واپسی ہوئی ہے‘ بیگم صاحبہ کے بارے میں پتا لگا تو آپ کے پاس چلا آیا۔‘‘
’’ہوں‘ ابھی وہ ہوش میں نہیں ہیں‘ جانے کب انہیں ہوش آجائے‘ اس سے پہلے پہلے کسی بچے کا انتظام ہونا ضروری ہے‘ نہیں تو وہ مرجائیں گی۔ میں بچہ ایڈاپٹ کرنے کی کوشش کررہا ہوں‘ مگر اتنا چھوٹا بچہ فوری ملنا مشکل ہے‘ کوئی ماں یہ قربانی نہیں دے سکتی۔‘‘ وہ پریشان تھے‘ بشیرے نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا پھر نظر جھکالی۔
’’آپ چاہیں تو میری بیوی یہ قربانی دے سکتی ہے صاب!‘‘
اس کے منہ سے ایسی بات نکلی تھی کہ بنگلے کا مالک حیران رہ گیاتھا۔ بشیر احمد نے پرسوں رات والی ساری بات اس کے گوش گزار کردی‘ جسے سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے۔
’’پتا نہیں کس کا بچہ ہو‘ جائز ہو کہ ناجائز ہو‘ پھر تمہاری بیوی بھی تو ممتا کی پیاسی ہے‘ وہ کیسے تمہیں یہ قدم اٹھانے دیں گی۔‘‘
’’اس کی آپ فکر نہ کریں صاب! وہ میری فرماں بردار ہے‘ بیگم صاحبہ کی زندگی کا سوال نہ ہوتا تو شاید میں ایسا کبھی نہ سوچتا۔‘‘
’’ہوں‘ مجھے تو اسی کی فکر ہے بشیر احمد! پندرہ سال کا ساتھ ہے ہمارا‘ میں کسی صورت اسے کھونے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔‘‘
’’تو پھر آپ اجازت دیں صاب!میں آج شام ہی بچے کو لے آتا ہوں۔‘‘
بشیرے نے ایک مشکل کام کے لیے اجازت چاہی تھی اور اسے اجازت مل گئی تھی‘ بنگلے کے مالک نے کچھ دیر سوچ بچار کے بعد دھیرے سے سر ہلا کر اسے رخصت کردیا۔ وہ عصر سے کچھ پہلے گھر واپس آیا تو بچے کو دودھ پلا کر سلاتی ہوئی زلیخا حیران رہ گئی۔
’’بشیر احمد تو… سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘
مگر وہ چپ رہا تھا‘ اس نے زلیخا کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
’’کاکا کیسا ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے پر تو واپس کیسے مڑ آیا؟‘‘
وہ ابھی تک اسے ان سمجھ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی‘ اس نے نظر پھیرلی۔
’’تجھ سے کچھ لینے آیا ہوں زلیخا!‘‘
’’مجھ سے…؟ اللہ خیر کرے بشیرے! میں نمانی تجھے کیا دے سکتی ہوں؟‘‘
’’کاکا…!‘‘ اس کے منہ سے نکلا تھا اور زلیخا کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’کاکا… مگرکیوں؟‘‘
’’کیوں کہ وہ تیرا نہیں ہے۔‘‘
’’ایویں میرا نہیں ہے‘ میرے سوہنے ربّ نے دیا ہے مجھے‘ اس کے گھر کی سیڑھیوں سے اٹھا کر لائی ہوں میں اسے۔ اس نے سنی ہے زلیخا کے دل کی‘ کیسے میرا نہیں ہے وہ۔‘‘
’’پاگل پن کی باتیں مت کر زلیخا! وہ بیگم صاحبہ کا بیٹا ہے‘ ان کی ملازمہ اسے بنگلے سے چرا کر بھاگ آئی تھی مگرکتوں سے ڈر کر مسجد کی سیڑھیوں پر چھوڑ گئی۔‘‘
ڈپٹ کر بولتے ہوئے اس نے وہ کہانی سنا دی تھی جسے وہ سارے رستے سوچتا آیا تھا۔ زلیخا کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
’’میں نہیں مانتی کسی بات کو‘ میں نے اس کی پکار سنی تھی‘ اگر میں وقت پر اس تک نہ پہنچتی تو وہ کتوں کا نوالہ بن چکا ہوتا‘ جا جاکر کہہ دے اپنی مالکن سے‘ زلیخا ممتا پر سمجھوتا نہیں کرے گی۔‘‘


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’تو پھر ٹھیک ہے‘ تیرے لیے اس گھر میں بھی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ میں تجھے طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے شہر جارہا ہوں۔‘‘
اس بار بشیرے کے منہ سے نکلے الفاظ نے اسے ساکت و جامد کردیا تھا۔ وہ ہلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی‘ پچیس سال کا ساتھ ایک لمحے میں دائو پر لگ گیا تھا۔
اگلے بیس منٹ میں بشیر بچے کو پالنے سے نکال کر لے گیا‘ پیچھے وہ ساکت و جامد اپنی اجڑی گود کے ساتھ بیٹھی رہ گئی تھی۔
اگلے تین روز تیز بخار نے اس کی مت مار کر رکھ دی‘ خدا خدا کرکے بخار ٹوٹا تو لبوں پر مستقل چپ نے ڈیرہ ڈال لیا۔ بشیرا اسے دلاسہ دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا مگر وہ کچھ سمجھتی اور سنتی ہی نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک روز صبح بشیرے کی آنکھ کھلی تو زلیخا کو بستر میں دبکے پایا‘ وہ صبح خیز تھی‘ نماز پڑھتی تھی‘ اس نے کبھی شدید مشکل اور تکلیف میں بھی نماز نہیں چھوڑی تھی‘ مگر اس روز وہ نہیں اٹھی تھی۔
بشیر احمد نے بستر سے نکل کر اسے آواز دی تھی‘ جگانے کی کوشش بھی کی مگر وہ نہیں اٹھی۔ لبوں پر دائمی چپ کا قفل لگائے‘ وہ اس کے آزاد کرنے سے قبل خود ہی اسے آزاد کرگئی تھی۔ کیسا ناقابل یقین منظر تھا۔
کیسی صابر اور خوددار عورت نکلی تھی وہ‘ اس نے چیخنا چاہا مگر آواز اس کے اندر ہی گھٹ کر رہ گئی‘ وہ چلی گئی تھی اور بشیر احمد کے لیے اب پیچھے صرف پچھتاوے تھے۔
…٭٭٭…
شام کا وقت تھا‘ حماد اس وقت اپنے ایک قریبی دوست کے ڈیرے پر بیٹھا اسے نئی پھنس جانے والی لڑکی کی کہانی سنا رہا تھا‘ جب اس کے دوست نے کہا۔
’’بہت ہوگئی یار! اب بند کر یہ کھیل اور کسی ایک کا ہوجا۔‘‘
’’ہاہاہا… کوئی اس قابل تو ہو‘ یہ دو ٹکے کی کمزور ایمان والی لڑکیاں میری بیوی بننے کے قابل نہیں ہیں‘ میری شادی تو خاندان میں ہی ہوگی۔‘‘
’’جب تجھے پتا ہے کہ تُو نے خاندان میں شادی کرنی ہے تو پھر دوسری لڑکیوں کے ایمان کیوں خراب کررہے ہو؟‘‘
’’میں تھوڑی کررہا ہوں‘ لڑکیاں خود اپنا ایمان ہتھیلی پر لیے پھر رہی ہیں۔‘‘ وہ ہنس رہا تھا اس کے دوست نے سر جھٹک دیا۔
اگلے چند دنوں میں واقعی اس کی بات اس کی پسند سے طے ہوگئی تھی‘ لڑکی صوم وصلوۃ کی پابند تھی اور پردے کے معاملے میں بہت سخت تھی‘ حماد نے اسے خاندانی تقریب میں ایک نظر دیکھا تھا اور بس اسے اوکے کردیا تھا۔
اس کے دوستوں نے اس کی اس خوشی کو بہت دھوم دھام سے سلیبریٹ کیا تھا‘ اگلے دو ماہ کے بعد اس کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی‘ وہ خوش تھا بے پناہ خوش… شادی کی شاپنگ کرتے ہوئے اکثر سارہ اذہان کا خیال اسے پریشان کردیتا تھا کیونکہ اس نے واقعی اس کے حوالے سے کچھ خواب دیکھے تھے‘ تاہم وہ اس کی نہیں ہوسکی تھی۔
قطعی غیر متوقع طور پر اس کی منگنی کی خبر نے اسے بہت ہرٹ کیا تھا‘ اسے ذہن سے جھٹکنے میں اسے وقت لگا تھا مگر بہرحال وہ اب اس کے خوابوں سے باہر نکل آیا تھا۔ پیسہ‘ وقت‘ تقدیر سب اس کی مٹھی میں تھے‘ وہ اپنی زندگی کو یادگار بنانا چاہتا تھا بالکل ویسے ہی جیسے اس کا پسندیدہ قلعہ دراوڑ اس کے لیے یادگار تھا۔
کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے اپنی شادی کے لیے مگر وہ بھول گیا تھا کہ بددعائیں جن کا پیچھا کرتی ہوں‘ وہ کبھی دنیا اور آخرت میں سرخرو نہیں ہوپاتے۔
ایک ماہ پہلے ہی اس کی شادی کی تیاری شروع ہوگئی تھی‘ دوست یار سب اس کی خوشی میں پاگل اپنا اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ خدا خدا کرکے شادی والا دن بھی آگیا۔ حماد نے سوچ لیا تھا کہ اب آگے اسے اپنی زندگی کیسے لے کر چلنی ہے‘ اپنی بیوی کو کیا حقوق دینے ہیں اور کن سے محروم رکھنا ہے۔ اپنی شادی کے لیے اس نے ایک ایک چیز خود تیار کی تھی‘ دل کھول کر پیسہ خرچ کیا تھا۔
مہندی والے روز جو تقریب ہوئی تھی اس نے پورے شہر کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ شب عروسی کے لیے اس نے کرتا شلوار پر تلے دار کھسہ پہنا تھا۔ عورت ذات کو ہمیشہ مسلنے کچلنے کے باوجود اس وقت اس کے کمرے میں بیٹھی وہ لڑکی اس کے لیے ایک نیا دل چسپ باب تھی کیونکہ وہ اس کے خاندان سے تھی‘ پاکیزہ اور ان چھوئی تھی اس کے لیے‘ تبھی اس کا دل اس کے لیے دھڑک رہاتھا۔ خوب صورتی اور دلہناپے نے اسے حماد کے لیے اور بھی دلچسپ بنا دیا تھا۔ وہ دیر تک اس کا ہاتھ تھامے اس سے ڈھیر ساری باتیں کرتا رہا تھا۔ اس وقت اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ و ہ اس لڑکی کو جو پہلے اس کی کزن اور اب بیوی تھی‘ کھاجائے۔
رومینس میں اسے جنگلی انداز ہی پسند تھا۔ تبھی دھیرے دھیرے دونوں کے درمیان شرم و حیا کے پردے گرتے گئے‘ اس نے منہ دکھائی میں اپنی بیوی کو گولڈ کا سیٹ‘ اسّی ہزار کا موبائل اور ایک ڈائمنڈ رنگ گفٹ کی تھی اور اب وہ اسے اپنا آپ گفٹ کرنے جارہا تھا۔ وقت جیسے جیسے گزرتا جارہا تھا اس کی بے تابیاں بڑھتی جارہی تھیں اور پھر جیسے سب کچھ ختم ہوگیا۔
وہ بربادی جو وہ اپنی دولت اور حسن کے بل بوتے پر دوسروں کے نصیب میں لکھتا آیا تھا‘ اسی بربادی نے ایک زبردست شاک کی صورت اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ دوسروں کی عزتیں حق سمجھ کر رولتا آیا تھا اور وہاں اس کی عزت جسے اس نے بڑی ہوشیاری سے چھان پھٹک کر پسند کیا تھا‘ کسی اور کے ہاتھوں بہت بے دردی کے ساتھ رولی جاچکی تھی۔ دو ماہ کے حمل کے ساتھ اس کی بیوی اس وقت اگر جذبات کے زیر اثر نہ ہوتی تو یقینا شرمندہ ہوتی۔
ایک چال وہ تقدیر کے ساتھ چل کر آیا تھا اور اب ایک چال تقدیر بنانے والے نے اس کے ساتھ چلی تھی۔ اسے تو شاید گمان بھی نہیں تھا کہ انصاف کرنے والا ربّ بے خبر نہیں ہے۔ اس وقت اسے
کمرے کی ہر چیز خود پر ہنستی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
اس کا گفٹ کیا گولڈ کا سیٹ‘ ڈائمنڈ کی رنگ‘ موبائل‘ قیمتی لباس‘ ہر چیز بے ساختہ اس وقت اس کا اپنا فخریہ لہجہ ہی اس کی سماعتوں میں گونجا تھا۔
’’ہاہاہاہا… کوئی اس قابل توہو‘ یہ دو ٹکے کی کمزور ایمان والی لڑکیاں میری بیوی بننے کے قابل نہیں ہیں‘ میری شادی تو خاندان میں ہی ہوگی۔‘‘
اس نے زندگی بھر خود کو نفیس رکھا تھا‘ اس کے ہاتھوں پر اگر گرد بھی پڑجاتی تھی تو جب تک وہ ہاتھ دھو نہیں لیتا تھا اسے چین نہیں آتا تھا۔ اپنی گاڑی کو وہ اتنا صاف رکھتا تھا کہ کبھی بھولے سے بھی اس پر گرد پڑی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ وہ باتھ لینے کے لیے واش روم میں گھستا تو دو تین گھنٹے جسم پر پانی بہانے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا تھا اور اب… وہ آئینے میں خود اپنا چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کیا وہ تقدیر کے اس مذاق کو اپنے دوستوں کے ساتھ فخریہ شیئر کرسکتا تھا؟
تقدیر کا انصاف اور تمانچا اس سے بڑھ کر ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ رات کی تاریکی میں مسجد کی سیڑھیوں پر بچہ رکھ کر خود اندھیروں کی گود میں اتر جانے والی سفاک عورت کوئی اور نہیں اسی حماد کی خاندانی بیوی تھی۔
…٭٭٭…​
ڈائری ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی مگر اس کی آنکھیں ضرور جلنے لگی تھیں۔
اشعر علی نے یہ کس کی کہانی لکھی تھی‘ مسجد کی سیڑھیوں پر دھرے اس بچے سے اس کا کیا تعلق تھا‘ زلیخا کون تھی؟ بشیرے کا کردار کیا تھا؟ وہ ابھی گہری سچ میں ڈوبی انہی سوالوں کے سرے ڈھونڈ رہی تھی کہ اچانک وہ اسٹڈی میں چلا آیا۔
صدف کی گود میں اس کی پرسنل ڈائری تھی‘ تبھی شعلے برساتی نگاہوں کے ساتھ وہ آگے بڑھا اورجھپٹ کر ڈائری اس سے چھینتے ہوئے اس پر تھپڑوں کی برسات کردی۔
’’کس نے اجازت دی تمہیں میری پرسنل چیزوں کو ہاتھ لگانے کی‘ بولو؟‘‘ پہلی بار وہ اس پر ہاتھ اٹھا رہا تھا۔ صدف پے در پے پڑنے والے تھپڑوں کے وار سے سنبھل ہی نہ سکی۔
ایسا کیا تھا اس ڈائری میں جس نے اس شخص کو اتنا جذباتی کردیا تھا؟
وہ سوچ رہی تھی اور ادھر بھرپور تھپڑ کی ضرب نے اس کے نچلے ہونٹ کے کنارے کو زخمی کردیا۔ اگلے روز وہ بنا کسی کو بتائے اپنا سامان سمیٹ کر میکے چلی آئی۔
شادی سے لے کر اب تک اس نے اشعر کی بے اعتنائی سہی تھی‘ پہلی رات سے لے کر اب تک وہ اس سے بیگانہ تھا۔ وہ جب بیاہ کر اس کے گھر آئی‘ وہ گھر کسی میدانِ جنگ سے کم نہیں تھا مگر یہ وہ تھی جس نے اپنی خدمتوں اور قربانیوں سے اس گھر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا۔
صبح سے لے کر رات گئے تک وہ اکیلی کام میں لگی رہتی تھی۔ صبح فجر کی اذان کے ساتھ بیدار ہوکر نماز او رقرآن پاک کا فریضہ ادا کرنے کے بعد وہ کچن میں گھستی تھی اور پھر سب کی پسند کا علیحدہ علیحدہ ناشتہ تیار کرکے ان کے کمروں میں پہنچاتی۔
وہ سارہ اذہان کی بیٹی تھی اور اسے زندگی کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنے میں مزا آتا تھا۔ اشعر علی کے گھر میںدو خاندان آباد تھے۔ ایک اس کا اپنا اور ایک اس کے تایا کا‘ دونوں گھرانوں کے افراد کی چونچیں آپس میں لڑتی رہتی تھیں۔
اشعر لوگ دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ گھر میں اس کی ماں اور بہن دونوں کا پیار اس کے بھائی کے لیے تھا‘ وہ تو محض ایک ضرورت کی چیز سی اہمیت رکھتا تھا۔ باپ کا رویہ بھی بہت نارمل سا تھا۔ وہ اس چیز پر کڑھتی تھی مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی۔
اشعر کی شادی سے پہلے اس کی تایا زاد کزن نے جسے وہ دل ہی دل میں پسند کرتا تھا‘ اس پر ریپ کا الزام لگانے کی کوشش کی تھی۔ جس نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ بہت سالوں تک وہ گھر سے دور پرائے دیسوں کی خاک چھانتا رہا تھا۔ شادی کے بعد جب صدف اس کے گھر میں اپنا مقام بنا چکی تھی تب اسے پتا چلا تھا کہ اشعر کی تایا زاد کزن نے صرف اشعر کے بھائی کو اپنا نے کے لیے اس کی بے ضرر ذات پر یہ الزام لگایا تھا کیونکہ اس کا باپ اشعر کے ساتھ اس کی شادی کی بات کررہا تھا جو وہ ہر گز نہیں چاہتی تھی۔ مگر اس نے اشعر کو یہ بات نہیں بتائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس گھر میں اشعر کی حیثیت بہت ثانوی ہے مگر پھر بھی اسے اس سے محبت ہوگئی تھی‘ باقی گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہ اشعر کی ضرورتوںکا بھی بہت خیال رکھتی تھی مگر وہ شخص اسے کبھی نہیں سمجھ سکا تھا۔
…٭٭٭…​
صدف گھر چھوڑ کر جاچکی تھی۔
وہ کتنی ہی دیر ایک ہی پوزیشن میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا‘ خالی خالی سی نگاہوں سے اسکرین کو تکتا رہا تھا جیسے روشن اسکرین پر حرکت کرتی تصویروں کے کام کو سمجھنا چاہتا ہو مگر وہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ سارے کردار جیسے گونگے بہرے ہوگئے تھے۔
اسے یاد آرہا تھا‘ یاد کیا اسے کبھی بھولتا ہی نہیں تھا کہ جب اس نے ہوش سنبھالا تو کتنی محبتیں تھیں جو اس کے گرد خوشبو کی طرح پھیلی تھیں۔ اس کی ماں اس کے ناز اٹھاتے نہیں تھکتی تھی۔ باپ ہر فرمائش
پلک جھپکنے میںپوری کرتا‘ گھر میں دولت کی فراوانی تھی‘ نوکر چاکر تھے۔ اسے اور کیا چاہیے تھا۔
ان دنوں وہ میٹرک میں تھا جب ایک روز اچانک تائی سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی‘ بات بہت معمولی تھی مگر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھیں۔
’’اپنی اوقات دیکھی ہے تُو نے‘ گندی نالی کا کیڑا ہے تُو۔ فیروزہ کے پیٹ سے جنم نہیں لیا تُو نے بلکہ کچرے کے ڈھیر سے ملا تھا بشیر احمد نے لاکر یہ گند کی پوٹلی فیروزہ کی جھولی میں ڈال دی‘ آیا بڑا میرے منہ لگنے والا۔‘‘
حقیقتیں ہمیشہ تلخ ہوتی ہیں مگر کچھ حقیقتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بدن سے سارا لہو نچوڑ کر رکھ دیتی ہیں‘ وہ بھی تائی ماں کے اس طعنے پر ساکت و جامد رہ گیاتھا۔ اس وقت نا اس کی سماعتیں کام کررہی تھیں نہ بصارتیں… اسے صرف اتنا پتا تھا کہ وہ گھر سے نکل گیا تھااور گھر میں دوبارہ اس کی واپسی فیروزہ بی بی کے نروس بریک ڈائون کی اطلاع پر ہوئی تھی وہ زہر جو تائی نے اس کی سماعتوں میں انڈیلا تھا۔ اس کی مہربان ماں کی زندگی کو اس زہر نے چاٹ لیا۔ جس راز سے وہ اب تک بے خبر تھیں‘ وہ راز افشاء ہوکر ان کی زندگی کو نگل گیا تھا‘ فوراً سے پیش تر انہوں نے بشیرے کو بلایا تھا اور بشیرے نے ان کے غصے کے ڈر سے سب سچ اگل دیا۔
قیامت سی قیامت تھی‘ انہیں ابھی تک پتا نہیں چل سکا تھا کہ وہ زندگی میں دوبارہ ماں بننے کی صلاحیت کھوچکی تھیں۔ یہ درد ناک انکشاف بھی تو ابھی ہوا تھا کہ وہ جس بچے کو اپنا خون سمجھ کر سینے سے لگا کر پالتی رہی تھیں وہ ان کا اپنا خون نہیں تھا۔
سچ کھل کر سامنے آجانے کے باوجود انہیں اشعر سے محبت تھی مگر… ان کی زندگی وفا نہیں کر سکی تھی۔ نروس بریک ڈائون کے ساتھ ہی ان کی موت ہوگئی تھی اور یہیں سے اشعر کی زندگی کے بُرے دن شروع ہوگئے۔
گھر میں سب نے اسے جیسے اچھوت سمجھ لیا تھا۔ انہی دنوں اس کے والد گائوں سے اپنے دوست کی بیوی کو لے آئے۔ فیروزہ بیگم کی طرف سے اولاد کی نعمت سے مایوس ہوکر چند سال قبل ہی انہوں نے گائوںمیں خفیہ شادی کرلی تھی اور اب گھر میں ایک عورت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے وہ اس دوسری عورت کو گھرلے آئے۔ اشعر کے لیے یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا تبھی وہ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اپنے باپ سے الجھ پڑا مگر ایک بار پھر اسے پاتال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنا پڑا‘ اس وقت جب اس کے باپ نے انتہائی تنفر سے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔
’’اپنی اوقات میں رہو اشعر! میں تمہیں اپنے ذاتی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘ ان کے الفاظ جتنے بُرے تھے اس سے بھی زیادہ بُرا ان کا لہجہ تھا۔ وہ ساکت کھڑا رہ گیا۔
اگلے چند روز میں وہ چپ چاپ ایبروڈ چلا گیا۔ زاہد صاحب (اشعر کے والد) کے دوسری بیوی سے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ اشعر کے ایبروڈ آنے کے بعد ان کا تمام کاروبار ان کے دوسرے سگے بیٹے نے سنبھال لیا۔ اشعر دریاِ غیر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی محنت کے بل بوتے پر روزگار حاصل کرکے دولت کماتا رہا۔
صدف سے اس کی شادی زاہد صاحب کی پسند سے ہی ہوئی تھی۔
وہ اپنی اوقات سے اچھی طرح واقف تھا‘ تبھی اس نے کوئی احتجاج نہیں کیا تاہم اس نے صدف کی بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ وہ جانتا تھا ایک روز جیسے ہی صدف کو اس کی سچائی کا پتا چلے گا‘ وہ اس کے منہ پر تھوک کر چلی جائے گی اور یہی وہ نہیں چاہتا تھا۔
شب و روز کے ساتھ میں جائز حقوق کے ساتھ کسی کے حسین سراپا سے نظریں چرانا اتنا آسان بھی نہیں تھا مگر اسے خود پر ضبط تھا اور کوئی بھی انسان جب ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتا ہے تو اس کے اندر کی دنیا میں توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہے کچھ ایسی ہی توڑ پھوڑ آج کل اس کے اندر بھی ہورہی تھی۔
…٭٭٭…​
ماہِ رمضان کی آمد آمد تھی۔
وہ کافی دیر سے ٹیرس پر کھڑی بارش کی ہلکی ہلکی بوندوں کو انجوائے کرتی اشعر علی کے بارے میں سوچ رہی تھی‘ جب اس کی چھوٹی بہن آرزو دوکپ چائے اور کبابوں کے ساتھ وہیں چلی آئی۔
’’السّلام علیکم جناب! اتنے اچھے موسم میں یوں چپکے چپکے تنہا کسے سوچا جارہا ہے؟‘‘
’’کسے سوچ سکتی ہوں؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے پلٹی تھی‘ آرزو بھی مسکرادی۔
’’بہت گریٹ ہو آپی قسم سے‘ ورنہ میرا ایسا سڑیل بندہ ہو تو میں کبھی اس سے پیار نہ کرسکوں۔‘‘
’’قبل از وقت کی باتیں ہیں یہ محترمہ! جب شادی ہوگی تب پوچھوں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے پوچھ لیجیے گا۔ ابھی تو یہ بتائیں رمضان شروع ہورہا ہے شاپنگ کا کیا کرنا ہے؟‘‘
’’وہی جو ہر سال کرتے ہیں‘ مطلب کل چلیں گے مارکیٹ‘ پرسوں مجھے گھر واپس جانا ہے۔‘‘
’’جی نہیں‘ اس بار جب تک اشعر بھائی آپ کو خود نہیں لے جاتے آپ نہیںجائیں گی۔‘‘
’’پاگل ہوئی ہو‘ وہ بہت مصروف ہوتے ہیں پھر تم نہیں جانتیں‘ اس گھر میں خضوع و خشوع سے رمضان کے اہتمام کا رواج نہیں ہے۔ صرف اشعر اور بریرہ (نند) روزہ رکھتے ہیں‘ وہ بھی جب میں سحری بنا کر ان کو زبردستی اٹھاتی ہوں تب‘ اشعر کو تو منہ بھی بیڈ پر ہی دھلواتی ہوں اور ساری چیزیں بھی وہیں بیڈ پر پہنچاتی ہوں‘ تب وہ سحری کرتے ہیں اور پھرنماز پڑھتے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
’’واہ جی واہ! بالکل صحیح جگہ قسمت پھوڑی ہے مما نے آپ کی۔‘‘
’’چپ! مما کے لیے ایک بھی لفظ کہا تو بہت ماروں گی۔‘‘
’’اچھا جی‘ ایک تو آپ ہر وقت ہٹلر بنی رہتی ہیں۔ ویسے اشعر بھائی میرے جیجو ہیں‘ میرا دل چاہتا ہے آپا کہ وہ یہاں آئیں‘ ہنسی مذاق کریں‘ ہم مل کر گھومنے جائیں‘ شاپنگ کریں وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’وغیرہ وغیرہ کی بچی! ان کا ایسا مزاج نہیں ہے۔‘‘
’’بس رہنے دیں۔‘‘ صدف چائے ختم کرچکی تھی تبھی موڈ بناکر برتن اٹھا کر لے گئی تو وہ پھر سے سوچوں میں ڈوب گئی۔ اس شخص کا رویہ اب اسے بھی شدت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ آخر وہ ایسا کیوں تھا؟ اسے کیوں اپنی زندگی میں کسی کے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا؟ اس ڈائری میں ایسا کیا تھا جس نے اسے اتنا مشتعل کردیا تھا؟
وہ اس کی فرماں برداری‘ محبت اور توجہ کو خاطر میں کیوں نہیں لاتا تھا؟ آخر وہ شخص اتنا الجھا ہوا کیوں تھا؟
سوچوں کا ایک لا متناہی سمندر تھا‘ جس میں وہ ہمہ وقت غوطہ زن رہتی تھی۔
اگلے روز آرزو کی فرمائش پر وہ مارکیٹ چلی آئی تھی۔ صبح ناشتہ نہ کرنے کی بدولت چند چکروں کے بعد ہی اسے صحیح معنوں میں چکر آنے لگے تھے مگر آرزو آرام سے گھوم پھر کر ایک ایک چیز خوب چھان پھٹک کر قیمت کم کروا کر خرید رہی تھی‘ وہ لوگ شاپنگ سے فارغ ہوئیں تو اچانک صدف کی نظر دیدہ زیب چوڑیوں کے ایک سیٹ پر جاپڑی‘ چوڑیاں بہت خوب صورت تھیں مگر اس کے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے‘ پرس میں اب صرف اتنے پیسے تھے کہ وہ ٹیکسی کا کرایہ ادا کرکے واپس پہنچ سکتیں۔ تبھی اس نے نظر چرالی تھی مگر آرزو ان چوڑیوں کے لیے اس کی پسندیدگی بھانپ چکی تھی تبھی اس کی بے تاب نظر پھر نیچے روڈ پر پھسلی اور اس بار اسے مایوس نہیں ہونا پڑا تھا‘وہ آگیا تھا۔
شاپنگ پلازہ کے سامنے گاڑی کھڑی کیے وہ اب اسے لاک کررہا تھا‘ آرزو اطمینان سے مسکرا دی۔
’’السّلام علیکم!‘‘
صدف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ وہاں آجائے گا۔ تبھی وہ حیران ہوئی تھی مگر آرزو کے مسکراتے لبوں نے اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ضرور دلایا تھا۔
’’وعلیکم السّلام اشعر بھائی!کتنی دیر لگادی آپ نے ہم لوگ بس اب گھر واپس لوٹنے ہی والے تھے۔‘‘
’’سوری! میں نے آپ کامیسج لیٹ پڑھا تھا‘ میٹنگ میں مصروف تھا۔‘‘ اچٹتی سی نظر صدف پر ڈالتے ہوئے وہ آرزو کے شکوے کا جواب دے رہا تھا‘ وہ رخ پھیر گئی۔
’’چلیں شکر ہے آپ آتو گئے‘ مجھے لگا آپ آئیں گے ہی نہیں۔‘‘ آرزو خوش لگ رہی تھی‘ اشعر مسکرادیا۔
’’نہیں‘ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔‘‘
وہ شخص مسکراتا بھی تھا؟ صدف نے خاصی حیرانی سے اس کے مسکراتے لب دیکھے تھے۔
’’کھانا کھانا ہے؟‘‘ صدف کو نظر انداز کیے وہ آرزو سے ہی پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘
’’اور آئس کریم؟‘‘
’’وہ تو ضرو رکھائیںگے۔‘‘
’’تو چلیں پھر…‘‘
’’ہوں… مگر ایک بات ہے اشعر بھائی جو میں نے بس آپ کے کان میں ہی کہنی ہے۔‘‘
صدف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس سے کیا بات کہنا چاہتی ہے تبھی وہ چپ رہی تھی تاہم آرزو اب اشعر کو سائیڈ پر لے جاکر اس کے کان میں کچھ کہہ رہی تھی اور وہ ذرا سا جھک کر اس کی بات سن رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد آرزو کے ساتھ جاکر اس نے صدف کی پسند کی چوڑیاں خرید لیں۔ صدف کے گھر واپس آنے تک اس کارروائی کا پتا نہیں چلا تھا۔ تاہم اسے ایک بات ضرور اچھی لگی تھی اور وہ یہ کہ جس وقت اس نے آئس کریم کا آدھا کپ بچا کر رکھ دیا تھا تب اشعر نے اپنا کپ چھوڑ کر اس کی بچائی ہوئی آئس کریم کھائی تھی۔
کوئی بھول نہ ہوجائے
تیری ڈاچی کے مڑنے تک
ہم دھول نہ ہوجائیں
وہ اپنے سسرال خود ہی واپس آچکی تھی۔
اس روز آفس سے واپسی پر اشعر کو وہ کچن میں نظر آئی تو بے ساختہ ایک پُرسکون سا احساس اس کے اندر تک سرایت کرگیا۔ اگلے روز پہلی سحری تھی۔ صدف نے رات میں سونے سے قبل ہی ٹائم سیٹ کرکے الارم لگادیا تھا۔
الارم بجا تو اس کے ساتھ اشعر کی آنکھ بھی کھل گئی۔ اس کی خریدی ہوئی چوڑیاں اس وقت صدف کی کلائی میں تھیں۔ وہ اس کے پہلو سے اٹھنے لگی تو اشعر نے بے ساختہ اس کی کلائی پکڑلی۔
’’کہاں جارہی ہو؟‘‘
’’کچن میں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ جانتا تھا پھر بھی پوچھ رہا تھا۔ صدف نے کلائی چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313

’’آج پہلا روزہ ہے‘ مجھے سحری بنانی ہے‘ تہجد کے نفل پڑھنے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘ مگر کل سے الارم مت لگانا پلیز۔‘‘
’’کیوں! کیا آپ روزہ نہیں رکھیں گے؟‘‘
’’نہیں!‘‘ اس کی کلائی چھوڑتے ہوئے اس نے تکیہ اٹھالیا تھا۔
’’کیوں… کیوں نہیں رکھیں گے؟‘‘ وہ ازحد حیران ہوئی تھی۔ اشعر نے پلکیں موندلیں۔
’’میرے جیسے شخص کی عبادات سے کائنات کے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’استغفار! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ عبادت توہم اپنے نفع نقصان کے لیے کرتے ہیں اللہ ربّ العزت کی ذاتِ پاک کو کیا فرق پڑنا‘ وہ تو بے نیاز ہے۔‘‘
’’اوکے‘ ابھی جائو پلیز۔‘‘پل میں وہ پھر تلخ ہوگیا تھا۔ صدف دل گرفتہ سی بیڈ سے اتر آئی۔ اس نے اکثر دیکھا تھا۔ اشعر سردیوں میں بھی گھنٹوں شاور کے نیچے کھڑا خود پر پانی بہاتا رہتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اپنی چیزوں کو اتنا صاف رکھتا تھا کہ معمولی سی گرد بھی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی ایک عجیب سی بے چینی ہمہ وقت اسے گھیرے رہتی تھی۔
اس کے حلقہ احباب میں کوئی بھی قریبی دوست نہیں تھا۔ ایک ماہ پہلے اسے لڑکیوں سے بھی دلچسپی نہیں تھی‘ وہ فلموں کا بھی شوقین نہیںتھا اگر اتفاق سے کوئی مووی لگی ہوتی تب بھی بے زاری سے رخ پھیرلیتا۔ گھر میں بھی کسی کے ساتھ اس کی انڈرسٹینڈنگ نہیں تھی وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتا تھا جس سے گھر میں کسی کو اس کے ساتھ الجھنے کا موقع ملے۔ بے حد محتاط رہتا تھا‘ زاہد صاحب اپنی پراپرٹی اور بزنس کا شیئر کرنا چاہ رہے تھے تب بھی اس نے بڑی سہولت سے ان کی جائیداد میں سے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا تھا‘ صدف اس پر بھی بے حد حیران تھی۔
اشعر نے پہلا روزہ نہیں رکھا تھا۔ صدف نے بہت کوشش کی اسے اٹھانے کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ مجبوراً اسے بُریرہ پر محنت کرنی پڑی کیونکہ زاہد صاحب دل کے مریض تھے اور ان کی دوسری بیوی کو اپنی چہیتی بہو کے ساتھ چھوڑ کر دن میں پیٹ پوجا کرنے کی بیماری تھی‘ ایسے میں صدف سحری سے فارغ ہوکر نماز پڑھتی پھر دیر تلک قرآن پاک کا ترجمے کے ساتھ مطالعہ کرتی پھر تھوڑی دیر آرام کرکے گھر کے دوسرے کاموں میں لگ جاتی۔
اس روز پندرواں روزہ تھا۔ جانے اس کے من میں کیا آئی کہ وہ معمول کا کام نپٹا کر بشیر احمد کے کمرے کی طرف چلی آئی‘ جسے چند سال قبل قدرے بہتر کوارٹر اوربہترین تنخواہ دی جارہی تھی۔ وہ اشعر کی کہانی جاننا چاہتی تھی اس کہانی کا الجھا ہوا سرا ڈھونڈنا چاہتی تھی کیونکہ جتنی ڈائری اس نے پڑھی تھی اس کے مطابق بشیر احمد کا اشعر کی زندگی میں بڑا اہم کردار تھا۔
جس وقت وہ کمرے میں داخل ہوئی‘ بشیر احمد چارپائی پر نیم دراز تھا۔ اسے دیکھتے ہی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’سلام بی بی جی!‘‘ وہ اب کافی بوڑھا اور ضعیف ہوگیا تھا۔ صدف سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتی‘ دوسری چارپائی کے کونے پر ٹک گئی۔
’’بشیر صاحب! میں آپ سے کچھ جاننے کے لیے آئی تھی وہ بات جو میں اس گھر کے کسی اور فرد سے نہیں پوچھ سکتی۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا تھا اور پھر اشعر کی ڈائری کی ساری کہانی ان کے گوش گزار کردی۔ بشیر احمد اسے کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا مگر اس کی ضد پر مجبور ہوکر اس نے اشعر کی زندگی سے متعلق ساراسچ اسے سنادیا‘ جسے سن کر وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
بشیر احمد کے کوارٹر سے اپنے کمرے میں آنے تک اسے لگا جیسے اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ ہی نہیں دے رہی ہوں۔ اشعر کے آفس سے آنے میں ابھی کافی ٹائم تھا‘ وہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر‘ دونوں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے دیر تک روتی رہی۔
وہ آفس سے آیا تو صدف افطاری میں مصروف تھی مگر پھر بھی اس کے چہرے سے اس کے رونے کا پتا چل رہا تھا۔ اس پر تھکن غالب تھی تاہم صدف کا چہرہ دیکھ کر وہ مزید الجھ گیا۔ کیا اس کی گھر میں کسی سے لڑائی ہوگئی تھی؟ مختلف سوچیں ذہن میں آرہی تھیں‘ وہ سر جھٹکتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ آیا۔
عشاء کی نماز کے بعد جب وہ ٹی وی دیکھ رہا تھا صدف اس کے پاس آئی تھی۔
’’وہ… مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔‘‘
’’ہوں کہو۔‘‘ فوراً سے بیش تر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
’’مجھے آپ سے طلاق چاہیے۔‘‘ رخ پھیر کر جانے کیسے اس نے کہہ دیا تھا۔ وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔
’’کیا…؟‘‘
’’جی ہاں‘ مجھے لگتا ہے شاید میں آپ کی زندگی میں فٹ نہیں ہوں‘ سو پلیز مجھے خلع کے لیے عدالتوں کا رخ کرنے پر مجبور مت کیجیے گا۔‘‘
’’کیا گھر میں کچھ ہوا ہے؟‘‘
’’جی نہیں‘ نہ ہی گھر والوں کے کسی عمل سے مجھے کوئی فرق پڑتا ہے‘ میری ذات آپ سے وابستہ ہے اور میں آپ کے ساتھ خوش نہیں ہوں‘ بس۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ صدف کے مضبوط لہجے پر بہت شکستگی کے ساتھ اس نے کہا تھا مگر اس کے ہاتھوں کی انگلیاں واضح کپکپارہی تھیں۔ جس نقصان سے اسے ڈر لگتا تھا بالآخر وہ نقصان بھی ہوگیا تھا۔
وہ رات اس پر قیامت کی رات تھی۔ ساری رات اس کا تکیہ آنسوئوں سے بھیگتا رہا تھا۔ اگر وہ جائز اولاد نہیں تھا تو اس میں اس کا کیا قصور تھا؟ اس نے تو نہیں کہا تھا کسی سے کہ مجھے ناجائز پیدا کرو۔ وہ تو سارے وہی کام کررہا تھا جو دوسرے جائز پیدا ہونے والے لوگ کرتے تھے پھر ہر قدم ہر گام پر تکلیف اسی کے حصے میں کیوں آرہی تھی؟
قدرت نے تو اس کے ناجائز وجود کو اپنی کسی رحمت اور نعمت سے محروم نہیںکیا تھا تو پھر اس کے بنائے ہوئے انسانوں نے اس کے لیے اپنے دل کیوں سکوڑ لیے تھے۔ یہی سوچیں‘ یہی خیالات ہمہ وقت پاگل کیے رکھتے تھے۔
وہ ٹوٹنا نہیں چاہتا تھا
زندگی میں اس نے ہمیشہ ہر چھن جانے والی چیز کے لیے صبر کرلیا تھا مگر اس سے اس لڑکی کے لیے صبر نہیں ہورہا تھا جو اس کی پسندیدہ ہمسفر تھی۔
شادی کے بعد کتنی بار اس نے اسے چھونا چاہا مگر صرف اس خوف کے پیش نظر قریب نہیں آیا کہ کہیں وہ اس کا عادی نہ ہوجائے۔ کہیں وہ کانچ سا وجود اور سونے جیسا دل رکھنے والی لڑکی اس کی اصلیت جان کر اسے دھتکار نہ دے۔ وہ اپنا نفس مار کر رہ جاتا تھا اور بالآخر اگلے روز شام میں اس پر یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ صدف اس کی ذات کے بارے میں سب جان گئی ہے تبھی اس نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔
پورے دن آفس میں اس کا دماغ پھٹتا رہا۔ شام میں افطاری کے بعد صدف کمرے میں آئی تو اس کے مقابل آکھڑاہوا۔
’’میں جانتا ہوں تم میری ذات کی سچائی کے بارے میں جان گئی ہو‘ اسی لیے بھاگ رہا تھا تم سے مگر ہونی کو کون روک سکتاہے۔ تمہیں حق ہے کہ تم اپنی پسند کے شخص کے ساتھ زندگی بسر کرو‘ میں تمہیں زبردستی اپنی زندگی میں نہیں روکوں گا مگر ایک ریکویسٹ ہے اگر مان لو تو…‘‘
’’جی کہیے۔‘‘ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر اس نے اس کی لہو رنگ آنکھوں میں دیکھا تھا۔ کتنی بے بسی‘ کتنا اضطراب تھا وہاں‘ وہ کٹ کر رہ گئی۔
’’میرا ایک دوست وکیل ہے‘ وہ اس وقت ملک سے باہر ہے‘ اس کی واپسی تک انتظار کرلو‘ میں طلاق دے دوں گا۔‘‘
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں ٹھہرا نہیں تھا مگر وہ ضرور ٹھٹک کر رہ گئی تھی۔ ایک سال ہوگیا تھا اسے اس شخص کی رفاقت میں رہتے ہوئے‘اس ایک سال میں بہت سے موسم ان دونوں نے اکٹھے دیکھے تھے‘ بہت کچھ ایک ساتھ سہا تھا‘ کیا اس کے لیے اب یہ ممکن تھا کہ وہ اس کا ہاتھ چھوڑ دیتی (وہ تو صر ف اس کا امتحان لینا چاہتی تھی‘ اسے آزما رہی تھی) اس شخص کا ہاتھ جسے زندگی نے سوائے ذلت اور اذیت کے اور کچھ نہیں دیا تھا۔ بھری دنیا میں کون تھا اس کا جو اس کے درد کو سمجھتا ‘ جس سے وہ اپنے دل کی باتوں کو شیئر کرسکتا۔
بیڈ کی پشت گاہ سے ٹیک لگائے دونوں بازو گھٹنوں کے گر دلپیٹے وہ سوچتی رہی تھی اور الجھتی رہی تھی جب کہ اس کے پہلو میں کروٹ بدل کر لیٹا اشعر علی ایک عجیب سی آگ میں جل رہا تھا وہ آگ جو اس نے کبھی دیکھی نہیں تھی مگر پل پل جسے اس نے شدت کے ساتھ محسوس ضرور کیا تھا۔
…٭٭٭…​
رمضان کا آخری عشرہ تھا۔
بریرہ اس کی ساس اور یاسر کی بیوی کے روز بازار کے چکر لگ رہے تھے۔ ان لوگوں کے لیے روزے فرض نہیں تھے مگر عید پر پوری سج دھج اور شاپنگ ضرور فرض تھی‘ صدف نے محسوس کیا تھا اشعر بہت
چپ ہوکر رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گوشے ہمہ وقت سرخ رہنے لگے تھے۔ وہ اس کے لیے کھانا بناتی تو وہ کھانے سے انکار کردیتا‘ چائے بناتی تو چائے پینے سے انکار کردیتا‘ اس کا کوئی سوٹ پریس کرنے کے لیے نکالتی تو وہ چھین لیتا‘ وہ اس کے ہاتھوں مسلسل ہرٹ ہورہی تھی مگر خاموش تھی۔
اس روز بھی ابھی وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر لیٹی تھی جب وہ کمرے میں چلا آیا۔ بکھرے بکھرے سے رف حلیے میں بھی اس کی وجاہت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ صدف اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھی تھی جب کہ وہ بیڈ کے کونے پر ٹک گیا تھا۔
’’میں ایبروڈ جارہا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ… طلاق کے کاغذات میں نے بنوا لیے ہیں‘تم سائن کرکے رکھ دو‘ صبح میں بھی سائن کردوں گا۔‘‘
بنا اس کی طرف دیکھے وہ اسے بتارہا تھا‘ وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’کیا ایبروڈ جانا ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے؟‘‘
وہ چپ بیٹھا رہا تھا تبھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی کو چھوا تو وہ جل رہی تھا۔
’’اتنا تیز بخار ہے آپ کو اور آپ نے بتایابھی نہیں۔‘‘
’’میرا کیا واسطہ ہے تم سے جو میں تمہیں بتاتا پھروں۔‘‘ درشتگی سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ دہاڑا تھا۔
’’مت لگایا کرو میرے وجود کو اپنا ہاتھ‘ اب تو پتا چل گیا ہے ناں تمہیں کہ میں کون ہوں؟ میری کیا حیثیت ہے؟ گند میں لتھڑا ہے میرا وجود‘ بے نام انسان ہوں میں ‘ یہاں وہ لوگ جو روز زنا کرتے ہیں‘ شراب پیتے ہیں‘ لوگوں کا بیوپار کرتے ہیں‘ وہ معتبر ہیں کیونکہ ان کے پاس جھوٹ کا ہی سہی مگر کوئی نہ کوئی حوالہ ہوتا ہے‘ میرے پاس کسی کا کوئی حوالہ نہیں ہے‘ اس لیے جس کا دل چاہتا ہے مجھے ادھیڑتا ہے‘ میری زندگی میں آتا اور پھر چلا جاتا ہے۔‘‘ اب اس کا لہجہ بھرا رہا تھا۔ صدف بیڈ سے اتر کر اس کے سامنے آبیٹھی۔
’’مگر میں اب آپ کی زندگی سے کہیں نہیں جارہی‘ مجھے طلاق نہیں چاہیے۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں ہے مجھ پر احسان کرنے کی‘ سنا تم نے۔‘‘ ایک مرتبہ پھر وہ دہاڑا تھا۔ جواب میں صدف نے سائیڈ پر پڑے پیپرز اٹھا کر بنا دیکھے پھاڑ دیئے۔
’’مجھے احسان کرنے کی عادت نہیں ہے‘ ہاں محبت کرسکتی ہوں‘ اگر کوئی یقین کرے تو۔‘‘
’’جسٹ شٹ اپ!‘‘ وہ ازحد بدگمان تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
اسی رات جب وہ بے چین سا اس کے پہلو میں لیٹا تھا۔ اس نے کروٹ بدل کر اس کا بازو سہلایا تھا۔ مگر وہ لاتعلق سا لیٹا رہا‘ تبھی اس نے اٹھ کر جھجکتے ہوئے اس کی پیشانی چوم لی۔ کچھ دیر قبل اس نے اسے زبردستی دوا بھی کھلائی تھی‘ اسے معلوم تھا کہ وہ گلیشیئر فوری پگھلنے والا ہے تبھی وہ دھیرے دھیرے اس کا اعتبار جیتنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اگلے روز اس نے اسے زبردستی اٹھا کر روزہ بھی رکھوا دیا تھا‘ وہ اب اس کا خیال یوں رکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو۔ عید کے آنے میں ابھی چھ روز باقی تھے۔ صدف یاسر کی بیوی یمنیٰ کے اصرار پر اس روز اس کے ساتھ مارکیٹ چلی آئی۔ یمنیٰ نے اپنے لیے ایک سوٹ پسند کیاتھا جو تیس ہزار سے کم سیل نہیں کررہا تھا دکان دار اس وقت اس نے چھوڑ دیا تھا مگر اب وہ ہی سوٹ لینے آئی تھی کیونکہ یاسر نے اسے پیسے دے دیئے تھے۔
صدف نے خود ابھی تک اپنے لیے کوئی شاپنگ نہیں کی تھی نا ہی اس کا دل چاہ رہا تھا۔ شاپنگ کے بعد یمنیٰ اسے قریبی ریستوران میں لے آئی تھی اور وہیں اس نے اشعر کو ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا‘ وہ دونوں بھی شاید شاپنگ کرکے آئے تھے کیونکہ ان کے قریب بھی بڑے بڑے شاپنگ بیگز تھے‘ صدف کی آنکھیں جل اٹھیں۔
اشعر کی نظر بھی اس پر پڑ چکی تھی‘ مگر وہ شرمندہ ہونے کی بجائے بے نیاز دکھائی دے رہا تھا ‘ تبھی وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کے پاس گئی تھی۔ اشعر فوری کھڑا ہوگیا ‘ اس کے ساتھ والی لڑکی بھی چونک گئی تھی تبھی اس نے بنا کچھ کہے بھر پور شدت کے ساتھ اسے زور کا تھپڑ رسید کیا اور واپس پلٹ آئی۔
اشعر رات میں دیر سے گھر واپس آیا تو وہ جاچکی تھی۔
روح کو چھیدتی تنہائی پورے کمرے میں بکھری اس کا منہ چڑاتی رہی‘ وہ بے زار ہوکر کمرے سے نکل آیا۔ باہر بارش ہورہی تھی اور صدف بارش کی دیوانی تھی تبھی وہ دیر تک باہر بارش میں کھڑا بھیگتا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب صدف کی طرف سے طلا ق کا مطالبہ ضرور ہوگا مگر… ایسا نہیں ہوا تھا۔
…٭٭٭…
افطاری کے بعد کا وقت تھا۔
وہ اداس سی ٹیرس پر کھڑی‘ سڑک کے اس پار جگمگاتی روشنیوں کے نظاروں میںگم تھی ‘ جہاں لوگ عید کا چاند نظر آنے کی خوشی میں خوب شوروغل کررہے تھے۔ وہ چپ چاپ کھڑی آنسو بہاتی رہی۔ اسے اشعر علی سے عشق نہیں تھا مگر وہ اس سے محبت ضرور کرنے لگی تھی۔ اس کی عزت کی خاطر اس نے تاحال گھر میں کسی کو بھی اس کی ذات کی سچائ
الکل ویسے ہی جیسے اشعر نے اسے نہیں بتایا تھا کہ زاہد صاحب نے اپنی جائیداد کی تقسیم کردی تھی اور اشعر کو انہوں نے یاسر کے برابر کا حصہ دیا تھا۔
اشعر کو قطعی ان کے اس فیصلے کا گمان نہیں تھا مگر جس وقت چاند رات کے شوروغل میں انہوں نے اسے گلے لگا کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور یہ کہا کہ’’ تم میرے بیٹے ہو اشعر! میرا نام تمہارا حوالہ ہے میں نے اپنے رب کے مقدس گھر سے تمہیں پایا‘ تم نے ہم میاں بیوی کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرے بہت احسان ہیں تمہارے اس بوڑھے باپ کی زندگی پر‘ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارا باپ تمہیں تمہارا حق نہ دے۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے تم صدف بیٹی کے ساتھ گائوں کی حویلی میں رہو گے اور ساری زمینوں کا انتظام سنبھالو گے۔ یہاں شہر کی فیکٹری میں بھی تمہارے ففٹی پرسنٹ شیئرز ہیں‘ جب دل چاہے یہاں رہنا اور جب دل چاہے وہاں‘ کوئی پریشانی نہیں ہے‘ ہاں ایک گزارش ضرور کروں گا‘ صدف بہت اچھی لڑکی ہے اسے کبھی اپنی زندگی سے جانے مت دینا‘ بہت پیار کرتی ہے وہ تم سے‘ میں جانتا ہوں جائو لے آئو اسے۔‘‘ اور تبھی اس کے دماغ میں صدف کی بات گونجی تھی۔
’’مجھے احسان کرنے کی عادت نہیں‘ہاں محبت ضرور کرسکتی ہوں اگر کوئی یقین کرے تو۔‘‘
اور تبھی اس کے دل کی ایک بیٹ مس ہوئی تھی‘ اس وقت وہ زاہد صاحب کے گلے لگ کر دیر تک بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا رہا تھا اور وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے تسلی دیتے رہے۔ آرزو چھت پر آئی تو وہ چپ چاپ کھڑی بے آواز رو رہی تھی۔
’’چاند رات مبارک آپی! عید کا چاند نظر آگیا ہے‘ چلیں ناں مارکیٹ چلتے ہیں۔‘‘
’’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘ تم مما کے ساتھ چلی جائو۔‘‘
’’کیوں‘ آپ کی طبیعت کو کیا ہوا؟‘‘ اب وہ اس کے برابر میں کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
’’پتا نہیں۔‘‘ اس کا لہجہ بھرا رہا تھا‘ آرزو مسکرادی۔
’’ٹھیک ہے‘ اگر میں آپ کے ڈاکٹر کو لے آئوں تو؟‘‘
اس بار وہ چونکی تھی اور تبھی اس کی نظر پیچھے ہی کچھ فاصلے پر کھڑے اشعر علی پر پڑی تھی‘ جس کی آنکھیں اس لمحے چاند کی مانند ہی جگمگارہی تھیں‘ وہ دیکھتی رہ گئی۔
’’السّلام علیکم‘ عید مبارک!‘‘ ستاروں سی روشن نگاہوں کے ساتھ وہ مسکرا رہا تھا۔ آرزو موقع دیکھ کر چپکے سے کھسک گئی۔
’’وعلیکم السّلام!‘‘ بمشکل وہ لبوں کو جنبش دے پائی تھی۔ اشعر آگے بڑھ آیا۔
صدف کی پلکوں سے آنسو ٹوٹ رہے تھے‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ آنسو سمیٹ لیے۔
’’ایم سوری صدف! ان تمام دنوں کے لیے جو تم نے میری رفاقت میں اذیت اٹھاتے ہوئے بسر کیے۔ میں وہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے لگا شاید میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میرے ساتھ بھی رہو۔ میں خود کو تمہارا عادی ہی نہیں بنانا چاہتا تھا مگر … مجھے کب تمہاری عادت ہوگئی پتا ہی نہیں چلا۔‘‘ سر جھکائے اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
’’کل تک مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ زندگی بسر کرو گی‘ مگر آج جب پاپا نے کہا کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو تو… مجھے لگا جیسے زندگی کو مجھ پر ترس آگیا ہو‘ میرا یقین کرو صدف! میں نے سوائے تمہارے کسی لڑکی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا‘ اس روز تم نے ریستوران میں جس لڑکی کو میرے ساتھ دیکھ کرمجھے تھپڑا مارا‘ وہ میرے دوست کی بیوی تھی‘ میرا دوست اس وقت کھانا آرڈر کرکے واش روم میں گیا تھا‘ خیر مجھے برا نہیں لگا۔‘‘ اس کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں‘ صدف شرمندگی سے سر جھکاگئی۔
’’ایم سوری…!‘‘
’’نہیں کوئی سوری نہیں‘ یہ بتائو عید کی شاپنگ کرنی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ وہ اب ہلکی پھلکی ہوکر اس کی طرف دیکھ رہی تھی‘ اشعر مسکرادیا۔
’’کنفرم ہے ناں…نہیں؟‘‘
’’جی نہیں!‘‘ نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ بھی مسکرائی تھی۔ اشعر نے گہری سانس بھرتے ہوئے سر اٹھا کر ایک نظر اوپر روشن آسمان کی طرف دیکھا پھر دھیرے سے صدف کا گال چھوتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ آیا۔
بے شک کائنات کے خالق نے اس عید پر بھی اسے ہمیشہ کی طرح اپنی بے شمار نعمتوں سے نواز دیا تھا۔


ی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ نہ ہی بتانے کا ارادہ رکھتی تھی‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
نیا سویرا… مریم فضل عباسی
’’ماہی… ماہی! پھوپھو کا فون ہے۔‘‘ وہ کچن میں تھی جب مہرو نے صدا لگائی۔ اس نے جلدی جلدی چنے گھکر میں ڈال کر بند کیے اور فون کی طرف چل دی۔ امی پھوپو سے بات کررہی تھیں سو وہ انتظار کرنے کے لیے سوفے پر بیٹھ گئی۔ کافی دیر بعد انہوں نے ماہی کو ریسیور تھمایا۔
’’السّلام علیکم! پھوپو کیسی ہیں آپ؟‘‘ اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
’’وعلیکم السّلام! ٹھیک ٹھاک ہوں میں‘ تم سنائو‘ کیا مصروفیات ہیں آج کل ہماری بھتیجی کی؟‘‘ ثمینہ پھوپو کی فریش اور شوخ سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’کچھ خاص نہیں‘ بس یونیورسٹی اور گھر پھر رمضان المبارک بھی آرہا ہے اس کی بھی تیاریاں جاری ہیں۔‘‘ ماہی نے اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے لہجے میں پُرسکون انداز میں جواب دیا۔
’’ہاں یار! رمضان میں دو تین دن ہی رہ گئے ہیں‘ سچ پوچھو تو مجھ سے تو کوئی تیاری ہو ہی نہیں سکی۔ بھابی لوگ اوپر شفٹ ہوگئی ہیں‘ میری توکچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟‘ اب کے پھوپو کی آواز میں خاصی تشویش تھی۔
’’کیوں ایسا کون سا محاذ کھل گیا ہے جو آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا‘ بھئی سیدھی سی لسٹ تیار کریں ان تمام چیزوں کو جو رمضان میں استعمال ہوتی ہیں۔ انکل سے منگوائیں پھر مینو بنائیں‘ سب کی پسند کو مدِنظر رکھیں اور جو ڈشز زیادہ ٹائم ٹیکنگ ہیں اور ان کی کچھ چیزیں آپ ابھی سے تیار کرکے رکھ سکتی ہیں وہ تیار کرکے فریز کرلیں مثلاً چنا چاٹ کے لیے چنے یا پھر کباب وغیرہ۔‘‘ ماہی نے لمحوں میں ان کی مشکل آسان کی۔
’’نہیں ماہی! مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔ سترہ سال ہوگئے ہیں میری شادی کو۔ میں اور بھابی تب سے ساتھ ہیں۔ یہ ساری منصوبہ بندی وہی کرتی تھیں اور مجھے صرف ان کی مدد کرنی ہوتی تھی۔ یار پلیز! تم آجائونا؟‘‘ ثمینہ پھوپو نے صورت حال اس پر واضح کرکے آخر میں اس کی منت کی۔
’’اُف پھوپو! آپ بھی حد کرتی ہیں‘ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ انکل کو اور روحان اور عفان کو بھی ساتھ لیں۔ دیکھیے گا بالکل پتا نہیں چلے گا اور کام بھی ہوجائے گا۔‘‘ ماہی نے انہیں ایک بار پھر مشورے سے نوازا۔
’’آخر تم کیوں نہیں آتی ہو؟ پھر تم جانتی ہو مردوں کی عبادت بھی مسجد تک محدود ہے۔ وہ نماز‘ تراویح‘ نوافل وغیرہ سب مسجد میں ادا کریں گے۔ سچی میں رمضان میں اکیلے عبادت کا مزا بالکل بھی نہیں آتا۔‘‘ انہوں نے اس کا مشورہ رد کردیا۔
’’اچھا آپ آجائیں‘ اس دفعہ فیملی سمیت رمضان ہمارے ساتھ گزاریں۔ خوب رونق ہوگی اور عبادت کا بھی خوب مزا آئے گا۔ آپ‘ میں‘ امی ‘ مہرو سب مل کر عبادت بھی کریں گے‘افطاری اور سحری میں نت نئی ڈشز بنائیں گے۔ بہت مزا آئے گا۔‘‘ اس نے انہیں سمجھانے کی ایک اور کوشش کی۔
’’نہیں یار! عفان (ثمینہ پھوپو کے شوہر) بالکل بھی نہیں مانیں گے‘ پھر بھابی لوگ کون سا دور ہیں اوپر والے پورشن میں ہی تو ہیں۔ شاید انہیں بھی اچھا نہ لگے۔ بس تم آجائو اور تم اتنی بحث کیوں کررہی ہو؟ میں ابھی فون کرکے بھائی جان سے اجازت لے لیتی ہوں۔ تم پیکنگ کرلو‘ محسن کل تمہیں میرے ہاں چھوڑ جائے گا۔‘‘ انہوں نے پھر عذر تراش کر اسے پابند کیا۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘ آجائوں گی۔‘‘ ماہی نے بھی ہار مان لی۔
’’ویسے یار بھتیجی! سب خیریت تو ہے‘ یہ اس بار اتنی ضد کیوں کررہی ہو؟‘‘ اب کے انہوں نے خاصے راز دارانہ اور مشکوک انداز میں پوچھا تو وہ ہنس دی۔
’’پھوپو جانی آپ بالکل بھی فکر مند نہ ہوں‘ سب خیریت ہے۔‘‘ ماہی نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی۔
’’پھر ملکۂ عالیہ کے دربار میں حاضری کے لیے پس و پیش سے کیوں کام لیا جارہا تھا؟‘‘ ثمینہ پھوپو نے اب شوخ انداز اپنایا۔
’’اف پھوپو! آپ بھی حد کرتی ہیں‘ آجائوں گی کل۔‘‘ ماہی نے پھر ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا اگر کل آپ نے ملکۂ عالیہ کے دربار میں حاضری نہ دی تو ملکہ کا نازک مزاج بگڑ بھی سکتا ہے اور آپ ملکہ کے غضب کا شکار بھی ہوسکتی ہیں؟‘‘ انہوں نے اسے شوخ انداز میں تنبیہ کی۔
’’نہیں… نہیں… شہزادی صاحبہ‘ ملکۂ عالیہ کی ہدایت عین کے مطابق ان کے دربار میں حاضری کا شرف گردانتے ہوئے مقررہ وقت پر پہنچے گی۔‘‘ اس نے بھی اب شوخ انداز اپنایا۔
’’ٹھیک ہے پھر ملکۂ عالیہ دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھی ہیں اب ملکۂ عالیہ اجازت لیں گی‘ ان کے آرام کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔‘‘ پھوپو نے اسی شوخ انداز میں اجازت چاہی۔
ماہی نے بھی ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کر فون کردیا۔ واپس کچن کی طرف مڑتے ہوئے اس کے لبوں کی تراش میں دھیمی سی مسکان تھی۔
’’کیا کہہ رہی تھی ثمینہ؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’کہہ رہی تھیں کہ رمضان میں ان کی طرف آجائوں۔‘‘ ماہی نے آہستگی سے جواب دیتے ہوئے دال کی تھالی اٹھالی جو کہ صاف کرکے مختلف ڈبوں میں ڈالنی تھی۔
’’ہاں! آمنہ بھی اوپر شفٹ ہوگئی ہے‘ بے چاری اکیلی تنگ ہوگئی۔ تم چلی جانا۔‘‘ امی نے اپنی طرف سے اجازت دے دی۔
بابا سے پھوپو نے پہلے ہی خود اجازت لے لی تھی۔ رات کے کھانے پر انہوں نے ماہی کو لے جانے کی ذمہ داری محسن کو سونپی۔ جس پر وہ خاصا جھلّا گیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ اسے ماہی کو لے جانا
ناگوار گزر رہا تھا بلکہ یہ تھی کہ وہ ماہی سے بہت کلوز تھا۔ اپنی ہر بات اس سے شیئر کرنے کا عادی تھا۔ اب اتنے دن اس کا پھوپو کے گھر جاکر رہنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ اس کے بعد گھر میں بابا‘ امی اور مہرو ہی بچتے تھے۔ بابا کا زیادہ تر وقت اپنے اسٹڈی روم میں گزرتا تھا۔ ماہی کے بعد امی کو بھی کچن میں اور گھر کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوجانا تھا اور رہ گئی مہرو تو اس سے محسن کی بنتی ہی نہیں تھی۔ ہر وقت دونوں چونچ لڑاتے رہتے لیکن تمام تر ناگواری کے باوجود وہ بابا سے انکار نہ کرسکا۔ بابا بالکل بھی سخت نا تھے بلکہ وہ سب سے بہت نرمی اور محبت سے پیش آتے۔ ان کی ہر وہ خواہش پوری کرتے جو ان کے حق میں بہتر ہوتی اور اگرجو خواہش ان کے لیے نقصان دہ بھی ہوتی اس کے لیے بھی انہوں نے کبھی سختی سے منع نہیں کیا تھا بلکہ بہت نرمی سے اس انداز میں اس کا منفی پہلو بیان کرتے کہ بات خودبخود بچوں کی سمجھ میں آجاتی پھر پوچھتے۔
’’کیا خیال ہے بیٹا! اب بھی آپ کو چاہیے؟‘‘ وہ بہت پُریقین لہجے میں پوچھتے تو وہ لوگ مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیتے۔
بابا کے اس عمل کی وجہ سے ان کے دل میں بابا کے لیے بے حد محبت اور احترام تھا۔
…٭٭٭…​
سارا راستہ محسن ماہی کے کان کھاتا آیا۔
’’آپی! پھوپو سے جلدی جان چھڑالینا۔‘‘ گویا وہ پھوپو نہ ہوئی جن ہوئیں اور اب ان کے گیٹ پر آکر اندر جانے کو تیار نہ تھا۔ یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا جو کہ اس کو پھوپو سے تھی۔ ماہی نے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کسی بھی طرح مان کر نہیں دے رہا تھا تو وہ بولی۔
’’اچھا ٹھیک ہے نہ چلو‘ میں بھی نہیں جارہی۔ بابا پوچھیں گے تو ساری بات انہیں بتادوں گی۔‘‘ اور اس ایک جملے نے اتنا اثر کیا تھا کہ اس نے کچھ بھی کہے بغیر بائیک سے اتر کر بیل بجادی۔ ماہی بھی مسکرا کر اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔ تو اسے اس کے مسکرانے پر سخت غصہ آیا۔
’’مت نکالو دانت‘ مجھے نہیں پتا تھا کہ تم بلیک میلر بھی ہو۔‘‘ محسن نے سخت جھلاتے ہوئے اسے ٹوکا تھا مگر ادھر کوئی اثر نہ ہوا۔
’’بھئی تم کل کے بچے مجھے جانتے ہی کتنا ہو۔ رفتہ رفتہ ہی ہمارے جوہرکھلیں گے۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا‘ پھوپو نے گیٹ کھولا اور ساتھ ہی ماہی کو اپنے ساتھ لپٹالیا۔ محسن الگ تھلگ کھڑا رہا۔ اندر آکر بھی اس کا منہ پھولا رہا۔
’’اے محسن! تمہیں کیا شہد کی مکھیوں نے کاٹا ہے؟ یہ منہ تمہارا اتنا پھولا ہوا ہے؟‘‘ اب وہ محسن پر حملہ آور ہوئی تھیں لیکن اس نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے فقط ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کر قدم بڑھادیئے۔
’’ارے ارے! ماں صدقے‘ کیا بچہ ناراض ہے مجھ سے؟‘‘ ثمینہ پھوپو فوراً اس کے پیچھے بھاگی تھیں اور اسے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی جالیا تھا اور جب دوبارہ وہ باہر نکلا تو اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔
…٭٭٭…​
رمضان میں فقط ایک دن رہ گیا تھا۔ اس نے پھوپو کے ساتھ مل کر ساری تیاری کی۔ اس کے نرم مزاج کی وجہ سے روحان اور عفان بھی اس سے فرینک تھے۔ ان کی کوئی بہن نہیں تھی اور نا ہی تایا کی کوئی بیٹی تھی۔ ماہی اور مہرو کو وہ بہت عزیز رکھتے تھے اور خاص طور پر ماہی سے ان کی خوب بنتی تھی جب کہ مہرو خاصی نٹ کھٹ سی تھی۔ ابھی بھی وہ دونوں ماہی کے ساتھ تمام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور ساتھ ساتھ اسے دنیا جہاں کے قصے بھی سنارہے تھے۔ وہ لبوں پر دھیمی سی مسکان لیے بڑی دلچسپی سے انہیں سن رہی تھی اور جہاں ضرورت محسوس کرتی انہیں نصیحت بھی کرتی۔
رات کو وہ دونوں عدنان انکل کے ساتھ تراویح پڑھنے چلے گئے تو وہ بھی پھوپو کے ساتھ نماز کی تیاری کرنے لگی۔ اتنے میں بابا کا فون آگیا‘ وہ ان سے بات کرکے باہر نکلی تو آمنہ آنٹی بھی نیچے آگئی تھیں۔ ان کے تینوں بیٹے بھی والد صاحب کے ہمراہ تراویح پڑھنے نکل گئے تھے۔ آمنہ آنٹی بھی خاصی ملنسار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ مل کر عبادت کرنے‘ تسبیح پڑھنے‘ ایک دوسرے کے ساتھ دینی معلومات شیئر کرنے کا اپنا ہی لطف تھا۔
ہر طرف رمضان کی رحمتیں برکتیں نازل ہورہی تھیں۔
ماہی نے یہ عادت بابا سے لی تھی کہ رمضان میں سحری سے کچھ پہلے اٹھتی اور تہجد ادا کرتی۔ رات کے اس پہر عبادت کا اپنا ہی مزا تھا۔ جب ساری مخلوق سوئی ہوئی ہوتی اور وہ اپنے ربّ کے سامنے سربسجود تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا وہ اس کے دل کی ہر بات‘ اس کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ بہت توجہ سے سن رہا ہے۔ جب ہر طرف سکون تھا‘ خاموشی تھی‘ تنہائی تھی تو وہ اس سے مخاطب تھی‘ اس وقت اس سے باتیں کرنا‘ اپنے دکھ درد کہنا‘ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ایک پاکیزہ خیال دل و روح میں جاگزیں تھا‘ وہ اپنے بے حد قریب محسوس ہورہا تھا۔
پھوپو نے اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ تھوڑی دیر بعد باہر آگئی۔ پھوپو کچن میں جاچکی تھیں۔ اس نے بھی کچن کا رخ کیا۔ اس کے قدموں کی آہٹ پر پھوپو نے مڑ کر دیکھا‘ چند لمحوں کو ان کی نظریں اس کے چہرے پر ٹکی رہ گئیں۔ سیاہ دوپٹے کے ہالے میں اس کا پُرنور چہرہ بلاشبہ چاند کی مانند وہ بہت خوب صورت نہ تھی‘ مگر اس وقت جو کشش اس کے چہرے میں تھی وہ حسین سے حسین تر چہرے میں بھی کم ہی دکھتی تھی۔
’’اس طرح کیا دیکھ رہی ہیں پھوپو؟ماہی کی آواز نے انہیں چونکایا۔
’’ماشاء اللہ! بہت اچھی لگ رہی ہو۔‘‘ انہوں نے بے ساختہ تعریف کی‘ ان کے اس انداز پر وہ بے ساختہ جھینپ گئی تھی پھر ان کے ساتھ مل کر سحری بنائی۔ پھوپو انکل کو جگانے گئیں اور وہ روحان‘ عفان کو۔ خاصا مشکل امر تھا ان کو جگانا۔ اس نے الارم کلاک بالکل روحان کے کان کے ساتھ لگائی‘ جیسے ہی کرخت سی آواز اس کے کانوں میں پڑی اس نے بیڈ سے جمپ لگائی اور اب وہ نائٹ ڈریس میں حیرت سے آنکھیں ملتا اسے دیکھ رہا تھا۔
’’بیٹا جی! سحری ہوگئی ہے۔‘‘ ماہی نے اسے مطلع کیا۔
’’بڑی جلدی ہوگئی آج۔‘‘ اس نے کہتے ہوئے باتھ روم کا رخ کیا اور ماہی نے یہی ترکیب عفان پر آزمائی چند لمحوںمیں وہ بھی بستر سے اتر آیا تھا۔ روحان باتھ روم سے نکلا تو اس نے عفان کی شرٹ پہنی ہوئی تھی‘ عفان جو کہ نیند میں ادھر اُدھر جھومتا بمشکل آنکھیں کھول رہا تھا۔ اپنی نئی شرٹ روحان کے بدن پر دیکھ کر اس کی نیند اڑنے میں پل بھر لگا۔ روحان تھا تو اس سے دو سال بڑا مگر ٹھیک ٹھاک صحت مند تھا۔ بمشکل عفان کی شرٹ اس نے کَسی ہوئی تھی۔ بڑی مشکل سے کھینچ تان کر اس نے بٹن بند کیے ہوئے تھے اور تھی بھی چھوٹی شرٹ‘ اس کے حلیے پر ماہی کی ہنسی بھی نکل گئی جب کہ عفان روہانسا ہوکر چیخا تھا۔
’’روحان کے بچے‘ میری شرٹ اتارو۔‘‘
جب کہ روحان کی نظر شرٹ پر پڑی تو اسے بغور دیکھتے ہوئے حیرت سے بولا۔
’’اچھا یہ تمہاری ہے‘ تبھی میں سوچ رہا تھا یہ شرٹ ایک رات میں اتنی چھوٹی کیسے ہوگئی۔‘‘ روحان کبھی خود کو موٹا یا بڑا نہیں کہتا تھا ہمیشہ کپڑوں پر الزام دھرتا تھا کہ وہ چھوٹے ہوگئے ہیں۔
’’آپی! اسے کہہ دیںشرافت سے میری شرٹ اتار دے۔‘‘عفان نے مقدمہ ماہی کی عدالت میں پیش کیا۔
’’روحان! شرافت سے اس کی شرٹ اتار دو۔‘‘ ماہی نے بمشکل ہنسی دباتے ہوئے عفان کا جملہ دہرایا۔
’’بڑے بدتمیز ہوگئے آپ لوگ۔‘‘ روحان نے تاسف کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے قدم باہر کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ… یہ میری شرٹ پہن کر کہاں جارہے ہو؟‘‘ عفان اس کے پیچھے لپکا۔
’’شرافت انکل کو بلانے جارہا ہوں۔‘‘ روحان نے رک کر بڑی سنجیدگی سے جواب دیا جب کہ ماہی اور عفان نے بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’مگر وہ کیوں؟‘‘
’’آپ دونوں جو کہہ رہے ہیں کہ شرافت کے ساتھ شرٹ اتارو۔ وہ ساتھ ہی رہتے ہیں شرافت انکل! ان کے گھر جاکر انہیں ساتھ لائوں گا اور ان کے ساتھ ہی اتاروں گا۔‘‘ روحان کی سنجیدہ وضاحت پر ان دونوں کی ہنسی بے ساختہ تھی۔ اسے واش روم کی طرف دھکیل کر وہ باہر آگئی۔
سحری کے دوران بھی روحان اور عفان کی نوک جھونک جاری رہی۔ سحری کے بعد وہ نماز پڑھنے روانہ ہوئے۔ برتن سمیٹ کر اس نے بھی پھوپو کے ساتھ نماز ادا کی پھر تلاوت اور اس کے بعد روحان عفان کا اسکول اور انکل کے آفس جانے کا ٹائم ہوچکا تھا۔ انہیں رخصت کرنے کے بعد وہ دونوں صفائی میں لگ گئیں۔ صفائی اور پھر دوسرے چھوٹے موٹے کاموں سے فارغ ہوکر وہ سوگئیں۔
’’ویسے ماہی کے ساتھ رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ بندہ اتنا مصروف رہتا ہے کہ جھوٹ غیبت اور دوسری برائیوں سے بچا رہتا ہے۔ آج بڑا اچھا روزہ گزرا۔‘‘ ثمینہ پھوپو نے ماہی کی تعریف کی۔ واقعی دن بڑا اچھا گزرا تھا۔ آمنہ آنٹی نے کہا تھا افطاری سب اوپر ہی کریں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ اوپر ہی آگئی تھی۔ سب نے مل کر ٹیبل سیٹ کی جس میں لڑکوں نے بھی حصہ لیا۔ آمنہ آنٹی کے تین بیٹے تھے‘ سب سے بڑا ارسل جو کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتا تھا پھر احمر جو کہ گریجویشن کا اسٹوڈنٹ تھا۔ محسن کا ہم عمر ہونے کے ساتھ کلاس فیلو اور دوست بھی تھا اور سب سے چھوٹا اشعر جو کہ 8th کلاس کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ روحان کا ہم عمر اور کلاس فیلو تھا۔ جب کہ عفان گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور 6th کلاس میں تھا۔ روحان‘ عفان‘ اشعر اور احمر نے ان کی مدد کی جب کہ ارسل نظر نہیں آرہا تھا۔
ارسل افطاری سے تقریباً دس منٹ پہلے پہنچا اور اس کے ساتھ کوئی اور لڑکا بھی تھا جو کہ پہلی نظر میں ہی بالکل فارنر لگتا تھا۔ آمنہ آنٹی اس کو کئی مرتبہ کال کرنے کی کوشش کرچکی تھیں مگر اس کا سیل بند جارہا تھا۔ اب اس کے ساتھ اس لڑکے کو دیکھ کر باقی تو سب حیران تھے جب کہ آمنہ آنٹی آبدیدہ ہوکر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ارے حدید…!‘‘ انہوں نے آگے بڑھ کر بے ساختہ اس کا برائون بالوں والا سر چوم لیا جب کہ حدید صاحب نے کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی تھی۔
’’مما! اسی نے مجھے لیٹ کرایا ہے‘ کب سے اسے کہہ رہا ہوں‘ آہی نہیں رہا تھا۔ میرا نام بھی ارسل ہے اسے ساتھ لے کر ہی آیا ہوں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اپنا کارنامہ بیان کررہا تھا۔
’’بیٹا! دوچار منٹ رہ گئے ہیں‘ جلدی کرو۔‘‘ عثمان انکل نے کہہ کر ان کا دھیان دوسری طرف لگادیا۔ وہ سنجیدگی سے دعا مانگنے لگی۔ سب نے خاموشی سے افطاری کی۔ افطاری کرنے کے بعد جب سب نماز کے لیے اٹھے تو حدید نے چھت کی طرف قدم بڑھائے۔ ماہی کے لیے یہ سب کچھ نہایت حیران کن تھا۔ وہ اس سے پہلے حدید سے صرف نام کی حد تک واقف تھی۔ وہ آمنہ آنٹی کا بھتیجا تھا۔ پہلے امریکہ میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھا‘ اس نے اکثر حدید کا ذکر آمنہ آنٹی یا ان کے بیٹوں کے منہ سے سنا تھا مگر اس کے ذہن میں حدید کا خاکہ ارسل جیسے نوجوان کا ہی تھا‘ اسے حدید کو دیکھ کر بلکہ جان کرجھٹکا سا لگا تھا۔
’’اچھا جو بھی ہے‘ جیسا بھی ہے ‘ مجھے کیا؟‘‘ وہ سر جھٹکتے ہوئے نماز پڑھنے چل دی۔ وہ نماز پڑھنے کے بعد تسبیح پڑھتے ہوئے سوفے پر بیٹھ گئی۔
’’دعائیں تقدیر بدل دیا کرتی ہیں۔‘‘ اس کے آس پاس ہی مدہم‘ بھاری‘ دلکش سا لہجہ مہکا تھا۔ بے ساختہ وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر خود ہی شرمندہ ہو کر دھیان تسبیح کی طرف لگانے کی کوشش کرنے لگی لیکن دھیان کا سرا کہیں اور الجھ گیا تھا۔
’’پتا نہیں مجھے کیا ہوتا جارہا ہے‘ اس طرح تو بالکل پاگل ہوجائوں گی میں۔‘‘ اس نے تسبیح سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر سر سوفے کی پشت پر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ کئی منظر فلم کی مانند اس کے ذہن کی اسکرین پر چلنے لگے۔
’’اس شخص کو تو شاید یاد بھی نہ ہو۔‘‘ دل نے دکھڑا سنانا چاہا۔
’’تو نہ یاد ہو مجھے کیا؟‘‘ دماغ نے بُری طرح اسے جھڑک دیا۔
وہ پانچ سالوں سے اس عذاب سے گزررہی تھی۔ دل ایک طرف تو دماغ دوسری طرف سفر میں گامزن تھا۔ پانچ سال سے اس کا دماغ اس کی عقل اسے ایک راستہ دکھارہے تھے تو دل دوسرا۔ اس کا دل چاند کا تمنائی تھا۔ وہ اس چاند کو اپنے آنگن میں اتارنا چاہتا تھا جو کہ اس کے اختیارات کی حدود سے باہر تھا۔
ان پانچ سالوں میں فقط ایک سال وہ نہایت اضطراب اور کرب میں مبتلا رہی۔ دل اور دماغ کا مخالف سمتوں میں سفر کرنا بڑی تکلیف دہ بات تھی‘ پھر وہ انسان تھی جس کی عقل محدود ہے‘ جو اپنا اچھا بُرا نہیں جان سکتا اور اللہ اپنے بندوں سے ستّر مائوں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ جو اپنے بندے کا اچھا بُرا جانتا ہے اور اس کی عقل لامحدود ہے۔ وہ جو کرتا ہے بندے کی بہتری کے لیے کرتا ہے۔ ’’اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔‘‘ وہ اس بات پر ایمان لے آئی۔ اسے اپنی زندگی کے تمام سوالات کو حل کرنے کے لیے بطورِ فارمولا استعمال کیا تو زندگی آسان سے آسان تر ہوتی چلی گئی۔
پھر آہستہ آہستہ وہ اس مصلحت کو بھی جانتی چلی گئی تھی کہ اللہ نے اس کے دل میں اس بندے کی محبت کیوں ڈالی؟ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی پسند کے سانچے میں ڈھلتی چلی گئی تھی‘ اس نے وہ تمام خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جو اس شخص میں تھیں پھر آہستہ آہستہ وہ ہر دلعزیز بنتی گئی۔ اس نے بے پناہ محبت پائی تھی‘ ان خوبیوں کو اپنا کر۔ اس نے دل و دماغ کے فیصلوں پر توجہ دینا اور ہلکان ہونا چھوڑ دیا۔ سب اللہ پر ڈال دیا تھا لیکن وہ جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی۔
’’اے خدایا! اس شخص کو صحت‘ سلامتی‘ خوشیاں عطا فرما۔‘‘ یہ جملہ اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہوا لبوں سے پھسل جاتا اور پھر دوسرا جملہ ہوتا۔
’’اے اللہ! اس شخص کے لیے وہ کرنا جو اس کے حق میں بہتر ہو اور میرے لیے وہ کرنا جو میرے حق میں بہتر ہو۔‘‘ اور اسے یقین تھا وہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے‘ اپنے در پہ آئے ہوئے سوالی کو خالی نہیں لوٹاتا۔ وہ ہمیشہ اپنے بندے کی دعا قبول کرتا ہے مگر اس صورت میں جو اس کے بندے کے لیے بہتر ہو۔
…٭٭٭…​
افطاری کے بعد وہ لوگ ڈنر کچھ دیر کے بعد کرتے تھے۔ کھانا لگانے میں عفان‘ روحان اور اشعر نے اس کی مدد کی۔ کھانے کی ٹیبل پر جب سب بیٹھے تو ارسل اور حدید ایک بار پھر غائب تھے۔ آمنہ آنٹی انہیں بلانے کے لیے جانے لگیں تو وہ انہیں روک کر خود اٹھ کھڑی ہوئی‘ ساتھ ہی عفان ‘ روحان اور اشعر کو بھی ناراض سی نظروں سے دیکھا جو آرام سے بیٹھے باتیں کررہے تھے اور ارسل کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔ جیسے ہی اس نے دستک کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اس کی سماعتوں سے اپنا ہی نام ٹکرایا چند لمحوں کے لیے اس کا ہاتھ فضا میں ہی معلق رہ گیا۔
’’یار! میں اچھی طرح جانتا ہوں‘ ان ماہی ٹائپ لڑکیوں کو‘ دوسروں کو تو نصیحتیں کررہی ہوتی ہیں مگر خود اندر سے پوری ہوتی ہیں۔ لڑکیاں ہی کیا میں نے بہت سے مسلمان لڑکوں بلکہ مذہبی لوگوں کی اصلیت کو اپنی آنکھوں سے کھلتا دیکھا ہے نفرت ہے ایسے دغا باز اور دھوکے باز لوگوں سے ‘ منافق کہیں کے… اونہہ!‘‘ اس سے پہلے کہ ارسل کچھ کہتا اور حدید مزید گوہر افشانی کرتا اس نے دروازے پر دستک دی اور انہیں کھانے کا کہہ کر بے تاثر چہرے کے ساتھ کمرے سے نکل آئی تھی جب کہ ارسل اس کی اچانک آمد سے گڑبڑا گیا تھا مگر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مطمئن ہوگیا جب کہ حدید کے اطمینان میں پہلے بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں بھی ٹیبل پر موجود تھے۔
…٭٭٭…​
وہ کسی کام سے اوپر آئی تھی جب اس نے حدید کی آمد کے بارے میں سنا۔ وہ کپڑے لینے چھت پر گئی تو وہ وہاں پڑے پرانے سے پلنگ پر لیٹا نجانے خلائوں میں کیا تلاش کررہا تھا۔
’’السّلام علیکم!‘‘ ماہی نے آتے ہی اس پر سلامتی بھیجی اور الگنی سے کپڑے اتارنے لگی۔
مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا تھا‘ اس کی پوزیشن میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا تھا‘ ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈال کر وہ دوبارہ اپنے مشغلے میں منہمک ہوگیا تھا۔
’’سلام کا جواب دینا چاہیے۔‘‘ وہ اب کپڑے بازوئوں میں لیے اس کی طرف مڑی۔ ’’خیر! میں آپ سے ایک بات شیئر کرنا چاہوں گی؟‘‘ اس نے بہت اعتماد سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھ سے…؟‘‘ حدید کے انداز میں حد درجہ حیرت تھی۔ ’’میں نے تو سنا تھا آپ خاصی دین دار خاتون ہیں‘ مجھ گناہ گار سے بات کرکے اپنا ایمان کیوں خراب کریں گی؟‘‘ اس کا لہجہ تمسخرانہ تھا۔
’’بے فکر رہیں‘ میرا ایمان آپ سے بات کر کے خراب نہیں ہوگا پھر خدا بہت غفور و رحیم ہے‘ بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کردیتا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کون خدا کو جانے کتنا عزیز ہو؟ اور کسے کب

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
ہدایت کی راہ پر ڈال دے؟‘‘ بات کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس کا لہجہ بہت پُرسکون اور ٹھہرا ہوا تھا۔
’’اچھا آپ فرض کریں کہ ایک بہت بڑا جنگل ہے جس میں آپ بھٹک گئے ہیں۔ آپ کے ساتھ وہاں کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ وہ بھی آپ کے ساتھ بھٹک رہے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کو منزل کا پتا معلوم ہے مگر وہ کم ہمت ہیں‘ منزل تک پہنچنے کے لیے راہ کی کٹھنائیوں کا مقابلہ وہ نہیں کرسکتے۔ وہ جنگل بیابان میں خار دار جھاڑیوں کے درمیان بھٹک رہے ہیں اور دوسروں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر چل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں کو منزل کا پتا بتاتے ہیں۔ راہ میں آنے والی کٹھنائیوں اور اونچ نیچ سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ یہ خیال دل میں نہیں لاتے اگر ہم منزل پر نہیں پہنچ سکتے تو دوسرے کیوں پہنچیں تو پھر ایسے میں جو لوگ بلند حوصلہ‘ جواں ہمت ہوتے ہیں اگر وہ یہ سوچ کر ان لوگوں کی باتوں پر عمل نہ کریں کہ اگر ان کو پتا معلوم ہے تو یہ خود کیوں بھٹک رہے ہیں؟ تو وہ یقینا بے وقوفی کریں گے۔‘‘ اس نے اتنا کہہ کر سانس لیا تو حدید فوراً بولا۔
’’کیسے؟ میں نہیں مانتا؟‘‘
’’میں نے بات ختم نہیں کی‘ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ جواں ہمت اور بلند حوصلہ ہیں وہ ان کے کردار پر غور فکر کرنے کے بجائے ان کے بتائے ہوئے راستے پر غور کریں اور اگر ان کو ان کا بتایا ہوا راستہ ٹھیک لگے یا کوئی دوسرا بھی اس راستے سے منزل تک پہنچا ہو تو وہ بے جھجک اس راستے پر قدم بڑھائیں۔ ایک شاعر کا کہنا ہے نا کہ:۔
’’نا دیکھ کہ کوئی خطاکار ہے کتنا
یہ دیکھ کہ تیرے ساتھ وفادار ہے کتنا
تو حدید صاحب نا صح کے کردار کے بجائے اس کی نصیحت کو دیکھنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے اس میں اتنی ہمت نہ ہو کہ وہ سیدھے راستے پر چل سکے اور آپ میں دشواریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت ہو اور آپ منزل تک پہنچ جائیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘ ماہی نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’پتا نہیں۔‘‘ وہ الجھا ہوا تھا‘ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اب بالوں میں انگلیاں پھنسائے نجانے کیا سوچ رہا تھا۔
’’تھوڑا سا سوچیں گے نا تو پتا چل جائے گا۔ ویسے بہترین ناصح وہ ہے جس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو اور ایسی ہی نصیحت کا اثر بھی ہوتا ہے۔‘‘ اس نے آہستگی کے ساتھ کہہ کر نیچے کی طرف قدم بڑھادیے جب کہ حدید ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا۔
…٭٭٭…
عصرکی نماز ادا کرنے کے بعد وہ تسبیح پڑھتی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی‘ کافی دیر وہ آنکھیں بند کیے پورے دھیان سے ذکر الٰہی میں مصروف رہی۔ انگلیوں پر تسبیح پڑھتے‘ اس کی آنکھیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹھہر گئیں۔
’’پتا نہیں میری قسمت میں کیا ہے؟ کیا وہ شخص میری قسمت ہے‘ جو میرے خانۂ دل کا مکین ہے؟ نہیں… شاید نہیں۔ جتنی خوبیاں اس شخص میں ہیں وہ مجھ میں قیامت تک پیدا نہیں ہوسکتیں۔‘‘
وہ ڈیزرو کرتا ہے کہ اسے اس جیسی ہی پرفیکٹ لڑکی ملے۔ خیر مجھے کیا ضرورت ہے ان باتوں پر دھیان دینے کی اگر وہ میری قسمت میں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مجھ سے نہیں چھین سکتی اور اگر وہ میری قسمت میں نہ ہو اتو دنیا کی کوئی طاقت اسے میرا نہیں کرسکتی اور جو بھی فیصلہ خدا کرے گا‘ وہ میرے حق میں بہتر ہوگا۔ میں نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا‘ اپنے دل میں پنہاں اس راز کو صرف اس کے ساتھ شیئر کیا ہے‘ فقط اس پر اعتماد کیا ہے وہ میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔
’’کتنی عجیب بات ہے ناں ہمارے ہی ہاتھوں پر ہماری ہی تقدیر لکھی ہے مگر ہم اسے بدل نہیں سکتے۔‘‘ اس کے پاس ہی آواز ابھری تھی جو اسے دوبارہ حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ یہ تمسخرانہ آواز حدید کی تھی۔ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے سامنے کھڑا تھا پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس سے دو سیڑھیوں کے فاصلے پر بیٹھ گیا۔
’’غلط کہہ رہے ہیں آپ‘ انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے دعائوں سے۔‘‘ ماہی نے بہت پُرسکون انداز میں اس کی بات کو رد کیا تھا۔
’’کیا آپ واقعی اتنی ہی پُرسکون ہیں جتنی نظر آتی ہیں؟‘‘ اب اس نے بغور اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ! میں واقعی بہت پُرسکون ہوں۔‘‘ ماہی کی آواز میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔
’’کیوں؟ کیا آپ کو کوئی بھی پریشانی نہیں ہے؟ آپ کی زندگی میں سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق ہے؟ اگر آپ کہیں گی ہاں تو میں نہیں مانوں گا۔ دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کی زندگی میں کوئی کمی نہ ہو۔ تھوڑی یا زیادہ بہرحال کمی ہر شخص کی زندگی میں ہوتی ہے۔‘‘ حدید نے بہت پُر یقین انداز میں کہا۔
’’بالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ‘ مکمل جہاں کسی کو نہیں ملتا مگر دو باتیں ایسی ہیں جنہیں آپ اپنی زندگی پر اپلائی کرکے ایک مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ خوش قسمت وہ نہیں ہوتا جس کی قسمت اچھی ہو بلکہ خوش قسمت وہ ہوتا ہے جو اپنی قسمت پر خوش ہو۔ یہ ایک بہت بڑے دانا کا قول ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان اس چیز ایمان لے آئے کہ ہر کام میں اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ یقین کریں ان دو باتوں پر عمل کرکے زندگی بہت پُرسکون انداز میں گزر سکتی ہے۔‘‘ وہ اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے پُرسکون لہجے میں کہہ رہی تھی کہ حدید ایک بار پھر شدید اضطراب کا شکار ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی جب کہ چہرے پر ایک تنائو تھا۔ ایک بار پھر اس نے انگلیاں بالوں میں پھنسا کر سر جھکالیا۔
’’میں ایسا نہیں کرسکتا‘ میرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں ڈھونڈنے سے بھی اچھا کچھ نہیں ملتا۔ آپ کے لیے شاید یہ سب آسان ہو کیونکہ آپ کے پاس بہت کچھ ہے‘ بہت سے رشتے‘ بہت سی محبتیں‘ بہت سارا اعتماد لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں بالکل تہی دست ہوں۔ میں اپنی قسمت پر شاکر نہیں ہوسکتا۔‘‘ وہ جب بولا تو اس کی آواز میں بہت کرب تھا۔ ماہی کا نرم دل اس کے دکھ پر پگھل گیا۔
’’آئم سوری‘ میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن آپ اپنا دکھ مجھ سے شیئر کرسکتے ہیں۔ دکھ درد کہنے سے انسان ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے۔‘‘ اس نے بہت نرمی اور اپنائیت سے کہا۔
’’سوری! مجھے اپنے پرسنلز کا اشتہار لگانے کا کوئی شوق نہیں۔‘‘ اب کے وہ بولا تو اس کی آواز میں بلا کی اجنبیت تھی۔
’’اچھا مجھ سے نہ کریں مگر آپ اپنا دکھ درد اللہ سے شیئر کرنے کی عادت ڈالیں۔ وہ نا اشتہار لگائے گا‘ نا آپ کی کمزوریوں پر آپ کا مذاق اڑائے گا بلکہ وہ قادر ہے‘ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ آپ کے دکھ درد مٹانا اس کے اختیار میں ہے۔‘‘ ماہی نے ایک بار پھر اسے نرمی سے سمجھایا۔
’’اچھا! اس نے اگر دکھ درد ختم کرنے ہوتے تو دیئے ہی کیوں تھے؟ کیا میرے لیے فقط یہی تحفے رہ گئے تھے۔‘‘ حدید کی آواز میں بے حد تلخی تھی۔
’’آپ بہت غلط انداز میں سوچ رہے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اگر آپ اسلامک ہسٹری پڑھیں تو آپ کو انداز ہوگا کہ اﷲ کے نیک بندے ہمیشہ بہت ساری آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔‘ ‘ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’لیکن میں تو کوئی نیک بندہ نہیں ہوں۔ مجھے اسلام کے بارے میں بس واجبی سی معلومات ہیں۔ میں نے امریکہ میں زندگی گزاری ہے۔ میری مدر عیسائی ہیں اور فادر مسلم! لیکن وہ بھی صرف نام کے۔ میں نے بچپن بورڈنگ میں گزارا ہے اور لڑکپن اور نوجوانی کلبوں میں۔ ہر وہ کام جو آپ کے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے میں کرچکا ہوں‘ میں جب چھوٹا تھا تب میرے فادر نے ایک مولوی صاحب کو مجھے قرآن پڑھانے کو کہا تھا اس نے مجھے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں بتایا تھا لیکن میں نے ان پر عمل کبھی نہیں کیا۔‘‘ ایک بار پھر اس کا انداز تمسخرانہ تھا۔
’’ہوسکتا ہے کہ اﷲ نے آپ کو مصیبتوں میں اس لیے مبتلا کیا ہو آپ پر واضح ہو کہ آپ بے بس ہیں‘ آپ کے اختیارات محدود ہیں اور کوئی ذات ہے جو با اختیار ہے۔ جس کے اختیارات لا محدود ہیں اور آپ اس کی بندگی اختیار کریں۔‘‘ ماہی نے نرمی سے کہا۔
’’آپ تصویر کا ایک ہی رخ کیوں دیکھتی ہیں؟‘‘ حدید کا انداز بہت تلخ تھا۔
’’دنیا میں ہر شے کے‘ چاہے وہ اچھے سے اچھی ہو یا بُرے سے بُری۔ اس کے دو رخ ہوتے ہیں ایک مثبت ایک منفی۔ اسلام ہمیں مثبت رخ دیکھنا سکھاتا ہے جیسے کہ کچھ دیر پہلے میں نے کہا تھا کہ ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے اگر ہم یہ مان لیں تو ہم مثبت پہلو دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور زندگی آسان ہوجاتی ہے۔‘‘ ماہی نے نرمی سے اسے اپنا نکتۂ نظر سمجھایا۔
’’پتا نہیں!‘‘ اب اس کے انداز میں بے زاری تھی۔
’’ماہی آپی! مما بلا رہی ہیں۔‘‘ عفان نے آکر اسے پیغام دیا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’میری بات پر غور ضرور کیجیے گا۔‘‘ حدید کو کہہ کر اس نے قدم آگے کی جانب بڑھا دیئے۔
…٭٭٭…​
کچھ دنوں کے بعد وہ پھوپو کے گھر سے واپس آگئی تھی اور مہرو اُدھر چلی گئی تھی مگر حدید کی باتیں ابھی تک اس کے ذہن میں تازہ تھیں۔ وہ کتنی بار سوچ چکی تھی‘ اسے کیا دکھ ہوسکتا ہے جس نے اسے ہر شے سے متنفر کردیا۔ وہ اس قدر منفی سوچ کیوں رکھتا ہے۔ جہاں تک وہ جانتی تھی آمنہ آنٹی کے بھائی ویل آف تھے‘ کئی سالوں سے امریکہ میں مقیم تھے پھر اس شخص کے ساتھ ایسا کیا مسئلہ ہے؟ لیکن بہت سوچ کر بھی اسے اس بات کا جواب نہ مل سکا۔
…٭٭٭…​
ان کے ہاں ہر سال افطار پارٹی ہوتی تھی۔ اس سال بھی تھی جب کہ وہ امی کے ساتھ مل کر لسٹ بنا رہی تھی تو محسن بھی آگیا۔
’’یہ تم کہاں آوارہ گردی کرتے رہتے ہو؟‘‘ امی نے ناراضی سے اس کی طرف دیکھا وہ صبح سے گھر سے غائب تھا۔
’’لو میں کیا آوارہ گردی کروں گا۔ر وزے میں بُرا حال ہے‘ صبح سے پھوپو کے گھر تھا وہ سیٹنگ چینج کررہی تھیں۔ ہم سب کو بھی تھکا دیا۔‘‘ اس نے سوفے کی پشت گا پر سر رکھتے ہوئے تھکن زدہ لہجے میں کہا۔
’’اچھا! ثمینہ کون سی سیٹنگ چینج کررہی تھی؟‘‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ڈرائنگ روم کی! مجھے‘ احمر‘ ارسل بھائی اور حدید بھائی کو تھکا دیا۔ ساری چیزیں ہمیں گھسیٹنی پڑیں۔‘‘ اس نے اپنی پوزیشن چینج کیے بغیر جواب دیا۔ ’’آپ لوگ کیا کررہی ہیں؟‘‘
’’لسٹ بنارہی تھی مینو کی۔ تمہارے بابا نے اگلے اتوار کو افطار پارٹی رکھی ہے۔ سب کو انوائٹ کرنے تمہیں جانا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’امی! اس دفعہ حدید بھائی کو بھی انوائٹ کرلیجیے۔‘‘ محسن نے کہا۔

[DOUBLEPOST=1346131864][/DOUBLEPOST]
اپنی اسٹڈی میں ہیں۔ امی کی تنبیہہ پر وہ دوپٹا ٹھیک سے اوڑھتی اسٹڈی روم میں چلی آئی۔
’’السّلام علیکم بابا! آپ نے بلایا؟‘‘ اس نے مؤدبانہ سلام کیا۔ بابا پروفیسر تھے‘ اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ کب آئے ہیں۔
’’یقینا مہرو نے میری شکایت کی ہوگی۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں مہرو کی خبر لینے کا منصوبہ بنایا۔
’’ہاں بیٹا! اندر آجائو۔‘‘ انہوں نے بہت نرم آواز میں اسے بلایا جو ابھی تک دروازے میں ہی کھڑی تھی۔ اندر آئی تو علم ہوا بابا اکیلے نہ تھے بالکل ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی سامنے سوفے پر بیٹھا تھا‘ دروازہ ادھ کھلا ہونے کی وجہ سے وہ اسے نہیں دیکھ سکی تھی۔ اب جاکے وہ بابا کے برابر بیٹھ گئی۔
’’جی بابا…!‘‘
’’بیٹا انہیں سلام کرو۔ یہ روشان عباس ہیں۔‘‘ انہوں نے سامنے بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا تو اس نے سامنے والی شخصیت کو فوراً بہت مؤ دبانہ سلام پیش کیا۔ جس کا اس نے جواب بھی فوراً دیا۔
’’بیٹا!یہ میرے اسٹوڈنٹ ہیں اور آپ ان کی اسٹوڈنٹ! آج سے یہ آپ کو میتھس اور کیمسٹری پڑھائیں گے۔‘‘ بابا کے کہنے پر اسے ڈھیروں پچھتاوا ہوا۔
’’کیا ضرورت تھی بابا کو بتانے کی ‘ اب روزانہ چاہے ہوم ورک ملے یا نہ ملے گھرآکر بھی پڑھنا پڑے گا۔‘‘ اس کی عادت تھی کہ ہوم ورک کلاس میں ہی بریک یا فری پیریڈز کے دوران کرلیتی اور جو تھوڑا بہت بچتا تھا وہ گھر آتے ہی یونیفارم چینج کیے بغیر جلدی سے کرتی اور باقی وقت مہرو اور محسن کے ساتھ کھیلتے اور انہیں پڑھانے میں صرف کرتی۔ وہ اپنی کلاس کی فرینڈز کے بجائے ان دونوں کے ساتھ زیادہ انجوائے کرتی تھی اور اب اس کی اس انجوائے منٹ کا خاتمہ ہونے کو تھا لیکن بابا کو انکار نہ کرسکی۔
’’کہاں بیٹھ کے پڑھنا پسند کرو گی آپ؟‘‘ اب بابا پوچھ رہے تھے۔
’’خوبانی کے درخت کے نیچے۔‘‘ اس نے فوراً پورے گھر میں اپنے پسندیدہ گوشے کا نام لیا اور پھر اسی وقت اس کی کلاس شروع ہوگئی جب کہ اس کا پڑھنے کا بالکل بھی موڈ نہ تھا۔
…٭٭٭…​
روشان عباس بہت اچھا پڑھاتا تھا مگر ا س کا دل نہ لگتا تھا پڑھنے میں سو وہ اسے جی بھر کر ستاتی۔ اس کے ٹیوٹر کے آنے سے مہرو اور محسن بھی ڈسٹرب ہوئے تھے۔ ان تینوں کو مل کر کھیلنے کی عادت تھی‘ اب وہ تینوں مل کر روشان عباس کو بھگانے کے منصوبے بناتے۔ ماہی اس وقت میٹرک میں تھی مگر بہت لا ابالی سی تھی۔ روشان عباس دُھن کا پکا تھا۔ ان کی تمام شرارتوں پر ناراض ہونے کے بجائے انہیں انجوائے کرتا۔ وہ جتنا اسے تنگ کرنے کی کوشش کرتے اس پر الٹا اثر ہوتا‘ اس کے بار بار سمجھانے پر بھی ماہی دھیان اِدھر اُدھر لگالیتی‘ جب وہ سوال کرتا تو اسے کچھ بھی نہ آتا‘ مگر اس کے باوجود روشان نے کبھی اسے نہیں ڈانٹا‘ جب تک ایک آرٹیکل اس کی سمجھ میں نہ آتا روشان بار بار دہراتا اور جب اسے سمجھ میں آتا تو ہی اگلا ٹاپک شروع کرتا۔ اس طرح کام لمبا ہوتا دیکھ کر ماہی خود ہی جھنجلا گئی۔ روشان نے اسے پوری بُک کروانی تھی اگر جلدی کام ہوجاتا تو اس کی جلدی جان چھوٹ جانی تھی۔ سو اس نے بھی پڑھائی پر دھیان دینا شروع کردیا اور جب اسے ستانا چھوڑ کر اس سے پڑھنے‘ اس سے سمجھنے کی نیت کی تو اس پر واضح ہوتا چلا گیا کہ روشان عباس ایک بھرپور شخصیت کا مالک ہے۔ مہرو اور محسن کی بھی اس سے دوستی ہوگئی۔ بابا کا تو وہ تھا ہی فیورٹ مگر اپنے نرم مزاج‘ خوش اخلاقی اور فرماں برداری کی وجہ سے اس نے امی کے دل میں بھی گھر کرلیا۔
وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت بلند کردار‘ اچھے اخلاق کا بھی مالک تھا۔ اسے مطالعے کا بے پناہ شوق تھا‘ ماہی کو اس کی بات نے بہت متاثر کیا تھا کہ اس سے کسی بھی موضوع پر بات کی جاتی‘ اسے اس پر عبور حاصل ہوتا تھا اور وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا مالک تھا۔ ماہی نے کبھی اسے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دین سے بھی بہت قریب تھا‘ اپنی انہی خصوصیات کی بناء پر اس نے سب کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد کی سی تھی۔ ماہی کو اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا۔ دو ماہ بعد ماہی کے ایگزامز تھے اور اس نے اسے بہت اچھی تیاری کروادی تھی۔ اس کا ماہی کے ایگزامز کے بعد بھی گھر میں آنا جاناتھا‘ بابا کو وہ بے حد عزیز تھا۔ عمر کے فرق کے باوجود اس کی ماہی‘ محسن اور مہرو سے بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی‘ سب سے اس کی دوستی ہوگئی اور وہ تینوں ہی روشان کو بے حد پسند کرتے تھے اور پھر کچھ عرصے بعد ہی اس کے فائنل سمسٹرز ہوئے اور وہ اپنے شہر چلا گیا۔ وہ لاہور سے تعلق رکھتا تھا اور تعلیم کی غرض سے واہ کینٹ آیا تھا‘ ہوسٹل میں رہائش پزیر تھا۔ اپنی تعلیم کے بعد وہ دوبارہ لاہور چلا گیا تھا مگر بہت سے دلوں میں اپنے نقش چھوڑ گیا تھا‘ جس میں ایک دل ماہی کا بھی تھا اور اس کے جانے کے بعد ماہی کو اپنے جذبات کا علم ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی اب اسے پلٹنا نہیں ہے مگر اس کے باوجود اپنے دل سے اس کے بارے میں پیدا ہونے والے جذبات کو کھرچ دینے پر قادر نہ تھی۔ نا ہی یہ سب وہ کسی سے شیئر کرسکتی تھی‘ تب اسے احساس ہوا تھا کہ ایک ذات ہے کہ یہ سب جس کے علم میں ہے‘ وہ ہر شے سے با خبر ہے اور اس کے دل میں یہ جذبات پیدا کرنے والی بھی وہی ذات تھی۔ پھر سب کچھ اس ذات سے جو خالق اور مالک ہے‘ شیئر کرنے کی عادت پڑگئی۔ روشنان سے محبت ہوئی تو وہ تمام صفات جو اس میں تھیں ہو بھی غیر شعوری طور پر اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگی اور کوشش عظمت کی معراج ہوتی ہے۔
بہت جلد وہ ہر دلعزیز بن گئی۔ اسے خدا کی مصلحت سمجھ میں آگئی اور وہ باتیں جو اکثر وہ روشان سے سنتی تھی ان پر عمل کرکے خدا کے بہت قریب ہوگئی تھی۔ اس نے اپنی محبت سارے جہاں سے چھپا کر دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھی تھی‘ صرف خدا سے شیئر کرکے سب کچھ خدا پر ڈال دیا تو یہ محبت اس کے لیے قربِ الٰہی کا سبب بنی تھی۔
’’آپی! ادھر آئو‘ آج تمہیں اس تقریب کے مہمانِ خصوصی سے ملوائوں۔‘‘ وہ کچن میں تھی جب محسن اس کا ہاتھ تھامے اسے زبردستی لان میں لے آیا تھا اور پھر ارسل کے ساتھ کھڑے جس شخص کے سامنے اس نے اسے کھڑا کیا تھا وہ سانس لینا بھول گئی تھی۔
’’آپ دونوں ایک دوسرے کوپہچانیں تو میں آپ کی یادداشت کو داد دوںگا۔‘‘ محسن نے کہا۔
’’سر آپ…!‘‘ ماہی کے لہجے میں از حد بے یقینی اور حیرت تھی۔
’’‘ماہم!‘‘ اس سے زیادہ حیرت اور بے یقینی روشان کی آواز میں تھی۔ بڑے سے دوپٹے میں خود کو چھپائے‘ پنک دوپٹے کے ہالے میں پُرنور چہرہ لیے‘ وہ لڑکی اس ماہم سے یکسر مختلف تھی۔ جسے وہ پانچ سال پہلے چھوڑ گیا تھا۔ ایک نظر میں پہچان گیا تھا کہ یہ وہ والی نٹ کھٹ ماہم نہیں ہے۔ محسن اب اسے بتارہا تھا کہ اس نے جب اسے پولیس کی گاڑی میںدیکھا تھا تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا‘ اس کی بات پر تب روشان نے اسے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ پولیس میں ہے اور اسی شہر میں ہے‘ وہ کل ہی بابا سے ملا تو انہوں نے اسے انوائٹ کیا۔
اور ایک بار پھر سے روشان عباس کا اس کے گھر میں آنا جانا شروع ہوگیا تھا اور ماہم کو لگا کہ اسے کوئی کھویا ہوا خزانہ دوبارہ مل گیا ہے۔ وہ سوچتی تھی شاید وہ زندگی بھر روشان عباس کو نہ دیکھ سکے گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا اس نے اپنا معاملہ اللہ پر ڈالا تھا جو ہر شے پر قادر ہے‘ قدرت رکھنے والا ہے۔ روشان عباس ایک بار پھر اس کے سامنے تھا‘ وہی شگفتہ مزاج‘ وہی دل میں گھر کرلینے والی طبیعت لیے ایک بار پھر اس نے گھر میں جگہ بنالی تھی۔
پورے پانچ سال بعد یہ عید اس کے لیے خوشیوں بھری تھی۔ آف وائٹ ٹرائوزر پنک کٹ دانوں کے کام والی شرٹ اور دوپٹے کے ساتھ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ مہرو نے اس کے ہاتھوں پر مہندی لگائی تھی جس نے خوب رنگ دیا تھا۔ یہ عید بہت اطمینان بھری تھی۔ اس کا رُواں رُواں اللہ کا شکر گزار تھا۔ ہمیشہ سنجیدہ رہنے والی ماہی ہنستی کھلکھلاتی بہت اچھی لگ رہی تھی۔
شام کو وہ لوگ پھوپو کے ہاں گئے تھے‘ بہت خوشیوں بھری اور یادگار شام وہاں گزری تھی۔ آمنہ آنٹی خاصی اداس تھیں۔ حدید پھر سے ہوٹل میں شفٹ ہوگیا تھا۔ ماہی کے ذہن سے تو وہ نکل ہی گیا تھا آمنہ آنٹی کو تسلی دیتے ہوئے اس نے اس شخص کی ہدایت کی دعا مانگی تھی۔ واپسی میں پھوپو ان کے ساتھ آئی تھیں۔
’’پھوپو! کیا حدید کے والدین نہیں ہیں؟ آمنہ آنٹی اس کے بارے میں اتنی فکر مند کیوں رہتی ہیں؟‘‘ ذہن میں کلبلاتا سوال لبوں سے پھسل گیا تھا۔
’’ہیں… مگر ان میں سپیریشن ہوگئی ہے۔‘‘ پھوپو نے سرسری سا جواب دیا تو وہ بھی اپنی باتوں میں مشغول ہوگئی۔
…٭٭٭…​
عید کے چوتھے روز روشان اپنی فیملی کے ساتھ آیا تھا اور جب اس کی امی نے ماہی کو اپنے ساتھ لگا کر ڈھیر ساراپیار کیا اور اس کی بہن کی چھیڑ چھاڑ اور ہلکے پھلکے سوالات پر ان کی آمد کا مقصد پہلے ہی واضح ہوگیا تھا۔ نویرہ (روشان کی بہن) بہت شوخ اور نٹ کھٹ سی تھی۔ اس کی آتے ہی مہرو سے دوستی ہوگئی تھی اور وہ دونوں اسے مسلسل چھیڑ رہی تھی۔ لبوں پر شرمیلی سی مسکان لیے ماہی ہوائوں میں اُڑ رہی تھی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر بے حد پیار آرہا تھا۔ روشان کی والدہ نے مدعا پیش کیا تو ماہی کے والدین نے سوچنے کے لیے وقت مانگا یہ تو صرف ایک رسم تھی‘ ورنہ روشان سب کو دل و جان سے پسند تھا۔ سب ہی بہت خوش تھے لیکن ماہی کی خوشی کا تو عالم ہی کچھ اور تھا‘ وہ چاند جس تک اس کی رسائی ممکن ہی نہ تھی وہ اس کے آنگن میں خود ہی اتر آیا تھا۔ اس کے جذبات و احساسات کو بیان کرنے کے لیے خوشی بہت چھوٹا لفظ تھا۔ ساری رات اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے گزاری تھی۔
…٭٭٭…​
روشان کی فیملی اپنے کسی رشتے دار کے ہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ انہی دنوں پھوپو اور آمنہ آنٹی آئی تھیں‘ حدید کا پرپوزل لے کر لیکن جو اہمیت سب کے نزدیک روشان کی تھی وہ حدید کی کسی صورت نہیں ہوسکتی تھی۔ سو امی نے انہیں سلیقے سے انکار کردیا کیونکہ پھوپو خود بھی روشان کے پرپوزل کی حامی تھیں۔ جب ماہی کو اس پرپوزل کا علم ہو اتو سوائے حیرت کے اس کے دل میں کوئی جذبہ نا ابھرا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ حدید اسے خاصا ناپسند کرتا ہے لیکن جو بھی تھا اس نے اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا۔ اس کی منزل اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی اس کی ساری سوچوں کا رخ اسی طرف تھا۔
…٭٭٭…​
کل روشان کے گھر والوں نے جواب لینے آنا تھا۔ ان کا ڈنر ماہی کے گھر ہی تھا سو ایک دن پہلے ہی اس کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ روشان ویسے ہی ان کے گھر بابا کے ساتھ آتا رہتا تھا۔ اس رشتے میں اس کی سو فیصد پسندیدگی شامل تھی۔ ماہی کو اپنا آپ بہت معتبر لگنے لگا تھا۔
وہ امی کے ساتھ ڈنر کی تیاری کررہی تھی۔ مہرو کی چھیڑ چھاڑ بھی جاری تھی۔ وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے اسے مسلسل چھیڑ رہی تھی۔ تبھی کال بیل بجی‘ محسن اپنے کمرے سے نکلا اور جاکر دیکھا تو سامنے آمنہ آنٹی تھیں۔ ان کی آمد سب کے لیے غیر متوقع تھی مگر رسمِ میزبانی نبھائی گئی۔
’’بھابی ! اگر آپ اجازت دیں تو میں تھوڑی دیر ماہی سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ آمنہ آنٹی نے جلد ہی اپنی آمد کا مقصد بیان کردیا۔
’’ارے بالکل آمنہ! ماہی تمہاری بھی بیٹی ہے۔‘‘ امی نے سادگی سے کہا۔ ’’ماہی بیٹا! آنٹی کو اپنے کمرے میں لے جائو۔‘‘ اب انہوں نے ماہی کو آواز دے کر کہا جو کچن میں کولڈ ڈرنک لینے گئی تھی۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تھوڑی دیر بعد وہ کولڈ ڈرنک لے کر کچن سے نکل آئی۔
’’آیئے آنٹی!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کمرے میں جاکر انہوں نے کولڈ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے بات شروع کی۔
’’بیٹا! میں نہیں جانتی کہ میں جو کرنے جارہی ہوں وہ صحیح ہے یا غلط‘ لیکن فی الحال مجھے یہی بہتر لگ رہا ہے۔ ماہی بیٹا! تم مجھے بہت عزیز ہو‘ شاید اتنی ہی جتنی ایک ماں کو اپنی بیٹی ہوسکتی ہے۔ میں بس زیادہ لمبی تمہید نہیں باندھوں گی۔ سیدھی طرح بات شروع کروںگی۔‘‘ انہوں نے گلاس سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں علم ہوگا چند دن پہلے میں نے حدید کے لیے تمہارے والدین کے سامنے دستِ سوال دراز کیا تھا مگر انہوں نے وہی کیا جو لڑکی کے والدین اس صورت میں کرتے ہیں یعنی ان کے پاس اس سے بہتر آپشن موجود تھا لیکن بیٹا حدید کو تمہاری بہت ضرورت ہے‘ تم جانتی ہو وہ کتنا بکھرا ہوا‘ ٹوٹا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اسے تم جیسے ہم سفر کی اشد ضرورت ہے‘ جو اسے سمیٹ لے۔ اس کے پاس کوئی رستہ نہیں ہے بلکہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔ بھائی جان جب پاکستا ن میں تھے تو وہ ایک لڑکی کو پسند کرتے تھے مگر وہ انگیجڈ تھی انہوں نے اس لڑکی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ شریف لڑکی تھی کچھ عرصے بعد اس لڑکی کی شادی ہوگئی اور بھائی جان دل برداشتہ ہوکر امریکہ سدھار گئے۔ میرے والد کا بچپن میں ہی انتقال ہوچکا تھا کچھ عرصے بعد والدہ بھی اکلوتے بیٹے کی جدائی سینے سے لگائے دارِ فانی سے کوچ کرگئیں اور بھائی بے فکر ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد مجھے ان کی شادی کی خبر ملی‘ انہوں نے کسی عیسائی لڑکی سے شادی کرلی اور اُدھر ہی بزنس بھی اسٹارٹ کیا۔ بزنس میں تو بھائی جان کامیاب رہے‘ مگر شادی نہ نبھ سکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ ابھی تک اس لڑکی کو نہیں بھولے تھے پھر انہی دنوں حدید پیدا ہوا۔ حدید جب ایک سال کا تھا اس کی ماں نے طلاق لے لی اور حدید کو بھی ساتھ لے گئی مگر جب وہ دوسری شادی کرنے لگی تو حدید اسے اپنی راہ میں رکاوٹ لگا‘ اس نے حدید کو دوبارہ بھائی صاحب کے حوالے کردیا‘ بھائی جان کو بھی حدید میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ ابھی تک اس لڑکی کو بھول نہ پائے تھے انہوں نے حدید کو کچھ عرصہ ساتھ رکھا پھر بورڈنگ میں ڈال دیا۔ حدید ماں باپ کے پیار اور تربیت سے محروم رہا اور جب وہ پندرہ سال کا تھا بھائی جان نے پھر شادی کرلی‘ اس بار ان کی بیوی مسلمان تھی مگر اولاد نہ ہوئی۔
حدید بے حد حساس اور ذہین بچہ ہے‘ اس نے ان تمام باتوں کا بہت زیادہ اثر لیا حالانکہ امریکہ میں تو یہ عام سی بات ہے۔ وہ سترہ سال کا تھا جب پہلی بار پاکستان آیا تھا لیکن مجھے بہت افسوس ہوا کہ بچپن کی محرومیوں نے اس کی شخصیت میں ایک خلاء پیدا کردیا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی وہ واپس نہ جائے مگر وہ چلا گیا۔ وہاں کے آزاد ماحول میں وہ بے راہ روی کا شکار ہوتا چلا گیا مگر وہ کبھی وہاں کے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہ کرسکا۔ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اسے اپنا وجود غیر اہم لگنے لگا۔ ایسے میں اسے ایک پُرخلوص ساتھی کی ضرورت ہے اور پھر سب سے بڑی بات وہ دین سے بہت دور ہوگیا ہے۔ میں جانتی ہوں اب اگر وہ واپس چلا گیا تو پلٹ کر شاید کبھی واپس نہ آئے اور میرے والد کی نسل تباہ ہوجائے گی۔ اس نے وہاں جاکر شادی کر بھی لی تو خاندان نہیں بناسکے گا اور سب سے بڑی بات جو کہ مجھے ارسل سے پتا چلی ہے کہ آج کل اس کی ماں اس سے رابطے میں ہے۔ وہ اس پر زور دے رہی ہے کہ وہ عیسائی ہوجائے‘ اس کی ماں کی بھی کوئی اولاد نہیں ہے‘ حدید محبتوں کا ترسا ہوا ہے‘ بیٹا مجھے ڈر ہے کہ کہیں… کہیں…‘‘ وہ رک گئیں ان کی آنکھوں سے آنسو کی لڑی لگی ہوئی تھی۔ ’’اس کے نزدیک بیٹا مذہب بالکل بھی اہمیت کا حامل نہیں‘ میں شادی اس کی کسی بھی لڑکی سے کروا سکتی ہوں مگر میں جانتی ہوں جو تم کرسکتی ہو وہ ہر لڑکی نہیں کرسکتی۔ تمہاری پچھلی باتوں کا بھی اس نے اثر لیا ہے‘ ماہی بیٹا! میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اسے گمراہ ہونے سے بچالو‘ میرے والد کی نسل کو مٹنے سے بچالو۔‘‘ انہوں نے روتے ہوئے واقعی اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے جب کہ ماہی گم صم ہوگئی تھی۔
’’ماہی! تم بہت اچھی نیک لڑکی ہو۔ کیا تم یہ گوارہ کرلو گی ایک شخص کو گمراہ ہونے سے بچانے کی قدرت رکھنے کے باوجود اسے گمراہی کی تاریکی میں بھٹکنے دو۔‘‘ انہوں نے اسے جھنجوڑ دیا تھا۔
’’ماہی! تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہو‘ اسے آزمائش جان کر قبول کرلو پلیز ماہی…!‘‘ انہوں نے پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔ ماہی نے آہستگی سے ان کے ہاتھ کھول دیئے تھے اور روتی ہوئی ان کے گلے جالگی تھی۔
’’ماہی! یقین کرو وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ ایک بار تم اسے سمیٹ لو‘ اسے سیدھے راستے کی طرف موڑ دو‘ تو وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔‘‘ وہ جانے کتنی دیر اسے سمجھاتی رہیں‘ اسے تسلیاں دیتی رہیں مگر ماہی کی سماعتوں میں تو فقط ایک جملہ گردش کررہا تھا۔ ’’ماہی تم اللہ سے محبت کرتی ہو‘ اسے آزمائش جان کر قبول کرلو۔‘‘ وہ چلی گئیں۔ ماہی کے وجود پر سناٹا چھا گیا تھا اور اس سناٹے سے فقط ایک ہی جملہ ٹکرارہا تھا۔
’’کیا میں واقعی اللہ سے محبت کرتی ہوں؟‘‘ وہ خود سے سوال کررہی تھی۔ ’’یا پھر صرف اپنے مقصد کی خاطر اس کے سامنے جھکی تھی؟‘‘ اس نے اپنا سر تھام لیا۔
’’ایک شخص کو گمراہی سے بچانے میں اللہ کی خوشی تھی تو روشان عباس کا ساتھ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی تو ان دونوں میں سے مجھے کس راہ کا انتخاب کرنا چاہیے‘ یقینا اللہ کی رضا کو ہر شے پر فوقیت حاصل تھی تو پھر کیا میں روشان عباس سے دستبردار ہوجائوں۔‘‘ اس کی حالت اس شخص کی سی تھی جس نے تپتے صحرا میں ننگے پائوں سفر کیا ہو‘ حلق میںکانٹے اُگتے محسوس ہوئے تھے تو پائوں پہ چھالے پڑگئے تھے اور جس آبِ حیات کے چشمے تک پہنچنے کے لیے اس نے اس قدر پر اذیت سفر کیا تھا اس چشمے تک پہنچ کر اسے معلوم ہوتا تھا کہ یہ آبِ حیات نہیں بلکہ آب فنا یعنی زہر ہے۔ وہ بری طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
’’یا اللہ! یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔‘‘ وہ ازحد مضطرب تھی۔
’’اے اللہ! تُو نے ہی تو میری ہر حال میں مدد کی‘ میری راہنمائی کی‘ میرے خدایا…‘‘ وہ جس قدر سوچتی جارہی تھی‘ اس قدر کرب میں مبتلا ہورہی تھی‘ سو اس نے ایک بار پھر سارا معاملہ اللہ پر ڈال
دیا۔ تھوڑی دیر بعد امی حیران پریشان سی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔
’’بیٹا! کیا ہوا ہے تمہیں؟ آمنہ کیا کہہ رہی تھی؟‘‘ انہوںنے اس کا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے سوال کیا۔ اچانک ماہی کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا۔
’’امی! آنٹی حدید والے پرپوزل کے بارے میں بات کررہی تھیں پلیز آپ روشان کی فیملی کو جواب دینے سے پہلے ایک بار استخارہ کرلیں۔‘‘ اس نے آنکھیں ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے بہت مضبوط لہجے میں کہا تھا۔ امی جہاندیدہ خاتون تھیں‘ معاملہ ان کی سمجھ میں کچھ نہ کچھ آنے لگا۔ انہوں نے زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا اور اسے تسلی دے کر چلی گئیں۔ وہ بیٹی کی چاہت سے واقف تھیں اور اب اس کے دل کی حالت سے بھی با خبر سو اس لیے اسے تنہائی دی کہ اچھی طرح سوچ بچار کرلے جب کہ ماہی کے دل و دماغ پر جھکڑ چل رہے تھے۔
’’اے اللہ! یوں دے کر کیوں چھینا ہے؟‘‘ وہ بُری طرح سسک رہی تھی مگر آج جب خوشیاں اس کی منتظر تھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے ان خوشیوں کے ہنڈولے میں نہیں جھول سکتی تھی۔ کل اگر کوئی اور اس سے بڑی مصیبت یا پریشانی آئی تو وہ کس منہ سے اللہ سے مدد مانگتی۔
وہ رات اس کے لیے قیامت کی رات تھی۔ روشان اور حدید کے چہرے اس کی نگاہوں کے سامنے گڈ مڈ ہورہے تھے۔ روشان عباس… ایک شان دار شخصیت کا مالک‘ تمام خوبیوں سے مزین‘ اس طرف دیکھتی تو زندگی پھولوں کی سیج تھی‘ تو دوسری طرف حدید آفندی تھا۔ایک ٹوٹی پھوٹی شخصیت کا مالک ٹوٹا بکھرا شخص اس طرف دیکھتی تو زندگی ایک خار دار راستے کی مانند دکھتی۔ روشان عباس کے ساتھ خوشیاں یقینی تھیں جب کہ حدید آفندی کے ساتھ بہت بڑا رسک تھا‘ اسے ایک کڑی آزمائش سے گزرنا تھا‘ ناکام ہوگئی تو عمر بھر کا خسارہ اور سرخرو ہوکر بھی اسے جی کو مار کر جینا تھا مگر پھر بھی اللہ کی رضا اسی میں تھی۔
…٭٭٭…​
امی نے استخارہ کیا تو مثبت اشارہ حدید کی طرف تھا‘ سب ہی حیران و پریشان تھے۔ بھلا کہاں روشان اور کہاں حدید۔ روشان کی فیملی کو جب انکار کیا گیا تو وہ سخت حیران تھے‘ جس طرح ان کی پزیرائی ہوئی تھی انہیں مثبت جواب کی توقع ہی نہیں بلکہ یقین تھا واپسی کے وقت روشان کی والدہ کو سخت صدمہ تھا۔ ماہی انہیں بھی پسند آئی تھی اس کی بہن خاموش تھی جب کہ روشان عباس خود خاصا گم صم تھا اور جب جاتے ہوئے کچن میں برتن دھوتی ماہی کی پشت پر کھڑے ہوکر کہا تھا۔
’’جانے کیوں مجھے خوش فہمی سی تھی کہ تم… خیر ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر بڑے بڑے قدم اٹھاتا واپس پلٹ گیا تھا۔ جب کہ ماہی بے دَم سی ہوکر زمین پر بیٹھنے لگی۔ بہت بھیانک مذاق کیا تھا تقدیر نے اس کے ساتھ۔
…٭٭٭…​
وہ سوچتی تھی کہ اگر ’’روشان عباس میری قسمت میں نہ ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت بھی اسے میرا نہیں کر سکتی اور اگر وہ میری قسمت میں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مجھ سے نہیں چھین سکتی۔‘‘
روشان عباس واقعی اس کی قسمت میں نہیں تھا تبھی تو اس طرح سے وہ اس کی زندگی سے نکلا تھا‘ جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا بھلا اس نے یہ کب سوچاتھا کہ وہ اس کے در پہ سوالی بن کر آئے گا اور وہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دے گی اور پھر اس نے اپنی محبت‘ اپنے جذبات کو دل کی ایسی گہرائیوں میں دفن کردیا تھا جہاں سے ان کی کوئی کونپل دوبارہ نہیں پھوٹ سکتی تھی۔
اتنے سپنے نہ سجا اے میرے دل
ورنہ کل تجھی کو ہوگی مشکل
یہ سپنے اکثر ریزہ ریزہ ہوتے ہیں
عمر بھر پھر اپنی کرچیاں چبھوتے ہیں
بڑی مختصر ہے زندگانی اسے سکون سے گزرنے دو
تقدیر کے ستم ہی بڑے ہیں انہی سے نپٹنے دو
مان لو نہ دو جنم یہ اضافی غم
ورنہ خود تو تڑپو گے رکھو گے آنکھوں کو بھی نم
جن خواہشوں کو اپنے لہو سے سینچتے ہو
جب ان کے لاشے اپنی سرزمیں پر دفنائو گے
تو ایک شہرِ خموشاں بسائو گے
بڑے ہوجائو گے دکھی‘ بڑے معصوم بن جائو گے
جیسے تمہاری نہ ہوکہیں کوئی خطا
سب ہو قدرت کی طرف سے سزا
نکل آئو اے دل ان رنگین خوابوں سے
کرو آشنائی حقیقت کے عذابوں سے
آخر یہ کتنا ہمیں آزمائے گی
یہ مختصر سی زندگانی لٹ ہی جائے گی
ہنسی خوشی میں سہہ جائوں گی باقی ہر غم کو
اے دل! اگر تم میری مرضی پہ چلو
اور پھر فائنل سمسٹرز ہوتے ہی وہ حدید فندی کے سنگ رخصت ہوگئی تھی۔
…٭٭٭…​
’’اچھا پھر کیا ہوا؟ حدید کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے تمہیں کیا کرنا پڑا؟‘‘ ستارہ نے بے تابی سے سوال کیے تو ماہم جو سانس لینے کو رکی تھی مسکرادی۔ ستارہ اس کی پڑوسی تھی اور بہت اچھی دوست بھی۔ وہ ان کی خوش گوار ازدواجی زندگی کا راز جاننا چاہتی تھی جس پر ماہم نے اسے اپنی سرگزشت سنائی تھی۔
’’پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا میری توقعات کے برعکس تھا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ’’حدید! بھی مجھے چاہتے تھے مگر یہ سوچ کر انہوں نے اظہار نہیں کیا تھا کہ شاید وہ مجھے خوش نہیں رکھ سکتے اور جب بن مانگے‘ بغیر کوشش کیے ہی میں ان کو مل گئی تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات جنم لینے لگے اور پھر مجھے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی۔ حدید واقعی بنیادی طور پر اچھے انسان ہیں مگر صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بھٹک گئے تھے۔ ان کی مثال اس زمین کی سی تھی جس کی دیکھ بھال نہ کیے جانے پر اس میں جھاڑیاں اگ آئی تھیں لیکن مٹی بہت زرخیز تھی اور پھر جب ان جھاڑیوں کو کاٹ کر فصل کا بیچ بویا گیا تو اس نے بہت اچھی فصل دی۔ حدید خود بھی محبتوں کو ترسے ہوئے تھے سو وہ ایک سکون بھری زندگی گزارنا چاہتے تھے پھر بہت جلد میری زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن گئی۔‘‘
’’اور روشان عباس سے اگر تمہاری شادی ہوجاتی تو؟‘‘ ستارہ نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تو مجھے یقین ہے کہ میں اتنی خوش نہ رہ سکتی تھی۔ روشان عباس اپنے ذات میں مکمل شخص تھا۔ اسے میری کوئی خاص ضرورت نہ تھی جب کہ حدید کو میری بے حد ضرورت تھی جتنی قدر میری حدید کرتے ہیں وہ روشان عباس کبھی نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی وہ مجھ سے حدید جتنی محبت کرسکتا تھا۔ حدید کی زندگی میں میری وجہ سے خوشیاں آئی ہیں جب کہ اس شخص کی زندگی میں پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ میرے ملنے یا نہ ملنے پر اس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑنا تھا۔‘‘ ماہم نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’ہاں‘ یہ تو ہے۔‘‘ ستارہ نے اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا اور واقعی خوشیوں کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی۔ اس کے تصور میں بھی نہ تھا کہ اسے حدید سے اس قدر خوشیاں ملیں گی کہ سمیٹنے کے لیے دامن کم پڑ جائے گا۔ بے حد محبت‘ بے پناہ احترام اور بہت ساری قدر نے اسے اپنے وجود پر نازاں کردیا تھا۔ کسی آنکھ میں اس کے لیے رشک تھا تو کسی میں حسد یا پھر ملی جلی کیفیات۔
…٭٭٭…​
گاڑی کا ہارن بجا تھوڑی دیر بعد انمول اور سعد بھاگتے ہوئے آئے اور اس سے لپٹ گئے۔
’’مما… مما…! میری اور سعد دونوں کی فرسٹ پوزیشن ہے۔‘‘ پانچ سالہ انمول نے اسے جگمگاتے ہوئے چہرے کے ساتھ بتایا جب کہ سات سالہ سعد اپنا پرائز اسے دکھارہا تھا۔ تبھی حدید بھی اندر آیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا جب کہ لبوں پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ وہ آکر اس کے برابر بیٹھ گیا۔
’’ماہم! یہ سب تمہاری وجہ سے ہے۔ بچوں کی کامیابی اور اس اطمینان بھری زندگی کا کریڈٹ صرف تمہیں جاتا ہے۔ تم میری زندگی میں روشنی بن کر آئیں اور تمام اندھیروں کا خاتمہ کردیا‘ میرے گھر اور وجود کو منور کردیا۔ تم وہ خوشبو ہو جس نے میرے وجود کو مہکادیا۔‘‘ حدید ہر شے کا کریڈٹ اسے دے رہا تھا اس کی اتنی محبت اور قدر پر ماہم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ دونوں بچوں کو سینے میں چھپائے وہ ایک بار پھر اللہ کی شکر گزار تھی۔ واقعی اﷲ بہت کریم ہے۔ انسان جان ہی نہیں سکتا جو کچھ اس کے علم میںہے‘ واقعی اس کے ہر عمل میں مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے اور حدید کے ساتھ شادی کرکے اس نے اپنے تئیں ایک قربانی دی تھی مگر جتنی خوشیاں اسے ملی تھیں ان کا اس نے تصور بھی نہیں کیاتھا۔
لگانا پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
اس کے خیال میں اس کی محبت کا سورج غروب ہوگیا تھا مگر اس غروب کا مطلب زوال نہ تھا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
فرق تربیت… عروسہ عالم
ساس سسر کے انتقال کے بعد گھر فروخت کرکے سب کو حصے مل گئے۔ فیضان اور ارسہ نے اپنے لیے ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا۔ ابھی ان کی شادی کو صرف آٹھ ماہ ہوئے تھے۔ فیضان دوائوں کی کمپنی میں ملازم تھے۔ وہ صبح کو گئے شام کو گھر آتے تھے۔ارسہ سارا دن خود کو گھر میں مصروف رکھتی تھی۔ انہیں اپنے نئے گھر میں آئے ہوئے دو ہفتے ہوچکے تھے۔ آتے جاتے محلے کے مردوں سے فیضان کی سلام دعا ہوجاتی تھی لیکن ارسہ ابھی تک کسی کے گھر نہیں گئی تھی اور نہ کوئی خاتون اس کے پاس آئی تھیں۔
اس دن وہ کام سے فارغ ہوکے دوپہر کو ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ زور دار بیل بجی۔ اس نے گیٹ کھولا تو ایک تقریباً پینتیس سالہ خاتون کھڑی تھیں۔
’’ہم آپ کے ساتھ والے گھر میں رہتے ہیں‘ آپ تو آئیں نہیں ہم نے سوچا کہ ہم ہی جاکے مل آئیں۔‘‘
’’بہت خوشی کی بات ہے آپ آئیں۔ اندر تشریف لایئے۔‘‘ ارسہ اسے لے کے ڈرائنگ روم میں آگئی۔
’’لگتا ہے آپ بہت کم لوگوں سے ملتی ملاتی ہیں۔‘‘ وہ بہت طرحدار خاتون تھیں‘ ملاقات کے بغیر ہی ارسہ کا مزاج سمجھ گئیں۔
’’کچھ ایسا ہی ہے اور پھر ابھی تو ہمیں یہاں آئے ہوئے چند ہی دن ہوئے ہیں‘ آہستہ آہستہ سب سے ملاقات ہوجائے گی۔‘‘ اس نے ان کی گود میں موجود آٹھ ماہ کے بچے کو پیار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘
’’ایک اس سے بڑا ہے وہ تو دو سال کا ہے اور آپ کب تک فارغ ہورہی ہیں۔‘‘ اس نے ارسہ کے سراپا کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ابھی کچھ ٹائم ہے۔‘‘ ارسہ نے جھینپتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
’’چلیں اگر آپ نہیں بتانا چاہتی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں پتا تو چل ہی جائے گا۔‘‘
’’ظاہر ہے یہ کوئی چھپنے والی بات بھی نہیں۔‘‘ ارسہ نے ناگواری سے کہا۔ ارسہ کو اس کی بات عجیب سی لگی۔
…٭٭٭…
ارسہ کی گود میں جبران آگیا اس کی مصروفیت کچھ اور بڑھ گئی۔ صدف کا اس کے گھر آناجانا لگا رہا۔
جبران دو سال کا ہوا تو ارسہ نے اسے اسکول میں داخل کروادیا۔ صدف کو پتا چلا تو فوراً آگئی۔
’’ارے آپ تو بڑی چھپی رستم نکلیں‘ آپ نے بتایا نہیں اور بچے کو اسکول بھی داخل کروادیا۔‘‘
’’اس میں چھپی رستم کی کیا بات ہے‘ ہمارے یہاں تو سبھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘
’’تعلیم تو خیر ہمارے یہاں بھی سب حاصل کرتے ہیں۔‘‘ ارسہ کی بات پر صدف بُری طرح چڑگئی۔ ’’میرے سب بہن بھائی ڈاکٹر‘ انجینئر ہیں۔‘‘ اس نے تپے ہوئے انداز میں کہا۔
’’لیکن آپ کے ایک بھائی کا تو جنرل اسٹور ہے؟‘‘ ارسہ نے جتایا۔
’’وہ تو خیر انہیں بزنس کرنے کا شوق ہے ورنہ انہوں نے فرسٹ کلاس میں انجینئرنگ پاس کی ہوئی ہے۔‘‘
’’یہ بات کچھ عجیب سی نہیں کہ ایک فرسٹ کلاس انجینئر لاکھوں کی نوکری ٹھکراکر جنرل اسٹور چلا رہا ہے۔‘‘
’’بھئی اپنے اپنے شوق ہوتے ہیں‘ آپ تو بات کو پتا نہیں کہاں سے کہاں لے گئیں۔‘‘ ارسہ نے اس کی بات پکڑی تو وہ بُری طرح سے جل کے چڑگئی اور فوراً بات پلٹ دی۔
’’مجھے تو آپ پر حیرت ہورہی ہے کہ کیسی ظالم ماں ہیں آپ اتنی جلدی بچے کو اسکول میں داخل کروادیا۔
’’میں تو اس سے بھی کم عمری میں اسکول میں داخل ہوگئی تھی۔‘‘
’’بھئی میں تو ایسا نہیں کرسکتی‘ مجھے تو اپنے بچوں سے بہت پیار ہے۔‘‘ صدف نے پھیکے سے انداز میں کہا۔
’’پیار کرنے کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ اپنی اولاد سے میری محبت یہ ہے کہ میں اس کا وقت برباد نہیںکرنا چاہتی۔‘‘
’’اتنی جلدی اسکول میں داخل کروا کے تو بچوں کا بچپن برباد ہوجاتا ہے۔ بچوں کا بچپن تو پندرہ سال تک چلتا رہتا تھا۔ ‘‘
’’آپ پندرہ سال کی عمر میں داخل کروا دیجیے گا۔ میں تو پندرہ سال تک اپنے بچے گھر میں نہیں بٹھا سکتی تھی نا۔‘‘
صدف کا بڑا بیٹا چار سال کا اور چھوٹا تین سال کا ہوچکا تھا۔ اس نے ابھی تک اپنے بچوں کو اسکول میں داخل نہیں کروایا تھا۔ اس کے دونوں بیٹے جبران سے بڑے تھے۔
’’کون سے اسکول میں داخل کروایا ہے تم نے۔‘‘ اس نے کچھ بجھے ہوئے انداز میں آہستگی سے پوچھا۔
ارسہ نے شہر کے سب سے شان دار اور مہنگے اسکول کا نام بتادیا۔
’’اس اسکول میں تو سنا ہے کہ پڑھائی ہی نہیں ہے اور ماحول بھی بہت خراب ہے۔‘‘ اس نے پھر تنقید کی۔
’’اس اسکول کی پڑھائی اور وہاں سے پڑھے ہوئے بچے تو مشہور ہیں اور صرف اسکول کی پڑھائی پر ہر کوئی ترقی نہیں کرتا ہے۔ اصل پڑھائی وہی ہوتی ہے جو بچے خود کرتے ہیں اور رہی ماحول کی بات تو اپنے بیٹے کی تربیت میں کررہی ہوں‘ وہ اسکول میں اپنا ماحول اور اپنی جگہ خود بنائے گا۔‘‘
صدف کو اس بار کوئی جواب نہیں سوجھا تو وہ اپنا سا منہ لے کر چلی گئی مگر ہر دس بارہ دن کے اندر ہی صدف نے اپنے دونوں بچوں کو ایک عام سے اسکول میں ایک ہی کلاس میں داخل کروادیا۔ اس دن سے صدف بچوں کے معاملے میں مقابلے پر اتر آئی۔
…٭٭٭…​
وقت گزرتا رہا جبران کے بعد کامران آگیا اور صدف کے یہاں ارم آگئی۔ صدف عجیب مزاج کی تھی‘ ہر وقت جبران‘ کامران کے اسکول کو بُرا او راپنے بچوں کے اسکول کی تعریف کرتی رہتی تھی۔ اس کا احساسِ کمتری اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔ جو چیزیں وہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی ان کی خوب برائیاں کرتی تھی۔ اس کا شوہر گورنمنٹ اسکول میں کلرک تھا۔ وہ لوگ کرائے کے گھر میں رہ رہے تھے ‘ یہ گھر صدف کے شوہر نوید کے چچا کا تھا‘ وہ فیملی سمیت ملک سے باہر تھے۔ انہوں نے گھر کی حفاظت کے خیال سے برائے نام کرائے پر انہیں رکھا ہوا تھا۔ ارسہ اور فیضان کی الگ الگ گاڑیاں تھیںجب کہ صدف کے شوہر کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ صدف نے محلے میں ہی ٹیوشن پڑھنے کے لیے تینوں بچوں کو بھیجنا شروع کردیا جب کہ کامران اور جبران خود پڑھتے تھے۔ اسکول سے آنے کے بعد صدف کے تینوں بچے گلیوں میں کھیلتے رہتے تھے بس ٹیوشن اور مولوی صاحب سے پڑھنے کے لیے گھر میں جاتے تھے۔ ارسہ نے بچوں کو کبھی گلی میں نہیں نکالا تھا۔
ارسہ مولوی صاحب کے آنے پر گیٹ کھولنے گئی تو صدف سامنے والی مسز ہاشم سے باتیں کررہی تھی اور تینوں بچے دوسرے بچوں کے ساتھ بہت بُری زبان بولتے ہوئے گلیوں میں کھیل رہے تھے۔
’’آپ کے بچے تو کبھی گھر سے باہر کھیلتے ہوئے نظر نہیں آئے۔‘‘ سلام دعا کے بعد مسز ہاشم نے ارسہ سے پوچھا۔
’’میں بچوں کو کھیلنے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکالتی‘ مجھے گلی کوچوں میں بچوں کا کھیلنا پسند نہیں ہے۔‘‘
’’ایسے تو بچے بزدل اور بے وقوف ہوجاتے ہیں‘ ان میں کانفیڈنس نہیں آتا ہے۔‘‘ صدف نے کہا۔
’’اس طرح سے بزدل اور بے وقوف نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ اس طرح بدتمیز اور بے قابو ہوجاتے ہیں۔ سب بچوں میں عمر اور تعلیم کے حساب سے کانفیڈنس آتا چلا جاتا ہے۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں‘ میں نے آپ کی طرح ہی اپنے بچوں کو پالا ہے آج دیکھیے اللہ کی رحمت سے سب کتنے اچھے مقام پر ہیں۔‘‘ مسز ہاشم نے اس کی بات کی تائید کی۔
’’کوئی فزیکل ایکٹیویٹی بھی ہونی چاہیے ناں!‘‘ صدف اپنا اور اپنے بچوں کا مسلسل بچائو کررہی تھی۔
’’میرے بچوں کے اسکول میں روزانہ ہاف ٹائم ہوتا ہے اور ہفتے میں دو دن اسپورٹس یونٹ ہوتا ہے وہاں ان کی بہت اچھی طرح فزیکل ٹریننگ ہوجاتی ہے اور پھر میں اپنے بچوں کو کیسے گھر سے باہر نکالوں ہر گھر کے بچے اور ان کی زبانیں‘ گفتگو عجیب سی ہوتی ہے۔ بچوں پر ایسی چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘
صدف کو ارسہ کی ہر بات طنز لگ رہی تھی۔ مسز ہاشم اور ارسہ کے بچوں کی تربیت اس کے لیے سبکی کا باعث بن گئی۔ اس نے جلدی سے بچوں کو آوازیں دینی شروع کردیں اور اس نے بچوں کے باہر جانے پر پابندی لگادی۔ بچے یہ پابندی برداشت نہیں کرسکے‘ وہ باہر کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ اب گھر میں نہیں بیٹھ سکتے تھے‘ ان کی ضد پر اس نے دوبارہ سے انہیں باہر نکالنا شروع کردیا تھا۔
اس کے دونوں بیٹے جبران کے ساتھ 9th کلاس میں آگئے۔ کامران چھٹی کلاس میں تھا‘ جبران ہمیشہ فرسٹ آتا تھا جب کہ کامران کبھی پوزیشن نہیں لایا لیکن وہ بھی بڑا محنتی تھی ۔
صدف ہر سال پابندی سے ارسہ کے بچوں کا رزلٹ دیکھتی تھی کہ کہیں ارسہ غلط تو نہیں بتارہی ہے۔ ارسہ نے کبھی اس کے بچوں کے بارے میں نہیں پوچھا تھا کیونکہ ان کی تربیت اور پرورش کو دیکھ کر وہ ان کے رزلٹ سے اچھی طرح سے واقف تھی‘ اس لیے وہ پوچھ کے صدف کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آج وہ جبران اور کامران کارزلٹ دیکھنے کے لیے آگئی تھی۔
’’آپ میرے بچوں کا رزلٹ تو ہر سال بڑی پابندی سے دیکھتی ہیں‘ کبھی اپنے بچوں کا نہیں دکھایا‘ اس سال دکھا دیجیے۔‘‘
’’پہلے اپنے بچوں کا تو دکھا دیئے ‘ میں اپنے بچوں کا چھپائوں گی تھوڑی ضرور دکھائوں گی۔‘‘
’’یہ دیکھیے اس دفعہ تو ماشاء اللہ کامران کی بھی تھرڈ پوزیشن آئی ہے۔‘‘ صدف کا چہرہ اتر گیا پھر جلد ہی سنبھل گئی۔
’’بھئی میرے بچوں کی تو ماشاء اللہ ہر سال کی طرح اس سال بھی پوزیشن آئی ہے‘ اتفاق دیکھیے کہ تینوں ایک ایک نمبر سے فرسٹ پوزیشن سے رہ گئے۔ آپ تو مجھے اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ میں جھوٹ تو کبھی بولتی ہی نہیں ہوں۔‘‘ ارسہ نے اس کی طرف جس انداز سے دیکھا تو صدف نظریں چرانے لگی کیونکہ صدف اپنی ہر کمی اور کمزوری پرہمیشہ یونہی جھوٹ کے پردے ڈالا کرتی تھی۔
’’چھوڑیئے اس بات کو آپ اپنے بچوں کا بتایئے‘ پاس ہوگئے یا نہیں؟‘‘ صدف نے پھر اپنی جلن نکالی۔
’’پاس…؟ ارسہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا تو وہ سٹپٹا گئی۔
’’ہاں پاس تو شاید ہوہی گئے ہوں گے۔‘‘ اس نے ارسہ کے تیور دیکھ کر جلدی سے بات کو سنبھالا۔
’’اس دفعہ دونوںکا رزلٹ ماشاء اللہ پچھلے سال سے بھی شان دار آیا ہے۔ جبران فرسٹ اور کامران تھرڈ آیا ہے۔ پہلی مرتبہ کامران کی پوزیشن آئی ہے۔‘‘
’’تھرڈ پوزیشن کی توکوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی ہے۔‘‘ صدف نے حسب معمول طنز کیا۔


’’لیکن یہ پوزیشن ہمارے اور ہمارے بچے کے لیے بہت اہم ہے اور آپ کے لیے تو اور بھی زیادہ اہم ہے کہ آپ کے بچے ہر سال ایک نمبر سے فرسٹ پوزیشن سے رہ جاتے ہیں۔
…٭٭٭…
’’فیضان میں تو اس صدف سے تنگ آچکی ہوں‘ جھوٹ اور بڑی بڑی باتوں کے سوا اس عورت کو کچھ نہیں آتا ہے۔‘‘ رات کو ارسہ نے اپنے شوہر کو صدف کی باتیں بتاتے ہوئے کہا۔
’’وہ احساس کمتری کی ماری ہوئی عورت ہے‘ تم اسے زیادہ لفٹ نہیں کرائو اور بچوں کی پڑھائی کو تو بالکل ڈسکس نہیں کیا کرو‘ نااس کے بچوں کے بارے میں پوچھا کرو۔‘‘ فیضان نے سمجھایا۔
’’میں تو ہمیشہ ایسا ہی کرتی ہوں لیکن مجھے آج اس کی بات بہت بُری لگی جب اس نے کامران کی تھرڈ پوزیشن کو بالکل بے حیثیت کردیا۔‘‘
’’کہنے دو ہمارے لیے تو ہمارے بچے کی پوزیشن بہت اہمیت کی حامل ہے ناں۔‘‘ فیضان نے کہہ کر بات ہی ختم کردی تو ارسہ نے بھی ٹاپک بدل دیا۔
…٭٭٭…
ارسہ آج رول اور سموسے بناکر فریز کررہی تھی کہ صدف آگئی۔
’’کیا ہورہا ہے؟‘‘ صدف نے کچن میں آکے کہا۔
’’بچوں کے اسکول لنچ کی تیاری کررہی ہوں۔‘‘
’’اب تو بڑے ہوگئے ہیں‘ تم انہیں ابھی تک لنچ دیتی ہو؟‘‘
’’گھر کے لنچ کی جو بات ہے وہ باہر کی نہیں ہوتی ہے اور گھر کے لنچ کا تعلق بڑے ہونے سے نہیں ہے بلکہ صفائی اور صحت مندی سے ہے اور میرے بچوں کو بہت اچھا اور صاف ستھرا کھانے کی عادت ہے۔ مجھے اور میرے بچوں کو اسکول کی کینٹین کی چیزیں بالکل پسند نہیں ہیں۔‘‘
’’ہاں تو بچوں کے اسکول کی کینٹین اچھی نہیں ہے ناں جبھی اچھی چیزیں نہیں ملتی ہیں۔ ہمارے بچوں کے اسکول کی کینٹین تو بڑی زبردست ہے‘ ہر چیز اچھی‘ صاف اور تازہ ملتی ہے۔ چھوٹے اسکولوں کی کینٹین کہاں اچھی ہوتی ہے۔ تم صحیح کرتی ہو جو انہیں لنچ بناکر دیتی ہو۔‘‘ صدف نے حسب معمول دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کیے۔
’’میرے بچوںکا اسکول چھوٹا ہے نا وہاں کی کینٹین خراب ہے اور رہی لنچ دینے کی بات تو آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ مجھے اپنی اولاد سے بہت محبت ہے‘ میں ان کی صحت صفائی پڑھائی ہر بات کا بہت خیال رکھتی ہوں‘ اس لیے انہیں اپنے ہاتھ سے ہر چیز بناکر دیتی ہوں اور اب میرے بچے بہت شان دار چیزیں کھانے کے عادی ہوچکے ہیں۔‘‘ صدف کو اتنے شدید حملے کی امید نہیں تھی ارسہ کا جواب سن کے بالکل سن ہوگئی۔
…٭٭٭…
اس دن ارسہ اور مسز ہاشم سبزی لے رہی تھیں کہ صدف بھی آگئی۔
’’ارسہ! ذرا آج میرے ساتھ بیوٹی پارلر چلنا‘ مجھے فیشل کرانا ہے۔‘‘
’’ابھی تو میں نہیں جاسکتی کیونکہ میرے بچوں کے مڈٹرم چل رہے ہیں۔‘‘
’’مڈٹرم تو میرے بچوں کے بھی چل رہے ہیں‘ بچوں میں اتنا احساس ذمہ داری ہونا چاہیے کہ وہ خود پڑھ سکیں اور جن بچوں کو پڑھائی سے محبت ہوتی ہے وہ ہر طرح سے خود پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ صدف نے حسب عادت چوٹ کی۔
’’میرے بچے خود ہی پڑھتے ہیں انہیں نہ میں پڑھاتی ہوں نہ کوئی ٹیوٹر ہے لیکن دونوں تمام چیپٹرز یاد کرکے مجھے سناتے ہیں اس وجہ سے ان کی پڑھائی کے دوران مجھے ان کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں کمزور بچوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ خود نہیں پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ صدف نے پھر ایک تیر چھوڑا اور تن فن کرتی گھر میں گھس گئی۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ ارسہ کے دونوں بچوں نے قرآن پاک بھی حفظ کرلیا تھا۔ اسکول کی پڑھائی کے ساتھ انہیں قرآن حفظ کرنے میں کافی ٹائم لگا لیکن ارسہ اور فیضان اس بات پر بہت خوش اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار تھے کہ دونوں بچے حافظ قرآن بن گئے تھے۔ ارسہ نے محلے میں کئی جگہ مٹھائی بانٹی تھی اور آج وہ اور اس کا شوہر مٹھائی کا ڈبا لے کر صدف کے گھر آگئے۔ صدف کے شوہر نوید بھی گھر پر ہی تھے۔
’’بھائی صاحب آپ بہت خوش نصیب ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بیوی اور نیک اولاد دی‘ یہ سب بھابی کی محنت اور تربیت کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ‘ میں تو سارا دن گھر پر ہوتا نہیں ہوں یہ سب کچھ انہی کی محنت اور پرورش کا نتیجہ ہے۔‘‘ فیضان نے محبت سے بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ صدف نے جزبز ہوکے میاں کی طرف دیکھا اور پہلو بدل کر رہ گئی۔
’’آپ کے بچوں کے ٹیوٹر کون ہیں؟‘‘ نوید بھائی نے پوچھا۔
’’ہمارے گھر میں ٹیوٹر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بچے نرسری سے لے کر اب تک خود ہی پڑھ رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا!لیکن صدف تو کہتی ہیں کہ آپ کے یہاں دو ٹیوٹر آتے ہیں۔‘‘ نوید کی بات پر صدف بُری طرح بوکھلا گئی۔
’’صدف تم تو کہہ رہی تھیں کہ دو ٹیوٹر کے باوجود بھی اس سال دونوں بچے فیل ہوگئے۔‘‘​
صدف کا تو رنگ اڑ گیا۔ سلام دعا کے علاوہ اتنے عرصے میں ارسہ اور فیضان کی کبھی نوید سے تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور آج وہ دونوں اچانک آگئے تھے۔ صدف ہمیشہ نوید کے سامنے جبران اور کامران کی برائیاں کرتی رہتی تھی تاکہ اس کے بچوں کی نالائقی اور اس کی تربیت اور پرورش پر کوئی بات نہ آئے یونہی کام چلتا رہے۔​
ارسہ اور فیضان حیرت سے بولے۔​
’’ہمارے بچے تو کبھی فیل نہیں ہوئے اس سال تو دونوں کا رزلٹ ہمیشہ سے زیادہ اچھا آیا ہے۔‘‘​
’’ارے ہاں میں تو بتانا ہی بھول گئی جبار صاحب کا فون آیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ بہت ضروری بات کرنی ہے آپ فوراً ان سے بات کرلیں۔‘‘ صدف نے ان لوگوں کی گفتگو میں رخنہ ڈالا اور اپنے شوہر کو مزید حیرت کے جھٹکوں سے بچانے کے لیے زبردستی ہاتھ پکڑ کر باہر لے جانے لگی وہ اپنی بیوی کے انداز پر حیرت زدہ اور شرمندہ تھے۔ ان کی شرمندگی دیکھ کر ارسہ اور فیضان نے واپسی کے لیے اجازت چاہی۔​
…٭٭٭…​
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
مسز ہاشم کی بیٹی کی شادی تھی انہوں نے سارے محلے کو بلایا تھا۔ ارسہ اورصدف کی فیمیلیز ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ گئیں۔​
’’سنا ہے آج پھر حالات بڑے خراب ہے۔‘‘ نوید بھائی نے بات چیت کا آغاز کیا۔​
’’اچھا! پتا نہیں‘ ہم نے کوئی نیوز دیکھی ہی نہیں۔‘‘ فیضان نے کہا۔​
’’آج تو چھٹی تھی یار! کیا کرتے رہے سار دن؟‘‘​
’’بات چھٹی کی نہیں ہے دراصل آج کل بچوں کے امتحان چل رہے ہیں۔د ونوں کے امتحان کے دوران بیس پچیس دن تک ہم ٹی وی نہیں کھولتے۔ اسی لیے آج دونوں نہیں آئے ہیں‘ ویسے تو ہم انہیں اکیلا چھوڑتے نہیں لیکن محلے داری کی وجہ سے یہاں آنا پڑا۔‘‘ فیضان نے تفصیل سے بتایا۔​
’’بھابی! آپ کیسے بچوں کی تربیت کرتی ہیں‘ ہماری بیگم کو بھی یہ گُر سکھادیجیے۔‘‘غصے اور بے عزتی کے احساس سے صدف کا چہرہ تن گیا اور تینوں بچوں کو بھی یہ بات بہت بُری لگی۔​
’’گُر تو کوئی نہیں ہے بھائی صاحب! اولاد کی محبت میں اور ان کے اچھے مستقبل کی خاطر اپنے کچھ شوق چھوڑ دیئے‘ آنے جانے میں کمی کردی۔ بچوں اور شوہر کی خوشیوں اور خواہشوں اور سکون کا خیال رکھتی ہوں۔ بچوں کی پڑھائی کی خاطر گھر کا ماحول ڈسٹرب نہیں ہونے دیتی۔ آپ لوگوں سے تو کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ صدف تو سب جانتی اور دیکھتی رہتی ہیں۔‘‘ ارسہ نے دھیرے دھیرے اپنا معمول بتادیا۔ صدف خاموشی بیٹھی اپنی جگہ پر پہلو بدلتی رہی۔​
’’عاطف! یہ لو تمہاری سگریٹ۔‘‘ ایک لڑکے نے آکے عاطف کے سامنے ٹیبل پر سگریٹ کا پیکٹ رکھا تو ارسہ اور فیضان کے ساتھ ساتھ صدف اور نوید بھی حیران رہ گئے۔ عاطف اور عارف کی حالت بہت خستہ تھی۔​
’’کیوں مذاق کررہے ہو یار!‘‘ عاطف نے لڑکے کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ نوید نے اس کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔​
’’کیا بدتمیزی ہے یہ؟ تمہیں شرم نہیں آتی میرے بیٹے پر الزام لگارہے ہو۔‘‘ صدف اس لڑکے پر چڑھ دوڑی۔ ماں کی طرف داری پر عاطف کچھ ریلیکس ہوا۔​
’’آنٹی! میں الزام نہیں لگارہا ہوں۔ میں عاطف کا فرینڈ ہوں‘ عاطف تو روزانہ چھٹی کے ٹائم سگریٹ پیتا ہے اب تو ٹیچرز کو بھی پتا چل گیا ہے۔ اس قسم کے کچھ لڑکوں کے بیگ چیک ہوئے عاطف نے جلدی سے اپنا پیکٹ میرے بیگ میں ڈال دیا تھا۔ اور آج عاطف نے اس ہال میں شادی اٹینڈ کرنے کا ذکر کیا تو میں لے آیا کیونکہ مجھے بھی یہیں آنا تھا۔‘‘ صدف کے بچوں کے کچھ اور گُن کھل کر سامنے آچکے تھے۔ صدف شرم اور جھنجلاہٹ کے مارے ارسہ سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی ابھی وہ لڑکا گیا ہی تھا کہ ساتھ والی میز پر بیٹھی ایک خاتون جو بہت دیر سے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھیں‘ اٹھ کر ان کے پاس آگئیں اور جھجکتے ہوئے نوید سے مخاطب ہوئیں۔​
’’اچھا ہوا نوید صاحب آج آپ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے آپ کی مسز سے کئی بار کہا ہے کہ اپنے شوہر کو لے کر آئیں مگر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور اب وہ خود بھی نہیں آرہیں کچھ دنوں سے۔‘‘​
’’معاف کیجیے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں؟‘‘ نوید بھائی نے کہا۔​
’’میں آپ کے تینوں بچوں کی کلاس ٹیچر ہوں اور پچھلے پانچ سال سے ان تینوں کو پڑھا رہی ہوں۔ حسب معمول اس سال بھی تینوں بچے تمام مضامین میں فیل ہوگئے ہیں۔ اس سال تمام پیپرز میں فیل ہونے والوں کا ری ایگزام نہیں ہوگا اور ہمارے اسکول میں کلاس رپیٹ نہیں کرائی جاتی‘ اس لیے آپ کے تینوں بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ آپ پلیز کل آکر ان کے سر ٹیفکیٹ لے لیجیے گا۔‘‘​
ٹیچر کے جانے کے بعد صدف کا وہاں مزید بیٹھنا محال تھا اس لیے صدف اور اس کے بچے ٹیچر اور اس لڑکے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور نوید بھائی نہایت تکلیف اور افسوس سے انہیں جاتا دیکھتے رہے۔ صدف کے جھوٹ کا پول کھل چکا تھا‘ اب وہ ارسہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔​
’’ماں کی ہی اچھی بُری تربیت اور پرورش اولاد کی زندگیوں کو جنت یا جہنم بنادیتی ہے۔‘‘ نوید بھائی تھکے تھکے انداز میں بولے۔​
’’فیضان! تم خوش نصیب ہو کہ تمہیں اتنی اچھی بیوی ملی ہے۔‘‘ نوید بھائی کہہ کر آگے بڑھ گئے۔​
 
Top