Anchal (august 2012)

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
وطن کی مٹی گواہ رہنا… ام ثمامہ
’’اچھا تو ڈاکٹر صاحب! آپ نے جانے کا حتمی فیصلہ کر ہی لیا۔‘‘ سبحان جب بھی ناراض ہوتا یونہی آپ جناب سے بات کیا کرتا تھا۔ اس کی ناراضی اپنی جگہ بجا تھی۔ مگر ڈاکٹر عادل کے پاس بھی اپنے فصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک ہزار ایک جواز موجود تھے۔
ایک ہفتے بعد میری انگلینڈ کے لیے فلائٹ تھی‘ میں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اسکالر شپ پر جارہا تھا اور پھر میرا ارادہ وہیں سیٹل ہونے کا تھا اور میں سبحان سے ملنے کراچی آیا تھا اور ہم ایک کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔
’’یار! اس ملک کو تیرے جیسے ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں شوگر کوٹڈ گولیاں کھاتے اور پانی سے بھرے انجکشن لگواتے زندگی کی روشنی سے دور موت کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہے۔ یار! اس ملک نے تجھے پہچان دی اور اب جب اس ملک کو تیری ضرورت ہے تو تُو نظریں چُرا کے دامن چھڑا کے جارہا ہے۔‘‘ سبحان اسے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔
’’اس ملک میں اب بچا ہی کیا ہے۔ بھوک‘ بیماری‘ بے روزگاری اور بم دھماکے… ‘‘ عادل جو کب سے سن رہا تھا ایک دم پھٹ پڑا۔
’’جس ملک میںخود محافظ محفوظ نہ ہوں‘ مائیں غربت کی وجہ سے اپنے جگر گوشے فروخت کردیں‘ گیس بجلی اور پانی جیسی اہم ضروریات کے لیے لوگ ترستے ہوں‘ وہ ملک بھلا مجھے کیا دے گا۔ ان باتوں سے کچھ نہیں ہوتا پیٹ روٹی مانگتا ہے یہاں ینگ ڈاکٹرز کے مسائل کے حل کا رونا روتے پورا سال ہونے کو آیا ہے۔‘‘ وہ بولا تو بولتا چلا گیا۔
’’اچھا یار! تیری مرضی چھوڑ کوئی اور بات کرتے ہیں لیکن اتنا یاد رکھنا اس وطن میں آزادی کے چراغ ہمارے بزرگوں کے لہو سے جلے ہیں آج بُرے وقت میں اگر ہم اسے تنہا چھوڑ دیں گے تو کل ہمارے بچوں کے گلوں میں غلامی کا طوق ڈال دیا جائے گا۔‘‘
بچپن سے لے کر اب تک کی دوستی کی یادیں تازہ کرتے کرتے شام کے سائے کافی شاپ سے باہر بنی تارکول کی سڑک پر کب سایا فگن ہوئے پتا ہی نہیں چلا۔
’’سبحان! مجھے خط لکھنے کی عادت مت چھوڑنا‘ دیارِ غیر میں تیرے خط تنہائی کا مداوا ہوں گے اور سرد برفیلے موسم میں حرارت کا کام دیں گے اور پھر دھیرے دھیرے میں عادی ہوجائوں گا۔‘‘ اٹھنے سے پہلے عادل نے کہا۔ سبحان نے اس کے ہاتھ پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھ دیا۔
میں جانتا تھا عادل نے بھی یہ فیصلہ کسی مجبوری کے تحت ہی کیا تھا۔ والد کی وفات کے بعد وہ گھر کا واحد کفیل تھا‘ بہن بھائی ابھی چھوٹے تھے‘ یہ میرے یار سے میری آخری ملاقات تھی اور پھر وہ اپنی بیس کی طرف چل دیا اور میں کراچی میں مقیم اپنے چند رشتے داروں سے ملنے چل دیا۔
…٭٭٭…
رات کا پچھلا پہر تھا کھڑکی سے چھن چھن کر آتی آماوس کے چاند کی روشنی اس شخص کے گرد ہالہ سا بنائے ہوئے تھی جو کئی گھنٹوں سے کرسی پر ساکت و جامد بیٹھا تھا‘ اس کے سامنے فائبر گلاس کی ایک ٹیبل رکھی تھی۔
ٹیبل کے سائیڈ میں ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے دھری تھی۔ ٹیبل کے بالکل سینٹر میں ایک البم پڑی تھی اور اس کے ساتھ ایک خاکی لفافہ پڑا تھا‘ اس پر لگی ٹکٹوں کا رنگ کچھ ماند پڑچکا تھا‘ ایڈریس کی سیاہی آنسوئوں کے نمکین پانی سے جا بجا پھیلی ہوئی تھی‘ کاغذ کہیں کہیں سے اکھڑ چکا تھا اور کیوں نہ ہوتا یہ خاکی لفافہ زندگی سے موت تک کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ڈاکٹر عادل تک پہنچا تھا۔
آج لیفٹیننٹ سبحان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تیسرا دن تھا‘ تین دن پہلے ہی تو وہ اپنے جگری یار کو منوں مٹی تلے پورے اعزاز کے ساتھ سلا کر آیا تھا۔
ابھی چند دن پہلے جب وہ اس سے ملنے گیا تھا تو نیوی کی بسوں پر حملے ہورہے تھے توملاقات کے دوران اس نے کہا تھا۔
’’یار عادل! دعا کرنا میں اس طرح کے کسی بم دھماکے میں بے خبری کی موت نہ مارا جائوں۔ یار! میں دشمن سے لڑتے اپنے وطن کی سلامتی کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ اسے لگا سارے کمرے میں سبحان کے حملے کی بارگشت گونج رہی ہو۔
عادل نے بے چین ہوکر سیاہ اور سنہری کور والا البم کھول لیا جو اسے سبحان نے ہی گفٹ کیا تھا۔ بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی کی کئی حسین یادیں اس میں قید تھیں۔ نیوی کے سفید ڈریس میں روشن آنکھوں چوڑی پیشانی اور دمکتی رنگت والا لیفٹیننٹ سبحان کھڑا مسکرارہا تھا۔
انٹر تک وہ ساتھ ساتھ تھے پھر عادل نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا اور سبحان نے نیوی جوائن کرلی اور وہ کراچی روانہ ہوگیا۔
کہتے ہیں جدائی محبت کو بڑھا دیتی ہے اور ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ میلوں کے فاصلے نے ان کی دوستی کو اور مضبوط سے مضبوط تر کردیا تھا۔ عادل کو اسپتال اور مریضوں سے بہت کم وقت ملتا تھا اور آج کل تو بس وہ اپنے جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا مگر جب بھی وہ سبحان سے ملتا یا فون پر بات کرتا وہ ملک کے موجود حالات ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے بہت ہی پریشان ہوتا تھا۔ وہ اسے بتاتا کہ حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ بیرونی مداخلت اور اندرونی سیاست نے کس طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
ایک سچا پاکستانی اور فوجی ہونے کی وجہ سے پریشانی اس کے لہجے اور آنکھوں سے عیاں ہوتی اور کیوں نہ ہوتی وہ اس دادا کا پوتا تھا جنہوں نے آزادی کی تحریک میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ اس باپ کا بیٹا تھا جو سیاچن کے برفیلے محاذ پر وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے فرسٹ بائٹ کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکے تھے۔
عادل نے کئی بار لفافے کی طرف ہاتھ بڑھائے مگر اسے کھولنے کی ہمت نہ کرسکا۔ وہ کل سبحان کی امی کے پاس گیا تھا‘ ان کی آنکھوں میں بیٹے کے چلے جانے کی وجہ سے آنسو ضرور تھے مگر وہ اس کی شہادت پر بے حد مطمئن بھی تھیں۔ اس کے بابا‘ بہن بھائی سب اپنے بھائی کی شہادت پر فخر کررہے تھے۔ عادل کو اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا اس نے بے قرار ہوکر لفافہ کھول ڈالا۔
’’ڈئیر عادل!
السّلام علیکم!
اللہ تبارک و تعالیٰ سے تمہاری اور اپنے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے ہر دم دعاگو رہتا ہوں۔ جب سے پتا چلا ہے میرا یار ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر جانے والا ہے‘ دل کے کسی گوشے میں اداسی نے مستقل اپنا ڈیرہ جمالیا ہے‘ تھوڑے دنوں میں تیری فلائٹ ہے مگر یار آج کل حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ مجھے چھٹی نہیں مل سکے گی‘اس لیے تجھ سے ملنے نہیں آسکوں گا تو سوچا چلو آدھی ملاقات ہی کرلی جائے۔
تجھے ایک بات بتائوں میں نے تیری بھابی زرشہ کے لیے اپنی پسند کا سرخ عروسی جوڑا خریدا ہے بس اب تو چار مہینے بیس دن اور پندرہ گھنٹے رہ گئے ہیں پھر وہ ہمیشہ کے لیے میری ہوجائے گی‘ میں اپنی شادی پر تجھے بہت یاد کروں گا۔ یار! ہم نے تو مل کر بھنگڑے ڈالنے تھے مگر تُو دل چھوٹا مت کر تیرے آنے پر میں ایک اور شادی کرلوں گا۔ دیارِ غیر میں جب تجھے احساس ہوکہ ہر طرح کی سہولت سے مستفید گوروں سے زیادہ تیرے اپنے بوڑھے اور بیمار لوگوں کو تیری ضرورت ہے تو لوٹ آنا‘ وطن کی مٹی کشادہ دل اور کھلی بانہوں سے تیرا استقبال کرے گی۔ اپنا بہت خیال رکھنا‘ میری دعائیں اور دوستی ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گی۔
والسّلام!
تمہارا پُرخلوص دوست لیفٹیننٹ سبحان احمد!‘‘
اس کے یار نے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کردی تھی‘ تو کیا وہ اتنا گیا گزرا تھا کہ اپنا وقت اور اپنی مسیحائی اپنے وطن کو دان نہ کرسکے۔ عادل نے کاغذ کو احتیاط سے طے لگا کر خالی لفافے میں ڈالا اور دراز میں رکھے پی آئی اے کے ٹکٹ کے پُرزے پُرزے کردیئے۔
دور بہت دور نیول بیس پر اس کے یار کے خون سے صدا آرہی تھی جو وطن عزیز کی مٹیالی زمین کو سرخ کررہا تھا۔
وطن کی مٹی عظیم ہے تُو‘ عظیم تر ہم بنارہے ہیں
گواہ رہنا وطن کی مٹی گواہ رہنا!!
اور کچھ خواب ’’قسط نمبر 30‘‘… عشنا کوثر سردار
انائیا کی سماعتوں میں جیسے کوئی پگھلا ہوا سیسہ انڈیل رہا تھا۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا‘ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ صرف معارج تغلق کے ہونٹ ہلتے دکھائی دے رہے تھے‘ اس کی آواز سے اس کا کوئی ربط بن نہیں پارہا تھا‘ اس کی سماعتوں میں بس ایک شور تھا‘ اس شور کے مفہوم بڑے غیر واضح تھے‘ وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی‘ محبت ایسی بے مہر ہوسکتی تھی؟
ایسی بے حس؟
محبت میں محبت کی امید نہیں رکھی جائے‘ کوئی توقع نہ رکھی جائے‘ تب بھی محبت اگر محرم نہ رہے تو اندر کہیں بہت گہری تکلیف ہوتی ہے پھر معارج تغلق ایسا کیوں کررہا تھا؟ اگر وہ اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا تھا‘ اسے کوئی صلہ نہیں دے رہاتھا‘ تو اس کا کچھ تو خیال کرسکتا تھا یا پھر اس کی توقعات ہی بہت زیادہ تھیں؟
میرے محرماں
میں نے اپنے سارے خواب سجائے تھے تیرے واسطے
ہر اک سانس میری‘ میری پلکوں کے سائے
بہت سنبھال کر رکھے تھے
تیرے سارے کرم
تیرے سارے بھرم
میرے ہم سفر
میری جان میں جو جنوں ہے
جو افسوں ہے میری سانسوں میں
اس کا سبب تمہی تو ہو
میری سمت تم جو نظر کرو
میرے سارے اسباب جان لو
میرے مہرباں‘ میرے محرماں
میرے اندر جتنے سوال ہیں
جتنے وسوسے یا ملال ہیں
یا ہم میں جو ایک ڈور ہے
جو دل کو باندھے بیٹھی ہے
اس الجھن کا میں کیا کروں؟
اس محبت کا میں کیا کروں؟
’’انائیا! بہت سے نقصان ناقابل تلافی ہوتے ہیں‘ میں سبھی کیے کا ازالہ نہیں کرسکتا مگر میں محسوس کرتا ہوں میرے اندر جو تمہارے لیے کینہ تھا‘ ایک سختی تھی‘ وہ اب نہیں ہے‘ جانے کب… کیسے وہ سب میرے اندر سے جاتا رہا مگر اب مجھے تم سے کوئی عداوت نہیں ہے ‘ تم نے ٹھیک کہا تھا میں اگر تمہارے ساتھ سب غلط کرتا ہوں تو پھر مجھ میں اور اس شخص میں کوئی فرق نہیں‘ میں خوف زدہ تھا۔ میں مسلسل اسی کیفیت میں ہوں۔ میں کسی نئی انائیا تغلق کو جنم نہیں دینا چاہتا۔ انائیا تغلق کی تکلیف کا مجھے احساس ہے کیونکہ اس کے ساتھ میرا دل جڑا ہے۔ اس کے لیے میرے اندر بہت گنجائشٍ ہے اور دکھ بھی۔ اس کی ہر تکلیف کو میں اپنے دل سے محسوس کرسکتا ہوں‘ تبھی شاید تمہارے ساتھ سب کرنا ناروا لگا‘ میںجانتا ہوں تم فی الفور مجھے معاف نہیں کرسکتیں شاید کبھی معاف بھی نہ کرسکو مگر میں اپنے خود پر اپنے بُرے کیے کا ہر ممکن ازالہ کرنے کی پوری کوشش کروںگا۔ میں ایسا کرنے کی ٹھان چکا ہوں‘ تم میرے ساتھ رہو یا نہ رہو‘ میں تمہارا لیے ہمیشہ خیر خواہ رہوں گا اور اپنے طور پر تمہارے حق میں ہر اچھا کرنے کا ارادہ رکھوں گا۔‘‘ وہ پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا۔
انائیا ملک اسے خاموشی سے ساکت سی دیکھ رہی تھی۔ اسے اس طرح اپنی طرف دیکھتا پاکر جانے کیوں وہ مسکرایا تھا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو ملائمت سے چُھوا تھا۔
’’تم نے کوشش نہیں کی نا اگر محبت ہوجاتی تو پھر اتنے گلے نہیں ہوتے۔‘‘
وہ کیا سمجھ رہا تھا؟ یا انائیا کی نظریں اس سے کیا کہہ رہی تھیں؟ کیا وہ اسے‘ یا اس کی نظروں کو پڑھ رہا تھا؟ وہ جان گیا تھا کہ اس کی نگاہوں میں شکوہ ہے ۔
یا کوئی شکایت؟
’’مرد بہت سی چیزوں پر کورا ہوتا ہے‘ شاید اس سفر کا آغاز تمہاری طرف سے ہوتا تو مجھے اچھا لگتا۔ مگر تم بھی ایک کائیاں ہو‘ محبت کرنا تو شاید تمہیں بھی نہیں آتی‘ ہے نا؟ اچھا سنو! محبت ہو بھی جاتی تو؟کیا تم مجھے معاف کردیتیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا پھر اس کا جواب سنے بنا مسکرادیا تھا۔
’’شاید تم مجھے معاف نہیں کرسکو گی‘ محبت کے لیے سوچنا تو بہت دور کی بات ہے اور میں آج اچانک محبت کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟‘‘ وہ آپ چونکا تھا۔ انائیا ملک تب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔
’’تمہاری آنکھیں… شاید یہ تمہاری آنکھیں ہیں جو مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کررہی ہیں۔‘‘ معارج تغلق کی مدہم سی سرگوشی فضا میں ابھری تھی۔
’’اگر ان آنکھوں کو جیتنے کا ہنر آتا تو میرا دل کب کا فتح ہوچکا ہوتا۔ میں مفتوح بننے میں ہچکچاتا نا کوئی تعرض برتتا۔ ایک بات کہوں؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔ ’’مجھے فاتح بننے کا غرور کبھی درکار نہیں رہا۔ مجھے ان کھیلوں سے کوئی شغف نہیں سو میں ہار جیت کے معاملات میں کبھی نہیں پڑا تبھی تو آج تمہاری نظروں کو بغو دیکھ رہا ہوں اور کہیں کچھ تلاش کررہا ہوں۔‘‘ وہ بہت بے فکر سا مسکرارہاتھا کیا یہ وہی معارج تغلق تھا؟
وہ ہی سخت گیر
وہ موقع پرست… سخت دل انسان… یا وہ اصول پرست انسان جسے اپنا کیا سب ٹھیک لگتا تھا؟
انائیا ملک کی نظریں اسے جانچ رہی تھیں اور معارج تغلق کی آواز اس کی سماعتوں میں پڑ رہی تھی۔
’’ان آنکھوں کو ضد ہے‘ یہ خواب دیکھنا نہیں چاہتیں اور مجھے یہ ضد ہے کہ کہیں کوئی عکس ہو۔ یہ آنکھیں بات نہیں کرتیں اور مجھے خو ہے یہ بولیں میرا ذکر کریں‘ میری بات کریں۔‘‘ کتنی مدہم سرگوشی تھی انائیا کی سماعتوں میں سارا ماحول ایک دھڑکن کی طرح تھم گیا تھا۔
معارج تغلق نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اسے خود سے قریب کیا تھا اور اس کے چہرے کو بغوردیکھا تھا۔ جیسے وہ ان نظروں‘ ان آنکھوں‘ اس چہرے کو پہلی بار دیکھ رہا تھا یا وہ کوئی خواہش اندر رکھتا تھا۔
’’اگر کوئی خواہش کروں تو اسے شاید تم پورا نہ کرو۔ سمجھ نہیں آتا کیسے بسر ہوگی اب۔ مگر یہ تو طے ہے کہ تمہاری یاد بہت آئے گی۔ بات عشق کی نہیں نا کوئی جنوں ہے مگر کچھ ایسا ہے کہ دل تھوڑا بہت عادی ہوگیا تھا سو کچھ دن تو کچھ قلق ہوگا پھر سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ شاید ایسا کچھ تمہاری طرف بھی ہو۔‘‘ مدہم لہجے میں عجیب خواہشیں بول رہی تھیں۔ ان نگاہوں کی حدت سے اس کا چہرہ جلنے لگا تھا۔ وہ اس کی سمت زیادہ دیر دیکھ نہیں پائی تھی‘ نظریں جھکاگئی تھی۔ معارج تغلق ان قربتوں کو طول دینے کی سوچ رہا تھا یا کوئی اور خواہش اس کے دل میں تھی‘ وہ جان نہیں پائی تھی وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ سارے لمحے سمیٹ رہا تھا اور تمام معاملات کو منفی انجام دے رہا ہے پھر ان قربتوں کی کہانی آغاز کرنے سے کیا فائدہ تھا‘ ان لمحوں میں کوئی جادو تھا۔
وہ اس کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتی تھی۔ اسے پرے دھکیل دینا چاہتی تھی‘ مگر اس لمحے اس نے خود کو کتنا بے بس سا محسوس کیا تھا۔
یہ محبت تھی؟
اس کی آنکھوں میں
اس کے چہرے پر
وہ محبت ہی تھی؟ یا کچھ اور
انائیا اس کی آنکھوں میں دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتی تھی۔
’’ان آنکھوں کو دیکھ کر جانے کیوں لگتا ہے یہ اپنے اندر عجیب بھید رکھتی ہیں باندھ سکتی ہیں اپنے ساتھ۔ خود میں ضم کرسکتی ہیں مجھ میں خواہشوں کا انبار لگنے لگتا ہے نا چاہتے ہوئے بھی ان آنکھوں کا تابع ہونے لگتا ہوں۔ تم کچھ سمجھو نہ سمجھو مگر کچھ تو بھید ہے۔ شاید میں ہی بہت نا سمجھ ہوں یا پھر ان کاموں میں عقل سے سابقہ ہی نہیں ہوتا۔ میں حیران ہوں بہرحال‘ میرے معمولات میں کسی کے لیے دنیا تیاگ دینا کبھی نہیں تھا۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے مسکرایا تھا۔ انائیا ملک کی ساری جان مٹھی میں آگئی تھی‘ وہ ساحر تھا جو عجیب سُر پھونک رہا تھا۔ لمحوں کو اپنے ساتھ باندھ رہا تھا‘ دھڑکنوں کو اپنا معمول کررہا تھاا ور پھر ایک دم سے سارے خوابوں کی ڈور کھینچ کر توڑ دیتا تھا۔ انائیا ملک کے لیے اس جادو سے باہر آنا ناممکن تھا مگر وہ اپنے گرد سے اس کی گرفت ہٹا کر اس کے حصار سے باہر نکلی تھی اور دو قدم دور جا کھڑی ہوئی۔
وہ اپنی طے شدہ راہوں پر چلنے کا ارادہ باندھ چکا تھا تو وہ اس کے سامنے اپنی انا کو روندنے کے لیے مزید نہیں جھک سکتی تھی۔
محبت ہی تھی نا
ہوگئی تھی مگر اس خودداری کو وہ نہیں گنوا سکتی تھی
وہ شخص اب بھی اتنا ہی دور تھا اتنا ہی اجنبی
انائیا ملک کی نظروں نے اسے دیکھا تھا۔ جانے کیوں آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔
’’سچ تو یہ ہے معارج تغلق تم کسی کا معمول بن نہیں سکتے‘ تم محبت کا معمول کیا بنو گے۔ تم جیسا شخص محبت کے الجھائوں میں نہیں الجھ سکتا۔ تم آج بھی اتنے ہی الجھے ہوئے ہو مگر ایک بات ہے‘ تم جیسا بندہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرسکتا۔ اس سارے کھیل میں جس کا نقصان ہوا ہے وہ میں ہوں اور حقیقت تو یہ ہے کہ تم میرا وہ نقصان کبھی پورا نہیں کرسکتے۔ چاہے تم کھربوں میرے نام لکھوادو۔ میرا وہ نقصان تمہارے لیے ناقابل تلافی ہی رہے گا۔‘‘ انائیا ملک نے دھندلی آنکھوں سے اس لمبے چوڑے شخص کو دیکھا جو پل میں کسی بھی دنیا کو زیرو زبر کرسکتا تھا۔
’’تم اختیارات کے حصول میں جنون پسند ہو مگر میرا حصول ان اختیارات سے باہر کی چیز ہے‘ میں تمہارا جنوں نہیں‘ تمہاری خواہشوں میں نہیں سو تم یہ کہانی بھی سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ وہ کہہ کر پلٹی تھی اور وہاں سے نکل آئی۔
معارج تغلق خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا تھا۔
…٭٭٭…​
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’کیا ہوا؟ تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو؟‘‘ اناہیتا بیگ نے انائیا ملک کے چہرے کو بغور تکتے ہوئے دریافت کیا تھا۔ انائیا ملک نے چونکتے ہوئے اپنے سامنے پڑے کافی کے مگ کو دیکھا اور پھر تھامتے ہوئے سرنفی میں ہلا دیا۔
’’سب ٹھیک تو ہے؟ تم کچھ پریشان لگ رہی ہو؟‘‘ اناہیتا بیگ نے اخذ کیا تھا۔
’’نہیں ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ انائیا ملک نے کہا تھا اور کافی کے سپ لینے لگی تھی۔
’’میں تمہارے پاس کچھ شیئر کرنے آئی تھی‘ بہت دن سے دل بہت بوجھل سا تھا‘ تبھی سوچا تم سے مل لوں۔ انائیا ان دنوں عجیب کیفیت ہے‘ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے اور کیونکر ہورہا ہے؟ مگر میں اس سب سے باہر آنا چاہتی ہوں۔ حیدر مرتضیٰ کے جانے کے بعد میں بہت ڈائون فیل کررہی ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اس سے بہت سی امیدیں لگا بیٹھی تھی مگر اس طرح کسی بھی لڑکی کے ساتھ ہو تو اسے کچھ عجیب ضرور لگتا ہے۔‘‘ اناہیتا بیگ بولی تھی۔
’’مگر حیدر مرتضیٰ نے تمہیں ری جیکٹ تو نہیں کیا‘ پھر تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟‘‘ا نائیا نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’ہاں حیدر مرتضیٰ نے مجھے ری جیکٹ نہیں کیا مگر شاید رد کیے جانے کا کوئی اور مفہوم بھی ہوگا اگر کوئی اس طرح واپس لوٹ جاتا ہے تو آف کورس کسی بھی لڑکی کا نسوانی وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس کی انا ہرٹ ہوتی ہے۔‘‘ اناہیتا بولی تھی۔
’’تم نے فیصلہ لینے میں اتنی دیر کیوں کی؟ اگر تمہیں کوئی قلق تھا تو فیصلہ تمہیں لینا چاہیے تھا تم حیدر مرتضیٰ کو منتخب کرچکی تھیں تبھی تمہیں اس طرح فیل ہورہا ہے اگر تم اسے وہ چانس دینے پر پشیمان ہو تو بالکل بھی ایسا مت سوچو۔ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں وہ سب ہمارے لیے نہیں ہوتے۔ ہمارا رابطہ کسی ایک کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور وہی فرد خاص بھی ہوتا ہے۔ تمہیں ملال کرنے سے بہتر یہ سوچنا چاہیے کہ وہ تمہارے لیے نہیں تھا۔ اس سے کوئی دلی تعلق نہیںتھا تو پھر ساتھ ہونے یا زندگی گزارنے کا فیصلہ کرنے سے فائدہ؟ تم خود سوچو کیا تم اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ لے کر خوش تھیں؟‘‘ انائیا ملک نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ اناہیتا بیگ نگاہ اس کی طرف سے ہٹا گئی تھی۔
’’میں خوابوں میں رہنے والی لڑکی نہیں ہوں۔‘‘ وہ شاید خود بھی نفی کررہی تھی۔
’’مگر محبت خوابوں‘ خیالوں کی بات نہیں ہے۔‘‘ انائیا ملک بولی تھی اور اناہیتا بیگ چونک کر دیکھنے لگی تھی پھر دوسرے ہی پل سرسری انداز میں بولی تھی۔
’’محبت کچھ نہیں ہوتی۔‘‘ اس کا جواب بہت واضح نفی تھا‘ انائیا ملک کو اپنا آپ یاد آیا تھا۔ جس طرح محبت کی نفی کرتی رہی تھی اور اس محبت نے اسے کسی کو معاف کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا محبت کچھ نہیں ہے انا! مگر ایسا سوچ لینے سے محبت کی ہیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘ ہمارے کلیے اور مفروضے اپنے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ ہم اپنے طور پر اخذ کرلیتے ہیں‘ مگر ا س کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا سوچ لینے سے حقیقت بھی بدل گئی ہو۔‘‘ انائیا ملک بہت ٹھوس انداز میں بولی تھی۔ اناہیتا بیگ اسے خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔
’’محبت بہت ہی فضول شے ہے اگر کہیں ہے تو… وہ محبت کسی کام کی نہیں جس کے لیے اپنے وجود کی نفی کرنا پڑے۔ مجھے اپنی وہ بے اختیاری نہیں لگی جس کو لے کر میں اپنے آپ کو فراموش کردوں۔‘‘ وہ غیر لچک پزیر انداز میں بولی تھی۔
’’یا پھر یہ ہے کہ تمہاری انا اس سے زیادہ بڑی ہے؟‘‘ انائیا ملک نے اس کے چہرے کو پڑھتے ہوئے کہا تھا۔
’’محبت جب نہیں ہے تو نہیں ہے۔ اس میں انا کی کیا بات ہے؟‘‘ اناہیتا خود اپنے آپ کی بھی نفی کرنا چاہتی تھی۔
’’انا! محبت فائدوں یا نفع پر مشروط نہیں ہوتی۔ محبت ہوتی ہے تو بس ہوتی ہے۔ اگر کوئی کتنا بھی نقصان پہنچائے‘ محبت کرنا ترک نہیں ہوسکتی۔ نفرت کتنی بھی شدید ہو محبت سے شدید نہیں ہوسکتی۔‘‘ انائیا ملک اپنے تجربات کے بل بوتے پر کہہ رہی تھی۔ اناہیتا بیگ مزید الجھنے لگی تھی۔
انائیا! اگر محبت کرنے والا‘ محبت کرنے کا دعویٰ بھی کرے اور آپ کی انسلٹ بھی کرے تو کیا یہ محبت اسی طور باقی رہے گی؟ کیا محبت تب بھی محبت ہی رہے گی؟‘‘ اناہیتا نے پوچھا تھا۔ انائیا ملک کافی کے سپ لینے لگی تھی۔ شام میں ہونے والی اس ملاقات کا منظر نگاہ میں گھوم گیا تھا۔
’’انا! میں نہیں جانتی مگر اگر تمہیں محبت ہے تو تم اس محبت کو کرنا ترک نہیں کرسکتیں‘ چاہے کوئی کسی بھی طرح پیش آئے یا تمہارا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ کرے۔‘‘ انائیا پورے وثوق سے بولی تھی پھر اناہیتا کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
’’وہ کون ہے اناہیتا بیگ؟ حیدر مرتضی! میرا نہیں خیال وہ حیدر مرتضیٰ ہے۔ نہیں ہے نا؟‘‘ وہ پورے یقین سے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔
’’تمہیں کیسے لگا کہ وہ حیدر مرتضیٰ نہیں ہے؟‘‘ اناہیتا بیگ چونکی تھی۔
’’وہ حیدر مرتضیٰ جیسا بندہ نہیں ہوسکتا اناہیتا بیگ!‘‘ وہ وثوق سے بولی تھی۔
’’وہ کوئی بھی نہیں ہے انائیا! مجھے کسی سے محبت نہیں ہے۔ میں اتنی بے وقوف نہیں ہوں کہ اپنا آپ یوں ارزاں کرسکوں۔‘‘ وہ انکاری تھی۔
’’محبت اس سے ماوراہے اناہیتا۔‘‘
’’محبت کچھ نہیں ہے انائیا ملک! میرا مفروضہ کسی کلیے پربیسڈ نہیں ہے۔‘‘ وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھی اور انائیا ملک اسے مزید سمجھا نہیں سکتی تھی۔
…٭٭٭…
’’مجھے لگتا ہے میں اس تک جتنا بھی سفر کرتا ہوں‘ وہ اس سے مزید آگے‘ کوسوں میل کی دوری پر جارکتا ہے۔ میں جانتا ہوں وہ سراب نہیں‘ مگر اس کا مجھ سے تفاوت پر جا رکنا یہ میری سمجھ میں نہیں آتی کیا محبت اتنی پیچیدہ شے ہو سکتی ہے؟‘‘ دامیان شاہ سوری تھکے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
’’تمہارا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے دامیان! یا تو تمہیں محبت کرنا نہیں آتی یا وہ محترمہ محبت کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھتیں؟‘‘ ایکسل بولا تھا۔
’’ممی! للی کے بارے میں پوچھ رہی تھیں‘ انہیں للی کااس طرح جانا اچھا نہیں لگا‘ وہ خفا ہورہی تھیں کہ میں اسے ملوانے کیوں نہیں لایا اور اسے اس طرح ملے بنا کیوں جانے دیا۔‘‘ دامیان سوری نے بتایا تھا
’’یہ تمہاری ممی اچانک سے للی میں اتنی انٹرسٹڈ کیونکر ہوگئیں؟ خیریت تو ہے؟‘‘ ایکسل نے خطرے کی بو کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ممی کو للی پسند ہے۔‘‘ سرسری انداز میں مطلع کیا تھا۔
’’تمہارے لیے؟‘‘ ایکسل نے پوچھا تھا۔
’’میرے لیے کیوں؟‘‘ دامیان سوری چونکا تھا۔
’’وہ شاید یہ سمجھتی ہیں کہ تم للی میں انٹرسٹڈ ہو؟ یا اگر اتنے فری تھے تو…؟‘‘ ایکسل نے آنکھیں گھمائی تھیں۔ دامیان نے اسے گھورا تھا۔
’’بچوں جیسی باتیں مت کرو ایکسل! ممی جانتی ہیں میں اناہیتا سے پیار کرتا ہوں‘ اگر وہ یہ حقیقت جانتی ہیں تو وہ للی کے بارے میں بات نہیں کرسکتیں۔‘‘ وہ انکاری ہوا تھا۔
’’شاید ایسا ہی ہو مگر اگر آنٹی ایسا سوچتی ہیں تو تم کیا کرو گے؟‘‘ ایکسل نے پوچھا تھا اور دامیان چونکتے ہوئے اس کی سمت تکنے لگا تھا۔
’’ممی کے ہاتھ میں اناہیتا کے گھر پروپوزل بھجوا چکا ہوں‘ وہ جانتی ہیں میں اناہیتا کے متعلق کس طرح سے سوچتا ہوں۔ ایسا ہونا نا ممکن ہے‘ میری ممی میرے خلاف نہیں جاسکتیں۔ میں ان کو جانتاہوں۔‘‘ دامیان نے اندیشے کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’وہ پرپوزل منظور نہیں ہوا تھا دامیان سوری! بہت ممکن ہے کہ اناہیتا کی طرف سے مایوسی کے بعد آنٹی للی کے لیے اس زاویئے سے سوچ رہی ہوں۔‘‘ ایکسل نے کہا تھا‘ وہ سوچنے لگا تھا۔ اگر ایسا تھا تو یہ بات واقعی لمحہ فکر تھی۔
وہ اناہیتا سے ہٹ کر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس کا محور‘ اس کی ذات کا مرکز وہ تھی اور ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ وہ سوچوں میں گم تھا۔
…٭٭٭…​
’’دامیان تم میرے اکلوتے بیٹے ہو‘ تمہارے حوالے سے میں کئی خواب رکھتی ہوں‘ بہت سی امیدیں رکھتی ہوں اور چاہتی ہوں تم اس پر پورا بھی اترو۔‘‘ کھانے کی ٹیبل پر ممی نے کہا تھا تو وہ انہیں خاموشی سے دیکھنے لگا تھا تو کیا ایکسل کا خدشہ ٹھیک تھا؟
’’میں سمجھا نہیں ممی! آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟‘‘ دامیان نے الجھ کر کہا تھا۔
’’تمہارے کہنے پر میں اناہیتا کے گھر تمہارا پرپوزل لے کر گئی تھی مگر اس کا کیا انجام ہوا؟ ہمارے لیے تمہاری پسند اہم تھی‘ فی الحال ہم نے تمہاری شادی کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا مگر جب تم نے اناہیتا کا نام
لیا ہم نے اس کی مخالفت نہیں کی اگرچہ ہم نہیں سمجھتے تھے کہ شادی کے لیے یہ رائٹ ٹائم ہے۔ ہمیں کوئی فنانشل پرابلم نہیں تھی اس لیے تمہارے اسٹیبل ہونے کا بھی کوئی نقطہ نہں
ٹھایا گیا۔ اناہیتا کی فیملی کی طرف سے ہمیں کوئی پوزیٹو رسپانس نہیں ملا۔ اس لیے میں نہیں سمجھتی اب اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ مجھے للی پسند ہے‘ میں چاہتی ہوں تم اس کے لیے سوچو۔ اناہیتا بیگ کا چیپٹر اب کلوز ہوجانا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ تمہارا غلط فیصلہ ہے مگر مجھے نہیں لگتا وہ تم میں کبھی اس طور انٹرسٹڈ رہی ہے۔‘‘ ممی کا انداز دو ٹوک تھا اور دامیان سوری جو چیزوں کا منفی انجام اب تک اپنے طور پر اخذ کیے بیٹھا تھا اس لمحے گنگ رہ گیا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ بات تو تھی ہی نہیں کہ ممی بھی کوئی معاملہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس کی سوچ کے اول نقطے سے لے کر آخری نقطے تک صرف اناہیتا بیگ چھائی ہوئی تھی۔ وہ اے منانے کے جتن کررہا تھا۔ اسے راغب کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی توجہ حاصل کرنے کے طریقے اختیار کررہا تھا۔ راستے ڈھونڈ رہا تھا‘ راستے بنا رہا تھا۔
اسے تو خبر ہی نہیں تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ممی اس معاملے میں اس کی مخالفت بھی کرسکتی ہیں۔ وہ حیران ساماں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ممی! میں فی الحال ایسا نہیں سوچ رہا اور…‘‘
’’تم کیا سوچ رہے ہو فی الحال یہ اتنا اہم نہیں۔ شادی کا نقطہ تم نے خود اٹھایا تھا‘ ہم نے تو اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’ممی میں نے للی کے لیے ایسا نہیں سوچا‘ محبت اور شادی دو الگ معاملے نہیں ہیں۔ آپ ایسے کیسے سوچ سکتی ہیں؟‘‘ وہ حیرت سے بولا تھا۔
’’میں بھی کوئی بات اپنی اولاد پر امپوز کرنا نہیں چاہتی بیٹا! مگر معاملہ یہ ہے کہ وہ لڑکی تمہیں پسند نہیں کرتی ہے۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات آجانا چاہیے۔ میں نہیں چاہتی تم سرابوں کے پیچھے بھاگ کر اپنا وقت گنوائو۔ یہ دانش مندی نہیں‘ میں تمہاری ماں ہوں‘ میں تمہارے مخالف نہیں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں۔ للی اچھی لڑکی ہے‘ تم اسے جانتے ہو اور وہ مجھے اور تمہارے ڈیڈی کو بھی پسند ہے‘ تم اس کے لیے اپنا مائند بنا سکتے ہو‘ مجھے نہیں لگتا تمہارے لیے مشکل ہے۔‘‘ ممی کہہ کر کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گئی تھیں۔
دامیان سوری دیکھتا رہ گیا تھا۔ یہ کہانی اس کو اس موڑ پر بھی لا سکتی تھی‘ اس کے بارے میں تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
…٭٭٭…​
ممی‘ ایشاع سے Skype پر بات کررہی تھیں جب وہ آفس سے واپس لوٹا تھا۔ وہ قریب سے گزرر ہا تھا جب سدرہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھیں۔
’’تم ابھی معارج کے بارے میں پوچھ رہی تھیں اور وہ آگیا ہے‘ لو بھائی سے بات کرو۔‘‘ وہ اندر جانے کا ارادہ ترک کرکے وہیں رک گیا تھا۔
’’ایشاع کیسی ہو؟‘‘ مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں بھائی! آپ کیسے ہیں؟ اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں ایشاع! تمہارے مجازی خدا کہاں ہیں؟ دکھائی نہیں دے رہے؟ دل لگ گیا وہاں؟‘‘
’’کہاں بھائی‘ دل بالکل بھی نہیں لگ رہا ہے۔ آپ کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر تو میں فوراً آجانا چاہتی تھی‘ مگر ممی نے ہی منع کردیا۔ اب بھی دل چاہتا ہے فوراً آکر آپ سے ملوں‘ وہ ٹھیک ہیں اس وقت آفس میں ہیں‘ بھابی کہاں ہیں؟ دکھائی نہیں دے رہیں؟‘‘ ایشاع کے پوچھنے پر وہ چپ ہوگیا تھا پھر بولا تھا۔
’’وہ اس وقت یہاں نہیں ہیں۔‘‘ سہولت سے جواب دیا تھا۔
’’یہاں نہیں ہیں تو پھر کہاں ہیں؟ آپ پلیز بلائیں انہیں‘ آپ دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھنے کا من ہورہا ہے بہت عرصے سے نہیں دیکھا۔‘‘ ایشاع نے ضد کی تھی‘ معارج تغلق کے پاس جیسے اس لمحے کوئی جواب نہیں تھا۔
’’بھابی… کہاں بزی ہیں؟ مجھے معلوم ہے آپ یہی کہیں گے اردگرد ہیں مگر ضرور کسی کام میں بزی ہیں۔ ایک پل کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر Webcame کے سامنے آجائیں۔‘‘ ایشاع ضدی بچوں کی طرح براہ راست یوں مخاطب ہوئی تھی جیسے وہ واقعی کہیں آس پاس ہو۔
’’ایشاع وہ یہاں…‘‘ معارج نے کہنے کے لیے منہ کھولا تھا‘ جب اس کے عقب سے انائیا ملک کی آواز آئی تھی۔
’’میں یہاں ہوں۔‘‘ وہ آواز اس لمحے معارج تغلق کو کوئی خواب جیسی لگی تھی شاید تبھی اس نے یقین کرنے کو پلٹ کر اس کی سمت دیکھا تھا۔
وہ کوئی خواب نہیں تھی
حقیقت بنی اس کی پشت پر کھڑی تھی
کسی کو دل سے یاد کیا جائے تو کیا وہ واقعی اس ایک لمحے میں وہاں آن موجود ہوتا ہے؟ ایشاع اس کا تذکرہ کررہی تھی‘ اس سے بات کرنا چاہ رہی تھی اور کیسے وہ حقیقت بن کر وہاں آن کھڑی ہوئی تھی۔ ایسا کیسے ممکن ہوسکتا تھا؟ کیا دل کا دل سے رابطہ واقعی اس طور بندھ سکتا ہے؟ ایسا کوئی سلسلہ دل سے دل کے مابین ہے؟
معارج تغلق حیرت میں مبتلا اس کی سمت دیکھ رہا تھا مگر وہ اس لمحے اس کی سمت متوجہ نہیں تھی۔ جیسے معارج تغلق کا وہاں ہونا اس کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا یا پھر یہ خفگی کا کوئی اندازتھا؟ وہ خفا تھی؟
’’بھابی! کیسی ہیں آپ؟ میں آپ کو بہت یاد کرتی تھی‘ میں بھائی سے کہہ رہی تھی مگر وہ آپ کے معاملے میں کافی پوزیسو واقع ہوئے ہیں۔ کسی اور سے آپ بات کریں‘ یہ ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ محبت کی انتہا پسندی ہے شاید۔‘‘ایشاع مسکرارہی تھی۔
’میں ٹھیک ہوں ایشاع! تم کیسی ہو؟ میں ممی کے لیے چائے بنارہی تھی۔ ممی بتارہی تھیں تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی؟ تم اپنا خیال نہیں رکھ رہیں؟‘‘ وہ مکمل ذمے دارانہ انداز میں یوں پوچھ رہی تھی جیسے کہیں کوئی خلل واقع ہی نہ ہو اور وہ اس رشتے کا معمول ہو۔
’’تھوڑی پرابلم ہوگئی تھی بھابی! اب بہتر ہوں۔ گائی نے بیڈریسٹ کا مشورہ دیا ہے بھابی! آپ کب ہمیں چھوٹا سا کیوٹ سا‘ گولو مولو سا بھتیجا دے رہی ہیں؟ اس بارے میں آپ دونوں نے کچھ طے کیا کہ نہیں؟‘‘ ایشاع شرارت سے پوچھ رہی تھی‘ انائیا کو لاکھ عداوت سہی اور تعلقات کی ڈور لاکھ الجھی ہوئی سہی مگر اس لمحے اس کا چہرہ کان کی لووئوں تک سرخ پڑگیا تھا۔ شاید اس لیے بھی کہ معارج تغلق کی آنکھیں بد ستور اسے دیکھ رہی تھیں اور…
وہ ایک نگاہ بے تاثر انداز میں ڈال کر اس کی جانب سے غافل بن جانا چاہتی تھی مگر اس کی آنکھیں جیسے اپنے ساتھ باندھ رہی تھیں۔ یک دم سے کیسی کشش آگئی تھی ان آنکھوں میں؟ یا پھر اس کا وجود ہی اس کی سمت کھنچ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی‘ وہ سمجھ نہیں پاتی تھی ایشاع کی بات کا کیا جواب دے‘ لمحہ بھر کو وہ گنگ سی ہوگئی تھی۔ تبھی ایشاع ان دونوں کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔
’’آپ دونوں ایک ساتھ بہت پرفیکٹ دکھائی دیتے ہیں‘ خدا آپ دونوں کا یہ ساتھ ہمیشہ بنائے رکھے۔ بھائی اگلے مہینے میرا برتھ ڈے آرہا ہے میں آپ دونوں کو اس برتھ ڈے پر یہاں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں‘ ایسا ممکن ہے نا؟‘‘ ایشاع اپنا برتھ ڈے کا گفٹ طلب کررہی تھی۔ انائیا فوری طور پر کوئی جواب دے نہیں سکی تھی۔ نگاہ اس شخص سے ملی تھی معارج تغلق نے جانے کیا سوچ کر اس کا ہاتھ تھام لیا تھا او راسے اپنے پاس بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے دل کی کوئی خواہش ابھری تھی یا محض وہ اپنی بہن کو جتانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے قریب ہے۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی مگر ایسا ہونے سے اس کے دل کی دھڑکنیں زیرو زبر ہوگئی تھیں۔ اس کے اندر وہ سرسری سا بیگانگی لیے ہوئے لمس کسی آتش کا سا کام کرگیا تھا۔ انائیا نے معارج تغلق کی سمت دیکھا تھا‘ مگر وہ اس کی سمت متوجہ نہیں تھا۔ وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کی طرف دیکھ رہا تھا‘ جہاں ایشاع تھی۔
’’یہ بات تم اپنی بھابی سے پوچھو‘ اگر یہ تیار ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں تمہارے لیے کسی بھی لمحے وقت نکال سکتا ہوں۔‘‘ وہ بھائی ہونے کے ناتے اپنی محبت بھرپور طور پر جتارہا تھا اور تمام کا تمام معاملہ انائیا کے سپرد کرچکا تھا۔ انائیا فوری طور پر گنگ سی رہ گئی تھی‘ کوئی جواب نہیں دے سکی تھی۔
’’بھابی…؟‘‘ ایشاع نے مسکراتے ہوئے پکارا تھا۔
’’ہم… ہم ٹرائی کریں گے ایشاع! اگرچہ اگلے مہینے میرے کچھ ایونٹس ہیں اور…‘‘
’’ہم ضرور آئیں گے ایشاع!‘‘ عجب دھونس دیتا انداز تھا۔ وہ ایک پل میں اپنا فیصلہ صادر کرگیا تھا۔ انائیا حیران سی اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔ وہ ایسی دھونس کیونکر جما سکتا تھا؟ کیا وہ اس کا اختیار رکھتا تھا؟ ایسا کوئی استحقاق تھا اس کے پاس؟
ایشاع نے کب کیم آف کیا تھا اور گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوا تھا‘ وہ جان نہیں پائی تھی یا پھر اس سمت اس کا دھیان ہی نہیں تھا۔ معارج تغلق کے ہاتھ میں بدستور اس کا ہاتھ تھا۔ ایسا کرنا‘ ان قربتوں کو طول دینا انائیا ملک کے اندر خواہشوں کو بڑھا رہا تھا۔ وہ اپنی خواہشوں کے تابع ہورہی تھی یا پھر یہ معارج تغلق کی کوئی ڈھکی چھپی خواہش تھی؟ جو وہ اس کے ساتھ کا متمنی ہورہا تھا۔
تُو ہی حقیقت‘ خواب تُو
دریا تُو ہی‘ پیاس تُو
تُو ہی دل کی بے قراری‘ تُو سکون
جائوں میں اب جب جس جگہ
پائوں میں تجھ کو اس جگہ
ساتھ ہوکے نا ہو تُو ہے روبرو‘ روبرو
ان لمحوں میں کچھ نوازشیں تھیں یا جسارتیں‘ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔ معارج تغلق نے لیپ ٹاپ کی پلے لسٹ سے وہ ٹریک کسی خاص مقصد سے سلیکٹ کیا تھا۔ اس کے دل میں اس لمحے کوئی خاص احساس سر اٹھا رہا تھا۔ وہ کوئی خاص بات ڈسکس کرنا چاہتا تھا یا محض اس کے ساتھ چند لمحے خاموشی سے بتانے کا خواہاں تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی‘ اس شخص کی نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں اور وہ اس کی سمت دیکھ نہیں پارہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ یوں تھامے بیٹھا تھا جیسے اسے ڈر تھا کہ ابھی وہ اس کا ہاتھ چھوڑے گا تو وہ وہاں سے خواب کی طرح اڑنچھو ہوجائے گی۔ وہ ایسا بچہ سا کیوں بن رہا تھا؟ محبت آس پاس تھی یا محض اس کا وہم تھا؟
’’انائیا!‘‘ ایک مدہم سرگوشی اس کے کان کے قریب ہوئی تھی۔ وہ شاید کچھ کہنے کا قصد کررہا تھا۔
تُو ہم سفر‘ تُو ہم قدم‘ تو ہم نوا میرا
تُو ہم سفر‘ تُو ہم قدم‘ تو ہم نوا میرا
آ تجھے ان بانہوں میں بھرکے

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اور بھی کرلوں میں قریب
تُو جدا ہے تو لگے ہے
آتا جاتا ہر پل عجیب
اس جہاں میں ہے اور نہ ہوگا
مجھ سا کوئی بھی خوش نصیب
تُو نے مجھ کو دل دیا ہے
میں ہوں تیرے سب سے قریب
میں ہی تو تیرے دل میں ہوں
میں ہی تو سانسوں میں بسوں
تیرے دل کی دھڑکنوں میں
میں ہی ہوں… میں ہی ہوں
وہ منتظر سی اس کی سمت دیکھ رہی تھی‘ اس کی آنکھوں کی حدت سے اس کی پلکیں لرزنے لگی تھیں۔ وہ اس کے لفظ سننے کی منتظر تھی؟ اس کی دھڑکنوں تک رسائی چاہتی تھی؟ یا اس دل کے سارے راز پانا چاہتی تھی؟ وہ اپنی دھڑکنوں میں چھپی بے قراریوں کو کوئی جواز نہ دے سکی تھی مگر وہ اپنے یہاں موجود ہونے کا مدعا اس سے بیان کرنے لگی تھی۔
’’میں اپنا کچھ سامان لینے آئی تھی۔ میں نے ممی سے آنے سے پہلے بات کی تھی۔ انہوں نے اجازت دے دی تھی اور…‘‘ وہ جواز دے کر بری الذمہ ہونا چاہ رہی تھی۔ شاید وہ بغور اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا یا سطر سطر پڑھ رہا تھا۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ وہ جانے کیا سوچ کر بولا تھا۔
’’کیا؟‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’کہیں کچھ ہونے کا جواز ہے۔‘‘ معارج تغلق کا لہجہ مدہم تھا۔
’’اور…؟‘‘ وہ منتظر نظروں سے اس کی سمت تکنے لگی تھی۔
’’میں معنی تلاش نہیں کرسکتا۔ شاید وقت لگے۔‘‘ وہ کسی راز سے پردہ ہٹا رہا تھا یا ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنے دل کی کوئی بات اس تک پہنچا رہا تھا۔
’’ضروری نہیں ہم پر کسی ہونے اور نہ ہونے کا جواز تلاشتے پھریں کچھ چیزوں کے ہونے کے اسباب نہیں ہوتے۔ انہیں فراموش کردینا ہی دانش مندی ہے شاید؟‘‘ وہ ہمت کرکے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔ وہ پُر خیال انداز میں اس کی سمت تکنے لگا تھا پھر نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’شاید مگر ایسا صرف اپنے طور پر اخذ کیا مفروضہ بھی تو ہوسکتا ہے نا۔ اچھا سنو‘ اگر تمہیں کسی شے کو بدلنا پڑے تو تم اس کے لیے وہ کون سے تین اقدام سب سے پہلے کر وگی؟‘‘ وہ ایسے معمول کے انداز میں بات کررہا تھا جیسے ان میں کوئی مخالفت نہ ہو‘ نا تفاوت۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ وہ الجھ کر بولی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگاتھا۔
’’انائیا تمہاری آنکھوں میں کوئی بات ہے‘ تم کچھ کہنا چاہتی ہو؟ مجھے کیوں لگتا ہے کہ تمہاری پلکیں کسی بوجھ سے لدی ہوئی ہیں اور اس کا کچھ جواز ہے؟‘‘ وہ خاموشی سے اس کی سمت تکنے لگی تھی۔ ان آنکھوں میں کوئی شکوہ تھا یا شکایت یا پھر کوئی الزام؟ معارج تغلق واقعی اسے سطر سطر پڑھنے پر قادر تھا یا محض قیاس کررہا تھا؟ انائیا ملک کو کیوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کے لیے ضروری ہے؟ اس کا ہر عضو دل کیوں بن رہا تھا؟ وہ اس کی ہر دھڑکن میں کیوں دھڑک رہا تھا؟ محبت اتنی سر پھری ہوسکتی تھی؟اسے لگا تھا وہ اس کا وہ راز اس کی آنکھوں میں جان لے گا اور اس کی قدر صفر ہوجائے گی شاید تبھی وہ اس کی سمت سے نگاہ پھیر گئی تھی۔
’’تمہیں ڈر لگتا ہے؟‘‘ وہ باتیں جو اسے اس رشتے میں ساتھ رہتے ہوئے اس سے کرنا چاہیے تھیں وہ اس سے اس گھڑی کررہا تھا جب وہ بچھڑنے کا قصد کررہا تھا اور رشتے کو ختم کرنے کے منصوبے بنارہا تھا۔ کیا وہ اس کے لیے واقعی تیار تھا؟ اگر وہ دور جاتی تو اسے سچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ یہ اس کے اندر کا ڈر تھا جو وہ انائیا کے اندر کا ڈر تلاش رہا تھا یا ان دونوں کا ڈر مشترک تھا؟ وہ اس کے اندر کے ڈر تلاش رہا تھا‘ کیا وہ اپنے اندر کے کسی ڈر سے اس طور واقف تھا؟
تُو ہم سفر‘ تُو ہم قدم‘ تو ہم نوا میرا
تُو ہم سفر‘ تُو ہم قدم‘ تو ہم نوا میرا
کیسی خو تھی محبت کے لہجے میں‘ آس پاس جیسے کوئی جادو سا پھیلا تھا۔
کب بھلا یہ وقت گزرے
کچھ پتا چلتا ہی نہیں
جب سے مجھ کو تُو ملا ہے
ہوش کچھ بھی اپنا نہیں
تیرے بنا نہ سانس لوں
تیرے بنا نہ میں جیوں
تیرے بنا نہ ایک پل
رہ سکوں… رہ سکوں
تُو ہی حقیقت
خواب تُو
دریا تُو ہی‘ پیاس تُو
تُو ہی دل کی بے قراری
تُو سکون‘ تُو سکون
تُو ہم سفر‘ تُو ہم قدم‘ تو ہم نوا میرا
محبت اتنی طاقت ور ہوسکتی تھی؟ انائیا کو لگ رہا تھا اس کے اطراف کوئی دائرہ سا بنا ہو جس سے وہ چاہتے ہوئے بھی باہر نہ نکل پارہی ہو۔ چاہتے ہوئے بھی ان لکیروں کو پھلانگ نہ پارہی ہو۔ محبت ایسی باندھنے والی ہوسکتی تھی۔ ایسی بے بس کرنے والی ہوسکتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی یا پھر یہ اس کے ساتھ ہی تھا اور دوسرا فریق ایسا کچھ محسوس ہی نہ کررہا تھا۔
’’ہم میں سے سب کوئی نہ کوئی ڈر ضرور رکھتے ہیں‘ یہ ڈر مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں‘ مجھے بھی کئی طرح کے ڈر ہیں مگر یہاں اس کا ذکر کرنا اتنا ضروری نہیں اگر آپ کو کوئی ڈر ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی‘ جانے کیا ہوا تھا۔ معارج تغلق نے اس کے ہاتھ کواپنے ہاتھ کی گرفت سے آزاد کردیا تھا اور اس لمحے کا سارا جادو جیسے ایک پل میں ٹوٹ گیا تھا۔ وہ حصار ختم ہوگیا تھا۔ انائیا ملک اسے حیرت سے دیکھنے لگی تھی مگر وہ وہاں سے اٹھا اور بے تاثر لہجے میں بولا تھا۔
’’مجھے کچھ ضروری کام ہے‘ تم ممی سے مل لو۔ ہم بعد میں بات کریں گے۔‘‘ کہنے کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھ گیا تھا۔ کیسا بے رحم تھا وہ‘کیا چاہتا تھا؟ کیا سننے کا خواہاں تھا؟کیا جاننا چاہتا تھا؟ یا پھر ہر شے کو اپنی مرضی سے‘ اپنے طریقے سے وقوع پزیر ہوتا دیکھنا چاہتا تھا۔ انائیا الجھی ہوئی سی اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ رہی تھی پھر نگاہ اپنے ہاتھ پر گئی تھی وہ اس کے لمس سے اب تک دہک رہا تھا۔ کیا وہ اس قید سے رہائی چاہتی تھی؟ اس دائرے سے کوشش کرکے بھی نکل سکتی تھی؟
وہ خود سمجھ نہیں پائی تھی۔
…٭٭٭…
اناہیتا لان میں کھڑی پودوں کو پانی دے رہی تھی جب وہ گاڑی پورچ میں روک کر جارحانہ قدموں سے چلتا ہوا اس کے سامنے آن رکا تھا۔ وہ اس کی سمت سے یکسر غافل تھی تبھی پانی کے پائپ کا رخ اس کی سمت ہوگیا تھا۔ وہ اس بوچھاڑ سے بھیگنے لگا تھا۔ مگر فی الفور کوئی احتجاج کیا تھا نا اسے ایسا کرنے سے روکا تھا وہ نادانستگی میں ہوئے اقدام پر بھونچکا سی کھڑی تھی جب دامیان سوری نے اس کا ہاتھ تھام کرپائپ کا رخ اوپر کی جانب کردیا تھا جس سے وہ دونوں بھیگنے لگے تھے۔ اناہیتا بیگ اس کے اس جارحانہ رویئے کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی یا اس کی آنکھوں سے نکلتی جھلساتی تپش کا مطلب جان پائی تھی تبھی الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا تھا۔
’’دل چاہتا ہے تمہارے اردگرد جا بجا دائرے بنادوں‘ لکیریں کھینچ دوں‘ تم چاہو بھی تو اس حصارسے باہر نکل نا پائو۔ تمہاری اس بے مہری کو توڑ دوں۔ اس ظاہری انا کو تارتار کردوں‘ تمہارے سارے کھوکھلے خول توڑ کر تہس نہس کردوں‘ تمہیں شکایتیں کرنے کا موقع دوں نا گلے کرنے کا‘ تمہیں کوئی رعایت دوں نا کوئی لگی لپٹی رکھوں۔ میں تمہیں بے حد‘ بے حساب سزائیں دینا چاہتا ہوں اناہیتا بیگ۔ اتنی کہ تم جان لو کہ کھوکھلی دیواریں کھڑی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اور خود سے بھاگتے رہنے کا‘ جھوٹی تاویلیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ بس تمہاری اس بے خبری کو توڑ دینا چاہتا ہوں مگر ہزار چاہنے پر بھی میں ایسا کچھ نہیں کرسکتا‘ ایسا کچھ نہیں کرپاتا‘ میں ایسا بے اختیار ہوں یا تم نے میری ساری سوچوں کو باندھ دیا ہے اور صرف اپنا پابند کرلیا ہے؟ سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ میں کیوں پاگل ہورہا ہوں‘ میں ہی کیوں؟ کیوں تمہارا پابندہ ہورہا ہوں؟ کیوں تمہارے اختیار سے باہر نکل نہیں پارہا؟ کیوں تمہیںسوچوں سے نکال نہیں پارہا؟ مجھے وحشت ہوتی ہے۔
نہیں ہے تم سے محبت۔
محبت ہو بھی نہیںسکتی تم جیسی لڑکی سے تو قطعاً کبھی نہیں۔
تم نے میرے سارے کلیوں اور مفروضوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ میرے سارے قیاس بے اثر گئے ہیں‘ پاگل بنادیا ہے تم نے مجھے اناہیتا بیگ۔ کتنا پاگل ہوں میں‘ یہی سوچتی ہو ناتم؟ کچی ڈور سے بندھا تمہارے پیچھے چلا آتا ہوں؟ تمہارے اچھے بُرے سارے رویوں کو سہتا ہوں‘ تمہارے آگے پیچھے رہتا ہوں‘ یہی بات تمہیں خوش کرتی تھی نا؟یہی بات تسکین دیتی تھی نا؟
مگر اب میں یہ سلسلہ متروک کرنا چاہتا ہوں‘ تھک گیا ہوں میں اب اور نہیں۔ بے وقوف ہوں میں‘ تم ثابت کرتی ہو کہ تم اتنی جنون پسند نہیں نا ہی طفلِ مکتب ہو۔ یہ خلل صرف میرے دماغ میں ہے مگر اب اور نہیں اس بے وقوفی کا سلسلہ آج اور ابھی سے ختم کررہا ہوں میں۔ سارا قصور میرا ہے‘ ساری رعایتیں میری طرف سے ہیں اور ساری کوششیں میری طرف سے ہیں۔ تم نے ٹھیک کہا‘ تم صحیح تھیں‘ غلط میں تھا۔ میں اپنے مرکز سے ہٹ گیا تھا‘ اپنے مدار سے ہٹ کر دوری کا سفرکررہا تھا‘ اپنے آپ سے تفاوت پر جارہا تھا اور تمہارے قریب آنے کے ہزار جتن کررہا تھا مگر وہ سب بے حس تھا اور انتہائی فضول۔ میرا تمہاری جانب سفر‘ تمہارے مدار کے گرد گول گول گھومنا‘ میری حماقت تھی۔ ہم ایک دنیا کے نہیں ہیں‘ کبھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے‘ مجھے اس کا ادراک ہوگیا ہے‘ تبھی یہ سلسلہ موقوف کررہا ہوں‘ محبت اس طرح نہیں ہوتی‘ محبت اس طور نہیں ہوسکتی۔ مجھے اب اس کی سمجھ آگئی ہے سو میں آج سے‘ ابھی سے تم سے تفاوت کا سفر شروع کررہا ہوں‘ میرے قدم اب تمہاری سمت نہیں‘ تمہاری مخالف اٹھیں گے۔ میں نے طے کرلیا ہے۔‘‘ وہ سخت لہجے میں کہہ رہاتھا‘ اس لہجے کی محبت غائب تھی‘ وہ نرمی کہیں نہیں تھی۔
وہ مہربان لہجہ کہیں نہیں تھا اور وہ نگاہ آج اس پر اجنبی تھی۔
وہ نگاہ محرم نہیں تھی‘ وہ جیسے کسی اجنبی کے روبرو تھی‘ اس کی کلائی پر اس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ اس کی انگلیاں اسے اپنے گوشت میں پیوست ہوتی لگی تھیں وہ اس تکلیف کو پورے طور پر محسوس کررہی تھی‘ محبت ایسی بے رحم کیسے ہوسکتی تھی؟
کیا وہ واقعی اس سے محبت کرتا تھا؟ وہ جو ہمیشہ دعویٰ دار رہا تھا‘ اس کے آس پاس رہا تھا؟ کیا واقعی اس کے جنون میں اس طور مبتلا تھا؟ یا وہ کوئی خواب‘ خیال تھا؟
محبت اپنے پَر سمیٹ رہی تھی یا اس پر اپنے دروازے بند کررہی تھی‘ وہ سمجھ نہیں پائی تھی وہ ساکت سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
محبت بے حس ہورہی تھی‘ نامہربان ہورہی تھی۔
وہ اس سے غیر ہورہا تھا‘ لا تعلق ہورہا تھا‘ اس سب کا ہونا اس کے احساسات پر ضرب لگا رہا تھا, اس کے خول کو توڑ رہا تھا یا اس کے دل کو جھنجوڑ رہا تھا یا وہ اس لہجے کو سمجھ ہی نہیں پارہی تھی۔
اس انداز سے آشنا نہیں تھی تبھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’محبت الگ الگ مدارچوں میں گھومنے کا نام نہیں‘ ایک مدار میں ایک ساتھ محوِ سفر ہونے کا نام ہے اور ہم ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کو اٹریکٹ نہیں کرتے۔ ہم مخالف راستوں پر چلنے کے لیے بنے ہیں سو اجنبی ہوجانے میں ہی بہتری ہے۔ مجھے یقین ہے تمہیں اس کا ملال نہیں ہو گا کیونکہ تمہارا دل کسی آہنگِ خاص سے واقف نہیں‘ تمہیں سود و زیاں کا ملال بھی نہیں ستائے گا کیونکہ تمہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ تم کیا کھو رہی ہو۔ تمہاری حسیات منجمد ہیں اناہیتا بیگ! تمہیں خسارے کا اندیشہ نہیں ستائے گا۔ تمہیں کوئی اضطراب ستانے آئے گا نا بے قراری پائوں سے لپٹے گی۔‘‘ اس کے بھیگے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک پل کو رک کر شہادت کی انگلی اس کی سمت بڑھائی تھی اور اس کے دل پر رکھی تھی۔
’’یہاں دل نہیں ہے‘ سو محبت ہو نہیں سکتی۔ تمہارے آس پاس وہ زمین نہیں ہے جہاںمحبت کاشت ہوسکے۔ محبت کے لیے یہ زمین بنجر ہے اور بنجر زمین پرمحبت بوئی نہیں جاسکتی ناکاٹی جاسکتی ہے۔ تم بہت خوش نصیب ہو اناہیتا بیگ! تم بہت سی فکروں سے آزاد رہ سکتی ہو‘ مگر مجھے تم سے پھر بھی ہم دردی ہے۔‘‘ وہ پر افسوس انداز میں کہہ رہا تھا۔ پھر یک دم اس کی کلائی چھوڑی تھی ایک نگاہ سر سری اس کے وجود پر‘ اس کے چہرے‘ خدوخال پر ڈالی تھی اور پھر یک دم پلٹ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔‘‘ وہ ساکت سی کھڑی اسے خود سے دور جاتا دیکھتی رہی تھی۔
یہ کیا ہوا تھا؟
ایک دم
اچانک… سے ہَوا اس کے مخالف کیسے چلنے لگی تھی؟
یہ کیا ہوگیا تھا؟
اگر وہ اس کا معمول تھا‘ اس کے اختیار میں تھا تو پھر یک دم ہر شے اختیار سے باہر کیسے جانے لگی تھی؟
اس کا دل تھم سا کیوں رہا تھا؟
کیوں لگ رہا تھا وہ بھاری قدم ہے جو اس سے دور جارہے تھے۔ اس سے مخالف سمت چل رہے تھے۔ زمین پر نہیں اس کے دل پر چل رہے تھے۔ اس کے اندر وجود کے کسی علاقے میں خاموشی پھیل رہی تھی۔ اس کا سانس لینا محال ہورہا تھا‘ اسے کس شے کا ادراک کروا رہا تھا یہ وقت؟
…٭٭٭…

’’انائیا تمہیں اس روز میں نے گھر بلایا تھا‘میں تم سے ضروری بات کرنا چاہتی تھی مگر تم اچانک سے اٹھ کر نکل آئیں اور اس کا موقع نہیں مل سکا۔‘‘ سدرہ تغلق نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ کچھ کہنے کا ارادہ باندھ رہی تھیں اور انائیا اپنے الجھاوں میں الجھی ہوئی تھی‘ وہ دو آنکھیں اس کے ذہن سے چپک گئی تھیں ان کی تپش‘ ان کی حدت۔
خاموشی میں بھی کچھ کہنا اور کہنے کے ہزار جتن کرنا‘ ارادے باندھنا‘ پھر توڑنا اور یک دم سے اجنبی بن جانا‘ وہ ان دو آنکھوں کے حصار میں مسلسل قید تھی اور دل وہیں کہیں بندھ گیا تھا۔
’’تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ سدرہ تغلق نے دریافت کیا تھا‘ انائیا خاموشی سے ان کی سمت دیکھ رہی تھی۔ سدرہ تغلق کو وہ کسی خواب کی کیفیت میں لگی تھی۔
’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ سدرہ تغلق نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’اسے ڈر ہے۔‘‘ وہ بے دھیانی میں جیسے خود کلامی کرتی ہوئی بولی تھی۔
’’کسے؟‘‘ سدرہ تغلق چونکی تھیں۔ ’’کس کی بات کررہی ہو تم؟‘‘ سدرہ تغلق نے پوچھا تھا۔ انائیا جیسے کسی خواب سے جاگی تھی ان کی سمت دیکھا تھا اور پھر نفی میں سر ہلادیا تھا۔
’’ڈر سے بھاگنا حماقت ہوسکتی ہے انائیا! ڈر کو ہرانا‘ اس سے باہر آنے کا راستہ ہے۔ اس راستے سے یقین کے سارے راستے نکلتے ہیں اگر یقین کا سفر کرنا ہے تو تمام خوف کو سمیٹنا ضروری ہے۔‘‘وہ پُر اثر لہجے میں سمجھاتے ہوئے بولی تھیں۔
’’آپ کوئی ضروری بات کرنے والی تھیں؟‘‘ انائیا نے پوچھا تھا۔
’’ہاں! مجھے تم سے بات کرنا تھی مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا۔ اس کے لیے میں تمہیں کیسے قائل کروں‘ تم نے جس طرح معارج کا خیال رکھا‘ اسے پوری توجہ دی اپنا وقت دیا۔مجھے نہیں لگتا ایسا کوئی اور کبھی کر پائے گا‘ اگر تم اس کی زندگی سے جاتی ہو‘ تو یہ بہت بڑا خسارہ ہوگا‘ شاید معارج بھی اس سے واقف ہوگا‘ مگر وہ کہنا نہیں چاہتا یا اسے جتانا نہیں آتا‘ مرد کی فطرت میں کچھ خود سری ہے‘ کچھ سرکشی ہے‘ لڑکی اسے اپنے بس میں کرسکتی ہے مگر اس اختیار کو حاصل کرنے سے پہلے اسے بہت سے ادوار سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں‘ تم ایک پل تعمیر کرسکتی ہو‘ اس کے اپنے مابین راستہ بنا سکتی ہو اور اس سے بہتر حل کوئی اور نہیں ہوگا مگر بیٹا میرے لیے تم بھی اتنی ہی اہم ہو جتنی کہ میری اپنی اولاد‘ میں معارج سے زیادہ تم سے محبت کرتی ہوں‘ مجھے ہمیشہ لگا ہے تم اس کے لیے بہترین انتخاب ہو‘ مگر میں چاہتی ہوں تم بھی اس کا احساس کرو۔ کوئی فیصلہ زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہیے۔ میں تمہیں تغلق محل میں ہمیشہ دیکھنا چاہتی ہوں‘ اپنے معارج کی شریک زندگی کے طور پر مگر میں چاہتی ہوں تم ایسا اپنی خواہشوں کے تابع ہوکر کرو نا کہ کسی زبردستی کے باعث۔‘‘ سدرہ تغلق نے سہولت سے مدعا بیان کیا تھا۔
’’آپ جانتی ہیں معارج طلاق کے پیپرز تیار کروارہا ہے؟‘‘ انائیا ملک نے ماں کی لاعلمی دیکھ کر مطلع کیا تھا‘ وہ چونکی تھیں۔
’’یہ کب ہوا؟ معارج نے تو ایسا کچھ نہیں بتایا مجھے۔‘‘ وہ حیران ہوئی تھیں۔
’’ممی! یہ پل ایک سمت سے تعمیر نہیں ہوسکتا‘ ایک طرف کی کوشش بہت رائیگاں ہوگی۔‘‘ انائیا ملک بہت مدہم لہجے میں بولی تھی۔ سدرہ تغلق نے اس کے ہاتھ تھامے تھے اور بہت ملائمت سے اسے مخاطب کیا تھا۔
’’انائیا بیٹا! ہم کسی کو معاف کرنے کی جرأت اور ہمت تبھی رکھتے ہیں جب ہمارے دل میں کسی کے لیے گنجائش ہو‘ تم اگر ایسا کر پائیں تو یہ تبھی ممکن ہوگا کیونکہ تم ایک حساس دل رکھتی ہو‘ معارج میرا بیٹا ہے‘ اسے جانتی ہوں میں ‘اس کا دل بہت حساس ہے‘ وہ اتنا بے حس نہیں ہے‘ مجھے یقین ہے اگر تم ایک طرف سے ہاتھ بڑھائو گی تو دوسری طرف سے وہ اس کوششں کو رائیگاں جانے نہیں دے گا۔ بیٹا گھر بنانے کے لیے بہت کچھ تیاگنا پڑتا ہے۔ انا‘ خود داری اچھی بات ہے‘ لیکن اگر یہ جاں کا زیاں بننے لگے تو پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ سدرہ تغلق انائیا کو اپنے طور پر سمجھا رہی تھیں۔ وہ بیٹے کا گھر آباد دیکھنے کی خواہاں تھیں مگر یہ صرف انائیا کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ایسا تو تب ہوتا جب دوسری طرف سے بھی کوئی آمادگی ہوتی‘ دوسری طرف سے بھی کوئی سائن دکھائی دیتا‘ مگر اس طرف تو مکمل بے گانگی تھی‘ ایسے میں انائیا اپنی انا کو دائود پر کسی طرح لگا سکتی تھی‘ ایسے پرسکوت موسم میں ساتھ رہنے کی کوشش کرنا ایک غلط فیصلہ ہوسکتا تھا‘ کیا وہ خود کو اتنا ارزاں کرسکتی تھی؟ وہ سوچ کر رہ گئی تھی۔
…٭٭٭…​
کوئی وقت ہوتا ہے جب ایک ہی سمت میں قوت لگا لگا کر کوئی تھک جاتا ہے‘ ایسے میں جب وہ ساری کوششیں رائیگاں جارہی ہوں اور اس کا کوئی حاصل حصول بھی نہ ہو۔
محبت بدگمان ہوسکتی ہے؟ شاید ہوسکتی ہے جب ناروا داریوں کے موسم اپنے گہرے بادلوں کے ساتھ آسمان کو چاروں طرف سے گھیر لیں تو پھر موسم تعاون کرنے پر مائل نہیں ہوتا‘ اناہیتا بیگ بہت خاموشی سے ٹیرس پر تھی۔ دامیان سوری کے اس کے پیچھے آنے پر اس نے شاید کبھی نوٹس لینا نہیں چاہا تھا مگر جب وہ تھک ہار کر اپنے قدم موڑ گیا تھا تو اس کا دل اس سے بندھنے کیوں لگا تھا؟
وہ کیوں اس کی سمت سے اپنا دھیان ایک پل بھی ہٹا نہیں پارہی تھی؟ وہ کیوں اس کیفیت میں گھر گئی تھی جس میں کوئی ملال سر پٹخ رہا تھا۔
محبت اس کے ساتھ تھی۔
اس کے ہر طرف تھی اور وہ اسے ماننے کو تیار نہیں تھی‘ وہ مسلسل اس کی نفی کررہی تھی تو پھر اب جب محبت مخالف رخ اختیار کرگئی تھی تو قلق کسی بات کا ستارہا تھا؟ وہ اتنی بے چین کیوں ہوگئی تھی؟ وجود کے سارے علاقے میں یہاں وہاں اضطرابی کیوں پھیل گئی تھی؟ اس کا سیل فون بجا تھا‘اس نے تمام سوچوں سے چونک کر سیل فون کی اسکرین کو دیکھا تھا مگر وہاں پارسا کا نام دیکھ کر اس کے

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اندر ایک آس نے دم توڑ دیا تھا۔ اس نے بے دلی سے کال ریسیو کی تھی۔
’’کیسی ہو؟ کہاں غائب ہو؟ رشتہ بنتے ہی منہ پھیرلیا؟ اس سے بہتر تو تب تھا جب ہم دوست تھے۔‘‘ پارسا اسے لتاڑ رہی تھی۔
یہ پارسا‘ اس پارسا سے بہت مختلف لگی تھی جو یہاں رہتی رہی تھی۔ شاید وہ بہت خوش اور مطمئن تھی؟ کیا خوشی اتنا بدل دیتی ہے؟ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی تھی اور پارسا کو مطمئن کرنے کو بولی تھی۔
’’ایسا نہیں ہے پارسا! شاید تمہارا شکایتیں کرنے کا موڈ ہورہا ہے‘ عدن بھائی تمہیں کال نہیں کررہے‘ اس کا غصہ مجھ پر اتار رہی ہو؟‘‘ وہ اسے چڑانے کو مسکرائی تھی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے مجھے تو اس کا دھیان بھی نہیں تھا کہ تمہارے عدن بھائی نے کال کی بھی یا نہیں۔‘‘ پارسا مگن سی بولی تھی۔
’’اوہ! ایسی بے تابی کیوں؟ کہو تو فون کروا دوں؟‘‘ اناہیتا بیگ نے کہا تھا۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں اگر انہیں کرنا ہوگا تو خود کریں گے۔ میں خوش ہوں یہاں۔ بہت عرصے بعد گھر کا سکھ ملا ہے‘ اپنوں کا ساتھ ملا ہے‘ اس خوشی کے آگے کچھ اور سجھائی نہیں دیا۔‘‘ پارسا مسکرائی تھی۔
’’شاید وہ بزی ہیں یا شاید میں ان کے دھیان میں نہیں رہی‘ خیر بقول تمہارے ساری زندگی ساتھ ہی تو رہنا ہے‘ کرلیں گے دور سب شکوے گلے بھی‘ تم سنائو یہ ٹون اتنی Low کیوں ہے؟ کچھ ڈائون ہو؟‘‘
’’نہیں‘ سب ٹھیک ہے۔‘‘ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی تھی۔
’’دامیان سے جھگڑا ہوا؟‘‘پارسا نے پوچھا تھا۔
’’ہم میں دوستی تمام ہوئے ایک عمر ہوگئی۔‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔
’’ایسا کیا ہوگیا؟ میں جانتی ہوں تم دونوں چاہے کتنا بھی جھگڑو مگر کوئی شے ہے جو تم دونوں کو دور جانے نہیں دیتی اور اگلے ہی لمحے تم پھر ساتھ ہوتے ہو۔‘‘ پارسا پورے یقین سے کہہ رہی تھی۔
’’تم غلط سمجھ رہی ہو پارسا! ہم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اناہیتا نے اس کی بھرپور نفی کی تھی‘ پارسا شاید جلدی میں تھی تبھی بولی تھی۔
’’اچھا سنو‘ میں تمہیں بعد میں فون کروں گی‘ فی الحال میں بھابی کے ساتھ باہر جارہی ہوں۔ تم اپنا خیال رکھنا اور…‘‘
’’اور…؟‘‘ اناہیتا چونکی تھی۔ ’’کوئی پیغام ہے تو بتادو۔‘‘ چھیڑا تھا۔
’’مجھے ان ڈائریکٹ پیغام کی ترسیل کا کوئی شوق نہیں اگر کچھ کہنا ہوا تو خود کہہ لوں گی۔‘‘ وہ مسکرائی تھی اور فون کا سلسلہ بند کردیا تھا۔ اناہیتا بیگ نے لب بھینچے ہوئے کھلے آسمان کو دیکھا تھا اور نگاہ کہیں تاروں میں الجھنے لگی تھی۔
…٭٭٭…​
چلے تھے ساتھ ساتھ
رکے‘ رکے تھے ساتھ ساتھ
کیسے نہ کرتا اس سے میں پیار
اس کی ہنسی میں سکھ تھے ہزار
بچھڑگئے ہم دکھ کی ہے بات
میری زندگی
میرے ساتھ نہیں
کیا… سوچا ہوا کیا
دور… ہوکے ملا کیا؟
اس نے میرے دل کو توڑا کیا؟
یا پھر میں نے اس کو چھوڑا کیا؟
بندھن تھا… توڑا کیا…!
دامیان سوری بیڈ پر آڑا ترچھا پڑا تھا۔ کھلی آنکھیں چھت کو گھور رہی تھیں۔ پر جانے کیا سوچ کر وہ اٹھا تھا اورلیپ ٹاپ آن کیا تھا۔ للی کا میسج آیا تھا۔
’’تمہیں دیکھے کئی دن ہوئے‘ وقت ہو تو بات کرلینا۔‘‘ ایک مختصر پیغام تھا وہ شاید واقعی مائنڈ چینج کرچکا تھا تبھی اس سے بات کرنے لگا تھا۔وہ اسے ویب کیم پر دیکھ کر مسکرائی تھی۔
’’کچھ زیادہ ہینڈسم ہوگئے ہو‘ کیا بات ہے؟ یہ سب ٹھیک لگنے کی کیفیت تو ٹھیک ہے مگر یہ آنکھوں میں اتنی اداسی کیوں ٹھہری ہوئی ہے؟‘‘ وہ جیسے اسے بہت جانتی تھی اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا‘ وہ نفی کرنے لگا تھا۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے‘ ممی تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔‘‘ للی کو مطلع کیا تھا۔
’’ہاں ان کا فون آیا تھا۔‘‘ للی نے بتایاتھا وہ چونکا تھا۔
’’انہوں نے کوئی بات تو نہیں کی؟‘‘
’’کوئی بات؟ کوئی بات کرنا تھی کیا؟‘‘ وہ مطمئن سی مسکرائی تھی۔ اس کے چہرے کے رنگ گرفت میں لینے والے تھے۔ دامیان سوری کو حیرت ہوئی تھی وہ اس ایک چہرے کے پیچھے اتنا پاگل کیسے ہوا تھا؟ کیسے ساری انا‘ خود داری کا تیا پانچا کرلیا تھا۔ وہ کتنی مطمئن ہوئی ہوگی‘ جان کر کہ وہ اس کے پیچھے آرہا ہے۔
’’یہ تم کہاں کھوگئے؟ یا پھر میرے خدوخال میں کسی اور کو ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ دامیان سوری لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’میرے بنا اداس ہوگئے ہو؟‘‘ وہ چھیڑتے ہوئے مسکرائی تھی۔ شاید وہ اس کا موڈ بحال کرنا چاہی تھی اور چیزوں کو معمول پر لانا چاہتی تھی تبھی بولی تھی۔
’’کہو تو واپس آجائوں؟‘‘ انداز میں شرارت تھی تبھی وہ بولا تھا۔
’’ممی کو تم اچھی لگی ہو۔‘‘ اس نے اپنے طور پر اسے آگاہ کرنا چاہا تھا۔
’’انہیں تو میں بہت پہلے سے اچھی لگتی ہوں‘ اس میں نئی بات کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائی تھی۔
’’شاید تبھی وہ تمہارے لیے سوچ رہی ہیں۔‘‘ دامیان نے بتای تھا۔
’’میرے بارے میں سوچ رہی ہیں‘ میں سمجھی نہیں؟‘‘ وہ نا سمجھتے ہوئے بولی تھی۔
’’انہیں لگتا ہے تم میرے لیے بہترین انتخاب ہوسکتی ہو۔ اس کے لیے انہوں نے تمہارا نام رکھا ہے۔‘‘ دامیان نے سرد لہجے میں کہا تھا۔
’’کیا…؟‘‘ یہ بات اس کے لیے بہت حیرت کا باعث تھی تبھی اس کی آنکھیں حیرتوں سے بھر گئی تھیں۔
’’ایسا کیونکر سوچا انہوں نے؟وہ اب بھی جب میں یہاں واپس آچکی ہوں اور تم… تم تو اناہیتا بیگ کے گھر اپنا پروپوزل بھجوا چکے ہو نا؟ پھر ایسا کیوں سوچنے لگیں وہ؟‘‘ للی میک حیرت سے بولی تھی۔ دامیان سوری کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’’تم اناہیتا سے محبت کرتے ہو نا دامیان؟‘‘ وہ جیسے یقین کرنے کو بولی تھی۔ دامیان نے کوئی جواب دیئے بنا خاموشی سے اسے دیکھا تھا۔
’’اگر وہ محبت سچی ہے تو تم اپنے قدم واپس کیسے لے سکتے ہو؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔ دامیان نے شانے اچکائے۔
’’شاید وہ میری بے وقوفی تھی‘ محبت ایسے نہیں ہوتی‘ محبت ایسی نہیں ہوتی۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولا تھا۔ للی اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ یہ اچانک سے کیا ہوگیا تھا؟ اچانک وہ اتنا بدل کیسے گیا تھا؟
محبت اتنی جلد بدل سکتی تھی؟
دامیان سوری یک دم سے اتنا اجنبی کیسے ہوگیا تھا؟
…٭٭٭…​
’’بہت بزی تھا‘ وقت نہیں نکال پایا‘ کیسی ہو تم؟‘‘ عدن نے رات کے کسی پہر پارسا کا نمبر ملایا تھا‘ وہ جاگ رہی تھی۔
’’دیٹس اوکے‘ مجھے لگا تھا آپ بزی ہوں گے۔‘‘ پارسا شاید اسے رعایت دینا چاہتی تھی اور کسی طرح کی فردِ جرم عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی تبھی سرسری لہجے میں بولی تھی۔
’’تم ابھی تک جاگ رہی ہو‘ مجھے لگا تم سوگئی ہوگی۔ میں نے بس یوں ہی تمہارا نمبر ٹرائی کیا تھا۔‘‘ ہمیشہ انداز میںایک وارفتگی رکھنے والا بندہ اس لمحے سرد سا لگا تھا۔ نکاح کے بعد ان دونوں کو کچھ قریب آنا چاہیے تھا۔ ایک نیا رشتہ استوار ہونے سے تعلقات مضبوط ہوجاتے ہیں مگر وہ اتنا اجنبی اور کھنچا کھنچا سا کیوں تھا؟ یہ بات وہ نکاح کے بعد سے محسوس کررہی تھی‘ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا تھا اور کہہ نہیں پارہا تھا‘ کوئی بات شاید اس کے اندر تھی جو لبوں پر نہیں آرہی تھی۔
’’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ بنا کوئی وضع قطع رکھے مدعا پر آئی تھی اگر کوئی الجھن تھی تو وہ اسے سلجھانا ضروری خیال کرتی تھی۔
’’نہیں‘ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘عدن بیگ کا انداز سرسری تھا۔
’’کچھ تو ہے؟‘‘ پارسا معاملے تک رسائی چاہتی تھی۔
’’نہیں‘ کہیں کچھ نہیں ہے۔‘‘ وہ انکاری ہوا تھا۔

’’تو پھر اتنی خاموش کیوں ہے؟ ایک بات میں نکاح کے بعد سے محسوس کررہی ہوں آپ کچھ چپ سے ہوگئے ہیں۔ مجھے احساسِ جرم میں مبتلا مت کریں کہ مجھے لگے میں نے خود کو کسی پرامپوز کیا ہے‘ کسی کی مرضی کے خلاف۔‘‘ وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
وہ چپ ہوگیا تھا‘ گویا معاملہ اسی نقطے سے جڑا تھا؟
مرضی جانے بنا خود کو اس کی زندگی میں شامل کرنے کی درخواست کردی تھی اور اس نے محض کرٹسی میں اس ریکوئسٹ کو قبول کرلیا تھا۔ ایک احساسِ تضحیک کہیں اندر محسوس ہوا تھا۔ انا پر گہری ضرب پڑی تھی۔
’’اوہ تو معاملہ یہی تھا تو آپ نے بتایا کیوں نہیں؟ اس لمحے منع کیوں نہیں کردیا؟ اس طرح رشتہ بنانے کا فائدہ؟ کوئی زبردستی تو نہیں تھی‘ کوئی تلوار لے کر سر پر تو سوار نہیں کھڑا تھا‘ ایسی بھی کیا مروت؟ آپ کو اچھا بننے کا شوق کیوں تھا؟‘‘ وہ اندر ہی اندر گرتی ہوئی بولی تھی‘ اپنا وقار‘ اپنا تشخص بہت مجروح ہوتا لگا تھا۔ اس نے یہ کیا کردیا تھا؟ کیسے کسی کی مرضی کے بنا اس کی زندگی میں شامل ہوگئی تھی۔ یہ خود اپنے ساتھ کیا کردیا تھا اس نے؟
’’مجھے ہمیشہ لگا تمہارا جھکائو یلماز کمال کی طرف ہے پھر اچانک سے مجھے اس رشتے کی آفر دے کر تم نے حیران کردیا پارسا! میرا خیال ہے ایساکرنا تمہاری مجبوری رہی ہوگی۔ تم نے اپنی خوشی اور پوری رضا مندی سے یہ فیصلہ یقینا نہیں کیا۔ اگر تم یہ فیصلہ کسی اور لمحے میں کرتی تو تمہارا فیصلہ کسی اور کے حق میں ہو۔ وہ میں نہ ہوتا مجھے زندگی کو سمجھوتوں پر بسر کرنے کی عادت نہیں ہے پارسا! میرے لیے یہ کچھ مشکل ہے‘ تم تب تک میرے ساتھ اس رشتے میں رہ سکتی ہو‘ جب تک تم اپنے معاملات اس خاص نہج پر نہ لے جائو‘ جہاں تم چاہتی ہو۔ اس کے بعد ہم یہ رشتہ یہیں ختم کرسکتے ہیں‘ میں تمہیں آزاد کرنے میں کسی پیش و پیش سے کام نہیں لوں گا۔‘‘وہ صاف گوئی سے کہہ رہا تھا اور دوسری طرف پارسا ساکت سی اسے سن رہی تھی۔
’’خیر مجھے نیند آرہی ہے‘ ہم پھر کبھی بات کریں گے‘ گڈ نائٹ!‘‘ عدن بیگ نے کہہ کر سلسلہ منقطع کردیا تھا۔ وہ فون کے یک دم بند کیے جانے پر کچھ بول نہیں سکی تھی‘ خالی خالی نظروں سے چھت کوگھورنے لگی تھی۔
…٭٭٭…
تیرے واسطے میں
تارا‘ تارا جلا
کہکشاں کی طرح
تیرے واطے میں
’’میں نے اپنے سارے خواب سمیٹ لیے ہیں اور انہیں سمندر برد کردیا ہے اور اب کہیں کوئی احساس ملال نہیں ہے۔‘‘ دامیان سوری کا لہجہ بے پروا اور بے فکر تھا جیسے اسے واقعی کسی بات کی کوئی فکر نہیں تھی نا کوئی ملال۔
’’تم جانتے ہو تم کیا کرنے جارہے ہو؟‘‘ ایکسل نے حیرت سے دیکھا تھا اس کے چہرے کا سکوت بتارہا تھا وہ ٹھان چکا ہے اور اب اسے کوئی ملال نہیں تھا۔
دامیان سوری نے اس کی سنے بنا سیل فون پر کوئی نمبر ملایا تھا اور بات کرنے لگا تھا۔
’’للی مجھے ایک فیصلے میں تمہاری ضرورت ہے‘ تم ساتھ دو گی؟‘‘
’’کون سا فیصلہ؟‘‘ دوسری طرف وہ چونکی تھی۔ ’’میں اس وقت باہر ہوں ہم تھوڑی دیر بعد بات کریں؟‘‘ وہ اپنی مجبوری کے پیش نظر بولی تھی۔
’’مجھے بھی تمہارا زیادہ وقت نہیں چاہیے‘مجھے بس پوچھنا یہ تھا کہ … تم… شادی کرو گی مجھ سے؟‘‘ وہ ایک لمحہ توقف کے بعد یک دم مدعا بیان کرگیا تھا۔ جہاں للی فون کے اس طرف حیران ہوئی تھی وہیں جیسے ایکسل کے سر پر کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا…؟ یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ للی دوسری طرف مسکرائی تھی۔
’’یہ مذاق نہیں ہے للی! تم اپنا فیصلہ بتائو؟‘‘ وہ بضد تھا۔
’’ایسے فیصلے لمحوں میں نہیں لیے جاسکتے دامیان سوری! مجھے نہیں معلوم تم کیوں ایسا کہہ رہے ہو جب کہ تم خود جانتے ہو تم…‘‘
’’وہ سب تمہارا وہم تھا‘ کل کی بات تھی‘ سو کل کے ساتھ سب تمام ہوا‘ اگر ایسا کچھ سچ بھی تھا تو اب اس کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ آج کا سچ آج کے ساتھ ہے۔‘‘ وہ سرد لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’دامیان سوری! کوئی کل ڈھیلی ہے تمہاری‘ ایسے بھلا شادی ہوتی ہے؟ تم پروپوز کررہے ہو یا پتھر اٹھا کر سر پر ماررہے ہو؟ میں یہاں لندن میں ہوں‘ تم وہاں کراچی میں بیٹھے ہو‘ یہ کون سا طریقہ ہے شادی کی پیشکش دینے کا؟‘‘ للی میک نے کہا تھا۔
’’تو ٹھیک ہے تم یہاں آجائو‘ تب ہم اس کے بارے میں بہتر پلان کرسکتے ہیں۔‘‘ دامیان سوری نے کہا تھا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’مگر میں نے ابھی ہاں نہیں کہی‘ یہ پرپوزل صرف تمہاری طرف سے آیا ہے۔‘‘ للی میک نے یاد دلایا تھا۔
’’کب آرہی ہو؟‘‘ وہ جیسے جانتا تھا پر یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کرپائے گی‘ للی اس کے یقین پر حیران رہ گئی تھی۔
’’ہم اس پر بعد میں بات کرتے ہیں دامیان! لٹ می فنش سم بٹ اس اینڈ پیسز!‘‘ للی نے کہا تھا اور دامیان نے سر ہلاتے ہوئے فون کا سلسلہ منقطع کردیا تھا۔
’’تُو پاگل ہوگیا ہے دامیان! یہ کیا مذاق کررہا ہے تُو اپنی زندگی کے ساتھ؟‘‘ ایکسل نے دہائی دی تھی۔ دامیان سوری نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا تھا۔
…٭٭٭…​
اس شام معارج تغلق کی سمت سے ڈنر پرا نوائٹ کیے جانے کی آفر نے اسے حیران کردیا تھا کہاں وہ اس تعلق کو ختم کرنے کے اقدامات کررہا تھا اور کہاں اسے ڈنر پر انوائٹ کیا تھا۔ وہ جب ریسٹورنٹ پہنچی تھی تو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ خواب ناک ماحول میں پورے خالی ریسٹورنٹ میں وہ اکیلا ایک ٹیبل پر بیٹھا اس کا منتظر تھا۔
یہ التفات کی کون سی راہ تھی
کرم کرنے کا کون سا ڈھنگ تھا؟
نظر کرنے کی کون سی کوشش تھی؟
کیا وہ کوئی راہ بنا رہا تھا؟
اور وہ نگاہ اس کی جس طور منتظر تھی‘ اسے خوش گمانیوں میں مبتلا کرنے کو کافی تھی۔دل کس طرح دھڑک اٹھا تھا۔ جیسے دھڑکنے کا سبب ہی سامنے بیٹھا وہ شخص ہو‘ وہ اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتی ٹیبل تک آئی تھی۔ معارج تغلق نے اٹھ کر اس کے لیے چیئر کھینچی تھی۔ وہ اس پروٹو کول پر کچھ حیران ضرور ہوئی تھی۔
کینڈل کی روشنی اور آرکسٹرا کی دھن پر سارا ماحول خواب ناک ہورہا تھا۔
انائیا ملک نے اس کی سمت دیکھا تھا۔
وہ نگاہ جیسے کرم پر مائل تھی‘ بے طرح اپنے سنگ باندھ رہی تھی‘ چاروں سمت سے اپنی گرفت میں لے رہی تھی‘ انائیا ملک اپنی کیفیات پر حیران تھی۔یہ دل کیسی بغاوت کررہا تھا؟ کس راہ پر چل رہا تھا۔ کہ نفع نقصان تک بھول گیا تھا۔ نا احساس زیاں رہا تھا نا کوئی رائیگانی کا خدشہ۔
محبت اتنی نڈر کیسے ہوسکتی ہے؟ اتنی بے فکر کیسے کہ اپنی انا کا بھی خیال نہ رہے؟
یہ عقل و خرد کہاں جا سوئی تھی۔ کیسا خلل تھا دماغ کا کہ وہ سب فراموش کرنے پر مائل ہوگئی تھی۔ وہ سامنے بیٹھا شخص بے پروا تھا نا مہربان تھا اور اس کی آنکھیں کیسے خواب دیکھ رہی تھیں۔
’’تم ٹھیک ہو؟‘‘ وہ اسے کھویا کھویا دیکھ کر گویا ہوا تھا۔ وہ نگاہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔ اسے سطر سطر پڑھ رہی تھی‘ کیا وہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہورہا تھا؟
انائیا نے اس کی سمت نگاہ کی تھی۔
’’کیا ہوا؟ تم اتنی عجیب کیوں لگ رہی ہو؟ ہم پہلی بار ملے ہیں کیا؟ چہرے پر ایسی کیفیت کیوں ہے؟‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولا تھا۔
’’نہیں! میں… میں سوچ رہی تھی آپ نے یہاں کیوں بلایا؟‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔ وہ جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’جب تک ہم اس رشتے سے الگ نہ ہوجائیں تب تک نا تم ایک بات سے انکار کرسکتی ہو نا میں کہ ہم ہز بینڈ وائف ہیں اب اگر کوئی ضروری بات کرنا ہے تو میں اپنی وائف کو سڑک پر ملنے کو تو نہیں بلائوں گا نا؟‘‘ وہ اس رشتے کو ایکسپٹ کر رہا تھا یا صرف کوئی راہ و رسم نبھا رہا تھا۔
صرف مروت برت رہا تھا؟ یا پھر وہ اسے صرف یاد دلا رہا تھا کہ بہت جلد اس رشتے کو ختم ہوجانا ہے سو خواب دیکھنے کا سلسلہ ترک کردو؟ ’’اس نگاہ کو بے فکر چھوڑ دو اور دل کو دھڑکنے دو انائیا ملک۔ محبت ملنے نہیں آتی اگر نگاہ میں خوف ہو اگر محبت کو آباد کرنا ہے تو پھر ان آنکھوں کو خواب بننے دو۔ محبت اپنے خدشات کا سدباب خود کرتی ہے۔ اس کے لیے تمہیں فکروں میں گھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ معارج تغلق مدہم لہجے میں بولا تھا۔
وہ حیران تھی۔ معارج تغلق میں یکدم سے یہ بدلائو کیسے آیا تھا۔ ایک طرف وہ رشتا ختم کرنے کے در پے تھا اور دوسری طرف وہ راہ و رسم بڑھا رہا تھا۔ نوازشوں پر مائل تھا۔
’’مجھے ڈر لگتا ہے معارج تغلق۔ میں اپنے دل کو ایسے دھڑکنے نہیں دے سکتی۔ میں محتاط انداز میں قدم اٹھانے کی عادی ہوں۔‘‘ وہ بہت مدہم انداز میں بولی تھی۔
’’کبھی کبھی اتنا محتاط ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔ جتنے خدشے پالو ان کے واقع ہونے کا گمان اور اندیشہ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ بہتر ہے عقل اور دل دونوں کو تنہا چھوڑ دیا جائے سو پھر کوئی ڈر باقی نہ رہے گا۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔ اس کی نظریں انائیا ملک کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ نظروں کی حدت وہ صاف محسوس کر رہی تھی۔
وہ نگاہ اسے باندھنے کے جتن کر رہی تھی۔ وہ اس کی سمت دیکھنے سے کنی کترا رہی تھی شاید اسے ڈر تھا کہ اگر دیکھے گی تو پھر کوئی اختیار باقی نہیں رہے گا۔ وہ اس کا معمول بن جائے گی اور وہ اس پر پورے طور پر غلبہ پالے گا۔ یہی ڈر تھا کہ وہ نگاہ بھی نہیں ملا رہی تھی شاید وہ دنیا کی واحد لڑکی تھی جو محبت سے خوف زدہ تھی۔ ڈر رہی تھی دیکھنے سے‘ نگاہ کرنے سے گریزاں تھی۔
’’تم اپنے قدم اس طرف واپس لینے کی مت ٹھانو۔ ہوسکتا ہے واپسی کا راستا اور بھی کٹھن ہو۔ ایسے میں پچھتاوے کے علاوہ اور کیا راستا بچے گا؟‘‘ وہ اس کی کیفیت سے جیسے محظوظ ہو رہا تھا۔ انائیا ملک نے اسے اعتماد سے دیکھا تھا۔
’’میں یہاں آنے کا سبب معلوم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے سبب جاننا چاہا تھا۔ وہ مسکرا دیا تھا۔
’’تم مجھ سے دور جانے کے اتنے جتن کیوں کرتی ہو کہ میں تمہاری خواہشوں میں اور شامل ہوتا جاتا ہوں؟ تم گھبرا کر دیکھتی ہو تو مجھے اپنے ہر راستے پر پاتی ہو ایسا ہونا عجیب ہے کہ نہیں؟‘‘ وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
’’مجھے اچھا لگتا ہے جب تم الجھنوں میں گھر جاتی ہو۔ میرا دل چاہتا ہے تمہارے قریب آئوں۔ تمہیں سمجھائوں‘ سمیٹوں اور مکمل کردوں‘ تمہارا مجھ سے کنی کترانا‘ دور جانا میری شدتوں کو مزید بڑھاتا ہے۔ میری لگن دو چند ہوجاتی ہے اور میں تمہارے ہر راستے پر آن ٹھہرتا ہوں۔ اب بولو مجھے یہ بے قراری کون دیتا ہے؟ کون مائل کرتا ہے مجھے‘ کون میرا جنون بڑھاتا ہے؟‘‘ اس مدہم سرگوشی میں کوئی بات تھی اس کی گرفت اس کے ہاتھ پر عجیب مجنویانہ تھی۔ اس لمس میں شدت تھی بہت حدت تھی۔
وہ نگاہیں اس کے چہرے کو جھلسا دینے کے در پے تھیں۔ وہ پل کے پل میں اس کا معمول بن رہی تھی۔ بنا اس کی سمت دیکھے‘ بنا نگاہ ملائے وہ اس کے اختیارات کا حصہ بن رہی تھی۔ یہ دل کیا کر رہا تھا؟
’’معارج…!‘‘ اس نے بولنے کو لب کھولنا چاہے تھے۔ معارج تغلق نے اس کے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھ دی تھی۔ وہ اس حرکت پر ساکت رہ گئی تھی۔ یہ اتنی جنوں خیزی کہاں سے آگئی تھی اس میں؟ اس شخص کے اسلوب یکدم سے کیسے بدلے تھے؟
عشق سے کہہ دو ابھی بات نہ کرے
اس نگاہ کو ابھی جاگنے کی عادت نہیں ہے
عشق سے کہہ دو ابھی خواب نہ دے
ابھی ستاروں پر چلنے کی ہمت نہیں
ابھی جنوں بھی ہے نیا اور دل بھی کچھ طفل ہے
ہمیں اس آگ میں جلنے کی کچھ حاجت نہیں ہے
ابھی ہمیں اس عشق کی عادت نہیں ہے
عشق سے کہہ دو ابھی خواب نہ دے
عشق سے کہہ دو…!
یہ کس لہجے میں محبت بات کر رہی تھی۔ سارا ماحول ایک جادو میں بندھ رہا تھا۔ اس کی دھڑکن ٹھہر سی گئی تھی۔ کیسا اسم پھونکا تھا محبت نے۔ سارا ماحول جیسے اک نقطے پر منجمد ہوا تھا۔
معارج تغلق نے اس کی سمت ہاتھ بڑھایا تھا۔ وہ جو خاموشی میں ساکت سی اس کی سمت دیکھ رہی تھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے سے ایک پل کو انکار نہیں کرسکی تھی۔ کیا وہ واقعی اس کا معمول بن گئی تھی؟ یا پھر عشق سچ میں کوئی عامل تھا؟
وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے پوری توجہ سے دیکھنے لگا تھا۔
’’انائیا اپنے سارے خوف سمیٹ دو محبت اتنی بے رحم نہیں ہے؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اس کی کیفیت سے محظوظ ہوا تھا۔ انائیا نے اپنا ہاتھ یکدم اس کے ہاتھ سے کھینچا تھا جیسے وہ کسی خواب سے جاگنے کے جتن کرنے لگی تھی۔
’’مجھے جانا ہے۔‘‘ وہ اس کی سمت گریز کرنے سے بولی تھی۔
’’مگر میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی انائیا۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ اس نگاہ میں بے چینی تھی۔ اضطراب تھا۔ مگر انائیا ملک اس اضطراب کا مفہوم جاننے کو تیار نہیں تھی۔
’’انائیا میں چاہتا ہوں میرے ساتھ رہو۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک لجاجت تھی‘ درخواست تھی یا کوئی پیش کش۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔ مگر اس کے لفظوں نے اسے چونکا ضرور دیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو۔ میرا ساتھ دو راستے کے اختتام تک۔‘‘ اس مدہم لہجے میں کیا بھید تھا وہ جاننے کی سعی کر رہی تھی۔
’’مجھے تمہاری ضرورت ہے میں اکیلا شاید کچھ ادھورا ہوں۔ دو قدم ساتھ چلیں تو بہت سی مشکلات پار کرسکتے ہیں مجھے تمہارا ساتھ چاہیے۔ بولو ہم سفر بنو گی میری‘ ہم دم بنو گی؟ میرے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے‘ میری ہم نوائی کرو گی؟ مجھے رہنمائی درکار ہے۔ اس ہاتھ کی ضرورت ہے اس ساتھ کی ضرورت ہے بولو دو گی میرا ساتھ؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا اور انائیا ملک ساکت بیٹھی تھی۔ اس کی دھڑکنوں کی آواز اس کی اپنی سماعتوں میں بہت واضح آرہی تھی۔ دل جیسے کانوں میں دھڑکنے لگا تھا۔ یہ کون سے اسلوب اپنا رہا تھا وہ؟ کیوں جان مشکل میں کر رہا تھا؟ کیا
اسے خبر ہوگئی تھی کہ وہ اس کے بنا ادھوری ہے؟ انائیا اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ مگر جیسے اس پل وہ ان آنکھوں کو پڑھنے سے قاصر تھی۔ ان آنکھوں کے بھید انوکھے تھے اور وہ قطعی نا بلد تھی۔
’’انائیا ساتھ چلنا ہے تو کوئی اشارہ دو ایسے چپ رہو گی تو میں کیسے جان پائوں گا۔ میں سمندروں کے سفر میں بھٹکتے تھکنے لگا ہوں۔ مجھے کنارہ دو۔‘‘ ایک مدہم سرگوشی اس کی سماعتوں میں ہوئی تھی۔ معارج تغلق نے پورا استحقاق استعمال کر کے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کیا تھا اور اسے خود سے قریب کیا تھا۔
’’میں جانتا ہوں مجھے اختیار ہے میں ساری دنیا پل میں زیر زبر کرسکتا ہوں۔ اس دل کو دھڑکنے پر مائل کرسکتا ہوں اور ان دھڑکنوں کو اپنے ساتھ باندھ سکتا ہوں مجھے زمانوں پر اختیار ہے۔ وقت کو روک سکتا ہوں۔ اس نگاہ کو پڑھ سکتا ہوں اور مجھے یہ سارا اختیار اس لیے ہے کہ تم میرے وجود کا حصہ ہو۔ جو تعلق ہم میں ہے وہ خاص ہے۔ سارے ربط اس سے بنتے ہیں اور سارے سلسلے اس سے جڑتے ہیں۔‘‘ وہ اس کے کان کے قریب مدہم سرگوشی کر رہا تھا۔ اس کی گرم سانسوں کو وہ اپنے کانوں پر محسوس کر رہی تھی۔ اس کے ہونٹ اسے اس کے بالوں پر ہلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ جیسے ایک قیامت کے زیر تھی۔ یہ کیا ہو رہا تھا۔؟ کیا کر رہا تھا وہ؟ کیوں کر رہا تھا ایسا؟ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔ تبھی بہت سہولت سے اس کی گرفت سے باہر نکلنا چاہا تھا۔ مگر معارج تغلق نے اس کی سعی ناکام بنا دی تھی۔ وہ اس وقت سہمی ہوئی ہرنی کی طرح اس کی گرفت میں تھی۔ سانس تک لینا محال ہو رہا تھا۔
’’مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی معارج مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘ وہ ہارے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔
’’کچھ مت سوچو خرد سے کہہ دو ابھی کوئی واسطہ نہ رکھے دل کو سمجھائو شور نہ کرے۔ بس اتنا یاد رکھو ہمیں ساتھ چلنا ہے۔ راستے کے اختتام تک۔‘‘ وہ اپنی رو میں بولا تھا۔انائیا ملک ایک جھٹکے سے اس کی گرفت سے نکلی تھی اور اسے بھیگتی آنکھوں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’راستے کے اختتام تک۔ اور اس راستے کا اختتام کہاں ہوتا ہے؟ کتنی دور جاتا ہے یہ راستا کیوں کر رہے ہو تم میرے ساتھ ایسا کیوں…؟ کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا؟ کیوں چین نہیں لینے دیتے؟ تم اصل مدعے پر کیوں نہیں آتے بتاتے کیوں نہیں کہ چاہتے کیا ہو؟ تمہیں میری ضرورت ہے کیوں؟ اس لیے کہ تمہاری بہن کی خواہش ہے کہ ہم اس کی برتھ ڈے پر ساتھ شرکت کریں۔ تم دوسروں کی خوشیوں کے لیے کیوں مجھے اذیتیں دیتے ہو؟ کتنے خود غرض ہو تم تمہیں صرف اپنا فائدہ درکار ہوتا ہے اب بھی یہ سب ڈراما کر رہے ہو‘ نوازشوں پر مائل دکھائی دے رہے ہو کیونکہ تمہاری بہن کو خوش کرنے کے لیے تمہیں میری ضرورت ہے۔ میری خواہشوں کا کیا۔ میری خوشیوں کا کیا؟ ڈمی ہوں میں‘ اس سینے میں دل نہیں دھڑکتا۔ سانس نہیں لیتی میں یا درد نہیں ہوتا مجھے؟ کیوں کھیل کھیلتے رہتے ہو میرے ساتھ؟ کیوں ایک بے جان وجود سمجھ لیا ہے تم نے مجھے جس پر تم جب چاہو اپنی مرضی تھوپ سکتے ہو۔ یہ پوچھے یا جانے بنا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ تمہیں کوئی فکر نہیں میری دنیا جہاں کی فکر ہے سب کا خیال ہے اور میں؟‘‘ وہ روہانسی ہوگئی تھی۔ گلے میں کانٹے سے اگ آئے تھے۔ کوئی پھندا سا پڑ گیا تھا۔ معارج تغلق نے اے تھاما تھا مگر اس نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے تھے۔
’’پلیز کھیلنا بند کردو میرے ساتھ۔ سانس لیتی ہوں میں درد ہوتا ہے مجھے‘ یہاں اس دل میں جس کی دھڑکنوں کو تم سننے کا دعویٰ کرتے ہو اور جس دل کو تم اپنے اختیار میں باندھنے کے جتن کرتے ہو اس دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے اگر تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے تو صاف کہو۔ سیدھے لفظوں میں بولو۔ تم راستے کے اختتام تک میرا ساتھ چاہتے ہو اور مجھے لگتا ہے ہمارے درمیان کبھی کوئی سلسلہ رہا ہی نہیں۔ تم اس دل کو کبھی سن نہیں سکے۔ ہمارے قدموں میں جیسے کبھی کوئی راستا پڑا ہی نہیں۔ میں مدد کرنے سے ہچکچائوں گی نہیں مگر میرے دل کو اپنا تختۂ مشق مت بنائو۔ جو بساط دل پر بچھائی جاتی ہے اس کی ہار جیت کے کھیل کھیلے جاتے ہیں شہ اور مات کے ڈرامے ہوتے ہیں۔ مجھے اس کھیل سے الگ کردو معارج تغلق پھر میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہیں کھیلنا ہے تو فیئر گیم کھیلو۔‘‘ وہ بھیکتی آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ معارج تغلق نے اسے بہت سکون سے سنا تھا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اسے شانوں سے تھاما تھا اور خود سے قریب کیا تھا۔ پھر پوری توجہ سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے گویا ہوا تھا۔
’’میں اتنا ظالم بھی نہیں ہوں انائیا ملک شاید کہیں کچھ ہے جو سمجھ نہیں آرہا اور کہیں کچھ ہے جو بہت الجھا ہوا ہے۔ شاید وقت ان درزوں میں جمی کائی کو ہٹا سکے اور تمہیں کچھ سمجھا سکے شاید مجھے کہنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ اینی وے…!‘‘ ایک سرد سانس نے پورے ماحول میں سکوت سا بھر دیا تھا۔
’’مجھے تمہاری سچ میں ضرورت ہے ایشاع کے لیے اور…!‘‘
’’اور…؟‘‘ وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی تھی۔ وہ کچھ لمحوں کو خاموش رہی تھی اسے خاموشی سے دیکھتی رہی تھی۔ وہ نگاہ جو سارے اختیار رکھتی تھی اس لمحے بہت بے چینی لیے ہوئے تھی۔ انائیا اور بھی الجھ گئی تھی۔
’’اور بس۔‘‘ معارج تغلق کا لہجہ سرد تھا۔ کیا اس نے انائیا کو صرف یہی کہنے کے لیے بلایا تھا یا اس سے ہٹ کر کوئی معاملہ اور بھی تھا؟ وہ کھیل کھیل رہا تھا یا واقعی معاملہ دل کا بھی تھا۔ وہ شخص الجھائو میں الجھا رہا تھا یا اس کی ساری خرد ہی سلب ہوگئی تھی۔ وہ کیوں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
’’بس؟‘‘ انائیا نے زیر لب دہرایا تھا۔
’’ہوں‘ بس۔‘‘ معارج تغلق نے اس کے شانوں کو اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کیا تھا۔ اس کی سمت سے نگاہ پھیری تھی اور پھر چلتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا۔ انائیا خاموش کھڑی اسے جاتا
دیکھتی رہ گئی تھی۔
اس شام محبت خاموش تھی دور کسی کونے میں کھڑی انہیں ساکت سی دیکھ رہی تھی۔
…٭٭٭…​
اناہیتا بیگ ایکسل سے کسی کام کے سلسلے میں ملنے آئی تھی۔ جب وہاں سامنا دامیان سوری سے ہوگیا تھا۔ وہ راہ داری میں اپنے دھیان میں چلتی ہوئی اس سے بری طرح ٹکرائی تھی۔ لڑ کھڑا کر گرنے کو تھی جب دامیان سوری نے اسے تھام لیا تھا۔ وہ سنبھلتے ہوئے اسے دیکھنے لگی تھی۔ نگاہ ملی تھی مگر پل میں اجنبی بن گئی تھی۔ اناہیتا بیگ اسے الجھے ہوئے انداز میں دیکھنے لگی تھی۔ جیسے اسے حیرانی تھی اس کے یکدم بدلنے پر یا پھر وہ اس کے تیور سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’تم یہاں کیسے؟‘‘ درمیان میں شاید بہت خاموشی تھی جسے توڑنے کو وہ بولی تھی۔
’’اگر مجھے خبر ہوتی کہ تم یہاں آنے والی ہو تو میں یہاں نہیں آتا۔‘‘ وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔ اناہیتا بیگ اس کے انداز پر حیران رہ گئی تھی۔
’’تمہیں حیرت کس بات پر ہو رہی ہے اناہیتا بیگ؟ میں نے نظریں پھیر لیں ہیں یا راستے بدل لیے ہیں؟ تمہیں اچھا لگتا تھا نا جب میں تمہارے پیچھے آتا تھا۔ مگر تھک گیا میں یک طرفہ راستے پر چلتے ہوئے۔ تھک گیا میں بے سمت مسافتوں کے سفر سے۔ جہاں میرا تم سے کوئی ربط نہیں بن پا رہا تھا اور جہاں تم سے مجھ سے کوئی واسطہ بھی نہیں تھا۔ اوب گیا میں اس محبت سے۔ تم نے محبت سے منحرف کردیا مجھے اور دیکھو اب میں تم سے بھی انحراف کر رہا ہوں۔ تمہارا ہونا نا ہونا اب میرے لیے معنی نہیں رکھتا تھک گیا میں اس دائرے میں گول گول گھومتے ہوئے۔ تمہارے ہاتھ کو تھامنے کی سعی کرتے ہوئے تم نے مجھ سے دوری پر نکلنے کی چاہ میں مجھے خود سے منحرف کردیا اور بھی دور پھینک دیا۔ اب تمہیں مجھ سے کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیے۔ نا کوئی واسطہ۔‘‘ وہ اجنبی لہجے میں کہہ رہا تھا۔ انائیا بیگ کو اپنے اندر جانے کیوں کسی تکلیف کا احساس ہوا تھا۔ یہ احساس کس بات کا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ مجھے اس طرح ٹریٹ کیوں کر رہے ہو دامیان سوری؟ میں نے کیا غلط کیا ہے تمہارے ساتھ۔ میں نے کہا تھا یہ ڈرامے بازی کرو؟ محبت تو تمہیں اس للّی سے تھی نا پھر اس کے لیے میرا استعمال کیوں کیا ہمیشہ میری انسلٹ کیوں کی؟ میں تو حیران ہوں کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی میں ہمیشہ تمہارا نشانہ کیوں بنتی رہی۔ کیوں اپنی انسلٹ کرواتی رہی؟ مجھے تمہارا قتل کردینا چاہیے تھا۔ تمہارا سر پھوڑ دینا چاہیے تھا؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی۔
’’تو اب کرلو ابھی بھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے مگر تمہیں کیوں جلن ہوتی ہے اگر میں للّی سے محبت کرتا ہوں کیوں حسد محسوس کرتی ہو تم؟ یہ جو کہانی تمہارے چہرے پر لکھی ہے نا کبھی آئینے میں اسے پڑھنے کی بھی کوشش کرو کبھی کبھی بہت سی باتیں وقت پڑنے پر سمجھ میں نہیں آتیں۔ مگر بعد میں سب عقل میں آجاتا ہے۔ نقصان کتنا‘ کس قدر اور کس نوعیت کا ہے اس کا احساس طوفان کے گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا تمہیں فی الحال احتمال ہو یا تم ہار جیت کے چکروں میں پڑو۔‘‘ دامیان سوری اس چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ اناہیتا جامد نظروں سے اس کی سمت دیکھ رہی تھی۔
’’تمہیں فرق پڑتا ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔ ’’تمہیں اس بات سے شاید کوئی واسطہ یا سروکار نہیں کچھ لوگوں میں یہ حسیات نہیں ہوتیں۔ تم لکی لوگوں میں شمار ہوتی ہو۔ ان باتوں کو لے کر بحث کرنا فضول ہے۔ جب سب لا حاصل ہے تو پھر یہ بات بھی کیوں ہو؟‘‘ وہ مدہم لہجے میں بولا تھا۔ انداز میں تھکن تھی۔
اناہیتا بیگ کا دل جیسے کوئی مٹھی میں لینے لگا تھا۔
’’تم ایسے کیوں ہو رہے ہو کیوں کر رہے ہو ایسی الجھی باتیں؟‘‘
’’تم سلجھی بات سننا چاہتی ہو؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔ ’’مجھے لگا تم اتنی سمجھ دار ہو کہ الجھائو کو سلجھا سکتی ہو مگر کچھ گتھیاں شاید سلجھنے کے لیے نہیں ہوتیں۔ تم میری توقع سے زیادہ بے وقوف ہو یا پھر تمہیں اپنے نقصان کی واقعی پروا نہیں۔‘‘
’’تم ایسے مجھے الزام کیسے دے سکتے ہو میں نے کیا غلط کیا ہے تمہارے ساتھ؟ یہ سب کیوں سننا پڑ رہا ہے مجھے؟ صرف اس لیے کہ میں تمہاری دوست تھی؟‘‘ وہ الجھ کر بولی تھی۔
’’تم میری دوست کبھی نہیں تھیں۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تھا۔
’’اگر تم میری دوست ہوتیں تو آج یہ سب کچھ اتنا اجنبی نہیں ہوتا۔ تم نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سمیٹ کر انبار لگا دیا اناہیتا بیگ۔ اس انبار سے پرے کا منظر دکھائی نہیں پڑ رہا۔ تمہیں نہ میں دکھائی دے رہا ہوں نا خود اپنا آپ میرے وجود سے انکاری ہوتے ہوئے تم خود اپنی بھی نفی کرنے لگی ہو۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اگر یہ خواب ہے تو میں چاہوں گا تم اس خواب سے کبھی مت جاگو۔ تمہیں اس نقصان کا احتمال کبھی نہ ہو۔ تمہیں کبھی نہ پتا چلے کہ تم نے کیا گنوایا ہے۔‘‘ وہ اس کے چہرے کو آہستگی سے نرمی سے چھوتے ہوئے بولا تھا۔ اناہیتا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔
’’تم پاگل آدمی ہو دامیان سوری۔ تم کسی کا بھی جینا دوبھر کرسکتے ہو۔‘‘ وہ افسوس سے بولی تھی۔
’’کبھی میں پاگل تھا اناہیتا مگر اب یہ دل تمہارا بیمار نہیں رہا۔ میں خواب سے جاگ گیا ہوں لا حاصل اور حاصل کی کہانی سمجھ میں آگئی ہے میری۔سود و زیاں کی بات اب عقل میں آنے لگی ہے

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
میری تبھی راہ بدلنے کی ٹھانی ہے اور میرا خیال ہے یہی اس وقت کا بہتر فیصلہ ہے۔ شاید تمہیں میرے اس فیصلے سے کوئی فرق بھی نہ پڑتا ہو۔ آئی ہوپ تمہیں کوئی ملال کبھی نہ ستائے۔ میں للّی سے شادی کر رہا ہوں۔ وہ جلد یہاں آرہی ہے اور ہم انگیجمنٹ کر رہے ہیں۔ ایک اچھی دوست ہونے کی دعویٰ دار ہو تم مجھے امید ہے تم میری خوشیوں میں شریک ہونے کو آسکو گی۔‘‘ دامیان سوری نے اس کے سر پر جیسے بم پھوڑا تھا۔ وہ ساکت سی اسے دیکھنے لگی تھی۔ تو معاملہ یہ تھا۔
وہ واقعی للّی سے محبت کرتا تھا تو اس نے دل کیوں ہار دیا۔
کیوں گنوا دیا اپنی انا کا غرور‘ کیوں وہ اس کے پیچھے آتا رہا اور اس کی توجہ پانے کے جتن کرتا رہا یہی کرنا تھا تو پھر وہ سب کیوں کیا؟
’’تم…؟‘‘ وہ بولنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے بھی بولی تھی۔ دامیان سوری نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے باز رکھا تھا۔ چند لمحوں تک اس چہرے اس کے خدوخال کو دیکھا تھا۔ اس نگاہ کو دیکھا تھا اور پھر ایک پل میں ہی اجنبی بن کر مڑا تھا اور چلتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا۔ اناہیتا بیگ حیرت سے اسے جاتا دیکھتی رہی تھی۔
…٭٭٭…​
ساری رات آنکھوں میں گزری تھی۔ وہ پل بھر کو بھی سو نہیں سکی تھی۔ سارا ملال اسے ہی کیوں تھا۔ یہ رت جگی اس کے حصے میں ہی کیوں آئی تھی۔ یہ لو اسے ہی کیوں لگی تھی؟ اس لگن نے اسے کیوں نہیں چھوا تھا؟ صرف اسے یہ زیاں کیوں ہوا تھا۔ اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ کچھ حدت کا احساس بھی ہوا تھا۔ شاید اسے بخار تھا مگر وہ پروا نہ کرتے ہوئے بستر سے نکل آئی تھی۔ معمول کے مطابق تیار ہو کر آفس آگئی تھی۔ کس بات کا قلق تھا اس کی عقل تک کام نہیں کر رہی تھی۔ دماغ جیسے منجمد ہوگیا تھا۔ سارہ نے اس کی کیفیت کے پیش نظر ایک ہونے والی اہم میٹنگ کو ملتوی کردیا تھا۔ وہ گھر جانے کے ارادے سے اٹھ رہی تھی جب سدرہ تغلق کا فون آگیا تھا۔
’’انائیا بیٹا کہاں ہو؟ اگر کچھ وقت ہے تو یہاں کا چکر لگا لو۔ گھر میں کچھ مہمان آئے ہیں۔ معارج تغلق کے ددھیال میں سے وہ معارج کی شادی میں شرکت نہیں کر پائے تھے۔ اب اس کی دلہن کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے مدعا بیان کیا گیا تھاانائیا کے لیے انکار کرنا ممکن نہیں ہوا تھا۔ تبھی وہ تغلق محل میں آگئی تھی۔ ممی اس کا ہاتھ تھام کر اسے کمرے میں لے گئیں تھیں۔ اس کے جسم کی حرارت سے گھبرا کر اسے دیکھا تھا۔
’’انائیا بیٹا تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔ تم نے منع کردیا ہوتا نا۔‘‘ سدرہ تغلق کے کہنے پر وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی تھی۔
’’میں تمہیں یہاں اس لیے لائی تھی کہ تمہیں ڈھنگ سے تیار کرسکوں پہلی بار ان کے سامنے جا رہی ہو۔ اس گھر کی بہو ہو اس طرح مناسب نہیں لگتا مگر اب کیسے؟ اس حالت میں تو یہ ٹھیک نہیں‘ رکو میں رستم سے کہہ کر انہیں منع کروا دیتی ہوں کہ میری بہو کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘ ممی نے فون اٹھایا تھا۔ انائیا نے ان کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
’’اٹس اوکے ممی‘ میں ٹھیک ہوں۔ میں تیار ہوجاتی ہوں۔ آپ پریشان نہ ہوں؟‘‘ وہ نرمی سے بولی تھی۔ سدرہ نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا تھا پھر اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
’’میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے ایسی بہو ملی جو میری بیٹی جیسی ہے۔ میں ملازمہ کو ڈریس اور جیولری دے کر بجھواتی ہوں تم تیار ہو کر نیچے آجائو۔‘‘ سدرہ تغلق کہہ کر اٹھی تھیں اور چلتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھیں۔
انائیا ملک چلتی ہوئی آئینے کے سامنے آن رکی تھی۔ اپنے چہرے کو دیکھا تھا۔ خدوخال کو دیکھا تھا سب پرایا لگا تھا۔ محبت اتنا بدل دیتی ہے اتنے تغئرات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے؟ انائیا ملک کو وقت اپنے چہرے پر رکا ہوا لگا تھا۔ سارے لمحے جیسے وہیں ٹھہر گئے تھے۔
’’اے محبت۔
تیرے انجام پر رونا آیا۔‘‘ اس کے لب بہت ہولے سے ہلے تھے۔ تیز بخار میں پھنکتے وجود کے ساتھ وہ تیار ہونے لگی تھی۔
’’میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو میرا ساتھ دو راستے کے اختتام تک۔‘ کوئی اس کی سماعتوں میں بول رہا تھا۔
’’مجھے تمہاری ضرورت ہے میں اکیلا کچھ ادھورا ہوں۔ مجھے تمہارا ساتھ چاہیے۔ بولو ہم سفر بنو گی میری؟ میرے ساتھ چلنے کے لیے میری ہمنوائی کرو گی مجھے راہ نمائی درکار ہے اس ہاتھ کی ضرورت ہے۔‘‘ چوڑیاں پہنتے ہوئے کئی چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی کلائی اور ہاتھ میں کھب گئی تھیں۔
’’بولو! دو گی میرا ساتھ؟‘‘ اس کی سماعتوں میں شور تھا مسلسل۔
(ان شاء اللہ باقی آئندہ ماہ)
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
زندگی کی حسین رہ گزر… سمیرا شریف طور
اس کے پائوں کی پٹی اتر چکی تھی۔ پائوں کی مالش جاری تھی۔ ابھی ڈاکٹر صاحب نے پائوں پر بوجھ ڈالنے سے منع کیا تھا سو وہ ابھی تک بستر پر تھی۔ وہ کتاب لیے منہمک سی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
’’آجائو بھئی…‘‘ اس کا خیال تھا کہ صبا ہوگی‘ اسے اپنے گھر میں چین نہیں پڑرہا تھا آج کل مگر عمر کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر اس کا منہ بن گیا۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ایک منٹ بھی سامنے نہ ٹھہرتی اس نے خاصی بے چارگی سے اپنے پائوں کو دیکھا‘ جسے مالش کرکے امی نے کچھ دیر قبل کپڑے میں لپیٹا تھا۔
’’سلام مسنون… مزاج بخیر…!‘‘ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔
’’بخیر… بخیر…‘‘ منہ بنا کر اس نے کہا تو وہ ہنس دیا۔ عیادت کرنے والوں کے لیے رکھی کرسی گھسیٹ کر وہ بیٹھ گیاتھا۔
’’حساب چکانے میں تو تمہارا کوئی ثانی نہیں۔ کسی اور معاملے میں بھی یہ روایت برقرار رکھ لیا کرو۔‘‘
’’مثلاً…؟‘‘ اب وہ نازل ہوہی چکا تھا تو بھگتے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ کتاب بند کرکے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
’’مثلاً یہ کہ کبھی محبت کا جواب محبت سے بھی دے لیا کرو۔‘‘ اس نے غصے سے گھورا۔
’’امی اور آمنہ باہر نہیں تھیں کیا؟‘‘ دوسرے معنوں میں اس کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔
’’کوئی خاتون آئی بیٹھی ہیں ایک دو رشتے لے کر آمنہ ان کی خاطر تواضع کررہی ہے جب کہ فوزیہ پاس بیٹھی سن رہی ہے۔‘‘
’’اچھا…‘‘ رشتے کا سن کر وہ ایک دم پُرجوش ہوئی۔
’’کیسے رشتے لے کر آئی ہیں؟‘‘
’’ماشاء اللہ! تم لڑکیاں صرف رشتوں کا سن کر ہی خوش ہوجاتی ہو۔ کوئی مطلب کی بات کرو تو سر سے ہی گزر جاتی ہے۔‘‘
’’مائنڈ یو… یہ صرف ہم لڑکیوں کاہی خاصہ نہیں جہاں ایک دو لڑکیاں کھڑی دیکھ لیں ‘ آپ مردوں کی بھی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ کوئی گھاس ڈالے یا نہ ڈالے لسوڑے کی طرح لیس ہوجانا فرض سمجھتے ہیں۔‘‘ لڑاکا عورتوں کی طرح اس نے فوراً حساب بے باق کیا تھا۔
’’تو پھر مانتی ہونا کہ کچھ نہ کچھ ذہنی مطابقت پائی جاتی ہے ہم دونوں میں۔‘‘ وہ چڑانے سے باز نہ آیا تھا۔
’’ہونہہ…!‘‘ اس نے سر جھٹکا۔
’’زیادہ نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ رشتے والی ایک نہیں پورے دو رشتے لے کر آئی ہے۔ کہیں نا کہیں تمہارا بھی کام بن جائے گا۔‘‘
’’میں کبھی خو د سے نا امید نہیں ہوئی۔ جہاں بھی ہوگا بہت بہتر اور پرفیکٹ ہوگا۔‘‘ اس کے تیور ہنوز بگڑے ہوئے تھے۔ عمر نے اس کے چہرے کی سرخی دیکھی۔
’’تمہارے ان خیالات کو کیا سمجھوں؟‘‘ اچانک بے چین سا ہوکر پہلو بدلا۔
’’سمجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو نظر آرہا ہے وہ کافی نہیں ہے۔‘‘ وہ مطمئن اور پُر اعتماد تھی۔
’’تمہیں پتا ہے میں تمہارے معاملے میں بہت سیریس اور سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ اس نے عمر کو براہ راست دیکھا۔
’’مریم! سیدھی سادی زندگی چل رہی ہے اس کو کیوں الجھا رہی ہو؟‘‘
’’میں اس سلسلے میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی‘ آپ براہ مہربانی چلے جائیں‘‘ دو ٹوک انداز تھا‘ عمر نے بہت غصے سے اسے دیکھا۔
’’میں تم سے کوئی فلرٹ یا ٹائم پاس نہیں کررہا‘ سیدھا راستہ اختیار کیا تھا۔ اپنے بڑوں کے ذریعے بات پہنچائی تھی‘ میں تھروآئوٹ پراپر چینل سے تم تک آنا چاہتا تھا‘ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور بات ہے مگر میں نے قطعی کبھی تمہارے احساسات کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ دانستہ یا نا دانستہ بہر صورت دونوں حالات میں ‘ میں نے پوری کوشش کی کہ تمہارا احترام مجروح نہ ہو۔‘‘ مریم اس کے انداز گفتگو سے ایک دم سٹپٹا سی گئی تھی۔ اس طرح براہِ راست اس نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا اور اب بوکھلا گئی تھی کہ کس طرح اس صورت حال سے باہر نکلے۔
’’تم نے ردا سے جو ساری بکواس کی وہ ایک طرف‘ میں تم پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں تم سے کوئی اظہار یا اقرار نہیں چاہ رہا‘ تم چچی جان کی بے جا ضد اور انا کی وجہ سے جو جذباتی فیصلہ کرنا چاہ رہی ہو‘ اس کی وضاحت کررہا ہوں کہ احمقوں کی طرح اگر ایک ہی بات پر ڈٹی رہو گی تو نقصان سراسر تمہارا ہی ہوگا۔ سمجھیں…!‘‘ وہ غصے سے کہہ کر اس پر ایک غصیلی نگاہ ڈال کر کمرے سے نکل گیا تھا اور مریم وہ حیرت سے اس کا یہ غصیلا روپ دیکھ رہی تھی۔
اس کا پائوں ٹھیک ہوچکا تھا وہ پہلے کی طرح اب پھر بلی کی طرح ادھر سے اُدھر گھومنا شروع ہوچکی تھی۔ صبا کی وجہ سے وہ اب دیوار تو نہیں پھلانگ رہی تھی البتہ دن میں ایک چکر اُدھر کا ضرور لگاتی تھی۔
اس وقت بھی دونوں چھت پر بیٹھی اپنا مشن خاص سر انجام دے رہی تھیں۔ صبا کے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ بڑی غمزدہ شکل بنائے مصنوعی آنسو بہاتے مکمل طور پر افسردہ تھی۔
’’ہائے کیا بتائوں آپ کو‘ کتنی مشکل سے آپ کا نمبر لیا ہے‘ میری تو زندگی برباد ہوگئی۔ وہ شخص اور اس کی ساری فیملی ہی ایسی ہے‘ دھوکے باز فریبی لوگ۔ نت نئے لوگوں سے اور خوب صورت امیر لڑکیوں سے رشتہ جوڑنا تو ان کا پرانا مشغلہ ہے‘ میرے علاوہ بھی کئی لڑکیاں ہیں جو یہ سب جھیل چکی ہیں۔‘‘ مریم نے وکٹری کا نشان بناکر اسے سراہا‘ اس کی اداکاری کمال کی تھی۔آواز بدل کر وہ بالکل مختلف ٹون میں مخاطب تھی۔
’’ارے پوچھیے مت ان کی والدہ کس قسم کی عورت ہیں‘ دولت کے علاوہ توکچھ نظر نہیں آتا۔ مجھے دیکھا تو خوش ہوگئیں اور مجھ سے بہتر ملی تو مجھے بے عزت کرکے اسے اپنالیا۔ جھوٹ کیوں بولوں کئی لڑکیوں اور خاندان والوں کو ریجیکٹ کرکے آپ کو چُنا ہے‘ میں نے سنا ہے آج کل آپ سے بہتر فیملی مل گئی ہے انہیں۔‘‘
’’میں کیسے یقین کرلوں کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہیں؟ بھلا کیا مقصد ہے آپ کا مجھے یہ معلومات فراہم کرنے کا؟‘‘
’’بھئی واقعی میرا بھلا کیامقصد ہوگا مگر سچی بات تو یہی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ میری طرح اب کوئی اور لڑکی برباد ہو۔ میں اپنا بدلہ لینا چاہتی ہوں اس عورت کو احساس دلا کر وہ کتنی مفاد پرست لالچی اور خود غرض ہے اور اس کا وہ بیٹا وہ ماں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ اپنے آفیسرز کی بیٹیاں پھنساتا ہے۔ تبھی تو کبھی تم سے یا کسی سے رابطہ نہیں کرتا۔ ماں بہانے بناتی رہتی ہے کہ میرا بیٹا شرمیلا ہے‘ شریف ہے۔ اصل میں وہ کسی کو پسند کرنے لگا ہے وہ تم سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ورنہ جس طرح تم سے منگنی کو ایک سال ہوچکا ہے وہ رابطہ تو کرتا کوئی رسپانس دیتا۔‘‘
’’مائی گاڈ! ایسی سچویشن ہے دوسری طرف۔‘‘
’’تو اور کیا اس سے بھی خراب ترین حالات ہیں۔ پھر آپ نے اپنی مرضی کرنی ہے۔ میرا فرض تھا حالات سے آگاہ کرنا میں نے بتادیا۔ اگر میری باتوں کا یقین نہیں آتا تو اپنی خالہ کے گھر آکر چند دن رہ کر دیکھ لیں۔ سب واضح ہوجائے گا۔‘‘ وہ آخر میں اسے سوچنے کا موقع دینے کو جتا کر بولی۔
’’اگر ایسی بات ہے تو میں کل ہی چکر لگاتی ہوں کرشمہ عام لڑکی نہیں ہے جسے وہ دھوکا دے لیں۔ اتنا بڑا جھوٹ اتنا بڑا فراڈ میری مام تو بہن کی محبت میں پاگل ہوگئی ہیں انہیں کچھ کہوں گی تو وہ کہیں گی مجھے کسی نے ورغلایا ہے۔‘‘ اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے مریم بھی سب سن رہی تھی‘ مسکرادی۔
’’مجھے دھوکا دینا اتنا آسان نہیں۔ میں وہاں پہنچ کر آپ کو اطلاع کردوں گی۔‘‘
’’اوکے ‘ اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ…!‘‘ صبا نے موبائل بند کرکے ایک گہرا سانس لیا۔
آواز بدل کر ٹون چینج کرکے بولنا واقعی بڑا مشکل کام تھا۔ اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔
’’زبردست! اس کا مطلب ہے ہمارا پلان کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اب تم نے یہ کرنا ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کو پمپ کرنا ہے۔ کرشمہ کی وہ خامیاں بھی اٹھتے بیٹھتے گنوانی ہیں جو اس میں نہیں ہوں گی اور جب کرشمہ ادھر آئے گی تو تم نے بی جمالو کا کردار اداکرکے اپنی ماں اور اس کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دینا بلکہ صورت حال ایسی پیدا کردینی ہے کہ تمہاری والدہ صاحبہ خود بخود اس کی عادات و اطوار سے بدظن ہوجائیں۔ رہ گئی کرشمہ بی بی اس کی بھی برین واشنگ خاصی ہوچکی ہے یقینا اب وہ ساری حرکات سر انجام دے گی جو تمہای والدہ حضور کو سخت ناپسند ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے اب ساری حقیقت دونوں پارٹنر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی تو پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔‘‘ اس نے نقشہ کھینچتے آخر میںہاتھ جھاڑے۔
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ ویسے اتنے دنوں سے فرضی ماریہ بن کر یہ جھوٹ بولنا بڑا مشکل کام رہا ہے‘ اپنے نامہ اعمال میں اتنے گناہ پہلے کبھی نہیں لکھوائے۔‘‘ صبا کی بات پر وہ ہنس دی۔
’’کوئی بات نہیں۔ اللہ معاف کردے گا‘ ویسے تم نے ان چند دنوں میں اپنی والدہ ماجدہ کی جو خوبیاں بیان کی ہیں اسے سن کر دل خوش ہوگیا ہے۔ یار تم اپنی والدہ کو کتنی اچھی طرح سمجھتی ہو۔‘‘ آخر میں شرارت سے چھیڑا تو صبا نے گھور کر اسے تھپڑ کھینچ مارا۔
’’بکو مت!‘‘
’’چلتی ہوں‘ امی کو شک ہوگیا کہ میں اس وقت اپنے کمرے میں نہیں تو وہ ہر وقت ادھر آنے کے جرم میں الٹا لٹکا دیں گی‘‘ وہ جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’کل ردا کی منگنی پر چل رہی ہو؟‘‘ مریم نے بھی اٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ظاہر ہے امی ابو جی جارہے ہیں تو میں بھی جائوں گی‘ اور تم؟ ویسے بڑی زیادتی کررہی ہو تم‘ ردا بہت ناراض ہورہی تھی کہ تم اس کی کزن ہی نہیں عزیز از جان دوست بھی تھیں اب اس کی زندگی کے
اتنے اہم موقعے پر بالکل غیروں والا رویہ اختیار کررکھا ہے تم نے۔ آمنہ اور فوزیہ تو جائیں گی نا؟‘‘
’’ہوں وہ وقار کے ساتھ کل ہی چلی گئی ہیں۔ میں صبح امی جی کے ساتھ ہی جائوں گی‘ کل آمنہ کا آخری پیپر تھا‘دے کر آتے ہی وہ تایا ابو کے ہاں فوزیہ کو لے کر روانہ ہوگئی تھی۔ نجانے اتنے دن کیسے رکی ہوئی تھی۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
صبا نے اسے دیکھا کچھ کہنا چاہا مگر پھر کبھی پر ٹال کر سر جھٹک گئی۔
’’اچھی بات ہے پھر صبح میں تمہارے ساتھ ہی چلی جائوں گی۔ امی جی اور ابو لوگ خود ہی بعد میں آجائیں گے۔‘‘ اس نے فوراً پلان کیا تھا تو مریم نے اس کے فیصلے پر صاد کرتے گردن ہلادی تھی۔
…٭٭٭…
اگلے دن وہ دونوں صبح ہی آگئی تھیں ردا اس سے بہت سخت خفا تھی۔ اسے منتیں کرنا پڑیں تو تب کہیں جاکر وہ مانی مگر موڈ پھربھی آف رکھا۔
تایا نے خاصا انتظام کر ڈالا تھا۔ اسلام آباد سے رمشا باجی اپنی ساس اور نند کے ساتھ کل ہی آگئی تھیں۔ ردا کے ماموں اور خالہ کی فیملی بھی آچکی تھی‘ اس کے علاوہ ان دونوں کی مشترکہ پھوپیاں بھی آگئی تھیں۔ تایا کے گھر میں خاصی رونق تھی۔ کھانے پینے کا انتظام ریڈی میڈ تھا۔ تین بجے کے قریب لڑکے والے بھی پہنچ گئے تھے۔ مریم کو وہ فیملی اچھی خاصی لگی۔
ردا دلہن بن کر بہت جچ رہی تھی۔ رسم کے بعد کھانے کا دور چلا تھا‘ یہ ہنگامہ شام تک جاری رہا تھا۔ چونکہ ردا کے سسرال والے دور سے آئے تھے‘ سو رات نو بجے کے قریب رخت سفر باندھا تھا‘ اپنی گاڑیاں تھیں سو تایا لوگوں کے رات رک جانے کے مشورے کو ٹال گئے تھے اور ان لوگوں کے رخصت ہوتے ہی باقی رشتہ دار بھی جانا شروع ہوگئے تھے۔
صبا کی والدہ اور والد چلے گئے تھے جب کہ صبا کو ردا نے زبردستی روک لیا تھا ادھر سے یہ تینوں ہی رک گئی تھیں جب کہ وقار امی اور ابو چلے گئے تھے۔ مریم نے کئی بار جانا چاہا تھا مگر ردا کی دھمکیوں باقی لوگوں کے اصرار کے آگے اس کی ایک نہ چلی تھی۔
اور اس وقت وہ سب ردا کے کمرے میں دھما چوکڑی مچائے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ردا کے سسرال والوں پر کمنٹس پاس کررہا تھا او رردا شرمائی لجائی سب کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ویسے سسرال تو بہت اچھی ہے‘ مجھے بہت پسند آئی ہے تمہاری سسرال۔‘‘ صبا جو اتنا سارا کھانا دیکھ کر کچھ بھی نہ کھا پائی تھی اب پلیٹ تھامے قورمہ اور بریانی تناول فرما رہی تھی۔
’’لڑکا تو اس سے بھی زیادہ اچھا ہے۔ تصویر تو دیکھی تھی نا۔‘‘ رمشا باجی نے کہا۔
’’ہوں کمال کی شخصیت ہے۔‘‘ آمنہ نے فوراً سرہلایا تھا۔
’’کمال کی نہیں اسجد صاحب کی شخصیت کہو۔‘‘ کھاتے ہوئے صبا نے لقمہ دیا۔ آمنہ نے ’’ہونہہ‘‘ کہہ کر سر جھٹکا۔
’’مجموعی طور پر فنکشن بہت اچھا اور شان دار تھا خصوصاً منگنی کا کھانا۔ یار! قورمہ تو بہت ہی لذیذ ہے اور بریانی کی کیا بات ہے۔‘‘ صبا نے پھر ٹانگ اڑائی تھی۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے؟ بڑی چپ بیٹھی ہو مریم صاحبہ! تمہاری کسی سے لڑائی ہوگئی ہے کیا؟‘‘ رمشا باجی کا بالکل خاموش بیٹھی مریم کی طرف دھیان ہوا تو ٹوکا۔
’’اس نے آج کل چپ شاہ کا روزہ رکھا ہوا ہے اسے مت چھیڑیں۔ یہ منگنی پر آگئی ہے یہ بھی بڑا غنیمت سمجھیں۔‘‘ ردا نے ناراضی سے جتایا۔
’’ہیں یہ کیا معاملہ ہے۔‘‘ رمشا باجی نے تعجب سے اسے دیکھا۔
’’کوئی معاملہ نہیں۔ بس یونہی موڈی ہورہی ہے آج کل۔‘‘ فوزیہ جو مریم کے احساسات سے با خبر تھی اس نے ٹالا۔
’’پھر بھی کوئی وجہ تو ہونا؟‘‘
’’موڈ نہیں ہے محترمہ کا اور موڈ ایک منٹ میں بناتی ہوں میں آپ ڈھولک منگوائیں اگر ہمیں زبردستی روکا ہے تو اب بور مت کریں۔ آج رت جگا منائیں گے۔‘‘ صبا جو کھانے سے فارغ ہوچکی تھی وہ فوراً قالین پرفوزیہ آمنہ کے درمیان آبیٹھی تھی۔
’’زبردست‘ آئیڈیا اچھا ہے۔ ڈھولکی کا کیا ہے ابھی منگوالیتے ہیں۔‘‘ رمشا باجی فوراً تیار ہوگئی تھیں۔
اورپھر تھوڑی دیر بعد سکندر نے کہیں سے ڈھولک لادی تھی اور اب سب چھوٹے بڑے کمرے میں بیٹھے ڈھولک کے جائز ناجائز استعمال سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایسے ماحول میں مریم خود کو بہت دیر لاتعلق نہیں رکھ پائی تھی۔ صبا ڈھولک بجا رہی تھی‘ آمنہ چمچہ اور باقی لوگ تالیاں پیٹ رہے تھے۔ سکندر فارم میں آکر بھنگڑاڈال رہا تھا جب کہ باقی سب کے قہقہے چھت پھاڑ تھے۔ دادی دونوں پھوپیاں ان کے بچے تایا‘ تائی ‘عمر سبھی ادھر ہی تھے۔
ڈھولک میں تال ہے پائل میں چھن چھن
گھونگھٹ میں گوری ہے سہرے میں ساجن
جہاں بھی یہ جائیں بہاریں ہی چھائیں
خوشیاں ہی پائیں میرے دل نے دعا دی
میری دوست کی شادی ہے
ہماری دوست کی شادی ہے
صبا اورمریم کی مشترکہ آواز نے گیت کا حسن دوبالا کردیا تھا اور سب نے تالیاں پیٹ پیٹ کر خوب داد دی۔
’’اچھا وہ والا گائو نا؟‘‘ رمشا باجی کی نند نے گانا مکمل ہونے پر کہا۔
’’کون سا؟‘‘ اس نے صبا کے کان میں کہا تو اس نے ڈھولک کی لے بدلی۔
’’تجھ کو ہی دلہن بنائوں گا
ورنہ کنوارہ مرجائوں گا‘‘
دونوں نے مل کر تان اڑائی تو سکندر مریم کو دھکیل کر درمیان میں آبیٹھا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’یہ گانا میں بھی گائوں گا۔‘‘ مریم کی گھوری پر کہا گیا۔
’’یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ اس نے لتاڑا۔
’’جاکے جوگن بن جائوں گی
سنگ تیرے نہ میں آئوں گی
سب سے میں یہ کہہ جائوں گی
تجھ کو نہ دولہا بنائوں گی
چاہے کنواری مرجائوں گی
دوسریلی آوازوں میںایک مردانہ آواز سے گیت درمیان میں ہی رہ گیا تھا اور سب ہنس دی تھیں جب کہ عمر مریم کے جھلملاتے چمکتے چہرے کو تکے گیا۔
’’سکندر باز آجائو ورنہ مار کھائو گے۔‘‘ رمشا باجی نے ٹوکا۔
’’نہ جی میں دلہن کا برابر کا بھائی ہوں۔ ساتھ ساتھ گائوں گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں رمشا باجی! بیٹھنے دیں ابھی اس کی بھی شامت لے آتے ہیں۔‘‘ مریم جس کا موڈ بہت فریش ہوچکا تھا‘ رمشا باجی سے کہہ کر صبا کے کان میں کچھ کہنے لگی اور پھر دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسی تھیں۔
’’یہ سازش میرے خلاف ہوئی ہے نا؟‘‘ اس نے پوچھا جب کہ ادھر کون متوجہ تھا۔
’’نہیں دلہن کے بھائیوں کے خلاف۔‘‘ صبا نے ڈھولک بجائی تو مریم نے شرارت سے سکندر کو دیکھا۔
’’وہ تو عمر بھائی بھی ہیں۔‘‘ اس نے دہائی دی مگر سنتا کون؟
ہم سب منگنی پر آئے شاوا
یہاں پر لڑکے دیکھے شاوا
کچھ تھے کالے کلوٹے شاوا
کچھ تھے لنگڑے لولے شاوا
ہم نے جو غور سے دیکھا شاوا
وہ تو لڑکی کے بھائی نکلے شاوا
شاوا بھئی شاوا ‘ شاوا بھئی شاوا
چاروں طرف سے ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا تھا‘ عمر بھی بے اختیار ہنس دیا۔


’’عمر بھائی دیکھ رہے ہیں۔‘‘ سکندر نے عمر کو مخاطب کیا۔
’’یہ زیادتی ہے‘ میں اپوزیشن کی طرف سے شدید احتجاج کرتا ہوں۔‘‘ سکندر دہائیاں دے رہا تھا مگر ادھر پروا کسے تھی۔
’’ہم منگنی پر آئے شاوا
یہاں پر لڑکے دیکھے شاوا
کچھ تھے غنڈے لوفر شاوا
ہم نے غور سے جو دیکھا شاوا
وہ تو اپوزیشن والے نکلے شاوا
شاوا بھئی شاوا‘ شاوا بھئی شاوا
عمر تو ایک طرف سکندر خود بے اختیار ہنس دیا تھا۔ اس کے بعد رات گئے تک ڈھولک بجتی رہی تھی‘ عمر نے کئی بار مریم کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھا اور پھر مسکرادیا اور رات بہتی چلی گئی۔
…٭٭٭…
ابھی ردا کی منگنی سے فراغت ہی نصیب ہوئی تھی کہ ٹھیک تین دن بعد رشتہ کروانے والی کا فون آگیا کہ وہ چند
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
لوگوں کو لے کر آنے والی ہے۔ لڑکا نیک تھا‘ معقول لوگ تھے امی جی کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ گھر میں امی نے فوراً ایمرجنسی نافذ کرڈالی تھی‘ صفائی ستھرائی کھانے پینے کے انتظامات وقار کی بازار اور بیکری دوڑ فوزیہ سخت اکتائی ہوئی تھی تو مریم اس نئی افتاد پر بے چین تھی‘ آج کل صبا کی کزن کرشمہ صاحبہ خالہ کے گھر آئی ہوئی تھی اور اس کی انٹری ادھر منع تھی‘ بقول صبا کے کھیل وائنڈپ ہونے والا تھا‘ وہ دونوں طرف سے بھرپور انداز میں کھیل رہی تھی۔ کرشمہ بی بی اور صبا کی والدہ کی اپنی اپنی جگہ دونوں کی ایک دوسرے سے ٹھن چکی تھی۔ وہ ایک منہ پھٹ بدتمیز بگڑی ہوئی کرشمہ کو دیکھ کر حیران و پریشان ہورہی تھیں تو دوسری طرف کرشمہ صاحبہ نامعلوم ماریہ نامی لڑکی کی فون کالز سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے اپنے امیر کبیر ہونے کا رعب و دبدبہ جمانے کے چکر میں خالہ کی اصلیت ظاہر کرتے کرتے ان کی نگاہوں سے آئوٹ ہوتی جارہی تھی۔ بس فائنل رائونڈ رہ گیا تھا آج کل سیمی فائنل چل رہا تھا اب جب کہ کامیابی کے امکانات روشن تھے ایسے میں رشتہ… مریم کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے۔
شام کو وہ مہمان آگئے تھے فوزیہ بددلی سے امی کی ہدایت پر تیار ہوگئی تھی جب کہ مریم کے دل کی رفتار تیز تر ہوچکی تھی۔
امی نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آمنہ اور مریم کو مہمانوں کے سامنے آنے پر کرفیو نافذ کردیا تھا جب کہ اس نے دل ہی دل میں کوئی اور پلان بنا رکھا تھا۔
امی جی مہمانوں کے پاس تھیں آج ابو جی بھی جلدی آگئے تھے‘ کچھ دیر بعد وقار امی کا پیغام لیے چلا آیا کہ فوزیہ چائے لے کر اندر چلی جائے۔
’’فوزیہ باجی! لائیں میں لے جاتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا تو فوزیہ نے حیرانی سے دیکھا۔
’’امی سے جوتیاں کھانی ہیں ۔ امی کی ہدایت بھول گئی ہو کیا؟‘‘
’’جوتیاں کھانی ہیں نہ کچھ بھولی ہوں۔ کچھ نہیں ہوتا‘ آپ بعد میں آجایئے گا میں ذرا دیکھ کر آئوں کیسے لوگ ہیں‘ پلیز…‘‘ اس نے مسکین سی صورت بنالی۔
’’اگر امی خفا ہوئیں تو مجھے مت کہنا۔‘‘
’’نہیں کہوں گی۔‘‘ وہ ٹرالی گھسیٹتے باہر نکل آئی تھی جب کہ فوزیہ کے ہاتھ پیر بھول گئے۔
’’مریم… مریم…‘‘ اس نے روکنا چاہا مگر اب بے سود تھا۔ مریم بی بی اپنے پلان پر عمل درآمد کرچکی تھیں۔
’’السّلام علیکم!‘‘ وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا۔
’’تم…؟‘‘
’’وعلیکم السّلام!‘‘ مہمان خواتین مکمل طور پر متوجہ ہوچکی تھیں اب امی کچھ نہیں کرسکتی تھیں اور اسے پروا بھی نہ تھی‘ امی سے نظریں چرا کر مسکرا کر مہمانوں کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر نہایت سلیقے سے برتن ٹیبل پر سجانے لگی۔ سب اسے ہی دیکھ رہے تھے ابو جی بھی حیران ہوئے تھے مگر ٹال گئے کہ شاید فوزیہ بعد میں آئے۔ اس نے باری باری چائے کپوں میں انڈیل کر سب کو دیئے لوازمات پیش کرنے کے بعد امی کو دیکھا وہ کینہ توز نظروں سے گھور رہی تھیں‘ اس نے سوچا اب بھاگ لے اس سے پہلے کہ اپنی سوچ پر عمل درآمد کرتی سامنے بیٹھی خاتون نے روک لیا۔
’’کیا نام ہے بیٹا آپ کا؟‘‘
’’جی مریم!‘‘ وہ رک گئی تھی۔
’’ماشاء اللہ! کیا ایجوکیشن ہے آپ کی۔‘‘ اگلا سوال تھا خواتین خامی معقول اور شائستہ اطوار کی مالک لگ رہی تھیں‘ اس کا اعتماد بحال ہوا۔

’’جی میں بی ایس سی کے ایگزیمز دے کر ابھی فری ہوں۔ ایم ایس سی کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘ دونوں خواتین نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’معافی چاہتی ہوں مگر ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ لڑکی ایم اے انگلش ہے۔‘‘ پہلی خاتون نے سنبھل کر پوچھا۔
ان خاتون کی یادداشت کمال کی تھی‘ اس نے ستائشی نظروں سے انہیں دیکھا شاید یہ ہی لڑکے کی والدہ تھیں۔
’’جی وہ فوزیہ آپی ہیں میری بڑی بہن۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہاں موجود ہر فرد چونکا تھا‘ امی نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
وہ ایک ایسی بدشگونی کی مرتکب ہوچکی تھی جو ناقابل معافی تھی۔
’’جائو مریم! فوزیہ کو بھیجو۔‘‘ معاف کیجیے گا یہ میری چھوٹی بیٹی ہے۔‘‘ امی جی کا ضبط بھی یہیں تک تھا اسے اشارہ کرکے معذرت کی۔
کچھ دیر بعد مہمان رخصت ہوئے تو لڑکے کی والدہ نے امی جی کے ہاتھ تھام کر کہا۔
’’بہن! ماشاء اللہ آپ کی دونوں بچیاں ہی بہت پیاری اور سلجھی ہوئی ہیں۔ ہم جلدی ہی فیصلہ کرکے جواب دیں گے۔‘‘ اور امی ’’دونوں بچیاں‘‘ سن کر ہی بھول گئی تھیں ‘ ان لوگوں کے جانے کے بعد امی اس کے سر ہوگئی تھیں۔
’’یہ کیا حرکت تھی‘ جب میں نے کہہ دیا تھاکہ فوزیہ کے علاوہ کوئی ادھر بھٹکے گا بھی نہیں تو تمہیں ہمت کیسے ہوئی ادھر آنے کی۔‘‘ امی جی کا غصے سے براحال تھا‘ وہ فوراً ابو کے کندھے سے جالگی۔
’’میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا‘ میں مہمانوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔‘‘ ایک دم آنکھوں میں آنسو بھر لائی تھی‘ امی جی نے اپنا ماتھاپیٹ لیا۔
’’کیوں خفا ہوتی ہو ‘ بچی ہے۔ ویسے بھی کوئی نا معقول حرکت نہیں کی اس نے کہ تم اتنا شور مچائو۔‘‘ ابو جی نے ہمیشہ کی طرح اس کی طرف داری کی۔
’’آپ کے اسی لاڈ پیار نے اسے خود سر اور ضدی بناڈالا ہے۔‘‘ وہ ابو جی پر بھی گرم ہوئیں۔
’’امی جی کیا ہوگیاہے‘ کیوں پریشان ہورہی ہیں۔‘‘ فوزیہ بھی اس کی حمایت میں بولی تھی۔
’’خوامخواہ پریشان نہیں ہورہی‘ اس لڑکے کی ماں کی نیت بدل گئی ہے‘ وہ جس طرح جاتے ہوئے دونوں بچیاں کہہ کر گئی ہے میرا دل ہول رہا ہے… میں صاف کہہ رہی ہوں کہ اگر ایسا واقعی ہوا نا تو پھر میں صاف انکار کردوں گی۔ اگر مجھے چھوٹی کا ہی کرنا ہے تو عمر بُرا ہے کیا؟‘‘ امی شروع ہوچکی تھیں۔
…٭٭٭…​
کرشمہ ادھر آچکی تھی وہ آزاد خیال کی مالک خاصی منہ پھٹ آئوٹ آف اسپوکن لڑکی تھی۔ آج کل تو ویسے ہی خالہ کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے آئی تھی۔اوپر سے نامعلوم ماریہ نامی لڑکی کی کالز اور خصوصی بریفنگ سونے پر سہاگہ تھا۔
ان چند دنوں میں ہی خالہ پر اس کے جوہر کھلنا شروع ہوگئے تھے۔
ان چند دنوں میں ہی کرشمہ کے طور طریقے دیکھتے انہیں ہول اٹھنے لگے تھے۔ کہاں وہ بہت ماڈرن بننے کی کوشش کے باوجود شلوار قمیص سے ہٹ کر ساڑھی جیسے لباس تک نہیں آسکی تھیں اور کہاں محترمہ کرشمہ صاحبہ کا لباس ہی جینز شرٹ‘ ٹی شرٹ‘ لانگ شرٹ کے علاوہ ٹرائوزر تھا۔
ایک دن انہوں نے ٹوک دیا کہ انہیں ایسا لباس پسند نہیں‘ خیال تھا کہ بہو پر ابھی اس کے لباس کی طرف سے اپنی پسند نا پسند واضح کردی جائے مگر کرشمہ کو ناگوار گزرا۔
’’آپ اتنی دقیانوس ہیں آنٹی! آپ جانتی ہیں یہ لباس تو میرا فیورٹ ہے‘ آپ مجھے شلوار قمیص پہننے کو کہہ رہی ہیں ایسا پینڈو لباس تو میں مرکر بھی نہ پہنوں۔‘‘
امیر کبیر لائق فائق پڑھی لکھی بہو کا یہ صاف جواب‘ ان کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے تھے۔ آج تک ان کی اولاد کی مجال نہ ہوئی تھی کہ انہیں پلٹ کر جواب دے دے اور بھانجی صاحبہ اٹھتے بیٹھتے ان کے پینڈو پن پر طنز فرمارہی تھیں۔
بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا کھانے پینے‘ سونے جاگنے تک کے معمولات تک ان لوگوں سے متضاد تھے خاور ان کا اکلوتا بیٹا تھا‘ انہیں اپنا بڑھاپا عذاب اور گھر کا مستقبل تاریک ہوتا لگ رہا تھا۔ محترمہ کو کچن کے کاموں میں چائے تک بنانا نہیں آتی تھی اور گھریلو امور میں اس کی معلومات صرف اس حد تک تھی کہ کام والی کو پیسے دے کر گھر چمکا لو بھلے وہ کام والی صفائی کے ساتھ ساتھ گھر کاہی صفایا کرجائے۔
اس دن تو حد ہوگئی وہ کرشمہ کے کمرے کے دروازے سے کان لگائے اندر کی صورت حال کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہی تھیں۔
صبا مریم کے ہاں گئی تھی کرشمہ گھر پر ہی تھی۔ ایسے میں اس کی ٹوہ کرنا اچھا موقع تھا۔
’’دیکھنا اس بوڑھیا کو کیسے مزا چکھاتی ہوں۔ وہ سمجھتی کیا ہے خود کو‘ نجانے کس چیز کا غرور ہے۔ میری ڈریسنگ پر تنقید کرتی تھی ماریہ! تو میں نے بھی سیدھا جواب منہ پر مارا۔ نوکروں والے کاموں کی
مجھ سے توقع کرتی ہے میں نے بھی مزا نہ چکھایا تو میرا نام بھی کرشمہ نہیں۔ بس میرے ہاتھ پرانی منگنیوں یا چند لوگوں سے متعلق ثبوت لگ جائیں پھر دیکھنا میں ماما پاپا کے سامنے کیسے سارا کچا چٹھا کھولتی ہوں۔‘‘ کرشمہ خاصے جوش سے کہہ رہی تھی‘ انہوں نے تھوڑے سے کھلے دروازے سے دیکھا‘ وہ بستر پر دراز تھی‘ دروازے کی طرف پشت تھی۔ اپنے متعلق نادر خیالات سن کر ان کا جلالی غصہ ایک دم ان کی عقل پر حاوی ہوا۔ جی چاہا کہ ابھی اندر جائیں اور اس کی چوٹی پکڑلیں۔
’’مجھے کون سا رشتوں کی کمی ہے‘ رشتوں کی لائن ہے جو حاضر ہے۔ ماما کو بھی بس بہن کی محبت کا بخار چڑھا تھا‘ اب واپس جاکر ان کی اصلیت بتائی تو دیکھنا کیسے صاف انکار کرتی ہیں میری ماما۔‘‘ وہ حیرت سے گنگ تھیں یہ ان کی پسند ان کی بھانجی تھی جس کی دولت و جائیداد کے لالچ میں اپنے انتہائی فرماں بردار ہیرے جیسے بیٹے کے دل کا خون کرکے اپنی من مانی کی تھی‘ ان کاغرور ان کو منہ چڑا رہا تھا۔
’’بس ڈراپ سین باقی ہے یار! بہت اچھا کیا تم نے مجھے گائیڈ کیا اگر میں اپنے اصلی حلیے میں اس عورت کے سامنے آتی تو اس کی اصلیت کب کھلنی تھی؟ تمہاری ہدایت پر عمل کیا تو اس عورت کا اصل روپ بھی سامنے آگیا۔ میں نے اپنے گھر میں کبھی ہل کر پانی کا گلاس نہیں پیا اور یہ بڑی بی کہہ رہی تھیں کہ شادی کے بعد مجھے نا صرف گھر بار سنبھالنا ہوگا بلکہ کچن بھی دیکھنا ہوگا اور دیکھو ماما نے مجھے یہ لالچ دیا تھا کہ ان کی بہن ان سے مرعوب ہے‘ انہیں دولت کا لالچ دے کر شادی کرلیتے ہیں‘اکلوتا بیٹا ہے‘ نند کی تو شادی ہو جائے گی کون سا وہ میری ذمہ داری ہوگی کبھی کبھار آئے گی‘ لڑکے کو گھر داماد بنالیں گے۔ ماں نے زیادہ شور کیا تو مہینے کے مہینے خرچہ دے دیا کریں گے‘ اب آکر ماما اپنی ڈکٹیٹر بہن کو دیکھیں تو کانوں کو ہاتھ لگائیں اور کبھی پلٹ کر ادھر کا رخ نہ کریں۔ میرا حوصلہ ہے جو میں یہ سب برداشت کررہی ہوں محض اس عورت کی اصلیت ظاہر ہونے تک۔‘‘
ان کا حوصلہ بس یہیں تک تھا ایک دم دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھیں۔
’’اے لڑکی! کیا ہے اصلیت میری‘ ذرا بتائو مجھے بھی۔ یہ میرا حوصلہ ہے جو اتنے دن تمہیں برداشت کرلیا۔ جس میں حیا نہ شرم۔ میں نے دولت لے کر چاٹنی ہے خالی۔تم جیسی لڑکی پر میں لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں‘میرا ہیرے جیسا بیٹا تمہاری جیسی منہ پھٹ بدلحاظ‘ بدتمیز‘ جاہل لڑکی کے بھلا قابل ہی کب ہے۔ یہ تو میری عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی ‘ جو تم جیسی لڑکی کے متعلق سوچا۔ میں سو بار تم پر لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘ ان کے الفاظ دوسری طرف صبا اور اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے مریم نے بھی سنے تھے۔
’’ہاں تو آپ کیا لعنت بھیجیں گی بڑا دب لحاظ کرلیا میں نے آپ کا۔‘‘ یہ کرشمہ کا زہریلا لہجہ تھا‘ صبا نے فوراً موبائل آف کیا۔
’’باپ رے! لگتا ہے فائنل اوور چل رہا ہے‘ کون جیتتا ہے آن ائیر چل کر دیکھتے ہیں۔ چلو جلدی کرو۔‘‘ اس وقت وہ دونوں حسب معمول مریم کے گھر کی چھت پر ایک طرف بنے برآمدے میں بیٹھی کرشمہ سے بات کررہی تھیں۔
’’پہلے یہ سم تو بدل لو۔‘‘ اسے اس طرح بھاگتے دیکھ کر مریم نے ٹوکا تو اس نے فوراً سم نکالی۔
’’مجھے لگتا ہے اب اس سم کی ضرورت نہیں رہی‘ سنبھالو اپنی سم یا ضائع کردو اس سے پہلے کہ راز فاش ہو۔ میں چلتی ہوںبلکہ تم بھی ساتھ آئو۔ میں دونوں کو اکیلے نہیں سنبھال پائوں گی ایک عدد تمہارے جیسے سپورٹر کی ضرورت بہرحال ہے۔‘‘
’’چلو…!‘‘ مریم نے بھی سم لے کر اس کے دو ٹکڑے کرکے گھر کے عقب میں خالی احاطے میں اچھال کر اس کے ساتھ چل دی تھی۔ ان کا منصوبہ مکمل ہوچکا تھا اب بس آخری ضرب باقی تھی جو وہ دونوں روبرو جاکر سر انجام دے سکتی تھیں‘ ایسے میں اب اس سم کی کوئی ضرورت نہ رہی تھی‘ یہ سم کئی سال سے اس کے پاس فالتو پڑی ہوئی تھی۔ جو انہوں نے ایک لوکل شاپ سے خریدی تھی‘ اس سم کو استعمال کرتے ہوئے دونوں مطمئن تھیں کہ یہ سم رجسٹرڈ نہ تھی اور خریدتے وقت شاپ کیپر نے شناختی کارڈ مانگا تھا‘ مگر اس وقت پاس نہ تھا۔ لڑکیاں سمجھ کر اس نے سم تو دے دی تھی مگر اس تاکید کے ساتھ کہ کل آکر شناختی کارڈ کی کاپی جمع کروا کر رجسٹرڈ کروالیں پھر نہ کبھی اس دکان پر جانا ہوا اور نا ہی کاپی دی۔
یہ سم بُرے وقتوں میں کام آنی تھی۔ اب وہ دونوں دیوار پھلانگتے صبا کے ہاں تھیں‘ نیچے سے دونوں خواتین کی زور زور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اب ان بولتی خواتین میں یہ دونوں لڑکیاں بھی شامل ہوگئی تھیں۔
…٭٭٭…​
ان کا فائنل کامیاب رہا تھا۔ ایک گھمسان کا رن پڑا تھا‘ دونوں فریقین میں۔ جواباً کرشمہ اسی دن اپنے گھر روانہ ہوئی تو اسی شام اس کی والدہ کے فون نے تمام کسر پوری کردی۔ انہوں نے وہ باتیں سنائیں کہ… نصرت بیگم بھی ادھر کون سا ٹھنڈے مزاج کی خاتون تھیں‘ جو آرام و سکون سے سہہ جاتیں۔ بہن کو ایک کی بجائے دس سنائیں اور کرشمہ کے اندر وہ وہ خامیاں نکالیں جو اس میں تھی ہی نہیں جواباً دونوں نے ناصرف رشتہ دینے لینے سے انکار کردیا بلکہ آئندہ ملنے ملانے کا سلسلہ بھی بند کردیا۔
وہ اٹھتے بیٹھے آہیں بھررہی تھیں اور صبا جلتی پر تیل کا کام کررہی تھی۔
’’کتنی بار تو آپ کو ابو جی بھائی سب نے کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے لوگوں میں سے لڑکی لائیں گے‘ مگر آپ کو بھی شوق تھا اونچے امیر گھرانے کی بہو لانے کا۔ اب اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔ شکر ہے شادی سے
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
پہلے کرشمہ کی اصلیت کھل گئی‘ شادی کے بعد نجانے کیا ہوتا۔‘‘ وہ اب ہر وقت اسی کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ ایسے میں نصرت بیگم اسے گھور کر رہ جاتیں مگر اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔
’’ہائے کتنی خواہش تھی میری فوزیہ آپی ہماری بھابی بنیں۔ آج کل ان کا رشتہ چل رہا ہے کہیں‘ مگر ہماری کون سنتا ہے یہاں؟ پتا نہیں خاور بھائی کس کو پسندکرتے تھے کتنا انکار کیا تھا انہوں نے ان کی پسند ہی دیکھ لیتیں۔‘‘ کن انکھیوں سے ماں کو دیکھتے رقت آمیز انداز میں کہا تو انہوں نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھا‘ بات کچھ دل پر لگی تھی۔
’’تم چپ ہوگی یا میرے سر پر اسی طرح نازل رہو گی؟‘‘ وہ اس وقت بستر پر دراز اپنی غلطی پر ماتم کناں تھیں۔ صبا کو ان پر ترس آیا۔ مگر اس وقت ذرا سی کمزوری نقصان دہ تھی وہ انہیں مکمل طور پر شرمندہ دیکھناچاہتی تھی۔
’’ہاں مجھے چپ کروالیں‘ بھائی کو بھی چپ کروالیا۔ ابو نے بھی فوزیہ آپی کے لیے کہا مگر آپ نے کبھی ان کا نام لینا بھی پسند نہ کیا۔ کرشمہ سے تو لاکھ درجے بہتر تھیں فوزیہ آپی!‘‘ وہ آج کل بار بار فوزیہ کانام لے رہی تھی‘ ان کے دل سے ہوک اٹھی۔
’’اب کیا ہوسکتا ہے بھلا‘ اس کا تو رشتہ طے ہورہا ہے؟‘‘ غرور ٹوٹا تو نیچے کا منظر بھی نظر آنے لگا‘ بس گردن جھکا کر نیچے دیکھنے کی دیر تھی۔
’’ابھی ہوا تو نہیںنا‘ دیکھیں امی کتنے فائدے تھے فوزیہ آپی کے‘ ساری عمر آپ کی خدمت کرتیں‘ مجھے تو بیاہ ہی دینا تھا نا آپ نے۔ ہمیشہ آپ کی رائے کو اہمیت دیتیں۔ خصوصاً خاور بھائی کو چھین کر کہیں لے جانے کا ڈر تو نہ رہتا۔ کوئی امیر کبیر آتی تو ہمیں دبانے کی کوشش کرتی جب کہ فوزیہ آپی تو سب کو ملا کر رکھنے والی ہستی ہیں۔‘‘ لوہا گرم دیکھ کر اس نے فوراً چوٹ لگائی تھی۔
نصرت بیگم کے اندر ملال گہرا ہوا۔ صبا ان کو نفسیاتی طور پر کمزور کررہی تھی۔ خاور کتنا ناراض تھا۔ کتنی بار اپنی پسند ظاہر کی‘ باقاعدہ نام لیا‘ مگر انہوں نے کیا کہا؟ اس نے ضد سے‘ غصے سے‘ منت سے منوانے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنی عقل پر لالچ کا پردہ ڈال رکھا تھا بہن کی محبت سے زیادہ امیر کبیر بہو لانے اور سوسائٹی میں گردن اکڑا کر چلنے کے زعم میں مبتلا تھیں اور اب کیا ہوا؟ اس لڑکی نے انہیں دھڑام سے زمین پر گرا ڈالا تھا یوں کہ اپنے لالچ کی بدولت خود ہی سے شرمندہ تھیں۔
’’کہاں بات چل رہی ہے فوزیہ کی؟‘‘ پچھلے دنوں سے وہ صرف کرشمہ کے مسئلے میں الجھی ہوئی تھیں اردگرد کی صورت حال سے قطعی بے خبر‘ اب خود کو سنبھال کر پوچھا۔ صبا فوراً ان کے قریب ہوکر بیٹھی۔
’’لڑکا بینک منیجر ہے‘ چچا جان اور چچی جاکر لڑکا دیکھ آئے تھے لڑکے کی والدہ بھی دیکھ گئی ہیں۔ چچا نے تحقیقات تک کروالی ہیں‘ فیملی اچھی اور سلجھا ہوا خاندان ہے اگر ان لوگوں کی طرف سے مثبت جواب ملا تو ان کا ارادہ فوراً بات طے کرنے کا ہے۔‘‘ ان کا دل ڈوب گیا۔
’’اچھا…!‘‘ ایک اچھا رشتہ ان کی دسترس میں تھا اپنی انا ‘ ضد اور لالچی فطرت کی بدولت گنوا ڈالا تھا۔ ان کے اندر ملال کے بادل گہرے ہونے لگے۔ اپنے زعم میں وہ فوزیہ اور اس کی ماں بہنوں کو نجانے کیا کچھ کہتی رہتی تھیں‘ اپنے سامنے تو وہ کسی کو کچھ گردانتی ہی نہ تھیں‘ اب واپس پلٹیں تو بھی کیا گارنٹی تھی کہ وہ لوگ اچھا سلوک کریں گے۔ ماضی میں جو رویہ وہ ان لوگوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھیں اس کے پیش نظر تو انہیں بُرے سے بُرے سلوک کی توقع رکھنی چاہیے تھی۔
’’امی پلیز مجھے فوزیہ آپی بہت پسند ہیں۔ آپ چل کر باتیں کریں نا ابو جی اور بھائی سے بھی کہیں‘ وہ لوگ انکار نہیں کریں گے۔ ایک دفعہ میری بات مان لیں۔‘‘ بھائی کا نام لیے بغیر وہ کہہ رہی تھی ۔
’’اور اگر انہوں نے انکار کردیا تو؟‘‘ انہوں نے دل کا خدشہ بیان کیا‘ اب تو ساری اکڑ سارا غرورمٹی میں مل چکا تھا بس یہی خواہش تھی کہ ایسی لڑکی کو بہو بنالیں جو ناصرف بڑھاپے میں ان کی خدمت کرے بلکہ ان کا بیٹا کہیں بھی لے کر نہ جائے اور فوزیہ ہر لحاظ سے معقول تھی اس کے لیے۔
’’وہ تو بعد کی بات ہے۔ ایک دفعہ پروپوزل تو دیں نا۔‘‘ صبا نے ماں کی ہمت بندھائی تو انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے سر اثبات میں ہلادیا۔
…٭٭٭…​
اس بینک منیجر کے رشتے کی طرف سے مثبت جواب مل گیا تھا۔ امی جی ان لوگوںکا جواب سن کر پہلے تو حیران ہوئیں پھر ان لوگوں کو خواب سنائیں اور آخر میں منہ پر کپڑا لپیٹ کر لیٹ گئیں۔
’’پتا تو کرو ادھر سے آخر کیا جواب ملا ہے جو امی اتنے صدمے سے لیٹ گئی ہیں۔‘‘ آمنہ فری ہونے کے بعد پُرجوش تھی۔
’’انکار ہوگیا ہوگا۔‘‘ اس نے اپنی سابقہ کارکردگی کی روشنی میں اندازہ لگایا۔
’’تمہارے منہ میں خاک۔‘‘ فوزیہ خاموش تھی‘ آمنہ نے دہل کر کہا۔ پھر بار بار اس کے اصرار پر وہ امی کے پاس آبیٹھی ۔
’’امی کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے بڑی محبت سے پوچھا۔ انہوں نے دوپٹہ ہٹا کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔
’’یہ سب تیرا کیا دھرا ہے‘ کتنا منع کرتی رہی کہ کوئی مہمانوں کے سامنے نہیں آئے گی۔ تم کو تو ماں کی نصیحت اچھی نہیں لگتی۔ جس بات سے منع کیا وہی کام کیا۔‘‘ وہ فوزیہ کے لیے انکار کرکے تمہارے لیے کہہ رہے ہیں۔ پیچھے کھڑی فوزیہ اور آمنہ دونوں حیران ہوگئیں۔
’’کیا واقعی؟‘‘ فوزیہ کی بات نہ بننے پر ایک دم خوشی ہوئی مگر امی کا زور دار ہاتھ اس کی کمر پر نشان چھوڑ گیا۔
’’تجھے اتنی خوشی کس لیے ہورہی ہے؟ سوچا تھا ایک کا مسئلہ ہے ہوجائے باہر‘ پھر باقیوںکا بھی کروں گی۔ مگر تمہارے جیسی منحوس بہن جس کی ہو وہاں ایسے ہی بنا بنایا کھیل بگڑتا ہے۔‘‘ امی جی کے اب

آنسو بہہ رہے تھے‘ مریم اس صاف الزام پر بگڑ گئی۔
جب کہ کچھ دیر قبل دل میں پیدا ہونے والے خیال سے گھبرا کر امی جی نے ایک دوبار اندر جھانکا جہاں ان سب کے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’نہیں! یہ نہیں ہوسکتا؟‘‘ مریم نے ادکاری کرتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھ کر ایکشن سے کہا۔
’’زیادہ ہیروئن بننے کی ضرورت نہیں۔‘‘ صبا نے کشن مار کر اس کی ساری اداکاری نکال دی تھی۔
’’ویسے حرج بھی نہیں کافی معقول لوگ ہیں۔‘‘ آمنہ بھی متفق ہوچکی تھی‘ مریم نے مجبوراً گھورا۔
’’میں کیوں بھلا کسی سُود خور سے شادی کرنے لگی۔‘‘
ہیں… یہ سود خور کون ہے؟‘‘ وقار کو حیرت ہوئی۔
’’بینک میں کام کرتا ہے لڑکا! سودی کاروبار میں برابر کا شریک‘ اللہ معاف کرے۔ ہمیں بچائے۔‘‘ اس نے فوراً دونوں گال پیٹتے کانوں کوہاتھ لگا کر توبہ کی‘سب ہنس دیئے۔
’’اسے کہتے ہیں دور کی کوڑی لانا‘ جیتی رہے میری بہن! تم تو خاصی عقل مند ہو۔‘‘
’’آپ کی کمزور اطلاع کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی عقل مند ہیں۔‘‘ اس نے فرضی کالر کھڑے کیے۔
’’بے وقوفوں کی عقل مند۔‘‘ وقار کے جملے پر ایک بار پھر بے ساختہ قہقہہ پڑا تھا۔
’’بے وقوف سے یاد آیا میںنے سنا ہے آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے برادر محترم کی منگنی اپنی بھانجی صاحبہ سے ختم کردی ہے۔‘‘ اچانک وقار نے یاد آنے پر پوچھا‘ صبا چونکی۔ جب کہ فوزیہ اور آمنہ بھی متوجہ ہوگئی تھیں اور باہر بار بار نظر ڈالنے کے بعد امی جی خود ہی ادھر چلی آئی تھیں اور وقار کے منہ سے انکشاف سن کر ٹھٹک گئی تھیں۔
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ ابھی تو یہ خبر صرف ابو جی تک ہی پہنچی تھی۔
’’معاذ نے…!‘‘ اس نے ہمسایوں کے لڑکے کا نام لیا‘ مریم بھی چپ ہوکر دیکھنے لگی۔
’’اسے کیسے پتا چلا؟‘‘
’’تمہارے گھر کام کرنے والی ملازمہ ان لوگوں کے ہاں بھی کام کرتی ہے میرے خیال سے۔‘‘ صبا نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’ہاں میرے پیارے بھائی… اس سانحے کو آج تیسرا دن ہے۔‘‘ صبا نے بتایا۔
’’ویسے یہ ہوا کیسے؟‘‘ اس نے ازراہِ ہمدردی استفسار کیا۔
’’دونوں پارٹینر کو احساس ہوگیا تھا کہ دونوں ہی بے جوڑ تعلق باندھنے کی کوشش میں ہیں۔ دونوں طرف سے دھاگہ کھینچے کی ضرورت میں ٹوٹنا ہی تو تھا۔‘‘
امی جی کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ مچل گئی۔
وہ بڑے سکون سے بغیر اندر کی رپورٹ لیے واپس پلٹ گئیں اور اندر ان سب کی گفتگو ایک نئے موضوع میں داخل ہوگئی تھیں۔
…٭٭٭…​
نصرت بیگم چند دن سوچنے کے بعد ساتھ والے گھر میں چلی آئی تھیں۔مریم کی والدہ انہیں اپنے ہاں دیکھ کر ٹھٹکی تھیں۔ دونوں کی بظاہر کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی مگر دونوں ہی ہمیشہ دل ہی دل میں ایک دوسرے خائف اور بدظن رہی تھیں اور اس کدورت کا اظہار اپنی اپنی اولادوں کے سامنے برملا کرتی تھیں۔
نصرت بیگم نے جب سے خاور بھائی کی منگنی کرشمہ سے کی تھی ادھر امی جی کابھی رویہ ان سے بہت بدل گیا تھا۔ پہلے جو کدورت دل میں رہنی تھی وہ اب اکثر طنز کی صورت لبوں پر رہتی تھی۔اب خاور کا رشتہ ختم ہونے کے بعد ان کی گھر آمد پر وہ حیرت زدہ تھیں۔
امی انہیں لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں اور مریم جو ان کی آمد کے مقصد سے باخبر تھی۔ اس کے کان امی کے کمرے کی کھڑکی سے جالگے تھے۔
’’یہ کیاکررہی ہو؟‘‘ فوزیہ اور آمنہ نے اس کی حرکت کو گھورا۔
’’دیکھ نہیں رہیں۔‘‘ اس نے آمنہ کو گھورا۔
’’ہر وقت دوسروں کی ٹوہ لینے والوں پر آخر ت میں آگ کے گولے مارے جائیں گے۔‘‘
اس نے پلٹ کر اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا۔ ایک تو اندر نجانے کیامذاکرات چل رہے تھے کہ کان لگانے کے باوجود کچھ پلے نہ پڑرہا تھا اوپر سے آمنہ کی باتیں۔
چند دنوں میں روزے شروع ہونے والے تھے‘ آمنہ اورفوزیہ گھر کی صفائیوں میں مگن تھیں۔ اُدھر کھڑے کچھ پلے نہ پڑا تو وہ اندر چلی آئی‘ امی جی نے اسے دیکھ کرگھورا۔
’’کیا ہے؟‘‘ وہ بگڑے تیور سے بولیں۔

[DOUBLEPOST=1346044288][/DOUBLEPOST]
’کچھ نہیں یونہی ادھر آگئی۔‘‘ وہ مسکرا کر کہتے ماں کے تیوروں کو نظر انداز کرتی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ امی جی نے پہلے اسے گھورکر پھر نصرت بیگم کو دیکھا۔
’’چلیں جو ہونا تھا ہوگیا‘ آپ کو کون سا رشتوں کی کمی ہے۔ ماشاء اللہ کھاتے پیتے لوگ ہیں‘ دولت کی کمی نہیں۔ بھائی صاحب کا اپنا کاروبار ہے۔ خاور میں کون سی کمی ہے۔ کہیں اور دیکھ لیں۔‘‘ امی جی کا وہی طنزیہ انداز تھا جو نصرت بیگم کے لیے ان کا ہوجاتا تھا۔
’’ہاں اس لیے تو آج آئی ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا تو امی جی کے ماتھے کے بل گہرے ہوگئے جب کہ مریم ماں کے تیور دیکھ رہی تھی۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’میں فوزیہ کے لیے آئی ہوں۔ خاور گھرکا بچہ ہے آپ کا دیکھا بھالا ہے‘ ادھر اُدھر بھی تو دیکھ رہی ہیں‘ خاور کے بارے میں بھی سوچ لیں۔‘‘ مریم نے دیکھا امی کے چہرے کی سرخی بڑھی تھی۔
’’فوزیہ کے لیے تو میں پچھلے تین سالوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی ہوں‘ خاور کی منگنی کو تو صرف سال کا عرصہ ہوا ہے۔ پہلے خیال نہ آیا؟‘‘ نصرت بیگم ٹھٹکیں‘ تو مریم کا سانس اٹکا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ ہم غریبوںکے گھر کیوں دیکھ رہی ہیں رشتہ‘ کہیں اور دیکھ لیں۔ ویسے بھی میں تو خود فوزیہ کو کسی چھوٹے موٹے گھر میں نہیں دینے لگی۔ تین سال سے دیکھ رہی ہوں رشتہ ماشاء اللہ سے اب ہمارے خود پہلے والے حالات نہیں رہے۔ پہلے ان کا باپ تنہا کمانے والا اور اتنے لوگ کھانے والے مگر جب سے عبید نے باہر جاکر کمانا شروع کیا ہے‘ حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ میں نے اگر چھوٹے موٹے لوگوں میں رشتہ کرنا ہوتا تو بہت پہلے فوزیہ کے فرض سے نبٹ چکی ہوتی‘ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے دولت مند بہو ہو‘ تو میری بھی خواہش ہے کہ دولت مند سسرال ہو بیٹی کا۔ نوکر چاکر ہوں‘ گاڑی ہو‘ اچھا کاروبار یا ملازمت ہو۔‘‘ امی کہہ رہی تھیں اور مریم حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ان تین سالوں سے امی جی یہیں کام تو کررہی تھیں صرف امیر کبیر دولت مند گھر میں ہی رشتہ دیکھنے جاتی تھیں یا بات چلاتی تھیں تو کیا وہ کسی کمپلیکس کا شکار تھیں۔
’’تم انکار کررہی ہو؟‘‘ نصرت بیگم کی گھمنڈی‘ مغرور فطرت بھرپور انگڑائی لے کر بے دار ہوئی‘ایک دم غصے سے کہا۔
’’جو مرضی سمجھ لو۔‘‘ امی جی کا انداز بڑا عجیب سا تھا۔ مریم کا حلق تک خشک ہوگیا۔ اس نے اور صبا نے اتنی محنت کی تھی اس سارے مسئلے کے حل کے لیے اوراب۔
’’امی جی…‘‘ وہ آہستگی سے بولی مگر وہ متوجہ ہی نہ ہوئیں۔
’’دیکھو میں بچوں کی خواہش پر یہاں چلی آئی‘ تم یہ نہ سمجھو کہ میں مجبور ہوں یا بے بس ہوں۔ میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی تو نہیں۔‘‘ نصرت بیگم فوراً اپنے اصل مزاج میں لوٹ گئی تھیں غصہ تو انہیں ویسے بھی بڑا آتا تھا ۔
’’ہاں میں نے کون سا دعوت دی تھی۔ کہیں بھی جاکر دیکھ لو میری فوزیہ بھی ہیرا ہے۔ ابھی تک میں نے صرف اسی لیے لٹکا رکھا تھا کہ مجھے تم لوگوں سے بہتر کوئی رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ یہ جو بینک منیجر کا رشتہ آیا تھا یہ لوگ ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔چند دنوں میں ادھر فائنل کرنے والی ہوں۔‘‘ مریم نے خاصا الجھ کر ماں کا چہرہ دیکھا۔
’’مگر میں نے تو سنا تھا کہ انہوں نے مریم کے لیے کہا تھا اور تم نے انکار کردیا تھا۔ نصرت بیگم بھی حیران ہوئی تھیں۔
’’مگر اب ان لوگوں کا ارادہ بدل گیا ہے۔‘‘ امی جی کا اطمینان قابل دید تھا۔
’’مگر امی جی…‘‘ اب بولنا ناگریز ہوگیا تھا مگر امی جی نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’تم جائو‘ کتنی بار منع کیا ہے کہ بڑوں کی باتوں میں مت الجھا کرو۔ تمہارے مطلب کی کوئی بات نہیں جائو یہاں سے۔‘‘ انہوں نے بڑے غصے سے ٹوک دیا تو اس نے لب بھینچ لیے۔
’’تو تم صاف انکار کررہی ہو؟‘‘ نصرت بیگم اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
امی جی کا انداز ہنوز وہی تھا۔ انہیں نصرت بیگم کو اس میدان میں شکست دے کر عجیب سی خوشی ہورہی تھی۔
’’ہاں! صاف اور واضح انکار‘ میں فوزیہ کو کہیں بھی بیاہوں مگر تمہیں بیٹی نہیں دوں گی۔‘‘ مریم کولگا انہوں نے نجانے کس ذلت کا بدلہ لیا ہے‘ مارے ہتک و ذلت کے نصرت آنٹی کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔
’’بہت پچھتائو گی‘ میں نے تو سوچا تھا کہ چلو خیر سے گھر کی بچی ہے‘ سلجھی اور سمجھدار ہے مگر اندازہ نہیں تھا کہ ماں کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔‘‘ وہ غم و غصے سے کہہ کر فوراً کمرے سے نکل گئی تھیں اور مریم بنا بنایا کھیل مکمل طور پر بگڑا دیکھ کر حیرت سے گنگ رہ گئی تھی۔
’’امی جی ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ غم و غصے سے پوچھ رہی تھی۔ امی جی کی آنکھوں میں سال پہلے کا ایک منظر پوری آب و تاب سے جگمگااٹھا۔
…٭٭٭…​
وہ کسی کام سے نصرت کے ہاں آئی تھیں‘ خاور عبید کا ہم عمراُن کو شروع سے ہی بہت پسند تھا‘ وہ ماں تھیں خاور کی اپنے گھر مسلسل آمد اور فوزیہ میں دلچسپی دیکھ کر چونک گئی تھیں مگر فوزیہ کے نارمل پُرسکون انداز دیکھ کر مطمئن ہوگئی تھیں۔
اچھے اور خوش حال گھرانے میں بیٹی بیاہنا ہر ماں کی خواہش ہے انہیں بھی خاور اس لحاظ سے موزوں لگا مگر ایک دن سنا کہ نصرت اپنی بھانجی لانا چاہتی ہیں۔ اس دن یونہی کسی کام سے ادھر آئی تھیں اور خاور کے کمرے میں اس کی ماں اور باپ کے علاوہ خاور کے بولنے کی بھی آوازیں آرہی تھیں‘ صبا حسب عادت ان کے ہاں تھی۔
وہ لوگ کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے ان کا ارادہ واپس پلٹنے کا تھا مگر نصرت بیگم کی اونچی آواز میں لیا گیا فوزیہ کا نام سن کر وہ ٹھٹک گئی تھیں۔
’’فوزیہ کا اب دوبارہ نام مت لینا‘ ایسا نہیں ہونے والا۔‘‘
’’آپ اسے سمجھالیں کرشمہ کے علاوہ میں کسی اور لڑکی کو بہو بناکر نہیں لانے والی۔ آپ ایک لا حاصل بحث مت کریں۔‘‘ آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ وہ صاف سن سکیں۔
’’اور فوزیہ کو بہو بنانا‘ میں مرکر بھی نہیں سوچ سکتی۔‘‘یہ ان کا مخصوص مغرور انداز تھا۔
’’کیوں آخر کیا حرج ہے؟ کیا کمی ہے فوزیہ میں؟پڑھی لکھی ہے ‘ خوب صورت اور سلیقہ مند ہے اور سب سے بڑھ کر میرے مزاج سے میچ کرتی ہے۔‘‘ یہ خاور تھا۔
’’بحث مت کرو خاور! ایک کم حیثیت لڑکی کو میں اپنے گھر کبھی نہیں لانے والی۔کرشمہ اپنے والدین کی اکلوتی اولادہے‘ آپا اور بھائی صاحب کی ساری جائیداد و دولت کی تنہا وارث جب کہ یہ فوزیہ اپنے ساتھ کیا لائے گی‘ چند جوڑے کچھ زیور اور وہی مخصوص جہیز میں نے کاٹھ کباڑ سے گھر نہیں بھرنا اور اپنے سے کم تر لوگوں میں سے لڑکی لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور کے متعلق کہتے تو میںشاید سوچتی بھی۔‘‘ امی جی نے اس دن نصرت بیگم کے منہ سے اپنے خاندان‘ حیثیت کے متعلق سنا تھا‘ پہلی بار ان کے اندر بیٹیوںکی ماں ہونے کا بوجھ بڑھا اور پھر یہ بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔
’’نصرت! حرج تو کوئی نہیں‘ خاور ایک جائز بات کہہ رہا ہے‘ ہمیں تو اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے نا۔‘‘ بھائی صاحب اپنی بیگم کو سمجھا رہے تھے۔
’’آپ بھی اس کی باتوں میں آگئے‘ میں صاف کہہ رہی ہوں فوزیہ آمنہ تو کیا میں نبیلہ کی کسی لڑکی کے لیے ہامی نہیں بھروں گی۔ اگر میری مرضی کے بغیر خود کچھ کرنا چاہتا ہے تو کر لے اور نبیلہ کی لڑکیوں کو بھی میرا گھر ملا تھا آگ لگانے کے لیے۔ میرا جی چاہ رہا ہے کہ ابھی جائوں اور جاکر نبیلہ اور اس کی بیٹیوں کی اچھی طرح خبر لوں۔‘‘ یہ اگلے الفاظ تھے جنہوں نے ان کے دل سے خاور کے لیے تمام احساسات ختم کرڈالے تھے۔
’’امی! مجھے دولت و جائیداد سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رہی کبھی۔ ہمارے گھر میں کیا کمی ہے‘ ہر چیز میسر ہے۔ اس کے باوجود مزید کی طلب یہ توسراسر لالچ ہوا۔‘‘ خاور بھی غصے سے کہہ رہا تھا‘ نجانے نصرت بیگم نے جواب میں کیاکہا تھا وہ سنے بغیر پلٹ آئی تھیں۔
چند دن وہ پریشان رہی تھیں اور پھر ایک دن انہوں نے فوزیہ کو بٹھا کر اس کے دل کی بات جاننا چاہی تھی۔ فوزیہ خاور کے جذبات و احساسات سے قطعی لاعلم تھی ان کے سامنے تو اس نے لاعلمی کا ہی اظہار کیا تھا اور پھر انہیں تو شاید ضد سی ہوگئی تھی لاشعوری طور پر وہ فوزیہ کے لیے صرف وہی رشتہ دیکھنے پر تیار ہوتی تھیں جو نصرت جیسے لوگوں کی مالی حیثیت سے بلندہو۔ ان کے دل میں یہ خیال ضد پکڑ چکا تھا کہ وہ فوزیہ کو ایک بہت اچھے اور امیر گھرانے میں بیاہیں گی تاکہ نصرت بیگم کے سامنے گردن اکڑا کر چل سکیں مگر وقت نے گویا الٹی چال چل دی تھی۔ وہی نصرت بیگم جو فوزیہ سے انکار کے بعد اب اپنی بھانجی کی طرف سے نا امید ہوکر ان کے گھر آئی تھیں تو ان کو انکار کرکے وہ مطمئن تھیں کہ انہوں نے عرصہ پہلے کی جانے والی اپنی تذلیل کا بدلہ لے لیا ہے۔
…٭٭٭…
مریم کا غم و غصے سے بُرا حال تھا۔ ابو جی اس کی پہلے ہی کافی سنتے تھے اس نے ان سے جاکر سب کہہ ڈالا۔ دوسری طرف نبیلہ بیگم کے انکار پر نصرت بیگم کی بھی انا بلند ہوچکی تھی وہ اب دوبارہ کسی بھی سلسلے میں اس گھر میں نہیں آنا چاہتی تھیں۔ صبا تمام صورت حال بگڑنے پر ازحد پریشان تھی۔ اس نے مریم کے مشورے پر خاور بھائی کو کال کردی تھی ۔ خاور تو اس سارے سلسلے سے ہی بے خبر تھا حتیٰ کہ کرشمہ سے رشتہ ختم ہوجانا ہی ایک شاکنگ نیوز تھی اوپر سے نصرت بیگم کا فوزیہ کا رشتہ لے کر جانا اور نبیلہ چچی کا انکار وہ اسی شام لوٹ آیا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد امی ابو کے کمرے میں وہ چاروں موجود تھے۔ بحث وہی مسئلہ تھا۔
’’آپ لوگ مجبور مت کریں اب اس گھر میں دوبارہ نہیں جانے والی۔‘‘ امی اپنی تذلیل نہیں بھول رہی تھیں اور ابو جی کی عدالت میں مقدمہ تھا خاور نے بے چین ہوکر ابو جی کو دیکھا انہوں نے آنکھ کے اشارے سے چپ رہنے کو کہا۔ صبا مطمئن تھی اسے امید تھی کہ ابو جی امی کو مناکر ہی اب اٹھیں گے۔
’’چلو تم نہ جانا میں جاکر بات کرلیتا ہوں‘ بھائی صاحب اور بھابی بیگم سے۔ بھئی ہمیں اپنے بچوں کی خوشی دیکھنی ہے۔ کرشمہ کے لیے تم نے زور دیا اور پھر منگنی کردی میں نے خاموشی اختیار کی‘ اب تم نے خود ہی وہ رشتہ ختم کیا ہے تو دو تین بار تمہیں جاکر بات تو واضح کرنا چاہیے تھی نا۔ اس نے انکار کردیا تو کیا‘ غرض تو ہمیں ہے نا۔‘‘ ابو جی رسانیت سے کہہ رہے تھے۔
’’اس نے میری صاف بے عزتی کی ہے۔ میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مل جائے گی۔ میں نہیں وہاں جاکر دوبارہ ناک رگڑنے والی‘ ہے کس بات کا غرور ہے اسے۔ میں بھی اب فوزیہ سے بہتر لڑکی ڈھونڈ کر دکھائوں گی۔‘‘ ان کا وہی ہٹیلا انداز قائم تھا۔ ابو جی کے چہرے کے زاویئے بگڑے۔
’’یعنی پہلے کی طرح تم اب پھر لوگوں کے گھر جاکر ان کی بچوں میں خامیاں نکالا کرو گی۔‘‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’ اپنے اکلوتے لائق فائق کے لیے اسی کے جوڑ کی لڑکی ڈھونڈوں گی‘ جو بھی دیکھے حیران ہوجائے ایسی ہی بہو لائوں گی۔‘‘ امی جی کی خواہش پھر ابھر آئی تھی۔
’’مجھے یہ لگا تھاکہ شاید کرشمہ کے رشتے سے انکار کے بعد تم سنبھل گئی ہوگی۔ صد افسوس تمہاری ذہنی حالت تو پہلے سے بھی خراب ہے۔ بہت عرصہ میں خاموش رہ لیا۔ تم اکلوتے لائق فائق بیٹے کی ماں ہو اللہ کا شکر ادا کرو کہ کسی بدتمیز جاہل اور اپنی من مانی کرنے والے بیٹے کی ماں نہیں ہو‘ اس نے پہلی بار جب اپنی خواہش کا اظہار کیا تم نے اپنی خود پسندی میں انکار کردیا‘ تمہارا بیٹا خاموش ہوگیا‘ کوئی ہوتا ایسا ویسا تو اپنی ضد پوری کرتا۔ ماں کے انکار کو ایک طرف کرکے خود شادی کرلیتا‘ اب بھی وہ صلح صفائی سے دوبارہ جانے کو کہہ رہا ہے‘ اگر تم چلو گی تو ٹھیک ورنہ میں صبا اور خاور ایک فیصلہ کرچکے ہیں‘ میں کل صبح جاکر بھائی صاحب سے بات کرنے والا ہوں‘ تمہاری ضد میں میں اپنے بیٹے کی خوشیاں نہیں قربان کرنے والا۔‘‘
’’اور… اور میری جو نبیلہ نے بے عزتی کی ہے انکار کرکے…؟‘‘ وہ شوہر کے دو ٹوک انکار پر صدمے سے بے حال ہورہی تھیں۔
’’اور تم پچھلے کئی سالوں سے بھابی بیگم‘ ان کے بچوں کے ساتھ جو سلوک کرتی آرہی ہو‘ شکر کرو بھابی بیگم نے صرف انکار کیا ہے وہ اگر اپنی ساری پچھلی بے عزتی کابدلہ لینے لگتیں تو تم اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ذلیل کرواتیں۔‘‘ خاور نے حیرانی سے باپ کو دیکھا وہ انہیں جتنا لاعلم سمجھ رہا تھا‘ وہ اتنے ہی باخبر تھے۔
’’میں اب وہاں نہیں جانے والی۔‘‘ انہوںنے اب کے جھنجلا کر انکار کیا تھا۔
’’سوچ لو تمہیں اپنے بیٹے کی خوشی سے بڑھ کر اگر اپنی انا عزیز ہے تو بے شک مت جائو۔ میں تو کل ہی جائوں گا۔‘‘
’’اور اگر اب پھر انکار ہوا تو؟‘‘ شوہر کا دو ٹوک انداز دیکھ کر ان میں بھی ذرا نرمی آئی۔
’’تو کیا حرج ہے۔ غرض ہمیں ہے اگر ہاں کروانے ہمیں بار بار بھی جانا پڑے تو جائوں گا کیونکہ اس میں ہی میرے گھر اور میرے بیٹے کی خوشیوں کا سوال ہے۔‘‘ اب کے امی مکمل لاجواب ہوکر رہ گئی تھیں۔ صبا نے ایک گہرا سانس لے کربھائی کو دیکھا خاور کے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
…٭٭٭…
ابو جی نے چچا سے بات کی تو انہوں نے بیگم سے بات کرکے جواب دینے کو کہا اور جب انہوں نے نبیلہ بیگم سے بات کی تو انہوں نے فوراً انکار کردیا۔
’’میں انکار کرچکی ہوں۔ وہ بات ختم‘ بار بار دہرانے کا فائدہ نہیں…‘‘ مریم ہمیشہ کی طرح اب بھی اس اہم موضوع پر موجود تھی‘ اس نے فوراً ابو جی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’دیکھا ابوجی امی نے پہلے بھی ایسے ہی انکار کیا تھا۔‘‘ امی نے گھور کر بیٹی کو دیکھا۔
’’تمہیں کتنی دفع کہا ہے کہ بڑوں کے معاملے میں مت دخل اندازی کیا کرو۔ جائو دفعہ ہوجائو یہاں سے۔‘‘
’’بُری بات ہے نبیلہ! جوان بیٹیوں کو ایسے نہیں جھڑکتے۔‘‘ ابو نے فوراً ٹوک دیا۔
’’شکر کرو ہمارے بچے بڑے سمجھ دار ہیں۔ بڑے اگر غلط فیصلہ کررہے ہوں اور بچے مشورہ دیں تو ان کی بات سننے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ مریم نے ایک دم گردن اکڑائی۔
’’تمہیں کس بات پر اعتراض ہے؟‘‘ ابو جی نے بڑے پُرسکون انداز میں پوچھا۔
امی جی نے ایک گہرا سانس لیا اور دل میں تکلیف دیتا راز اگل ڈالا‘ ابو جی سکون سے سنتے رہے اور مریم خاموش رہی۔
’’ہوں تو یہ بات تھی۔‘‘ ساری بات سن کر وہ بولے۔
’’ہاں اب نصرت کو جب اس کی بھانجی کی اصلیت واضح ہوئی ہے تو اسے میری فوزیہ نظر آگئی۔ میں جذباتی ہوکر ہاں کہہ بھی دوں تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ فوزیہ کو دل سے مان کر وہی اہمیت دے گی جو بہو کی حیثیت سے وہ حق رکھتی ہے۔ گلے میں پڑا ڈھول تو ہر کوئی بجاتا ہے‘ اگر وہ دل سے راضی ہوتی تو میرے انکار پر اٹھ کر کیوں چل دیتی‘ بار بار آتی بات کرتی۔ میں ماںہوں اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اپنے سسرال میں خوش اور عزت کی زندگی گزارے۔‘‘ امی جی نے دل کی بات کہی۔
’’دیکھو نبیلہ! یہ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں کدورت پیدا کرتی ہیں۔ خاور بہت اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ صبا اور مریم میں‘ میں کوئی فرق نہیں سمجھتا اور سب سے بڑھ کر ہماری بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگی۔ فوزیہ گھر بنانے کا فن جانتی ہے‘ رہ گئیں نصرت بہن تو جب دونوں کو اکٹھے رہنے کا موقع ملے گا تو سب اعتراض ہوا ہوجائیں گے۔‘‘
’’اور نصرت کی وہ لمبے چوڑے جہیز‘مال اسباب کی خواہش۔‘‘
’’خاور اور اس کے باپ نے کہہ دیا کہ انہیں جہیز کا لالچ نہیں ہے۔ وہ بغیر جہیز کے فوزیہ کو بیاہنا چاہتے ہیں مگر ہم بھی بیٹی والے ہیں کچھ دے دلا کر ہی رخصت کریں گے۔ میرا خیال ہے اپنی بھانجی کی طرف سے انکار پر نصرت بہن کی سوچ کسی حد تک بدل گئی ہے‘ رہ گئی فطرت بدلنے کی بات تو وہ تو نہیں بدل سکتے‘ اب ایک بندے کی وجہ سے تم اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے جانے دوگی؟‘‘ ابو جی اب کے سوالیہ نظروں سے اپنی شریک حیات کو دیکھ رہے تھے اور امی جی کوئی جواب نہ پاکر بے بسی سے مسکرادی تھیں۔
…٭٭٭…
عندلیب بھابی پاکستان آگئی تھیں۔ فوزیہ اور خاور کی بات طے ہوچکی تھی۔ صبا اور مریم کی وہی حرکتیں تھیں۔ نصرت بیگم دھوم دھام سے منگنی کرنا چاہ رہی تھیں‘ رمضان شروع ہوچکا تھا۔ بازاروں کے چکر اوراوپر سے روزے کی حالت ایسے میں ردا‘ عمر او رسکندر بھی چکر لگالیتے۔تایا ابو نے لگے ہاتھوں آمنہ اور مریم کا بھی رشتہ مانگ لیا تھا۔
امی کے دل میں ایک پھانس اٹکی ہوئی تھی کہ تایا ابو نے فوزیہ کو چھوڑ کر مریم کا نام لیا اگر وہ ان کے حقیقی خیرخواہ ہوتے تو فوزیہ کے سلسلے میں انہیں باہر کیوں چکر لگانے پڑتے۔ اپنے گھر میں ہی بات طے ہوجاتی اور مریم کا بھی کہیں ہوجاتا۔ اس وقت بھی تایا ابو‘ نانی امی اور دادی سمیت آئے بیٹھے تھے۔ وہ جو ہر وقت ادھر اُدھر کی سن گن لیتی رہتی تھی‘ اب صبا‘ ردا‘ آمنہ اور فوزیہ کے نرغے میں گھری کافی حواس باختہ سی ہورہی تھی۔ اوپر سے خاور بھائی ‘ وقار‘سکندر کے علاوہ عمر کی موجودگی ۔
’’تمہارا بھائی کیوں آیا ہے؟‘‘ وہ ردا کے کان میں منمنائی۔ یہ سب لوگ اس وقت مریم کے گھر کی چھت پر بیٹھے تھے‘ لڑکے خاور کے گھر کی دیوار پھلانگ کر آئے تھے۔
’’تمہاری اطلاع کے لیے غرض ہے کہ میرا صرف ایک بھائی نہیں دونوں یہاں موجود ہیں اور معاملہ صرف ایک کا طے نہیں ہورہا دونوں کا زیر غور ہے۔‘‘
’’زیاد خوش فہمی کی ضرورت نہیں‘ میری امی ہامی بھرنے والی نہیں۔‘‘ خاور بھائی کی کسی بات پر ہنستا عمر اسے جی بھر کر زہر لگا۔
’’کوئی بات نہیں‘ میرے بھائی میں لڑکی بھگانے کے گٹس موجود ہیں۔‘‘ ردا کون سا کسی سے کم تھی اور اگر بات ہو اس کے چہیتے بھائی کی تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی تھی۔
’’ہائے… ہائے! بڑی خوش فہمیاں ہیں۔‘‘
’’ارے کوئی نیچے تو جائے‘ خیر خبر لائے۔‘‘ آمنہ نے دہائی دی۔
’’تمہیں بڑی جلدی ہے۔‘‘ سکندر نے ٹکڑا لگایا۔
’’ظاہر ہے تم جیسے انسان کے ساتھ مستقبل برباد ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے موصوفہ کو۔‘‘ فوزیہ نے ہنس کرکہا‘ سکندر نے آنکھیں دکھائیں۔
’’یہ مجھ جیسے سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘‘
’’وہی جو سمجھ لو۔‘‘ صبا کھلکھلائی۔
’’میں پتا کرتی ہوں۔‘‘ صبا کہہ کر نیچے بھاگ گئی تھی۔
نیچے امی کے کمرے میں محفل جمی ہوئی تھی اور نقشہ چینج تھا‘ صبا کو شدید جھٹکا لگا۔ نبیلہ بیگم کے ساتھ ایک اور نیا چہرہ بلکہ چند نئے چہرے وہاںموجود تھے۔
’’دیکھیں میں بار بار سوالی بن کر آرہی ہوں‘ مجھے نا امید مت کریں۔ آپ کے گھرانے میں رشتہ جوڑنا میری خوش قسمتی ہوگی۔ آپ کی ماشاء اللہ دونوں بیٹیاں دل کو بھائیں‘ چھوٹی کا اس لیے کہا کہ میرا بیٹا بہت شرارتی مزاج اور ہنس مکھ طبیعت والا ہے مگر اب آپ بتارہی ہیں کہ آپ نے بڑی کی بھی بات طے کردی ہے اور چھوٹی بچی ہے اب…‘‘ صبا حیرت سے کھڑی تھی۔ نجانے یہ کیا ماجرا تھا۔ کہیں یہ بینک منیجر کی والدہ تو نہیں؟ اس نے کھڑکی میں مزید سر گھسایا۔
’’آپ کا گھرانہ مجھے خود بڑا پسند آیا تھا مگر بچوں کی قسمت۔‘‘
’’ہماری توشروع سے ہی مرضی تھی بس فوزیہ کی بات طے ہوجانے کاا نتظار تھا مجھے‘ ہم آج اپنے دونوں بچوں کا رشتہ مانگنے آئے ہیں۔‘‘ یہ تائی بیگم کہہ رہی تھیں۔
صبا نے سر تھام لیا۔ یعنی یہاں ایک نہ شد دو شد والی کیفیت تھی۔
’’پلیز مجھے انکار مت کریں۔‘‘ بینک منیجر کی والدہ کہہ رہی تھیں۔
’’ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔‘‘ یہ دادی جان کا بیان تھا۔ اس سفید جھوٹ پر صبا کو لگا اس کا سر گھوم گیا ہے۔
’’حرج تو کوئی نہیں‘ آمنہ کا بھابی رشتہ مانگ رہی ہیں اس کی ادھر کردیتے ہیں اورمریم کی اُدھر۔‘‘ یہ نبیلہ خاتون کی آواز تھی اور صبا کو لگاکہ اس کا ہارٹ اٹیک ہونے والا ہے۔
’’کیا کہہ رہی ہو۔‘‘دادی جان فوراً بولیں۔
’’‘مریم…!‘‘ صبا باہر بھاگی تھی اور اندھا دھند بھاگی تھی اوریہ دیکھے بغیر کہ دروازہ کھول کر ایک لڑکا اور لڑکی اندر داخل ہوئے تھے اور اس کا وجود سوٹڈ بوٹڈ وجود کے ساتھ جا ٹکرایا۔
’’اللہ…!‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی تھی اور دھڑام سے چکنے فرش پر گری تھی۔
’’ارے آپ ٹھیک تو ہیں۔‘‘ وہ لڑکا اور لڑکی پریشان ہوکر اس کی طرف بڑھے تھے بلکہ اندر موجود میٹنگ میں مصروف حضرات بھی باہرلپکے تھے اور وہاں صبا کو گرے دیکھ کر سبھی چونکے تھے اور صبا نے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
…٭٭٭…​
’’نہیں یہ نہیں ہوسکتا…بالکل نہیں ہوسکتا۔ میں مرجائوں گی‘ زہر کھالوں گی مگر اس سود خور کی ڈولی میں نہیں بیٹھوں گی۔‘‘ مریم کے ڈائیلاگ نقطہ عروج پر تھے مگر کسی پر اثر نہیں ہورہا تھا۔
بھوک ہڑتال‘ احتجاج‘ انکار سب کر دیکھا تھا مگرامی کا فیصلہ پتھر پر لکیر تھا گویا قصہ مختصر یہ تھا کہ اس دن اچانک اس بینک منیجر کی والدہ محترمہ تشریف لے آئی تھیں نبیلہ خاتون کو فوزیہ والے قصے سے ہٹ کر مریم کے لیے یہ رشتہ مناسب لگا تھا چونکہ آمنہ اور سکندر کے لیے راضی تھیں اور خاور کے لیے بھی مان گئی تھیں تو جہاں اتنے لوگ ایک طرف تھے وہ تنہا اس رشتہ پر راضی تھیں اور پھر اس دن نانی‘ دادی‘ تائی اور باقی سب لوگ بڑے غم زدہ رخصت ہوئے تھے۔ وہیں بینک منیجر کی والدہ صاحبہ بڑی خوش خوش رخصت ہوئی تھیں اور امی جی بہت مطمئن تھیں‘ امی جیا کیا باقی سب بھی بہت مطمئن تھے بلکہ اسی شام تایا کے گھر سے مٹھائی آئی تھی۔ پورے محلے میں بانٹی گئی تھی اور رمضان میں ہی افطار کے بعد ایک دن منگنی کا طے تھا۔ مریم کی رمضان میں روزہ کی حالت میں بھوک ہڑتال کسی کام نہ آئی تھی آج کل وہ خاموش تھی پر کسی کو پروا ہی نہ تھی۔ اوپر سے ردا اور عمر کی کالز‘ طعنے جذباتی ڈائیلاگز دو دن تو وہ خاموش رہی مگر جوں جوں منگنی کے دن قریب آرہے تھے اس کو رونا آرہا تھا۔ اوپر سے صبا کی دل جلادینے والی باتیں۔
’’اور عمر بھائی کا دل دکھائو… انہوں نے دل سے بد دعا دی ہوگی اب بھگتو۔‘‘
’’ہاں ساری بددعائیں مجھے ہی دینی تھیں موصوف نے اور ہر بار میںہی بھگتوں۔ میں نے کون سا غلط کیا تھا ان کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی‘ اپنی ذات سے مطلب رکھا اور الٹا مجھے ہی الزام۔‘‘
’’محبت کرنے لگی ہو ان سے۔‘‘ وہ یہ سوال پوچھ کر اور زچ کرتی۔
’’مر بھی جائوں تو کبھی ان کا نام نہیں لوں گی‘ مگر اس سود خور سے بھی شادی نہیںکروں گی۔ بے شک زہر کھانا پڑے۔‘‘ فوزیہ دہل کر اسے بازئووں میں لے کربہلاتی جب کہ عندلیب بھابی مسکرادیں۔
’’اس وقت بھی وہ سب کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز ہوکراوپر گئی تھی۔ نجانے کیوںدل بار بار بھر آتا تھا۔ افطاری میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا‘ نیچے سبھی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے زمین پر ٹک گئی گرم زمین تھی مگر اسے پروا ہی نہیں تھی۔
عمر نے گھر میں قدم رکھا تو آمنہ اور عندلیب کچن میں تھیں جبکہ فوزیہ مشین پر کچھ سلائی کر رہی تھی سلام دعا کے بعد عمر نے ادھر ادھر جھانکا۔
’’چچی کہاں ہیں؟‘‘ وہ کچن کی ہی طرف آگیا تھا۔
’’صبا کے ہاں گئی ہیں نصرت چچی نے بلوایا تھا۔ چچا کام پر اور وقار اکیڈمی۔ آنے والے ہیں یہ لوگ بھی۔ تم بیٹھو۔‘‘ عندلیب نے بھائی کو جواب دے کر کہا اور ساتھ اسٹول بھی کھسکایا۔
’’اور وہ باگڑ بلی نظر نہیں آرہی؟‘‘ آمنہ ہنس دی۔
’’توبہ کریں‘ بہت موڈ خراب ہے آج کل اس کا۔اس وقت بھی ہم سے لڑ کر چھت پر گئی ہے۔‘‘ عندلیب نے بھی ہنس کر کہا۔
’’اس کا مطلب ہے مزاج خراب ہے۔‘‘
’’جی ہاں اگر آپ سامنے گئے تو پھر گولہ باری کی بھی توقع رکھیں۔‘‘ آمنہ نے ڈرانا چاہا مگر وہ سنی ان سنی کرتا تیزی سے اوپر کی طرف چلا گیا۔
وہ بر آمدے میں زمین پر گھٹنوں پر بازو لپیٹے سر گرائے بیٹھی ہوئی تھی۔
’’مریم۔‘‘ کچھ پل سرکنے کے بعد اس نے پکارا تو اس نے سرعت سے سر اٹھایا۔
بھیگی پلکیں اور سرخ ناک شاید وہ روئی تھی عمر کے دل کو کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
’’آپ… آپ ادھر کیوں آئے ہیں۔ آپ کو اپنے گھر میں چین نہیں پڑتا۔‘‘ جواب حسب توقع تھا۔ عمر کا خوش فہم دل ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ وہ بھیگی پلکیں بے دردی سے دوپٹے سے رگڑتے کھڑی ہوگئی تھی۔
نجانے اس لڑکی کے دل میں کیا تھا کاش وہ اس کے دل کا حال جانتا تو وہ سب کے سامنے ڈٹ جاتا محض اپنی خواہش کے بل بوتے پر وہ یک طرفہ کارروائی کرتا بھی تو کیسے؟
’’رو کیوں رہی تھیں؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا۔
’’ہنسنے کی بھی کوئی خاص وجہ نہیں بنتی۔‘‘
’’خیر یہ تو مت کہو‘ بینک منیجر سے منگنی کرنے جارہی ہو‘ ہنسنے اور خوش ہونے کے لیے یہ تو بہت معقول وجہ ہے۔ سنا ہے خاصی اسٹرونگ فیملی ہے۔‘‘ مریم کا جی چاہا کہ کوئی چیز اس کے سر پر دے مارے اس وقت عمر اسے اتنا ہی زہر لگ رہا تھا۔
’’شٹ اپ۔‘‘ وہ پھنکاری تھی جواباً وہ ہنس دیا پھر تھوڑا سا جھک کر مسکرا کر کہنے لگا۔
’’وہ کہتے ہیں نا کہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ میں تو مبارک باد دینے آیا تھا پھر سوچا دیکھتا چلوں کہ مستقبل قریب میں سود خور ایم سوری بھئی بینک منیجر کی بیگم بننے جا رہی ہو کوئی فرق شرق ہی پڑ گیا ہوگا۔‘‘ مریم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
’’اگر آپ کی بکواس بند ہوگئی ہے تو اب جا سکتے ہیں۔‘‘ وہ رخ بدل کر کھڑی ہوگئی تھی۔ آنکھیں ایک دم بھر آئیں نا حق وہ رو رہی تھی اس شخص کو تو کوئی خاص فرق ہی نہیں پڑا تھا۔ پہلے ہی کی طرح مطمئن
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اور پر سکون انداز تھا۔ اس کا دل جل کر خاک ہونے لگا۔ یہ لڑکے ہوتے ہی ایسے ہیں فلرٹی دھوکے باز۔ اس کا دل بھی بھر آیا۔
عمر اسے چند پل دیکھتا رہا۔ وائٹ پاجامے پائوں کو چھوتی بلیک قمیص اور سر پر جما دوپٹا جو بہت سلیقے سے گردن کندھوں اور سینے کو ڈھانپے نیچے تک آرہا تھا۔
یہ لڑکی زبان کی جتنی بھی کڑوی تھی مگر جانتا تھا کہ دل کی اتنی ہی اچھی اور کردار کی مضبوط ہے۔ وہ بارہا اس کی طرف آیا تھا بڑے واضح الفاظ میں دل کا راز آشکارا کیا تھا مگر نجانے کیا چیز تھی جو یہ لڑکی ابھی تک چٹان کی طرح اپنی جگہ جامد تھی۔ ورنہ وہ اس قابل تو تھا کہ کوئی بھی لڑکی رد کرنے سے پہلے سوچے گی تو ضرور۔
’’سیانے کہتے ہیں کہ وقت پر دل کی بات کہہ دینا فائدہ مند ہوتا ہے ابھی بھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ صلح کا پرچم لہرا دو ہم محاذ جیتنے کو تیار ہیں جناب! اگر تم ہاں کردو تو…‘‘ وہ گھوم کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا اور مسکرا کر کہا۔ مریم نے خاموشی سے اسے دیکھا۔
’’آپ کو شاید میری کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ ہمارے بڑوں کا فیصلہ ہے وہ جو مرضی کریں میں کیوں انکار کروں۔‘‘
’’تو رو کر اس طرح ماتم کیوں کر رہی ہو؟‘‘ عمر نے ایک اہم پوائنٹ کی طرف نشاندہی کی تھی۔
’’کم از کم آپ کے لیے تو نہیں رو رہی اس خوش فہمی سے نکل آئیں آپ۔‘‘ خاصا چٹخ کر جتانا چاہا تھا‘ عمر ہنس دیا۔
’’تو پھر وہ کون ذات شریف ہے‘ جس کے لیے بھر پور احتجاج کیا گیا ہے۔‘‘ مریم کو لگا اس کی پیشانی جل اٹھی تھی احساس توہین سے۔
’’آپ مجھ پر الزام تراشی کر رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں ویسے ہی احساس دلانا چاہ رہا ہوں کہ اگر کوئی وجہ بھی نہیں تو پھر یہ رونا دھونا بھی کیوں؟‘‘عمر کا انداز سنجیدہ تھا اس نے بہت غصے سے اسے دیکھا۔
’’کم از کم آپ کے لیے نہیں رو دھو رہی اور خبردار آئندہ میرے سامنے آکر ان الفاظ میں مجھ سے باز پرس کی تو میں بہت لحاظ کر چکی آپ کا اب کے مجھ سے کچھ کہا تو سیدھا ابو جی کے پاس جا کر بات کروں گی۔‘‘ اس نے ہمیشہ والی دھمکی دہرائی۔
’’بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔‘‘ وہ عمر کی اس گنگناہٹ پر پائوں پٹختے وہاں سے پلٹی اور عمر پر ایک کھا جانے والی غصیلی نگاہ ڈالتے تیز تیز قدم اٹھاتے سیڑھیاں اترتی چلی گئی تھی۔
عمر چند ثانیے تک بڑی سنجیدگی سے سینے پر ہاتھ رکھے کچھ سوچتا رہا۔
…٭٭٭…
وہ جو ہر چیز سے حد درجہ بے زار تھی خاموش ہوگئی۔ گھر میں ایک نہیں کل تین منگنیاں تھیں۔ فوزیہ کی خاور کے ساتھ آمنہ کی سکندر کے ساتھ اور اس کی اس بینک منیجر ثوبان احمد کے ساتھ اور حیرت کی بات یہ تھی منگنی کی تمام تیاریاں ثوبان احمد کی والدہ ہر روز آکر صبا اور اس کی والدہ کو ساتھ لے جا کر کر رہی تھیں اور ہر روز شاپنگ سے واپسی پر آکر صبا خریداری کی تفصیل بتاتے مریم کا دل جلاتی رہتی تھی۔
ابو جی‘ تایا ابو‘ خاور بھائی کے والد اور ثوبان سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ منگنی کا فنکشن ایک ہی جگہ اور ایک ہی دن طے پا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا آخری عشرہ چل رہا تھا تیسئویں روزے کی افطاری کے بعد دن طے ہوا تھا۔ دونوں طرف کے فنکشنز ایک ہی دن تھے۔ گھر کے ساتھ کا خالی پلاٹ خاصا وسیع اور صاف ستھرا تھا خاور بھائی کے ابو نے کئی سال پہلے خریدا تھا اب وہ لاکھوں کی مالیت کا تھا۔ کھانے پینے کا خرچہ مل کر کرنا تھا جب کہ باقی کی تیاری خاور بھائی کے والد صاحب نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔
صبح سے گھر میں خاصی افراتفری تھی۔ کچھ روزے کی حالت میں یہ بھاگ دوڑ‘ مریم خاموشی سے سب کی کارروائی دیکھ رہی تھی۔ عندلیب بھابی نے بیوٹیشن کا کورس کر رکھا تھا۔ وہ بہت اچھی بیوٹیشن تھیں۔ فوزیہ اور آمنہ کو تیار کرنے کے بعد جب صبا کو انہوں نے کرسی پر بٹھایا تو مریم چونکی۔ صبا کا لباس انداز چہرے کی خصوصی تیاری کچھ نیا پن تھا۔ وہ ابھی نہا کر نکلی تھی۔ عصر کے بعد کا وقت تھا‘ مہمان آنا شروع ہو چکے تھے۔ باجی باہر امی کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور عندلیب اندر ان کے ساتھ مصروف تھیں۔ فوزیہ اور آمنہ پیاری لگ رہی تھیں۔ رات ہی نصرت آنٹی تائی بیگم اور ثوبان کی والدہ آئی تھیں دلہنوں کے خصوصی لباس لے کر وہ صرف سلام دعا کرکے کمرے میں گھس گئی تھی اس نے اپنے لیے آنے والا لباس تک دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’اسے کیوں تیار کر رہی ہیں اس کو کس پاگل کے لیے باندھنا ہے؟‘‘ بالوں کو سلجھاتے اس نے غصے سے کہا۔ آج کل جس طرح اپنے بھائی کا کام سیدھا ہوجانے کے بعد صبا نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر رکھی تھیں۔ اسے اس بات کا بھی بہت دکھ تھا۔
صبا کے چہرے پر بیس بناتے بھابی ہنس دیں اور صبا بھی آنکھیں بند کیے مبہم سا مسکرا دی۔
’’ہوسکتا ہے کوئی بینک منیجر اسے بھی مل ہی جائے۔‘‘ بھابی کا انداز ذومعنی تھا۔
’’ہاںمفت جو بٹ رہے ہیں۔‘‘ برش ٹیبل پر پھینک کر وہ الماری میں سر دے کر کھڑی ہوگئی۔ آمنہ اور فوزیہ بے ساختہ ہنس دیں۔
صبا کے تیار ہونے کے بعد اس کی باری تھی۔ عندلیب کے دیے ہوئے لباس کو لے کر وہ باتھ روم میں گھس گئی تھی۔
صبا بھی تیار ہوکر آمنہ اور فوزیہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور اس کی یوں سج دھج خصوصاً دلہنوں والا روپ دیکھ کر مریم کو پریشانی ہو رہی تھی۔
ان تینوں بہنوں کی تیاری تو موقع محل کے مطابق تھی مگر صبا کا اس قدر اہتمام اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ عندلیب اسے تیار کرنے لگی تو اس کی نظریں صبا پر ٹھہر گئیں۔
’’تم اس قدر کیوں تیار ہوئی ہو اور تمہیں یہ کپڑے آج ہی پہننے تھے کیا؟‘‘ اس کے سوال پر صبا ہنس دی۔
’’کیا پتا تم لوگوں کے ساتھ میری بھی کہیں بات بن جائے۔‘‘ اب کے مریم واقعی چونکی۔ صبا کے لہجے میں واقعی کچھ تھا۔
’’مطلب؟‘‘ اس نے بھابی اور اپنی بہنوں کو دیکھا۔
’’آج کے فنکشن میں صبا کی بھی منگنی ہے۔‘‘ بھابی نے ہنس کر بتایا بلکہ انکشاف کیا۔
’’ کیا…؟ مگر کس سے؟‘‘ وہ حیرت زدہ رہ گئی تھی۔
’’سرپرائز ہے خصوصاً تمہارے لیے۔ کچھ دیر اور انتظار کرلو۔‘‘ وہ سب کی ہنسی اور بھابی کے الفاظ پر دیکھتی رہ گئی۔
بھابی نے اسے تیار کرکے جیولری پہنائی۔ آخر میں دوپٹا سیٹ کرکے بغور اسے دیکھا۔
’’ماشاء اللہ! بہت پیاری لگ رہی ہو۔‘‘ بھابی نے اس کی پیشامی چوم لی تبھی ان کا موبائل بجنے لگا۔
’’ایک تو اس لڑکے کو بھی چین نہیں۔‘‘ موبائل دیکھتے ہی بھابی ہنسیں۔
’’کون عمر بھائی ہیں؟‘‘ وہ صبا کے الفاظ پر سر جھکا گئی۔
’’ہاں! عمر ہے۔‘‘
بھابی کال اٹینڈ کر چکی تھیں ایک دو باتوں کے بعد بھابی نے موبائل مریم کی طرف بڑھایا۔
’’عمر تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’مجھ سے؟‘‘ اس وقت عمر کی کال آنے پر وہ خاصی ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ صبا نے معنیٰ خیز نظروں سے گھورا جب کہ فوزیہ اور آمنہ مسکرا دی تھیں۔
’’وہ کوئی ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘ بھابی اسے موبائل تھما کر بکھرا سامان سمیٹنے لگی تھیں ابھی تو انہوں نے خود بھی تیار ہونا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ صبا اور بہنوں کو نظر انداز کرتے اس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’مبارک ہو! سنا ہے سارے اعتراضات بھلائے بڑی نیک بی بی بلکہ خاموش بی بی بن گئی ہو۔ عام حالت میں تو محترمہ کے یوں بھی مزاج نہیں ملتے مگر آج تمہارا خصوصی دن ہے یقیناً بہت خوب صورت لگ رہی ہوگی۔‘‘ وہ آج بھی دل جلانے سے باز نہیں آیا تھا اور مریم کا دل واقعی جل کر خاک ہوگیا۔
’’شٹ اپ۔‘‘ آواز آہستہ ہی رکھی تھی کمرے میں وہ تنہا نہیں تھی۔
’’شاباش! تمہارا یہی انداز تو سننا چاہ رہا تھا اب جناب کی پل پل کی رپورٹ مل تو رہی تھی مجھے امید تھی منگنی کا جوڑا پہنے خوب واویلا مچائو گی مگر اس قدر شرافت ہضم نہیں ہو رہی ۔ میں نے سوچا طبیعت ٹھیک ہو۔ مزاج دشمناں بہتر ہو۔ بس تمہارا حال چال پوچھنے کو دل چاہ رہا تھا۔‘‘
’’کیا بکواس ہے یہ۔‘‘ وہ اب اپنے لہجے پر واقعی قابو نہیں رکھ پائی تھی۔
دوسری طرف وہ کھل کر ہنسا۔
’’بکواس نہیں بلکہ نیک فرمودات کہو۔ ویسے میں منگنی میں آ تو رہا ہوں باقی باتیں آمنے سامنے ہوں گی۔ بہت سے حساب باقی ہیں جو بے باق کرنے ہیں اور ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ سود خور سودی میرا مطلب ہے کہ بینک منیجر کے نام کی انگوٹھی پہن کر کیسی لگتی ہو تم؟‘‘
عمر کے الفاظ ایسے تھے کہ اس کا دل ایک دم بھر آیا۔ غصے سے موبائل آف کرکے بستر پر پھینکا اور خود دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ایک دم رودی۔
’’ارے… ارے یہ کیا کر رہی ہو؟ کیا کہہ دیا عمر نے؟‘‘ بھابی اور باقی تینوں فوراً پریشان ہوکر اس کی طرف لپکی تھیں۔
…٭٭٭…
افطاری اور کھانے کے بعد رسم کا شور اٹھا تھا۔ اچھے خاصے مہمان تھے۔ کبھی بھی کسی بھی حال میں نہ گھبرانے والی مریم اس وقت اچھی خاصی کنفیوژ ہوچکی تھی۔ وہ مسلسل سر جھکائے ہوئے تھی۔ باہر مخصوص پلاٹ میں بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا لائٹنگ کھانے کا بھرپور انتظام کے علاوہ اسٹیج بڑی خوب صورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔
بڑوں کے کہنے پر رمشا اور عندلیب ان سجی سنوری دلہنوں کو لے کر اسٹیج پر چلی آئی تھیں۔ کمبائن فنکشن تھا۔ ویسے یہ خاندان کا یادگار فنکشن تھا جس میں بڑے اپنے خیالات بدلتے لڑکا لڑکی کی ایک ہی جگہ منگنی کر رہے تھے۔

’’میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے۔‘‘ عندلیب نے جب لاکر اسے بٹھایا تو اس نے روہانسے لہجے میں کہا۔ عندلیب نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟ جوس منگوا دوں۔ افطاری کے بعد تو تم نے کچھ کھایا بھی نہیں۔ کمزوری ہو رہی ہوگی۔‘‘ اس کے سرد ہاتھ کی کپکپاہٹ بڑی واضح تھی مریم کی آنکھوں کی نمی گہری ہوئی۔
’’میری طبیعت خراب ہو رہی ہے‘ بس جلدی سے کمرے میں لے جائیں۔‘‘ عندلیب نے گھبرا کر دیکھا تو اپنی اپنی مائوں کے پہلو میں چاروں دولہا اسٹیج پر آرہے تھے۔
’’تھوڑی دیر بیٹھ جائو‘ رسم ہوتے ہی میں لے جاتی ہوں۔‘‘ عندلیب تسلی دے کر نیچے اتر گئی تھی۔ مریم نے سر مزید جھکالیا۔ آنکھوں میں آئی نمی سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
پہلے خاور نے فوزیہ کو انگوٹھی پہنائی تھی پھر سکندر نے آمنہ کو اب اس کی باری تھی۔ اس کے سرد ہاتھ مزید سرد ہوئے۔
’’مریم ہاتھ آگے کرو۔‘‘ ثوبان انگوٹھی تھامے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے بیٹھا تھا مگر اس کے وجود میں ذرا بھی ہلچل نہ ہوئی تو کہیں سے آواز آئی تھی مگر اس کی کنڈیشن اتنی خراب ہو رہی تھی کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ہاتھ میں پکڑے کلچ (پرس) پر اس کی گرفت مزید سخت ہوئی تھی۔
’’دلہن شرما رہی ہے۔‘‘ کہیں سے شوخ آواز گونجی اور پھر قہقہے‘ اس کا وجود مزید سرد ہوا۔
’’محترمہ ہاتھ آگے کردیں انگوٹھی پہنانی ہے‘ آپ کے بعد ابھی کسی اور کی بھی باری ہے۔‘‘شوخ آواز پر وہ چونکی مگر یہی سمجھی کہ آواز کہیں اور سے آئی ہے۔
یقیناً وہ ارد گرد ہی تھا۔ اب اس نے لب بھینچ لیے اور سر مزید جھکالیا اب صرف سجدہ کرنے کی کسر رہ گئی تھی۔
’’دلہن سجدے میں چلی گئی ہے۔‘‘ پھر وہی شوخ آواز۔
’’ہوسکتا ہے دلہن کو دلہا پسند نہ آیا ہو۔‘‘ یہ سکندر کی شوخ آواز تھی اس کے آنسو بہہ نکلے۔
’’ہوسکتا ہے بینک منیجر کا ڈر سر پر سوار ہو۔ محترمہ ہاتھ دیں انگوٹھی پہنانی ہے ورنہ ہمارے بڑے ابھی پہنچ جائیں گے کہ میں خوامخواہ لیٹ کروا رہا ہوں۔‘‘
اب کے وہ الفاظ‘ لہجے اور آواز پر چونکی تھی۔ یہ تو عمر کی آواز تھی اور کہیں دور سے نہیں بلکہ اس کے انتہائی قریب سے ابھری تھی۔ اس نے یکدم سر اٹھا کر دیکھا۔
وہ واقعی عمر تھا۔ اپنی مسکراتی آنکھوں میں ڈھیر ساری چمک لیے وہ انگوٹھی تھامے منتظر تھا۔
’’تم…!‘‘ جھلملاتی آنکھوں سے وہ کچھ بھی نہ سمجھ پائی تھی کہ یہ کیا قصہ ہے۔ عمر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
’’جی جانب میں عمر! بذات خود بنفس نفیس آپ کے سامنے حاضر ہوں۔ کیا اب انگوٹھی پہنا سکتا ہوں۔‘‘ خاصا شریر مسکراتا لہجہ تھا۔ مریم کو لگا اس کے حواس ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔
’’مریم جلدی کرو ہاتھ دو۔‘‘ رمشاء نے عقب سے جھک کر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے بھائی کے آگے کردیا تھا۔ وہ بُت بنی ساکت سی عمر کو دیکھ رہی تھی۔ عمر نے انگوٹھی پہنا دی تھی۔ مبارک سلامت کی آواز بلندہوئی تو مریم کو لگا کہ بس وہ کسی بھی لمحے گرنے والی ہے۔ اس نے اپنا چکراتا سر تھام لیا۔
’’امی…‘‘ آنکھوں کی تاریکی گہری ہوئی تو اس کے لب پھڑ پھڑا کر رہ گئے۔
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا وہ بے دم سی ہو کر ایک طرف لڑھک گئی تھی۔
…٭٭٭…​
اس کی آنکھیں کھلیں تو خود کو آرام دہ بستر پر لیٹے پایا۔ اردگرد سبھی چہرے تھے متفکر پریشان وہ خالی الذہنی سے سبھی کو دیکھے گئی۔ آمنہ‘ فوزیہ‘ صبا‘ سادہ لباس میں ملبوس تھیں۔ خاور بھائی‘ عمر‘ سکندر‘ وقار‘ عندلیب بھابی‘ رمشا اور بھی چند چہرے تھے۔ امی ابو‘ تائی بیگم اور تایا ابو کے علاوہ خاور بھائی کے والدین تھے۔ اس کی نگاہیں ثوبان کے چہرے پر پڑیں تو وہ چونکی۔ ذہن نے ایک دم کام کرنا شروع کردیا۔
’’مریم! کیسی طبیعت ہے اب؟‘‘ اسے ہوش میں آتے دیکھ کر امی جی نے فوراً پوچھا وہ اس کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’لیٹی رہو طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔ اتنا تیز بخار ہے اوپر سے یہ مسلسل بے ہوشی پورے تین گھنٹے بے ہوش رہی ہو تم۔‘‘ فوزیہ بھی قریب آگئی تھی۔ تو رونے لگی۔
’’رونا نہیں اب‘ بالکل ٹھیک ہو تم۔‘‘ یہ تائی بیگم کی شفیق آواز تھی۔ امی نے اس کے آنسو صاف کیے مگر رونا کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ مسکارا اور لائنر بہہ نکلا تھا۔ فوزیہ نے ٹشو سے اس کا چہرہ صاف کیا۔ کچھ دیر رونے کے بعد جی ہلکا ہوا تو بغیر کسی کی طرف دیکھے اس نے آنکھوں پر بازو رکھ لیے۔
’’شکر ہے اللہ کا ہوش آگیا‘ اب یہ ٹھیک ہے تم لوگ بھی اب ادھر سے ہٹو باہر کئی کام ہیں وہ دیکھو‘ مہمان تو رخصت ہو ہی گئے ہیں۔ ہوٹل سروس والے بیٹھے ہیں ان کو بھی فارغ کرنا ہے۔‘‘ ابو جی‘ تایا ابو کا ہاتھ تھام کر چل دیے تو باقی لوگ بھی مطمئن ہو کر باہر نکلتے چلے گئے تھے جب کہ ینگ جنریشن ابھی بھی ادھر موجود تھی۔
’’مریم۔‘‘ یہ صبا کی آواز تھی۔ ساتھ ہی اس نے اس کا بازو بھی آنکھوں سے ہٹا دیا۔
’’ایم سوری یار! یہ سب ڈراما تھا۔ محض تمہیں سرپرائز دینا تھا۔ دیکھو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں‘ یہ عمر بھائی کا ڈرامہ ہے‘ ان سے پوچھو۔‘‘ صبا کہہ رہی تھی اس نے خاموشی سے سب کو دیکھا

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اور پھر عمر کو اس کے ساتھ کھڑے ثوبان کو‘ عمر اس کے دیکھنے پر مسکرا کر آگے بڑھا۔
’’ناراض ہو۔‘‘ اس نے لب بھینچ کر آنکھیں میچ لیں۔ وہ اس شخص سے بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے کس قدر اذیت میںرہی تھی کاش کوئی اندازہ لگا سکتا اور خصوصاً یہ صبا اور عمر تو ہر وقت اسے اذیت دیتے طعنے بازی کرنے کو تیار رہتے تھے۔
’’مریم۔‘‘ یہ خاور بھائی کی پر شفقت آواز تھی۔ ’’گڑیا آنکھیں کھولو پلیز۔‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔
’’ایم سوری یار! ڈراما سارا یہ ہے کہ تم نے جس طرح پُر خلوص ہوکر میرے اور فوزیہ والے معاملے میںصبا کی مدد کی تھی اس نے تمہاری امی کے انکار کے بعد مجھے فون پر سب بتا دیا اور پھر میں گھر چلا آیا۔ ادھر امی مانیں تو ادھر تمہاری والدہ صاحبہ ہماری اور فوزیہ کی بات طے ہوئی تو صبا نے بتایا کہ عمر کا پرپوزل تمہارے لیے آیا ہے۔ مگر تم انکاری ہو۔ وجہ کوئی خاص نہ تھی مگر جس طرح ثوبان کی امی تمہارے لیے چکر لگا رہی تھیں عین ممکن تھا کہ چچی جان ثوبان کے لیے ہاں کردیتیں مگر اسی دن جب عمر کی امی اور دادی آئے ہوئے تھے تو تمہیں یاد ہوگا کہ اسی دن ثوبان کی والدہ بھی آگئی تھیں۔‘‘ خاور بھائی بتاتے بتاتے رکے تو وہ آہستگی سے اٹھ بیٹھی۔ وہ ابھی تک منگنی والے لباس میں ملبوس تھی۔ میک اپ بہہ چکا تھا مگر منے منے نشان تھے۔
’’اور آنٹی سے رشتہ مانگ رہی تھیں۔ تائی بیگم اپنا حق جتا رہی تھیں اور چچی جان انا کی وجہ سے انکاری تھیں۔‘‘ اب صبا بول رہی تھی۔
’’انہوں نے تائی بیگم کے حق جتانے پر خاصے غصے سے کہا۔ ہم فوزیہ کے لیے اتنا عرصہ پریشان رہے۔ آپ کے سامنے ہی تھا آپ نے تب بھی مریم کا ہی نام لیا۔ جب فوزیہ کا کردیا ہے تو آپ کو بھی ہمارے گھر چکر لگانا یاد آگیا ہے۔ اب میری مرضی ہے کہ میں اپنی بیٹی کو کہاں بیاہتی ہوں۔‘‘ چچی خاصے غصہ سے کہہ رہی تھیں اور تبھی تائی بیگم نے کہا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں میرے لیے تینوں لڑکیاں ایک جیسی ہیں۔ ہم بار بار مریم کے لیے اس لیے کہہ رہے تھے کہ میرا بیٹا عمر اسے چاہتا ہے۔ وہ مریم کو پسند کرتا ہے اور اس کی خواہش پر بار بار مریم کا نام لیا۔ تمہیں پہلے کبھی اس لیے نہ کہا کہ لڑکیوں کی ماں ہو کہیں کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھو۔‘‘ صبا کہہ کر خاموش ہوئی۔
’’چچی کی کنڈیشن خاصی پریشان کن تھی یہ انکشاف سن کر۔ عمر اور مریم وہ بار بار پوچھ رہی تھیں میٹنگ روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی۔ نتیجہ نجانے کیا نکلنے والا تھا اور میں خوف زدہ ہو کر وہاں سے بھاگی کہ تم سب لوگوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرتی ہوں۔‘‘ صبا چپ ہوگئی تو ثوبان مسکرا کر آگے بولا۔
’’تبھی انٹری ہوئی ہماری یعنی بینک منیجر صاحب کی۔‘‘ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ مریم نے محض اس شخص کی تصویر دیکھ رکھی تھی اب روبرو پہلی ملاقات تھی۔
’’اور صبا جس طرح کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح بھاگتی ہم سے ٹکرائی ہم تو وہیں گم سم ہوگئے۔ ہماری والدہ کو کون سی لڑکی پسند ہے ہم بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ ہم یہاں کیوں بلوائے گئے ہیں۔ بس اپنی بہن صاحبہ کو دل کی بات بتائی اور اسی شام امی اور باقی گھروالوں کے ہمراہ ہم خاور کے گھر پر موجود تھے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ اب تک بالکل خاموش تھی اب حقیقتاً چونکی۔
’’صبا ثوبان کی امی کو بھی بہت پسند آئی اور یوں آناً فاناً یہ رشتہ طے پا گیا۔‘‘ یہ فوزیہ تھی۔ مریم کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’اور اسی شام امی جی نے ہتھیار ڈال دیے سکندر اور آمنہ کے ساتھ ساتھ تمہارے اور عمر کے پروپوزل کو بھی قبول کرلیا۔‘‘ فوزیہ مزید مسکرا کر انکشاف کر رہی تھی۔
’’تبھی عمر بھائی نے ہم سب کو اپنا پروگرام بتایا۔ پہلے تو ہم میں سے کوئی بھی نہ مانا اگر بڑوں تک بات پہنچ جاتی تو خاصی کھنچائی ہوجانی تھی مگر عمر کے بار بار اصرار پر ہم لوگ راضی ہوگئے۔‘‘ صبا ہنس کر کہہ رہی تھی۔
’’عمر بھائی تمہیں سرپرائز دینا چاہتے تھے نا۔‘‘ آمنہ بھی ہنس کر بولی۔
’’اور ساتھ یہ بھی چیک کرنا چاہتے تھا کہ عمر بھائی کی طرف سے برتی جانے والی بے پروائی اور نو کیئر والا انداز محض اوپر سے ہے یا حقیقتاً تمہیں ان سے کوئی لگائو نہیں۔‘‘ یہ سکندر تھا۔ اس نے کھا جانے والی نظروں سے عمر کو دیکھا جو اس سارے وقت میں سینے پر ہاتھ باندھے سب کو بولتے دیکھ کر محض مسکرا رہا تھا۔
’’اور نتیجہ میری توقع کے مطابق نکلا۔ اب کوئن میرے کورٹ میں تھی۔‘‘ وہ پہلی بار بولا تھا۔ مریم نے ایک دم غصے سے ہاتھوں میں پڑا گجرا نوچ کر اسے دے مارا تھا جسے اس نے کیچ تو کرلیا تھا مگر باقی سبھی ہنس دیے تھے۔
’’تم سب لوگ انتہائی جھوٹے‘ ڈراماباز اور فسادی ہو۔‘‘ وہ سخت غصے میں تھی۔ واقعی سب نے کس طرح ملی بھگت کر کے اسے ہینڈل کیا تھا اس کے احتجاج بھوک ہڑتال‘ غم و غصہ کی ہوا بھی امی یا ابو کو لگنے نہ دی تھی۔ اس نے جب بھی امی سے انکار کرنا چاہا تو یہ سب اسے آ پکڑتی تھیں اور امی ابو تو اب بھی بے خبر تھے کہ وہ بے ہوش کیوں ہوئی ہے۔
عندلیب نے یہی کہہ کر سب کو ہینڈل کیا تھا کہ ’’منگنی کی تیاریوں کی بھاگ دوڑ میں اور روزے کی حالت میں کمزوری ہو گئی ہے۔ اسی لیے بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘ اور امی نے بھی فوراً یقین کرلیا تھا کہ بہرحال دو دن سے ہلکی سی حرارت اسے پہلے بھی محسوس ہو رہی تھی صبح بھی بخار تھا۔
’’دیکھو تمہیں ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تمہیں تمہاری محض جھوٹی انا کا شکار ہونے سے بچا لیا۔ میرے بھائی سے بڑھ کر تمہیں کوئی نہیں چاہنے والا اور یہ ثوبان بھائی تو پہلے ہی صبا کی پہلی نگاہ بلکہ ٹکر کا
شکار ہو چکے ہیں۔ تمہاری بے ہوشی کے دوران محترمہ کو انگوٹھی پہنا کر بات پکی کر چکے ہیں۔ بے شک دیکھ لو۔‘‘ ردا نے صبا کا ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ بے دم سی ہو کر واپس بستر پر سیدھی ہو گئی۔
اس کے دل و دماغ ایک دم خاصے پر سکون اور مطمئن ہوگئے تھے۔ سب ہنس رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے۔ اس کے گزشتہ دنوں کی حالت مرچ مسالا لگا کر بیان کر رہے تھے۔ قہقہے تھے‘ شوخیاں تھیں‘ اس نے ایک گہرا سانس لیتے عمر کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرا رہا تھا گہری روشن مسکراہٹ تھی اس کے لبوں پر۔ اس کے دیکھنے پر وکٹری کا نشان بنایا تو گھبرا کر اس نے خاور بھائی کی طرف چہرہ پھیر لیا وہ اس کا اور صبا کا کارنامہ حاضرین محفل کو سنا رہے تھے اور عمر مزے سے گنگنا رہا تھا۔
زندگی کی حسین رہ گزر
ڈھونڈتی ہے کوئی ہم سفر
جس کو پانے کی ہے آرزو
آملے گا کسی موڑ پر
زندگی کی حسین رہ گزر
مریم کو اپنا چہرہ بلش ہوتا محسوس ہوا۔ عمر کا دھیما سلجھا لہجہ بڑا دل نشیں تھا۔
ہم سفر کا اگر ساتھ ہو
راہ آسان ہوجائے گی
مل کے دھڑکیں گے جس گھڑی
جگمگانے لگے گی ڈگر
زندگی کی حسیں رہ گزر
ڈھونڈتی ہے کوئی ہم سفر
جس کو پانے کی ہے آرزو
آچلے گا کسی موڑ پر
مریم نے مسکرا تے ہوئے تکیے سے سر ٹکا کر پوری توجہ خاور بھائی کی طرف مبذول کرلی تھی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
بھیگی پلکوں پر’’ قسط نمبر 14 ‘‘ … اقراء صغیر احمد
گزشتہ اقساط کا خلاصہ
پارس عرف پری عدم توجہی اور سوتیلے رشتوں کی بد سلوکی کا شکار ہے۔ دادی جان اس کے لیے گھر بھر میں واحد محبت کرنے والی شخصیت ہیں جبکہ اپنے والد فیاض صاحب سے اس کا رابطہ واجبی سا ہے۔ فیاض صاحب کی دوسری بیوی صباحت فطرتاً حاسد‘ فضول خرچ اور طمع پرست ہیں۔ ان کے یہی اوصاف ان کی بیٹیوں عادلہ اور عائزہ میں بھی بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ البتہ پری اور دادی جان کی حیثیت گھر بھر میں مضبوط ہے۔
طغرل کی آمد خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ پری کے ذہن میں طغرل اور اپنی بچپن کی لڑائیاں تازہ ہیں۔ عادلہ‘ طغرل پر ملتفت ہے اس کی وجاہت اور اس کے اسٹیٹس کے سبب۔
پری کی والدہ فیاض صاحب سے علیحدگی کے بعد اپنے خالہ زاد صفدر جمال سے شادی کرچکی ہیں جو ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ پری کے لیے مثنیٰ کی محبت لازوال ہے مگر صفدر جمال کو پری کا ذکر بھی نا پسند ہے۔
رات کی تاریکی میں طغرل نے ایک سائے کو سوٹ کیس تھامے گھر سے فرار ہوتے دیکھا۔ طغرل کے خیال میں رات کے اندھیرے میں گھر سے فرار ہونے والی لڑکی پری ہے۔ جب کہ حقیقت مختلف ہے۔ صفدر جمال اور مثنیٰ کا بیٹا سعود غیر ملک میں کسی ہندو لڑکی سے شادی کا خواہاں ہے‘ جس کی مثنیٰ سختی سے مخالفت کرتی ہیں مگر اک روز صفدر جمال انہیں بتاتے ہیں کہ سعود‘ پوجا سے شادی کرچکا ہے وہ بھی ان کی اجازت اور شمولیت کے ساتھ… مثنیٰ شاکڈ رہ جاتی ہیں اور ان سے برگشتہ ہوکر گھر چھوڑ دیتی ہیں۔
صفدر جمال مثنیٰ کو منانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر وہ ہنوز غم و غصے کا شکار ہیں‘ جس پر صفدر جمال انہیں بتاتے ہیں کہ سعود نے پوجا سے شادی کرنے کے لیے خود کشی کی کوشش کی تھی جس پر انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ صفدر جمال کی منت سماجت پر بالآخر مثنیٰ واپس لوٹ آتی ہیں۔
جویریہ کے بھائی اعوان سے ماہ رخ کا ربط محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
پری کے سامنے طغرل کو ایک بار پھرلان کے اندھیرے میں وہی سایہ نظر آتا ہے تو وہ پری کے روکنے کے باوجود اس سائے کے پیچھے بھاگتا ہے۔
طغرل باہر نکل کر اس سایہ کا پیچھا کرکے اس کو پکڑ لاکر اس کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے تو وہ عائزہ ہوتی ہے جس کو دیکھ کر پری اور عادلہ حیران و پریشان ہوجاتیں ہیں۔ کمرے میں شور کی آواز سن کے صباحت بیگم جب اندر آتی ہیں تو وہ کا منظر دیکھ کر ہقا بقا رہ جاتیں ہیں اور طغرل کی زبانی عائزہ کا کارنامہ جان کر ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔طغرل کے جانے کے بعد صباحت پری کو سرزنش کرکے کمرے سے نکال دیتیں ہیںباہر طغرل پری کا منتظر ہوتا ہے وہ عائزہ پر نظر رکھنے کی تاکید کرتا عائزہ صباحت سے ضد کرتی ہے کہ وہ صرف راحیل سے ہی شادی کرے گی تو صباحت اس کو سمجھا سمجھا کر مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
ماہ رخ جب گھر پہنچتی ہے تو وہاں گلفام پہلے سے موجود ہوتا ہے جس کو دیکھ کر وہ کچھ خوف زدہ سی ہوجاتی ہے وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر اس سے باز پرس کرتی ہیں کہ گھر والے کہاں ہیں اور گلفام کا جواب سن کر وہ طیش میں آکر اس کو صلاوتیں سنا جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ عون سے جھوٹ بول کر اس کو کورٹ میرج پر اکساتی ہے جس پر عون تیار نہیں ہوتا جس پر وہ عون سے ناراض ہوجاتی ہے۔
پری کے گھر پر نہ ہونے سے دادی کچھ کچھ پریشان اور بے زار سی ہوجاتی ہیں تو طغرل ان کو پھوپو کے گھر لے جاتا ہے تاکہ ان کا کچھ دل بہل سکے۔ دادی کو یوں اچانک دیکھ کر ان کی بیٹی اور نواسیاں بے حد خوش ہوجاتی ہیں اور طغرل رات کو آکر ان کو واپس لے جاتا ہے دادی کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں آکر فریش ہوکر جیسے ہی مڑتا تو اس کی نظر عادلہ پر پڑتی ہے جس کو دیکھ کر وہ بھونچکا سا رہ جاتا ہے۔
طغرل عادلہ کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور اس کو آئندہ رات کے وقت اپنے کمرے میں آنے سے روک دیتا ہے۔ دادی پری کے نانی کے گھر جانے سے بے حد ڈسٹرب ہوجاتی ہیں جس سے ان کی طبیعت بھی کچھ خراب ہوجاتی جس کے باعث فیاض صاحب اور طغرل کچھ پریشان ہوجاتے ہیں جب پری کو دادی کی طبیعت کے بارے میں پتا چلتا ہے تو وہ واپس آنے کا ادارہ کرکے فیاض صاحب کو فون کردیتی ہے اور فیاض صاحب اپنی مصروفیات کے باعث پری کو لینے طغرل کو بھیج دیتیں ہیں اور پری طغرل کو دیکھ کر موڈ خراب ہوجاتا ہے۔
پری گھر واپس آتے ہوئے گاڑی میں طغرل سے بیزا سی نظر آتی ہے یہ بات طغرل نوٹ کرلیتا ہے وہ اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ بے رخی سے جواب دیتی ہے جس پر طغرل چپ ہوجاتا ہے اور پری گھر آتا دیکھ دادی یک دم خوش ہوجاتی ہیں اور پری دادی سے گلے مل کر گلے شکوہ کرنے لگتی ہے۔ ادھر ماہ رخ کی بے چینیاں بڑھتی ہی جارہی ہے اس کا کسی بھی طرح عون سے رابطہ ہی نہیں ہورہا اور اس کے گھر میں اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں جس وہ مزید بؐگھبرا جاتی ہے۔ پری طغرل اور معید کی ساری باتیں سن لیتی ہے اور اس کو دکھ ہوتا ہے اپنی ذات کی نفی ہونے کا وہ خوب روتی ہے۔ دوسری طرف عادلہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے طغرل کو اپنی طرف مائل کرنے کی مگر وہ اپنی ہر کوشش میں ناکام ہوجاتی ہے اور رات کچن میں عادلہ پری کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے کہ اچانک طغرل آجاتا ہے اور عادلہ کی باتیں سن کر وہ پری کو پرپوزکردیتا ہے۔
(اب آگے پڑھیے)
…٭٭٭…
طغرل کی آواز اس خاموش ماحول میں کسی دھماکے کی طرح گونج اٹھی تھی‘ وہ دونوں اس کی طرف دیکھتی رہ گئی تھیں اور وہ بڑے اطمینان سے کھڑا پری کی طرف دیکھ رہاتھا۔
جس کے چہرے پر تیزی سے سرخی پھیل رہی تھی‘ آنکھوں میں ناگواری پھیلتی جارہی تھی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا وائپر دور پھینکا تھا۔
’’آپ کیا بکواس کررہے ہیں آپ کو معلوم ہے…؟‘‘
’’ہاں! مگر یہ بکواس نہیں ہے میرے دل کی بات ہے۔‘‘ وہ اس طرح ہی اطمینان سے بولا۔
جب کہ وہاں موجود عادلہ کئی لمحوں تک گم سم کھڑی رہی تھی‘ اس کے دل میں طغرل کی بات نے آگ سی لگادی تھی۔ اس نے اس کی بے رخی اور سرد مہری کے باوجود اپنے خیالوں میں اس کو بسایا تھا اور وہ بڑے فخر سے اس کے سامنے اس لڑکی کو پرپوز کررہا تھا جو اس سے سخت بے زار تھی‘ نفرت کرتی تھی‘ پورا کچن گول گول گھومنے لگا تھا‘ اس کی نظروں کے سامنے اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے وہاں سے چلی گئی تھی۔
’’دل کی بات؟‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی استہزائیہ لہجے میں گویا ہوئی تھی‘ اس کے چہرے پر اذیت سی تھی۔
’’معید بھائی نے آپ کو فورس کیا اور آپ تیار ہوگئے ترس کھا کر مجھ سے شادی کرنے کے لیے…‘‘ اس کی آواز دکھ کے ساتھ ساتھ غم و غصے سے لرز رہی تھی۔
’’وہاٹ!‘‘ اس کے منہ سے نکلنے والی سچائی نے لمحے بھر کو طغرل کے حواس گم کردیئے تھے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا پری وہ بات جانتی ہے جو ان دونوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہ تھی وہ دَم بخود سا کھڑا رہ گیا تھا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ چند لمحے لگے تھے اسے خود پر قابو پانے میں۔ ’’میں بھلا تم سے کیوں ترس کھاکر شادی کروں گا؟ تم میں ترس کھانے والی کون سی ابنارملیٹی ہے پارس؟‘‘
’’مجھے میں ایسی اسپیشلیٹی بھی نہیں ہے جس سے انسپائیر ہوکر آپ شادی کے لیے تیار ہوجائیں۔‘‘
اس کی بات طغرل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔
’’میں سیریس ہوں طغرل بھائی!‘‘ اس کی مسکراہٹ چڑانے لگی تھی۔
’’میں بھی سیریس ہوں پارس! مجھے نہیں معلوم تھا تم نے ہماری باتیں سن لی ہیں۔ میں بالکل سچائی سے کہہ رہا ہوں‘ جب معید نے مجھے کہا کہ تم کو پرپوز کروں تو اس وقت میں نے اسے انکار کردیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ میں ابھی اپنے بزنس میں الجھا ہوا ہوں‘ دراصل میںاپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا‘ ڈیڈی کی سپورٹ نہیں لینا چاہتا میں…‘‘
’’آپ کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں‘ مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کی بات قطع کرکے گویا ہوئی۔ ’’میں آپ سے شادی نہیں کروں گی‘ یہ یاد رکھیے گا۔‘‘
’’تمہاری کہیں کمٹمنٹ ہے؟‘‘ وہ خاصا سنجیدہ تھا۔
’’میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی لیکن یہ یاد رکھیے گا میں ایسے کسی بھی شخص سے شادی نہیں کروں گی‘ جو ترس کھا کر مجھے اپنی زندگی میں شامل کرے۔‘‘ وہ کہہ کر چلی گئی اور وہ بڑبڑانے لگا۔
’’ترس کھا کر کسی کی مدد تو کی جاسکتی ہے مگرشادی نہیں کی جاسکتی ہے۔‘‘
…٭٭٭…
عادلہ کو حسد کی اَن دیکھی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا‘ وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر لیٹ کر رونے لگی۔
’’روتے ہیں چھم چھم نین اُجڑ گیا چین رے
دیکھ لیا تیرا پیار‘ ہائے دیکھ لیا
عائزہ جو اس کمرے میں موجود تھی جب خاصی دیر تک اس نے عادلہ کو اسی انداز میں روتے ہوئے دیکھا تو وہ گنگنانے لگی تھی۔
’’تم! بھونکنا بند کرو ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ عائزہ کی استہزائیہ گنگناہٹ نے اس کو تڑپ کر اٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’ہاہاہا…! تم سے بُرا اب بھی کوئی نہیں ہے مائی سسٹر!‘‘
’’کیسی بہن ہو تم عائزہ! اپنی بہن کو روتے ہوئے دیکھ کر تم خوش ہورہی ہو‘ ہنس رہی ہو؟‘‘
’’تو کیا کروں‘ تم نے کب مجھے اپنی بہن سمجھا ہے‘ ہمیشہ میرے خلاف رہی ہو میری پریشانیوں پر خوش ہوتی رہی ہو۔‘‘ عائزہ اس کے قریب بیٹھ کر سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
’’تمہاری حرکتیںبھی ایسی ہیں‘ ایک لڑکے کے چکر میں تم ہم سب سے باغی ہوچکی ہو‘ محبت نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔‘‘
’’تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی گویا ہوئی۔
’’طغرل کی محبت میں۔‘‘
’’تم اس گھٹیا شخص کی محبت میں مت روئو… اس کے بیڈ روم میں جاکر اس کو لُبھانے کی سعی کرو وغیرہ وغیرہ‘ یہ سب کام تمہارے جائز ہیں؟‘‘
’’عائزہ! چپ ہوجائو میرے زخموں پر نمک پاشی مت کرو‘ میں پہلے ہی اذیت میں مبتلا ہوں‘ بہت بُرا ہوا ہے میرے ساتھ۔‘‘ عائزہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
’’کیا بات ہوئی ہے؟ تم بے حد اپ سیٹ لگ رہی ہو؟‘‘ وہ کچھ دیر تک عائزہ کے شانے سے لگ کر روتی رہی اور وہ اس کو بڑے پیار سے تھپکتی رہی پھر جیسے جیسے اس کو سکون ملتا رہا وہ خاموش ہوگئی۔
’’کیا ہوا عادلہ! کیوں رو رہی تھیں تم؟‘‘
’’تم جانتی ہو نہ کہ میں طغرل سے کتنی محبت کرتی ہوں‘ کتنا چاہتی ہوں‘ میں اس کو اس وقت سے چاہتی ہوں جب وہ پاکستان آیا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’ہاں معلوم ہے مجھے‘ جانتی ہوں میں لیکن اب ایسا کیا ہوا ہے جو تم بالکل ہی حوصلہ ہار بیٹھی ہو؟‘‘
’’اس نے پری کو پرپوز کیا ہے‘ اس پری کو جُو اس کو جوتی کی نوک پر رکھتی ہے ایک ٹکے کی عزت نہیں ہے جس کی نگاہوں میںطغرل کی۔ وہ اس کو چاہتا ہے اس سے شادی کرنے کے لیے مرا جارہا ہے وہ۔‘‘ وہ کہتی چلی گئی اس وقت اس کو عائزہ ہی اپنے جلے ہوئے دل پر مرہم رکھنے والی مسیحا لگ رہی تھی۔
’’مجھے معلوم تھا ایسا ہی ہوگا ایک دن۔ طغرل کو تم نیک نہیں سمجھو‘ نامعلوم کیا کیا گل کھلا کر آیا ہے آسٹریلیا میں‘ اپنے ملک میں آکر سب ہی نیک و پارسا بن جاتے ہیں اور یہاں آکر دوسروں پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔‘‘
’’اب کیا ہوگا عائزہ! ان دونوں کی شادی ہوجائے گی اور میں منہ تکتی رہ جائوں گی۔‘‘ عادلہ کے انداز میں بے چینی تھی جب کہ عائزہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
…٭٭٭…
شدید سردی میں وہ گرم شال سے بے نیاز بالکونی میں چکراتی پھر رہی تھی‘ بار بار اس کی نگاہیں صحن کے اس حصے میں بنے کمرے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
وہ کمرہ چند دنوں قبل ہی تیار ہوا تھا اور بلاشبہ وہ اس گھر کے دوسروں کمروں میں بہت خوب صورت اور جدید دور کے تقاضوں سے مزّین تھا۔ گلفام نے اس کمرے کو محل بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ مگر ماہ رخ کے خوابوں کی پرواز بہت بلندی پر تھی‘ وہ کمرہ اس کے خوابوں کی گرد بھی نہیں پاسکتا تھا‘ جس کو اس کی ماں اور چچی دن میں کئی کئی بار دیکھتی تھیں اور اس کے نصیب پر رشک کرتی تھیں۔ اب گھر میں اس کی اور گلفام کی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں جیسے جیسے تیاریاں زور پکڑ رہی تھیں اس کا دل بے چین ہونے لگا تھا۔
خوابوں کی تتلیاں مٹھی سے نکلنے کو تھیں۔
خواہشوں کے گلاب کھلنے سے قبل ہی مرجھانے کو تھے۔
اعوان سے رابطہ ہونے کی کوئی سبیل دکھائی نہ دے رہی تھی۔ ساحر سے وہ کئی بار مل چکی تھی ہر بار یہی مایوس کن جواب سننے کو ملتا تھا‘کہ ابھی رابطہ نہیں ہوپارہا۔ اس بار وہ ملی تو ساحر نے پریشان اور روتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا کہ وہ دو تین دن میں اپنے فرینڈز کے ذریعے اعوان کا پتا معلوم کروائے گا اور اسے کنفرم رپورٹ دے گا۔ دو تین دن گزر چکے تھے اور اس کوموقع نہیں مل رہا تھا وہ ساحر سے جاکر معلوم کرے کہ اعوان کے بارے میں اس کو معلومات ملیں یا نہیں؟
’’رخ! اتنی سردی میں تم بغیر شال اور سوئٹر کے یہاں موجود ہو‘ کیا ہوا ہے؟ کیوں اس قدر پریشان دکھائی دے رہی ہو؟‘‘ گلفام کے بھاری لہجے میں بے حد محبت اور تفکر تھا۔
اس کی آواز پر وہ چونک کر اپنے خیالوں سے نکلی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ میں پوچھ رہا ہوں کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘اس نے اپنی گرم شال اس کے سر پر اوڑھاتے ہوئے استفسار کیا۔
’’کتنی خوب صورت آواز ہے تمہاری۔ کاش! اتنے خوب صورت تم خود بھی ہوتے تو میں… شاید دولت کی چاہ نہ کرتی اور خوشی سے تمہاری ہوجاتی کہ حسین ہم سفر کا ساتھ دل کو بڑا سکون دیتا ہے‘ مجھے حسن اور حسین چہروں سے بڑی محبت ہے مگر افسوس تمہارے پاس نہ صورت ہے اور نہ دولت۔ صرف محبت ہے اور محبت سے خواہشیں پوری نہیں ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے گہری سانس لی اور گویا ہوئی۔
’’تم کو معلوم نہیں سیاہ فام! اس گھر میں مجھ پر پہرے لگنے لگے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے کہیں جا بھی نہیں سکتی ہوں۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے رخ! کون قید کرے گا تم کو یہاں؟‘‘
’’میری امی اورکون؟ ان کو ہی مجھ پر بھروسا نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں… نہیں رخ! تمہیںغلط فہمی ہوئی ہے۔ تائی جان تو تم سے بہت محبت کرتی ہیں‘بھروسا کرتی ہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر پُر اعتماد لہجے میں گویا ہوا تھا۔
’’تم کو کیا معلوم؟ تم تو آرام سے گھر سے نکل جاتے ہو۔‘‘
وہ شال کو اپنے گرد لپیٹتی ہوئی بولی۔ اس کے عمل کو گلفام نے بڑی پسندیدگی سے دیکھا تھا‘ یہ ٹھنڈک اسے بڑی پُرکیف حدت میں بدلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
’’آج کل میں تمہارے لیے فون لگوانے کے لیے کوشش کر رہا ہوں‘ تم چاہتی ہو نا گھر میں فون ہو بس سمجھو دس پندرہ دنوں میں فون بھی لگ جائے گاگھر میں۔‘‘
’’دس پندرہ دن… ہونہہ!‘‘ وہ بے پروائی سے منہ بگاڑ کر گویا ہوئی اور گلفام بے چین ہوگیا۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’کیا ہوا تمہیں خوشی نہیںہوئی؟ میں تو سوچ رہا تھا تم بے حد خوش ہوگی یہ خوش خبری سن کر۔‘‘
’’خوش ہوں مگر اصل خوشی اس وقت ہوگی جب امی مجھے اپنی دوستوں سے ملنے کی اجازت دیں گی۔‘‘
’’تمہاری ایک بھی دوست اس گھر میں نہیں آئی پھر تم کیوں ملتی ہو ایسی دوستوں سے جو تمہارے گھر آنا پسند نہیں کرتی ہیں۔‘‘
’’چھوڑو ان باتوں کو‘ پلیز امی سے اجازت لے دونا۔‘‘
…٭٭٭…​
گرم آگ برساتے ہوئے موسم نے بڑی دعائوں کے بعد کروٹ بدلی تھی‘ گرمی‘ حبس اور گھٹن میں اب ابر آلود موسم نے جان سی ڈالی تھی‘ شعلوں کی طرح لپکتی ہوائوں میں قدرے ٹھنڈک آگئی تھی۔ جس میں کبھی کبھار ہلکی پھلکی پڑتی پھوار سکون دینے لگتی تھی۔
آج بھی موسم سہانا تھا ان سب کے ساتھ دادی جان بھی لان میں آبیٹھی تھیں‘ چائے کے ساتھ سموسے اور پکوڑے موجود تھے۔
’’آج تو بارش ہوگی اماں جان! محکمہ موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے۔‘‘ مذنہ نے گہرے بادلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا۔
’’وہ لوگ تو گزشتہ دو ہفتوں سے پیشن گوئی کررہے ہیں مگر بارش نہیں ہورہی ہے‘ بادل آتے ہیں اوربن برسے چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’دادی جان! یوں کہیں نا ٹھینگا دکھا کر چلے جاتے ہیں۔‘‘ عائزہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔
’’اس میں بادلوں کا کیا قصور بچی! سارا قصور تو ہمارے اعمالوں کا ہے‘جیسے اعمال ہیں ویسے ہی حالات ہمارا مقدر بن رہے ہیں۔‘‘ وہ ایک آہ بھر کر دکھی انداز میں گویا ہوئیں۔
’’بات کوئی بھی ہو دادی جان! آپ اعمالوں کا ذکر لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔‘‘ عادلہ نے خاصے با ادب اندازمیں تیکھا سوال کر ڈالا تھا پہلے تو انہوں نے تیز نگاہ اس پر ڈالی تھی پھر گویا ہوئی تھیں۔
’’ہماری زندگی کا دارومدار ایمان اور اعمال پر ہے ہم اپنی طرف نہیں دیکھتے‘ اپنے اعمال کا جائزہ نہیں لیتے کہ ہم کتنی نیکیاں کررہے ہیں؟ کتنے گناہ ہم سے سرزد ہورہے ہیں؟ سب سے زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ ہم گناہ اور نیکی کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔‘‘
’’اماں جان! خدا گواہ ہے ہم تو حتیٰ الامکان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اللہ بچائے یہ دور تو بے حد خراب ہے۔‘‘ صباحت دبے دبے لہجے میں گویا ہوئیں۔
’’میں سوچتی اور لرز جاتی ہوں‘ شرم سے پانی پانی ہونے کو دل کرتا ہے‘ جب تاریخ ہمیں بتاتی ہے مختلف اقوام پر نازل ہونے والے عذابوں کے بارے میں کہ کون سی قوم کن اعمال کے سبب سزا میں گرفتار ہوئی‘ تو میں اپنے حال کو دیکھتی ہوں اور میرا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ کل ہم بھی تاریخ کا حصہ بنیں گے تو انگشت نمائی صرف اور صرف حکمرانوں کی طرف نہیں اٹھائی جائے گی بلکہ ہمیں بھی کہا جائے گا کہ ہم ایسے بد اعمال اور گناہ گار لوگ تھے کہ جن کی بد اعمالیوں کے باعث ان پر ایسے سخت دل اور بے مہر حکمران مسلّط کیے گئے تھے۔‘‘ دادی جان کے چہرے پر آنسوئوں کی لڑیاں بہہ نکلی تھیں‘ عادلہ اپنی بات کا یہ ردعمل دیکھ کر بھونچکا رہ گئی تھی۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں آپ‘ ہم در حقیقت گناہ اور نیکی کا فرق بھولتے جارہے ہیں اور تنزلی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔‘‘ مذنہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’ماحول میں ایک بے معنی سی خاموشی طاری ہوگئی تھی جس کو صباحت کی چونکا دینے والی آواز نے مخدوش کیا تھا۔
’’بہت بہت مبارک ہو اماںجان آپ کو اور بھابی جان آپ کو بھی۔‘‘ عادلہ کے اشارہ کرنے پر معنی خیز لہجے میں گویا ہوئیں۔
’’کس بات کی مبارک باد بہو؟‘‘ اماں کو ان کا انداز چونکا گیا تھا۔
’’یقینا کوئی اچھی بات ہوئی ہے۔‘‘ مذنہ مسکرا کربولیں۔
’’حیرت کی بات ہے اماں! یہ آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں؟ کیا آپ کو طغرل اور پری نے نہیں بتایا؟‘‘ وہ خاصے ڈرامائی انداز میں محو گفتگو تھیں۔
’’بہو! یہ کیا پہیلیاں بوجھ رہی ہو‘ جو بات ہے صاف صاف کہو‘ ایسی کیا بات ہے جس پر تم ہم سے کسوٹی کھیل رہی ہو؟‘‘ ان کے بارعب انداز پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی تھیں۔
’’طغرل نے پری کو پرپوز کیا ہے۔‘ وہ مذنہ کی طرف دیکھتی ہوئیں کاٹ دار لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
’’ارے یہ کب ہوا؟ مجھے تو خبر نہیں ہے تم نے کہاں سے سن لیا؟‘‘
صباحت اور عادلہ کو ان کی خوش گوار حیرت دیکھ کر دکھ و غم کا جھٹکا سا لگا تھا‘ وہ سوچ رہی تھیں اماں جان کو شاید ہی افسوس ہو کہ ان کے لاڈلے نے ان کو بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی مگر صباحت کس طرح وہ سب برداشت کرسکتی تھیں؟ یہ سب ان کی سوچوں کے برعکس ہوا تھا اور ان کے اندر حسد و رشک کی آگ زیادہ بھڑکنے لگی تھی‘ اسی دم چائے کی ٹرے اٹھائے پری بھی وہاں آگئی تھی۔ صباحت نے چبھتے لہجے میں پری سے کہا۔
’’پری! تم نے اماں جان کو بھی نہیں بتایا؟ اتنی بڑی بات ہضم کیے بیٹھی ہو۔ میں اور تمہارے پاپا اس قابل نہیں تھے تمہاری نظر میں تو کم از کم اپنی دادی کو تو بتاسکتی تھیں کہ تم کو طغرل نے پرپوز کیا ہے‘ شادی کرنا چاہتا ہے وہ تم سے۔‘‘ مذنہ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے اگر چائے کی ٹرے پکڑ نہ لیتیں تو وہ زمین بوس ہوچکی ہوتی اس بات کو وہ یاد رکھنا بھی نہیں چاہتی تھی جس کا وہ پروپیگنڈا کیے بیٹھی تھیں۔

’’تم ماں ہو‘ بس ماں بن کر رہو‘ تھانیدارنی بننے کی قطعی ضرورت نہیں ہے تمہیں صباحت! اگر طغرل نے پری سے شادی کی خواہش کی ہے تو کوئی گناہ نہیں کیا ہے‘ ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے مرد و عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی۔‘‘
’’یہ اجازت گھر والوں کو نہیں ہے کہ ان کو بھی بتایا جائے‘ ایسی بھی بے حیائی نہیں ہوئی ہے کہ سیدھے سیدھے لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے ایجاب و قبول کرنے لگیں۔‘‘ مارے غم و غصے کے صباحت چیخنے چلانے لگی تھیں جب کہ مذنہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ پری کی رنگت سپید پڑگئی تھی۔
’’یہ تو وہ ہی بات ہوگئی‘ لڑکا لڑکی راضی…‘‘
’’بس! اب بہت بول چکی ہو تم‘ رائی کا پہاڑ بنانا تمہاری پرانی عادت ہے‘ کتنی بار سمجھایا ہے بیٹیوں کے معاملے میں اس طرح حلق پھاڑ کر بیان نہیں کیے جاتے ہیں‘ نرمی اور احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔‘‘ وہ ان کی بات قطع کرکے قدرے غصیلے لہجے میں بولی تھیں۔
’’بیٹی؟ ہونہہ… یہ میری بیٹی ہے اس کا یقین آگیا ہے۔‘‘
’’صباحت! تم کو غصہ کس بات کا آرہا ہے‘ پری کے نا بتانے پر یا طغرل کی شادی کی خواہش ظاہر کرنے پر؟‘‘ اماں نے ان کی گویا دکھتی رگ چھیڑی۔
’’یہ… یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں کیا حسد کروں گی پری سے؟‘‘
’’خوشی کے اظہار کے یہ طریقے تو نہیں ہوتے ہیں۔‘‘
’’دادی جان! آپ نے ہم بہنوں میں اور پری میں جو فرق رکھا ہے‘ اس کا یہی نتیجہ ہے جو آپ اس طرح کہہ رہی ہیں۔‘‘ عائزہ اٹھتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
’’پری جو کرے وہ جائز ہوجاتا ہے اگر ایسا ہم میں سے کوئی بہن کرلیتی تو آپ ہمیں معاف ہی نہیں کرتیں اور پاپا سے الگ ہماری شکایت کرتیں۔‘‘ عادلہ بھی عائزہ کی طرح نڈر انداز میں گویا ہوئی تھی۔
’’یہ سب کیا ہورہا ہے عادلہ‘ عائزہ! مجھے فیل ہورہا ہے آپ لوگ اماں کی طرف سے کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں‘ ورنہ میں نے اماں کو آپ سے یکساں پیار کرتے پایا ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بھابی! دراصل یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے‘ چھوٹی چھوٹی سی باتیں بھی بڑی بڑی محسوس ہوتی ہیں۔ چلو عادلہ‘ عائزہ! اماں جان سے سوری کرو۔‘‘ صباحت کو دیر سے اپنے اور ان کے سخت رویئے کا احساس ہوا۔
’’سوری دادی جان!‘‘ وہ مسکراتی ہوئی ان کے قریب آئی تھیں۔
’’اچھا ٹھیک ہے بھئی‘ جائو معاف کیا میں نے۔‘‘ اس وقت وہ کسی گہری الجھن کا شکار تھیں۔
’’مذنہ! طغرل کو فون کرو وہ فوراً گھر آئے۔‘‘
…٭٭٭…
طغرل نے وقتی جذبے کے تحت پری سے وہ سب کہہ دیا تھا جو شاید‘ وہ کہنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور جواباً جو پری نے اس سے کہا وہ بھی بھولنے والی بات نہ تھی۔
جو بے ارادہ وہ کام کرچکا تھا اس نے اس کو بے چین کیا ہوا تھا‘ وہ بے مقصد سڑکوں پر کار دوڑاتا رہا تھا‘سائٹ پر ہونے والی کنسٹرکشن پر بھی اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا جانے کو۔
جب وہ اس مشغلے سے بھی اکتا گیا تو اسے معید کے آفس کا خیال آیا اور وہ وہاں چلا گیا‘ معید نے اس کا استقبال بڑی گرم جوشی سے کیا۔
’’چہرہ بتارہا ہے کوئی فیصلہ بلکہ اچھا فیصلہ کرکے آئے ہو۔‘‘ وہ اس کے قریب بیٹھتا ہوا بولا تھا۔
’’یار! ہماری باتیں کل پارس نے سن لی تھیں۔‘‘
’’وہاٹ! کس طرح سن لی تھیں؟‘‘ وہ سخت حیران ہوا۔
’’مجھے نہیں معلوم لیکن اس نے سن لی ہیں اور وہ مجھ سے شادی کرنے سے انکاری ہے۔‘‘ طغرل اس وقت بے حد سنجیدہ تھا۔
’’یہ تو بہت بُرا ہوا یار! اب تو وہ مجھ پر بھی یقین نہیں کرے گی‘ ناراض الگ ہوجائے گی۔ تم نانی جان سے بات کرتے یار!‘‘
’’اس نے انکار کردیا مجھے اس کا اس طرح انکار کرنا ذرا اچھا لگا‘ وہ سمجھتی ہے میں اس پر ترس کھارہا ہوں۔‘‘
’’وہ ہمیشہ سے ایسے ہی کمپلیکز کا شکار رہی ہے اس میں اعتماد کو صباحت آنٹی نے کبھی سروائیو ہونے ہی نہیں دیا ہے‘ اسے ہمیشہ یہ احساس دلایا ہے کہ وہ ایک نامکمل‘ ٹھکرائی ہوئی ادھوری لڑکی ہے۔‘‘ معید کے لہجے میں پری کے لیے تڑپ اور محبت تھی۔
’’اب ایسا بھی نہیں ہے کہ آنٹی نے بالکل اس کی برین واشنگ کردی ہو‘ وہ اپنا بُرا بھلا اچھی طرح سمجھ سکتی ہے تم سارا الزام آنٹی کو نہ دو‘ وہ باشعور اور سمجھ دار لڑکی ہے معید!‘‘
’’میں نے کہانا تم ابھی پری کو سمجھ ہی نہ سکے ہو‘ وہ کیا ہے؟ یہ میں جانتا ہوں۔‘‘ اسی دم طغرل کا سیل بج اٹھا تھا۔
’’کس کی کال تھی؟‘‘ وہ کچھ دیر بعد بولا۔
’’ممی کی‘ بلا رہی ہیں دادی جان کو معلوم ہوچکا ہے۔‘‘
…٭٭٭…​
چمکیلے بھڑکیلے شوخ کپڑوں کا ڈھیر اس کے آگے رکھا تھا وہ بُت بنی ان کپڑوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’رخ! دیکھ لو ان کو اگر کوئی سوٹ پسند نہیں آئے تو بتادینا ابھی تو دن میں میں جاکر دوسرے لے آئوں گی۔‘‘ امی نے ایک ایک سوٹ کھول کر اس کے آگے رکھ دیا تھا۔
’’یہ سب اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے امی! ابھی میرے امتحانات باقی ہیں‘ مجھے سکون سے تیاری تو کرنے دیں‘ جب سے شادی کرنے کی دھن آپ پر سوار ہوئی ہے میرا حال خراب ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘
’’کیا حال خراب ہوکر رہ گیا ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں جب سے تمہاری شادی کی تیاریاں شروع کی ہیں میں نے‘ تمہارا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہوگیا ہے‘ کمرے میں بند پڑی رہتی ہو۔‘‘ حسب عادت فاطمہ نے اس کو کھری کھری سنائی تھی۔
’’میں اتنی جلدی شادی کرنا نہیں چاہتی ہوں امی! کتنی دفعہ کہا ہے میں نے آپ سے‘ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ سخت اضطراب میں مبتلا تھی۔
’’میں تمہاری اس بے جا ضد کو خاطر میں نہیں لاتی اور نا ہی تمہاری ایسی تعلیم سے مجھے کچھ دلچسپی ہے جو تمہیں اچھے بُرے کی تمیز سکھانے کے بجائے گستاخ اور ہٹ دھرم بنادے اور…‘‘ وہ کچھ توقف کے لیے رکی تھیں۔
’’نامعلوم کیوں بہت عرصے سے میرا دل تمہاری طرف سے ایک عجیب بے چینی اور وسوسوں سے بھرا رہتا ہے‘ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے میرے دل میں وحشتیں بڑھنے لگی ہیں۔ رخ! اگر تم گلفام سے شادی نہیں چاہتی ہو تو مجھے بتائو؟ میں ماں ہوں تمہاری‘ تمہاری مرضی کے خلاف فیصلہ نہیں ہونے دوں گی۔ تم مجھ پر یقین کرو۔‘‘ لمحے بھر کو وہ حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی۔ کتنی سچائی اور سادگی سے وہ اس کے دل کا حال بیان کرگئی تھیں۔
’’میں امی کو سب سچائی بتادوں تو… شاید یہ شادی نہیں ہوگی مگر پھرمیں اعوان کی بھی نہ ہوپائوں گی۔اعوان کے اور میرے مالی حالات میں‘ رہن سہن میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے‘ پھر اعوان سے جو میں نے جھوٹ بولے ہیں‘ وہ امی برداشت کرپائیں گی اور نا ہی اعوان‘ بہتر یہی ہوگا کہ اپنی کی گئی جھوٹی غلط بیانیوں کی پاسداری کروں۔‘‘
’’جو بات تمہارے دل میں ہے وہ مجھے بتادو ماہ رخ!‘‘
’’ایسی بات نہیں امی! میں ایسا کچھ نہیں چاہتی ہوں۔‘‘
’’پھر شادی سے انکار کی وجہ کیا ہے؟‘‘
’’میں امتحان دینا چاہتی ہوں‘ میری سال بھر کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ امتحانوں کے بعد مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ فاطمہ کی نگاہیں اس کے چہرے کو کھوج رہی تھیں‘ جہاں ایک طرح کی بے چینی و اضطراب پھیلا ہوا تھا‘ جو ان کے دل کی دنیا کو زیرو زبر کردیتا تھا لیکن ہزار کوششوں کے بعد وہ ماہ رخ میں وہ بات محسوس ہی نہ کرسکی تھیں جو ایک بیٹی میں ہوتی ہے۔
’’میرے سر پر ہاتھ رکھ کے بول یہی بات ہے‘ کوئی اور بات تونہیں ہے؟ تُو کسی اور کو تو پسند نہیں کرتی؟‘‘ پل بھر کو اس کا دل بند سا ہوا تھا ماں کے سر کی طرف بڑھنے والا ہاتھ لرز اٹھا تھا‘ بچپن سے آج تک ماں کی وہ ساری محبتیں‘ عنایتیں اس کے ہاتھ سے لپٹ گئی تھیں اور دوسری طرف خواہشوں کے انبار تھے ‘ ایک خوش حال اور من پسند زندگی کی رعنائیاں تھیں۔
خوب صورتیاں و آسائشیں تھیں۔
گلفام کے ساتھ کیا مل سکتا تھا‘ وہ تو ایک سیکنڈ ہینڈ کار تک افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ ساری زندگی وہ اسی گھر اور اسی علاقے میں گزارتا جہاں وہ رہنا نہیں چاہتی تھی۔
بہت سخت امتحان دینا تھا اسے ایک طرف گھر تھا‘ ماں اور باپ تھے‘ دوسری طرف خواہشیں تھیں‘ سنہری زندگی کی چاہ تھی اور اس نے فیصلہ کرڈالا تھا۔
’’امی! میں آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہوں اور کوئی بات نہیں ہے‘ میں کسی کو پسند نہیں کرتی۔‘‘ اس نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اطمینان سے کہا تھا۔
’’تم آرام سے تیاری کرو‘ شادی تمہارے امتحانوں کے بعد ہوگی۔‘‘
…٭٭٭…​
وہ سب اماں جان کے کمرے میں موجود تھے‘ طغرل معید کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ صباحت اور مذنہ ایک سوفے پر بیٹھی تھیں۔ پری اماں کے عقب میں بیٹھی تھی‘ اماں کے بگڑے مزاج کے باعث عائزہ اور عادلہ اندر نہ آئی تھیں مگر وہ کھڑکیوں سے چپکی کھڑی تھیں‘ چند لمحے طغرل کو برہم نظروں سے دیکھنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔
’’میں نے کیا سنا ہے طغرل! تم نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل اپنی ماں یا دادی سے مشورہ لینا بھی ضروری نہیں سمجھا؟‘‘ وہ اس سے سخت لہجے میں استفسار کرنے لگی تھیں۔
’’نانی جان! اصل بات یہ ہے کہ اس سارے قصے کے پیچھے طغرل کا کوئی قصور نہیں ہے‘ یہ سب میں نے ہی اس سے کہا تھا پری کو پرپوز کرنے کے لیے‘ میں نے اس پر دبائو ڈالا تھا۔‘‘ طغرل کے بولنے



 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
سے پہلے معید بول اٹھا تھا۔
’’تم کو کس نے یہ اختیار دیا کہ تم اس گھر کے فیصلے کرو؟‘‘
’’میں معافی چاہتا ہوں نانی جان! میرا مطلب یہ نہیں تھا۔‘‘
’’بہت اچھے فیصلے ہیں تمہارے‘ ایک فیصلہ کرتا ہے اور دوسرا فوراً اس پر عمل کرتا ہے نہ کسی کی اجازت کی پروا نہ کسی کے جذبات کا خیال ہوتا ہے تم لوگوں کو۔ شادی بیاہ کو تم لوگ کھیل سمجھتے ہو؟ پھر تم نے ہمت کیسے کی پری سے ایسی بات کرنے کی؟‘‘ معید کو ڈانٹنے کے بعد وہ طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں۔
’’غلطی ہوگئی دادی جان! مجھے بعد میں احساس ہوا یہ سب مجھے آپ سے اور ممی سے ڈسکس کرنا چاہیے تھا بس۔ میں جذباتیت کا شکار ہوگیا تھا‘ مجھے معاف کردیں۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے شرمندگی سے کہا تھا‘ اس کے قریب آتے ہی پری دور ہوگئی تھی۔
’’بھابی جان! قصور ان بچوں کا نہیں ہے‘ بات ساری یہ ہے کہ جب عورت بہکانے پر آئے تو مرد کیسے نہ بہکے گا؟‘‘ صباحت معاملے کو ٹھنڈا پڑتے دیکھ کر چنگاری دکھانے لگی تھیں۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہو صباحت! مطلب کیا ہے اس بات کا؟‘‘ ان کے لہجے پر وہ سب ہی چونک اٹھے تھے‘ مذنہ حیرانی سے گویا ہوئیں۔
’’بات یہ ہے کہ میں نے کتنی مرتبہ پری اور طغرل کو باہر سے ساتھ آتے دیکھا ہے اور ایک دن تو حد ہی ہوگئی تھی اس دن صبح صبح ہی یہ دونوں ساتھ آئے تھے‘ پری بُری طرح رو رہی تھی‘ طغرل اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اور یہ روتی ہوئی واش روم میں گھس گئی تھی۔ میں نے پری سے بہت معلوم کرنے کی سعی کی‘ پیار سے ڈانٹ سے معلوم کرنا چاہا کہ اس صبح ان کے درمیان کیا ہوا تھا؟ اس صبح ہی یہ لوگ گئے تھے یا رات بھر سے غائب تھے۔ یہ تو یہ لوگ جان سکتے ہیں یا اللہ! میں نے جو دیکھا وہ بتارہی ہوں۔‘‘
’’بہت خوب بہو! گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ اول تو مجھے اپنے بچوں کے کردار پر کوئی شک نہیں ہے‘ میں جانتی ہوں میرے بچے ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے‘ جو ہماری عزت کو داغ دار کرے۔‘‘
’’اماں جان! آپ مجھے کیا بتارہی ہیں یہ دونوں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ ان سے معلوم کریں ابھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔‘‘ وہ پری کو گھورتی ہوئی بولیں۔
طغرل بڑی حیرت سے میٹھے لہجے میں بات کرنے والی صباحت کا یہ جارحانہ انداز دیکھ رہا تھا جس میں نہ کوئی لچک تھی اور نا ہی تدبّر و لحاظ انہوں نے آسانی سے پری کے ساتھ اس کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالی تھی۔ اس کا وجیہہ چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا تھا۔
’’میں کیوں معلوم کروں؟ مجھے اپنے بچوں پر اعتماد ہے۔‘‘ وہ دائیں ہاتھ سے پری کو سینے سے لگاتی ہوئی گویا ہوئیں۔ پری کی حالت غیر ہورہی تھی۔
صباحت کے لفظوں نے اس کے پائوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ ایک انگلی اس کی طرف اٹھارہی ہیں اور دوسری انگلیاں ازخودان کی جانب اٹھی ہوئی ہیں۔
’’بھابی! یہ آپ کے بیٹے کا معاملہ ہے آپ تو خاموش اس طرح بیٹھی ہیں‘ جیسے طغرل آپ کی نہیں کسی اور کی اولاد ہو۔‘‘ مذنہ جو خاموشی سے سب سن رہی تھیں‘ سنجیدگی سے بولیں۔
’’طغرل میرا ہی بیٹا ہے صباحت! میں جانتی ہوں تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ تم نے طغرل اور پری کو ساتھ آتے جاتے دیکھا ہے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔آفٹر آل یہ لوگ کزنز ہیں اور کزنز کے درمیان اس طرح کی ریلیشن شپ چلتی ہے پھر یہ سب میری نالج میں ہے۔ طغرل نے ہر بات مجھ سے فون پر شیئر کی ہے یہ عموماً پری کو ان کی نانو کے ہاں سے پک کرتے رہے ہیں اور وہ بھی فیاض کے کہنے پر اور جس صبح کی تم بات کررہی ہو وہ میں جانتی ہوں‘ کیا ہواتھا ان دونوں کے درمیان۔‘‘ وہ ایک کے بعد ایک دھماکا کرتی چلی گئیں صباحت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا‘ وہ جس کو لاعلم سمجھ رہی تھیں وہ زیادہ با خبر ثابت ہوئی تھیں۔
’’آپ کو معلوم ہے…؟‘‘
’’ہاں ! اس صبح پری اور طغرل کہیں رات گزار کر نہیں آئے تھے بلکہ ان کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی اور پری کو طغرل اس کی نانو کے ہاں سے ہی لے کر آیا تھا۔‘‘ ان کا انداز بے حد نرم تھا۔
’’بس ہوگئی تمہاری تسلی؟ یا ابھی بھی کچھ گل کھلانے باقی ہیں؟ صباحت! اللہ کے قہر سے ڈرو‘ کیوں اس مظلوم بچی کے پیچھے پڑ گئی ہو؟ کیا بگاڑا ہے اس نے تمہارا؟‘‘
’’آپ کو تو میں ہی غلط نظر آتی ہوں۔‘‘ وہ اٹھ کر چلی گئی تھیں۔
…٭٭٭…
صباحت کو وہاں سے نکلتے دیکھ کر عائزہ اور عادلہ بھی اپنے کمرے میں آگئی تھیں‘ عادلہ کے چہرے پر غم و غصے کے تاثرات تھے۔
’’مذنہ آنٹی کتنی چالاک ہیں کس طرح انہوں نے طغرل کو بھی بچالیا اور پری پر بھی آنچ نہیں آنے دی حالاں کہ ممی نے ہر طرح سے ان کو گھیرنے اور نیچا دکھانے کی سعی کی تھی۔‘‘
’’ہوں‘ یہ بات تو ہے ممی نے فائٹ تو بہت کی مگر دادی اور آنٹی نے ایک بھی وار کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ممی کو ابھی اور جنگ کرنی تھی ان سے‘ اتنی جلدی کیوں میدان چھوڑ کر بھاگ آئیں؟‘‘
’’تمہیں معلوم ہے پاپا کسی بھی ٹائم آسکتے ہیں اور وہ یہ سب برداشت کریں گے؟‘‘
’’ارے نہیں بابا! وہ تو خود دادی کے سامنے تیز لہجے میں بات نہیں کرتے۔ ممی کو بلند لہجے میں اور اسی طرح کی باتیں کرتے دیکھ کر بلامبالغہ وہ ممی کو شوٹ کرنے سے بھی گریز نہ کریں۔‘‘ عائزہ نے جھرجھری لے کر تیز لہجے میں کہا۔
’’ہم سے ممی کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرتا ہے‘ سب کی محبت اور ہمدردی پری کے ساتھ ہوتی ہے‘ ہر کوئی نامعلوم کیوں اس کو ہی پسند کرتے ہیں؟ ایسی تو خوب صورت بھی نہیں ہے وہ۔‘‘
’’اچھا ان باتوں سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے اب تم بتائو کیا چاہتی ہو؟‘‘ عائزہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’میرے چاہنے سے کیا ہوگا؟ کیا طغرل مجھ سے محبت کرنے لگے گا؟ کیا وہ مجھ سے شادی کی خواہش ظاہر کرسکتا ہے؟‘‘ وہ حسرت زدہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
’’یہ سب تو ممکن نہیں ہے اور کچھ چاہو تو…؟‘‘ وہ معنی خیز لہجے میں کہہ کر چپ ہوگئی تھی۔
’’اور کچھ… کیا چاہوں بتائو مجھے؟ طغرل کے بغیر تو میری زندگی موت ہے۔‘‘ وہ رونے لگی تھی۔
’’موت! تم رونا بند کرو‘ میں بتاتی ہوں تمہیں اگر وہ تمہارا نہیں ہوا تو تم اس کو پری کا بھی نہ ہونے دو۔‘‘
’’یہ کس طرح ہوسکتا ہے عائزہ؟‘‘ وہ حیرانی سے گویا ہوئی تھی۔
’’میں بتاتی ہوں تمہیں۔‘‘ وہ سرگوشیوں میں گفتگو کرنے لگی تھیں۔
…٭٭٭…
سب کچھ ہے پاس لیکن کچھ بھی نہیں رہا
اس کی ہی جستجو تھی اور وہ ہی نہیں رہا
کہتا تھا اک پل نہ رہوں گا تیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے وہ وعدہ نہیں رہا
’’مثنیٰ! پری کو کال کرو اور بتائوہم واپس آگئے ہیں۔‘‘ عشرت جہاں کافی کے مگ لاتے ہوئے میگزین پڑھتی مثنیٰ سے مخاطب ہوئی تھیں۔
’’ممی! میں نے میسج چھوڑ دیا ہے وہ شاید سوگئی ہے اس نے کوئی جواب نہیں دیا میں صبح کال کروں گی پری کو۔‘‘ وہ کافی کا مگ لیتی ہوئی گویا ہوئی تھیں۔
’’صفدر جمال لندن جاکر ہی بیٹھ گئے ہیں ‘ دو ماہ ہوچکے ہیں اور وہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ معلوم تو کرو‘ کوئی پرابلم تو نہیں وہاں؟ سعود تو خیریت سے ہے نا؟‘‘
’’ارے ممی! آج کل کی اولاد بھی والدین کے لیے سزا بن گئی ہے۔‘‘
’’ارے کیا ہوا؟ سعود نے اب ایسا کیا کیا ہے؟‘ ‘
’’وہ کل تک جس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے باغی بن گیا تھا‘ وہ لڑکی پوجا اسے چھوڑ کر اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ چلی گئی ہے‘ اس نے سعود کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’وہ لڑکی تو مسلمان ہوگئی تھی پھر کس طرح یہ سب ہوا؟‘‘ وہ کافی بھول کر بے حد پریشانی سے گویا ہوئی تھیں۔
’’مما! رشتے وہاں قائم رہتے ہیں جہاں اخلاص اور نیت صاف ہوتی ہے۔ جہاں شرپرستی اور بے راہ روی کی جڑیں مضبوط ہوں‘ وہاں وفا اور سچائی کی خوشبو بھی نہیں پہنچتی ہے ڈال ڈال منڈلانے والی تتلی کبھی ایک ڈال پر بیٹھتی ہے؟‘‘
’’اپنی من مانی کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔ تم صفدر کو کہو وہ سعود کو ساتھ لے کر آئے‘ اب اسے وہاں چھوڑنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے‘ ہم یہاں خود کوئی بہترین لڑکی دیکھ کر اس کی شادی کریں گے۔‘‘
’’وہ تو اس لڑکی کا روگ لگا کربیٹھ گیا ہے‘ یہاں آنے کو تیار ہی نہیں ہے‘ صفدر کوشش کررہے ہیں ساتھ لانے کی۔‘‘
…٭٭٭…
موسم نے ایک دم ہی تیور بدلے تھے اور گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی تھی۔ اماں جان نے گم صم بیٹھی پری کو ایک نظر دیکھا پھر اس کے قریب بیٹھ گئیں۔
’’کب تک اس طرح بیٹھی رہو گی؟ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا ہے‘ کیوں خود کو سزا دے رہی ہو اور ساتھ میں مجھے بھی؟‘‘
’’ایک سوال پوچھوں دادی جان آپ سے؟‘‘ رونے کے باعث اس کی آواز بھاری ہورہی تھی۔
’’ہاں پوچھو؟‘‘
’’آپ نے مما کو اس گھر میں اس لیے نہیں رہنے دیا کہ وہ پاپا کی پسند تھیں‘ کیا میری مما کا رویہ بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی سخت تھا؟ کیا وہ بھی اسی طرح بدکلامی کرتی تھیں آپ کے ساتھ؟‘‘ اس کے سوال پر ان کا چہرہ جھک گیا تھا۔
’’بتائیں نا دادی! میری مما بھی ایسی ہی تھیں جھوٹ بولنے والی‘ بہتان لگانے والی‘ کسی کی بھی عزت نہ کرنے والی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ ان کے منہ سے لرزتی ہوئی آواز نکلی تھی۔ ’’نہیں اس کی آواز تو بہتی ندی کی طرح دھیمی و مدھم تھی۔ اس نے کبھی بھی تیز لہجے میں بات نہیں کی تھی۔‘‘
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’پھر کیوں نکالا آپ نے ان کو اس گھر سے؟ میری زندگی سے پاپا کی زندگی سے‘ صرف اس وجہ سے کہ وہ مما سے محبت کرتے تھے اور اس خوف سے کہ وہ کہیں مما کو لے کر اس گھر سے نہ چلے جائیں‘ آپ کو بھول نہ جائیں‘ آپ نے ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔‘‘ وہ روتی ہوئی کہتی جارہی تھی اماں پر سکتہ طاری ہوگیا تھا۔
’’پاپا آپ کو کبھی چھوڑ سکتے تھے‘ یہ آپ نے کیسے سوچ لیا تھا؟‘‘
’’اس وقت تو ایسا ہی لگ رہا تھا پری! فیاض اپنی حسین و جمیل دولت مند بیوی کی محبت میں ہمیں چھوڑ جائے گا‘ اماں نے کہا قبل اس کہ یہ ہم کو چھوڑ کر جائے‘ ہم ان کے رشتے میں دراڑ ڈلوا دیتے ہیں اور پھر سب بہت آسانی سے ہوتا چلا گیا‘ یہ مجھے بہت بعد میں احساس ہوا کہ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ ان کو بھی ماضی کی یادیں رلانے لگی تھیں۔
’’ آج بھی فیاض میرے پا س ہے لیکن میں جانتی ہوں پاس ہوکر وہ بھی مجھ سے بہت دور ہوچکا ہے۔ یہ اس کی اعلیٰ ظرفی ہے جو وہ مجھے آج بھی پیار کرتا ہے‘ احترام دیتا ہے مگر جو ہم نے اس کے ساتھ کیا ہے وہ بہت بُرا ہے۔‘‘
’’آج آپ پچھتارہی ہیں دادی جان! کل آپ تھوڑا سا اپنے دل کو وسیع کرتیں اور پاپا کی محبت پر بھروسہ رکھتیں تو آج کم از کم میری اور پاپا کی زندگی بہت اچھی ہوتی اور وہ دل سے آپ سے محبت کررہے ہوتے محض فرض نہیں نبھاتے۔ میں نے آج تک پاپا کو خوشی سے مسکراتے نہیں دیکھا‘ وہ کبھی مسکراتے بھی ہیں تو ان کی آنکھیں نم رہتی ہیں‘ بالکل اسی طرح میں مما کی آنکھیں بھی دیکھتی ہوںو ہ بھی مسکراتی ہیں تو پاپا کی طرح ان کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں اور اس نمی میں تنہائی رقص کرتی ہے۔‘‘
’’پری میری بچی! چپ ہوجا… چپ ہوجا‘ تیری ماں اورباپ میں جدائی کرانے کا دکھ مجھے قبر تک بے چین رکھے گا۔‘‘
…٭٭٭…
مذنہ بیڈ پر نیم دراز تھیں معاًطغرل ڈور ناک کرکے آیا تھا۔
’’سوری مما! آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیاہے؟‘‘
’’ارے نہیں میری جان! آئو بیٹھو میرے پاس۔‘‘ بہت محبت سے انہوں نے اس کو جگہ دی تھی۔
’’تھینکس مما!‘‘ وہ قریب بیٹھ گیاتھا۔
’’اپ سیٹ لگ رہے ہو؟ صباحت کی باتوں سے ڈسٹرب ہوئے ہو۔‘‘
’’آف کورس مما! میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں اگر میں آپ سے تمام باتیں شیئر نہ کرچکا ہوتا تو شاید کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہتا‘ کتنی غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لیتی ہیں وہ۔‘‘
’’کیوں سیریس لے رہے ہو؟ میں صباحت کی نیچر جانتی ہوں‘ جب کوئی کام اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ہے پھر اسی طرح کی باتیں کرتی ہے‘ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’کیا کام ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا مما!‘‘ انہوں نے ایک نظر اسے مسکرا کر دیکھا پھر بولیں۔
’’آپ نے عادلہ کی جگہ پری کو پرپوز جو کردیا ہے۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی مما! پھر میں عادلہ کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’اچھا‘ پری کو پسند کرتے ہو؟‘‘ وہ شوخ لہجے میں استفسار کرنے لگیں وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’بات پسند نا پسند کی نہیں ہے مما! میں نے کسی بھی لڑکی کو اپنی لائف پارٹنر کی نیت سے نہیں دیکھا تھا‘ میں ابھی اپنا بزنس اسٹیبلشڈ کرنا چاہتا ہوں‘ بزنس ورلڈ میں اپنا نام بہت ٹاپ پر دیکھنا چاہتا ہوں‘ جس کے لیے میں اتنی اسٹریگل کررہاہوں۔‘‘
’’پھر پری کو پرپوز کیوں کیا‘ جو اتنے ہنگامے کی وجہ بنا؟‘‘
’’مما! یہ بات میں نے بہت عرصے قبل فیل کی تھی کہ پری کو یہاں اسٹرونگ سپورٹ کی ضرورت ہے اور یہ بات تو آج بالکل ہی واضح ہوگئی ہے کہ سچ مچ اس کو اسٹرونگ سپورٹ کی ضرورت ہے جو میں اسے دوں گا۔‘‘ وہ ایک عزم سے بولا۔
…٭٭٭…
عائزہ نے جو اس کے اندر کا آتش فشاں بھڑکایا تھا۔ اس کی تپش میں محبت کے وہ تمام پھول‘ آرزئوں کی وہ ساری کلیاں جل کر راکھ بن چکی تھی‘ اس نے عائزہ کو منع کردیا تھا‘ وہ سب کچھ گوارا کرسکتی تھی مگر طغرل کی ابدی جدائی اسے گوارا نہ تھی‘ حسب عادت عائزہ مسکرا کر چپ ہوگئی تھی۔
مگر اس کے اندر ایک خیال کنڈلی مار کر بیٹھ گیاتھا وہ تصور کی آنکھ سے پری اور طغرل کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے محبت بھرے انداز میں گھومتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور ان کی یہ محبت بھری قربت اس کے دل کو تڑپانے لگی تھی اوربالآخر اس نے فیصلہ کرلیا تھا۔ اگر طغرل اس کا نہیں تھا تو وہ اسے پری کا بھی نہیں بننے دے گی۔
’’تم نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے نا؟‘‘ عائزہ اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی تھی۔
’’ہاں ہاں‘ میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے طغرل میرا نہیں ہے تو پری کا بھی نہیں ہوگا خواہ وہ مرجائے یہ بہتر ہے۔‘‘ اس کے انداز میں بلا کا اعتماد و یقین تھا۔
’’یہ بتائو‘ یہ سب ہوگا کس طرح سے؟‘‘
’’راحیل کروائے گا یہ کام کسی سے‘ تم فکر مت کرو۔‘‘
’’راحیل! تمہارا دماغ خراب ہے پھر تم اس سے مل رہی ہو؟‘‘ راحیل کے نام پر وہ اچھل پڑی تھی۔
’’شش… آہستہ‘ آواز باہر چلی گئی تو جانتی ہو ہمارا حشر کیا ہوگا۔ اس لیے اپنی زبان بند رکھو۔‘‘ عائزہ بالوں میں ربن باندھتے ہوئے خفگی سے گویا ہوئی۔
’’لیکن تم راحیل پر اتنا بھروسا کس طرح کرسکتی ہو؟ وہ پہلے ہی ساری جیولری لے کر بھاگا ہوا ہے اور طغرل کا مرڈر کروا کر وہ ہم کو بلیک میل نہیں کرے گا؟‘‘
’’ایسا کچھ نہیں ہوگا‘ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے اور میری خاطر جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ محبت کتنی ظالم شے ہے یہ تم بھی جان چکی ہو۔‘‘اس کے لہجے میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔
’’کل تک تم طغرل کو دل و جان سے چاہتی تھیں نا۔‘‘
’’میں اب بھی طغرل سے محبت کرتی ہوں۔‘‘ وہ روہانسی ہوکر گویا ہوئی تھی۔
’’ہاں‘ محبت خود غرض ہوتی ہے‘ جو ہمارا نہیں ہوتا وہ کسی کا بھی کیوںہو؟یہی جذبہ محبت کہلاتا ہے عادلہ!‘‘
’’طغرل! راحیل سے بے حد مختلف ہے تم اس سے کمپیئر مت کرو‘ راحیل چور‘ بدمعاش اور فراڈی آدمی ہے وہ ہمیں دھوکا دے گا میں اس پر بھروسا نہیں کرسکتی عائزہ! تم یہ سب بھول جائو۔ جو میں نے تم سے کہا ہے ورنہ ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔‘‘
’’تم بار بار راحیل کی بے عزتی کررہی ہو‘ جو میں برداشت کررہی ہوں‘ یہ خیال کرکے تمہارے دل پر محبت کی چوٹ ابھی تازہ ہے اور تمہیں درد زیادہ ہورہا ہے مگر اب تم نے ایک لفظ بھی راحیل کے خلاف کہا تو ٹھیک نہیں ہوگا۔‘‘ وہ اسے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں بولی تھی۔ ’’تم نے طغرل سے محبت کی ہے تو میں نے راحیل کو چاہا ہے اور وہ بھی مجھے چاہتا ہے‘ تمہاری طرح یک طرفہ محبت نہیں کی میں نے۔‘‘
…٭٭٭…
وہ ہوٹل کے ہال میں ساحر کے ساتھ موجود تھی‘ ٹیبل لوازمات سے بھری ہوئی تھی اس کے انکار کے باوجود اس نے بہت کچھ آرڈر کردیا تھا اور بڑے اصرار سے اسے ہر ڈش پیش بھی کی تھی اور خود بھی بڑی سخاوت کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا رہا تھا۔
’’ساحر صاحب! بتائیے نا اعوان سے آپ کے فرینڈز کی ملاقات ہوئی؟ انہوں نے اعوان کو ڈھونڈ لیا ہے؟‘‘ وہ فکر مند لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’جی ہاں‘ میری ملاقات ہوئی ہے اس سے۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’کیا بات ہوئی ہے؟ وہ کیسے ہیں؟ کب آرہے ہیں واپس؟‘‘ فرط مسرت سے اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
’’آپ کافی پئیں نا۔‘‘ وہ عجیب انداز میں گویا ہوا۔
’’میں یہاں کافی پینے نہیں آئی ہوں ساحر! یہ سب میں نے اس لیے کھایا ہے کہ آپ کہہ رہے تھے کہ کھانے کے بعد آپ مجھے اعوان کے بارے میں بتائیں گے پلیز مجھے بتائیں وہ کب آرہے ہیں؟ میں بہت مشکل میں ہوں۔‘‘ وہ خفگی سے گویا ہوئی تھی۔
’’آپ ناراض مت ہوں‘ میں نے یہ سب آپ کو اصرار کرکے اس لیے کھلایا ہے‘ ابھی جو میں آپ کو حقیت بتائوں گا اس کے بعد آپ شاید کھانا پینا چھوڑ دیں گی۔‘‘ اس کے لہجے میں نرمی اور اپنائیت تھی‘ مگر ماہ رخ کا پریشانی سے چہرہ زرد ہوگیا تھا‘ دل کی دھڑکن رکنے لگی تھی۔
’’کیا حقیقت ہے ساحر! آپ صاف صاف بتائیں‘ اعوان وہاں خیریت سے تو ہیں؟ پلیز جھوٹ مت کہیے گا مجھ سے۔‘‘
’’ارے آپ تو زرد ہوگئی ہیں پلیز کول ڈائون۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر پریشانی سے بولا۔
’’پلیز ساحر بتائیں میں ہر بات سننے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔‘‘
’’مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے پہلے ڈاکٹر…‘‘
’’آپ مجھے صرف اعوان کے بارے میں بتائیں آپ نے نہیں بتایا تو میں اس کھڑکی سے چھلانگ لگادوں گی۔‘‘ وہ جس کھڑکی کے قریب بیٹھے تھے وہ اس کی طرف اشارہ کرکے ہذیانی انداز میں گویا ہوئی تو ساحر کو اس کی ذہنی کیفیت کا احساس ہوا اور وہ دھیرے سے مسکرا کر گویا ہوا۔
’’وہ ٹھیک ہے‘ زندہ ہے‘ انجوائے کررہا ہے۔‘‘
’’نہیں کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔‘‘
’’پہلے آپ میرے ساتھ باہر چلیے وہاں چل کر بتاتا ہوں۔‘‘ وہ اس کے ساتھ پارک میں آگیا تھا کیونکہ شام ابھی ہوئی نہیں تھی اور سردی کے باعث وہاں اکّا دُکّا لوگ ہی موجود تھے وہ ایک بنچ پر اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔
’’اب بتا بھی دیجیے کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہے ہیں؟‘‘ چند لمحے وہ اس کی طرف دیکھتا رہا پھر گویا ہوا۔
’’وہ آپ سے شادی کرنے کا وعدہ کرکے گیا تھا؟‘‘
’’ہاں‘ وہ اپنے والدین کو راضی کرنے گئے تھے اور اعوان کو یقین تھا وہ اس کی بات مان جائیں گے۔ ہماری شادی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔‘‘ وہ خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔
’’اعوان نے… وہاں شادی کرلی ہے۔‘‘ وہ آہستگی سے بولا۔
’’جی نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا ہے اعوان میرے علاہ کسی اور لڑکی سے شادی نہیں کرسکتے‘ ساحر… آپ کو غلط انفارمیشن ملی ہے۔ اعوان ایسا نہیں کرسکتے‘ مجھے یقین ہے ان پر۔‘‘ اتنی سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہوگئی تھی‘ بہت ابتر حالت تھی اس کی جیسے سب لٹابیٹھی ہو۔
’’ریلیکس ماہ رخ! میں آپ کی دلی حالت سمجھ سکتا ہوں‘ جب میں نے سنا تھا بے حد کنفیوژ ہوگیا تھا پھر آپ کی تو بات ہی اور ہے‘ محبت کی ہے آپ نے اس بے وفا سے۔‘‘ وہ بھی بے حد شرمندہ و نادم دکھائی دے رہا تھا۔
’’میری خود بات ہوئی تھی اعوان سے‘ جب میں نے اسے آپ کے حوالے سے باتیں سنائی تو وہ مجھ سے بھی جھگڑنے لگا تھا اور کہہ رہا تھامیں آپ سے کہہ دوں‘ اس کو بھول جائیں آپ۔‘‘
’’اوہ! میں کیسے یقین کرلوں؟ کس طرح خو دکو یقین دلائوں؟‘‘ جلتی ہوئی خواہشوں کا ڈھیر تھا جو اس کی آنکھوں سے بہنے لگا تھا۔ گلفام کا سیاہ چہرہ‘ قدیم طرز کا بنا وہ عام سا گھر اور وہ ہی خواہشوں کی چادر میں ملفوف روتی‘ سسکتی زندگی اسے دکھائی دے رہی تھی اور وہ سسک سسک کر رونے لگی تھی‘ کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے عالی شان زندگی حاصل کرنے کے لیے اور ہاتھ کیا آیا تھا؟
’’پلیز… پلیز ماہ رخ! آپ روئیں مت‘ آپ کے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ اعوان کریکٹرلیس شخص تھا میں جانتا ہوں اس کو بچپن سے‘ آپ کو اس لیے نہیں بتایا تھا کہ آپ کو جب یقین نہیں آتا۔‘‘
’’یقین تو مجھے اب بھی نہیں آرہا ہے۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں آپ سے؟‘‘ وہ سنجیدگی ًسے بولا۔
’’کیا کہیں گے آپ ساحر صاحب! آپ کے دوست نے میرے سارے خواب بکھیر دیئے‘ میری خواہشوں کو بے رنگ کر ڈالا ہے۔‘‘ اس کے اندر ماتم ہورہا تھا۔ حسرتیں نوحہ کناں تھیں۔
’’میں آپ کی خواہشوں میں سچائی کے رنگ بھرنا چاہتا ہوں‘ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا تھا۔
’’آپ اعوان کی بے وفائی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں‘ مجھے آپ سے پہلی نظر میں ہی محبت ہوگئی تھی۔‘‘
…٭٭٭…​
صباحت کو عادلہ سے حقیقت معلوم ہوئی تھی پھر کچھ عادلہ نے اس طرح رو رو کر پری کو پرپوز کیے جانے کی خبر سنائی تھی کہ بیٹی کے آنسوئوں نے ان کے اندر کی سوتیلی ماں کو پوری طرح بیدار کردیا تھا۔ انہوں نے بھی سوچ لیاتھا اپنی بیٹی کے آنسوئوں کا بدلہ وہ پری کو خوب ذلیل و خوار کرکے لیں گی اور اس کو اتنا زچ کریں گی کہ وہ یہاں سے بھاگتی نظر آئے گی۔
آغاز وہ کرچکی تھیں گوکہ ان کی سازش ناکام ہوگئی تھی۔مذنہ اور اماں جان نے ہر بات کلیئر کردی تھی مگر وہ ہار ماننے والی نہ تھیں۔ ان تمام باتوں کو خوب بڑھا چڑھا کر عامرہ اور آصفہ کو فون پر بتاچکی تھیں اور یہاں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے طغرل کی طرف سے آس لگائے بیٹھی تھیں۔
اس خبر نے ان کوبھی حواس باختہ کر ڈالا اور وہ فوراً اماں کے پاس چلی آئی تھیں اور آتے ہی گلے شکوے شروع کردیئے تھے۔
’’اماں! یہ کیا سنا ہے ہم نے‘ طغرل پری سے شادی کررہا ہے؟‘‘ آصفہ کشنز پر کور چڑھاتی پری کو گھورتے ہوئے بولیں۔
’’اچھا یہ خبر تم تک بھی پہنچ گئی؟ جب ہی دوڑی دوڑی آئی ہو‘ ورنہ ماں کی یاد تو تم کو کبھی نہیں آتی ہے۔‘‘
’’ارے اماں جان! آپ کو ہماری ضرورت ہی کیا ہے آپ کی ساری محبتیں سمیٹنے کے لیے یہ پری ہی کافی ہے‘ آپ کو ہماری یاد کیا آئے گی۔‘‘ آصفہ کی خونخوار نظریں پری پر ہی جمی تھیں۔
’’جب وہ بلا اس گھر سے جارہی تھی‘ تب ہی کہا تھا آپ سے اماں کہ اس فتنے کو مت روکیں‘ دفع کریں اس کو بھی اس کی ماں کے ساتھ مگر آپ نے ہماری ایک نہ سنی اور روک لیا اس فتنے کو اور دیکھ لیں‘ آج یہ کس طرح ہماری بیٹیوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے اپنی ماں کی طرح۔‘‘
’’اپنی زبانوں کو لگام دو توبہتر ہے تم دونوں‘ ورنہ مجھ سے پھر شکایت مت کرنا کہ اس عمر میں میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ حد ہوتی ہے الزام تراشیوں کی بھی‘ کیوں تم سب اس بے چاری معصوم بچی کے

[DOUBLEPOST=1346053006][/DOUBLEPOST]
پیچھے پڑ گئی ہو؟‘‘ اماں کا جاہ و جلال جاگ اٹھا تھا۔
’’رہنے دیں اماں! رہنے دیں ‘ نواسیوں کی فکر نہیں ہے آپ کو صرف اور صرف اس کی فکر رہتی ہے آپ کو۔ گھر میں اور بھی پوتیاں ہیں آپ کی‘ کبھی ان سے آپ نے اتنی محبت نہیں کی۔‘‘
’’تم کون ہوتی ہو مجھ سے یہ سب پوچھنے والی؟ ارے میری پری کی جیسی بن کر تو دکھائے کوئی‘ دن و رات خدمت کرتی ہے میری۔‘‘ اس دوران پری شاکڈ بیٹھی تھی۔
’’بس اماں! آپ کو اس کی اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ وہ جو طغرل کے ساتھ منہ کالا کرکے آئی تھی صبح کے ٹائم‘ وہ بھی اچھی بات ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا ہوا ہے کبھی؟‘‘
’’آصفہ! اللہ کے قہر سے ڈرو کیا اول فول بک رہی ہے‘ تجھے معلوم ہے کتنا بڑا بہتان لگا رہی ہے تُو؟‘‘ اماں حیرت و صدمے سے بیٹیوں کی طرف دیکھتی رہ گئی تھیں اور اس لمحے پری کے جسم میں بھی برق سی دوڑی تھی اور وہ وہاں سے اٹھی تھی اور بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی۔
طغرل جو ابھی آفس سے آکر اپنے کمرے میں جانے ہی والا تھا جب اس نے پری کو تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو لمحے بھر کو یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ کیوں بھاگ رہی ہے مگر پھر دوسرے لمحے ہی اسے کسی خطرے کا احساس ہوا تھا۔
وہ ہاتھ میں پکڑا بریف کیس وہیں رکھ کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا‘ وہ سیڑھیاں چھت کی طرف جارہی تھیں۔
وہ چھت پر گیا تو بارش بہت تیز ہورہی تھی دھواں دھواں سا بارش کی شدت سے بکھرا ہوا تھا۔
وسیع و عریض چھت پر اس نے دیوانہ وار نظریں دوڑائی تھیں اور سائیڈ کی بائونڈری وال پر چڑھتی پری کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔
’’کیا کررہی ہو تم؟ وہاں کیوں چڑھ رہی ہو ‘ گرجائو گی؟‘‘
’’چلے جائیں آپ یہاں سے‘ یہ سب کچھ میں آپ کی وجہ سے ہی کررہی ہوں‘ میری موت کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔‘‘ وہ روتے ہوئے اوپر چڑھنے کی کوشش کے دوران چیخی تھی اور طغرل کواس بھری برسات میں تارے نظر آنے لگے تھے۔
’’پاگل ہوگئی ہو تم؟ خودکشی کا مطلب سمجھتی ہو۔‘‘ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا جو اس نے جھٹکے سے چھڑالیا تھا۔ بائونڈری وال خاصی اونچی تھی جس پر چڑھنا اس دھواں دار بارش میں مشکل لگ رہاتھا‘ مستزاد اس پر طغرل اسے روکنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ اس سے بچنا چاہ رہی تھی۔
’’آپ جب سے پاکستان آئے ہیں میری زندگی آپ نے سزا بنادی ہے۔‘‘
’’اوکے میں واپس چلا جائوں گا‘ مگر تم یہ حرام موت مرنے کا ارادہ کینسل کردو‘ میں جلد واپس چلا جائوں گا۔‘‘
وہ دونوں ہاتھوں سے اسے اوپر چڑھنے سے روکنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دوسرے لمحے وہ اس کے مضبوط بازوئوں کی گرفت میں تھی وہ اس طرح تھامے ہوئے اسے بائونڈری وال سے دور لے گیاتھا۔
اسی لمحے ہانپتی کانپتی اماں جان وہاں آئی تھیں اور ان کے پیچھے عامرہ‘ آصفہ‘ صباحت تھیں۔ جو آنکھیں پھاڑے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
(باقی آیندہ ماہ ا
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
چاند‘ عید اور ہم… سلمیٰ فہیم گل
’’کیا ہورہا ہے یہ؟‘‘ اس کی غصیلی آواز اور کھا جانے والے انداز میں چلّانے پر اس کے ہاتھ میں موجود کتاب اچھل کر سوفے پر جاگری تھی۔ اس نے چونکتے ہوئے رخ موڑا اور گھور کر اس کی جانب دیکھا۔
’’اے خونخوار بلی! یہ اتنا سا جملہ تم سکون سے ادا نہیں کرسکتی تھیں؟ اور بائی دا وے یہاں پر ایسا کون سا خزانہ دفن ہے جو میں چُرا کر لے جارہا تھا۔ جب بھی آتی ہو چیختی ہوئی آتی ہو‘ بھوکی شیرنی!‘‘ کتاب ریک میں تقریباً پھینکنے والے انداز میں رکھی تھی اور کمر پر ہاتھ جماتے ہوئے لڑاکا عورتوں کی طرح اس کے ذرا سے جملے کا تفصیلی جواب دیا تھا۔
نبیہ نے کڑے تیوروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’تمہاری نظر میں خزانہ کسے کہتے ہیں؟ اگر عقل و شعور رکھتے ہو تو اتنا تو معلوم ہی ہوگا ناں؟ مسٹر ایف اے شاہ!‘‘ ناک چڑھا کر کہتے ہوئے چبا چبا کر اس کا نام ادا کیا تھا۔ فرح اذلان شاہ نے مسکراہٹ لبوں میں دباتے ہوئے سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’میری نظر میں تو اصل خزانے کو ہی خزانہ کہتے ہیں‘ اس میں عقل و شعور کا کیا ذکر۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر چڑانے کی کوشش کی۔
’’ہونہہ! ہو‘ نا وہی عام سے انسان ! مادیت پرست سو کا لڈ بزنس مین! ظاہر ہے تمہارے لیے تو خزانہ روپیہ پیسہ‘ ہیرے جواہرات ہی ہوں گے مگر میری نظر میں خزانہ یہی ہے جس کو تم آئے دن چرالیتے ہو‘ جو تمہارے نزدیک محض سفید اوراق پر سیاہ قلم سے لکھی ہوئی ایک بے جان سی تحریر ہے۔ جسے پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا تمہارے بس کی بات نہیں۔ اگر تمہیں حقیقی معنوں میں اصل خزانے کی پہچان ہوتی تو آج…‘‘
’’تو آج میرے من کی مراد پوری ہوچکی ہوتی‘ ہے ناں؟‘‘ اس نے فوراً اس کی بات قطع کی تھی۔
’’رئیلی نبیہ شاہ! ایسا ہوسکتا ہے کیا؟‘‘ گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے قریب جھکا تھا۔
نبیہ نے شہادت کی انگلی اس کے کشادہ سینے پر رکھی تھی اور زور سے پیچھے دھکیلا تھا۔
’’ایسا ہوسکتا ہے فرح اذلان شاہ! ایسا ہوسکتا ہے نہیں‘ کیوں کہ تمہاری عقل و شعور کی دوڑ صرف دو اور دو چار تک ہے۔ اس انمول خزانے کا ایک موتی بھی تمہاری رسائی سے کوسوں دورہے‘ اتنے سالوں میں تم وہ بھی حاصل نہیں کر پائے۔‘‘ کسی قدر طنزیہ انداز میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’چُن تو رہا ہوں اس انمول خزانے کے موتی‘ تم تک پہنچنے کے لیے بس…‘‘
’’رہنے دیجیے مسٹر فرح اذلان شاہ! یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ تم سے جو ہوسکتا ہے تم وہی کرو‘ دو اور دو چار۔‘‘ استہزائیہ اندازمیں کہتے ہوئے اس نے نخوت سے سر جھٹکا اور باہر نکل گئی۔
فرح نے محظوظ انداز میں مسکراتے ہوئے اسے جاتے دیکھا تھا اور دوبارہ سے ریک میں رکھی ہوئی کتاب اٹھا کر سوفے پر براجمان ہوگیا اور اس انمول خزانے کے موتی چُننے کی کوششیں کرنے لگا۔ جو نبیہ کے نزدیک اس کی عقل میں سمانے والے نہیں تھے۔
…٭٭٭…
’’میں نے لسٹ بنادی ہے دادی! آپ دیکھ لیں‘ جو رہ گیا ہے میں وہ لکھ دیتی ہوں۔‘‘ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ رمضان میں تو بازاروں کے چکر لگانا فاطمہ شاہ کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے وہ پہلے ہی ساری تیاریاں کرنا چاہ رہی تھیں۔
’’مجھے کیوں دکھا رہی ہو بیٹا! فاطمہ کو دکھائو۔ ویسے بھی یہ کام تو اسی کا ہے۔‘‘ دادی نے اس سے لسٹ لے کر مما کو تھمادی تھی۔ تبھی نبیہ گویا ہوئی۔
’’ابھی تو بہت دن ہیں مما! رمضان شروع ہونے میں‘ اتنی جلدی شاپنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی تو آپ کی طبیعت بھی پوری طرح نہیں سنبھلی‘ ایسے میں بازاروں کے چکر لگانا آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں بچے! اور رہی رمضان کی تیاری تو یہ تیاری میں اس لیے جلدی شروع کرتی ہوں کیونکہ میں اس خوشی کو محسوس کرنا چاہتی ہوں‘ جو رمضان کے آنے سے میرے اندر تک کو سرشار کردیتی ہے‘ مجھے خود کو یہ احساس دلانے میں بہت فرحت محسوس ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے‘ اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہونے والی ہیں‘ اس ماہ کی آمد کا احساس ہی میرے لیے سکون پرور ہے‘ دیکھ نہیں رہیں اسی لیے تو میں اتنی چاق و چوبند ہوگئی ہوں۔ بیماری فوراً اڑن چُھو ہوگئی ہے۔‘‘
’’جی مما…! رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے قبل ہی اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہو نا شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘
’’صحیح کہہ رہی ہو بیٹا! یہ فرح کہاں ہے؟ نظر نہیں آرہا۔‘‘ اسے جواب دے کر انہوں نے فرح اذلان شاہ کی بابت دریافت کیا۔ وہ ایک پل کو چپ سی ہوگئی۔
’’فرح باہر گئے ہیں مما!‘‘ اس نے بہت آہستگی سے جواب دیا تھا۔ انداز پُرسوچ تھا‘ آج اس کا رویہ بہت عجیب لگا تھا اسے ورنہ پہلے کبھی اس کی باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔
’’باہر گیا ہے‘ اس وقت… حیرت ہے پہلے تو اس وقت وہ ہمارے ساتھ بیٹھتا تھا‘ آج باہر چلا گیا۔‘‘ فاطمہ شاہ کو خاصی حیرت ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دادی نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔ وہ محض کندھے اچکا کر رہ گئی اور کہتی بھی کیا؟ اسے خود اس کے رویئے کی سمجھ نہیں آئی تھی تو کسی اور کو کیا جواب دیتی بس سوچ کر رہ گئی تھی۔
…٭٭٭…​
’’فرح!‘‘ وہ لائونج میں بیٹھا چینل سرچ کررہا تھا تبھی نبیہ نے پکارا۔
’’کہیے نبیہ شاہ! اس بندۂ ناچیز کو کیسے یاد کرلیا آپ نے؟‘‘ اس کی پکار پر اس نے ریموٹ ٹیبل پر رکھ دیا اور نرمی سے مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
’’آپ تو کچھ زیادہ ہی برہم دکھائی دے رہے ہیں‘ فرح اذلان شاہ! اتنا غیر اہم تصور کرلیا خود کو کیا؟‘‘
’’ارے نہیں نبیہ شاہ! غیر اہم تو ہم نے خود کو کبھی نہیں سمجھا‘ ہم نے تو خود کو بہت خاص تصور کیا تھا۔ تبھی تو آپ تک رسائی کے خواہاں ہیں‘ ورنہ کوئی عام سی شخصیت آپ کے شایان شان کہاں؟‘‘ اس نے کوئی طنز کیا تھا‘ نا ہی لہجے میں استہزاء تھا۔ مگر پھر بھی ذرا سی چبھن ضرور تھی جو نبیہ شاہ کو بہت محسوس ہوئی تھی۔
’’یہ تو آپ کی سوچ ہے بزنس مین! ورنہ میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا۔‘‘ وضاحت دینے کی کوشش کی گئی تھی‘ فرح مسکرادیا تھا۔
’’یہ تو تمہارا خیال ہے۔ بھلے عقل و شعور میں تم سے بہت کم ہوں پھر بھی رویوں کی پہچان تو بہرحال ہے۔ کوئی کام تھا کیا؟‘‘
’’جی ہاں! کام تو تھا اگر آپ اس جانب توجہ فرمانا ضروری سمجھیں تو۔‘‘
’’کہیے! میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘ قدرے سر کو جھکاتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
نبیہ نے چند پل بغور اس کی جانب دیکھا تھا اور پھرنظریں چراتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’آج رمضان المبارک کاچاند نظر آنے کی پوری امید ہے‘ مما اور دادی کہہ رہی تھیں‘ تراویح کے لیے تیار رہنا۔‘‘
’’کوشش کروں گا۔‘‘
’’کیا مطلب فرح؟ رمضان المبارک کا مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے۔اس مہینے کا ایک ایک پل ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی ہے اور اس مہینے کی عبادتیں عام دنوں کی عبادتوں سے کہیں زیادہ افضل ہیں اور آپ اسے نظر انداز کررہے ہیں۔‘‘
’’میں جانتا ہوں‘ دراصل بہت اہم ڈیل ہے آج میری۔ مس ہوگئی تو بہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔ اس لیے کہا کہ کوشش کروں گا کہ نماز تراویح کے لیے جاسکوں۔‘‘
’’ڈیل نہ ہونے سے بہت بڑا نقصان ہوگا اور اگر یہ عبادت مس ہوگئی تو کتنا بڑا نقصان ہوگا اس کا اندازہ ہے۔ نماز آپ کی اس انتہائی اہم میٹنگ سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
’’تم جانتی ہو نبیہ شاہ! میں ہوں بندہ دو اور دو چار کرنے والا۔ بزنس کو زیادہ سے زیادہ اونچائی پر دیکھنے والا اور آپ کا تعلق ادب‘ علم‘ تصوف سے ہے۔ میں تھوڑا بہت تو ضروری اور غیر ضروری کے فرق کو سمجھتا ہوں مگر پھر بھی آپ سے بہت پیچھے ہوں‘ اس لیے کچھ بھی کہنے سے قبل یہ سوچنا بھول جاتا ہوں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اب تم بتائو کچھ رہنمائی کرو‘ شاید کچھ اپنا بھی بھلا ہوجائے۔‘‘ وہ طنز کررہا تھا یا حقیقت میں اس کی قابلیت سے متاثر تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی مگر کچھ پل کے لیے خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’ کیا بات ہے فرح شاہ! یہ عقل و شعور والا معاملہ کبھی مذہب کے مسئلے میں تو بحث کے لیے منتخب نہیں ہوا تو آج کیوں؟‘‘
’’شاید… آپ کی عمیق باتیں بہت اثر کرنے لگی ہیں۔ مذہبی تو ہوں نہیں میں‘ نماز کبھی پڑھی نہیں‘ نماز جمعہ بھی ادا کرنے میں کوتاہی کرجاتا ہوں‘ اسی لیے تو آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ کہیے رہنمائی کریں گی نبیہ شاہ!‘‘ نبیہ نے بہت غور سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ اس کے لہجے‘ انداز اور آنکھوں میں سچائی تھی۔ نبیہ نے گہرا سانس خارج کیا تھا۔
’’ٹھیک ہے فرح شاہ! تو پھر تیار رہیے گا نماز تراویح کے لیے‘ باقی کام تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کردیں اور جن کے ساتھ ڈیل کرنے جارہے ہیں وہ بھی یقینا مسلمان ہی ہوں گے‘اتنا تو وہ بھی ضرور سمجھتے ہوں گے‘ کیا خیال ہے؟‘‘ انتہائی سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے اس کی جانب دیکھا تھا۔ فرح بھی دھیرے سے مسکرادیا تھا۔
’’بہت نیک خیال ہے۔‘‘ فرح نے کہا تھا۔ نبیہ مطمئن سی باہر نکل گئی۔ اس نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے چیئر سے ٹیک لگالی۔
…٭٭٭…​
فرح اذلان شاہ اور نبیہ شاہ کا تعلق عجیب تھا۔ یہ نہیں تھا کہ ان کے مابین کوئی رشتہ نہیں تھا۔ رشتہ تو بچپن سے ہی چلا آرہا تھا۔ دونوں کزن تھے‘ دونوں کی باتوں میں عجیب ہی ضد ہوتی۔
اختلاف ہوتا‘ جہاں بات میں فرق ہوتا وہیں نظریے کو غلط تصور کیا جاتا‘ اس کے باوجود کزن سے دوستی کا راستہ ہموارہوگیا۔ دونوں کی باتوں میں ضد تھی‘ نظریے میں اختلاف تھا پھربھی دونوں کو ایک دوسرے کے علاوہ کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا۔ دونوں کے بیچ جو اختلاف تھا وہ بہت محدود وقت کے لیے ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے رشتے کو ایک اور نام مل گیا۔ ’’شوہر اور بیوی‘‘ اسی رشتے کی شروعات سے فرح شاہ کو نبیہ شاہ اور نبیہ شاہ کو فرح کے شب و روز کا صحیح معنوں میں علم ہوا تھا۔ علم تو پہلے بھی تھا مگر دل کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔
نبیہ کتابی باتیں کرتی تھی‘ کتابوں میں جیتی تھی۔ ادب سے‘تصوف سے بے حد لگائو تھا اسے۔ مطالعہ اس کی زندگی کا سب سے اہم کام تھا جب کہ فرح شاہ پکا بزنس مین‘ دو اور دو کو چار کرنے والی مشین۔ اس کے باوجود فرح کو تو نہیں البتہ نبیہ کو اس سے بہت اختلاف تھا۔
جب کہ فرح شاہ کو اچانک نبیہ شاہ کے لیے اپنے دل میں پنہاں الفت بھرے جذبات کا ادراک ہوا تھا تو وہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا تھا کہ نبیہ اس کی ہے۔ اس سے اس کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ اس کے باوجود وہ اسے اپنی دسترس سے کوسوں دور لگی۔
جذبوں کی شدت کے احساس نے ہی اس تک رسائی حاصل کرنے کی جستجو پیدا کی تھی۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ بچپن سے جڑا یہ تعلق دونوں کو آپس میں مضبوطی سے جوڑ دیتا مگر اس کے برعکس ہوا تھا۔ اگر فرح اس کے قریب آنے کی کوشش میں تھا تو نبیہ مسلسل خود کو اس سے دور کرتی جارہی تھی۔ اسے اس میں وہ نظر نہیں آتا تھا جو وہ اپنے نصف بہتر میں دیکھنا چاہتی تھی حالانکہ اس نے کبھی کوئی آئیڈیل نہیں بنایا تھا مگر پھر بھی جب جب فرح کو شوہر کے روپ میں دیکھا اسے محسوس ہوا کہ وہ ایسا شوہر ’’پا‘‘ تو گئی تھی مگر چاہتی نہیں تھی یوں تو دونوں کو ہی ایک دوسرے کے جذبات سے آگہی تھی مگر اظہار دور تھا۔ دونوں ہی ابھی بچپن کے اس تعلق کو نبھاتے چلے جارہے تھے مگر اب جانے کیوں نبیہ کو کتابوں سے زیادہ فرح شاہ کو پڑھنے کی خواہش محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کے بدلے ہوئے انداز‘ لہجے اور روپ کو پرکھنے کی جستجو میں تھی۔ اس کا خیال تھا شاید یہی جستجو ان دونوں کی زندگی کو نارمل ڈگر پر لے آئے۔
…٭٭٭…​
’’نبیہ بچے! فرح نہیں اٹھا ابھی تک؟ سحری کا ٹائم ختم ہورہا ہے پہلے تو فرح خود اٹھ کر آتا تھا‘ آج کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے اس کی؟‘‘ وہ ٹیبل پر پانی کا جگ رکھتے ہوئے خود بھی بیٹھنے کا ارادہ رکھتی تھی جب دادی نے اس سے استفسار کیا۔ فاطمہ نے بھی تعجب سے بہو کی جانب دیکھا تھا۔
’’پتا نہیں دادی! میں دیکھتی ہوں‘ طبیعت تو ٹھیک ہی تھی۔‘‘ وہ بے ساختہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے خود بھی حیرت ہوئی تھی‘ فرح کے نہ آنے پر۔
وہ کمرے میں آئی تو فرح جاگ رہا تھا مگر ابھی تک بیڈ پر دراز تھا۔ اسے حیرت ہوئی۔
’’کیا بات ہے فرح! آج سحری کے لیے نہیں آئے۔‘‘ اس کی جانب بغور دیکھتے ہوئے استفسار کیا مگر وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ ہنوز خاموش چت لیٹا‘ چھت کو گھوررہا تھا۔
’’فرح!‘‘ اس کی مسلسل خاموشی پر نبیہ نے ذرا اونچی آواز میں پکارا تھا۔ فرح نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ ’’ٹائم دیکھا ہے تم نے؟ سحری کا ٹائم ختم ہورہا ہے اور آپ ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں۔ روزہ نہیں رکھنا کیا؟‘‘
’’ہاں! میں بس اٹھ رہا ہوں۔‘‘
’’اٹھ نہیں رہا‘ اٹھ جائیں‘ ٹائم کم ہے۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ فوراً اٹھ بیٹھا تھا جب کہ نبیہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔
’’نبیہ!‘‘ تبھی کسی خیال کے تحت اس نے پکارا تھا۔
’’جی؟‘‘
’’کیا ہم بات کرسکتے ہیں؟‘‘ اس نے بغوردیکھا تھا۔
’’کس بارے میں؟‘‘ نبیہ کو حیرت ہوئی۔
’’تمہارے اور میرے مابین جو رشتہ ہے اس کے بارے میں۔ اپنی ضد‘ نظریے کے اختلاف اور عقل وشعور سے ہٹ کر اس رشتے کے بارے میں جو ہمارے بیچ ہے۔ اس پر بات کرنا چاہتا ہوں میں۔‘‘
’آج یہ خیال کیونکر آگیا فرح شاہ!‘‘ اس نے استفسار کیا۔
’’کیونکہ میں اسے محسوس کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے کسی قدر معنی خیزی سے کہا۔ اس کی نظروں اور بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے نبیہ نظریں چرا کر گویاہوئی۔
’’سحری کا ٹائم ختم ہورہا ہے۔آپ فی الحال اٹھ کر ڈائننگ روم میں آجائیں۔‘‘ آہستگی سے کہہ کر باہر نکل گئی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
فرح نے ایک پل کو دروازے سے نکلتی ہوئی نبیہ کو دیکھا اور پھر گہری سانس بھرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
…٭٭٭…​
’’میں نے کچھ کہا تھا نبیہ شاہ! تم نے جواب نہیں دیا۔‘‘ وہ اس وقت اپنی مخصوص چیئر پر بیٹھی مطالعہ میں مصروف تھی‘ جب فرح شاہ اس کے قریب چلا آیا اور کسی قدر شکایتی انداز میں گویا ہوا۔ نبیہ نے چونک کر کتاب پر سے نظریں ہٹائی تھیں اور کسی قدر حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
’’آج بیسواں روزہ ہے اور میں نے پندرہویں روزے کی سحری کو کہا تھا تب سے اب تک انتظار کررہا ہوں مگر تمہاری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ تم بات کرنا نہیں چاہتیں یا پھر نظریں چرا رہی ہو؟‘‘
’’کیا بات کروں؟ میرے پاس بات کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔‘‘ صفحہ پلٹتے ہوئے بنا اس کی جانب دیکھے دھیرے سے گویا ہوئی۔
’’بات کرنے سے بات بنتی ہے نبیہ! جب کہ ہم نے آج تک بات کی ہی نہیں۔ ہمارے مابین آج تک سوائے بزنس‘ نظریے کے اختلاف کی باتوں کے علاوہ اس رشتے پر بات کرنے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں کیونکہ ہم جو باتیں کرتے ہیں وہ بلا مقصد اوربلا جواز ہوتی ہیں۔ تمہیں مجھ سے یہ اختلاف ہے کہ میں وہ بات نہیں سمجھ سکتا جس کا تعلق ادب کے حوالے سے ہو۔ بزنس‘ بزنس اور بس بزنس کی بات ہی میری سمجھ میں آتی ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔‘‘
’’تمہیں لگتا ہے کہ تم نے نکاح تو کرلیا ہے مگر میں وہ نہیں ہوں جسے تمہارے شوہر کے روپ میں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اس کی اس بات پر نبیہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’تمہیں ایسا کیوں لگا فرح شاہ!‘‘
گویا نبیہ اکثر ایسا سوچتی تھی مگر اظہار کبھی نہیں کیا تھا۔ اب فرح کے منہ سے وہی بات سن کر جانے کیوں اس کے لہجہ میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
’’بھلے تم نے نہیںکہا نبیہ! مگر کچھ تو ایسا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دل کی بات بنا کہے بھی محسوس کرسکیں۔ کیا تمہیں کبھی محسوس نہیں ہوا کچھ؟ کیا تم میرے دل کا حال نہیں جان سکیں نبیہ!‘‘ اس کی آنکھوں میں بغور دیکھتے ہوئے فرح نے جاننا چاہتا تھا۔ نبیہ نے فوراً نظریں چرا کر لب بھینچے تھے۔
’’میں جانتا ہوں نبیہ! میں بہت عام سا انسان ہوں‘ زندگی کو زندگی سمجھ کر جینے والا۔ جو گھر سے باہر نکلتا ہے تو اپنی معاشی حالت سدھارنے کی غرض سے‘ اسے بہتر سے بہتر بنانے کی جستجو میں۔ گو میں کتابوں اورکتابی باتوں سے کوسوں دور ہوں‘ مگر مطالعہ ضرور کرتا ہوں اور کسی قدر سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ تم ہی بتائو کیا میں تمہیں نہیں سمجھتا؟ اتنے سالوں میں تمہیں جاننے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ کیا تمہیں نہیں جانتا‘ تمہارے نزدیک شاید میں دو اور دو چار کرنے‘ بزنس کو آگے ہی آگے بڑھانے کی چاہ میں دن رات ایک کررہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ میں کبھی بزنس کو گھر میں لے کر نہیں آیا اور گھر میں صرف فرح ہوں‘ جو اپنے گھر کو پورا ٹائم دیتا ہے۔ اپنی ماں‘ دادی اور اپنی بیوی کو لیکن بیوی کو ایسا لگتا نہیں ہے … کیوں نبیہ! یہی میں جاننا چاہتا ہوں۔ ہم بچپن سے ہر بات میں ضد‘ ضد میں نظریے اور نظریے میں اختلاف کو ڈسکس کرتے چلے آرہے ہیں۔ تمہیں مجھ سے کیا گلہ ہے میں یہ جاننا چاہتا ہوں‘ میں جو اتنے برسوں میں تم سے تم تک کا سفر طے کرنے کی جستجو میں ہوں‘ کیا منزل تک رسائی حاصل کرپائوں گا؟ میں اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں نبیہ! تمہارے جذبات سے آگہی چاہتا ہوں۔ پلیز مجھے بتائو۔‘‘ وہ اپنے دل کی تمام حکایت سنا کر اس سے جواب طلب کررہا تھا مگر نبیہ خاموش تھی۔ چپ چاپ صفحے پر نظریں گاڑے ہوئے تھی۔
فرح بہت دیر تک اس کے جواب کا منتظر رہا مگر اس کی جانب سے جامد خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے لب بھینچتے ہوئے تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا۔
اس کے یوں چلے جانے پر نبیہ کے دل میں جانے کیوں دور تک تاریکی سی چھا گئی تھی۔ وہ یکلخت بے چین سی ہو اٹھی تھی۔ اپنے سمجھ میں نہ آنے والے جذبات کی وجہ سے یا پھر اسے بنا کوئی جواب لیے لوٹ جاتا دیکھ کر‘ جو بھی تھا وہ مضطرب سی ہو اٹھی تھی۔
…٭٭٭…​
آج چھبیسواں روزہ تھا۔ ہر سمت رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹی جارہی تھیں‘ رات رات بھر عبادتیں کرکے مغفرت کی دعائیں مانگی جارہی تھیں۔ جوں جوں رمضان المبارک کا اختتام قریب آرہا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اللہ کے حضور جھک رہے تھے۔ اس کی رحمتوں اوربرکتوں کے طلب گار ہورہے تھے۔ معافی کے خواستگار تھے شاہ پیلس میں بھی یہی ہورہا تھا۔
فرح نے جس روز نبیہ سے بات کی تھی اسی رات بزنس کے سلسلے میں شہر سے باہر چلا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی اسے اندازہ تھا کہ وہ اس کے جواب نہ دینے پر احتجاجاً منظر سے غائب ہوا ہے۔ یہی بات نبیہ کو مضطرب کیے ہوئے تھی۔ نبیہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے دل کی دنیا میں یہ اچانک بدلائو کیونکر آیا ہے‘ مگر اتنا ضرور جانتی تھی کہ وہ اس کی کمی محسوس کررہی ہے‘ اسے آس پاس دیکھتے رہنے‘ اس کے ساتھ نوک جھونک اور بحث کرنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتی‘ چاہے وہ اس کے آئیڈیل کے مطابق نہیں ہو‘ مگر اتنے سالوں کے
ساتھ نے اسے اپنا عادی بنادیا تھا۔ چند روز کی دوری نے اسے بے چین و مضطرب کردیا تھا۔ وہ اس کی منتظر رہنے لگی تھی۔ وہ خود آرہا تھا نا کال نا مسیج۔ اس کا مضطرب ہونا لازمی امر تھا۔
ایک بے چینی تو یہ تھی کہ اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جو کہ سراسر اس کی ضد کے باعث تھا اور دوسری بے چینی یہ تھی کہ وہ جانتی تھی فرح ایسا کیوں کررہا ہے‘ وہ یقینا اس کی جانب سے بلاوے کا منتظر ہے‘ اب جب تک وہ خود اس سے رابطہ نہیں کرلے گی فرح واپس نہیں آئے گا۔ نبیہ کو اسے بلانے میں کوئی عار نہیں تھی مگر اس سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ سی محسوس ہورہی تھی۔ پہلے والی بات ہوتی تو وہ بنا ہچکچائے اس سے رابطہ کرلیتی مگر اب بات اور تھی۔
بلانا تو تھا بس ذرا خود میں ہمت پیدا کرنی تھی۔
…٭٭٭…​
’’کیا خیال ہے فرح!‘‘
’’کس بارے میں؟‘‘ وہ کسی گہری سوچ میں تھا‘ فوراً چونک اٹھا۔
’’گھر جانے کے بارے میں‘ آج انتیس واں روزہ ہے‘ ممکن ہے عید کا چاند نظر آجائے میں تو جارہا ہوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے‘ تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’نہیںیار! میں ابھی نہیں جا پائوں گا۔ ایک دو کام ہیں‘ بہت ضروری اب وہ نمٹا کر ہی جائوں گا۔‘‘
’’چھوڑنا یار! کل عید ہے اور تم اب بھی ضروری کاموں میں لگے ہوئے ہو۔ تمہارے گھر والے تمہارا انتظار کررہے ہوں گے۔ تمہاری بیوی منتظر ہوگی اور تمہیں ضروری کاموں کی فکر ہے۔ کمانا ومانا تو لگا ہی رہتا ہے‘ ہم مرد سارا سال اسی میں تو مصروف رہتے ہیں‘ کچھ دن آتے ہیں خوشیوں بھرے‘ اگر ان میں بھی ضروری کاموں میں لگے رہیں تو ہماری زندگی میں جو تھوڑے بہت رنگ ہیں وہ بھی روٹھ جائیں۔ یار! جب تک زندگی ہے یہ کام ختم نہیں ہونے‘ ہمیں ان خوب صورت خوشیوں بھرے پلوں کو دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں گنوانا نہیں چاہیے۔ کون جانے کتنی زندگی ہے۔ گئے دن کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ دولت کا کیا ہے‘ آج ہے کل نہیں۔ پرسوں پھر آجائے گی۔ مگر گئے دن لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ سو ڈئیر! جائو اور آنے والی خوشیوں کو بانہیں پھیلا کر سمیٹ لو تاکہ کل کو جب اداسی اپنے پَر پھیلائے تو ذہن کے دریچوں سے جھانکتی یہ خوشیاں ہمارے دل کو ہلکا کرسکیں لیکن اگر ایسا کوئی لمحہ ہی نہ ہوگا تو گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کون کرے گا؟ پلیز ان جاتی ہوئی خوشیوں کو سمیٹ لو کام آئیں گی۔‘‘ زبیر چلا گیا اور اسے سوچوں کے حوالے کرگیا۔
فرح منتظر تھا محض ایک فون کال کا‘ اسے یقین تھا۔ کال ضرور آئے گی‘ اتنے برسوں میں وہ اتنا تو جانتا تھا اسے‘ اتنا دعویٰ تو تھا اسے۔ وہ اس کے بارے میں سوچ رہا تھا تبھی موبائل کی بپ ہوئی تھی‘ وہ آنکھیں موندے خوش کن احساس کے تحت مسکرادیا تھا۔ چند پل اسکرین پر جگمگاتے ہوئے نام کودیکھتا رہا اور بٹن پریس کردیا۔
’’ہیلو…!‘‘ زیر لب مسکراتے ہوئے اس نے کسی قدر سنجیدگی سے کہا۔ دوسری جانب کتنے ہی پل خاموشی چھائی رہی تھی پھر…
’’کیا تم آ نہیں سکتے فرح؟‘‘ بہت آہستگی سے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا گیا۔ اس کا دل چاہا پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کرے مگر ابھی کنٹرول لازمی تھا۔
’’کیوں؟‘‘
’’ہمارے لیے… میرے لیے!‘‘ اس کے لہجے میں اظہار تھا۔ بہت مدہم سا وہ بمشکل سن پایا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر خوب صورت ‘ جان دار سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
’’کب…؟‘‘ اس نے استفسار کیا۔
’’ابھی…!‘‘دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’اوکے‘ میںآرہا ہوں۔‘‘ اس نے نوید سنائی تھی اور موبائل فون بند کرتے ہوئے پُرزور نعرہ لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ جانے کا وہ سارا انتظام کرچکا تھا۔ انتظار تھا تو بس اس کی فون کال کا۔ جو پورا ہوچکا تھا۔
…٭٭٭…​
افطاری کے بعد نبیہ لان میں چلی آئی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا چل رہی تھی۔ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا‘ چند پل لان چیئر پر بیٹھی رہی پھر دل نہیں لگا تو اٹھ کر ٹہلنے لگی۔
اسے یوں ٹہلنا بہت بھلا لگ رہا تھا۔ بہت راحت محسوس ہورہی تھی۔ کافی دیر وہ لان میں تنہا ٹہلتی رہی تھی۔ ابھی وہ اندر جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ گیٹ کے پاس کسی گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے مگر ہارن نہیں دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کال بیل ہوئی تھی۔ چوکیدار نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا اور باہر جھانکا تھا۔ دوسرے ہی لمحے تیزی اور پورے جوش بھرے انداز میں گیٹ وا کردیا تھا۔ نبیہ کو خاصی حیرت ہوئی تھی۔
گیٹ کھلتے ہی فرح اذلان شاہ کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی تھی۔

[DOUBLEPOST=1346053749][/DOUBLEPOST]
ٹھیک اسی لمحے ہَوا کا تیز جھونکا نبیہ شاہ کے بالوں کو بکھیرتا چلا گیا تھا۔ اس کا انگ انگ جھوم اٹھا تھا۔ اس نے آنکھیں موند کر اس خوب صورت احساس کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا تھا۔ فرح زیر لب مسکراتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلا اور دھیرے سے چلتا ہوا نبیہ کے قریب آن رکا۔
’’انتظار کررہی تھیں؟‘‘ لبوں پر مسکراہٹ بکھیرے سرگوشی بھرے اندا زمیں پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے مثبت انداز میں سر ہلایا۔
’’میرا؟‘‘ فرح نے پوچھا۔
’’نہیں…!‘‘ اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑسا تھا۔ انداز شریر سا تھا۔
’’تو پھر کس کا؟‘‘ فرح شاہ نے ہاتھ آگے بڑھا کر دوبارہ سے بالوں کو بکھیر دیا۔
’’چاند کا…‘‘ نبیہ اپنے ہی جواب پر خود بھی محظوظ ہوئی تھی‘ وہیں فرح شاہ بھی خاصا محظوظ ہوا تھا۔ دل چاہا تھا کھل کر قہقہہ لگائے۔
’’نظر آ توگیا ہے تمہارا چاند… اب اورکیا؟‘‘ اس نے استفسار کیا۔ انداز شرارتی تھا۔
’’اس چاند کو دیکھنے سے صبح عید تو نہیں ہوگی نا! مجھے تو عید کا چاند دیکھنا ہے فرح اذلان شاہ!‘‘ اس نے بھی شریر مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے بے نیازی سے کہا تھا۔ ساتھ ہی آسمان کی جانب نگاہ کی تھی۔
’’یہ تو زیادتی ہے بیوی! اگر میں نہ آتا تو کل تمہاری عید ہوتی کیا؟‘‘ اس نے مصنوعی خفگی کا مظاہرہ کیا۔
’’بالکل! اگر چاند نکل آتا ہے تو ضرور ہوتی اور یقینا میں مناتی بھی۔‘‘ گویا چڑایا تھا۔
’’کیا واقعی…!‘‘ وہ اس کے قریب جھکا تھا۔
نبیہ سر جھکا گئی تھی۔ بولی کچھ نہیں مگر انداز سے سب کچھ عیاں تھا۔ دونوں کے مابین کافی دیر خاموشی چھائی رہی تھی۔
فرح اس کے متذبذب انداز کو دیکھ رہا تھا۔ جانتا تھا وہ اپنے دل کی بات کہنا چاہتی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اب فرح کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کی ایک فون کال نے سب کہہ دیا تھا۔
’’فرح… میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ ہاتھ کی انگلیاں مسلتے ہوئے دھیرے سے گویا ہوئی۔ فرح مسکرایاتھا۔
’’نہیں نبیہ! اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس کی بات پر نبیہ نے چونک کر سر اٹھایا تھا۔
’’کیوں…؟‘‘ اسے حیرت ہوئی تھی۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اتنا ہی جانتا ہوں تمہیں کہ تمہیں اپنے جذبوں کے اظہار کے لیے لفظوں کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔ نہیں نبیہ! میں تمہیں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بنا کہے تمہارے دل کا حال جان سکوں اور تمہارے دل کا حال تمہاری کچھ گھنٹے قبل فون کال نے بتادیا تھا‘ اب مجھے تمہارے اظہار کی ضرورت نہیں ہے بس اتنا کہ کیا تم زندگی کے اس سفر میں میرا ہاتھ تھام کر چلنا چاہو گی۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
تبھی شور بلند ہوا تھا‘عید کا چاند نظر آگیا تھا۔ چاروں جانب سے صدائیں بلند ہونے لگی تھیں۔ فرح کا ہاتھ پھیلا ہوا تھا اور نگاہیں اس کے صبیح چہرے پر تھیں۔
نبیہ نے مسکراتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھا پھر فرح کو اور دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’عید کا چاند مبارک ہوفرح اذلان شاہ!‘‘
’’صرف عید کا چاند!‘‘ اس کے ہاتھ کو دباتے ہوئے گہری نظر سے دیکھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے اچنبھے سے دریافت کیا۔
’’مطلب! عید کے اس چاند نے ہمیں ملوایا ہے۔ صحیح معنوں میں آج ہم بغیر کسی اختلاف کے ایک رشتے کے تحت ملے ہیں‘ اس رشتے پر بات کررہے ہیں عام انسانوں کی طرح میاں بیوی کی طرح‘ اس رشتے کی خوب صورتی کو محسوس کرتے ہوئے اس حسین پل کویادگار بنا رہے ہیں۔ عید کی خوشی ہے‘ چاند نکل آیا ہے اور ہم ملے ہیں۔ اس ایک پل نے ہمیں کتنی خوشیوں سے ہمکنار کیا ہے تو پھر صرف چاند کی مبارک باد ہی کیوں؟‘‘ فرح نے پوری وضاحت کرتے ہوئے استفسار کیا۔
’’عید مبارک فرح شاہ اور اس عید پر ہمارے رشتے کی شروعات مبارک ہو۔‘‘ چند پل مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا اور اس کے کان کے قریب دھیرے سے سرگوشی کی۔
فرح اذلان شاہ کو تو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی تھی ‘ اس نے مسکراتے ہوئے نبیہ شاہ کا ہاتھ دباتے ہوئے دھیرے سے چھوڑ دیا تھا۔


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
لمحہ آگہی…شازیہ چوہدری
’’دوستو! انسان اشرف المخلوقات ہے خدا نے اسے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا نہیں کیا ہے‘ اس پر دوسروں کے بھی حقوق و فرائض ہیں۔ اپنے حقوق و فرائض پورے کریں‘ اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں۔
میری دوستو! میری بہنو! ہم لوگ اس دنیا میں تھوڑے سے عرصے کے لیے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس وقت مر جائیں‘ کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ کب تک جیے گا؟ نہیں نا؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم نے یہ سانس لیا ہے اگلا سانس آئے گا بھی یا نہیں تو پھر ہم کیوں موت کو بھول گئے ہیں؟ ہمیں ربّ کیوںبھول گیا ہے؟ہم خود غرض کیوں ہوگئے ہیں؟ ہم کیوں اپنے ربّ سے اسی وقت رجوع کرتے ہیں جب ہم پر مصیبت آتی ہے۔
اگر ابھی اسی وقت ہماری روح قبض کرلی جائے تو؟ تو آپ لوگ اپنے ربّ کے سامنے کیا جواب دیں گی؟ کوئی اعمال‘ کوئی نیکی ہے آپ کے پاس؟ گناہوں سے بھرا دامن لے کر جائیں گے تو کیا منہ دکھائیں گے ربّ کو؟
ہمیں نام کے مسلمان نہیں رہنا‘ مومن بننا ہے۔ اپنے ربّ کا فرماں بردار بننا ہے۔ ان شاء اللہ آپ لوگوں سے آئندہ جمعہ دوبارہ ملاقات ہوگی اور ہم آئندہ بھی وہ باتیں کریں گے جس سے ہمارا ربّ راضی ہوجائے۔ تب تک کے لیے اجازت دیں‘ اللہ حافظ۔‘‘
وہ اپنا بیگ اور کتابیں سنبھالتی اٹھ گئی تھی اور پیچھے بہت سے بند دریچے کھلتے جارہے تھے‘ ہدایت کالمحہ آن رکا تھا۔ پیچھے رہ جانے والی اس کی اسٹوڈنٹس کو اب شدت سے جمعہ کا انتظار تھا۔
…٭٭٭…
’’پری‘ پری…‘‘ ماہی اس کو پکارتی بھاگتی ہوئی کچن تک آئی تھی۔
’’پری…!‘‘ ماہی نے پھولے ہوئے سانسوں سے اک بار پھر مخاطب کیا تھا اسے۔ پری نے کرسی آگے کی۔
’’بیٹھو ادھر اور یہ لو پانی پیو پھر کچھ کہنا۔‘‘ ایک گلاس پانی کا ٹیبل پر رکھا تھا۔
ماہی نے ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا تھا۔ پری آرام سے کھڑی دیکھ رہی تھی۔ ماہی نے گلاس ٹیبل پر رکھا تو پری بولی تھی۔
’’ماہی! بُری بات ہے‘ پانی سیدھے ہاتھ سے اور ٹھہر ٹھہر کے تین سانس میںپیتے ہیں ۔‘‘
’’سوری پری! میں پریشانی میں بھول گئی۔‘‘ ماہی نے شرمندہ ہوکر جواب دیا۔
’’دیکھو ماہی! ہمیں ہر کام شریعت اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کرنا چاہیے۔ ہر حال میں چاہے ہم مررہے ہوں تب بھی‘ آئی سمجھ…؟‘‘
’’جی جی… بالکل آگئی اور ان شاء اللہ آئندہ میں ہر بات میں‘ ہر کام میں احتیاط کروں گی۔ ‘‘ ماہی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’ہوں‘ ان شاء اللہ…! اب بولو کیا بات تھی؟‘‘
’’پری! فاران بھائی نے…‘‘ ماہی بولتے بولتے چپ ہوگئی تھی‘ اس میں ہمت نہیں تھی‘ اس نرم نازک دل رکھنے اور دوسروں کے درد کو اپنا جاننے والی کو یہ دکھ بھری خبر کیسے دے۔
’’آپ کے فاران بھائی نرمین کو گھر لے آئے ہیں‘ ہے نا؟ یہی بتانا تھا نا؟‘‘ پری نے بہت آرام سے مسکراتے ہوئے اس بات کی مکمل کی تھی۔ ماہی یک ٹک اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ ماہی نے آنسو بھری آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
’’تو ماہی اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے؟ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے‘ کرلی تو کیا ہوا؟ اب تم دعا کرو یہ فضاء یہ ماحول خوش گوار اور خوشیوں اور رحمتوں سے بھرا ہی رہے اور اللہ پاک نرمین کے نصیب اچھے کرے۔‘‘ پری نے نرمی سے ماہی کو سمجھایا۔
’’تو کیا پری آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ بھائی نے آپ پر سوتن لا بٹھائی‘ آپ کا حق وہ دیتے نہیں ہیں‘ہر وقت ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ اب وہ نرمین… آپ کو پتا ہے وہ کتنی بد تمیز اور بُری ہے۔ آپ دیکھ لینا اب یہ گھر جہنم بن جائے گا۔‘‘
’’ماہی!‘‘ پری نے سختی سے کہا تھا۔ ’’آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ کسی کی تذلیل کرو‘ وہ ہم میں موجود نہیں ہے۔ آپ اس کی غیبت کررہی ہو اور غیبت کرنے والے کو قیامت کے دن اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پڑے گا۔ دیکھو ماہی! ہر انسان کا عمل اس کے اپنے واسطے ہے‘ اس نے اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا ہے۔ ہم نرمین کی نیت سے واقف نہیں ہیں‘ اس کے دل کا حال ہم کو نہیں پتا۔ دلوں کے حال اور نیتوں سے واقف بس ربّ کی ذات ہے۔ ہم اس پر الزام لگا کر‘ شک کرکے‘ غیبت کرکے اپنے اعمال خراب کیوں کریں؟ آپ بجائے غیبت کرنے کے اللہ پاک سے خیرو عافیت کی دعا مانگو۔ وہ بہت کریم اور رحیم ہے۔ کسی بھی انسان کو اس کے ظرف سے بڑھ کے کبھی نہیں آزماتا۔ وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے‘ اس کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے‘ اس کی رضا پر ہرپل راضی رہو‘ سر جھکائے رکھو‘ ٹھیک ہے؟ آئی سمجھ؟‘‘
’’ابھی دو ماہ ہوئے ہیں کچھ عرصہ اور رہی تو شاید آپ جیسی بن ہی جائوں مگر اتنا ظرف شاید مجھ میں نہ ہو۔‘‘ ماہی اٹھ کے دروازے کی جانب بڑھی تھی اور باہر کھڑی نرمین شکستہ قدموں سے واپس پلٹی تھی۔
’’ماہی! ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے ہیں اور کہا جاتا ہے چاہنے والا جسے چاہتا ہے اس کا فرماں بردار ہوتا ہے۔ ہمیں بس اپنے محبوب آقائے دو جہاں کی سنت پر چلنا ہے‘ اگر سنتوں پر چلنا سیکھ گئے تو ہم سرخرو ہیں اور ان شاء اللہ ظرف بھی پائیں گے۔‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘ ماہی نے صدقِ دل سے کہا تھا۔
…٭٭٭…
فاران بیگ پھینک کر بیڈ پر گر گیاتھا۔
’’کیا بات ہے فاران! آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ نرمین نے فکر مندی سے ہاتھ فاران کی پیشانی پر رکھا۔
’’ہاں بس تین چار دن سے طبیعت سیٹ نہیں لگ رہی تھی‘ آج بخار ہوگیا ہے۔ سر میں درد تھا کافی روز سے آج ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تھا چیک اپ کروانے۔‘‘ فاران نے اس کا ہاتھ اٹھاکر اپنے سینے پر رکھ لیا۔
’’تو کیاکہا ڈاکٹر نے؟‘‘ نرمین نے بے تابی سے پوچھا تھا۔
’’کچھ نہیں‘ ابھی رپورٹس آئیں گی پھر پتا چلے گا تم پریشان نہیں ہو۔ خوش رہو‘ کھائو پیو‘ موج کرو۔‘‘
’’فاران! کیا کسی کو برباد کرکے خود انسان آباد ہوپاتا ہے کبھی؟ کسی کو دکھ دے کر سکھ خود بھی نہیں ملتا۔ کھانے پینے‘ پہننے اوڑھنے اور اونچے محلوں میں بسنے اورلمبی گاڑیوں میں بیٹھ جانے سے انسان کو خوشی نہیں ملتی۔ خوشی تو دلوں کے سکون میں ہوتی ہے۔‘‘ نرمین کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی۔
’’کیا ہوا نرمین؟ کسی نے کچھ کہا تم کو؟ پری نے تو نہیں کہا کچھ؟‘‘ فاران اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
’’نہیں‘ کسی نے بھی کچھ نہیں کہا مگر کیا فاران! آپ کو نہیں لگتا ہم دونوں غلط ہیں۔ ہم نے غلط کیا ہے؟ کیونکہ فاران آپ پری کا مان کبھی نہیں توڑ سکتے۔ آپ جتنا چاہیں اسے دکھ دیں مگر اس کا مان نہیں ٹوٹ سکتا کیونکہ مان تو ان کا ٹوٹتا ہے جن کو اپنی دولت پر اپنے حسن پر مان ہو۔ اسے اپنی پاکیزگی پر‘ اپنے ایمان پر مان ہے اور مان کو توڑنے والا پاکیزگی کو غلیظ کرنے والا مسلمان نہیں ہوتا۔‘‘
’’یہ تم کیسی باتیں کررہی ہو؟ تم نہیں جانتیں اسے چھوڑ دو ‘ اس کی بات نہ کرو۔‘‘ فاران نرمین کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شاک میں آگیا تھا۔
’’فاران! اب ہی تو جانا ہے پری کو۔ اسے جان لیا ہے تو آج اپنا آپ بھی سمجھ میں آگیا ہے۔ دیکھو نا فاران! کسی کو انسان ساری عمر ساتھ رہ کے نہیں جان پاتا اور کسی کو جاننے میں بس اک پل لگتا ہے اور وہ پل جس میں‘ میں نے پری کو جانا‘ خود کو پہچانا‘ ہدایت پائی وہ پل آکر گزر بھی گیا ہے اگر وہ سب میرے منہ پر میرے سامنے کرتی تو میں اسے ناٹک کہتی بہروپ کہتی اس کا مگر…‘‘نرمین نے پری کی ماہین سے گفتگو فاران کو سنادی تھی۔
’’فاران! میں نے آپ سے شادی آپ کے کہنے پر کی تھی‘ نکاح کیا تھا کہ آپ اس کا مان توڑنا چاہتا تھے مگر اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی‘ آپ پلیز مجھے طلاق دے دیں۔ تم جانتے ہو کہ میں علی سے بہت محبت کرتی ہوں اور وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتا ہے‘ میں نے بہت بڑا گناہ کردیا ‘ نا علی سمجھ سکا اس نے بھی آپ کو ٹھیک سمجھ کر آپ کا ساتھ دینے کو کہا مگر اب نہیں‘ پلیز آپ طلاق کے پیپر میرے گھر بھجوادینا اور ہاں سبق سیکھنے کی ضرورت پری کو نہیں آپ کو ہے۔ پلیز اس سے پہلے کہ یہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے‘ آپ بھی خود کو بدل دیں۔ قسمتیں بدلنے والی آپ کی اپنی ہے‘ آپ کے گھرمیں موجود ہے۔ آپ در در نہ بھٹکیں‘ ہدایت پاگئے تو دو جہاں میں سرخرو ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ!‘‘ اپنی بات ختم کرکے نرمین نے ماہین اور پری کا مخصوص جملہ ہر کام کے بعد جو وہ بولتی تھی‘ بولا تھا اور پیک کیا سامان لے کر نرمین کمرے سے نکل گئی تھی۔
…٭٭٭…​
السّلام علیکم! کیسی ہیں آپ سب؟ الحمدللہ ٹھیک ہوں گی‘ خیریت سے ہیں نا؟‘‘ سب نے مسکراتے چہروں کے ساتھ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
پری جو کہ ہر جمعہ کو درس دیتی تھی‘ اپنی یونیورسٹی میں اپنی کلاس فیلوز کو جمع کرکے‘ ابھی بھی وہ درس دینے لگی تھی کہ ماہین آٹپکی تھی۔ وہ پری کی نند تھی۔
پری نے اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی دوستوں اور کلاس فیلوز کی اصلاح بھی شروع کی تھی جو کہ پانچ چھ طالبات سے آج پوری سو طالبات پر مشتمل ہوگئی تھی اور پری کی محنت رنگ لائی تھی۔ ان لڑکیوں کو دیکھ کر پری خوش ہوتی‘ ان لڑکیوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا تھا۔ جو کہ پری کی محنت کا ثمر تھا۔
’’پری آج وین نہیں آئے گی‘ میں فاران بھائی کو فون کر آئی ہوں وہ ہمیں لینے آئیں گے۔‘‘ ماہین نے کہا اور پھر خاموشی سے سب کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔
’’جی تو میری بہنو! میں کہہ رہی تھی اچھی صحبت میں بیٹھیں ۔ انسان کی جیسی صحبت ہوتی ہے وہ انسان ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ آپ پہلے اپنی صحبت بدلیں‘ اپنے دوستوں‘ ساتھیوں‘ بہنوں‘ گھروالوں کو بدلیں۔ انہیں نیک ماحول میں ڈھالیں‘ جیسا آپ کا ماحول ہوگا آپ اسی رنگ میں رنگ جائیں گے۔ جیسا ماحول ‘ جیسا انداز‘ ہمارے اردگرد ہوگا‘ جس میں ہر پل ہم نے رہنا ہے وہ جیسا ہوگا ہم بھی ویسے ہوں گے۔ آپ اپنی ذات کو بدلیں پھر اپنی دوستوں کو اپنے گھر والوں کو۔ اس طرح آپ کا ماحول‘ ایک اپنی ذات کی اصلاح کرلیں تو دوسرے آپ کے اردگرد رہنے والے بھی اپنی اصلاح کرلیں گے پھر پورا معاشرہ سدھر جائے گا۔ آپ بس اک بات ذہن میں رکھ لیں کہ کچھ بھی ہوجائے‘ یہ رنگینیاں‘ موج سب کچھ وقتی ہے‘ ان سب کے بعد بھی موت ہی ہے‘ ہم نے مرجانا ہے۔ یہاں ہم اپنے امتحان کی تیاری کے لیے بہت محنت کرتے ہیں رات دن کہ کہیں فیل نہ ہوجائیں۔ اچھے نمبر لینے کوشش کرتے ہیں مگر میری بہنو! ذرا سوچو یہ امتحان کچھ بھی نہیں‘ اس میں فیل ہوگئے تو پھر دے لیں گے مگر وہ امتحان جو حشر کے دن ہوگا وہاں چوائس نہیں ہوگی وہاں پھر سے موقع نہیں ملے گا۔ یہ وقت‘ یہ لمحے‘ یہ پل لوٹ کے نہیں آئیں گے ۔ جو دن سال بیت گیا وہ پلٹ کے نہیں آئے گا۔ آیئے دیر مت کیجیے ہمیں نہیں معلوم موت کب آجائے‘ ہم کب مرجائیں‘ ہمیں ربّ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ہم اتنے نازک مزاج ہیں اک چیونٹی کا کاٹا براشت نہیں کرتے ‘ جہنم کی آگ اس کا عذاب کیسے برداشت ہوگا۔ دیر نہ کریں‘ اپنی اصلاح کریں۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی اصلاح کریں‘ کل اس ربّ کو جواب دینا ہے‘ اس کی تیاری کریں۔ ایسے جئیں کہ آپ کے جانے کے بعد لوگ آپ کی مثالیں دیں۔ آپ کے نقش قدم پر چلیں۔ انسان نادان اور کم فہم ہے‘ حال میں رہ کر مستقبل کا سوچتا رہتا ہے اور مستقبل میں جاکر ماضی کو یاد کرکے روتا رہتا ہے‘ جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرا ایسے جاتا ہے جیسے کبھی جیا ہی نہیں تھا۔‘‘ پری نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے تھے۔
’’تو پھر میری دوستو! ہم جئیں ہی ایسے کہ دنیا مثال دے۔ ہماری کمی محسوس کرے ۔ ہم اپنے حال کو ایسا بنائیں کہ مستقبل کو نہ سوچ سکیں اور مستقبل ایسا ہوجائے کہ اپنے ماضی پر فخر رہے۔ ہم دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اتنا کمائیں‘ جتنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پیچھے کھڑا فاران جو کہ اسے لینے آیا تھا‘ پتھر کا ہوگیا تھا۔ شاید اس کا باطن بھی بدل گیا تھا‘ وہ بھی پری کے مرتبے سے آشنا ہوگیا تھا۔
’’آئیے مل کر عہد کریں کہ ہم نے خود کو بدلنا ہے اس ماحول کو بدلنا ہے ان شاء اللہ!‘‘ سب نے مل کر عہد کیا تھا اور پوری کلاس کے درودیوار اس عہد سے گونج اٹھے تھے اور ایک عہد فاران نے بھی خود سے کیا تھا اور مضبوطی سے قدم آگے بڑھا یئے۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تمہارا مان رہ جائے… سباس گل
’’انس! کیا کھائوں میں؟‘‘ طوبیٰ نے مینو کارڈ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میرا بھیجا کھالو۔‘‘ انس چڑ کر بولا کیونکہ وہ سورہا تھا اور طوبیٰ اسے زبردستی جگا کر ریسٹورنٹ لے آئی تھی۔ اس کی تو ابھی تک آنکھیں بھی ٹھیک سے نہیں کھلی تھیں۔
’’تمہارے پاس اگر بھیجا ہوتا تو میں اتنی دور تھوڑی آتی۔‘‘
طوبیٰ نے مسکراتے شریر لہجے میں کہا۔ انس کی آنکھوں میں بچھا سرخ لکیروں کا جال اس کی بے خواب آنکھوں کی گواہی دے رہا تھا۔ ان دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کو ستانے میں بہت مزہ آتا تھا۔ وہ دونوں ایسے ہی تھے پل میں تنگ‘ پل میں سنگ۔
’’طوبیٰ! تم مار کھائو گی مجھ سے۔‘‘ انس نے دانت پیس کر کہا تو وہ ہنس کر بولی۔
’’چلے گا میرا مطلب ہے مار بھی چلے گی لیکن اس سے پہلے کھانا کھالیا جائے تاکہ تمہاری مار ہضم کرسکوں۔‘‘ طوبیٰ نے اپنی اور انس کی پسند کی ڈشز کا آرڈر دے دیا۔
وہ صبح سات بجے سویا تھا رات بھر ایک دوست کی شادی کے فنکشن کو انجوائے کرتا رہا تھا اور ابھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی کہ بارہ بجے ہی طوبیٰ نے آکر جگاناشروع کردیا تھا اور ناچار اسے بستر چھوڑنا پڑا تھا اور اب وہ اس کے ساتھ اس کی پسند کے ریسٹورنٹ میں بیٹھا پیٹ پوجاکرنے کے لیے مجبور تھا۔
’’پتا ہے ظفر نے لو میرج کی ہے۔‘‘ انس نے اسے بتایا۔
’’دگنی ذمہ داری نبھانا ہوگی اب اسے کیونکہ اپنی پسند اور مرضی‘ محبت کی شادی میں میاں بیوی کے بیچ اگر کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو کوئی صلح صفائی کرانے یا سمجھانے نہیں آتا۔ الٹا ہر کوئی طنز‘ تنقید اور طعنے دیتا ہے کہ تم نے اپنی پسند سے شادی کی تھی نا تو اب خود ہی بھگتو۔‘‘ طوبیٰ نے کھانا کھاتے ہوئے لو میرج کے متوقع نقصانات گنوائے تو وہ کہنے لگا۔
’’ضروری تو نہیں ہے کہ ہر لو میرج میں مسائل پیدا ہوں‘ ناچاقی ہو۔ ایسا تو ارینج میرج میں بھی ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں ہوتا ہے مگر اس صورت میں لڑکی اور لڑکے کے ماں باپ خاندان کے بڑے‘ بزرگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں‘ ان کے مسائل کو حل کرنے اور الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح سمت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں‘ لڑکا اور لڑکی خود کو تنہا نہیں محسوس کرتے۔‘‘ طوبیٰ نے کھانا چھوڑ کر انس کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا تو وہ سر پکڑ کر بولا۔
’’توبہ ہے طوبیٰ! تمہارا دماغ کتنا چلتا ہے اور زبان بھی۔‘‘
’’شکریہ‘ ویسے تمہارے کیا ارادے ہیں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کس سلسلے میں؟‘‘
’’شادی کے سلسلے میں ’’لو میرج‘‘ کرو گے یا ارینج؟‘‘
مکس… Mix‘‘
’’او یعنی دونوں پارٹیوں کو خوش کرو گے؟‘‘
’’بالکل اب میرے پاس اتنا فالتو وقت اور دماغ نہیں ہے کہ میں بیوی اور گھر والوں کے جھگڑوں میں پستا رہوں‘ شادی انسان ایک بار کرتا ہے اور دلی سکون اور اطمینان و خوشی کے لیے نا کہ جھگڑوں کے لیے۔‘‘ انس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اوہو بھئی‘ تم تو خاصی سمجھ داری کی باتیں کرنے لگے ہو۔ میرے ساتھ رہنے کا کتنا اثر ہوا ہے ناتم پر۔ اسی طرح ہمیشہ میرے ساتھ رہنا تمہاری زندگی سنور جائے گی۔‘‘
’’او مس! زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ کھانا ختم کرو ‘ بِل دو اور چلو یہاں سے۔‘ ‘ انس نے شہادت کی انگلی سے اسے اشارہ کرکے کہا۔
’’ٹھیک ہے لیکن بل تو تم دو گے۔‘‘
’’واٹ؟‘‘ وہ بھڑکا‘ وہ ہمیشہ ہی اس کی جیب خالی کراتی تھی۔
’’میں تمہیں لنچ کے لیے نہیں لایا تھا تم مجھے زبردستی جگا کر لائی تھیں میں بل کیوں دوں؟‘
’’کیونکہ تم مرد ہو‘ کسی مرد کے ہوتے ہوئے لڑکی بل ادا کرتی اچھی تو نہیں لگتی نا۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے بے نیازی سے جوس کا سپ لیا۔
’’مجھے بہت اچھی لگتی ہے‘ کھانے کا بل تم دو تو مجھے تم بہت اچھی لگو گی۔‘‘ انس نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر کہا تو وہ رومینٹک موڈ میں بولی۔
’’سچی… تم کہو تو بل کیا اپنی جان بھی دے دوں اسی لمحے۔‘‘
’’بکو مت‘ بل دو۔‘‘ انس نے اسے گھورا۔
’’بل تو بچو جی میں تمہاری ہی جیب سے ادا کروں گی‘ تم ابھی میرے ہنر سے اچھی طرح واقف نہیں ہوئے۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے دل میں مخاطب کرکے کہا اور اپنے ہینڈبیگ میں
سے بل کے پیسے نکال کر ویٹر کو دے دیئے۔
اس نے انس کاوالٹ اس کے کمرے میں جاتے ہی چیک کرنے کے بعد اپنے ہینڈبیگ میں رکھ لیا تھا۔ والٹ میں ساڑھے چھ ہزار روپے تھے اور سولہ سو کا بل ادا کرکے سو روپے اس نے ویٹر کو ٹپ میں دے دیئے اور دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی اسے بے وقوف بناکر۔ وہ بے خبر تھا اس کی اس حرکت سے لہٰذا حیرت اور مسرت کا اظہار کررہا تھا کہ اتنی فراخدلی آج اس نے کیسے دکھادی۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے انس نے کہہ ہی دیا۔
’’خیریت آج تو تم نے ویٹر کی بھی چاند کروادی۔ حاتم طائی کب سے بن گئیں، کوئی لاٹری نکل آئی ہے کیا جو اتناپیسہ تم نے کھانے پر لٹادیا‘ پیسے خرچ کرتے ہوئے تو تمہاری جان جاتی ہے۔‘‘
’’ہاں آں‘ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ مال مفت دل بے رحم تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔‘‘
وہ اپنی ہنسی ضبط کرتے مسکراتے ہوئے اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی تو انس نے چونک کر اس کے چہرے کو دیکھا۔
’’ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘
’’دال تو ہم نے کھائی ہی نہیں۔‘‘ وہ معصومیت سے بولی۔
’’مال تو کھایا ہے نا‘ سچ سچ بتائو کس کا بٹوہ خالی کیا اہے؟‘‘
’’تمہارا!‘‘
’’کیا…؟‘‘ انس کی چیخ بے ساختہ تھی‘ گاڑی کی رفتار ایک دم سے کم ہوئی تھی اور پھر اس کے پائوں جو بے اختیار بریک پر پڑے تو جھٹکے سے گاڑی رک گئی۔
’’ہاں آں…‘‘ وہ بے نیازی سے ہنسی۔
’’تم… تم… اترو… گاڑی سے نیچے اترو۔‘‘ وہ غصے اور صدمے سے سرخ ہوکر تیز آواز میں بولا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جارہا‘ تمہاری یہی سزا ہے کہ تم اب گھر اکیلی جائو گی وہ بھی پیدل۔‘‘
’’انس! شرم نہیں آتی تمہیں تم مجھے یوں بیچ سڑک پر اتار رہے ہو۔‘‘ طوبیٰ نے حیرت اور افسوس سے اسے دیکھا۔
’’ہاں!‘‘
’’میں نہ اتروں تو؟‘‘ وہ اکڑکر بولی۔
’’تو میں خود تمہارا بازو پکڑ کر تمہیں اتاردوں گا۔‘‘
’’انس…‘‘ طوبیٰ نے دکھ اور حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ایسا بھی کرسکتا ہے۔ اسے یوں بیچ سڑک پر اتار سکتا ہے اس کی عزت کی پروا کیے بنا اسے سرِ راہ تماشا بناسکتا ہے۔
’’اترو۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گئی ۔ جیسے ہی اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا وہ تیزی سے گاڑی آگے بڑھا کے لے گیا۔ طوبیٰ کو انس کے رویئے سے دکھ تو بہت پہنچا تھا اور رونا بھی آرہا تھا مگر وہ سرِ راہ آنسو بہا کے اپنا تماشا نہیں بنوانا چاہتی تھی‘ لہٰذا خود کو مضبوط کیا اور ٹیکسی روکنے کے لیے ہاتھ ہلادیا۔ فوراً ایک ٹیکسی اس کے قریب آکر رکی تھی۔
انس کی گاڑی گھر کے گیٹ سے اندر داخل ہورہی تھی۔ سائرہ بیگم نے گلاس وال سے اسے آتے دیکھا وہ گاڑی روش پہ روک کر تیزی سے نیچے اترا اور نادر کی جانب بڑھ گیا۔طوبیٰ اس کے ساتھ نہیں تھی ۔ سائرہ کو تشویش لاحق ہوئی جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا انہوں نے فوراً انس سے پوچھا۔
’’طوبیٰ کہاں ہے؟‘‘
’’جہنم میں۔‘‘ وہ ابھی تک طوبیٰ کے مذاق اور شرارت پر تپا ہوا تھا۔ دانت پیستے ہوئے بولا۔
’’انس! یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ سائرہ نے ڈپٹا۔
’’اور جو وہ کرتی پھرتی ہے وہ بدتمیزی نہیں ہے۔‘‘
’’میں نے پوچھا کہ طوبیٰ کہاں ہے؟ تم ہی لے گئے تھے نا اسے اپنے ساتھ؟‘‘ سائرہ نے سپاٹ لہجے میں استفسار کیا۔
’’میں اسے نہیں لے گیا تھا وہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی‘ لنچ کے لیے۔‘‘ انس نے سلگ کر جواب دیا۔
’’مگر وہ ہے کہاں؟‘‘
’’پتا نہیں‘ میں نے اسے راستے میں ہی گاڑی سے اتار دیا تھا۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’اس نے میرے والٹ میں سے پیسے چرا کرلنچ کا پروگرام بنایا تھا‘ اسے اس کی حرکت کی سزا تو ملنی چاہیے تھی نا۔‘‘ انس نے پھولے ہوئے منہ سے کہا۔
’’اور تم نے اسے بیچ سڑک کے گاڑی سے اتار دیا۔ ایک شرارت ہی تو تھی‘ تم نے بھی تو کئی بار اس کے پرس سے پیسے نکال کے آئس کریم کھائی تھی۔ شرارت چوری کب سے بن گئی؟ تم نے بہت غلط حرکت کی ہے انس!‘‘
’’آئی ڈیم کیئر! میں اپنے کمرے میں سونے جارہا ہوں‘ مجھے کوئی نہ جگائے جب تک کہ میں خود نہ جاگوں۔‘‘ انس نے بے پروائی سے کہا اور اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھادیئے۔
’’خدا جانے ان دونوں کے اس روز روز کے لڑائی جھگڑے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ آج تو حد ہی کردی ہے اس لڑکے نے غیر ذمہ داری کی۔‘‘
رات کے سوا آٹھ بج رہے تھے اور سائرہ پریشانی کے عالم میں لائونج میں اِدھر سے اُدھر چکر لگارہی تھیں۔ جبھی چھ فٹ کا انس رحمان بہت ہشاش بشاش موڈ میں لائونج میں داخل ہوا ۔ سیاہ پینٹ اور اورنج کلر کی ٹی شرٹ میں نکھرا نکھرا اور فریش لگ رہا تھا۔ آپ ہی آپ مسکرارہا تھا۔ مگر جب سائرہ کو فکر مندی سے ٹہلتے دیکھا تو ٹھٹکا۔
’’کیا ہوا امی! آپ پریشان ہیں؟‘‘
’’تو کیا کروں تمہاری طرح بے حس اور بے نیاز ہوکر سوجائوں۔‘‘
’’او پلیز مام! میرا موڈ خراب مت کریں۔‘‘ وہ سمجھ گیا کہ وہ طوبیٰ والی بات پر غصے ہورہی ہیں جبھی جھلا کے بولا۔
’’اور تم بے شک کسی کی زندگی خراب کردو۔‘‘
’’امی! ایسا کردیا ہے میں نے وہ آپ کی لاڈلی جو مرضی کرتی پھرے اسے تو آپ نے کبھی نہیں ڈانٹا۔‘‘
’’کیونکہ اس نے کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو تم نے آج کی ہے۔‘‘ سائرہ نے ناراضی سے کہا۔
’’اچھا بابا معافی مانگ لوں گا آپ کی بھتیجی صاحبہ سے۔‘‘
’’معافی تو تب مانگو گے جب وہ تمہیں ملے گی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’طوبیٰ ابھی تک گھرنہیں لوٹی۔‘‘
’’وہاٹ! اومائی گاڈ‘ ساڑھے آٹھ بج رہے ہیں۔‘‘
انس کے تو پورے وجود میں زلزلہ سا آگیا تھا وہ دوپہر تقریباً دو بجے گھر آگیا تھا اور طوبیٰ ابھی تک گھر نہیں لوٹی تھی۔ اب انس کو احساس ہورہا تھا کہ اس نے دوپہر کتنی سنگین غلطی کی ہے۔ شہر کی حالات خراب تھے اور ایسے میں ایک جوان لڑکی کو بیچ سڑک کے چھوڑ دینا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ سائرہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’طوبیٰ کو ڈھونڈنے۔‘‘ انس نے شہر کی تمام سڑکیں‘ جگہیں دیکھ لیں جہاں ان کا اکثر آنا جانا ہوتا۔ جوں جوں وقت بیت رہا تھا۔ انس کو احساسِ جرم گھیر رہا تھا۔ اس نے احتیاطاً اسپتالوں میں بھی چیک کرلیا مگر طوبیٰ کا کچھ پتا نہیں تھا۔ پتا ہوتا بھی کیسے طوبیٰ تو بڑے آرام سے اپنے گھر میں تھی۔ وہ تو دوپہر کو ہی واپس آگئی تھی۔ انس کے پیسوں سے تھوڑی سی شاپنگ کرنے کے بعد۔ اس کی گمشدگی کا ڈرامہ تو انس کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے رچایا تھا تاکہ آئندہ وہ کبھی اتنی غیر ذمہ داری اور بے پروائی کا مظاہرہ نہ کرے اور اُدھر انس کی حالت غیر ہورہی تھی۔ وہ بہت چاہتا تھا طوبیٰ کو‘ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان کے بیچ لڑائی جھگڑا‘ ہنسی مذاق‘ نوک جھونک تو معمول کا حصہ تھی۔
’’یا اللہ! طوبیٰ کو اپنی حفظ وامان میں رکھنا‘ اسے کبھی کچھ نہ ہونے دینا‘ اللہ جی! اب طوبیٰ مل جائے پھر کبھی میں اسے اس طرح دکھ نہیں دوں گا۔‘‘
انس نے گاڑی ایک پارک کے قریب روک کر بھیگتے لہجے میں دعا مانگی‘ آنکھیں آسمان پر تھیں۔
’’طوبیٰ! پلیز مجھے معاف کردو‘ آئی ایم سوری طوبیٰ! آئی لو یو‘ طوبیٰ پلیز جہاں بھی ہو گھر آجائو۔ دوبارہ کبھی تمہیں اتنا دکھ نہیں دوں گا‘ پریشان نہیں کروں گا۔‘‘
انس بآواز بول رہا تھا۔ آنسو پلکوں کی باڑ پر تڑپ رہے تھے۔
رات کے ساڑھے دس بجے تھے جب انس ’’راحیل ولا‘‘ کے لائونج میں داخل ہوا۔ طوبیٰ سوفے پر نیم دراز تھی اور اپنی پسند کا چینل لگائے ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔
’’طوبیٰ!‘انس حیرت و بے تابی سے بے اختیار چیخا تو طوبیٰ ڈر کر اچھل گئی۔ انس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ طوبیٰ کو یہ دیکھ کر دلی تسکین ملی تھی کہ وہ بھی اس کے لیے اتنا پریشان ہوسکتا ہے۔
’’طوبیٰ…! تم… کہاں تھیں تم… تم ٹھیک تو ہو نا۔‘‘ انس نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے شانوں کو تھام لیا اور اسے بے قراری سے دیکھتے ہوئے بے یقین لہجے میں تیزی سے سوال کیا۔

’’ہاں ٹھیک ہوں ‘ مجھے کیا ہونا ہے؟‘‘ وہ کندھے اچکا کر بے نیازی سے بولی تو انس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تڑپ کر کہا۔
’’اللہ نہ کرے تمہیں کچھ ہو اور میں تمہیں کبھی کچھ ہونے بھی نہیں دوں۔‘‘
’’رئیلی…‘‘ طوبیٰ خوش دلی سے مسکرائی۔
’’ہاں تم گھر کب آئیں۔‘‘
’’میں تو دوپہر میں آگئی تھی یہی کوئی تین ساڑھے تین کے درمیان۔‘‘
’’وہاٹ!‘‘ اب کی بار انس اچھل کر اس سے ایک فٹ دور جا کھڑا ہوا تھا۔
’’ہاں!‘‘ وہ اطمینان سے مسکرائی تو وہ سمجھ گیا کہ اسے دانستہ بے وقوف بنایا گیا تھا‘ اس سے جھوٹ بولا گیا تھا۔
’’اوہ تو تم نے مام کے ساتھ مل کر مجھے بے وقوف بنایا۔‘‘
’’بنانے کی کیا ضرورت ہے تم تو بنے بنائے ہو۔‘‘
’’شٹ اپ!‘‘ انس نے ایک زور دار تھپڑ طوبیٰ کے گال پر جڑ دیا۔ طوبیٰ کو تو کبھی اس کے ممی پاپا نے بھی پھول کی چھڑی تک سے نہیں مارا تھا اور یہاں ایک زور دار تھپڑ اس کے نرم ملائم گلابی گال پر اپنے نشان چھوڑ گیا تھا وہ اس افتاد کے لیے تیار نہ تھی‘ لڑکھڑا کر سوفے پر جاگری۔
’’تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ تم نے مجھے کتنا پریشان کیا ہے‘ میں نے آدھا شہر چھان مارا تمہاری تلاش میں۔ اسپتال تک میں تمہیں ڈھونڈ کے آیا ہوں‘ رات کے ساڑھے دس بجے ہیں شہر کے حالات کا کچھ احساس ہے تمہیں‘ یہی سوچ سوچ کر میری روح فنا ہورہی تھی کہ نجانے تم کہاں ہوگی؟ کس حال میں ہوگی؟ اور تم یہاں مزے سے ٹی وی دیکھ رہی شرم تو نہیں آتی تمہیں؟‘‘ انس نے تیز‘ سخت اور غصیلے لہجے میں کہا۔ طوبیٰ نے پہلی بار اسے اس قدر غصے میں دیکھا تھا۔ یوں تو وہ اکثر غصے میں جھگڑتا تھا اس سے مگر آج تو اس کا اندازہ ہی بدلا ہوا تھا اور طوبیٰ کو بھی احساس ہوا کہ کچھ زیادہ ہی ستالیا۔ شہر کے حالات میں رات کے وقت اگر اسے کچھ ہوجاتا ‘ یہ خیال آتے ہی طوبیٰ کا دل ڈوب گیا تھا۔
’’ہاں شرم آبھی کیسے سکتی ہے مجھے آخر کو تمہاری ہی کزن ہوں۔‘‘
’’بکواس بند کرو۔‘‘ انس غصے سے چلایا۔
’’کیوں؟ جو تم نے کیا وہ قابلِ شرم نہیں تھا کیا‘ ایک ذرا سی بات پر تم نے اپنے اور میرے رشتے کا بھی خیال نہیں کیا۔ میں تمہارے گھر اور خاندان کی عزت ہوں اور مسٹر انس رحمان! کوئی بھی غیرت مند انسان اپنے گھر کی عزت بیچ سڑک پر چھوڑ کے نہیں آتا اور تم نے ایسا کیا تب تمہیں شرم نہیں آئی۔ تب تمہارا احساس کہاں تھا؟ تب تمہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ شہر میں حالات کس قدر خراب ہیں۔ طوبیٰ کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر خدا نخواستہ میرے ساتھ کچھ غلط ہوجاتا‘ کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کون اس کا ذمہ دار ہوتا؟ تم انس رحمان! تم ہوتے اس سب کے ذمہ دار۔ تمہیں میری عزت کا ذرا سا بھی خیال نہیں آیا۔ اسی لمحے مجھے لگا تھا انس رحمان کہ تم مجھے کبھی بھی کہیں بھی چھوڑ کے جاسکتے ہو۔ تم پر زندگی بھر کے لیے بھروسا کرنا بہت بڑی نادانی ہوگی۔ تم اپنی دوست کی جس سے تم محبت کے دعوے کرتے ہو اس کی کتنی عزت کرتے ہو‘ یہ آج تم نے مجھے بہت اچھی طرح سے سمجھا بھی دیا ہے اور دکھا بھی دیا ہے اور جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے اس کی کچھ سزا تو تمہیں ملنی چاہیے تھی نا۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدہ‘ سپاٹ اور غصیلے لہجے میں کہا۔ انس کے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا بس نخوت سے سر جھٹک کر رہ گیا۔
’’ہونہہ…!‘‘
’’اور ہاں یہ لو اپنا والٹ۔‘‘ طوبیٰ نے سوفے پر رکھے اپنے ہینڈ بیگ میں سے اس کاوالٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر پٹخ دیا۔
’’گن لینا پیسے پورے ہیں‘ ان تھوڑے پیسوں کے لیے ہی تم نے مجھے بے عزت کیا تھانا۔ بس تمہاری نظر میں یہی عزت ہے نا میری۔ تمہیں تمہارے پیسے تو واپس مل گئے ہیں انس رحمان مگر میری عزت کا کیا؟‘‘ طوبیٰ نے اس کو تاسف اور کرب سے دیکھتے ہوئے باز پرس کی مگر وہ شرمندہ سا چپ کا چپ رہ گیا اور طوبیٰ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
…٭٭٭…​
رحمان بیگ اور سائرہ کے دو ہی بچے تھے۔ ایک بیٹی مائرہ اور بیٹا انس۔ مائرہ کی شادی اپنے تایا کے بیٹے فہد سے تین سال پہلے ہوئی تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا احد۔ انس نے ایم بی اے اور ایم سی ایس کیا تھا اور بہت اچھی کمپنی میں دو سال سے جاب کررہا تھا۔ رحمان بیگ کی کاٹن فیکٹری تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ انس ان کے ساتھ فیکٹری جایا کرے‘ آخر کو وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ایک دن ان کا بزنس اس کو سنبھالنا تھا۔ مگر انس کے شوق اور خود سے کچھ کر دکھانے کی وجہ سے وہ اسے مجبور نہ کرسکے اور اس کی جاب پر انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ طیبہ راحیل ان کی چھوٹی بہن اور طوبیٰ کی والدہ تھیں اورر احیل‘ سائرہ کے بڑے بھائی تھے لہٰذا ان کا آپس میں دوہرا رشتہ تھا۔
طیبہ اور راحیل کے تین بچے تھے۔ دو بیٹاں طوبیٰ ‘ صبا اور بیٹا اسد۔ صبا بڑی تھی اس کی شادی سائرہ کی بہن عائشہ کے بڑے بیٹے فاروق احمد سے ہوئی تھی اس کے دو جڑواں بچے تھے۔ نمل‘ امل بیٹا اور بیٹی اور وہ کینیڈا میں مقیم تھے۔ طوبیٰ ایم ایس ہی فائنل ائیر کے امتحان دے کر ابھی فارغ ہوئی تھی۔ اس کی اور انس کی دوستی بچپن سے ہی تھی‘ گھر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ یک جان دو قالب تھے وہ۔ ایک

 
Top