اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اُتارا محسن
میں جانتا ہوں بصارت کا عیب ہے لیکن
کبھی کبھی تیرا چہرہ سنائی دیتا ہے
کسی ترنگ کسی سرکشی میں رہتا تھا
یہ کل کی بات ہے دل زندگی میں رہتا تھا
پھر ایک شام بڑی خاموشی سے ٹوٹ گیا
ہمیں جو مان تیری دوستی میں رہتا تھا
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے
بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
یہ جو ہم بولتے نہیں ہیں نا
یہ اصل میں تمھیں سُناتے ہیں