عبد اللہ صاحب کی پوسٹ آٹھ تراویح کا جواب
پہلے چند باتوں پر قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، تاکہ اہل حدیث صاحبان کی حدیث فہمی کا حال معلوم ہوسکے۔
*دعوی کے لئے دلیل کا ہونا شرط ہے اور دلیل صریح بھی ہو اور صحیح بھی ، اس کے بغیر دعوی ثابت نہیں ہوتا۔
*جب لفظ حدیث بیان ہو تو اس پر غور فرمالیا کریں کہ مدعی کے دعوی کی صراحت اس حدیث میں موجود ہے بھی کہ نہیں،
*دعوی پر جو حدیث بیان ہو اسے دیکھ لیا جائے کہ یہ فرمان رسول ﷺ ہے یا کسی صحابیؓ یا تابعیؒ کا قول ہے، حدیث کے لفظ سے دھوکہ مت کھائیے۔
*عبداللہ صاحب نے اپنے دعوی پر صرف تین احادیث پیش کی ہیں، جن میں سے پہلی حدیث عائشہ ؓ انکے دعوی کی مرکزی اور بنیادی دلیل کے طور پر بیان ہوئی ہے۔ جس میں سرے سے نہ تراویح کا ذکر ہے اور نہ اس میں تراویح کو موضوع شامل ہے ، اس میں تہجدکی نماز کا ذکر ہے۔
لہذا اس حدیث عائشہؓ سے اپنے دعوی پر استدلال ہی غلط ہوا۔
جب کہ باقی دوروایات سند کے اعتبار سے اور خود اہل حدیث علماء کے اصول سے ضعیف اور کمزور بھی ہے اور صحیح بھی نہیں۔
* اگر حدیث عائشہؓ کو ان کے دعوی پر تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ حدیث عائشہ خود اہل حدیث حضرات کے لئے ایک بڑی مصیبت کھڑی کردیتی ہے، یعنی اگر مان لیا جائے کہ یہ تراویح کا بیان ہے تو اہل حدیث حضرات کا ہر عمل اس حدیث عائشہؓ کے خلاف ہے۔ دلائل آگے آرہے ہیں۔
عبداللہ صاحب کی پیش کردہ پہلی مرکزی روایت حدیث عائشہ کی تشریح:
قارئین کرام: اس روایت پر غور فرمائیں کسی جگہ لفظ تراویح کا استعمال نہیں ہوا اور نہ ہی تراویح کی نماز کا ذکر ہوا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمارہی ہے کہ رمضان میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے اور غیر رمضان میں بھی گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اس میں دوباتیں ہیں رمضان اور غیر رمضان ، تراویح کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں، اور نہ جماعت سے پڑھنے کا ذکر ہے۔رمضان اور غیر رمضان یہ لفظ خود تہجد کی نماز کو بیان کررہا ہے، کیونکہ تہجد کی نماز رمضان اور غیر رمضان پورے سال کے لئے ہوتی ہے جبکہ تراویح کی نماز صرف رمضان کے لئے ہوتی ہے،
غور فرمائیں کہ اس میں تراویح کی نماز کا ذکر ہورہا ہے یا تہجد کی نماز کا ذکر ہورہا ہے؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر اس حدیث سے تراویح کی نماز مراد لیتے ہیں تو تہجد کی نماز ثابت نہیں ہوتی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے نبوت والی زندگی میں ہمیشہ اور آخر وقت تک اہتمام اور پابندی سے تہجد کی نماز پرھی ہے، کیونکہ تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ پر فرض تھی، بعض کہتے ہیں واجب تھی،
اگر حدیث عائشہؓ سے تراویح کی نماز مراد لیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی تہجد کی نماز کا انکار لازم آتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ تراویح کے لئے تہجد کی فرض نماز چھوڑدے یہ کیسے ممکن ہے،
یہ بڑی تعجب بلکہ افسوس ناک کی بات ہے کہ رمضان میں ہر بندہ زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے ، اور اہل حدیث صاحبان رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی عبادات میں کمی دکھاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ گیارہ مہینے تہجد کی نماز پابندی سے پڑھتے تھے اور رمضان میں تہجد چھوڑ دیتے تھے، العیاذ باللہ
لہذا یہ ایک بڑا مغالطہ اور دھوکہ ہوا ہے اہل حدیث صاحبان کو اس حدیث عائشہ سے،
اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ نماز اکیلے پڑھی ہے اور اپنے حجرہ مبارک میں پڑھی ہے، تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ اسی طرح ادا فرماتے تھے، جبکہ تراویح کی نماز جماعت سے اور مسجد میں پڑھی جاتی ہے۔
اب اس روایت کی کیفیت سے کونسی نماز مراد لیں گے، نتیجہ بالکل صاف اور واضح ہے۔
قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ کتنا بڑا دھوکہ ہے جو حدیث کے نام پر عوام الناس کو دیا جارہا ہے۔
حدیث عائشہ سے اہل حدیث صاحبان نے جو دعوی کیا ہے اس کے رد میں میرے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلیل نمبر ۱: عبداللہ صاحب نے جو روایت بیان کی ہے یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں بلکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے، اس روایت میں چار، چار رکعات اور پھر تین وتر کا ذکر ہوا ہے ، جبکہ مسلم شریف کی ایک روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہوا ہے لیکن یہاں دو، دو رکعت اور آخر میں ایک رکعت وتر پڑھنے کا ذکر ہوا ہے۔
(صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۵۴)
یہ دونوں روایات سیدہ عائشہؓ سے منقول ہیں، پہلی روایت جسے عبداللہ صاحب نے پیش کی چار، چار رکعت اور تین وتر کا ذکر ہے جبکہ مسلم کی روایت میں دو، دو رکعت اور ایک وتر کا ذکر ہے،
اب یہ دونوں روایتیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہیں اور دو باہم معارض روایتوں سے اہل حدیث صاحبان کا حجت پکڑنا باطل ہوگیا کیونکہ اذا تعارضا تساقط
دلیل نمبر۲: اس حدیث سے رکعات تراویح پر استدلال ہی فضول ہے کیونکہ حضرت عائیشہ صدیقہؓ اس حدیث میں جس نماز کا تذکرہ فرمارہی ہیں وہ تہجد کی نماز ہے، اس کا تراویح کی نماز سے کوئی تعلق نہیں، مسلم شریف میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، لہذا یہ روایت تو موضوع( رکعات تراویح) سے ہی خارج ہے۔
دلیل نمبر۳: آئمہ حدیث نے تراویح اور تہجد کے الگ الگ باب باندھے ہیں اور اس حدیث عائشہؓ کو تہجد کے باب میں ذکر فرمایا ہے، مثلا ، امام مالک نے اپنی موطا میں، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ، امام ترمذی نے اپنی جامع الترمذی میں، امام ابو داود نے سنن ابو داود میں، امام نسائی نے سنن نسائی میں، امام خطیب تبریزی نے مشکواۃ المصابیح میں، حافظ ابن قیم نے زاد المعاد میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے بلوغ المرام میں، یہاں تک کے غیر مقلدین کے امام محمد صادق سیالکوٹی صاحب نے اپنی کتاب صلوۃ الرسول میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے،
دلیل نمبر۴:اگر اس حدیث عائشہؓ کا تعلق تراویح سے ہوتا تو محدثین کرام اور فقہاء کرام کبھی یہ نہ فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی عدد کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں، حتی کہ یہ حدیث عائشہؓ محدثین اور فقہاء کرام کے سامنے تھی، ثابت ہوا کہ اس کا تعلق تراویح سے نہیں بلکہ تہجد کی نماز سے ہے۔
اگراہل حدیث حضرات اس روایت سے نماز تراویح مراد لیتے ہیں تو پھر انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اہل حدیث حضرات کا ہر عمل اس روایت کے خلاف ہے، مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں،
دلیل نمبر۵:یہ نماز رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان یعنی بارہ مہینے پابندی سے پڑھتے رہے، اگر اہل حدیث صاحبان کے نزدیک یہ نماز تراویح مراد ہے تو اہل حدیث صاحبان پورے سال یہ نماز کیوں پابندی سے نہیں پڑھتے ؟، آپ کا عمل حدیث کے خلاف ہے، اور پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہو، تعجب ہے۔
دلیل نمبر۶: یہ نماز رسول اللہ ﷺ نے اکیلے پڑھی ہے ظاہر ہے تہجد کی نماز اکیلے پڑھی جاتی ہے جب کہ تراویح جماعت سے، اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف جماعت سے نماز پڑھتے ہیں اور خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۷: یہ نماز رسول اللہ ﷺ گھر پر پڑھتے تھے ، جبکہ اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف مسجد میں پڑھتے ہیں ، اور خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۸: یہ نماز رسول اللہ ﷺ آخری شب ادا فرماتے تھے، جبکہ اہل حدیث صاحبان حدیث کے خلاف اول شب میں پڑھ کر سو جاتے ہیں ، پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہیں ، تعجب ہےِ
دلیل نمبر۹:اس روایت مین تین وتر( ایک سلام کے ساتھ) کا ذکر ہے جب کہ اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف صرف ایک رکعت وتر پرھتے ہیں ، پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۰: رسول اللہ ﷺ نے وتر اکیلے پڑھی جب کہ اہل حدیث صاحبان حدیث کے خلاف جماعت سے وتر پڑھتے ہیں تراویح کے بعد ، پھر خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۱: آٹھ رکعات نماز تراویح جماعت سے مسجد میں رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ پورا مہینہ پڑھنے کی پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث بھی پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ملتی، اور نہ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے اور نہ حکم، پھر اہل حدیث صاحبان رسول اللہ ﷺ کی کس حدیث کے مطابق پورا رمضان کا مہینہ آٹھ رکعات تراویح اہتمام سے پڑھتے ہیں؟؟؟کوئی حنفی بغیر حدیث رسول ﷺ خلفاء راشدین کی اتباع میں کوئی عمل کرے تو بدعت کہا جاتا ہے اور اہل حدیث صاحبان بغیر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے پورا مہینہ آٹھ رکعات تراویح پڑھے تو اسے سنت کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۲: سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح نہیں پڑھائی گئی اور ام المومنین عائشہؓ نے اپنے والد مکرم سے کبھی آٹھ رکعات تراویح کا ذکر نہیں کیا،
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئی لیکن ام المومنینؓ خاموش ہیں،
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئی لیکن ام المومنین خاموش ہیں،
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت مین بیس رکعت تراویح پڑھائی گئی لیکن ام المومنین خاموش ہیں،
ام المومنین سیدہ عائشہؓ کا خاموش رہنا اور آٹھ رکعات تراویح کا ذکر نہ کرنا خود راوی کی طرف سے سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ نماز تہجد کی نماز ہے، تراویح کی نماز نہیں،
اب نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازوں میرے آزمائے ہوئے ہیں
فی الوقت عبداللہ صاحب کے لئے اتنے دلائل کافی ہیں ، کیونکہ مجھے ان کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے،
قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا اہل حدیث صاحبان کی آٹھ رکعت تراویح کی جو سب سے بڑی مرکزی دلیل تھی اس پر میرے دلائل نے ثابت کردیا کہ یہ حضرات کس طرح حدیث کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں،
اگر اس روایت میں تراویح مراد لی جائے تو خود ان کا عمل اس حدیث کے خلاف ہوجاتا ہے، جسے میں نے دلائل سے ثابت کیا،
ایک اور دھوکہ
عبداللہ صاحب نے حدیث عائشہؓ کے ضمن میں حافظ ابن حجر ؒ کی ایک تشریح گیارہ رکعات کی حکمت بیان کی ہے جس مین عبداللہ صاحب نے خیانت کرتے ہوئے زبر دستی تراویح کی نماز مراد لی ہے جبکہ حافظ ابن حجر عشقلانی ؒ نی صاف اور واضح الفاظ مین تہجد کی نماز کا ذکر کیا ہے،
عبد اللہ صاحب نے تہجد کی نماز کو تراویح کی نماز بنانے کے لئے دو جگہ اپنے الفاظ زبر دستی ڈاخل کئے ہیں،
شروع میں رکعات تراویح کا لفظ اور اس سے آگے پہلی سطر مین لفظ تہجد کے بعد بریکٹ میں تراویح کا لفظ داخل کیا ہے ، اس طرح تہجد کی نماز کو تراویح کی نماز بنا کر دھوکہ دیا ہے،
اور عبداللہ صاحب کی عقل کا ماتم کیجئے انہیں اتنا بھی ہوش نہین رہا کہ تہجد کے معنی بریکٹ میں تراویح لکھ کر کر رہے ہیں حتی کہ ہر بندہ جانتا ہے کہ تہجد کی نماز الگ ہوتی ہے اور تراویح کی نماز دوسری ہوتی ہے ، لیکن عبداللہ صاحب لفظ تہجد پر لفط تراویح بیان کرکے اپنی ذہنی کیفیت کا کھلا اطہار کررہے ہیں۔ نصیب اپنا اپنا
سنبھل کر چھیڑنا اے طفل دل زلف پریشان کو
لپٹ جاتی ہے یہ عشاق سے کالی بلا ہوکر
عبداللہ صاحب کی اپنے دعوی میں پیش کردہ دوسری روایت کا جواب:
جواب:یہ روایت خود اہل حدیث علماء کے اپنے بیان کردہ قاعدے اور اصول کے موافق منتطع ہے، کیونکہ اس روایت کو حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والے راوی عیسی بن جاریہ ہین جن کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہین من الرابعہ، کہ وہ چوتھے طبقہ کا راوی ہے، ( صحیح ابن خزیمہ ج۲ص۱۳۰، صحیح ابن حبان ۴ص ۶۴، قیام اللیل ۱۹۷)
اور اہل حدیث عالم مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ چوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ وسطی کے قریب ہے جن کی اکثرروایتین کبار تابعین سے لی گئے ہین صحابہ سے نہیں، ( انوار المصابیح ۲۸۰)
جب عیسی بن جاریہ چوتھا طبقہ کا راوی ہے تو براہ راست صحابی رسول حضرت جابرؓ سے روایت کیسے کی؟؟؟
لہذا خود اہل حدیث علماء کے قاعدے اور اصول کے مطابق یہ روایت حضرت جابرؓ سے منقطع ٹھہری اور منقطع روایت خود اہل حدیث (غیر مقلدیں) کے لئے حجت نہیں،
لہذا اہل حدیث صاحبان پر لازم ہے کہ اس روایت کا اتصال ثابت کرنے کے لئے پہلے عیسی بن جاریہ اور حضرت جابرؓ کے درمیان ملاقات کا ثبوت یا کم از کم معاصرت ہی ثابت کردین ورنہ اس روایت سے استدلال کرنا چھوڑ دیں،یہ تو تھا خود ان کے قاعدے اور اصول کی دلیل ، اب مزید سنئے
اس حدیث کا مدار عیسیٰ بن جاریہ پر ہے اس کے متعلق ابن معین کہتے ہیں اس کی روایات منکر ہیں امام نسائی فرماتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے اور اس سے متروک روایات بیان ہوئی ہیں (میزان ج۳،ص۳۱۱)
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابن معین اور ابو داود نے اس کو ضعیف کہا ہے (مجمع الزوائد ج۲ص۷۲)۔
اس کے علاوہ اس کی سند میں یعقوب بن عبد اللہ الاشعری القمی ہے امام دار قطنی فرماتے ہیں یہ قوی راوی نہیں کمزور ہے (میزان الاعتدال ،ج۴،ص۴۵۲)
اگر حنفی کسی ضعیف حدیث سے استدلال کرلے تو اہل حدیث حضرات آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور بخاری کی حدیث کا تقاضہ کیا جاتاہے، اور خود ضیف او ر کمزور اور کچی باتیں پیش کرتے ہو، دل میں خوف خدا کی بھی جگہ بنالو بھائی،
بالفرض حدیث صحیح بھی ثابت ہوجائے کہ تراویح آٹھ سنت ہیں توسنن الکبری ج۲ص ۴۹۴میں روایت ہے کہ رمضان میں آپ ﷺ نے صرف تین راتیں باجماعت صحابہ کو نماز پڑھائی ،۲۳،۲۴،۲۵،تو پھر آپ کیوں باقی چھبیس یا ستائیس دن اس روایت کے خلاف ، خلاف سنت کرتے ہو، اور پھر خود کو اہل ھڈیث بھی کہتے ہو، تعجب ہے۔
اے چشم اشکبار ذار دیکھ تو سہی
یہ گھر جوجل رہا ہے کہیں تیرا ہی نہ ہو
عبداللہ صاحب کی اپنے دعوی میں پیش کردہ تیسری روایت کا جواب:
جواب: اس حدیث کی سند بھی وہی ہے جو سابقہ حدیث کی تھی ، اس میں بھی تینوں ضعیف راوی ہیں، عیسی بن جاریہ، یعقوب قمی، اور محمد بن حمید رازی، آخرالذکر راوی متعدد اماموں نے کذاب اور وضاع قرار دیا ہے،
اہل حدیث حضرات کے استاذالعلماء مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں: جس (حدیث) کو کسی وضاع یا کذاب نے بیان کیا وہ موضوع ہے۔ ( التحقیق الراسخ ۱۲)
ماشاء اللہ، ماشاء اللہ ایسے ہی کذاب راویوں کی بیان کردہ موضوع روایات پر اہل حدیث صاحبان کے مذہب کا مدار ہے، اہل حدیث صاحبان حنفیوں سے بخاری و مسلم کی حدیث کا تقاضہ کرتے ہیں اور خود کذاب راویوں کی بیان کردہ موضوع روایات سے اپنے مذہب کو ثابت کرتے ہیں،
قارئین کرام : یہ عبداللہ صاحب کی پوسٹ کا مختصر جواب ہے،
میرے دلائل کے مطالعہ سے آپ دوستوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اہل حدیث صاحبان احادیث کے نام سے کس طرح دھوکہ دیتے ہیں اور غیر صریح اور موضوع روایات سے اپنے مذہب کی بنیادکھڑی کرتے ہیں،
عبداللہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ایک سچے امتی ہونے کے ناطے میرے دلائل پر تعصب اور ضد سے ہٹ کر غور فرمائیں، اور ہم سب پر لازم ہیں کہ ہم خلوص دل سے رب العالمین سے صراط مستقیم کی دعا کریں ، اللہ تعالی ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور اپنی مرضیات پر چلائیں، آمین
Back to Conversion Tool[h=2]Back to Home Page[/h]
*دعوی کے لئے دلیل کا ہونا شرط ہے اور دلیل صریح بھی ہو اور صحیح بھی ، اس کے بغیر دعوی ثابت نہیں ہوتا۔
*جب لفظ حدیث بیان ہو تو اس پر غور فرمالیا کریں کہ مدعی کے دعوی کی صراحت اس حدیث میں موجود ہے بھی کہ نہیں،
*دعوی پر جو حدیث بیان ہو اسے دیکھ لیا جائے کہ یہ فرمان رسول ﷺ ہے یا کسی صحابیؓ یا تابعیؒ کا قول ہے، حدیث کے لفظ سے دھوکہ مت کھائیے۔
*عبداللہ صاحب نے اپنے دعوی پر صرف تین احادیث پیش کی ہیں، جن میں سے پہلی حدیث عائشہ ؓ انکے دعوی کی مرکزی اور بنیادی دلیل کے طور پر بیان ہوئی ہے۔ جس میں سرے سے نہ تراویح کا ذکر ہے اور نہ اس میں تراویح کو موضوع شامل ہے ، اس میں تہجدکی نماز کا ذکر ہے۔
لہذا اس حدیث عائشہؓ سے اپنے دعوی پر استدلال ہی غلط ہوا۔
جب کہ باقی دوروایات سند کے اعتبار سے اور خود اہل حدیث علماء کے اصول سے ضعیف اور کمزور بھی ہے اور صحیح بھی نہیں۔
* اگر حدیث عائشہؓ کو ان کے دعوی پر تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ حدیث عائشہ خود اہل حدیث حضرات کے لئے ایک بڑی مصیبت کھڑی کردیتی ہے، یعنی اگر مان لیا جائے کہ یہ تراویح کا بیان ہے تو اہل حدیث حضرات کا ہر عمل اس حدیث عائشہؓ کے خلاف ہے۔ دلائل آگے آرہے ہیں۔
عبداللہ صاحب کی پیش کردہ پہلی مرکزی روایت حدیث عائشہ کی تشریح:
قارئین کرام: اس روایت پر غور فرمائیں کسی جگہ لفظ تراویح کا استعمال نہیں ہوا اور نہ ہی تراویح کی نماز کا ذکر ہوا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمارہی ہے کہ رمضان میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے اور غیر رمضان میں بھی گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اس میں دوباتیں ہیں رمضان اور غیر رمضان ، تراویح کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں، اور نہ جماعت سے پڑھنے کا ذکر ہے۔رمضان اور غیر رمضان یہ لفظ خود تہجد کی نماز کو بیان کررہا ہے، کیونکہ تہجد کی نماز رمضان اور غیر رمضان پورے سال کے لئے ہوتی ہے جبکہ تراویح کی نماز صرف رمضان کے لئے ہوتی ہے،
غور فرمائیں کہ اس میں تراویح کی نماز کا ذکر ہورہا ہے یا تہجد کی نماز کا ذکر ہورہا ہے؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر اس حدیث سے تراویح کی نماز مراد لیتے ہیں تو تہجد کی نماز ثابت نہیں ہوتی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے نبوت والی زندگی میں ہمیشہ اور آخر وقت تک اہتمام اور پابندی سے تہجد کی نماز پرھی ہے، کیونکہ تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ پر فرض تھی، بعض کہتے ہیں واجب تھی،
اگر حدیث عائشہؓ سے تراویح کی نماز مراد لیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی تہجد کی نماز کا انکار لازم آتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ تراویح کے لئے تہجد کی فرض نماز چھوڑدے یہ کیسے ممکن ہے،
یہ بڑی تعجب بلکہ افسوس ناک کی بات ہے کہ رمضان میں ہر بندہ زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے ، اور اہل حدیث صاحبان رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی عبادات میں کمی دکھاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ گیارہ مہینے تہجد کی نماز پابندی سے پڑھتے تھے اور رمضان میں تہجد چھوڑ دیتے تھے، العیاذ باللہ
لہذا یہ ایک بڑا مغالطہ اور دھوکہ ہوا ہے اہل حدیث صاحبان کو اس حدیث عائشہ سے،
اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ نماز اکیلے پڑھی ہے اور اپنے حجرہ مبارک میں پڑھی ہے، تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ اسی طرح ادا فرماتے تھے، جبکہ تراویح کی نماز جماعت سے اور مسجد میں پڑھی جاتی ہے۔
اب اس روایت کی کیفیت سے کونسی نماز مراد لیں گے، نتیجہ بالکل صاف اور واضح ہے۔
قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ کتنا بڑا دھوکہ ہے جو حدیث کے نام پر عوام الناس کو دیا جارہا ہے۔
حدیث عائشہ سے اہل حدیث صاحبان نے جو دعوی کیا ہے اس کے رد میں میرے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلیل نمبر ۱: عبداللہ صاحب نے جو روایت بیان کی ہے یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں بلکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے، اس روایت میں چار، چار رکعات اور پھر تین وتر کا ذکر ہوا ہے ، جبکہ مسلم شریف کی ایک روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہوا ہے لیکن یہاں دو، دو رکعت اور آخر میں ایک رکعت وتر پڑھنے کا ذکر ہوا ہے۔
(صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۵۴)
یہ دونوں روایات سیدہ عائشہؓ سے منقول ہیں، پہلی روایت جسے عبداللہ صاحب نے پیش کی چار، چار رکعت اور تین وتر کا ذکر ہے جبکہ مسلم کی روایت میں دو، دو رکعت اور ایک وتر کا ذکر ہے،
اب یہ دونوں روایتیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہیں اور دو باہم معارض روایتوں سے اہل حدیث صاحبان کا حجت پکڑنا باطل ہوگیا کیونکہ اذا تعارضا تساقط
دلیل نمبر۲: اس حدیث سے رکعات تراویح پر استدلال ہی فضول ہے کیونکہ حضرت عائیشہ صدیقہؓ اس حدیث میں جس نماز کا تذکرہ فرمارہی ہیں وہ تہجد کی نماز ہے، اس کا تراویح کی نماز سے کوئی تعلق نہیں، مسلم شریف میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، لہذا یہ روایت تو موضوع( رکعات تراویح) سے ہی خارج ہے۔
دلیل نمبر۳: آئمہ حدیث نے تراویح اور تہجد کے الگ الگ باب باندھے ہیں اور اس حدیث عائشہؓ کو تہجد کے باب میں ذکر فرمایا ہے، مثلا ، امام مالک نے اپنی موطا میں، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ، امام ترمذی نے اپنی جامع الترمذی میں، امام ابو داود نے سنن ابو داود میں، امام نسائی نے سنن نسائی میں، امام خطیب تبریزی نے مشکواۃ المصابیح میں، حافظ ابن قیم نے زاد المعاد میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے بلوغ المرام میں، یہاں تک کے غیر مقلدین کے امام محمد صادق سیالکوٹی صاحب نے اپنی کتاب صلوۃ الرسول میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے،
دلیل نمبر۴:اگر اس حدیث عائشہؓ کا تعلق تراویح سے ہوتا تو محدثین کرام اور فقہاء کرام کبھی یہ نہ فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی عدد کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں، حتی کہ یہ حدیث عائشہؓ محدثین اور فقہاء کرام کے سامنے تھی، ثابت ہوا کہ اس کا تعلق تراویح سے نہیں بلکہ تہجد کی نماز سے ہے۔
اگراہل حدیث حضرات اس روایت سے نماز تراویح مراد لیتے ہیں تو پھر انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اہل حدیث حضرات کا ہر عمل اس روایت کے خلاف ہے، مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں،
دلیل نمبر۵:یہ نماز رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان یعنی بارہ مہینے پابندی سے پڑھتے رہے، اگر اہل حدیث صاحبان کے نزدیک یہ نماز تراویح مراد ہے تو اہل حدیث صاحبان پورے سال یہ نماز کیوں پابندی سے نہیں پڑھتے ؟، آپ کا عمل حدیث کے خلاف ہے، اور پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہو، تعجب ہے۔
دلیل نمبر۶: یہ نماز رسول اللہ ﷺ نے اکیلے پڑھی ہے ظاہر ہے تہجد کی نماز اکیلے پڑھی جاتی ہے جب کہ تراویح جماعت سے، اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف جماعت سے نماز پڑھتے ہیں اور خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۷: یہ نماز رسول اللہ ﷺ گھر پر پڑھتے تھے ، جبکہ اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف مسجد میں پڑھتے ہیں ، اور خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۸: یہ نماز رسول اللہ ﷺ آخری شب ادا فرماتے تھے، جبکہ اہل حدیث صاحبان حدیث کے خلاف اول شب میں پڑھ کر سو جاتے ہیں ، پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہیں ، تعجب ہےِ
دلیل نمبر۹:اس روایت مین تین وتر( ایک سلام کے ساتھ) کا ذکر ہے جب کہ اہل حدیث صاحبان اس حدیث کے خلاف صرف ایک رکعت وتر پرھتے ہیں ، پھر بھی خود کو اہل حدیث کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۰: رسول اللہ ﷺ نے وتر اکیلے پڑھی جب کہ اہل حدیث صاحبان حدیث کے خلاف جماعت سے وتر پڑھتے ہیں تراویح کے بعد ، پھر خود کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۱: آٹھ رکعات نماز تراویح جماعت سے مسجد میں رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ پورا مہینہ پڑھنے کی پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث بھی پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ملتی، اور نہ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے اور نہ حکم، پھر اہل حدیث صاحبان رسول اللہ ﷺ کی کس حدیث کے مطابق پورا رمضان کا مہینہ آٹھ رکعات تراویح اہتمام سے پڑھتے ہیں؟؟؟کوئی حنفی بغیر حدیث رسول ﷺ خلفاء راشدین کی اتباع میں کوئی عمل کرے تو بدعت کہا جاتا ہے اور اہل حدیث صاحبان بغیر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے پورا مہینہ آٹھ رکعات تراویح پڑھے تو اسے سنت کہتے ہیں، تعجب ہے،
دلیل نمبر۱۲: سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح نہیں پڑھائی گئی اور ام المومنین عائشہؓ نے اپنے والد مکرم سے کبھی آٹھ رکعات تراویح کا ذکر نہیں کیا،
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئی لیکن ام المومنینؓ خاموش ہیں،
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئی لیکن ام المومنین خاموش ہیں،
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت مین بیس رکعت تراویح پڑھائی گئی لیکن ام المومنین خاموش ہیں،
ام المومنین سیدہ عائشہؓ کا خاموش رہنا اور آٹھ رکعات تراویح کا ذکر نہ کرنا خود راوی کی طرف سے سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ نماز تہجد کی نماز ہے، تراویح کی نماز نہیں،
اب نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازوں میرے آزمائے ہوئے ہیں
فی الوقت عبداللہ صاحب کے لئے اتنے دلائل کافی ہیں ، کیونکہ مجھے ان کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے،
قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا اہل حدیث صاحبان کی آٹھ رکعت تراویح کی جو سب سے بڑی مرکزی دلیل تھی اس پر میرے دلائل نے ثابت کردیا کہ یہ حضرات کس طرح حدیث کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں،
اگر اس روایت میں تراویح مراد لی جائے تو خود ان کا عمل اس حدیث کے خلاف ہوجاتا ہے، جسے میں نے دلائل سے ثابت کیا،
ایک اور دھوکہ
عبداللہ صاحب نے حدیث عائشہؓ کے ضمن میں حافظ ابن حجر ؒ کی ایک تشریح گیارہ رکعات کی حکمت بیان کی ہے جس مین عبداللہ صاحب نے خیانت کرتے ہوئے زبر دستی تراویح کی نماز مراد لی ہے جبکہ حافظ ابن حجر عشقلانی ؒ نی صاف اور واضح الفاظ مین تہجد کی نماز کا ذکر کیا ہے،
عبد اللہ صاحب نے تہجد کی نماز کو تراویح کی نماز بنانے کے لئے دو جگہ اپنے الفاظ زبر دستی ڈاخل کئے ہیں،
شروع میں رکعات تراویح کا لفظ اور اس سے آگے پہلی سطر مین لفظ تہجد کے بعد بریکٹ میں تراویح کا لفظ داخل کیا ہے ، اس طرح تہجد کی نماز کو تراویح کی نماز بنا کر دھوکہ دیا ہے،
اور عبداللہ صاحب کی عقل کا ماتم کیجئے انہیں اتنا بھی ہوش نہین رہا کہ تہجد کے معنی بریکٹ میں تراویح لکھ کر کر رہے ہیں حتی کہ ہر بندہ جانتا ہے کہ تہجد کی نماز الگ ہوتی ہے اور تراویح کی نماز دوسری ہوتی ہے ، لیکن عبداللہ صاحب لفظ تہجد پر لفط تراویح بیان کرکے اپنی ذہنی کیفیت کا کھلا اطہار کررہے ہیں۔ نصیب اپنا اپنا
سنبھل کر چھیڑنا اے طفل دل زلف پریشان کو
لپٹ جاتی ہے یہ عشاق سے کالی بلا ہوکر
عبداللہ صاحب کی اپنے دعوی میں پیش کردہ دوسری روایت کا جواب:
جواب:یہ روایت خود اہل حدیث علماء کے اپنے بیان کردہ قاعدے اور اصول کے موافق منتطع ہے، کیونکہ اس روایت کو حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والے راوی عیسی بن جاریہ ہین جن کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہین من الرابعہ، کہ وہ چوتھے طبقہ کا راوی ہے، ( صحیح ابن خزیمہ ج۲ص۱۳۰، صحیح ابن حبان ۴ص ۶۴، قیام اللیل ۱۹۷)
اور اہل حدیث عالم مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ چوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ وسطی کے قریب ہے جن کی اکثرروایتین کبار تابعین سے لی گئے ہین صحابہ سے نہیں، ( انوار المصابیح ۲۸۰)
جب عیسی بن جاریہ چوتھا طبقہ کا راوی ہے تو براہ راست صحابی رسول حضرت جابرؓ سے روایت کیسے کی؟؟؟
لہذا خود اہل حدیث علماء کے قاعدے اور اصول کے مطابق یہ روایت حضرت جابرؓ سے منقطع ٹھہری اور منقطع روایت خود اہل حدیث (غیر مقلدیں) کے لئے حجت نہیں،
لہذا اہل حدیث صاحبان پر لازم ہے کہ اس روایت کا اتصال ثابت کرنے کے لئے پہلے عیسی بن جاریہ اور حضرت جابرؓ کے درمیان ملاقات کا ثبوت یا کم از کم معاصرت ہی ثابت کردین ورنہ اس روایت سے استدلال کرنا چھوڑ دیں،یہ تو تھا خود ان کے قاعدے اور اصول کی دلیل ، اب مزید سنئے
اس حدیث کا مدار عیسیٰ بن جاریہ پر ہے اس کے متعلق ابن معین کہتے ہیں اس کی روایات منکر ہیں امام نسائی فرماتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے اور اس سے متروک روایات بیان ہوئی ہیں (میزان ج۳،ص۳۱۱)
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابن معین اور ابو داود نے اس کو ضعیف کہا ہے (مجمع الزوائد ج۲ص۷۲)۔
اس کے علاوہ اس کی سند میں یعقوب بن عبد اللہ الاشعری القمی ہے امام دار قطنی فرماتے ہیں یہ قوی راوی نہیں کمزور ہے (میزان الاعتدال ،ج۴،ص۴۵۲)
اگر حنفی کسی ضعیف حدیث سے استدلال کرلے تو اہل حدیث حضرات آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور بخاری کی حدیث کا تقاضہ کیا جاتاہے، اور خود ضیف او ر کمزور اور کچی باتیں پیش کرتے ہو، دل میں خوف خدا کی بھی جگہ بنالو بھائی،
بالفرض حدیث صحیح بھی ثابت ہوجائے کہ تراویح آٹھ سنت ہیں توسنن الکبری ج۲ص ۴۹۴میں روایت ہے کہ رمضان میں آپ ﷺ نے صرف تین راتیں باجماعت صحابہ کو نماز پڑھائی ،۲۳،۲۴،۲۵،تو پھر آپ کیوں باقی چھبیس یا ستائیس دن اس روایت کے خلاف ، خلاف سنت کرتے ہو، اور پھر خود کو اہل ھڈیث بھی کہتے ہو، تعجب ہے۔
اے چشم اشکبار ذار دیکھ تو سہی
یہ گھر جوجل رہا ہے کہیں تیرا ہی نہ ہو
عبداللہ صاحب کی اپنے دعوی میں پیش کردہ تیسری روایت کا جواب:
جواب: اس حدیث کی سند بھی وہی ہے جو سابقہ حدیث کی تھی ، اس میں بھی تینوں ضعیف راوی ہیں، عیسی بن جاریہ، یعقوب قمی، اور محمد بن حمید رازی، آخرالذکر راوی متعدد اماموں نے کذاب اور وضاع قرار دیا ہے،
اہل حدیث حضرات کے استاذالعلماء مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں: جس (حدیث) کو کسی وضاع یا کذاب نے بیان کیا وہ موضوع ہے۔ ( التحقیق الراسخ ۱۲)
ماشاء اللہ، ماشاء اللہ ایسے ہی کذاب راویوں کی بیان کردہ موضوع روایات پر اہل حدیث صاحبان کے مذہب کا مدار ہے، اہل حدیث صاحبان حنفیوں سے بخاری و مسلم کی حدیث کا تقاضہ کرتے ہیں اور خود کذاب راویوں کی بیان کردہ موضوع روایات سے اپنے مذہب کو ثابت کرتے ہیں،
قارئین کرام : یہ عبداللہ صاحب کی پوسٹ کا مختصر جواب ہے،
میرے دلائل کے مطالعہ سے آپ دوستوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اہل حدیث صاحبان احادیث کے نام سے کس طرح دھوکہ دیتے ہیں اور غیر صریح اور موضوع روایات سے اپنے مذہب کی بنیادکھڑی کرتے ہیں،
عبداللہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ایک سچے امتی ہونے کے ناطے میرے دلائل پر تعصب اور ضد سے ہٹ کر غور فرمائیں، اور ہم سب پر لازم ہیں کہ ہم خلوص دل سے رب العالمین سے صراط مستقیم کی دعا کریں ، اللہ تعالی ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور اپنی مرضیات پر چلائیں، آمین
Back to Conversion Tool[h=2]Back to Home Page[/h]