Muslim Better Life K Liye Non-muslim Countries May Reh Sakte Hain?

  • Work-from-home

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!



Assalam o ALaikum

aaj aik discussion k doran ye baat discuss hui jis may kuch ka kehna tha k better life waghaira k liye Muslim log non-muslim countries may ja k nhi reh sakte,,i m confused..

kia Musalmano k liye better life k liye non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) may ja k rehna Islam may allow hay(for the sake of better life)?

i need authentic info..


@saviou @Wafa_Khan @h@!der @S_ChiragH @Don @thefire1 @Zia_Hayderi @shizz
 

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313


Assalam o ALaikum

aaj aik discussion k doran ye baat discuss hui jis may kuch ka kehna tha k better life waghaira k liye Muslim log non-muslim countries may ja k nhi reh sakte,,i m confused..

kia Musalmano k liye better life k liye non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) may ja k rehna Islam may allow hay(for the sake of better life)?

i need authentic info..


@saviou @Wafa_Khan @h@!der @S_ChiragH @Don @thefire1 @Zia_Hayderi @shizz

WELL.. depends wht do u mean by BETTER LIFE..

i will consult sum1 for more info den what i just hv.. b4 i answer.. inshAllah :)
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313


Assalam o ALaikum

aaj aik discussion k doran ye baat discuss hui jis may kuch ka kehna tha k better life waghaira k liye Muslim log non-muslim countries may ja k nhi reh sakte,,i m confused..

kia Musalmano k liye better life k liye non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) may ja k rehna Islam may allow hay(for the sake of better life)?

i need authentic info..


@saviou @Wafa_Khan @h@!der @S_ChiragH @Don @thefire1 @Zia_Hayderi @shizz


اپنے ملك كى بجائے وہ يورپى ممالك ميں دين پر زيادہ عمل كر سكتا ہے، تو كيا اس پر ہجرت كرنا لازم ہے؟

ميں ايك مغربى ملك ميں سكونت پذير ہوں، اور الحمد للہ بغير كسى تنگى اور ركاوٹ كے دينى احكام پر عمل كر سكتا ہوں، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر كچھ احاديث كا مطالعہ كيا ہے جو كفار كے درميان بود و باش اختيار كرنے اور كفار ممالك ميں رہنے سے منع كرتى ہيں.
اب ميں بہت زيادہ حيران و پريشان ہوں كہ آيا ميں اپنے ملك واپس پلٹ جاؤں يا اسى ملك ميں باقى رہوں، يہ علم ميں رہے كہ اگر ميں اپنے ملك واپس جاؤں تو دينى احكام پر عمل كرنے كى بنا پر مجھے بہت سى تنگى اور ركاوٹوں اور اذيتوں كا سامنا كرنا ہوگا، اور ميں وہاں عبادت كرنے ميں اتنى آزادى حاصل نہيں كرسكوں گا جتنى يہاں مجھے حاصل ہے.
ميرى گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب عنائت فرمائيں اور اس ملك ميں رہنے كا حكم بيان كريں، خاص كر اب تو مسلمان ملك بھى كسى دوسرے ملك سے مختلف نہيں رہے، جہاں دينى شعائر كا التزام كيا جاتا ہو ؟

الحمد للہ:

اصل بات تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كے ليے مشركوں اور كافروں كے درميان رہنا جائز نہيں، اس حكم پر بہت سى قرآنى آيات اور احاديث بھى دلالت كرتى ہيں، اور صحيح نظر بھى اسى كى غماز ہے:

كتاب اللہ سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{جو لوگ اپنى جانوں پرظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟

يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟

يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے} النساء ( 97 ).

سنت نبويہ سے دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.

اور صحيح نظر اور غور كرنے سے بھى يہ معلوم ہوتا ہے كہ:

مشركوں اور كافروں كے مابين رہنے والا مسلمان شخص بہت سے اسلامى شعائر اور ظاہرى عبادات پر عمل پيرا نہيں ہو سكتا، اس كے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ كو فتنہ و فساد كے سامنے بھى پيش كرنا پڑے گا، كيونكہ ان ممالك ميں جو فحاشى اور بے حيائى و بے پردگى ظاہر ہے اور ان ممالك كا قانون اس فحاشى اور بدكارى كا محافظ بھى ہے، تو مسلمان كو كوئى حق نہيں اور نہ ہى اس كے شايان شان ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے فتنوں اور آزمائشوں ميں ڈالے.

يہ تو اس وقت ہے جب ہم كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل كى طرف نظر دوڑائيں اور اسلامىاور كفار ممالك كى جانب نظر نہ دوڑائيں، ليكن اگر ہم اسلامى ممالك كى طرف فى الواقع نظر دوڑائيں تو ہم سائل كےقول ( اور خاص كر اسلامى ممالك بھى اسلامى احكام كا التزام كرنے ميں دوسرے ممالك سے بہت زيادہ مختلف نہيں رہے ) كى موافقت نہيں كرتے، كيونكہ يہ عمومى طور پر كہنا صحيح نہيں، كيونكہ سارى اسلامى حكومتيں شريعت اسلاميہ كے احكام لاگو كرنے اور اس كا التزام كرنے ميں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں فرق ہے، بلكہ ايك ہى ملك كے اندر علاقوں اور شہروں كے اعتبار سے اختلاف پايا جاتا ہے.

اور پھر سارے كفار ممالك بھى فحاشى و عريانى اور بے حيائى اور اخلاقى طور پر ايك جيسے نہيں، بلكہ وہ بھى اس ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.

لھذا اسلامى ممالك كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا، اور كفريہ ممالك كا بھى ايك دوسرے سے مختلف ہونے كو ديكھتے ہوئے.

اور پھر اسے بھى مدنظر ركھتے ہوئے كہ ہر مسلمان شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا كہ كسى بھى اسلامى ملك ميں جا كر رہائش اختيار كرلے كيونكہ ويزوں اور اقامہ وغيرہ كے سخت قوانين پائے جاتے ہيں،

اور اسے بھى مد نظر ركھتے ہوئے كہ ہو سكتا ہے مسلمان شخص كچھ اسلامى ممالك ميں اسطرح دينى معاملات اور احكام پر عمل نہ كر سكتا ہو جس طرح وہ بعض يورپى اور كفريہ ممالك ميں بعض اسلامى شعائر يا سارے اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہے.

يہ سب كچھ ديكھتے ہوئے اب ايك عام حكم صادر كرنا اور ايسا حكم لگانا جو سب ممالك اور سب اشخاص كے ليے عام ہو ايسا حكم مشكل ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے:

ہر مسلمان شخص كى حالت خاص ہے، اور اس كے ليے حكم بھى خاص ہو گا، اور ہر آدمى اپنے آپ كا محاسبہ كرے، اگر تو اس كے ليے ان اسلامى ممالك ميں جہاں وہ رہ سكتا ہے دين پر عمل كرنا كفار ممالك سے زيادہ آسان اور ممكن ہے تو پھر اس كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا جائز نہيں ہے.

اور اگر معاملہ اس كے برعكس ہو يعنى وہ اسلامى ملك كى بجائے كفريہ ملك ميں زيادہ آسانى سے دين پر عمل كر سكتا ہے تو پھر ايك شرط كے ساتھ اسے كفريہ ملك ميں رہنا جائز ہو گا: كہ اسے اپنے آپ پر اتنا كنٹرول ہو كہ وہ وہاں پائى جانے والى بے حيائى اور فحاشى وبدكارى اور فتنوں سے شرعى وسائل كے ساتھ محفوظ رہ سكے.

اس كى تائيد ميں ہم اہل علم كے اقوال درج كرتے ہيں:

اس مسئلہ كى متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ ممالك كے مختلف ہونے كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ مسئلہ سب سے مشكل مسائل ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ كفار كے ممالك ميں بسنے والے بعض مسلمان اگر اپنے ممالك واپس جائيں تو انہيں تنگ كيا جائےگا اور انہيں سزائيں دى جائيں گى اور ان كے دين ميں انہيں آزمائش ميں ڈالا جائےگا، جبكہ وہ كفريہ ممالك ميں اس سے امن ميں ہيں.

پھر اگر ہم انہيں يہ كہيں كہ: كفار كے درميان تمہارا رہنا حرام ہے، تو پھر وہ كونسا اسلامى ملك ہے جو انہيں قبول كرے اور ان كا استقبال كرے، اور انہيں اپنے ملك ميں بسنے كى اجازت دے؟!

شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا معنى يہى ہے.

زكريا انصارى شافعى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" اسنى المطالب" ميں كہتے ہيں:

اگر دين كا اظہار كرنے سے عاجز ہو تو استطاعت ركھنے والے پر دار كفر سے دار اسلام كى طرف ہجرت كرنى واجب ہے. اھـ

ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 207 ).

اور ابن عربى مالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

دار الحرب سےنكل كر دار الاسلام جانے كو ہجرت كہا جاتا ہے، اور يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں فرض تھى، ان كے بعد بھى ہر اس شخص كے ليے جارى ہے جو اپنے نفس كا خطرہ محسوس كرے. اھـ

ماخوذ از: نيل الاوطار ( 8 / 33 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

" ميں مشركوں كے درميان رہنے والے ہر مسلمان شخص سے برى ہوں"

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اسے اس پر محمول كيا جائےگا جو اپنے دين كے متعلق خوفزدہ ہو. اھـ

ديكھيں: فتح البارى شرح حديث نمبر ( 2825 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

دار الحرب ہر وہ جگہ اور ٹكڑا ہے جس ميں كفريہ احكام ظاہر ہوں.

دارالحرب كے متعلقہ احكام ميں ہجرت بھى شامل ہے:

فقھاء كرام نے دارالحرب سے ہجرت كے معاملہ ميں لوگوں كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے:

پہلى قسم:

جس پر ہجرت واجب ہے:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہو، اور دارالحرب ميں رہتے ہوئے اپنے دين كو ظاہر نہ كر سكتا ہو، اور اگر يہ عورت ہو اور اس كا كوئى محرم نہ ہو تو اگر وہ راستہ كو اپنے ليے پرامن سمجھے اور خطرہ نہ محسوس كرتى ہو، يا راستے ميں دارالحرب ميں رہنے سے كم خطرہ ہو...

دوسرى قسم:

جس پر ہجرت نہيں ہے:

وہ شخص جو ہجرت كرنے سے عاجز ہو، يا تو بيمارى كى بنا پر، يا پھر دار الكفر ميں رہائش ركھنے پر مجبور كيا گيا ہو، يا كمزور ہو مثلا عورتوں اور بچوں كى طرح، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{مگر كمزور مرد اور عورتيں اور بچے جو حيلہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كوئى راہ پاتے ہيں}.

تيسرى قسم:

جس كے ليے ہجرت كرنى جائز ہے واجب نہيں:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہے اور دارالحرب ميں دينى شعائر كا اظہار بھى كرسكتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے تا كہ وہ جہاد كر سكے، اور مسملمانوں كى تعداد ميں كثرت كا باعث بنے. اھـ

اختصار كے ساتھ

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 206 )

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العليمۃ والافتاء ( 12 / 50 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى اصلاح فرمائے اور ان كے حالات درست فرمائے.

واللہ اعلم .

 
  • Like
Reactions: errorsss and Duffer

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313
ham yehi sawal urdu me share kiye hain
Jazak Allah :)

Thanks Saviou.. Ek gawahi li he me ne for d same.. inshAllah ek aur Gawahi le ke apni taraf se final verdict b don gaa.. but Quraan aur Ahadees authentic hen..a ur is ke baad mere khyal me kisi behes ki Gunjaesh reh nahi jati.. :)

@Hoorain i hope this was what u wr looking for..
 
  • Like
Reactions: Hoorain

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!

اپنے ملك كى بجائے وہ يورپى ممالك ميں دين پر زيادہ عمل كر سكتا ہے، تو كيا اس پر ہجرت كرنا لازم ہے؟

ميں ايك مغربى ملك ميں سكونت پذير ہوں، اور الحمد للہ بغير كسى تنگى اور ركاوٹ كے دينى احكام پر عمل كر سكتا ہوں، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر كچھ احاديث كا مطالعہ كيا ہے جو كفار كے درميان بود و باش اختيار كرنے اور كفار ممالك ميں رہنے سے منع كرتى ہيں.
اب ميں بہت زيادہ حيران و پريشان ہوں كہ آيا ميں اپنے ملك واپس پلٹ جاؤں يا اسى ملك ميں باقى رہوں، يہ علم ميں رہے كہ اگر ميں اپنے ملك واپس جاؤں تو دينى احكام پر عمل كرنے كى بنا پر مجھے بہت سى تنگى اور ركاوٹوں اور اذيتوں كا سامنا كرنا ہوگا، اور ميں وہاں عبادت كرنے ميں اتنى آزادى حاصل نہيں كرسكوں گا جتنى يہاں مجھے حاصل ہے.
ميرى گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب عنائت فرمائيں اور اس ملك ميں رہنے كا حكم بيان كريں، خاص كر اب تو مسلمان ملك بھى كسى دوسرے ملك سے مختلف نہيں رہے، جہاں دينى شعائر كا التزام كيا جاتا ہو ؟

الحمد للہ:

اصل بات تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كے ليے مشركوں اور كافروں كے درميان رہنا جائز نہيں، اس حكم پر بہت سى قرآنى آيات اور احاديث بھى دلالت كرتى ہيں، اور صحيح نظر بھى اسى كى غماز ہے:

كتاب اللہ سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{جو لوگ اپنى جانوں پرظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟

يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟

يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے} النساء ( 97 ).

سنت نبويہ سے دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.

اور صحيح نظر اور غور كرنے سے بھى يہ معلوم ہوتا ہے كہ:

مشركوں اور كافروں كے مابين رہنے والا مسلمان شخص بہت سے اسلامى شعائر اور ظاہرى عبادات پر عمل پيرا نہيں ہو سكتا، اس كے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ كو فتنہ و فساد كے سامنے بھى پيش كرنا پڑے گا، كيونكہ ان ممالك ميں جو فحاشى اور بے حيائى و بے پردگى ظاہر ہے اور ان ممالك كا قانون اس فحاشى اور بدكارى كا محافظ بھى ہے، تو مسلمان كو كوئى حق نہيں اور نہ ہى اس كے شايان شان ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے فتنوں اور آزمائشوں ميں ڈالے.

يہ تو اس وقت ہے جب ہم كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل كى طرف نظر دوڑائيں اور اسلامىاور كفار ممالك كى جانب نظر نہ دوڑائيں، ليكن اگر ہم اسلامى ممالك كى طرف فى الواقع نظر دوڑائيں تو ہم سائل كےقول ( اور خاص كر اسلامى ممالك بھى اسلامى احكام كا التزام كرنے ميں دوسرے ممالك سے بہت زيادہ مختلف نہيں رہے ) كى موافقت نہيں كرتے، كيونكہ يہ عمومى طور پر كہنا صحيح نہيں، كيونكہ سارى اسلامى حكومتيں شريعت اسلاميہ كے احكام لاگو كرنے اور اس كا التزام كرنے ميں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں فرق ہے، بلكہ ايك ہى ملك كے اندر علاقوں اور شہروں كے اعتبار سے اختلاف پايا جاتا ہے.

اور پھر سارے كفار ممالك بھى فحاشى و عريانى اور بے حيائى اور اخلاقى طور پر ايك جيسے نہيں، بلكہ وہ بھى اس ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.

لھذا اسلامى ممالك كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا، اور كفريہ ممالك كا بھى ايك دوسرے سے مختلف ہونے كو ديكھتے ہوئے.

اور پھر اسے بھى مدنظر ركھتے ہوئے كہ ہر مسلمان شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا كہ كسى بھى اسلامى ملك ميں جا كر رہائش اختيار كرلے كيونكہ ويزوں اور اقامہ وغيرہ كے سخت قوانين پائے جاتے ہيں،

اور اسے بھى مد نظر ركھتے ہوئے كہ ہو سكتا ہے مسلمان شخص كچھ اسلامى ممالك ميں اسطرح دينى معاملات اور احكام پر عمل نہ كر سكتا ہو جس طرح وہ بعض يورپى اور كفريہ ممالك ميں بعض اسلامى شعائر يا سارے اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہے.

يہ سب كچھ ديكھتے ہوئے اب ايك عام حكم صادر كرنا اور ايسا حكم لگانا جو سب ممالك اور سب اشخاص كے ليے عام ہو ايسا حكم مشكل ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے:

ہر مسلمان شخص كى حالت خاص ہے، اور اس كے ليے حكم بھى خاص ہو گا، اور ہر آدمى اپنے آپ كا محاسبہ كرے، اگر تو اس كے ليے ان اسلامى ممالك ميں جہاں وہ رہ سكتا ہے دين پر عمل كرنا كفار ممالك سے زيادہ آسان اور ممكن ہے تو پھر اس كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا جائز نہيں ہے.

اور اگر معاملہ اس كے برعكس ہو يعنى وہ اسلامى ملك كى بجائے كفريہ ملك ميں زيادہ آسانى سے دين پر عمل كر سكتا ہے تو پھر ايك شرط كے ساتھ اسے كفريہ ملك ميں رہنا جائز ہو گا: كہ اسے اپنے آپ پر اتنا كنٹرول ہو كہ وہ وہاں پائى جانے والى بے حيائى اور فحاشى وبدكارى اور فتنوں سے شرعى وسائل كے ساتھ محفوظ رہ سكے.

اس كى تائيد ميں ہم اہل علم كے اقوال درج كرتے ہيں:

اس مسئلہ كى متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ ممالك كے مختلف ہونے كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ مسئلہ سب سے مشكل مسائل ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ كفار كے ممالك ميں بسنے والے بعض مسلمان اگر اپنے ممالك واپس جائيں تو انہيں تنگ كيا جائےگا اور انہيں سزائيں دى جائيں گى اور ان كے دين ميں انہيں آزمائش ميں ڈالا جائےگا، جبكہ وہ كفريہ ممالك ميں اس سے امن ميں ہيں.

پھر اگر ہم انہيں يہ كہيں كہ: كفار كے درميان تمہارا رہنا حرام ہے، تو پھر وہ كونسا اسلامى ملك ہے جو انہيں قبول كرے اور ان كا استقبال كرے، اور انہيں اپنے ملك ميں بسنے كى اجازت دے؟!

شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا معنى يہى ہے.

زكريا انصارى شافعى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" اسنى المطالب" ميں كہتے ہيں:

اگر دين كا اظہار كرنے سے عاجز ہو تو استطاعت ركھنے والے پر دار كفر سے دار اسلام كى طرف ہجرت كرنى واجب ہے. اھـ

ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 207 ).

اور ابن عربى مالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

دار الحرب سےنكل كر دار الاسلام جانے كو ہجرت كہا جاتا ہے، اور يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں فرض تھى، ان كے بعد بھى ہر اس شخص كے ليے جارى ہے جو اپنے نفس كا خطرہ محسوس كرے. اھـ

ماخوذ از: نيل الاوطار ( 8 / 33 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

" ميں مشركوں كے درميان رہنے والے ہر مسلمان شخص سے برى ہوں"

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اسے اس پر محمول كيا جائےگا جو اپنے دين كے متعلق خوفزدہ ہو. اھـ

ديكھيں: فتح البارى شرح حديث نمبر ( 2825 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

دار الحرب ہر وہ جگہ اور ٹكڑا ہے جس ميں كفريہ احكام ظاہر ہوں.

دارالحرب كے متعلقہ احكام ميں ہجرت بھى شامل ہے:

فقھاء كرام نے دارالحرب سے ہجرت كے معاملہ ميں لوگوں كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے:

پہلى قسم:

جس پر ہجرت واجب ہے:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہو، اور دارالحرب ميں رہتے ہوئے اپنے دين كو ظاہر نہ كر سكتا ہو، اور اگر يہ عورت ہو اور اس كا كوئى محرم نہ ہو تو اگر وہ راستہ كو اپنے ليے پرامن سمجھے اور خطرہ نہ محسوس كرتى ہو، يا راستے ميں دارالحرب ميں رہنے سے كم خطرہ ہو...

دوسرى قسم:

جس پر ہجرت نہيں ہے:

وہ شخص جو ہجرت كرنے سے عاجز ہو، يا تو بيمارى كى بنا پر، يا پھر دار الكفر ميں رہائش ركھنے پر مجبور كيا گيا ہو، يا كمزور ہو مثلا عورتوں اور بچوں كى طرح، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{مگر كمزور مرد اور عورتيں اور بچے جو حيلہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كوئى راہ پاتے ہيں}.

تيسرى قسم:

جس كے ليے ہجرت كرنى جائز ہے واجب نہيں:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہے اور دارالحرب ميں دينى شعائر كا اظہار بھى كرسكتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے تا كہ وہ جہاد كر سكے، اور مسملمانوں كى تعداد ميں كثرت كا باعث بنے. اھـ

اختصار كے ساتھ

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 206 )

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العليمۃ والافتاء ( 12 / 50 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى اصلاح فرمائے اور ان كے حالات درست فرمائے.

واللہ اعلم .

JazakAllah khair bhaya:)
isko thora sa explain kr dain

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى.
 
Last edited:

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!

اپنے ملك كى بجائے وہ يورپى ممالك ميں دين پر زيادہ عمل كر سكتا ہے، تو كيا اس پر ہجرت كرنا لازم ہے؟

ميں ايك مغربى ملك ميں سكونت پذير ہوں، اور الحمد للہ بغير كسى تنگى اور ركاوٹ كے دينى احكام پر عمل كر سكتا ہوں، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر كچھ احاديث كا مطالعہ كيا ہے جو كفار كے درميان بود و باش اختيار كرنے اور كفار ممالك ميں رہنے سے منع كرتى ہيں.
اب ميں بہت زيادہ حيران و پريشان ہوں كہ آيا ميں اپنے ملك واپس پلٹ جاؤں يا اسى ملك ميں باقى رہوں، يہ علم ميں رہے كہ اگر ميں اپنے ملك واپس جاؤں تو دينى احكام پر عمل كرنے كى بنا پر مجھے بہت سى تنگى اور ركاوٹوں اور اذيتوں كا سامنا كرنا ہوگا، اور ميں وہاں عبادت كرنے ميں اتنى آزادى حاصل نہيں كرسكوں گا جتنى يہاں مجھے حاصل ہے.
ميرى گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب عنائت فرمائيں اور اس ملك ميں رہنے كا حكم بيان كريں، خاص كر اب تو مسلمان ملك بھى كسى دوسرے ملك سے مختلف نہيں رہے، جہاں دينى شعائر كا التزام كيا جاتا ہو ؟

الحمد للہ:

اصل بات تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كے ليے مشركوں اور كافروں كے درميان رہنا جائز نہيں، اس حكم پر بہت سى قرآنى آيات اور احاديث بھى دلالت كرتى ہيں، اور صحيح نظر بھى اسى كى غماز ہے:

كتاب اللہ سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{جو لوگ اپنى جانوں پرظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كرتے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟

يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟

يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے} النساء ( 97 ).

سنت نبويہ سے دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.

اور صحيح نظر اور غور كرنے سے بھى يہ معلوم ہوتا ہے كہ:

مشركوں اور كافروں كے مابين رہنے والا مسلمان شخص بہت سے اسلامى شعائر اور ظاہرى عبادات پر عمل پيرا نہيں ہو سكتا، اس كے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ كو فتنہ و فساد كے سامنے بھى پيش كرنا پڑے گا، كيونكہ ان ممالك ميں جو فحاشى اور بے حيائى و بے پردگى ظاہر ہے اور ان ممالك كا قانون اس فحاشى اور بدكارى كا محافظ بھى ہے، تو مسلمان كو كوئى حق نہيں اور نہ ہى اس كے شايان شان ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے فتنوں اور آزمائشوں ميں ڈالے.

يہ تو اس وقت ہے جب ہم كتاب اللہ اور سنت نبويہ كے دلائل كى طرف نظر دوڑائيں اور اسلامىاور كفار ممالك كى جانب نظر نہ دوڑائيں، ليكن اگر ہم اسلامى ممالك كى طرف فى الواقع نظر دوڑائيں تو ہم سائل كےقول ( اور خاص كر اسلامى ممالك بھى اسلامى احكام كا التزام كرنے ميں دوسرے ممالك سے بہت زيادہ مختلف نہيں رہے ) كى موافقت نہيں كرتے، كيونكہ يہ عمومى طور پر كہنا صحيح نہيں، كيونكہ سارى اسلامى حكومتيں شريعت اسلاميہ كے احكام لاگو كرنے اور اس كا التزام كرنے ميں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں فرق ہے، بلكہ ايك ہى ملك كے اندر علاقوں اور شہروں كے اعتبار سے اختلاف پايا جاتا ہے.

اور پھر سارے كفار ممالك بھى فحاشى و عريانى اور بے حيائى اور اخلاقى طور پر ايك جيسے نہيں، بلكہ وہ بھى اس ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں.

لھذا اسلامى ممالك كا ايك دوسرے سے مختلف ہونا، اور كفريہ ممالك كا بھى ايك دوسرے سے مختلف ہونے كو ديكھتے ہوئے.

اور پھر اسے بھى مدنظر ركھتے ہوئے كہ ہر مسلمان شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا كہ كسى بھى اسلامى ملك ميں جا كر رہائش اختيار كرلے كيونكہ ويزوں اور اقامہ وغيرہ كے سخت قوانين پائے جاتے ہيں،

اور اسے بھى مد نظر ركھتے ہوئے كہ ہو سكتا ہے مسلمان شخص كچھ اسلامى ممالك ميں اسطرح دينى معاملات اور احكام پر عمل نہ كر سكتا ہو جس طرح وہ بعض يورپى اور كفريہ ممالك ميں بعض اسلامى شعائر يا سارے اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہے.

يہ سب كچھ ديكھتے ہوئے اب ايك عام حكم صادر كرنا اور ايسا حكم لگانا جو سب ممالك اور سب اشخاص كے ليے عام ہو ايسا حكم مشكل ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے:

ہر مسلمان شخص كى حالت خاص ہے، اور اس كے ليے حكم بھى خاص ہو گا، اور ہر آدمى اپنے آپ كا محاسبہ كرے، اگر تو اس كے ليے ان اسلامى ممالك ميں جہاں وہ رہ سكتا ہے دين پر عمل كرنا كفار ممالك سے زيادہ آسان اور ممكن ہے تو پھر اس كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا جائز نہيں ہے.

اور اگر معاملہ اس كے برعكس ہو يعنى وہ اسلامى ملك كى بجائے كفريہ ملك ميں زيادہ آسانى سے دين پر عمل كر سكتا ہے تو پھر ايك شرط كے ساتھ اسے كفريہ ملك ميں رہنا جائز ہو گا: كہ اسے اپنے آپ پر اتنا كنٹرول ہو كہ وہ وہاں پائى جانے والى بے حيائى اور فحاشى وبدكارى اور فتنوں سے شرعى وسائل كے ساتھ محفوظ رہ سكے.

اس كى تائيد ميں ہم اہل علم كے اقوال درج كرتے ہيں:

اس مسئلہ كى متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ ممالك كے مختلف ہونے كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ مسئلہ سب سے مشكل مسائل ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ كفار كے ممالك ميں بسنے والے بعض مسلمان اگر اپنے ممالك واپس جائيں تو انہيں تنگ كيا جائےگا اور انہيں سزائيں دى جائيں گى اور ان كے دين ميں انہيں آزمائش ميں ڈالا جائےگا، جبكہ وہ كفريہ ممالك ميں اس سے امن ميں ہيں.

پھر اگر ہم انہيں يہ كہيں كہ: كفار كے درميان تمہارا رہنا حرام ہے، تو پھر وہ كونسا اسلامى ملك ہے جو انہيں قبول كرے اور ان كا استقبال كرے، اور انہيں اپنے ملك ميں بسنے كى اجازت دے؟!

شيخ رحمہ اللہ تعالى كى كلام كا معنى يہى ہے.

زكريا انصارى شافعى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" اسنى المطالب" ميں كہتے ہيں:

اگر دين كا اظہار كرنے سے عاجز ہو تو استطاعت ركھنے والے پر دار كفر سے دار اسلام كى طرف ہجرت كرنى واجب ہے. اھـ

ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 207 ).

اور ابن عربى مالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

دار الحرب سےنكل كر دار الاسلام جانے كو ہجرت كہا جاتا ہے، اور يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں فرض تھى، ان كے بعد بھى ہر اس شخص كے ليے جارى ہے جو اپنے نفس كا خطرہ محسوس كرے. اھـ

ماخوذ از: نيل الاوطار ( 8 / 33 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

" ميں مشركوں كے درميان رہنے والے ہر مسلمان شخص سے برى ہوں"

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اسے اس پر محمول كيا جائےگا جو اپنے دين كے متعلق خوفزدہ ہو. اھـ

ديكھيں: فتح البارى شرح حديث نمبر ( 2825 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

دار الحرب ہر وہ جگہ اور ٹكڑا ہے جس ميں كفريہ احكام ظاہر ہوں.

دارالحرب كے متعلقہ احكام ميں ہجرت بھى شامل ہے:

فقھاء كرام نے دارالحرب سے ہجرت كے معاملہ ميں لوگوں كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے:

پہلى قسم:

جس پر ہجرت واجب ہے:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہو، اور دارالحرب ميں رہتے ہوئے اپنے دين كو ظاہر نہ كر سكتا ہو، اور اگر يہ عورت ہو اور اس كا كوئى محرم نہ ہو تو اگر وہ راستہ كو اپنے ليے پرامن سمجھے اور خطرہ نہ محسوس كرتى ہو، يا راستے ميں دارالحرب ميں رہنے سے كم خطرہ ہو...

دوسرى قسم:

جس پر ہجرت نہيں ہے:

وہ شخص جو ہجرت كرنے سے عاجز ہو، يا تو بيمارى كى بنا پر، يا پھر دار الكفر ميں رہائش ركھنے پر مجبور كيا گيا ہو، يا كمزور ہو مثلا عورتوں اور بچوں كى طرح، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{مگر كمزور مرد اور عورتيں اور بچے جو حيلہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كوئى راہ پاتے ہيں}.

تيسرى قسم:

جس كے ليے ہجرت كرنى جائز ہے واجب نہيں:

يہ وہ شخص ہے جو ہجرت كرنے پر قادر ہے اور دارالحرب ميں دينى شعائر كا اظہار بھى كرسكتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے تا كہ وہ جہاد كر سكے، اور مسملمانوں كى تعداد ميں كثرت كا باعث بنے. اھـ

اختصار كے ساتھ

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 206 )

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العليمۃ والافتاء ( 12 / 50 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى اصلاح فرمائے اور ان كے حالات درست فرمائے.

واللہ اعلم .

Jazakkhair bhaya:)
isko thora sa explain kr dain

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى.
 

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313
Jazakkhair bhaya:)
isko thora sa explain kr dain

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى.
Aasan alfaz me..

Jaan ke khatrey ke paish e nazar .. Hijrat karna.. aur Kahin b Panah lena jaez he..
 

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313
and u knoow what.. the person i spoke to is an Iraqi.. and mashAllah meri nazar me Bahut acha musalman he..

he said d same thing .. with same Hadees and Aaya's refrnce..

and also mentioned that .. "Since I cant go back now to My country bcoz if i dont accpt wht thy wills ay as thy r Shia and which i wont accpt, thy will kill me, or my family. but even when i m here.. if tomoro the authorities will refuze to renew my Visa.. what will i do.. so in That case if i try to go to some other country even Non muslim.. i m allowed. BUT if i m well here or even in my own country and only want to go for a luxury life .. that is prohibited which is proven by Quraan and Ahadees.."

i hope its well clear now.
 

Ajnabhi

TM Star
Jan 28, 2010
4,027
911
813
@saviou Can you explain definition of Islamic country ?

agar non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) consider karen to Islamic countries k taadad bahoot kam hai aur
Non muslims countries main rehne walon k taadad bahoot ziyada hai aur koi dusra country allow nahi karega ..
 
  • Like
Reactions: Hoorain

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313
@saviou Can you explain definition of Islamic country ?

agar non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) consider karen to Islamic countries k taadad bahoot kam hai aur
Non muslims countries main rehne walon k taadad bahoot ziyada hai aur koi dusra country allow nahi karega ..

this one aspect i still hv to get to ask sum1..

wd look fwd for any answer from any1 here too..
 
  • Like
Reactions: Ajnabhi

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
Jazakkhair bhaya:)
isko thora sa explain kr dain

اور مسلمان كے ليے ايك شركيہ ملك سے دوسرے شركيہ ملك كى طرف ہجرت كرنا بھى كم شر كا باعث ہو گى، جيسا كہ بعض مسلمانوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے مكہ مكرمہ سے حبشہ كى طرف ہجرت كى.
yane aap ek shirkiya mulk me hain ya phir kafeeron ke darmiyan to aap wahan se aise kafiron k mulk me hijrat kar sakte jahan shar kam ho aur jahan ap is mulk se behtar wahan deen par amal kar sakte hain ye jayez hai

jaise Makkah pehle shirk ka gadh ban gaya tha aur musalmano ko apna deen chupa kar rakhna parta tha tab Allah ke rasool alayhi salam ne Habsha hijrat ki ijazat di jo ke wo bhi kaafir mulk tha lekin wahan musalmano ko apne deen par amal karne ki azaadi thi

wallahu aalam
 
  • Like
Reactions: Hoorain

Ajnabhi

TM Star
Jan 28, 2010
4,027
911
813
this one aspect i still hv to get to ask sum1..

wd look fwd for any answer from any1 here too..
Yes please...

Bro it's not small issue for example:
China : Count of muslim population in millions who will accept them.
India : what do you think about India ?
why thousands of Ulema, mufti are staying even they knows these hadiths..
 
  • Like
Reactions: Hoorain

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
@saviou Can you explain definition of Islamic country ?

agar non-muslim countries(jahan govt. rules islamic nhi) consider karen to Islamic countries k taadad bahoot kam hai aur
Non muslims countries main rehne walon k taadad bahoot ziyada hai aur koi dusra country allow nahi karega ..
islamic country ka definition simple hai jahan islami qanoon nafiz hon wohi islamic country hai
aur hamare hisab se aaj ek bhi islamic country maujood nahi

haan muslim countries hain jahan kam zyada islamic qanoon nafiz hai lekin mukammal nahi

behre haal apka dusra sawal thora wazeh karen
 
  • Like
Reactions: Hoorain

Ajnabhi

TM Star
Jan 28, 2010
4,027
911
813
dosra sawal ye tha..
musalmanon k taadad bahoot ziyada hai jo non muslim countries main reh rahe hain aur muslim mumalik bahoot kam hain.
agar log muslim countries jana bhi chahiye to wo kar nahi sakte. kyun k koi country allow nai karega itni badi population ..

India bhi to non muslim country hai to phir itne saare ulema, mufti udhar kaise reh rahe hai unhone hijrat kyun nahi ki ?
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
dosra sawal ye tha..
musalmanon k taadad bahoot ziyada hai jo non muslim countries main reh rahe hain aur muslim mumalik bahoot kam hain.
agar log muslim countries jana bhi chahiye to wo kar nahi sakte. kyun k koi country allow nai karega itni badi population ..
50 se zyada muslim mumalik hain janab ye kam nahi hai

haan apki dusri baat sahi hai agar musalman agar apna mulk chorke dusre muslim mulk me jaana chahen to wo kar nahi sakte

isliye apne hi mulk me jahan aman payen wahan chale jayen agar ye bhi nahi kar sakte to bas sabr aur ye apne halaat se jihaad hoga

jitna ho sake utna to islam par amal karne ki koshish karni chahiye
 

H@!der

Super Star
Feb 22, 2012
8,413
3,070
1,313
Yes please...

Bro it's not small issue for example:
China : Count of muslim population in millions who will accept them.
India : what do you think about India ?
why thousands of Ulema, mufti are staying even they knows these hadiths..
well bro.. its not thaat thy r doing nothing even afte rknowing these Hadeeth..
Ijtehaad islam me jaaez he .. aur .. is terha ke Major issues ke liye Ijtehaad kiya jata he..

i dun wana say anything just for d sake of my words.. unless i consult sum1 far better den me 1st.. inshAllah will get back to it as soon as i get a reasonable answer...
 
Top