Coffe With Rr- Dr. Maqsood Hasni!

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
uncle g ..uncle to har badi umar waly bandy ko kehty hyn na :D
main to bas aapki izaat k lihaz se uncle kehti hu aapko :(
mujhy uncle kya baba kahain, log yah hi kehtay hain, syed hoon na.
par baita parh to lain, mein ne kaha kya hai. mein ne jo kaha hai jawab os ka dain.
Allah aap ko shad o shadabra khe
 

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
Assalaam-o-alaikum Dr. Sahab,

Main nay aap ki kayii tehreer paRhii hain, aap kay alfaaz humaray maashray kii khoob akaasi kartay hain, meray chand sawaal hain, main inn sawaal kay jawab say apni maloomat aur ilm main izaafa karna chahta hoon. Meray sawaal taweel hongain jiss kay liye pasihgii maazrat, kia karoon jab zehan kasmaskash ka shikaar hota hay tou sahii alfaaz dhoondna dushwaar ho jaata.

1. Humara maashra 'double standard' ka shikaar hay, humaray maa baap apny baitay ko kisi laRki kay ishq main mubtula honay ko 'Nadaani' keh kar taal daitay hain, aur jab kay humari behan agar kisi ko pasand karay aur apni pasandeedgi ka izhaar karay tou ussay 'khandaan ki izzat' per khatra kiyon kehtay hain?

2. Hum khudh tou Star plus or dosray channels per drama main aik laRki ko ishq main mubtula hota dekhtay hain, rape scenes, laRki ka aghwa hona, laRki ka chori chupay larkon say milna... waghaira dekhtay hain aur jab yehi amal humaray apnay ghar main hota hay tou hum kehtay hain kay 'bachay haath say nikal gaya'.... mera sawaal yeh hay kay jiss tarah ki taleem hum apnay bachoon ko dain gain humain waisa hi phal milay ga... tou humaray waaldain humain 'bad-tameez', 'bad-tehzeeb', waghaira kay alqaabaat say kiyon nawaztay hain, jab kay unhoon nay khudh humain sahii taleem say aarahasta nahin kia???

3. Hum izzat kay naam per apni beti ka qatal kardaitay hain 'Honor killing' ka naam day kar, magar yeh ganwaara nahin kartay kay apni beti ki uski pasand say shaadi karwa dain, kia yeh waqayi bohat muskil kaam hota hay?

4. Merii waalda kay intiqaal kay baad, mujh say apnay waalid ka tanha rehna nahin dekha gaya, tou main nay apnay liye ammi dhoondnay ka faisla kia, magar meray tamam baRay bhai behan iss baat per razamand na huway, yeh keh kar khandan main humari kia izzat reh jaayay gii... kia khandan ki izzat ki khaatir hum apnay walid ko akaila rehnay dain... abbu tou khudh bhi raazi nahin hain, magar meri zidd kay aagay na srif ghar waloon nay balkay abbu nay bhi ghutnay tayk diye... kia humain zaroorat nahin hay kay hum apni soch ko change karain aur kisi 'baiwa' yaa 'talaaq yaafta' ko sahara bhii dain aur apnay waali ko bhi aik 'saathi'?

5. Ishq aur Mohabbat main farq ko wazhay tour per bayan karain, main chahoon ga kay aap Quran-o-ahdith ki roshni main iss kay farq per roshni daalain... kiyonki agar Mohabbat ka wajoob ALLAH nay humaray diloon main daala hay tou itnay khoobsurat rishtay ka Quran aur Ahdith main bhi zikar hona aik laazmi fayl hay?

Baaqi saawaal main baad main poochoon ga, shukriya.
issay daikh lain shaed aap ke sawaloon ka jawab dastyaab ho ja'ay.
 

یہ کوئی نئی بات نہ تھی
 
حامد صاحب اور شکیل صاحب‘ گہرے دوست ہی نہیں‘ کلاس فیلو بھی تھے۔ دونوں نے پہلی جماعت سے بی اے تک‘ اکٹھی تعلیم حاصل کی۔ حامد صاحب نے‘ لاء کالج میں داخلہ لے لیا‘ جب کہ شکیل صاحب ایم اے نفسیات کرنے کے لیے‘ لاہور چلے گیے۔ حامد صاحب وکیل بن کر ضلع کچہری میں وکالت کا پھٹا لگا کر بیٹھ گیے۔ شکیل صاحب نے بھی‘ ایم اے نففسیات کر لیا۔ پھر وہ لیکچرر منتخب ہو کر‘ کسی کالج میں خدمت انجام دینے لگے۔ جمعرات کو آتے‘ اور جمعہ کی چھٹی گزار کر‘ واپس چلے جاتے۔ درمیان میں کوئی اور چھٹی آ جاتی‘ تو بھی گھر آ جاتے۔جب آتے‘ حامد صاحب سے ضرور ملاقات کرتے۔ شاید ہی‘ کوئی چھٹی‘ ملاقات کے بغیر‘ گزری ہو گی۔ وہ گھر میں بیٹھنے کی بجائے‘ راج ٹی ہاؤس میں‘ آ بیٹھتے۔ دو دو گھنٹے‘ وہاں بیٹھے رہتے۔اتنی دیر میں‘ تین چار کپ چائے‘ ڈکار جاتے۔ ان کی باتیں‘ عمومی دل چسپی سے‘ قطعی ہٹ کر ہوتیں۔۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ بہت کم لوگ‘ ان کی ٹیبل پر آ کر بیٹھتے تھے۔ بس دور سے‘ سلام کرکے‘ کسی دوسری ٹیبل پر‘ بیٹھ جاتے۔ ان کی بحث میں‘ گرمی کی شدت بڑھ جاتی۔ بعض اوقات‘ یوں لگتا‘ جیسے لڑ رہے ہوں۔ غور کرنے پر‘ معلوم ہوتا‘ وہ لڑ نہیں رہے‘ ان کا انداز بس لڑنے کا سا ہے۔ حامد صاحب یوں بات کر رہے ہوتے‘ جیسے کورٹ میں کھڑے‘ اپنے کسی سائل کی بھرپور انداز میں‘ وکالت کر رہے ہوں۔ شکیل صاحب بھی کچھ کم نہ بولتے تھے۔ ان کی گففت گو پر‘ کلاس میں دیے جانے والے لیکچر کا گمان گزرتا۔۔ ہر بات‘ حوالے کے ساتھ کرتے۔باتیں‘ اگرچہ عصری و شخصی مسائل کے متعلق ہوتیں‘ لیکن ان کا انداز گفت گو‘ عوامی نہ ہوتا۔ کچر مچر مارتے رہتے۔ غیر سنجیدہ باتوں کے لیے بھی‘ سنجیدہ طرز اظہار اختیار کرتے۔ دوران گفت گو‘ اگر کوئی لطیفہ بازی کرتے‘ تو وہ بھی جمہوریت کی طرح‘ ذو معنی اور طرح دار ہوتی۔ وہ خود ہنس پڑتے‘ لیکن وہاں بیٹھا کوئی شخص‘ رونی صورت بنانے کی زحمت تک نہ اٹھاتا۔اس دن‘ لالے دلاور کی بیٹی‘ جو اپنے آشنا کے ساتھ‘ رات گھر سے‘ زیور اور نقدی لے کر نکل گئی تھی‘ ان کی گفت گو کا موضوع تھی۔ پہلے مرکب ۔۔۔۔۔ نکل جانا ۔۔۔۔۔ زیر بحث رہا۔پروفیسر صاحب کا موقف تھا‘ لفظ نکل جانا‘ باپ کی انا کو‘ مزید گرزند پنچانے کے مترادف ہے۔ اس سے‘ باپ کا مورال‘ مزید ڈاون ہو گا۔ وکیل صاحب کا موقف یہ تھا‘ کہ دغا دے گئی‘ فریب دے گئی‘ کہہ لو یا نکل گئی کہہ لو‘ بات ایک ہی ہے۔بلاکسی نتیجے‘ بات آگے بڑھی۔ وکیل صاحب کے نزدیک‘ ان کے گھر جا کر‘ افسوس کرنا چاہیے۔ قانونی امداد کی پیش کش کرنی چاہیے۔پروفیسر صاحب کا کہنا تھا‘ سردست ان لوگوں کو‘ ان کے حال پر‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ شاک میں ہیں‘ اس موضوع پر بات کرنے سے‘ تضحیک کے ساتھ ساتھ‘ یہ امر ذہن کو مشتعل کرنے کے مترادف ہوگا۔اس بحث کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔حامد صاحب نے کہا‘ نکاح شخص کا‘ فطری اور شخصی حق ہے۔ گھر والوں نے‘ لڑکے کا انتخاب کر لیا یا شخص نے‘ خود اپنا جیون ساتھی چن لیا‘ بات ایک ہی ہے۔ اس میں انسرٹ والی‘ کیا بات ہے۔ اگر یہ غلط ہو‘ تو عدالت میں‘ روزانہ ہونے والے‘ سیکڑوں نکاح نہ ہوں۔ عدالت‘ انہیں اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ قانون اجازت دیتا ہے‘ تب ہی تو عدالت‘ اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔پروفیسر صاحب‘ عدالت کے جاری کردہ پروانوں کو‘ درست تسلیم کر رہے تھے۔ وہ یہ بھی مان رہے تھے‘ کہ عدالت ریاستی قانون کے تحت ہی‘ پروانے جاری کرتی ہے۔ انہیں‘ بچوں کے اس طریقہ کار سے اختلاف تھا۔ بہت سے‘ ایسے واقعے ہوتے ہیں‘ جس میں والدین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ بعض واقعات میں صرف والد بےخبر ہوتا ہے۔وکیل صاحب کا موقف تھا‘ کہ بچے یہ قدم اس وقت ہی اٹھاتے ہیں‘ جب انہیں یقین ہوتا ہے‘ کہ والدین راضی نہیں ہوں گے۔ دوسری صورت میں‘ مائیں اور بچے‘ ابا حضور کی ہٹ دھرمی سے‘ آگاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کہاں سے‘ کہاں تک پہچ گئی ہے‘ اور ہم ان لایعنی مسائل میں‘ الجھے ہوئے ہیں۔پروفیسر صاحب‘ ان کے اس موقف سے‘ متفق نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ اس ذیل میں‘ ہم دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہم دوسروں کے لیے‘ اس پہلو سے سوچتے ہیں‘ لیکن اپنے لیے‘ سوچ کا یہ انداز نہیں رکھتے۔ پروفیسر صاحب نے کہا‘ اگر تمہاری بیٹی‘ اس قسم کی بےوفائی کرئے‘ یا تمہاری ماں کسی سے عشق پیچہ ڈال لے‘ اور پھر خلع کا مقدمہ دائر کر دے‘ تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔وکیل صاحب اچھل پڑے‘ اور کہنے لگے‘ یہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ بات سوسائٹی کی ہو رہیہے‘ اور تم پرسنل ہو گیے ہو۔ میری ماں بیٹی شریف ہیں‘ وہ اس قسم کی‘ کیوں حرکت کریں گی۔پروفیسر صاحب نے‘ فلک بوس قہقہ داغا اور کہا سوچ کا دوہرا معیار‘ سامنےآ گیا نا۔ دوسرا تم خود ہی‘ اسے غیر شریفانہ حرکت‘ قرار دے رہے ہو۔ تمہاری بیٹی اور ماں کے لیے‘ یہ حرکت غیر شریفانہ ہے۔ سوسائٹی کی دوسری عورتوں کے لیے شریفانہ‘ اور ریاستی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔قہقہے کے ساتھ ہی‘ انہوں نے چائے کآ آرڈر جاری کر دیا۔ یہ ان کا‘ تیسرا کپ تھا۔ وکیل صاحب نے کیک لانے کے لیے بھی کہہ دیا۔وکیل صاحب‘ تھوڑے دھیمے پڑے‘ لیکن وہ اپنی بات پر‘ اڑے ہوئے تھے‘ وہ معاملے کو‘ ذاتیات سے بالاتر ہو کر‘ اور سوسائٹی کے تناظر میں‘ دیکھنے پر زور دے رہے تھے۔پروفیسر صاحب‘ فقط ایک قہقے کے بعد ہی‘ سنجیدہ ہو گیے۔ فرمانے لگے‘ یار ہم مشرقی لوگ ہیں‘ ہماری سوسائٹی پدری ہے۔ اسے مغربی سوسائٹی پر‘ محمول نہ کرو۔ شخص جہاں ریاستی قانون کا پابند ہے‘ وہاں سوسائٹی کےاصولوں کو بھی‘ کسی سطح پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ نظرانداز کرئے گا‘ تو سکھ چین سے‘ جی نہ سکے گا۔ ہماری سوسائٹی‘ ماں بہن اور بیٹی کی‘ اس نوعیت کی‘ بےوفائی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس سوساٹی میں‘ باپ ہوتا ہے‘ اور وہ ہی امور انجام دیتا ہے۔ وہ اندر باہر کا‘ جواب دہ ہوتا ہے۔ اچھا برا‘ اسی کے سر پر آتا ہے۔ وہاں‘ باپ ثانوی درجہ بھی نہیں رکھتا۔ آج امریکا کا طوطی نہیں‘ بھونپو بولتا ہے۔ جاؤ‘ جا کر‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ پھر تمہیں پتا چل جائے گا‘ کہ وہ برطانیہ سے فرار‘ لٹیروں کی نسل ہیں۔ وہ کیا سوسائٹی بنائیں گے‘ جن کی پیروی میں‘ تم یہ سب کہہ رہے ہو۔اس بات پر‘ حامد صاحب چمکے‘ اور بولے‘ یار کیا بکواس کر رہے ہو‘ میں چھے سال‘ مغرب میں رہا ہوں۔ تمہاری بھابی بھی‘ ادھر سے کی ہے۔دیکھو‘ وکیل ہو کر‘ پوائنٹ دے رہے ہو۔نہیں‘ بالکل نہیں۔گویا موصوفہ کو‘ ہمارے معاشرتی لباس اور اصول اپنانا پڑے ہیں نا۔ یہ معاشرتی ضابطے ہیں‘ جو اپنانا پڑتے ہیں۔ ان کو اپنائے بغیر‘ گاڑی نہیں چل سکتی۔یہ راونڈ‘ بلاشبہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ لگا تھا۔نکاح کیا ہےدو فریقین کی مرضی دریافت کرنا۔ دو فریق‘ بھاگ کر‘ یا کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ کیا یہ فریقین کی مرضی کی صورت نہیں ہے۔ دکھاؤ‘ کہاں گئی تمہاری پروفیسری۔ اسلام جب نکاح کو‘ مرضی قرار دیتا ہے‘ تو ہم یا ہماری سوسائٹی‘ اس کی راہ میں کیسےآ سکتی ہے۔ اسلام نے بولتی بند کر دی ناں۔حامد بھائی‘ اسلام ہر عہد کا مذہب ہے‘ اور یہ ہر عہد کے لیے‘ جدید ترین مذہب ہے۔ اسلام‘ شخص کو خرافات سے نجات دلاتا ہے۔ یہ ہی نہیں‘ یہ انسانی فطرت کا ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی خیر خواہی اور ظفر مندی کا خواہاں رہتا ہے۔بلاشبہ‘ نکاح‘ طرفین کی ایما دریافت کرنے کا نام ہے‘ اور اس ضمن میں‘ ہر قسم کے‘ جبر کی‘ اسلام مخالفت کرتا ہے۔اسلام‘ حجاب اور محرم نامحرم کے بارے میں بھی‘ کچھ کہتا ہے۔ حجاب کی تاکید کیوں کرتا ہے‘ تاکہ بےحیائی کا رستہ نہ کھل جائے۔ حجاب نہ ہونے کی صورت میں‘ مرد اور عورت مسکراہٹ سے‘ معاملے کا‘ آغاز کریں گے۔ پھر قریب قریب بیٹھیں گے۔ یہ بیٹھنا‘ عمومی چھونے کا سبب بنے گا۔ عموم خصوص کی طرف‘ مراجعت کرئے گا۔ نازک اعضا سے‘ مخصوص اعضا کو چھونے‘ اور تصرف میں لانے کا کام شروع ہو جائے گا۔ موصوفہ کا پیٹ پھولے گا۔ نوبت ابارشن تک پہنچے گی۔ پیٹ نہ بھی پھولے‘ ویرج کا تو ضیاع ہو گا۔ انسانی ویرج‘ کس پائے کی چیز ہے‘ کسی سائنس دان سے‘ جا کر پوچھو۔ وکیل صاحب‘ نکاح سے پہلے‘ یہ سب‘ کیا اسلام درست اور جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام نے‘ خرابی روکنے کے لیے ہی تو‘ حجاب کو‘ ازبس ضروری قرار دیا ہے۔حامد صاحب نے‘ گھڑی پر ایک نظر ڈالی‘ اور پھر ایک دم بولے‘ او مائی گاڈ‘ چھوٹے کو‘ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اٹھتے ہوئے‘ پروفیسر صاحب بولے‘ اب سمجھ میں‘ یہ بات آ گئی ہو گی‘ کہ مادری اور پدری سوسائٹی میں‘ کیا فرق ہوتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار رشتہ ہے۔ دکھ سکھ‘ اچھا برا اس کے دامن میں جاتا ہے۔ بیٹی کے دغا دینے پر‘ اسے شاک تو ہو گا۔وکیل صاحب نے‘ جواب میں‘ کیا کہا ہو گا‘ یہ تو معلوم نہ ہو سکا‘ کیوں کہ اس وقت تک‘ وہ ہوٹل سے‘ باہر نکل گیے تھے۔ ہاں اتنا ضرور ہے‘ کہ چار چاہیں ڈکارنے‘ اور ڈھائی گھنٹے گفت کرنے کے باوجود‘ وہ کسی حتمی نتیجے کا منہ‘ نہ دیکھ سکے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی‘ ہر بار‘ یہ ہی کچھ ہوتا تھا۔

 

 
 

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan
yeah theek hai maqsood sahib aj kal ap nahi parhatay kia.. bachon ko tution nahi parhtay aj kal kia masrofiat hai
tution waghera mein ne kabhi bhi nahain parhaee
mein taleem ki farokht ka qael nahain
ma mphil phd se motalalaq log aatay rehte hain apni haad aur ilm ke motabiq bata daita hoon
is silsala main, mein ne kabhi kisi se kuch nahain liya. haan apni haad tak towazo zaroor karta hoon
ilm farokht ki cheez nahain
 

HorrorReturns

Banned
Mar 27, 2013
6,009
1,093
163
tution waghera mein ne kabhi bhi nahain parhaee
mein taleem ki farokht ka qael nahain
ma mphil phd se motalalaq log aatay rehte hain apni haad aur ilm ke motabiq bata daita hoon
is silsala main, mein ne kabhi kisi se kuch nahain liya. haan apni haad tak towazo zaroor karta hoon
ilm farokht ki cheez nahain
waaaaaah maza a gaaya.. aj kal logon ne sahi karobaar banaya howa hai.. paison se mhbt kartay hain or student par tawajja nahi detaa............... ap ne bht piyari baat ki maqsood sahib khush rahain
 
  • Like
Reactions: dr maqsood hasni
Top