صحیح بخاری
کتاب: صحيح البخاري «الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه»
تالیف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري رحمہ اللہ
اردو ترجمہ : مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ
انگلش ترجمہ: محمد محسن خان حفظ اللہ
پروف ریڈنگ: ابوطلحہ عبدالوحید بابر حفظ اللہ
-------------------------------------------------------
(2)
كتاب الإيمان
کتاب ایمان کے بیان میں
THE BOOK OF BELIEF (FAITH).
باب الإيمان وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «بني الإسلام على خمس»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
CHAPTER. The statement of the Prophet , "Islam is based on five principles."
وَهُوَ قَوْلٌ وَفِعْلٌ وَيَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ سورة الفتح آية 4،
وَزِدْنَاهُمْ هُدًى سورة الكهف آية 13،
وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى سورة مريم آية 76،
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ سورة محمد آية 17،
وَقَوْلُهُ: وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا سورة المدثر آية 31،
وَقَوْلُهُ: أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا سورة التوبة آية 124،
وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا سورة آل عمران آية 173،
وَقَوْلُهُ تَعَالَى: وَمَا زَادَهُمْ إِلا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا سورة الأحزاب آية 22،
وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ: إِنَّ لِلْإِيمَانِ فَرَائِضَ وَشَرَائِعَ وَحُدُودًا وَسُنَنًا، فَمَنِ اسْتَكْمَلَهَا اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَكْمِلْهَا لَمْ يَسْتَكْمِلِ الْإِيمَانَ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَيِّنُهَا لَكُمْ حَتَّى تَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنْ أَمُتْ فَمَا أَنَا عَلَى صُحْبَتِكُمْ بِحَرِيصٍ.
اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔“
(سورۃ الفتح: 4)
اور فرمایا کہ ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا
(سورۃ الکہف: 13)
اور فرمایا کہ جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے
(سورۃ مریم: 76)
اور فرمایا کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی
(سورۃ محمد: 17)
اور فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا
(سورۃ المدثر: 31)
اور فرمایا کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا
(سورۃ التوبہ: 124)
اور فرمایا کہ منافقوں نے مومنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا «حسبنا الله و نعم الوكيل»
(سورۃ آل عمران: 173)
اور فرمایا کہ ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔
(سورۃ الاحزاب: 22)
اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے (رواہ ابوداؤد عن ابی امامہ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض اور عقائد ہیں۔ اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260، وَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْيَقِينُ الْإِيمَانُ كُلُّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ التَّقْوَى حَتَّى يَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ، أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَإِيَّاهُ دِينًا وَاحِدًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا سَبِيلًا وَسُنَّةً.
اور ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ ”لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔“ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے (اور صبر آدھا ایمان ہے۔ رواہ الطبرانی) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ «شرع لکم من الدين» الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ (اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ «شرعة ومنهاجا» کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔
کتاب: صحيح البخاري «الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه»
تالیف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري رحمہ اللہ
اردو ترجمہ : مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ
انگلش ترجمہ: محمد محسن خان حفظ اللہ
پروف ریڈنگ: ابوطلحہ عبدالوحید بابر حفظ اللہ
-------------------------------------------------------
(2)
كتاب الإيمان
کتاب ایمان کے بیان میں
THE BOOK OF BELIEF (FAITH).
باب الإيمان وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «بني الإسلام على خمس»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
CHAPTER. The statement of the Prophet , "Islam is based on five principles."
وَهُوَ قَوْلٌ وَفِعْلٌ وَيَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ سورة الفتح آية 4،
وَزِدْنَاهُمْ هُدًى سورة الكهف آية 13،
وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى سورة مريم آية 76،
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ سورة محمد آية 17،
وَقَوْلُهُ: وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا سورة المدثر آية 31،
وَقَوْلُهُ: أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا سورة التوبة آية 124،
وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا سورة آل عمران آية 173،
وَقَوْلُهُ تَعَالَى: وَمَا زَادَهُمْ إِلا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا سورة الأحزاب آية 22،
وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ: إِنَّ لِلْإِيمَانِ فَرَائِضَ وَشَرَائِعَ وَحُدُودًا وَسُنَنًا، فَمَنِ اسْتَكْمَلَهَا اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَكْمِلْهَا لَمْ يَسْتَكْمِلِ الْإِيمَانَ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَيِّنُهَا لَكُمْ حَتَّى تَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنْ أَمُتْ فَمَا أَنَا عَلَى صُحْبَتِكُمْ بِحَرِيصٍ.
اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔“
(سورۃ الفتح: 4)
اور فرمایا کہ ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا
(سورۃ الکہف: 13)
اور فرمایا کہ جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے
(سورۃ مریم: 76)
اور فرمایا کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی
(سورۃ محمد: 17)
اور فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا
(سورۃ المدثر: 31)
اور فرمایا کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا
(سورۃ التوبہ: 124)
اور فرمایا کہ منافقوں نے مومنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا «حسبنا الله و نعم الوكيل»
(سورۃ آل عمران: 173)
اور فرمایا کہ ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔
(سورۃ الاحزاب: 22)
اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے (رواہ ابوداؤد عن ابی امامہ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض اور عقائد ہیں۔ اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260، وَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْيَقِينُ الْإِيمَانُ كُلُّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ التَّقْوَى حَتَّى يَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ، أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَإِيَّاهُ دِينًا وَاحِدًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا سَبِيلًا وَسُنَّةً.
اور ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ ”لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔“ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے (اور صبر آدھا ایمان ہے۔ رواہ الطبرانی) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ «شرع لکم من الدين» الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ (اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ «شرعة ومنهاجا» کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔
Last edited: