ڈاکٹر خالد جاوید نے ایک نظم میں اس صورت حال کو یوں بیان کرتے ہیں :
یہ دھرتی ایسی ہے جس پر
ہر شی کا رنگ نرالا ہے
مغرب سے سورج چڑھتا ہے
ہر دریا الٹا بہتا ہے
ہر انکھوں والا اندھا ہے
ہر کانوں والا بہرا ہے
جو مخلص ہے جو سچا ہے
وہ زہر پیالہ پیتا ہے
جو خائن ہے جو جھوٹاہے
وہ دیکھو سب سے اونچا ہے
ہر نا اہلی معیار بنی
ہر جو ہر قابل روتا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے
حماقت کے درجات
احمق اس کو کہتے ہیں جو خود فائدہ حاصل کئے بغیر دوسروں کو نقصان پہنچائے ۔ یہ حماقت کا ابتدائی درجہ ہے اس درجہ پرپاکستان کے نام نہاد مذہبی فائز ہیں ۔ حماقت اور بے وقوفی کا متوسط درجہ یہ ہے کہ شخص اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچائے اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچا ئے۔ پاکستان کی بیوروکریسی کویہ اعزاز حاصل ہے۔ اور حماقت و سفاہت کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ اپنا نقصان کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچا یا جائے۔ پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس تیسرے درجہ کا افتخار نصیب ہے البتہ مذہبی طبقہ ہر تین درجات میں دوسروں کے ساتھ شریک ہے ۔
یہ دھرتی ایسی ہے جس پر
ہر شی کا رنگ نرالا ہے
مغرب سے سورج چڑھتا ہے
ہر دریا الٹا بہتا ہے
ہر انکھوں والا اندھا ہے
ہر کانوں والا بہرا ہے
جو مخلص ہے جو سچا ہے
وہ زہر پیالہ پیتا ہے
جو خائن ہے جو جھوٹاہے
وہ دیکھو سب سے اونچا ہے
ہر نا اہلی معیار بنی
ہر جو ہر قابل روتا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے
حماقت کے درجات
احمق اس کو کہتے ہیں جو خود فائدہ حاصل کئے بغیر دوسروں کو نقصان پہنچائے ۔ یہ حماقت کا ابتدائی درجہ ہے اس درجہ پرپاکستان کے نام نہاد مذہبی فائز ہیں ۔ حماقت اور بے وقوفی کا متوسط درجہ یہ ہے کہ شخص اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچائے اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچا ئے۔ پاکستان کی بیوروکریسی کویہ اعزاز حاصل ہے۔ اور حماقت و سفاہت کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ اپنا نقصان کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچا یا جائے۔ پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس تیسرے درجہ کا افتخار نصیب ہے البتہ مذہبی طبقہ ہر تین درجات میں دوسروں کے ساتھ شریک ہے ۔