بھائی اپ بدعت ، کو حلال حرام کے نظریے سے مکس کر رہے ہیں .
بریلوی مسلک کے نقطہ نظر کے مطابق بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک
بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی سے ثابت ہے۔"
من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی، رواہ جامع صحیح مسلم
ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لئے بھی لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس مکتبہ فکر کیمطابق دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو از خود ( قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِھِ ۔ یہ اچھی بدعت ہے، بخاری فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔
اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں نھیں تھے اور صحابہ اکرام علیہم الرضوان یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں رائج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں حجاج بن یوسف کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، فقہ، نحو، عید میلاد النبی، درود و سلام، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، تصوف و طریقت و معرفت، سوئم، چہلم، ختم، عرس اور گیارہویں شریف وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں بعد میں رائج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراو نہ رکھنے کے باعث یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔
اسی طرح جو افعال شریعت سے ٹکراو رکھتے ہیں وہ بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور شرعی لحاظ سے ممنوع ہیں۔[DOUBLEPOST=1344103450][/DOUBLEPOST]امید ہے اپ بدعت ، حلال اور حرام میں فرق سمج ا گیا ہو گا..
بدعت کے بارے میں سلفی (اہلحدیث) و دیوبندی مکاتب فکر کا موقف موافق اور یکساں ہے، دونوں مکاتب فکر بدعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اسے صرف جہنم میں لے جانے والا عمل گردانا جاتا ہے۔"
[چند مشہور اور رائج عام بدعتیں
قرآن شریف کو ایک کتابی شکل میں جمع کرکے مرتب کرنے کی بدعت حضرت عثمان غنی نے خلیفہ اول ابوبکر صدیق کے دور میں حضرت عمر کے مشورے سے شروع کی جو آج تک جاری ہے۔
نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی کی بدعت کا آغاز خلیفہ دوئم عمر فاروق نے کیا یہ بدعت بھی تمام عالم اسلام میں تاحال رائج ہے۔
تصوف و طریقت و معرفت پہلی صدی ہجری ہی میں باقاعدہ عملی شکل اختیار کرچکا تھا اور کئی ایک خانقاہیں معرض وجود میں آچکی تھیں۔
قرآن شریف پر اعراب اور نقطے لگانے کی بدعت حجاج بن یوسف کے دور میں وجود پزیر ہوئی، یہ بدعت بھی تمام اسلامی دنیا بشمول سعودی عرب میں مستعمل ہے۔
تدوین فقہ اور اصول فقہ کی بدعت کا باقاعدہ آغاز پہلی، دوسری صدی میں تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں ہوا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی مسائل پر بے مثال تحقیق کی گئی۔
کتب احادیث بشمول صحاح ستہ بخاری مسلم سمیت دیگر مجموعات کی تدوین جو کہ زیادہ تر تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں وقوع پزیر ہوئیں اور آج بھی شریعت کے بنیادی ماخذ کے طور پر مستعمل ہیں۔
ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت جو کہ باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
یہ معلومات وکی پہ درج ہے