آج گم سم ہے جو برباد جزیروں جیسی
اُس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی
کتنے مغرور پہاڑوں کےبدن چاک ہوئے
تیز کرنوں کی جو بارش ہوئی تیروں جیسی
جس کی یادوں سے خیالوں کے خزانے دہکے
اُس کی صورت بھی لگی آج فقیروں جیسی
چاہتیں لب پہ مچلتی ہوئی لڑکی کی طرح
حسرتیں آنکھ میں زندان کے اسیروں کی طرح
ہم انا پرست، تنگ دست بہت ہیں محسن
یہ الگ بات ہے کہ عادت ہے امیروں جیسی
__________________اُس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی
کتنے مغرور پہاڑوں کےبدن چاک ہوئے
تیز کرنوں کی جو بارش ہوئی تیروں جیسی
جس کی یادوں سے خیالوں کے خزانے دہکے
اُس کی صورت بھی لگی آج فقیروں جیسی
چاہتیں لب پہ مچلتی ہوئی لڑکی کی طرح
حسرتیں آنکھ میں زندان کے اسیروں کی طرح
ہم انا پرست، تنگ دست بہت ہیں محسن
یہ الگ بات ہے کہ عادت ہے امیروں جیسی