بارہ رمضان
1۔زبور کا نزول
مسند احمد میں حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ12 رمضان المبارک کو زبور نازل ہوئی۔
2۔ اخوت و برابری کی بنیاد
12 رمضان المبارک ۱یک ہجری کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔اس کی وجہ یہ تھی ہجرت کر کے آنے والے مسلمان بے سروسامان تھے۔ ان کو سہارا دینے کے لےے حضور ﷺ نے یہ اقدام کیا۔انصار نے بھی پوری آمادگی کے ساتھ مہاجرین کی مدد کی۔ آپ نے اس اخوت یعنی بھائی چارے کے اس رشتے کے ذریعے سے اسلام میں اخوت و برابری کی بنیاد رکھی۔ دنیا میں رہنے والوں کو ایک خاندان اور ایک کنبے کے افراد قرار دیا۔ اس طرح نسل پرستی، مادی اور قبائلی امتیاز، رنگ ونسل کی بنیاد پر جھوٹی فضیلتوں کو اسلام کے باطل قرار دے ڈالا۔
3۔ا بن جوزی کی وفات
12 رمضان المبارک597 ہجری کو مشہور مورخ اور محدث امام ابو الفرج بن الجوزی کی وفات ہوئی۔ آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج جمال الدین الکرشی البکری الحنبلی ہے۔ آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور ستر سے زیادہ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ تحصیل علم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی دوران میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ ان کی تصانیف کی تعداد ڈھائی سو سے اوپر ہے، جن میں’تاریخ الملک والامم‘ ، ’الیاقوتہ‘ اور ’المنطق المفہوم‘ مشہور ہیں
1۔زبور کا نزول
مسند احمد میں حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ12 رمضان المبارک کو زبور نازل ہوئی۔
2۔ اخوت و برابری کی بنیاد
12 رمضان المبارک ۱یک ہجری کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔اس کی وجہ یہ تھی ہجرت کر کے آنے والے مسلمان بے سروسامان تھے۔ ان کو سہارا دینے کے لےے حضور ﷺ نے یہ اقدام کیا۔انصار نے بھی پوری آمادگی کے ساتھ مہاجرین کی مدد کی۔ آپ نے اس اخوت یعنی بھائی چارے کے اس رشتے کے ذریعے سے اسلام میں اخوت و برابری کی بنیاد رکھی۔ دنیا میں رہنے والوں کو ایک خاندان اور ایک کنبے کے افراد قرار دیا۔ اس طرح نسل پرستی، مادی اور قبائلی امتیاز، رنگ ونسل کی بنیاد پر جھوٹی فضیلتوں کو اسلام کے باطل قرار دے ڈالا۔
3۔ا بن جوزی کی وفات
12 رمضان المبارک597 ہجری کو مشہور مورخ اور محدث امام ابو الفرج بن الجوزی کی وفات ہوئی۔ آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج جمال الدین الکرشی البکری الحنبلی ہے۔ آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور ستر سے زیادہ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ تحصیل علم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی دوران میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ ان کی تصانیف کی تعداد ڈھائی سو سے اوپر ہے، جن میں’تاریخ الملک والامم‘ ، ’الیاقوتہ‘ اور ’المنطق المفہوم‘ مشہور ہیں