Samina Raja

  • Work-from-home

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0
آسماں کوئی جو تا حد نظر '' ثمینہ راجہ

غزل

آسماں کوئی جو تا حد نظر کھولتا ہے
طائر جاں بھی یہ بھیگے ہوئے پر کھولتا ہے

نام آتا ہے مرا ہجر کی سرگوشی میں
تیری محفل میں کوئی لب بھی اگر کھولتا ہے

دور سے ایک ستارہ چلا آتا ہے قریب
اور اس خاک پہ اک راز سفر کھولتا ہے

لوٹنے والے ہیں دن بھر کے تھکے ہارے پرند
اپنے آغوش محبت کو شجر کھولتا ہے

موجہء باد صبا بھی جو کبھی چھو جائے
ایسا لگتا ہے مرا زخم جگر کھولتا ہے

غیر سب جمع ہوئے آتے ہیں پرسش کے لیے
کوئی اس حال میں کب دیدہء تر کھولتا ہے

کون کرتا ہے زمانوں کا سفر اس دل تک
دیکھئے کون اب اس قصر کا در کھولتا ہے

***
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top