خراب و خستہ سا دن
خراب و خستہ سا دن، خستہ و خراب سی شام
وہی فراق سامنظر، وہی عذاب سی شام
میرا نصیب تھی اے جاں، یہ خار خار سی رات
تری جدائی نے چن لی میری گلاب سی شام
ابھی تو پاؤں نہ رکھا تھا میں نے پانی میں
میرےگھڑے سے لپٹنے لگی چناب سی شام
اتر گیا ہے میرا دن تو شب کے دریا میں
سفر میں رکھے گی تا صبح اب سراب سی شام
یہ کشمکش ہی سبب ہے جمالِ ہستی کا
کبھی چمکتا سویرا، کبھی نقاب سی شام
ہوا نہ بڑھ کے بڑھا دے چراغ ہجر کی لو
نہ ڈھونڈ کوئے ندامت میں اب وہ خواب سی شام