علی نیازی
ہم مسافر یونہی ـــ مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر ـــ تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں ـ ـ ـ مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز ـــ اُتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں ـ ـ ـ بازارِ سُـــخن
ہم کسے بیچنے ـــ الماس و گُہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض ـ ـ ـ چکے گا کیسے ؟
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں ـــ مر جائیں گے
شاید اَپنا بھی کوئی ـ ـ ـ بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا ـــ میرے یار جدھر جائیں گے
فیضؔ ــــــ آتے ہیں رہِ عـــشق میں جو سخت مُقام
آنے والوں سے کہو ـــ ہم تو گزر جائیں گے