Fasila !

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
فیصلہ…عابد بیگ
عابد بیگ نے اپنی ساری زندگی کسی لڑکی یا عورت کاانتظار نہیں کیاتھا لیکن وہ چند دنوں سے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر شہلا احمد کاانتظار کرنے لگا تھا۔ وہ انتظار جو اسے بڑا عجیب سامحسوس ہوتا تھا جس کے عرصے کے پل پل میں مزا ہوتا تھا۔ تڑپنے کی ایسی لذت اور بڑھتا ہوا اضطراب جس سے وہ کبھی آشنا نہ تھا۔ آج اس انتظار نے اس کے دل کے تمام نہاں خانوں میں عجیب سا گداز بھردیاتھا۔وہ سب سے پہلے دفتر پہنچ کر جنرل منیجر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عاشق کی طرح اس کاانتظار کرتا‘ جب تک شہلا احمد دفتر پہنچ کر اپنی حاضری کی اطلاع نہیں دیتی وہ تنہائی کی آگ میں جلتا رہتا۔ جب شہلا احمد کا سراپا دروازہ کھلتے ہی ابھرتااور اس کے چہرے پرمخصوص شگفتہ مسکراہٹ بکھری ہوئی دیکھ لیتا تب کہیں اس کے سینے میں پکتا ہوا آتش فشاں کا لاوا سرد پڑجاتا۔ وہ اپنی موجودی اور حاضری کی اطلاع دے کر لوٹ جاتی پھر کوئی احساس اسے اپنی ذات کے جہنم میں دھکیل دیتا۔
شہلااحمد کوئی حسین وجمیل نوجوان یا ایسی بھرپورعورت نہیں تھی جس کی قربت کی تپش سے وہ جل جاتا۔ وہ ایسی گداز اور پرکشش بھی نہیں تھی کہ کسی مرد کو پاگل کردے۔ وہ ایسی تراش خراش کا بھڑکیلا لباس بھی نہیں پہنتی تھی کہ مردوں کی ندیدی نگاہیں اس کے سراپا پر چپک کررہ جائیں۔ دفتر میں لڑکیاں اور عورتیں میک اپ کرکے اور بھڑکیلے لباس پہن کر اس لیے آتی تھیں کہ مرد متوجہ ہو کر انہیں تعریفی نظروں سے دیکھیں مگر کوئی ایسی لڑکی یا عورت اسے متوجہ اور متاثر نہیں کرسکی تھی۔ اس نے کبھی کسی لڑکی یا عورت کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اسے نظر بھر کے دیکھا بھی نہیں تھا۔ اسے اپنے کام سے کام اور دفتر کے کاموں سے زیادہ دلچسپی اور فکر رہتی تھی۔ مگر وہ دفتر میں بڑی سادگی اور نفاست سے آتی تھی۔ میک اپ بالکل نہ کرتی تھی۔ ہلکے رنگوں کی ساڑی اور گہرے رنگ کے میچ کرتے ہوئے بلائوز میں ملبوس ہوتی۔ بالوں کاجوڑا کس کرباندھتی تھی۔ پینتیس برس کی اس عورت کا روپ بڑا دل کش تھا۔ نکلتے ہوئے قد نے اس کا سراپا پر شکوہ بنادیاتھا۔ وہ اس قدر باوقار اور بارعب تھی کہ کوئی اس کے ساتھ کسی قسم کی گستاخی کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے سنجیدہ چہرے پر شگفتہ سی مسکراہٹ بکھری رہتی تھی۔ وہ دفتر کے ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتی تھی۔ اپنی کسی غلطی کااس نے کبھی برا نہیں منایا۔ بحث یا تکرار نہیں کی تھی۔ ہنس کر اپنی غلطی تسلیم کرلیتی تھی۔ اگراس کی کوئی غلطی نہ بھی ہو تو اسے اپنی غلطی سمجھتے ہوئے قطعی عار محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اسی بات اور خوبیوں نے نہ صرف اسے دفتر میں ہر دلعزیز بلکہ عابد بیگ کی کمزوری بنادیاتھا۔ تیزی سے گزرتا ہوا وقت اسے شہلا احمد سے قریب کرتا جارہاتھا۔ حالانکہ وہ عمر کے اس حصے میں نہیں تھا کہ رومان میں اس کے لیے کوئی کشش یاجاذبیت ہو۔ وہ اب چالیس سال کا ہوگیا تھا۔ ایک بیوی اور چار بچوں کاباپ تھا۔ مگر اس نے شہلا احمد میں کوئی خاص وصف اور کشش محسوس کی تھی جبھی وہ اپنے گھر اور دنیا کی فکر کیے بنا کشاں کشاں اس کی طرف کھنچا جارہاتھا۔
اس نے گلشن اقبال سے دفتر جاتے ہوئے یونیورسٹی روڈ کے بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے شہلا احمد کو اکثر دیکھا تھا۔ دفتر سے چھٹی ہونے پر روز ہی ایک ہی وقت گھر جانے کے لیے نکلتے تھے۔ اس نے دفتر جاتے اور گھر واپس لوٹتے وقت کئی بار سوچا کہ کار روک کر اسے لفٹ کی پیش کش کرے لیکن و ہ ہر بار یہ سوچ کر رہ گیا کہ دفتر کے لوگ ایک جنرل منیجر کو ایک عام اسٹینو کو اتنی اہمیت دیتے ہوئے دیکھ کر کیا سوچیں گے کیاکہیں گے۔وہ نہیں چاہتاتھا کہ دفتر میں اس کے عشق کے چرچے ہوں۔ کوئی اسکینڈل کھڑا ہوجائے۔
ایک روز غضنفر علی جو اس کے گہرے دوست ‘پڑوسی اور کنسٹرکشن کمپنی کے ڈائریکٹر تھے ان کی کار اچانک خراب ہوگئی تو اس نے لفٹ کی پیش کش کی۔ جب اس کی کار اس بس اسٹاپ پر سے گزری جہاں شہلا احمد ویگن کے انتظار میں کھڑی ہوتی تھی وہ اس روز بھی بس اسٹاپ پر لڑکیوں اور عورتوں کے ہجوم میں گھری کھڑی تھی۔ ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی میں وہ بہت پیاری دکھائی دے رہی تھی۔ میک اپ سے مبرا حسن اور سادگی کی پرکاری اپنی بہار دکھا رہی تھی۔ شہلا احمد کسی اور سمت دیکھ رہی تھی۔ غضنفر علی نے شہلااحمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ’’کیا مس شہلا احمد آج کل تمہاری کمپنی میں ملازمت کررہی ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے اثباتی انداز میں سرہلایا۔ ’’وہ میری اسٹینو ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اسے ہی سیکریٹری پر ترقی دے کر رکھ لوں۔‘‘
’’اگر تم نے اسے ترقی دی تو ایک کارخیر انجام دوگے جس کا اجرتمہیںدین اوردنیا میں بھی ملے گا۔‘‘ غضنفر علی نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’یہ بڑی بدنصیب عورت ہے۔‘‘
’’بدنصیب عورت ہے؟‘‘ وہ حیرت سے اچھل پڑا۔ اس کے لیے یہ انکشاف بالکل نیا تھا۔ اس نے تعجب سے پوچھا۔’’کیا تم اس سے واقف ہو؟‘‘
’’بہت اچھی طرح اور اسے بہت قریب سے جانتا ہوں۔‘‘ غضنفر علی نے جواب دیا۔ ’’کاش میں اسے جانتا نہ ہوتا۔ معلوم نہیں کیوں اس عورت کی بدنصیبی پر مجھے بڑا ترس آتا ہے۔ اس کادکھ مجھے اپنا غم محسوس ہوتا ہے۔ اگر شہلا جیسی عورت میری زندگی میں آجاتی تو شاید میری زندگی میں چار چاند لگ جاتے۔‘‘
’’میںنے ان چند دنوں میں محسوس کیا ہے کہ وہ بے حد دکھی سی ہے‘مگر بڑی خوش اخلاق اور باوقار عورت ہے۔میں اس کی ذات کے پس منظر سے بالکل واقف نہیں ہوں۔‘‘
’’تم کیا ہر وہ شخص جو اسے قریب سے بھی جانتا ہو اس کے دل کے زخموں کااندازہ نہیں کرسکتا۔‘‘ غضنفر علی کہنے لگے۔ ’’بظاہر اس کے چہرے اور ہونٹوں پر مونالیزا جیسی مسکراہٹ بکھری رہتی ہے لیکن شہلا احمد کے سینے میں زخموں نے سوراخ کررکھے ہیں۔ اپنے آپ کو فریب دینے او راپنے دکھ کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے لیے دنیا کے سامنے مسکراتی رہتی ہے۔ وہ زمانے کو جتارہی ہے کہ ان حالات
میں بھی وہ بہت خوش ہے‘ حالات سے سمجھوتا کرکے مطمئن ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے ایک ذریعہ نے بتایا کہ وہ راتوں کو روتی رہتی ہے۔ اتنا روتی ہے کہ تکیہ آنسوئوں سے بھیگ جاتا ہے۔ وہ کیسی محبت تھی جس نے ایک عورت کی روح کو مسل اور کچل دیا؟‘‘
’’میری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ آخر اسے کیا دکھ پہنچا ہے۔‘‘ عابد بیگ بولا۔ ’’ایسی عورت آخر کس لیے اتنی دکھی ہے۔ کون ساغم اسے دیمک بن کر اندرہی اندر چاٹ رہا ہے۔‘‘
’’ایک مرد کی بے وفائی کا‘ اس کے اپنے شوہر نے دس برسوں کی رفاقت کے بعد اچانک طلاق کے تین الفاظ کہہ کر اسے اپنے وجود سے نکال پھینکا۔ وہ ششدررہ گئی تھی۔ آخر کس گناہ کی پاداش میں اسے اتنی نفرت انگیز‘ قبیح اور غلیظ گالی دی گئی ہے۔‘‘ غضنفر علی جذباتی ہوگئے۔ ’’شہلا کا شوہر نجم الہدیٰ اس کے بچپن کا ساتھی تھا۔ نوجوانی میں محبت بھی پروان چڑھتی گئی۔ نجم الہدیٰ ایک عام اور مفلس سا شخص تھا مگر شہلا نے اسے اپنا مجازی خدا بناکر آخری سانسوں تک زندگی کے سفر میں شریک رہنے کا مقدس عہد کیا تھا۔ اس نے دس برس تک نجم الہدی کے لیے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ اذیتیں سہیں‘ بھوکی رہی۔ فاقے کیے‘ ملازمت کرکے اپنے شوہر کو کسی دکھ کا سامنا کرنے نہیں دیا۔ پھریکایک حالات نے پلٹا کھایا۔ نجم الہدی کو ایک سنہرا موقع ملاتووہ دولت مند بن گیا۔ پھراس دولت نے محبت کی ہر زنجیر اور رشتوں ناتوں کو توڑ دیا۔خواب ٹوٹ کربکھرے تووہ کانچ کی کرچیاں بن کرشہلا کے دل میںچبھ گئیں۔ پھر بھی اس جان وفا نے اف نہیں کیا۔ اس نے ان حالات کورضائے الٰہی ہی سمجھ کر صابر وشاکر عورت کی طرح قبول کرلیا پھر بھی وہ اس فریب میں مبتلا رہی کہ نجم الہدی اب بھی صرف اس کا ہے لیکن جب نجم الہدی نے طلاق دے کر اسے تاریک راہوں پر دھکا دیا تووہ چیخ پڑی۔ وہ شاید خودکشی کرلیتی اگر اس کی بوڑھی ماں زندہ نہ ہوتی۔ پھربھی شہلا نے اس عورت کو کوئی دوش نہیں دیا جس نے اس کی محبت چھین لی تھی اپنی دولت کے بل بوتے پر‘ اس روز سے شہلا احمد نہیں بلکہ ایک لاش چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ وہ مسکراتی رہتی ہے کیا تم نے کبھی ایسی کوئی عورت دیکھی ہے جو اپنا سب کچھ ہار کر نجانے کس لیے اور کس امیدپر زندہ ہے۔ سچ پوچھو تو ایسی عظیم عورت میری زندگی میں کبھی میری نظروں سے نہیں گزری۔‘‘
غضنفرعلی کا دفتر آگیا تو شہلا احمد کاذکر موقوف ہوگیا۔ وہ اپنے دفتر کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کیا وہ اور شہلا ایک ہی کشتی کے سوار نہیں ہیں؟ کل کاایک فیصلہ جو اس نے عجلت اور جذباتی ہو کر کیا تھا وہ کوتاہی آج کا پچھتاوا بن گیا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنا شان دار اورسنہرا مستقبل بنانے کے لیے اپنے آپ کو دوسروں کے پاس رہن رکھ دیتے ہیں۔ اسے دولت مند اور ایک بڑا آدمی بننے کی بڑی خواہش تھی‘ دس گیارہ سال پہلے وہ شاہدہ کی چاہت میں نہیںبلکہ اس کی دولت کے لیے پاگل ہوگیا تھا۔ شاہدہ نے اسے پہلی بار ایک دعوت میں دیکھاتھا۔ وہ اس کے اسمارٹ ہونے وجاہت‘ خوش پوشی اور جوانی پر مرمٹی تھی۔ شاہدہ نے سوچا تھا کہ وہ یہ ڈیکوریشن پیس خرید کر اس سے اپنی زندگی سجائے گی تو کتنی لڑکیاں اور عورتیں اس پر رشک کریں گی۔ شاہدہ کو شوہر کی اور اسے ایک دولت مند بیوی کی ضرورت تھی ۔ پھر دونوں کی شادی ہوگئی۔ پھراسے معلوم ہوا کہ اس نے تو اپنے آپ کو اذیت کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ شاہدہ ایک اچھی بیوی او ر عورت ثابت نہیں ہوسکی۔ اس عورت نے اسے شوہر نہیں زرخرید نوکر کی طرح سمجھا۔ اسے دولت تو مل گئی مگر سکون اور پیار نہ مل سکا۔ ساری دولت دے کر بھی وہ یہ سب حاصل نہیں کرسکتاتھا۔
شہلا احمد جو دفتر میں اسٹینو کی حیثیت سے آئی تو اسے دیکھ کر یہ احساس ہواتھا کہ …یہ عورت اس کاخواب ہے۔ اس کی زندگی کاہم سفر ایک ایسی ہی عورت کو ہوناچاہیے تھا۔ اس کے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش ابھری کہ … کاش! وہ شہلا احمد کو اپنا سکتا۔آج بھی اسے شہلا جیسی عورت ہی کی ضرورت ہے۔ جبھی تووہ شہلا احمد کونظروں کے سامنے پاکر وہ اپنی تنک مزاج ‘ دولت کے زعم میں ڈوبی ہوئی چڑچڑی بیوی کو بھول جاتاتھا جس نے آج تک اسے پیار نہ دیا تھا۔ شہلا احمد سے کسی بھی موضوع پرباتیں کرتے ہوئے اس کی روح عجیب سے سرور میں ڈوب جاتی تھی اوراس کے دل کے نہاںخانوں میں وہ مسرت بھرجاتی تھی جس سے وہ محروم تھا۔ جیسے وہ عورت نہ ہو کوئی مسیحا ہو‘ جس کے پاس درد کی دوا ہے۔
ایک آوارہ ساخیال اس کے ذہن میں آیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے اپنا پیچھا چھڑا سکتا ہے ‘ اگر وہ شہلا احمد کو شادی کی پیش کش کرے گاتو شہلا احمد انکار نہ کرسکے گی۔ اس لیے کہ وہ ایک ٹھکرائی ہوئی عورت ہے۔ اس کا دل زخمی ہے‘ اس کی روح مسلی اور رندھی ہوئی ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناتے اسے مرد کے سہارے کی ضرورت ہے۔ دل کے زخموں کے لیے ایک مرد کی محبت ہی آب حیات بن سکتی ہے۔ شادی کابندھن ہی عورت کی روح میں نئی زندگی پھونک سکتا ہے۔
اس نے سوچتے سوچتے شہلا احمد کی طرف دیکھا۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی اوراس کا قلم تیزی سے رف پیڈ پر چل رہاتھا۔ وہ سپاٹ اور سرد لہجے میں ایک خط لکھوارہاتھا لیکن بار بار اس کی نگاہ شہلا احمد کے خاص انداز سے جھکے ہوئے سر پر جاکرٹھہرجاتی تھی۔ وہ اپنے دل میں آہیں بھرتے ہوئے سوچتا۔ کاش! میں اس سے دل کی بات کہہ سکتا؟
جب کسی مرد کو عورت کو پانے کی خواہش اور جستجو ہوتی ہے تووہ اپنے ترکش کے تمام تیروں کو ایک ایک کرکے اس وقت تک نشانے کی طرف چھوڑتا رہتا ہے جب تک کوئی تیر اپنے عین نشانے پر نہ لگ جائے۔ ایک مرد کے لیے سب سے مشکل ایک عورت سے اظہار محبت ہوتا ہے۔ عابد بیگ نے بھی ایک ایک کرکے اپنے ترکش کے تیر آزمانے شروع کیے اب اسے اپنی بیوی کی دولت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ وہ اس رتبے اورحیثیت کامالک تھا کہ کہیںبھی عزت سے جی سکتا تھا۔ اگر اسے ضرورت تھی تو محبت کی…وہ محبت جو صرف شہلا احمد ہی دے سکتی تھی۔ اس نے شہلا احمد کو اپنی سکریٹری بنالیا۔ اس کی تنخواہ اور مراعات میں بھی اضافہ کردیاتھا۔ وہ شہلا احمد پر عنایات کی بارش کرنے لگا۔ اس کی غلطیوں اور خامیوں کو ہنس کرنظر انداز کردیتاتھا۔ مختلف حیلے بہانوں سے وہ اس کے قریب ہونے لگا تھا۔ وہ یہ
بھول گیا تھا کہ عورت ہمیشہ ہرنی کی مانند ہوتی ہے‘ جو شکاری کی آہٹ یابوپاکر چوکنا ہوجاتی ہے جو مرد کی ہر فیاضی کو شک کے ترازو میں تولتی ہے۔ وہ مرد کی بدلی ہوئی نظر کوتاڑ لیتی ہے اور نگاہوں کی زبان کوسمجھنے کا فن آتا ہے۔ پھر وہ چوکنا ہوگئی تھی۔ وہ اس فرم میں ملازمت کرتے ہوئے بہت خوش تھی کہ یہاں کا ماحول دوسری فرموں کے مقابلے میں بہت اچھا تھا۔ دفتر کے لوگ اس سے گھر کے ایک فرد کی طرح پیش آتے تھے۔اسے صرف دنیا کے ایک مرد سے نفرت تھی ۔ وہ تھا نجم الہدی ۔ وہ دنیا کے دوسرے مردوں سے اس لیے نفرت نہیں کرتی تھی کہ اب تک اسے جن مردوں سے سابقہ پڑچکاتھا وہ اچھے اور پرخلوص تھے۔ گو اس نے کئی بار کیا روز ہی محسوس کیا تھا اور کررہی تھی کہ عابد بیگ اسے ایسی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے کہ سیدھی دل میں اتر جائے۔ مگر پھر بھی اب تک اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی جو اسے دفتر میں بدنام کردے یا کوئی اسکینڈل کھڑا کردے۔ وہ بہت اچھے اخلاق کامالک تھا۔ زندگی میں عابد بیگ دوسرا شخض تھا جس کے بارے میں اس نے سوچاتھا۔ اس نے دفتر کی لڑکیوں اور عورتوں کی زبانی سنا تھا کہ عابد بیگ کی گھریلو زندگی خوشگوار نہیں ہے۔ دولت مند بیوی نے زندگی کو وبال بنا کررکھ دیا ہے۔ جبھی اسے بیوی سے زہر بھری تلخی ملی تھی۔ اسی لیے تو وہ نگاہ التفات کے لیے چشم براہ رہتاتھا۔ وہ عابد بیگ کے دلی کرب اور جذبات کو اس کی آنکھوں میں پڑھ کر اپنی نظریں چرالیتی تھی۔
عابد بیگ نے محسوس کرلیاتھا کہ شہلا احمد کواس کے دلی جذبات اور نظروں کا احساس ہوچکا ہے جبھی وہ کئی دنوں سے قریب والی کرسی چھوڑ کر سامنے والی کرسیوں میں سے کسی ایک کرسی پر بیٹھتی ہے۔ حالانکہ دائیں اور بائیں طرف بھی کرسیاں ہوتی تھیں۔ پھروہ اپنا سر اس طرح جھکالیتی ہے کہ اس کا جوڑا اور بال ہی نظر آتے ہیں۔ مضمون اختتام کوپہنچتے ہی وہ غیرمحسوس انداز سے عجلت میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ کوشش کرتی ہے کہ اس کی نظریں عابد بیگ کی نگاہوں سے نہ ٹکرائیں۔ یہ سب کچھ اس کے سینے میں خلش بن کررہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتاتھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ تو اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کبھی اپنا دل شہلا احمد کے قدموں میں رکھ دے۔ وہ درد آشنا ہے۔ اس کے درد کااحساس اسے جتنا ہوسکتا ہے کسی اور عورت کو نہیں ہوسکتا ہے۔
ایک روز اس کے ذہن نے ایک ایسی تدیر سوچ لی کہ وہ اچھل پڑا۔ جب شہلا احمد اس کے سامنے والی کرسی پر رف پیڈ اور کاغذ سنبھال کر بیٹھی تو اس نے خلاف معمول اپنی پشت کرسی سے ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔ وہ خط کا مضمون لکھوانے لگا ۔ سوچ سوچ کر ایک ایک جملہ بولتا جارہاتھا پھراس نے یک لخت شہلا احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’سنو شہلا احمد… اگر میری کوئی بات ناگوار لگے تو ایک مجذوب کی بڑ سمجھ کر نظرانداز کردینا‘ بھلا دینا۱ آج میں آپ سے وہ بات کہنا چاہتا ہوں جو میرے لیے کش مکش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ میں راتوں کو سو نہیں سکتا۔ سوچتا رہتا ہوں‘ کرب مجھے کسی لمحے چین لینے نہیں دیتا ہے۔ میں اپنے آپ کو شکست نہ دے سکا تو آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتائیے شہلا احمد! میں کیا کروں؟ کہاں جائوں؟ آپ بھی ایک عورت ہیں‘ شاہدہ بھی ایک عورت ہے لیکن تم دونوں میں زمین آسمان جیسا فرق کس لیے ہے۔ وہ برسوں کی رفاقت میں ایک لمحہ بھی محبت اور پیار کا نہیں دے سکی‘ آپ کی قربت کاایک لمحہ جیسے صدیوں کی محبت پرمحیط ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے شہلا احمد؟ کس لیے ہے؟ میرے سینے میں جو آتش فشاں دہک رہا ہے لاوا جو اندرہی اندر پکتا جارہا ہے وہ جبھی سرد پڑسکتا ہے جب آپ کوپالوں‘ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں شاہدہ کو طلاق دے دوں گا۔ طلاق دینے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس کے پاس بے حساب دولت ہے۔ دولت ہو تو ایک اسی سال کی بوڑھی عورت کوبھی اٹھارہ سال کے جوان لڑکے کا سہارا مل جاتا ہے۔ میں آپ کے زخموں پر اپنی محبت کا مرہم رکھنا چاہتا ہوں۔ قدرت نے شاید اسی لیے ہم دونوں کو پیدا کیا ہے کہ ایک دوسرے کی ذات کا جزبن جائیں۔ بے رحم وقت انسان کو بار بار مہلت نہیں دیتا ہے۔ زندگی میں ایک بار ہی موقع ملتا ہے‘ اگر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا توہم اپنی اپنی روحانی منزل کوپالیں گے بشرطیکہ آپ اس بے وفا مرد کے زمرے میں کسی اور کوشامل نہ کرو اور انتقام کے جنون کو اپنی منزل نہ بنائو…کیا…کیاآپ…‘‘
عابد بیگ نے اپنا آخری جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ شہلا احمد ششدر تھی۔ وہ پتھر کی طرح منجمد ہوگئی تھی اور وہ کتنی ہی دیر تک مورت بنی رہی۔ جب وہ اپنی جگہ سے اٹھی تو نڈھال سی ہو رہی تھی۔ اس کی جھیل سی آنکھوں میں ابر جیسے برسنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا‘ وہ گھومی اور کمرے سے نکل گئی۔
شہلا احمد دفتر میں نہیں رکی وہ طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے گھر چلی آئی۔ اس نے کمرے میں بند ہو کر تنہائی میں عابد بیگ کی باتوں سے پیچھا چھڑانا چاہا جو اس کے وجود سے چمٹ گئی تھیں۔ اس شخص کی آواز میں کیسی التجاتھی ۔ کیسا سحر تھا جو چاہتے ہوئے بھی اس سے نکل نہ سکی تھی۔ وہ آج اس آسیب سے نکل آئی تھی جو نجم الہدی سے جدا ہوتے وقت اس کامقدر بن گیاتھا۔ نفرت جو دل میں تھی اس کی جگہ عابد بیگ نے لے لی تھی۔ وہ خواب جو و ہ کبھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی جو زندگی میں بار بار تعبیر بن کر نہیں آتے ہیں‘ پھروہ سپنا اس کی نظروں کے سامنے لہرانے لگا تھا۔ اس نے لمحے کے لیے سوچا کہ اب اسے گھر بسالینا چاہیے‘ اس لیے کہ اب اس کی عمر پینتیس برس ہو رہی ہے۔ پانچ سال کے بعد سر کے سیاہ بالوں میں چاندی کے تار جھلملانے لگیں گے۔ نجم الہدی سے انتقام لینے کی یہی ایک راہ رہ جاتی ہے۔ وہ اسے جتاتو سکتی ہے دیکھو دنیا میں ایسے مردوں کی کمی نہیں ہے جو عورت کے دل میں چھپے جذبوں کو اس کی آنکھوں میں پڑھ کراپنا شریک سفربنالیتے ہیں۔عابد بیگ مجھے اپنا رہا ہے۔ اس کے پاس اتنی دولت تونہیں ہے جو تمہاے پاس ہے مگر اس کے پاس وہ دل ضرور ہے جو تمہارے سینے میں نہیں ہے۔ ایک عورت کو دولت کی نہیں محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مگر شہلا احمد۔ ’’اس کے دل کے کسی گوشے میں نادیدہ آواز نے اس سے سرگوشی کی۔‘‘ تم ایک عورت ہو کر ایک عورت کا گھر اجاڑ رہی ہو۔ آخر اس عورت کا کیا قصور ہے؟ اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟‘‘ اس نے جزبز ہو کر پوچھا۔ آخر میرا قصورکیاتھا۔ میں بھی تو معصوم تھی‘ میں نے دکھوں میں نجم الہدی کا پورا پورا ساتھ دیا۔ جب اچھے دن آئے اس نے مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ کیا کمینگی
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اور خودغرضی کی اتنی بڑی مثال تم پیش کرسکتے ہو؟ سبھی اپنی خوشیوں کے لیے دوسروں کی خوشیوں کو قربان کردیتے ہیں۔ یہ دیوانگی اور بربریت ہر انسان کی فطرت کا ایک حصہ ہے۔
شہلا احمد دوسرے دن دفتر پہنچی تو اس نے دھڑکتے دل سے عابد بیگ کے کمرے میں قدم رکھا۔ وہ عابد بیگ کو دیکھتے ہی ٹھٹک کررک گئی۔ اس کی نظروں کویقین نہیں آیا کہ کرسی پرجو شخص بیٹھا ہوا ہے وہ عابد بیگ ہی ہے۔ شہلا احمد نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کا سراپا دیکھا۔ لباس پرشکنوں کاجال پھیلا ہوا تھا جیسے اسے لباس تبدیل کرنا یاد نہ رہا ہو۔ یا کسی بات کا ہوش ہی نہیں تھا۔ بال الجھے اور پیشانی پربکھرے ہوئے تھے۔چہرہ سخت اور ہونٹ خشک تھے۔ عابد بیگ کے ہونٹ بدبدائے۔ وہ اتنی دور تھی کہ ایک لفظ بھی سن نہ سکی۔ شہلا احمد اس کی یہ حالت دیکھ کر سہم سی گئی اور سینے میں اس کا دل کانپنے لگا۔ وہ اپنا ہر نقش وجود سمیٹتی ہوئی اس کی میز کے پاس پہنچی تو عابد بیگ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔’’آئومس شہلا احمد! میں ساری رات سو نہیںسکا۔ میں بس سوچتارہا کہ آپ میرے بارے میں نجانے کیا فیصلہ کریں گی؟‘‘
’’فیصلہ ؟‘‘ وہ اچھل پڑی۔ ’’فیصلے اتنی جلدی نہیں ہوتے ۔ میں کوئی جوان لڑکی نہیں ہوں جو فوراً ہی جذباتی فیصلہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچ جائوں۔‘‘
’’آخر اس فیصلے میں دیر کس لیے ہے۔ ہمارے درمیان کوئی دیوار تو کھڑی نہیں ہے۔ ہم کوئی بچے نہیں ہیں۔‘‘
’’آخر آپ مجھ سے ہی کس لیے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا اتنی بڑی ہے کہ یہاں حسین اور مجھ سے کم عمر لڑکیوں اور عورتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں آپ کو کیا دے سکتی ہوں؟‘‘
’’محبت!‘‘ اس کے لبوں پر مردہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’میں ساری زندگی جیسے آپ ہی کے خواب دیکھتا چلا آرہاہوں۔‘‘
’’اگر میں آپ سے شادی کرنے سے انکار کردوں تو پھر آپ کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے نا؟‘‘
’’آپ نے انکار کردیاتو میں جیتے جی مرجائوں گا لیکن میں آپ کے سوا کسی اور عورت سے شادی نہیں کروں گا۔آپ سے ہر قیمت پر شادی کرکے رہوں گا۔‘‘ اس نے توقف کرکے گہرا سانس لیا۔ ’’آپ کی بجائے کسی اورعورت سے شادی کرنے سے کیا حاصل ہوگا اس سے تو بہتر ہے کہ میں آخری سانس تک اپنی بیوی سے نبھاہ کروں۔‘‘
’’وہ کس لیے ؟‘‘ شہلا احمد نے حیرت سے پوچھا۔’’ کیا اور عورت اس خلا کو پرنہیں کرسکتی ہے؟‘‘
’’نہیں‘ میں کسی اور عورت سے شادی کرکے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ کیا معلوم وہ کس مزاج اور طبیعت کی ہو۔ میرے تصور سے برعکس ہوئی تووہ میرے لیے عذاب بن جائے گی۔‘‘
’’پھرآپ مجھے سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ کی چھٹی دیں۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولی۔’شادی کا فیصلہ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔‘‘
’’ایک ہفتے کی چھٹی!‘‘ اس نے شدیدحیرانی سے کہا اور ہنسنے کی کوشش کی۔ ’’آپ شادی کا فیصلہ کرنے جارہی ہیں یا کشمیر کا؟‘‘
…٭٭٭…​
ایک ہفتہ کاانتظار اس پر قیامت بن کر گزر گیا آج وہ بڑے کرب وبے چینی سے شہلا احمد کاانتظار کررہاتھا۔جب شہلا احمد اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس پر حیرتوں کاپہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آج شہلا احمد کا روپ بالکل ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ کسی دلہن کی طرح سج دھج کر آئی تھی۔ اس کے بدن پر گہرے نیلے رنگ کی بنارسی ساڑی تھی۔ وہ بڑی حسین لگ رہی تھی۔ اس نے گلے میں نیکلس اور کانوں میں آویزے بھی پہن رکھے تھے۔ وہ بائیں ہاتھ کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ ’’میں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ میں نے شادی کرلی ہے۔ کل!‘‘
’’آپ نے شادی کرلی؟‘‘اس کے سینے میں جیسے زہر میںبجھی ہوئی چھری اتر گئی۔’’لیکن آپ کو شادی تومجھ سے …‘‘
’’میں نے قسم کھالی تھی کہ میں آخری سانس تک شادی نہیں کروں گی۔نجم الہدی نے مجھے طلاق دے دی تو پھر میرے دل میں دوبارہ گھر بسانے کی کوئی امنگ اور خواہش نہیں رہی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ ساری زندگی تنہا کاٹ لوں گی مگر آپ کی دل نواز شخصیت نے میری شخصیت کو توڑپھوڑ کرخول سے نکال دیا۔ میںنے دیکھا کہ میں ایک عورت ہو کر ایک عورت کا گھر اجاڑنے جارہی ہوں جو زخم کسی عورت نے مجھے دیا ہے وہی زخم میں کسی اور عورت کو دینے جارہی ہوں۔ پھرمیں نے سوچا کہ آپ نے دس برس ایک عورت کے ساتھ کاٹ لیے ہیں تو دس پندرہ سال اور کاٹ لیں گے۔ آخر ہماری زندگی کے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ میں نے ایک عورت ہونے کے ناتے‘ ایک عورت اوراس کے بچوں کوشوہر اور باپ سے محروم کرنے کے بجائے ایک اور زخم دل پر لگالیا ہے۔ مجھے ایسے شخص سے شادی کرنا پڑی جسے میں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ نفرت کی اور آج بھی اس سے نفرت ہے۔ میں نے اس لیے شادی کرلی کہ آپ میری وجہ سے ایک گھر برباد نہ کردیں۔ ایک گھر جیسا بھی ہو وہ ایک گھر ہی ہوتا ہے۔‘‘



 
Top