ایک تارہ نوُر کی اِک لہر بن کر بہ گیا
جانے دل رُکنے کی دُھن میں کیوں دھڑکتا رہ گیا
٭
تاریکیوں میں دب کے لرزتا ہے بار بار
پچھم کے پربتوں پہ شفق کا مہین تار
٭
دھنکی روُئی کے بھٹکتے ہوُئے گالوں کی طرح
برف گرتی ہے جوانی کے خیالوں کی طرح
٭
قیامت بھیج دے کُچھ روز پہلے
اگر کٹتا نہیں دَورِ گلامی
٭
نوجواں چہروں میں مستقبل کی کرتا ہوُں تلاش
مقبروں میں ڈھونڈتا ہوں گُزرے وقتوں کے قدم
جانے دل رُکنے کی دُھن میں کیوں دھڑکتا رہ گیا
٭
تاریکیوں میں دب کے لرزتا ہے بار بار
پچھم کے پربتوں پہ شفق کا مہین تار
٭
دھنکی روُئی کے بھٹکتے ہوُئے گالوں کی طرح
برف گرتی ہے جوانی کے خیالوں کی طرح
٭
قیامت بھیج دے کُچھ روز پہلے
اگر کٹتا نہیں دَورِ گلامی
٭
نوجواں چہروں میں مستقبل کی کرتا ہوُں تلاش
مقبروں میں ڈھونڈتا ہوں گُزرے وقتوں کے قدم