کسی ابتدا اور انتہا کے درمیاں ہے زندگی
جہاں اِس طرف نا اُس طرف — دُور تلک کہیں کچھ نہیں
جیسے دُور کہیں کسی ریگزار کے بیچ و بیچ کوئی اجنبی
ریت میں کھو کے راستوں کو ہچکیوں سے رو پڑے
جسے ریگزار کی گرم ریت اور آسماں کو چھوڑ کر
جہاں کی تمام وُستعوں میں اور کچھ نہ مِل سکے
گرمیوں کی شدتوں سے جُھلسی ہوئی وہ سرزمیں
جہاں خواہشوں کے بیج سے فقط سراب ہی کِھل سکے
اُس اجنبی کی پیاس کیا، آس کیا اور یاس کیا
!!!بَجُز اجل کا انتظار، اور بچا ہے اُس کے پاس کیا
اِسی ابتدا اور انتہا کے درمیاں تو میں بھی ہوں
اِسی ابتدا اور اِنتہا کے درمیاں تو تُو بھی ہے
جیسے دوُر کہیں جنگلوں میں ریل کی دو پٹریاں
جو قُربتوں کے انگِنت رات و دن کے باوجود
اِک ہاتھ بھر کے فاصلے سے راہگزر میں بٹ گئیں
آہ کہ مِل بیٹھنے کی وہ شبنمی سے حسرتیں
جو زاویوں کی گنجلوں کے ہیر پھیر میں پھنس گئیں
اِن انتہاؤں کی شِدتوں کی ستم ظریفی دیکھیئے
جو ریشمی سے خواب تھے وہ راستے میں کھو دیئے
.!!!جو سِسکیوں کے عذاب تھے وہ زندگی کو دے دیئے
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.