قافلے ریت ہوٸے دشتِ جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری رہا
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری رہا
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہکوٸی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا
سبھی مایوس روحوں میں پرو کر آس کے موتیستارےتوڑ کر سب آسماں اندھیر کر ڈالوں
کہ میرے جی میں آتا ہے زمانہ ڈھیر کر ڈالوں
To e continued......