رات خالی ہی ہے گی میرے چاروں جانب
اور یہ کمرہ تیرے خواب سے بھر جاۓ گا
اور یہ کمرہ تیرے خواب سے بھر جاۓ گا
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا———————————–
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے
محسن نقوی
—————————————–
Khoobsuratمیں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
Zabardastمیں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
واہ
تم سے رشتہ نماز جیسا ہے
تم مُصیبت میں یاد آتے ہو
Kavi