میرال۔۔۔۔زندگی کتنی غیر متوقع ہوگئی ہے نا۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کیا ہو جائے گا۔۔۔۔تمہیں پتا ہے جو وصی کے ایک سکول ٹیچر تھے۔کل ان کی فیملی کہیں جا رہی تھی ان کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ۔ان کی ماما، ان کی سسٹر، سسٹر کے شوہر، اور ان کی سسٹر کے دو معصوم چھوٹے چھوٹۓ بچے شہید ہوگئے ۔اور جس گاڑی کے ساتھ ان کی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ان کا جانی نقصان بھی ہوا ہوگا۔۔۔کیونکہ گاڑیوں کی حالت تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہے۔spirit
اتنی ہمت نہیں ہورہی کہ دوسری تصاویر بھی اپ لوڈ کریں۔ ہر طرف خون اور ڈیڈ باڈیزیہ واقعہ ذہن سے نکل نہیں رہا۔ایک گھر میں سے پانچ جنازے سوچ کے ہی سانس بند ہو ہوجاتی ہے۔ اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھو، جو ان کی بہن کے شوہر تھے، وہ وصی کے سر کی بیوی کے بھائی بھی تھے۔ ہائے کتنے لوگ کتنوں سے جدا ہو گئے۔ جب کوئی ایسے فوت ہوتا ہے تو وہ ایک شخص نہیں ہوتا، بلکہ کئی رشتے مر جاتے ہیں صحیح کہا گیا ہے کہ ہر ایک کی اپنی اپنی قیامت ہے۔ ہمیں وہ چھوٹا سا معصوم پھول نہیں بھول رہا۔ دو تین سال کے دو ننھے بچے آنکھوں کے سامنے سے نہیں جا رہےہر طرف خون۔۔۔۔ دماغ سُن ہو گیا ہے۔ والد، والدہ ، دو معصوم بیٹے، یہ تو پوری فیملی شہید ہو گئی۔ کتنا بڑا دکھ ہے۔۔۔۔ ان کے گھر تو کہرام مچا ہو گا۔کس قدر اذیت ناک ہے نا یوں کسی سے جدا ہونا، وہ بھی اچانک۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا پڑاؤ کہاں ہو گا ان لوگوں کو کیا خبر تھی کہ وہ کس منزل کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔۔۔ خدائے بزرگ و برتر ان کا غم مختصر فرمائے۔ دکھ کے لمحے مختصر ہوجائیں۔۔ ہائے کیسے مختصر ہو سکتے ہیں صبر ہونے سے صبر آنے تک کا سفر بہت اذیت ناک ہوتا ہے ۔۔۔۔بہت اذیت ناکصبر کرنے اور صبر آنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ صبر نہیں آتا۔۔۔ صبر کرنا پڑتا ہےزخم مندمل نہیں ہوتے۔۔نہ ہی وقت مرہم ہےہمیں ایسے لگ رہا ہے جیسے آنسو حلق میں اٹک کے ہماری سانس بند کر دیں گے۔۔۔جن پہ گزری ہے ان کی حالت سوچ کے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے۔اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا دکھ اللہ جانے یا وہ جنہوں نے سہا ہے۔ ۔ پھول کِھلنے سے مرجھانے تک کا عرصہ بہت مختصر ہو گیا ہے۔۔۔موت کتنی سستی ہوگئی ہے نا۔۔۔ ۔ جب موت آتی ہے تو جاتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کو خالی ہاتھ چھوڑ جاتی ہے۔ پیچھے کچھ نہیں بچتا سوائے
آنسوؤں اور گہرے صدمے کے۔۔
نہیں جانتے ہم کہ ہمارا دماغ کیا کیا سوچ رہا ہے۔۔۔زندگی کا بھروسہ نہیں رہا۔۔۔ایک پل میں کیا سے کیا ہوجائے۔۔کچھ خبر نہیں۔۔۔ طبیعت ساتھ نہیں دیتی۔ اگلے ۔ایک لمحے کا بھی پتہ نہیں۔اس وقت کچھ نہ لکھا تو ایسے لگ رہا ہے جیسے دماغ اور دل ساتھ دینا چھوڑ دیں گے۔۔ ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ضبط سے دل کی رگیں پھٹ جائیں گی۔۔۔اتنا بڑا صدمہ کیسے ان کی زندگی پہلی نہج پہ آئے گی۔۔۔ مشکل ترین۔۔۔خدا کسی کو ایسی آزمائش سے دوچار نہ کرے ۔مشیتِ خداوندی کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے۔ اس ذات باری تعالی نے اپنی امانتیں واپس لے لیں۔ ۔ کون ہے جو واپسی کا تقاضا کرے؟؟؟؟امانتیں تو اس ذاتِ فانی کی ہیں۔۔۔زوال سب کو ہے ۔
ہائے۔۔۔ جانے والے کتنی دور چلے جاتے ہیں۔ہمیشہ کے لئے۔۔کبھی نہ واپس آنے کو۔ خدا سب کی محبتیں سلامت رکھے
دکھ مختصر فرمائے۔۔۔دکھ مختصر ہو جائے۔۔۔۔
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
Last edited: