A new daily jang column by zubair ahmed zaheer

  • Work-from-home

imkanaat

Newbie
May 15, 2008
41
37
0

کیا امریکی فضائی حملے رک پائیں گے؟ ساری سفارتی کوششوں اور سرکاری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اور صدر بش حالیہ ملاقات تک مزید فضائی حملے نہ ہونے کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی، لہٰذا عام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہے۔ بظاہر یہ فضائی حملے عسکریت کے خلاف انتہائی قدم ہیں، مگر ان سے عام لوگ، خواتین اور بچے زیادہ جاں بحق ہو رہے ہیں۔ اس ناقص امریکی انٹیلی جنس پر عام شہریوں کی مسلسل اموات سے بڑی کوئی دلیل نہیں۔ امریکہ نے قبائلی علاقوں میں مقامی مخبروں کا تعاون حاصل کر لیا ہے اور ہماری انٹیلی جنس پر اپنا انحصار کم کر دیا ہے، اس بات کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ متعدد بار پاکستانی انٹیلی جنس نے امریکہ کو معلومات فراہم کیں، مگر اس نے کارروائی نہ کی اور اتنی تاخیر کردی کہ عسکریت پسندوں کو نکلنے کا موقع مل گیا۔ پاکستان کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ امریکہ نے پاکستانی اداروں پر اپنا انحصار ختم کردیا ہے اور اس نے اپنا جاسوسی نظام خودکفیل بنا لیا ہے، امریکہ کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے؟ یہ جاننے کے لئے ماہر سراغ رساں ہونا ضروری نہیں۔ کرائے کے ایسے مقامی بھیدی بالعموم غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، یہ کم علمی کی وجہ سے جانچ پڑتال کی زحمت نہیں اٹھاتے اور معلومات جوں کی توں آگے بڑھا دیتے ہیں، امریکی ان کی تصدیق کئے بغیر بٹن دبا دیتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں صدیوں پرانی رنجشیں چلی آ رہی ہیں، اس لئے مقامی مخبروں کو ذاتی مخالفت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بیشتر فضائی حملوں میں مختلف لوگوں کی بجائے عام طور پر ایک ہی خاندان اور ایک ہی گھر کے افراد نشانہ بنے ہیں جس سے انتقام کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رنجش اور اس کے ذریعہ دشمنی نکالنے کا معاملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں۔
اس وقت ملک میں طالبان اور القاعدہ کے نام پر گرفتار کرانے کی دھمکیاں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لئے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی ہر گلے محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کرانے کی دھمکی دے کر پیسے بٹور لیتے ہیں۔ اس عذاب میں پھنسنے کے لئے مذہبی ہونا ضروری نہیں اس لئے یہ رسک کوئی نہیں لے سکتا۔ یہ وبا پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے۔ جب پرامن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کو کیسے الگ کیا جاسکتا، لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات ذاتی مخالفت کے شک سے خالی نہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکہ یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے، جن پر مخبری کا شک گزرے۔ ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروائی کرنا اتنی بڑی بے وقوفی ہے، جس کا امریکہ بار بار ارتکاب کرتا جا رہا ہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کرتا جا رہا ہے، جس کی فصل برسوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گی۔
امریکہ کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی، برطانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے۔ امریکہ کو روس دور کی پاکستان کی دوراندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکہ کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے تھے۔ اس بار امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیا، خود ترقیاتی فنڈ دیئے، سڑکیں بنا کر دیں، اور اس بہانے قبائلیوں میں جگہ بنا لی۔ مزاحمت کم کرنے کے لئے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اور اپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ جس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اور ان کی طاقت تقسیم ہوگئی۔ حکومت نے امن معاہدے کئے اور جانی و مالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے فضائی حملے شروع کردیئے اور یوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاؤ نے امن معاہدے ختم کروا دیئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ نے میزائل حملوں کو عملاً بچوں کا کھیل بنا دیا ہے، جب مرضی میزائل داغ ڈالے۔ امریکہ نے اب جس تواتر سے حملے شروع کردیئے ہیں اتنے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیں ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو اقتدار اعلیٰ جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ میں بکھرا ہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہئے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے۔ آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بہ دن کمزور ہو رہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے نہ فوج بلکہ امریکہ ہے۔
پاکستان نے امریکہ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟ پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکہ کی جانب بڑھتی گولیاں اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی، کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکہ کا ساتھ دیا۔ ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی، ایک لاکھ بیس ہزار فوجی امریکہ کے تحفظ کے لئے افغان سرحد پر لگا دیئے۔ امریکی حملوں میں اپنے سیکڑوں شہریوں کی مظلومانہ موت پر خاموشی اختیار کرلی، فوجی آپریشن کے دوران اپنے ہزاروں شہریوں کی اموات قبول کرلیں، قربانی سے لے کر بدنامی تک اس ساری محنت پر امریکہ اس وقت پانی پھیر دیتا ہے جب افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلاتا ہے، انہیں لاعلم رکھ کر امریکہ اب فضائی حملے کرتا ہے، تو یہ لاعلمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھاتے ہیں، جن کی چغلی قبائلیوں کے خون بہنے پر منتج ہوتی ہے۔ امریکہ فضا سے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے، جب تک ہدف کا تعین زمین سے نہیں ہوتا، سیٹلائٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اور تخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طرح ہیں۔ امریکہ اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیاں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کرتا ہے۔ ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکا ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکا ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمارا ملک ہے، جہاں ہر نیا بم پہلے دھماکے سے بھاری ہوتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکہ کو دھمکیاں دے اور اسرائیل پر تڑیاں جمائے۔ امریکہ ایران سے زیادہ دور بھی نہیں، عراق کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں اور اندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں، مگر مجال ہے کہ امریکہ ایران کا بال تک بیکا کرسکے۔ جب ایرانی صدر امریکہ کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاں کسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لئے ایران میں دراندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز یہ ہے کہ اس کی قوم ڈالروں کے لالچ میں مخبری جیسی غلاظت میں ہاتھ نہیں ڈبوتی، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتا ہے۔ اگر ہم امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، تو ان غداروں کو تو لگام دے سکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائلیوں کو بغل میں چھپے دشمن کا ادراک ہے۔امریکہ کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے، یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے۔ مان لیا، مگر یہ ٹیکنالوجی ہے کوئی دیو جن قسم کی کی مخلوق ہرگز نہیں۔ امریکہ کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں، نہ ان کی آواز ہے۔ امریکی حملے آواز یا سیٹلائٹ کی تصاویر کی مدد سے ہوتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے تو اسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں؟ اور کتنے کامیاب ہوئے۔
ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں کرسکتے اور ہم مخبری کے جال کو بھی پھلانگ نہیں سکتے تو امریکی صدارتی انتخاب ہونے تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام کم از کم حکومت اپنے ذمے لے، اگر ہم زندگی دیسکیں، یہ ہمارے بس میں نہیں رہا تو آخری مذہبی رسومات کا حق تو نہ چھنا جائے، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہ دے سکے وہ ان سے اپنے مطالبات بھی نہیں منوا سکتی۔ روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دوراندیشی کا مظاہرہ کیا تھا، آج اسی دوراندیشی کو امریکہ نے ہمارے اوپر الٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا، وہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی، اس بار امریکہ نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اور افغانستان اور قبائلی علاقوں میں براہ راست اپنے حامی پیدا کئے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکہ کے پاس ہے، وہی اسے طول دے سکتا ہے اور مختصر کر سکتا ہے۔ ہم ویسے تماشائی ہیں جیسے روس کے خلاف جنگ میں امریکہ تھاjanglink
 
Top