کہا اُس نے کہ آخر کِس لیے بیکار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اِتنے دُکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ اَز خُود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
اِنہیں مجبور جب کرتا ہے دل، ناچَار لکھتے ہیں
یہ سُن کر مُسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی:
تو اچھا آپ بھی اُس قِسم کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیا غم ہے جسے دُہرا رہے ہیں آپ برسوں سے
وہ کیا دُکھ ہے، مناتے ہیں جسے ہر بار لکھتے ہیں
مگر افسوس ہم سمجھا نہیں پائے اُسے کچھ بھی
کہ کیوں ہم بھی اُسی انداز کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیسی آگ ہے لفظوں میں، جس کو ڈھالتے ہیں ہم
وہ کیا غم ہے جو راتوں کو پسِ دیوار لکھتے ہیں
ہے ایسا کون جو سارے جہاں سے ہے ہمیں پیارا
وہ کیسا دُشمنِ جاں ہے ، جسے غم خوار لکھتے ہیں
اے عشق تُو گردِ سفر بنا ، تری اور بھلا توقیر ہے کیا
تو خود ہی حسرت کا مارا ،ترا خواب ہے کیا تعبیر ہے کیا
اے عشق تُو بکتا رہتا ہے ،کبھی راہوں میں کبھی بانہوں میں
تُو بوجھ ہے دل کی دنیا کا ، مرے واسطے تُو جاگیر ہے کیا؟
اے عشق مزار پہ رقص ترا ، اور کتبوں پر ہے عکس ترا
تُو بجھتے دیے کا دھواں ہے بس ، تُو کیا جانے تنویر ہے کیا
تجھے سنا تھا میں نے قصوں میں ، اِ س تن پر تو اب جھیلا ہے
مرا روپ رنگ تو زرد ہوا ، مجھے خبر نہیں تصویر ہے کیا
تُو میم سے عین بنا تھا کیوں؟اب چین سے بین بنا ہے کیوں؟
میں اب تک پوچھتی پھرتی ہوں، مرے پیروں میں زنجیر ہے کیا
ان اشکوں کا تو ذکر ہی کیا، تجھے عشق لہو سے بھی لکھا
کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو، تجھے علم تو ہو تحریر ہے کیا