ہمہ تن گوش اک زمانہ تھا
میرے لب پر تیرا فسانہ تھا
کاش دل ہی ذرا ٹھہر جاتا
گردشوں میں اگر زمانہ تھا
ہم تھے اور اعتمادِ فصل ِ بہار
شاخ شاخ اپنا آشیانہ تھا
وہ بہاریں بھی ہم پر گزری ہیں
جب قفس تھا نہ آشیانہ تھا
دل کی امید واریاں نہ گئی
اِس کرم کا کوئی ٹھکانہ تھا
صبح سے پہلے بجھ گیا تابش
ایک دل ہی چراغ خانہ تھ
میرے لب پر تیرا فسانہ تھا
کاش دل ہی ذرا ٹھہر جاتا
گردشوں میں اگر زمانہ تھا
ہم تھے اور اعتمادِ فصل ِ بہار
شاخ شاخ اپنا آشیانہ تھا
وہ بہاریں بھی ہم پر گزری ہیں
جب قفس تھا نہ آشیانہ تھا
دل کی امید واریاں نہ گئی
اِس کرم کا کوئی ٹھکانہ تھا
صبح سے پہلے بجھ گیا تابش
ایک دل ہی چراغ خانہ تھ