ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ توں کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پہ لہو سے پیرا ہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے دل جہاں جسم بھی جل گیا ہو گا
گریدتے ہو جو اب راخ جستجو کیا ہے
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پہ لہو سے پیرا ہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے دل جہاں جسم بھی جل گیا ہو گا
گریدتے ہو جو اب راخ جستجو کیا ہے
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے