گُریز شب سے ،سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے
تمہارے ہاتھ لگے ہیں ، جو اب کرو، سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے
ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے، تو کھلا
کچھ اور لوگ بھی اس میں قیام رکھتے تھے
وہ آ تو جاتا کبھی، ہم تو اس کے رستوں پر
دیئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
نہ جانے کون سے رُت میں چھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے
تمہارے ہاتھ لگے ہیں ، جو اب کرو، سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے
ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے، تو کھلا
کچھ اور لوگ بھی اس میں قیام رکھتے تھے
وہ آ تو جاتا کبھی، ہم تو اس کے رستوں پر
دیئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
نہ جانے کون سے رُت میں چھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے