جی محترمہ آپ نے بالکل درست فرمایا جہاں اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا صریح ، غیر متعارض اور محکم حکم ہوگا وہاں نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ ہی ایسے مقام پر مقلدین تقلید کے قائل ہیں
باقی الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
محترمہ آپ کے علم میں نہیں شاید کہ صحیح احادیث پاک میں بھی منسوخ احکامات موجود ہیں ۔۔۔ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کی ایک حدیث جو شروع اسلام میں حکم تھا بعد میں منسوخ ہوگیا تھا
حدیث نمبر : 292
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى وأخبرني أبو سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد الجهني أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان فقال أرأيت إذا جامع الرجل امرأته فلم يمن. قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره. قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم. فسألت عن ذلك علي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك. قال يحيى وأخبرني أبو سلمة أن عروة بن الزبير أخبره أن أبا أيوب أخبره أنه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية.(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتا ہے
تو محترمہ کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص منصفانہ طور پر ان نکات کو مد نظر رکھے تو یقینا اس کے بعد اُس کو(صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں پر) "مخالفت حدیث" کے سنگین الزام کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ انتہائی معمولی بات سمجھنے کی پوزیشن میں آئے گا کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے(صریح غیر متعارض اور محکم) حکم سے بغاوت کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ؟؟؟؟ وہ بات عام کروڑوں مسلمانوں کو تو چھوڑیں بلکہ دنیائے اسلام کی جید جید ہستیاں کیسے نہیں سمجھ سکتیں ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے۔جزاک اللہ