عمر فارق رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَمَتَّعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
[صحيح البخاري: 4/ 78]
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر راضی اللہ کے بیٹے کیا کہتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔
(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
ااب باتیں کہ جس طرح آپ کہتے ہیں کہ ہر صحابی کا قول حجت ہے
اور کسسی بھی صحابی کے پیچھے چلا جا سکتا ہے
حضرت عبدللہ بن عمر راضی اللہ
اپنے والد
حضرت عمر راضی اللہ کے پیچھے کیوں نہ چلے
صحابہ کرام نے بھی
جب کبھی صحیح حدیث مل گئی تو اس کی طرف رجوح کیا اور دوسرے صحابی کے قول کو رد کر دیا
لکن آپ لوگوں کی ہٹ دھرمی کہ صرف اپنے اماموں کو بچانے کی خاطر صحیح احادیث کو ٹھوکر مار رھے ہیں
[DOUBLEPOST=1349447852][/DOUBLEPOST]
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں انبیاءکے بعد سب سے افضل ہیں ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں مرنے والے کی نانی لگتی ہوں اس کی وراثت میں میرا کونسا حصہ ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے علم کے مطابق تمہارا کوئی حصہ نہیں ۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دلایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو کہا کہ تمہارا چھٹا حصہ ہے۔
(موطا اما م مالک رحمتہ اللہ علیہ )
کیوں حضرت ابو بکر صدیق راضی اللہ کی بات کو مغیرہ بن شعبہ راضی اللہ نے رد کیا
کیوں حضرت ابو بکر راضی اللہ کی تقلید نہ کی
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ آئے ‘ تین دفعہ دستک دی جواب نہیں ملا واپس چلے گئے۔دوبارہ ملاقات پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا تم واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے کہ تین دفعہ دستک دو جواب نہ ملے واپس چلے جاﺅ۔عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جاﺅ گواہی لے کر آﺅ ۔وہ مسجد نبوی میں گئے وہاں کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث سنی ہے تو ان میں سے ایک نے جا کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے گواہی دی ۔
(بخاری )
حضرت عمر راضی اللہ نے کیوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی کی تقلید نہ کی
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس عورت کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہاکہ درست ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور ان کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ عورت کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ وہ عورت سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے پھر جب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ واپس لوٹے تو اسی سائل کے گھر گئے اور اس کو بتلایا کہ اس عورت (ماں ) کو چھوڑ دے ۔
(موطا امام مالک کتاب النکاح)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے کیوں صحیح حدیث ملنے کے بعد اپنا فیصلہ بدلا
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر صحابہ کرام اپنے فیصلوں سے رجوح کر سکتے ہیں
تو ہم کیوں
اپنے فرقے کے اماموں کے فیصلوں سے رجوح نہیں کر سکتے
میرے بھایئو میں اب بھی یہی کہوں گا کہ اگر قرآن یا صحیح احادیث کے مقابلے میں کسسی بھی
بندے کی بات آ ے گی رد کر دی جا ے گی
وہ
بریلوی ھو
دیوبندی ھو
یا
اہلحدیث ھو