کیا صحیح بخاری مکمل کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


یہ تحریر یہاں سے لی گئی

لنک


http://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/


کیا صحیح بخاری مکمل کرنے کے بعد امام بخاری نے اس کو امام احمد پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی؟


یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اماموں کے غلو میں گھڑی ہیں

اس کی مثال ہے صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ


مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا


مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال أبي- في مرضه الذي مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.


ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو


دوسری دلیل ہے کہ امام بخاری نے ایک روایت صحیح میں نقل کی ہے کہ عمار کو باغی قتل کریں گے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ»


امام احمد بھی اسی طرق کو مسند میں نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَهُ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ [ص:368] لَهُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَاءَهُ فَجَاءَنَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، حَتَّى أَتَى عَلَى ذِكْرِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارُ بْنُ يَاسرٍ يَحْمِلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «يَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً كَمَا يَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟» ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: فَجَعَلَ
عَمَّارٌ يَقُولُ أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنَ الْفِتَنِ

لیکن ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد اس روایت پر کہتے تھے

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ


عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ طرقوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں

الخلال کہتے ہیں امام احمد کہتے اس پر بات تک نہ کرو

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَازِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ، أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . قَالَ: «لَا أَتَكَلَّمُ فِيهِ»


الخلال کے مطابق بغداد کے دیگر محدثین کہتے


أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے


امام احمد یہ بھی کہتے

قَالَ ابْنُ الْفَرَّاءِ: وَذَكَرَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي الْجُزْءِ الْأَوَّلِ مِنْ مُسْنَدِ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . فَقَالَ أَحْمَدُ: كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَتَلَتْهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَالَ: فِي هَذَا غَيْرُ حَدِيثٍ [ص:464] صَحِيحٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَرِهَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا “، فَهَذَا الْكِتَابُ يَرْوِيهِ أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَزَجِيُّ عَنِ ابْنِ حَمَّةَ الْخَلَّالِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ جَدِّهِ يَعْقُوبَ


اس سلسلے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور احمد اس پر کلام کرنے پر کراہت کرتے

بالفرض مان لیتے ہیں کہ امام احمد کے سامنے صحیح بخاری رکھی گئی تو ظاہر ہے انہوں نے اس میں سے قابل اعتراض مواد نکلالنے کا کہا ہو گا امام بخاری نے انکار کیا ہو گا اس پر اختلاف رائے ہوا اور سند تائید نہ مل سکی

اس قسم کے تمام اقوال فرضی ہیں سب سے بڑھ کر بات یہ ہے خود امام احمد سے کوئی روایت براہ راست نہیں لی گئی بلکہ علی المدینی اور امام احمد کا مکالمہ وغیرہ دکھا کر انکی تنقیص کی گئی ہے
باب الصلوٰۃ فی السطوح والمنبرا

(صحیح بخاری جلد او صفحہ۔ ۵۵۔۵۴)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: ” سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ “


علی بن عبداللہ (المدینی) سفیان ے اور وہ ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ سہیل بن سعد سے پوچھا گیا کہ منبر (نبوی) کس چیز کا تھا انہوں نے فرمایا اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب) کوئی باقی نہیں۔ وہ مقام (غابہ) کے جھاؤ کا تھا۔ فلاں عورت کے فلاں غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور لوگ آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپﷺ نے قرأت کی اوررکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکوع کیا پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ امام بخاری کہتے ہیں (حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی) علی بن عبداللہ (المدینی) نے کہا کہ احمد بن حنبل نے مجھ سے یہ حدیث پوچھی تو میں نے کہا کہ میرا مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ لوگوں سے اوپر تھے تو یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر امام لوگوں سے اوپر ہو۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ (میرے اور تمہارے استاد) سفیان بن عیبنہ سے تو اکثریہ حدیث پوچھی جاتی تھی کہ کیا تم نے ان سے اس حدیث کو نہیں سنا احمد بن حنبل نے کہا نہیں۔


امام بخاری نے یہ بات لاکر ثابت کیا ہے کہ احمد بن حنبل ایسے شاگرد تھے کہ ان کے استادایک حدیث بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسے نہ سُن پاتے تھے۔ امام احمد نے جب یہ متن اپنے حوالے سے پڑھا ہو گآ تو کیا انہوں نے اس کو پسند کیا ہو گا ؟ ظاہر ہے امام احمد پر صحیح بخاری پیش کیا جانا محض افسانہ ہے

دوسری جگہ امام بخاری باب شھرا عید لاینقصان میں امام احمد بن حنبل کا خاص ذکر کیا حالانکہ یہاں بھی ان کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی مگر محض انکی کی علمیت کو دکھایا گیا

ترجمہ: عید کے دونوں مہینے ناقص نہیں ہوتے۔

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو مہینے ایسے ہیں کہ کم نہیں ہوتے یعنی عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ۔


امام بخاری فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں یعنی اگر رمضان کم دنوں کا (یعنی ۲۹ کا ہو تو ذی الحجہ پورا (تیس دنوں کا) ہوگا اور اگر ذی الحجہ کم دنوں کا (یعنی ۲۹ دنوں کا) تو رمضان پورا (یعنی ۳۰ دنوں کا) ہوگا۔

یہاں امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیکھو امام احمد بن حنبل اس حدیث کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ رمضان اگر ۲۹ کا ہوگا تو ذی الحجہ ضرور تیس ہوگا۔ دونوں مہینے ۲۹ کے نہیں ہوتے حالانکہ بے حساب سال ایسے گزرے ہیں کہ جن میں دونوں مہینے ۲۹ کے ہوئے ہیں اسی لیے امام بخاری آگے (اپنے استاد) اسحاق بن راہویہ کی بات لے آئے کہ ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہینے چاہے ۲۹ کے ہوں یا تیس کے ان کی فضلیت میں کمی نہیں آتی۔

یہ متن اب جو صحیح بخاری چھپ رہی ہے اس سے نکال دیا گیا لیکن یہ انڈیا سے چھپنے والی صحیح بخاری میں ہے اور جامع ترمذی میں ابھی تک ہے

قَالَ أَحْمَدُ: ” مَعْنَى هَذَا الحَدِيثِ: شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَذُو الحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الآخَرُ “، وقَالَ إِسْحَاقُ: ” مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ “،” وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ


اسی طرح فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے

ثُمَّ وَجَدْتُ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ مَا نَصُّهُ عَقِبَ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِسْحَاقُ تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا تَامٌّ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِنْ نَقَصَ رَمَضَانُ تَمَّ ذُو الْحِجَّةِ وَإِنَّ نَقَصَ ذُو الْحِجَّةِ تَمَّ رَمَضَانُ وَقَالَ إِسْحَاقُ مَعْنَاهُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرَ نُقْصَانٍ قَالَ وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَجُوزُ أَنْ يَنْقُصَا مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ


پھر میں نے الصَّغَانِيِّ کے نسخے میں اس حدیث کے بعد یہ پایا کہ امام بخاری نے کہا کہ اسحاق نے کہا ٢٩ ہوں تو(بھی) پورا (ماہ) ہے اور احمد بن حنبل نے کہا اگر رمضان کم ہو تو ذو الحجہ مکمل ہو گا اور اگر ذو الحجہ کم ہو تو رمضان مکمل ہوگا


یعنی الصَّغَانِيِّ کے مطابق امام بخاری نے یہ بھی صحیح میں لکھا تھا لیکن جب لوگوں نے اس کو پڑھا تو اس کو امام احمد کی وجہ سے حذف کر دیا

ابن حجر سے بھی پہلے کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري میںأحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ اسی متن کا صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں

وقال أحمد: إن نقص رمضان تم ذو الحجة، وإن نقص ذو الحجة تم رمضان
(وقال أبو الحسن: الظاهر أنه محمد بن مقاتل شيخ البخاري) (كان إسحاق بن راهويه يقول: لا ينقصان في الفضيلة).


القسطلانی ٩٢٣ ھ کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ امام بخاری نے امام احمد کا قول نقل کیا

(قال أبو عبد الله) البخاري (إسحاق): هو ابن راهويه أو ابن سويد بن هبيرة العدوي (وإن كان) كل واحد من شهري العيد (ناقصًا) في العدد والحساب (فهو تام). في الأجر والثواب. (وقال محمد) هو ابن سيرين أو المؤلّف نفسه (لا يجتمعان كلاهما ناقص) كلاهما مبتدأ وناقص خبره والجملة حال من ضمير الاثنين. قال أحمد بن حنبل: إن نقص رمضان تم ذو الحجة وإن نقص ذو الحجة تم رمضان


اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صحیح بخاری امام احمد پر پیش کی گئی محض افسانہ ہے

امام احمد کے اقوال اور جرح و تعدیل میں ان کی رائے کا اپنا مقام ہے لیکن یہ کہنا کہ امام بخاری یا امام احمد میں اختلاف رائے نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنا ہے


 
Top