کچھ بعید نہیں

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan

کچھ بعید نہیں
افسانہ

میں ایک دفتر میں ملازم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دلال‘ جنہیں شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘ چائے پانی پلاتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔ ناگہانی حالات میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ سن لیتے ہیں۔ مقامی افسر بھی‘ ان سے ناواقف نہیں ہیں۔ آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی بالا افسر کے آنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔ حالاں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چلا آتا ہے۔ کہیں کھلا اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ بالا دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے دلالوں کے مزاج‘ رویے اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔

دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے قد کے شخص سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا ملازم نہیں تھا‘ کیوں کہ میں مقامی دفتر کے ہر ملازم سے واقف ہوں۔ وہ یقینا کسی دفتر کا مستند دلا تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے ادب سے سلام کرتا۔ میں بھی خوش خلقی سے سلام کا جواب دیتا۔ یہ دلا حضرات بڑے عجیب واقع ہوئے ہیں۔ چغلی اور مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے‘ میر جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے ہیں۔

یہ اس قماش کا دلا نہ تھا۔ باادب سلام بھی حفظ ما تقدم کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی وقت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا تھا۔ اس قسم کے باادب سلام‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی میں بڑا سخت اور کورا واقع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سلام دعا کے حوالہ سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔

ایک دن ملا‘ بڑے رومنٹک اور ملاپڑے سے موڈ میں تھا۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔ سلام دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔
ہنس پڑا اور کہنے لگا: سرکار میں جانتا ہوں۔
تو کہو‘ کیا کام ہے۔
سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔
میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔
میں نے ہنس کر پوچھا: ایسی ویسی تو نہیں۔
ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔
بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا:
نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔
پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ وقتے اور مونچھ چٹ تھے۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو پھر کہنا۔
جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں دلالوں کی ہر اصطلاح سے آگاہ ہوں۔ یہ اصطلاح‘ میرے لیے قطعی الگ سے تھی۔ دوسرا گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے قطعی نئی تھی۔ میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔
مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا: تمہاری کوئی جوان بہن بھی ہے۔
کہنے لگا: جی ہاں
تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔ ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘ چلے گا۔
اس نے بڑے قہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔
میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔
 
Top