کلفت جاں سے دور دور '' ثمینہ راجہ

  • Work-from-home

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0

غزل

کلفت جاں سے دور دور، رنج و ملال سے جدا
ہم نے تجھے رکھا، ہر ایک صورت حال سے جدا

آج نگاہ اور تھی، اور نگاہ سرد میں
ایک جواب اور تھا، میرے سوال سے جدا

شام اداس،پھول زرد،شمع خموش، دل حزیں
کوئی رہا تھا تھوڑی دیر بزم جمال سے جدا

ہم میں بھی کوئی رنگ ہو ذوق نظر کے ساتھ ساتھ
تم میں بھی کوئی بات ہو، شوق وصال سے جدا

تم کو نہ کچھ خبر ہوئی، آمد و رفت ہجر کی
خانہء عشق میں رہے، ایسے کمال سے جدا

کیسی عجب ہوا چلی،ایک ہوئے ہیں باغ و دشت
گل سے خفا ہے بوئے گل، رم ہے غزال سے جدا

دھند میں اور دھوپ میں،نیند میں اور خواب میں
ہم تھے مثیل سے الگ ، ہم تھے مثال سے جدا

٭٭٭٭
 
  • Like
Reactions: nrbhayo

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0
Samina raja

عمر کے بعد اس طرح دید بھی ہو گی بات بھی
تو بھی قریب جاں ہے آج بھیگ رہی ہے رات بھی

دل میں ہے اک محل سرا اس میں لگا ہے آئینہ
عکس ہے اس میں غیر کا عکس میں اپنی ذات بھی

خواب میں تیری دید سے اس طرح روشنی ہوئ
نور سے بھر گیا تمام حجلہء کائنات بھی

ایک خیال کے طفیل ایک وصال کے سبب
روز تو روز عید تھا شب تھی شب برات بھی

سارے جہاں کے سامنے ایسے رہے ہیں سربلند
دل میں تھا ایک رنج بھی ہاتھ میں ایک ہاتھ بھی

٭٭٭
 
Top