لمحے جدائیوں کے ستانے لگے مجھے
رہ رہ کے اب تو یاد وہ آنے لگے مجھے
تعبیر اس کی ایک گھڑی بھی نہیں رہی
جو خواب دیکھنے میں زمانے لگے مجھے
جن میں کھلے تھے پھول محبت کے، چاہ کے
موسم وہ زندگی کے سہانے لگے مجھے
تعلیم جن کو سجنے سنورنے کی میں نے دی
کیوں آئنہ وہ لوگ دکھانے لگے مجھے
جب راستے میں وقت نے کانٹے بچھا دئیے
پھر میرے دوست آگے بڑھانے لگے مجھے
ان کو جلا رہا تھا بجھے دل کے ساتھ میں
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے
احوالِ زیست ان سے تھا پوچھا مگر فصیح
وہ میری داستان سنانے لگے مجھے
شاہین فصیح ربانی
رہ رہ کے اب تو یاد وہ آنے لگے مجھے
تعبیر اس کی ایک گھڑی بھی نہیں رہی
جو خواب دیکھنے میں زمانے لگے مجھے
جن میں کھلے تھے پھول محبت کے، چاہ کے
موسم وہ زندگی کے سہانے لگے مجھے
تعلیم جن کو سجنے سنورنے کی میں نے دی
کیوں آئنہ وہ لوگ دکھانے لگے مجھے
جب راستے میں وقت نے کانٹے بچھا دئیے
پھر میرے دوست آگے بڑھانے لگے مجھے
ان کو جلا رہا تھا بجھے دل کے ساتھ میں
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے
احوالِ زیست ان سے تھا پوچھا مگر فصیح
وہ میری داستان سنانے لگے مجھے
شاہین فصیح ربانی