موت کے بعد جو بول اٹھا
کتب رجال و اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک صحابی کے لئے اتا ہے
من تکلم بعد الموت
موت کے بعد جو بول اٹھا
یہ زید بن خارجہ رضی الله عنہ ہیں جو بدری صحابی ہیں اور عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی
تہذیب الکمال از المزی کے مطابق
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقُرَشِيُّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ الْفَاخِر الْقُرَشِيّ فِي جماعة، قَالُوا: أَخْبَرَتْنا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبد اللَّهِ، قَالَتْ: أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبد اللَّهِ الضَّبِّيُّ، قال: أخبرنا سُلَيْمان بْن أَحْمَد (2) ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى بْن مُحَمَّد السمسار الواسطي، قال: حَدَّثَنَا عبد الحميد بْن بيان، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الأزرق، عَنْ شَرِيك، عَنْ إِبْرَاهِيم بْن مهاجر، عَنْ حَبِيب بْن سالم، عن النعمان بْن بشير، قال: لما توفي زَيْد بْن خَارِجَة انتظر بِهِ خروج عُثْمَان، فقلت (3) : أصلي ركعتين، فكشف الثوب عَنْ وجهه، فَقَالَ: السلام عليكم، السلام عليكم. قال: وأهل البيت يتكلمون، فقلت وأنا فِي الصلاة: سبحان الله، سبحان الله! فَقَالَ: انصتوا، انصتوا، مُحَمَّد رَسُول اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق أَبُو بَكْر الصديق، ضعيف فِي جسده قوي فِي أمر اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُمَر بْن الخطاب، قوي فِي جسده، قوي فِي أمر الله، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُثْمَان بْن عَفَّان، مضت اثنتان وبقي أربع، وأبيحت الأحماء بئر أريس وما بئر أريس، السلام عليك عَبد اللَّهِ بْن رواحة، هل أحسست لي (1) خَارِجَة وسعدا؟ قال شَرِيك: هما أبوه وأخوه. وقد رويت هذه القصة من وجوه كثيرة، عَنِ النعمان بْن بشير وغيره.
حبیب بن سالم روایت کرتا ہے النعمان بْن بشير رضی الله عنہ سے کہ جب زید بن خارجہ کی وفات ہوئی ہم عثمان کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے- پس ان سے کہا : دو رکعت پڑھ لیں پس زید کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا کہا السلام علیکم السلام علیکم کہا : اور گھر والے بات کرنے لگ گئے اور میں نماز میں تھامیں نے کہا سبحان الله سبحان الله (یعنی گھر والوں کو روکنے کی کوشش کی اور نماز میں سبحان الله پکارآ ک وہ چپ رہیں اسی اثنا میں) زید بن خارجہ نے کہا (یعنی میت بولی)چپ رہو چپ رہو، محمد رسول الله ہیں ایسا کتاب اول میں تھا- سچ سچ سچا ہے ابو بکر الصدیق، جسم میں کمزور ہے قوی الله کے کام میں ایسا ہی کتاب اول میں تھا، سچا سچ سچا عمر بن الخطاب ہے جسم میں قوی ہے اور الله کے کام میں بھی ایسا ہی کتاب اول میں تھا – سچا سچا سچا عثمان ہے دو سال گزرے اور چار باقی ہیں – گرم ہوا بئر أريس (کا پانی) اور کیا ہے بئر أريس؟، السلام ہو آپ پر عبد الله بن رواحة، کیا آپ نے میرے لئے محسوس کیا اور سعد کے لئے ؟ شریک نے کہا یہ دونوں باپ بیٹا تھے اور اس قصے کو روایت کیا ہے کئی طرح النعمان بْن بشير اور دیگر سے
اس واقعہ کو بیان کرنے والآ حبیب بن سالم ہے جو مختلف فیہ ہے- امام بخاری نے اس سے صحیح میں روایت نہیں لی ہے-
ابن مندہ نے کتاب میں روایت نقل کی ہے
أخبرنا خيثمة بن سليمان، ومحمد بن يعقوب بن يوسف، قالا: حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد، قال: أخبرني أبي، قال: حدثني ابن جابر، ح: وحدثنا عبد الرحمن بن يحيى، قال: حدثنا أبو مسعود، قال: حدثنا هشام بن إسماعيل، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، عن ابن جابر، قال: سمعت عمير بن هاني، يحدث عن النعمان بن بشير، قال: توفي رجل منا يقال له خارجة بن زيد، فسجينا عليه ثوبًا وقمت أصلي، فسمعت ضوضأة، فانصرفت فإذا به يتحرك، وظننت أن حية دخلت بينه وبين الثياب، فلما وقفت عليه قال: أجلد القوم وأوسطهم عبد الله عمر أمير المؤمنين، الذي لا تأخذه في الله لومة لائم كان في الكتاب الأول صدق صدق عبد الله بن أبو بكر أمير المؤمنين، الضعيف في جسمه القوي في أمر الله، وفي الكتاب الأول صدق صدق عبد الله عثمان أمير المؤمنين الضعيف العفيف المتعفف، الذي يعفو عن ذنوب كثيرة، خلت ليلتان وبقيت أربع، اختلف الناس ولا نظام، وأييحت الأحماء، أيها الناس، اقبلوا على إمامكم واسمعوا له وأطيعوا، فمن تولى فلا يعهدن دمًا، كان أمر الله قدرًا مقدورًا ثلاثًا، هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، سلام عليك يا رسول الله، هذا عبد الله بن رواحة ما فعل خارجة بن زيد، ثم رفع صوته، فقال: يقول: {كَلَّا إِنَّهَا لَظَى} [المعارج: 15] أخذت بئر أريس ظلمًا، ثم خفت الصوت فرفعت الثوب، فإذا هو على حاله ميت.
عمير بن هاني کہتا ہے اس نے نعمان بن بشیر سے سنا: ہم میں سے ایک شخص جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا کی وفات ہوئی- پس اس پر کپڑا ڈالا اور نماز پڑھی پس خارجہ بن زید میں ایک گرگڑآہت سنی پس ہم اس میت تک ایے کیونکہ وہ ہلی – اور گمان کیا کہ سانپ کپڑے اور خارجہ بن زید کے درمیان داخل ہو گیا ہے – پس جب ان پر رکے خارجہ نے کہا کوڑے مارنے والی قوم اور ان کا درمیان الله کا بندہ عمر امیر المومنین جس نے الله کے لئے کوئی لومة لائم نہیں رکھا یہ کتاب اول میں ہے اور سچا سچا الله کا بندہ ابو بکر امیر المومنین ہے جسم میں ضعیف ہے الله کے امر میں قوی ہے اور کتاب اول میں ہے سچا سچا الله کا بندہ عثمان امیر المومنین ہے کمزور و نا توا و نرم ہے جو اکثر گناہوں کو معاف کرتا ہے دو راتیں باقی ہیں چار گزری ہیں – قبول کرو اپنے اماموں کو انکی سمع و اطاعت کرو پس جس نے منہ موڑا اس کے خون کا عہد نہیں ہے – لوگوں کا اختلاف ہوا کوئی نظام نا رہا اور الله اپنے کام کو کروانے والا ہے تین دفعہ، یہ رسول الله ہیں صلی الله علیہ وسلم ، سلام ہو آپ پر یا رسول الله یہ عبد الله بن رواحة ہیں ، خارجہ بن زید نے جو کیا پھر آواز اٹھ گئی پس کہا ہرگز نہیں یہ (اگ) تو چاٹ جائے گی – ظلم سے اریس کا کنواں لیا گیا پھر آواز مدھم ہوئی اور کپڑا اٹھا تو وہ تو حال میت تھے
اس روایت کے مطابق میت پر کپڑا ہی تھا کہ اندر سے یہ ہولناک آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور برزخ کی خبریں جاری تھیں – میت ابھی دفن بھی نہیں تھی
طبرانی الکبیر کی روایت کے مطابق ایسا واقعہ خارجہ بن زید کے ساتھ بھی ہوا جو زید کے بیٹے تھے یا روایت میں راویوں نے غلطی سے باپ بیٹا کا نام ڈال دیا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِي، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَّا يُقَالُ لَهُ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ فَسَجَّيْنَاهُ بِثَوْبٍ، وَقُمْتُ أُصَلِّي إِذْ سَمِعْتُ ضَوْضَاءَةً وَانْصَرَفْتُ، فَإِذَا أَنَا بِهِ يَتَحَرَّكُ، فَقَالَ: ” أَجَلْدُ الْقَوْمِ أَوْسَطُهُمْ عَبْدُ اللهِ، عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْقَوِيُّ فِي جِسْمِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْعَفِيفُ الْمُتَعَفِّفُ الَّذِي يَعْفُو عَنْ ذُنُوبِ كَثِيرَةٍ حَلَّتْ لَيْلَتَانِ، وَبَقِيَتْ أَرْبَعٌ، وَاخْتَلَفَ النَّاسُ وَلَا نِظَامَ لَهُمْ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَقْبِلُوا عَلَى إِمَامِكُمْ وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ رَوَاحَةَ، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَ زَيْدُ بْنُ خَارِجَةَ – يَعْنِي أَبَاهُ -، ثُمَّ قَالَ: أَخَذْتُ سَرَارِيسَ ظُلْمًا ثُمَّ خَفُتَ الصَّوْتُ
ولید بن مسلم ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں وہ عُمَيْرِ بْنِ هَانِی سے وہ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ سے بولے: ہم میں سے ایک شخص مرا جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا اس کو ہم نے کپڑے سے ڈھانک دیا، اور نماز جنازہ پڑھی پس میں نے شور سنا اور گیا پس جب ان پر آیا تو وہ ہلے اور بولے : کوڑا مارنے والی قوم کے درمیان الله کا بندہ عمر امیر المومنین ہیں جسم میں قوی ہیں اور الله کے کام میں، عثمان امیر المومنین ہیں کمزور و نا توآ ہیں جو اکثر گناہوں کو معاف کرتے ہیں دو راتیں گزرین چار باقی ہیں اور لوگوں کا اختلاف ہوا اور کوئی نظام باقی نہ رہا اے لوگوں اپنے اماموں کو قبول کرو اور ان کی سمع و اطاعت کرو- یہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں اور ابن رَوَاحَةَ- پھر کہا زید بن خارجہ نے کیا کیا یعنی ان کے باپ نے پھر کہا ارِيسَ کا راز ظلم سے لیا گیا پھر آواز مدھم ہو گئی
اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس التسویہ کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد کو ہڑپ کرتے ہیں جب حدثنا بولیں توبھی شک کیا جاتا ہے – سند میں جان بوجھ کر انہوں نے عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر کہا ہے جبکہ امام بخاری اور ابن ابی حاتم کے مطابق یہاں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے
اس قسم کی مبہم روایات کو محدثین نے بلا تنقید نقل بھی کیا- قصہ گھڑنے والوں نے نام میں بھی مخلط ملط کر دیا ہے اس پر ابن حجر کو اسد الغابہ میں کہنا پڑا
قلت: قال أَبُو نعيم أول الترجمة: إنه الذي تكلم بعد الموت، وقال: أراه الأول، وهذا من غريب القول، بينا نجعل الأول قتل بأحد، ونجعل هذا توفي في خلافة عثمان رضي اللَّه عنه، وأنه الذي تكلم بعد الموت، ثم يقول: أراه الأول، فكيف يكون الأول وذلك قتل بأحد، وهذا توفي في خلافة عثمان، كذا قال أَبُو نعيم في هذه الترجمة. وأما ابن منده فذكر الأول وأنه شهد بدرًا، وذكر فيه الاختلاف أَنَّهُ الذي تكلم بعد الموت، ولم يذكر أَنَّهُ قتل بأحد، فلم يتناقض قوله. وأما أَبُو عمر فذكر الأول، وجعل ابنه زيدًا هو الذي تكلم بعد الموت، فلو صح أن المتكلم خارجة بْن زيد لكان غير الأول، لا شبهة فيه، لأن الأول قتل بأحد، والمتكلم توفي في خلافة عثمان فيكون غيره. والصحيح أن المتكلم زيد بْن خارجة. والله أعلم
میں ابن حجر کہتا ہوں : ابو نعیم نے ترجمہ کے شروع میں کہا کہ بے شک یہ وہ ہیں جنہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – اور کہا میں دیکھتا ہوں شروع میں اور یہ قول عجیب ہے اول سے مراد ہے ان کا قتل احد میں ہوا اور پھر کر دیا ان کی وفات عثمان مئی دور میں ہوئی اور انہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – پھر کہا میں دیکھتا ہوں دور اول میں پس کیسے ممکن ہے کہ یہ دور اول میں ہوئی اور احد میں قتل ہوں اور یہاں ہے دور عثمان میں ایسا ابو نعیم نے اس ترجمہ میں کہا ہے اور جہاں تک ابن مندہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کا ذکر اول دور میں کیا جنہوں نے جنگ بدر دیکھی اور اختلاف کا ذکر کیا کہ انہوں نے موت کے بعد کلام کیا اور یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کا قتل احد میں ہوا پس وہاں تناقص نہیں ہے اور جہاں تک ابو عمر کا تعلق ہے تو اس نے ذکر کیا دور اول میں اور ان کے بیٹے زید کے لئے کہا کہ اس نے مرنے کے بعد کلام کیا ہے پس اگر یہ صحیح ہے کہ بولنے والا خارجہ بن زید تھا تو وہ شروع میں نہیں ہو سکتا اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہ احد میں قتل ہوئے اور وہ جس نے کلام کیا وہ عثمان کے دور میں ہوا جو زید بن خارجہ تھے الله کو پتا ہے