مسنون اذکار

  • Work-from-home

zehar

VIP
Apr 29, 2012
26,600
16,301
1,313

مسنون اذکار ::: حصن المسلم من أذكار الكتاب والسنة
آج جس پر فتن دور اور اقتصادی و معاشی بحران کے پرکٹھن مراحل سے ہم دو چار ہیں جس میں کتاب و سنت سے براہ راست راہنمائی کی ضرورت ہے لیکن ہم نے کتاب و سنت کو پسِ پشت ڈال کر صوفیا کے ملفوظات ، فیوض و برکات ، کشف و کرامات اور ان کے اوراد و وظائف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ اور اس طرح محدثین کرام اور سلف صالحین کی دعوت توحید و سنت اور صوفیائے کرام اور ان کے متبعین کے معمولات کے مابین ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت دو طبقوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ایک طبقہ جس کی راہ کتاب و سنت کی تعلیم شرک و بدعت کی بیخ کنی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا علم بلند کرنا تھا ۔

دوسرا طبقہ جس نے خانقاہی نظام درویشی ، ترک دنیا اور عملی طور پر جہاد کرنے کی بجائے صرف اوراد و وظائف تک اپنے آپ کو محدود کر لیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایک بڑا طبقہ مساجد اور مدارس کی دعوتی سرگرمیوں سے ہٹ کر صالحین کی قبروں ان کے عرسوں اور آثار و تبرکات ، سماع و رقص سے وابستہ ہوگیا ۔ صالحین کی قبروں پر جو جھرمٹ نظر آ رہا ہے اور منکرات و فواحشات اور شرک و بدعات کا جو سیل عظیم رواں دواں ہے وہ سب اسی شخصیت پرستی اور خانقاہی نظام کی پیداوار ہے ۔ ستم کی حد یہ ہے کہ عامۃ الناس انہی خرافات و فرسودات ، شرک و بدعات کو اصل دین سمجھے ہوئے ہیں ۔ اور جو لوگ درحقیقت توحید و سنت کے علمبردار ہیں ان کو دشمن رسول سمجھتے ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے یہی ہماری ناکامی کا سبب ہے ۔

بقول شاعر
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقیر خانقاہی سے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
اور یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

وظائف و اوراد کو ضرور اپنائیے مگر مسنون طرز عمل کے ساتھ ۔ ذکر الٰہی سے ہی انسان خود کو شیطان لعین سے بچا سکتا ہے ۔ من گھڑت اور شرک و بدعات پر مبنی وظائف سے کلی طور پر اجتناب کیجئے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے دل دو چیزوں غفلت اور گناہ سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔ استغفار اور ذکر الٰہی ۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ” ہر چیز کو چمکانے کیلئے کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے لیکن دلوں کو ذکر الٰہی سے ہی چمکایا جا سکتا ہے ۔ “

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ مقولہ ہے کہ ذکر مومن کی جنت ہے جنتی محض دنیا کی جنت میں داخل نہیں ہو گا بلکہ اخروی جنت میں بھی داخل ہو گا ۔ ایام اسیری اور قید و بند کے دنوں میں فرمایا کرتے تھے کہ دشمن میرا کیا بگاڑیں گے ؟ میری جنت تو میرے سینے میں ہے جہاں جاؤ ں ساتھ ہے ۔ قید و بند میری خلوت ہے قتل میرے لیے شہادت ہے اور جلاوطنی میری سیاحت ہے ۔ ایام اسیری میں سجدہ کے اندر کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔
(( اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک ))
” الٰہی اپنے ذکر و شکر اور حسن عبادت پر میری مدد فرما ۔ “

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ مجھ سے کہنے لگے محبوس وہ نہیں جسے قید کر دیا جائے ۔ بلکہ محبوس وہ ہے جس کا دل اپنے رب سے رک جائے ۔ اسیر وہ نہیں جو گرفتار ہو جائے بلکہ اسیر وہ ہے جو خواہشات کا اسیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کی طرف سفر کرتے ہوئے جمدان پہاڑ سے گزرتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔
” مغردون سبقت لے گئے آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول مغردون کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ۔ “ ( صحیح مسلم )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ذکر الٰہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔

ایک روایت صحیحین میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں ۔

میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ۔ میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔

ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قیل یا رسول اللہ وما ریاض الجنۃ قال حلق الذکر ))
” جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر الٰہی کے حلقے ۔
ذاکروں میں وہ ذکر افضل ہے جو صرف تسبیح پر ہی نہ رہے بلکہ مجاہد افضل ہے جو مجاہد ہی نہ بنا پھرے بلکہ ذکر الٰہی کا خاص خیال رکھے ۔

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے :
(( یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنوا اِذَا لَقِیتُم فِئَۃً فَاثبُتُوا وَاذکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ )) ( الانفال : 53 )
” اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔ “

ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے :
(( وَاذکُرنَ مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالحِکمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا )) ( الاحزاب : 34 )
” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے ۔ “

مزید ارشاد فرمایا :
(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا )) ( الاحزاب : 35 )
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ “

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” انسان پر جو گھڑی خالی گزری وہی قیامت کو حسرت کا موجب ہوگی ۔ “

امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مرفوعا حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : ہر شئے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچانے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا خواہ تلاور مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردونواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟ ( مسند امام احمد )

ذکر الٰہی سے اللہ جل شانہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے اے محمد میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے اور بے نمکین ہے ۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان اور اس کے پودے ہیں ۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر ( ترمذی )

ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص روزانہ سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر “ پڑھے اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا الا یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔ اور جو شخص دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی مثال ہے ۔

ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ، قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
(( وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنسٰہُم اَنفُسَہُم اُولیکَ ھُمُ الفٰسِقُونَ )) ( حشر :19 )
” اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ ( کے احکام ) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان ( فاسق ) ہوتے ہیں ۔ “

جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
(( وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہ مَعِیشَۃً ضَنکًا وَّنَحشُرُہ یَومَ القِیٰمَۃِ اَعمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی اَعمٰی وَقَد کُنتُ بَصِیرًا oقَالَ کَذٰلِکَ اَتَتکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَہَا وَکَذٰلِکَ الیَومَ تُنسٰی )) ( طٰہ : 124-126 )
” اور ( ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا تھا ۔ ( جو اب ملے گا کہ ) اسی طرح ہونا چاہئیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے ۔ “

اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں ۔ اس تنگ زندگی کی عذاب برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ دینوی معیشت کو بھی شامل ہے اور برزخی حالت کو بھی ۔ کیونکہ برزخی حالت میں انسان دنیا و برزخ دونوں جہان کی تکلیف برداشت کرتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب میں ڈال کر فراموش کیا جائے گا ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے تھے ۔ ( بخاری کتاب الاذان ، مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللہ فی حال الجنابۃ ص162 ج1 )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کیلئے کوئی مقرر نہیں ذکر کرنے والا جب جس وقت اور جس حالت میں چاہے اللہ کا ذکر کر سکتا ہے ۔

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ( آسان سی ) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئیے ۔ ( ابن ماجہ کتاب الادب باب افضل الذکر ص277 مسند احمد ص188 ج4 )

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔ ( ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الحامدین ص 278 ، مستدرک ص 498 ج 1 )

کلمہ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔ بعض حضرات کلمہ افضل الذکر لا الہ الا اللہ میں محمد رسول اللہ کا اضافہ بھی کرتے ہیں جو کسی حدیث سے ثابت نہیں ، نہ ہی مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر ) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ ( مسلم کتاب الذکر والدعاء )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجلس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔ ( مسند احمد ص 246 ج 2 )

حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد اپنی کتاب ذکر الٰہی میں تحریر فرمائے ہیں جنہیں انتہائی اختصار کے ساتھ قارئین کرام کی نظر کیا جاتا ہے ۔ ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب خداوندی اور معیشت الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکر راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجلسیں ہیں ، اہل ذکر سے اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی پر ہمیشگی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( قول ابودرداء رضی اللہ عنہ )

تمام اعمال ذکر الٰہی کو دوام اور ہمیشہ باقی رکھنے کیلئے ہیں ، مقابلہ اعمال میں ذکر الٰہی کرنے والے جیت جائیں گے ۔ ذکر انسان اور جہنم کے درمیان دیوار بن جاتا ہے ، فرشتے ذاکر کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جیسا کہ تائب کیلئے دعاءمغفرت فرماتے ہیں ۔ کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے نفاق سے نجات نصیب ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی کی لذت تمام لذات سے بہتر لذت ہے ، کثرت ذکر سے گواہوں کی کثرت ہوتی ہے ۔ ذکر الٰہی سے شیطانوں میں گھرے ہوئے آدمی کو نجات مل جاتی ہے ۔

ذکر الٰہی سے بے حد قوت حاصل ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی کی مشقت اور دیگر معمولات کی زیادتی و تکالیف کی شکایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادم طلب فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو خادم دینے کی بجائے رات کو سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔ اور فرمایا خادم کی بجائے یہ کلمے تمہارے لیے بہتر ہیں ۔

اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض جملہ عروسی میں جانے کی دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر بے رہبر و نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
(( والذاکرین اللہ کثیرا والذاکرات اعد لھم مغفرۃ واجرا عظیما ))
” کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں اور یاد کرنے والیوں کیلئے رب کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔ “
اس لئے فارغ اوقات میں ہمیں اللہ سے لو لگانی چاہئیے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :
(( فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب )) ( الشرح ، 7,8 )
” پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔ “
اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
 

shehr-e-tanhayi

Super Magic Jori
Administrator
Jul 20, 2015
39,699
11,682
1,313
Jazak Allah

Beshak Zikar E Ilaahi Se BaRh K Kuch Nahi Jo HumeiN Rab K Qareeb Le Jaaey.

Khush Rahiay Hamesha
 
Top